فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341194
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341194 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حضرت علی علیہ السلام کا اس حملہ سے باخبر ہونا

ربذہ کی سرزمین حادثات و واقعات کی آماجگاہ ہے، امام ـ کو اس علاقہ کے متعلق کافی معلومات تھی خصوصاً اس دن سے جب ربذہ پیغمبر اسلام کے اہم صحابیوں خصوصاً پیغمبر کے عظیم صحابی جناب ابوذر کو جلا وطن کر کے

وہاںبھیجا گیا جن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ تبعیض اور اسراف وغیرہ کے خلاف بولتے تھے کئی سال بعد خداوند عالم نے مولائے کائنات کو یہ موقع فراہم کیاکہ عہد و پیمان توڑ نے والوں کواس سرزمین پر گرفتار کریں۔

امام ـ اس سرزمین پر موجود تھے کہ عہد و پیمان توڑ نے والوں کے خونی حملہ کی خبر ملی اور یہ بھی پتہ چلا کہ طلحہ و زبیر بصرہ شہر میں داخل ہوگئے ہیں اور مسجد، دار الامارہ اور قیدخانہ کے محافظوں کو قتل کردیا ہے اور سیکڑوں افراد کو قتل کر کے شہر پر قبضہ کرلیا ہے اور امام ـ کے نمائندے کو زخمی کرنے کے بعدان کے سر اور داڑھی کے بال اکھاڑ ڈالا اور انھیں شہر سے باہر نکال دیا اور بے ہودہ خبریں پھیلا کر بصرہ کے قبیلوں سے بعض گروہ کو اپنی طرف جذب کرلیاہے۔

اس سلسلے میں امام ـ کا نظریہ تھا کہ ناکثین کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے کوفہ والوں سے مدد لی جائے ، کیونکہ سرزمین عراق پر صرف آپ کا ایک علاقہ باقی تھا اور وہ شہر کوفہ اور اس کے اطراف کے قبیلے والے تھے لیکن اس راہ میں کوفہ کا حاکم ابو موسی اشعری مانع تھا۔ کیونکہ ہر طرح کے قیام کو فتنہ کا نام دیتا اور لوگوںکو امام ـ کی مدد کرنے سے روکتا تھا۔

مہاجرین و انصار کی بیعت سے پہلے ابوموسیٰ اشعری امام ـ کے ساتھ رہتے ہوئے کوفہ کا حاکم تھا اور جب امام ـ کی حکومت آئی تو مالک اشتر کے مشورے سے اسے اس کے منصب پر باقی رکھا ،مالک اشتر کے نظریہ کے علاوہ ابوموسی اشعری کا طریقہ و روش بیت المال میں اسراف اور ناخواہشات کے مطابق خرچ کرنا تھا یہی وجہ تھی جس نے عثمان کے تمام حاکموں سے اسے الگ کر رکھا تھا۔

جی ہاں، امام ـ نے مناسب سمجھا کہ کچھ اہم شخصیتوں کو کوفہ روانہ کریںاور اس سلسلے میں ابو موسی اور کوفہ کے لوگوں کے پاس خط بھیجیں تاکہ اپنے لشکر کے افراد کے لئے زمینہ ہموار کریںاور اگر ایسا نہ ہو تو حاکم کو معزول کر کے اس کی جگہ پر کسی دوسرے کو معین کریں اس سلسلے میں امام ـ نے جو کارنامے انجام دیئے اس کی تفصیل یہ ہے:

۴۰۱

۱۔ محمد بن ابوبکر کو کوفہ بھیجنا

امام ـ نے محمد بن ابوبکر اور محمد بن جعفر کو خط دے کر کوفہ روانہ کیا تاکہ ایک عمومی مجمع میں کوفہ کے لوگوں سے امام ـ کی مدد کے لئے لوگوں کو آمادہ کریں، لیکن ابوموسی کی ضد نے ان دونوں آدمیوں کی محنت کو بے نتیجہ کردیا جس وقت لوگوں نے ابوموسی کے پاس رجوع کیا تواس نے کہا:''القعود سبیل الآخرة و الخروج سبیل الدنیا'' (۱) یعنی گھر میں بیٹھنا راہ آخرت ہے اور قیام کرنا راہ دنیا ہے (جس کو تم چاہو انتخاب کرلو) اسی وجہ سے امام ـ کے نمائندے بغیر کسی نتیجہ کے کوفہ سے واپس آگئے اور ''ذی قار'' نامی جگہ پر امام ـ سے ملاقات کیا اور تمام حالات امام ـ سے بیان کئے۔

۲۔ ابن عباس اور مالک اشتر کو کوفہ روانہ کرنا

امام ـ کی دوسرے امور کی طرح اس امر میں بھی یہی کوشش تھی کہ یہ سلسلہ رک نہ جائے اور اس سے زیادہ شدید اقدام نہ کرنا پڑے لہذا مصلحت دیکھی کہ ابو موسی کو روانہ کرنے سے پہلے دو عظیم و مشہور شخصیتوں یعنی ابن عباس اور مالک اشتر کو کوفہ روانہ کریں تاکہ گفتگو کے ذریعے مشکل کا حل نکال لیں ، مالک اشتر سے فرمایا کہ جس کام کو تم نے انجام دیاہے اور اس کا نتیجہ غلط نکلا ہے ضروری ہے کہ اس کی اصلاح کرو اس کے بعد یہ دونوںکوفہ کے لئے روانہ ہوگئے اور ابو موسی سے ملاقات اور گفتگو کی۔

اس مرتبہ ابوموسی نے اپنی گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے ان لوگوں سے کہا:

''هٰذِهِ فِتْنَةُ صَمَّائُ، النَّائِمُ فِیْهٰا خَیْر مِنَ الْیَقْظَانِ وَ الْیَقْظَانُ خَیْر مِنَ الْقَاعِدِ وَ الْقَاعِدُ خَیْر مِنَ الْقَائِمِ وَ الْقائِمُ خَیْر مِنَ الرَّاکِبِ وَالرَّاکِبُ خَیْر مِنَ السَّاعِیْ'' (۲)

یہ فتنہ ہے کہ سوتا ہوا انسان جاگتے ہوئے انسان سے بہتر ہے اور جاگنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہے اور بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے اور کھڑا ہونے والا سوار سے بہتر اور سوار ساعی (یعنی کوشش کرنے والے یا قوم کے سردار) سے بہتر ہے۔

پھر اس نے کہا: اپنی تلواروں کو میان میں رکھ لو۔اس مرتبہ بھی امام ـ کے نمائندے بہت زیادہ تلاش و کوشش کے باوجود مایوس امام کے پاس لوٹ آئے اور ابوموسی اشعری کی دشمنی اور بغض و حسد سے امام ـ کو باخبر کیا۔

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۳۹۳۔۴۹۶------(۲) تاریخ طبری، ج۳، ص ۴۹۶۔

۴۰۲

۳۔ امام حسن ـ اور عمار یاسر کو کوفہ روانہ کرنا

اس مرتبہ امام ـ نے ارادہ کیا کہ اپنا پیغام بھیجنے کے لئے اس سے بھی زیادہ عظیم المرتبت شخصیتوں سے مدد لیں اور سب سے زیادہ شائستہ افراد اس کام کی انجام دہی کے لئے آپ کے عظیم المرتبت فرزند امام حسن مجتبیٰ ـ اور عمار یاسر تھے ،پہلی شخصیت پیغمبر اسلام کی بیٹی فاطمہ زہرا (س) کے فرزند تھے جو ہمیشہ آپ کی محبت و عطوفت کے سائے میں رہتے تھے اور دوسری شخصیت اسلام قبول کرنے والوں میں سبقت کرنے والے کی تھی جس کی تعریف مسلمانوں نے رسول اسلام سے بہت زیادہ سنی تھی۔ یہ دونوں شخصیتیں امام ـ کا خط لے کر کوفہ میں وارد ہوئے سب سے پہلے امام حسن مجتبیٰ ـ نے لوگوں کے سامنے امام ـ کا خط پڑھ کر سنایا جس کا مضمون یہ تھا۔

یہ خط خدا کے بندے امیر المومنین علی کی طرف سے (اہل کوفہ کے نام) ہے۔

اہل کوفہ(۱) جو انصار کا چہرہ مہرہ اور عربوں کی سربلندی کا سہرا ہیں۔ اما بعد: میں تمہیں عثمان کے معاملے (قتل) سے یوں آگاہ کرتا ہوں جیسے تم اس واقعہ کو سن ہی نہیں رہے ہو بلکہ دیکھ بھی رہے ہو حقیقت یہ ہے کہ تمام لوگوںنے انہیں مورد الزام ٹھہرایا باوجود ان تمام حالات کے، مہاجرین میں فقط میںہی ایک واحد مرد تھا جس سے وہ سب سے زیادہ مطمئن اور خوش تھے اور فقط مجھ ہی پر ان کا عتاب سب سے کم تھا حالانکہ طلحہ و زبیر کا ان کی مخالفت میں یہ عالم تھا کہ ان دونوں کی ہلکی سی ہلکی چال بھی ان کے خلاف سر پٹ دوڑ کا حکم رکھتی تھی اور (اس دوڑ میں) ان دونوں کی دھیمی سے دھیمی آواز بھی بانگ درشت سے بازی لے گئی تھی۔ اس پر عائشہ کے غضب کے لاوے نے اچانک پھوٹ کر عثمان کے خلاف جلتی آگ پر تیل کا کام کیا۔ اب کیا تھا (ایک دو تین نہیں ) اچھی خاصی جمعیت ان کے خلاف تیار کر لی گئی چنانچہ اسی جمعیت نے عثمان کو قتل کر ڈالا اور تمام لوگوںنے کسی مجبوری و اکراہ سے نہیں ، بلکہ رضا و رغبت اور پورے اختیار سے میرے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا (یعنی بیعت کی)۔

______________________

(۱) امام ـ کے خط میں یہاں پر لفظ ''جبہة الانصار'' استعمال ہوا ہے اور جبہہ کے معنی پیشانی اور گروہ کے ہیںاورانصار سے مراد یاور و دوست ہیں نہ کہ مہاجر کے مقابلے میں لفظ انصارہے ، کیونکہ امام ـ کا مدینہ سے کوفہ ہجرت کرنے سے پہلے اس شہر کو''مرکز انصار'' کے نام سے نہیں جانا جاتا تھا۔

۴۰۳

اے لوگو! دار الہجرت کے مکین و مکان ایک دوسرے کودور پھینک رہے ہیں اور شہر (کا خون) یوں کھول رہا ہے جیسے دیگ جوش کھاتی ہے غرض فتنہ کی چکی کا پاٹ اپنی کیلی سے پیوست ہوچکا ہے (اور چکی چلنے کو تیار ہے) لہذا اپنے امیر کی طرف تیزی سے دوڑ تے ہوئے آؤ اور اپنے دشمن سے جہاد کے لئے آگے بڑھو''۔(۱)

جب امام حسن ـ ،امام کا خط لوگوں کو پڑھ کر سنا چکے تو اب امام ـ کے نمائندوں کی نوبت آئی کہ وہ گفتگو کریں اور لوگوں کے ذہنوں کو بیدار کریں جس وقت امام حسن ـ نے تقریر شروع کی اس وقت سب کی نگاہیںان کی طرف متوجہ تھیں اور تمام سننے والوں کے لبوں پر ان کے لئے دعائیں تھیں اور خدا سے دعا کر رہے تھے کہ ان کے ارادوں کو قائم کردے، حضرت مجتبیٰ ـ نے نیزہ یا عصا پر تکیہ کرتے ہوئے اس طرح سے اپنی گفتگو شروع کی۔

''اے لوگو! ہم لوگ یہاں اس لئے آئیںہیں کہ تم لوگوںکو قرآن مجید اور پیغمبر کی سنت اور سب سے زیادہ دانااورصحیح فیصلہ کرنے والے، اور سب سے شائستہ فرد کی مسلمانوں سے بیعت لیں اور تم لوگوں کو ایسے شخص کی دعوت دیں جس پر قرآن نے اعتراض نہیں کیاہے اور اس کی سنت کا انکار نہیں کیااور ایمان میں جو شخص آپ(پیغمبر) سے دو نسبت رکھتا تھا (ایمان اور رشتہ داری) سب میں سبقت رکھتا تھا اور کبھی بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا جس دن لوگ انہیں اکیلا چھوڑ کر بہت دور چلے گئے تھے تو خدا نے اس کی مدد کو کافی جانا اور وہ پیغمبراسلام(ص) کے ساتھ نماز پڑھتا تھا جب کہ دوسرے افراد مشرک تھے۔

اے لوگو! ایسی شخصیت تم سے مدد مانگ رہی ہے اور تمہیں حق کی طرف بلا رہی ہے اور اس کی آرزو ہے کہ تم اس کی پشتیبانی کرو اور وہ گروہ جس نے تم سے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور اس کے متقی و متدین ساتھیوں کو قتل کردیا ہے اور اس کے بیت المال کو برباد کردیاہے تم لوگ اس کے مقابلے میں قیام کرو۔ اٹھو اور بیدار ہو جاؤ کہ خدا کی رحمت تم پر سایہ فگن ہے تم لوگ اس کی طرف بڑھو اور اچھے کام کا حکم دو اور بری چیزوں سے لوگوں کو منع کرو اور جس چیز کو صالح افراد آمادہ کر رہے ہیں انھیں تم بھی آمادہ کرو۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ، نامہ ۱۔

۴۰۴

ابن ابی الحدید نے مشہور و معروف مؤرخ ابو مخنف سے امام حسن ـ کی دوتقریریں نقل کی ہیں اور ہم نے صرف ایک کے ترجمہ پر ہی اکتفاء کیا ہے امام حسن مجتبیٰ ـ کی دو نوں تقریریں امام علی علیہ السلام کی شخصیت اوران کے لطف و محبت کی وضاحت کرتی ہیں جو کہ حیرت انگیز ہے۔(۱)

جب امام حسن ـ کی تقریر ختم ہوئی اس وقت عمار یاسر اٹھے او رخدا کی حمد و ثنا اور محمد و آل محمد پر سلام و درود کے بعد لوگوں سے اس طرح مخاطب ہوئے:

اے لوگو! پیغمبر کا بھائی تمہیں خدا کے دین کی مدد کے لئے آواز دے رہا ہے تم پر لازم ہے کہ وہ امام جس نے کبھی بھی شریعت کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ وہ ایسا دانشمند ہے جسے تعلیم کی ضرورت نہیں ، اور ایسا بہادر جو کسی سے بھی نہیں ڈرتا، اور اسلام کی خدمت کرنے میں اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا، اگر تم لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہو تو پوری حقیقت سے تم لوگوں کو آگاہ کردے گا۔

پیغمبر کے فرزند اورعظیم المرتبت صحابی کی تقریروںنے لوگوںکے قلو ب کو بیدار اوران کے ذہنوں کو جلا بخش دی اور وہ کام جسے سادہ لوح حاکم نے روک کر رکھا تھااس سے دور ہوگئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ تمام لوگوں کے اندر جوش و خروش پیدا ہوگیا، خصوصاً اس وقت جب زید بن صوحان نے عائشہ کا خط کوفیوں کو پڑھ کر سنایا اور سب کو حیرت میں ڈال دیا، اس نے زید کے لئے خط میں لکھا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور علی کی مدد نہ کرو، زید نے خط پڑھنے کے بعد بلند آواز سے کہا: اے لوگو! ام المومنین کا فریضہ گھر میں بیٹھناہے اور میرا فریضہ میدان جنگ میں جہاد کرنا ہے اس وقت وہ ہمیں اپنے فریضے کی طرف بلا رہی ہیں اور خود ہمارے فریضے پر عمل کر رہی ہیں۔ان تمام واقعات کی وجہ سے لوگوں نے امام ـ کے حق میں اپنے نظریے کو بدل دیااور بہت سے گروہ نے امام ـ کی مدد کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔ اور تقریباً بارہ ہزار افراد اپنے گھر اور زندگی چھوڑ کر امام ـ کی خدمت میں روانہ ہوگئے۔ابو الطّفیل کہتا ہے: امام ـ نے کوفہ کے اس گروہ کے پہونچنے سے پہلے مجھ سے کہا میرے چاہنے والے جو کوفہ سے میری طرف آرہے ہیںان کی تعداد بارہ ہزار ایک آدمی پر مشتمل ہے جب یہ لوگ امام کے

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۱۴۔ ۱۱؛ تاریخ طبری ج۳ ص ۵۰۰۔ ۴۹۹۔

۴۰۵

پاس پہونچ گئے تو ہم نے شمار کرنا شروع کیا تو کل تعداد بارہ ہزار ایک تھی، نہ ایک آدمی کم تھا نہ ایک آدمی زیادہ۔(۱)

لیکن شیخ مفید نے ان سپاہیوں کی تعداد جو کوفہ سے امام کی طرف آئی تھی کل چھ ہزار چھ سو لکھا ہے اور مزید کہتے ہیں امام ـ نے ابن عباس سے کہا کہ دو دن میں (چھ ہزار چھ سو افراد) لوگ میری طرف آئیںگے اور طلحہ و زبیر کو قتل کردیں گے اور ابن عباس کہتے ہیں کہ جب ہم نے سپاہیوں کو شمار کیا تو ان کی تعداد چھ ہزار چھ سو افراد پر مشتمل تھی۔(۲)

ابوموسیٰ اشعری کی ناکام کوشش

ابوموسیٰ کوفہ کے حالات بدلنے کی وجہ سے بہت سخت ناراض ہوا اورعمار یاسر کو مخاطب کر کے کہا: ''میں نے پیغمبر سے سناہے کہ بہت جلد ہی فتنہ برپا ہوگا جس میں بیٹھنے والے کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوں گے اور یہ دونوں سوار افراد سے بہتر ہوں گے اور خداوند عالم نے ہمارے خون اور مال کوایک دوسرے پر حرام قرار دیا ہے''۔عمار کے دل و دماغ میں ابو موسیٰ اشعری کے خلاف جو نفرت بھری تھی اس بنا پر کہا: ہاں، پیغمبر خدا نے تجھے مراد لیا ہے اور تیرے بارے میں کہا ہے اور تیرا بیٹھنا تیرے قیام سے بہتر ہے نہ کہ دوسرے افرادکا۔(۳) یہاں پر اس حدیث کے سلسلے میں تھوڑا غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ پیغمبر نے ایسی حدیث بیان فرمائی ہے لیکن یہ کیسے معلوم کہ پیغمبر کامقصد جمل کا واقعہ ہے؟ کیاایسے گروہ کا مقابلہ کرنا جس نے چار سو لوگوں کے سروں کو بکریوں کی طرح جدا کردیا ہے ایسا فتنہ ہے کہ اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے؟!

پیغمبر کی وفات کے بعد بہت سارے واقعات رونما ہوئے ، مثلاً سقیفہ سے عثمان کے قتل تک، ممکن ہے پیغمبر کی حدیث اس واقعے کے متعلق ہو؟! اگر تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیں اور ۱۱ھ سے ۳۵ ھ تک کے واقعات کونظر میں رکھیں تو معلوم ہوگا کہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جو بہت زیادہ افسوس کے لائق ہیں کیامالک بن نویرہ کے تلخ واقعہ کو ایک معمولی واقعہ سمجھ سکتے ہیں؟ خلیفہ سوم کے زمانے کے حادثوں کو اور اسی طرح مومن و متدین افراد پر ظلم و ستم اورانھیں جلا وطن کرنا وغیرہ، کیا انہیں فراموش کیا جاسکتا ہے؟ اور کیوں یہ حدیث معاویہ او رمروان اور عبد الملک کے خلافت کے زمانے سے مخصوص نہ ہو ؟اس کے علاوہ ، اسلام کے پاس ایسے اصول ہیں جنھیںکسی وقت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اورانھیں میں سے ایک اولی الامر کی اطاعت ہے۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴،ص ۱۴۔ ۱۱؛ تاریخ طبری ج۳ ص ۵۰۰۔ ۴۹۹۔--(۲) جمل ص ۱۵۷۔---(۳) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۹۸۔

۴۰۶

خلیفہء منصوص (اللہ کا منتخب کردہ) یا مہاجرین و انصار کی طرف سے منتخب خلیفہ کی اطاعت ایک اسلامی فریضہ ہے جس کی تمام لوگوں نے تائید کی ہے اور ابوموسیٰ اشعری نے بھی امام ـ کو ''ولی امر'' مانا ہے کیونکہ اس نے حضرت کے حکم کو قبول کیا ہے اور کوفہ کی حکومت پر حاکم کے طور پر باقی رہا ہے اور اس کے بعد جو بھی کام انجام دیتا تھا وہ علی کے والی و حاکم کے عنوان سے انجام دیتا تھا۔ ایسی صورت میں حدیث مجمل کواس آیت کریمہ( اطیعو ا اللّه و اطیعو ا الرسول و اولی الامر منکم ) کے مقابلے قرار نہیں دینا چاہئے اور نص قرآنی کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے ۔

ابوموسیٰ اشعری کی معزولی

متعدد نمائندوں کو بھیجنے کے بعد اور تمام کوششوں کے بے اثر ہونے کی وجہ سے امام ـ کے لئے ضروری تھا کہ ابوموسیٰ اشعری کو اس کے منصب سے معزول کردیں۔ امام نے اس کے پہلے بھی کئی خط لکھ کر اس پر اپنی حجت تمام کردی تھی ،آپ نے اسے لکھا تھا کہ ''میں نے ہاشم بن عبتہ کو روانہ کیا ہے کہ وہ تمہاری مدد سے مسلمانوں کو میری طرف روانہ کرے، لہذا تم اس کی مدد کرو اور میں نے تمہیںاس منصب پر باقی رکھا کہ حق کے مددگار رہو۔جب امام ـ خط بھیجنے اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کرنے کے بعد حاکم کوفہ کی فکرونظر بدلنے سے مایوس ہوئے تو امام حسن کے ہمراہ ابوموسیٰ اشعری کوایک خط بھی لکھا اورباقاعدہ طور پر اسے ولی عہدی سے معزول کردیا اور قرظہ بن کعب کو اس کی جگہ منصوب کردیا ۔ امام کے خط کی عبارت یہ ہے:'' فقدکنت أریٰ أن تعزبَ عن هذا الامر الذی لم یجعل لک منه نصیباً سیمنعک من ردِّ أمری وقد بعثتُ الحسن بن علیٍ وعمار بن یاسر یستنفران الناس وبعثت قرطة بن کعب والیاً علی المصرفا عتزل عملنا مذموماً مدحوراً '' ''اسی میں مصلحت دیکھتا ہوںکہ تم اپنے منصب سے کنارہ کشی اختیار کر لو اس مقام کے لئے خداوند عالم نے تمہارا کوئی حصہ نہیں رکھا ہے اور خدا نے تمہاری مخالفت سے مجھے روک دیا ہے؟ میں نے حسن بن علی اور عمار یاسر کو بھیجا ہے تاکہ لوگوں کو ہماری مدد کے لئے آمادہ کریں اور قرظہ بن کعب کو والی شہرقرار دیا ہے تم ہمارے امور سے دورہو جاؤ تم سب کی نگاہوں سے گر چکے ہو اورلعنت کےمستحق ہو''امام کے خط کے مضمون سے شہر کے سارے لوگ باخبر ہوگئے اور کچھ ہی دنوں بعد مالک اشتر نےکوفہ جانے کی درخواست کی اور امام نے انھیں کوفہ روانہ کردیا اور دار الامارہ کواپنے قبضے میں لےکرنئے والی شہر کے حوالے کردیا اور ابوموسیٰ کوفہ میں ایک رات رہنے کے بعد شہر سے چلا گیا۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۵۰۱۔

۴۰۷

نویں فصل

امام ـ کی ''ذی قار'' سے بصرہ کی طرف روانگی

علی علیہ السلام ربذہ میں تھے کہ ناکثین کے خونی حملہ سے باخبر ہوئے اورذی قار میں تھے جب آپ نے مخالفوں کو سزا دینے کا قطعی فیصلہ کیا۔

عظیم شخصیتوں مثلاً امام حسن مجتبیٰ ـ اور عمار یاسر کو کوفہ بھیجنے کا یہ اثر ہوا کہ کوفہ کے لوگوں میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی اور یہی سبب بنا کہ لوگ امام ـ کے لشکر میں شامل ہونے کے لئے ذی قار کی طرف دوڑ پڑے، لہٰذا علی علیہ السلام اپنی فوج کے ساتھ منطقہ ذی قار سے بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

امام ـ نے پیغمبر کی طرح جنگ کرنے سے پہلے مخالفوں پر اپنی حجت کو تمام کردیا اگرچہ حقیقت ان لوگوں پر واضح تھی یہی وجہ ہے کہ ناکثین کے سردار یعنی طلحہ و زبیر اور عائشہ کے پاس الگ الگ خط لکھا اور تینوں خط میں ان کے کارناموں کو لکھا اور دار الامارہ اور بصرہ کے محافظوں کے قتل کرنے پر سخت اعتراض کیا اور عثمان بن حنیف پر جو ظلم و ستم کیاتھا اس کی سخت مذمت کی۔ امام نے تینوں خط صعصہ بن صوحان کے ہمراہ روانہ کیا وہ کہتے ہیں :

سب سے پہلے ہم نے طلحہ سے ملاقات کی اور امام ـ کا خط اسے دیا اس نے خط پڑھنے کے بعد کہا: کیا اس وقت جب علی کے خلاف جنگ کی پوری تیاری ہوچکی ہے اس سے منہ موڑ رہے ہیںاور نرمی دکھا رہے ہیں؟ پھر زبیر سے ملاقات کی تواسے طلحہ سے کچھ نرم پایا ۔ پھر عائشہ کو امام کا خط دیا لیکن دوسروں سے زیادہ انہیں فتنہ و فساد اور جنگ کرنے پر آمادہ پایا انہوں نے کہا: میں نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اقدام کیا ہے اور خدا کی قسم اس کام کو میں ضرور انجام دوں گی۔

صعصعہ کہتے ہیں: اس کے پہلے کہ امام ـ بصرہ میں داخل ہوتے ، میں ان کی خدمت میں پہونچ گیا امام ـ نے مجھ سے پوچھا کہ وہاں کے کیا حالات ہیں۔ میں نے کہا: میں نے ایک گروہ کو دیکھا کہ آپ سے جنگ کرنے کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے امام ـ نے فرمایا:

۴۰۸

و الله المستعان (۱)

جب علی علیہ السلام ناکثین کے سرداروں کے قطعی ارادے سے باخبر ہوئے تو آپ نے ابن عباس کو بلایا اور ان سے کہا: ان تینوں آدمیوں سے ملاقات کرو اور میری بیعت کی وجہ سے جو ان پر میرا حق ہے اس کے بارے میں احتجاج کرو۔ جب انھوں نے طلحہ سے ملاقات کیا اور امام ـ کی بیعت اسے یاد دلائی تواس نے ابن عباس کا جوا ب دیا: میں نے بیعت ایسے حالات میں کیاتھا کہ میرے سر پر تلوار تھی۔

ابن عباس نے کہا کہ میں نے خود تمہیںدیکھا کہ تم نے مکمل آزادی کے ساتھ بیعت کی تھی اور اس پہ دلیل پیش کی کہ بیعت کے وقت، علی نے تم سے کہا کہ اگر تم چاہو تو تمہاری بیعت کروں لیکن تم نے کہا نہیں میں آپ کی بیعت کروں گا۔

طلحہ نے کہا: صحیح ہے کہ یہ بات علی نے کہی تھی لیکن اس وقت تمام گروہوں نے بیعت کی تھی اور مخالفت کا امکان نہیں تھا۔

پھر اس نے کہا: ہم عثمان کے خون کا بدلہ چاہتے ہیں اور اگر تمہارے چچازاد بھائی تمام مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو عثمان کے قاتلوں کو ہمیں سونپ دیں اور خود بھی خلافت کو چھوڑ دیں تاکہ خلافت شوری کے اختیار میں آجائے اور شوری جسے چاہے منتخب کرے اگر ایسا نہ ہوا تو ان کے لئے ہماری تلوار ہدیہ ہے۔

ابن عباس نے موقع غنیمت جانا لہٰذا حقیقت کو اور واضح کرتے ہوئے کہا شایداسی وجہ سے تونے عثمان کے گھر کا دس دن تک محاصرہ کیا اوران کے گھر میں پانی پہونچانے سے منع کیااور جس وقت کہ علی نے تم سے گفتگو کی کہ اجازت دو کہ عثمان کے گھر پانی پہونچایا جائے تو تم نے ان کی موافقت نہ کی اور جب مصریوں نے اتنا زبردست پہرہ دیکھا تو اس کے گھر میں داخل ہوگئے اور اسے قتل کردیا اور اس وقت لوگوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر بیعت کی جس کا ماضی تابناک، اس کے فضائل روشن، اور پیغمبر کا سب سے قریبی عزیز تھا او رتم نے اور زبیر نے بغیر کسی مجبوری اور دباؤ کے بیعت کی اور اس وقت اس بیعت کو توڑ دیا۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ تم خلفاء ثلاثہ کی خلافت کے دوران کتنے سکون و آرام سے تھے لیکن جب خلافت علی تک پہونچی تواپنی اوقات سے باہر ہوگئے خدا کی قسم علی تم لوگوں سے کم نہیں ہیں او رجو تمہارا یہ کہناہے کہ علی ان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کریں تو تم اس کے قاتلوں کو اچھی طرح سے پہچانتے ہو اور تمہیں اس کی بھی خبر ہے کہ علی تلوار سے نہیں ڈرتے۔

______________________

(۱) الجمل ص ۱۶۷۔

۴۰۹

طلحہ ابن عباس کی منطقی گفتگو سن کر بہت شرمندہ ہوا اورخاموش ہو گیا اس کے بعد گفتگو کو ختم کرنے کے لئے کہا: ابن عباس اس لڑائی سے پیچھے ہٹ جاؤ۔

ابن عباس کہتے ہیں: میں فوراً ہی علی کے پاس گیا اور اپنی گفتگو کا سارا نتیجہ بیان کیا ،حضرت نے مجھے حکم دیا کہ عائشہ سے گفتگو کرو۔ اور ان سے کہو، فوج جمع کرنا عورتوں کی شان نہیں ہے اور تم ہرگز اس کام کے لئے مامور نہیں کی گئی ہو تم نے اس کام کے لئے قدم نکالا ہے اور دوسروں کے ساتھ بصرہ آگئی اور مسلمانوں کو قتل کردیا اور کام کرنے والوں کو نکال دیا اور لوگوں کو راستہ دکھایا اور مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھا جب کہ تم خود عثمان کی سب سے بڑی دشمن تھی۔

ابن عباس نے امام ـ کے پیغام کو عائشہ تک پہونچایا انہوں نے جواب دیا : تمہارے چچازاد بھائی کا خیال ہے کہ تمام شہروں پر ان کا قبضہ ہے خدا کی قسم، اگر کوئی چیز اس کے ہاتھ میں ہے تو اس سے زیادہ چیزیں میرے اختیار میں ہیں۔

ابن عباس نے کہا: علی کے لئے فضیلت اور اسلام کے لئے ان کی بہت زیادہ خدمات ہیں اور انھوںنے اس راہ میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کی ہیں انہوں نے کہا: طلحہ نے بھی جنگ احد میں بہت زیادہ رنج و مصیبت برداشت کیا ہے۔

ابن عباس نے کہا: میرے خیال میں پیغمبر کے صحابیوں کے درمیان علی سے زیادہ کسی نے رنج و مصیبت برداشت نہیں کی ہے۔ اس وقت عائشہ نے انصاف کی بات کی اور کہا اس کے علاوہ علی کی دوسری بھی فضیلتیں ہیں ۔

ابن عباس نے موقع غنیمت سمجھ کر فوراً کہا: تمہیںخدا کا واسطہ مسلمانوں کا خون بہانے سے پرہیز کرو انہوں نے جواب دیا: مسلمانوں کا خون اس وقت تک بہایا جائے گا جب تک علی اور ان کے ساتھی خود کو قتل نہیں کرلیں گے۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ میں عائشہ کی غیر منطقی باتین سن کر مسکرایا او رکہا علی کے ہمراہ صاحبان بصیرت لوگ ہیں جو اس راہ میں اپنے خون کو بہا دیں گے پھر ان کے پاس سے اٹھ کر واپس چلے آئے۔

ابن عباس کہتے ہیں:علی نے مجھے حکم دیا کہ زبیر سے بھی گفتگو کروں او رحتی الامکان اس سے تنہائی میں ملاقات کروںاور اس کا بیٹا عبداللہ وہاں موجود نہ ہو۔ میں اس خیال سے کہ اس سے تنہائی میں ملاقات کروںدوبارہ اس کے پاس گیا لیکن اسے تنہا نہیں پایاتیسری مرتبہ اسے میں نے تنہا دیکھا، اس نے اپنے غلام ''سرحش'' کو بلایا اور اس سے کہا کہ کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ دینا ، میں نے گفتگو کا آغاز کیا،شروع میں اسے بہت غصے میں پایا لیکن دھیرے دھیرے اسے ٹھنڈا کردیا جب اس کے خادم نے میری باتیں سنیں تو فوراً اس نے زبیر کے

۴۱۰

بیٹے کو خبر کردی اور جیسے ہی وہ اس جلسہ میں وارد ہوا میں نے اپنی گفتگو قطع کردی، زبیر کے بیٹے نے اپنے باپ کے اقدام کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے اورام المومنین کی موافقت سے صحیح ثابت کیا میں نے اس کا جواب دیا خلیفہ کا خون تمہارے باپ کی گردن پر ہے یا تو اسے قتل کیا ہے یا اس کی مدد نہیں کیاہے اور ام المومنین کی موافقت اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہے اسے گھر کے باہر لائے جب کہ رسول اکرم نے ان سے کہا تھا عائشہ ممکن ہے ایک دن ایسا آئے کہ تم پر حوأب کے کتے بھونکیں، بالآخر میں نے زبیر سے کہا: خدا کی قسم، میں نے ہمیشہ تمہیں بنی ہاشم میں شمار کیا تم ابوطالب کی بہن صفیہ کے بیٹے اور علی کے پھوپھی زاد بھائی ہو، جب عبد اللہ بڑا ہوگیا تو اپنے رشتہ کو ختم کردیا۔(۱)

لیکن علی علیہ السلام کے کلام (نہج البلاغہ) سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ طلحہ کی طرف سے مکمل طور سے مایوس ہوچکے تھے اسی لئے ابن عباس کو حکم دیا کہ صرف زبیر سے ملاقات کر کے گفتگو کریں اور شاید یہ ابن عباس کو دوسری مرتبہ حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں امام ـ کابلیغ کلام ملاحظہ کیجیئے۔

''لاتلقین طلحة فانک ان تلقہ تجدہ کا لثور عاقصاً قرنہ، یرکب الصعب و یقول ہو الذلول! و لکن الق الزبیر فانہ ألین عریکةً فقل لہ یقول ابن خالک عرفتنی بالحجاز و انکرتنی بالعراق ، فما عدا مما بدا؟(۲)

طلحہ سے ملاقات نہ کرنا اگر اس سے ملو گے تو اسے ایک بیل(۳) کی طرح پاؤ گے جس کی سینگ

ٹیڑھی ہے وہ سرکش سواری پر سوار ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ آرام سے ہے، البتہ زبیر سے ملاقات کرنا کہ وہ نرم مزاج ہے اور اس سے کہنا کہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے کہا ہے کہ تم حجاز میں مجھے پہچانتے تھے اور عراق میں آکربھول گئے حقیقت ظاہر ہونے کے بعد کس چیز نے اسے پھیر دیا؟

______________________

(۱) الجمل، ص ۱۷۰ و ۱۶۷۔

(۲) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۳۱۔

(۳) یعنی جس طرح بیل اپنی نوک دارسینگ سے ہر کسی کو چھیدنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح تم طلحہ کو فتنہ میں مبتلا پاؤ گے۔ رضوی۔

۴۱۱

قعقاع بن عمرو کو روانہ کرنا

پیغمبر اسلام کے معروف و مشہور صحابی قعقاع بن عمرو کوفہ میں رہتے تھے اور اپنے قبیلے میں ایک اہم اور قابل احترام شخصیت کے مالک تھے، انھیں امام ـ کا حکم ملا کہ ناکثین کے سرداروں سے ملاقات کریں۔ ان کے اور ناکثین کے سرداروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی اسے طبری نے اپنی تاریخ میں اور جزری نے ''کامل'' میں نقل کیا ہے انہوں نے ایک خاص منطقی طریقے سے ناکثین کے بارے میں فکر کی تاکہ ان لوگوں کو امام ـ سے صلح کرنے کے لئے آمادہ کریں اور جب علی کی پاس واپس ہوئے اور اپنی گفتگو کا نتیجہ امام ـ سے بیان کیا تو امام ـ ان کے نرم رویہ پربہت متعجب ہوئے۔(۱)

اس موقع پر بصرہ کے لوگوں کا ایک گروہ امام ـ کی خدمت میں پہونچاتاکہ آپ کے نظریہ اور ان کوفیوں کے نظریہ سے باخبر ہوں جو امام کے لشکر میں شامل ہوئے تھے۔ اور جب وہ لوگ بصرہ واپس چلے گئے تو امام ـ نے اپنے نمائندوں کے درمیان تقریر کی اور پھر اس منطقہ سے روانہ ہوگئے اور ''زاویہ'' نامی مقام پر قیام کیا۔ طلحہ و زبیر اور عائشہ بھی اپنی جگہ سے روانہ ہوئے اور اس علاقے میں آکر ٹھہرے ،جہاں بعدمیں عبیداللہ ابن زیاد کا محل بنا اور امام ـ کے مقابلے ٹھہر گئے ۔ دونوں لشکر بڑے ہی اطمینان سے تھا امام ـ نے کچھ لوگوں کو بھیجا تاکہ باغیوں کے مسئلہ کو گفتگو کے ذریعے حل کریں۔ یہاں تک کہ پیغام بھی بھیجا کہ جو وعدہ ان لوگوں نے قعقاع سے کیاہے اگر اس پر باقی ہیں تو تبادلہ نظر کریں۔ لیکن حالات ایسے تھے کہ یہ مشکل سیاسی گفتگو سے حل نہیں ہوسکتی تھی اور اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسلحہ اٹھایا جائے۔

______________________

(۱) تاریخ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۲۲۹۔

۴۱۲

دشمن کی فوج کم کرنے کے لئے امام ـ کی سیاست

احنف بن مالک اپنے قبیلہ کا سردار تھا اس کے علاوہ اپنے اطراف کے قبیلوں میں بھی اہم مقام رکھتا تھا جب

عثمان کے گھرکا لوگوںنے محاصرہ کیا تھا اس وقت وہ مدینے میںتھا اور اس وقت اس نے طلحہ و زبیر سے پوچھا تھا کہ عثمان کے بعد کس کی بیعت کی جائے دونوں افراد نے امام ـ کی بیعت کے لئے کہا تھا ،جس وقت احنف حج کے سفر سے واپس ہوا اور دیکھا کہ عثمان قتل کردیئے گئے ہیں تو اس نے امام ـ کی بیعت کی ۔ اور بصرہ واپس آگیا اور جب طلحہ و زبیر کے متعلق اسے یہ خبر ملی کہ انھوں نے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے تو بہت تعجب میں پڑ گیا اور جب عائشہ کی طرف سے اسے بلایا گیا کہ ان کی مدد کرے تو اس نے اس درخواست کو رد کردیا اور کہا، میں نے ان دونوں کے کہنے سے علی کی بیعت کی ہے اور میں ہرگز پیغمبر کے چچا زاد بھائی کے ساتھ جنگ نہیں کروں گا مگر ان سب سے دور رہوں گا ۔ اسی وجہ سے وہ امام ـ کی خدمت میں آیا اور کہا ہمارے قبیلے والے کہتے ہیں کہ اگر علی کامیاب ہوگئے تو ہمارے مردوں کو قتل کردیں گے اور عورتوں کو قیدی بنالیں گے ۔ امام ـ نے اس سے کہا: مجھ جیسے شخص سے ہرگز نہ ڈرو جب کہ یہ مسلمانوں کا گروہ ہے۔ احنف نے یہ جملہ سن کر امام ـ سے کہا ان دو کاموں میں سے ایک کام میرے لئے معین فرمائیں یا آپ کے ہمراہ رہ کر جنگ کروں یا دس ہزار تلوار چلانے والوں کے شر کو آپ سے دور کروں۔ امام ـ نے فرمایا: کتنا بہتر ہے کہ جو تم نے بے طرفی کا وعدہ کیا ہے اس پر عمل کرو۔ احنف نے اپنے قبیلے اور اطراف میں رہنے والے قبیلوں کو جنگ میں شرکت کرنے سے روک دیا اور جب علی کا میاب ہوگئے۔ تو تمام لوگوںنے حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ کے ہمراہ ہوگئے۔

۴۱۳

امام ـ کی طلحہ اور زبیر سے ملاقات

جمادی الثانی ۳۶ ھ میں امام ـ نے دو نوں لشکر کے درمیان ناکثین کے سرداروں سے ملاقات کی اوردونوں لشکر والے اتنے نزدیک ہوگئے تھے کہ گھوڑوں کے کان ایک دوسرے سے ملنے لگے تھے۔ امام ـ نے سب سے پہلے طلحہ پھر زبیر سے گفتگو کی جس کی تفصیل یہ ہے:

امام ـ : تم نے اسلحہ اور پیدل اور سوار فوج کو اکٹھا کر لیا ہے اگر اس کام کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو اگر ایسا نہیں ہے تو خدا کی مخالفت سے پرہیز کرو اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنے دھاگوں کو خراب کردیاہے ۔ کیامیں تمہارا بھائی نہ تھا اور تمہارے خون کو حرام قرار نہیں دیا تھا اور تم نے بھی میرے خون کو محترم نہیں سمجھاتھا؟ کیا میں نے کوئی ایسا کام کیا ہے جواس وقت میرے خون کو حلال سمجھ رہے ہو؟

طلحہ: آپ نے لوگوں کو عثمان کے قتل کرنے پر اکسایا۔

امام ـ: اگر میں نے ایسا کام ہے تو خداوند عالم قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا تک پہونچائے گا اور اس وقت لوگوں پر حقیقت واضح ہو جائے گی۔ اے طلحہ ! کیاتوعثمان کے خون کا بدلہ طلب کر رہا ہے؟ خداعثمان کے قاتلوں پر لعنت کرے، تم پیغمبر کی بیوی کو لائے ہو کہ اس کے زیرسایہ جنگ کرو جب کہ اپنی بیوی کو گھر میں بٹھا رکھا ہے کیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟

طلحہ: میں نے آپ کی بیعت کی اس لئے کہ میرے سر پر تلوار تھی۔

پھر امام ـ زبیرکی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے پوچھا۔ اس نافرمانی کی کیا وجہ ہے؟

زبیر: میں تمہیں اس کام کے لئے اپنے سے زیادہ بہتر نہیں سمجھتا۔

۴۱۴

امام ـ : کیامیں اس کام کے لئے سزاوار نہیں ہوں؟ (زبیر نے چھ افراد پر مشتمل شوری میں علی کو خلیفہ معین کرنے کے لئے رائے دی تھی) میں نے تمہیں عبدالمطلب کی اولاد میں شمار کیا لیکن جب تیرا بیٹا عبد اللہ بڑاہوا تو ہم لوگوں کے درمیان جدائی پیداکردی۔ کیا تمہیں وہ دن یاد نہیں جس دن پیغمبر اسلام قبیلۂ بنی غنم سے گزر رہے تھے رسول اسلام اور میں دونوں ہنس رہے تھے، تم نے پیغمبر سے کہا کہ علی مذاق کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں اور پیغمبر نے تم سے کہا: خدا کی قسم، اے زبیر تو اس کے ساتھ جنگ کرے گا اور اس وقت تم ستم کرنے والے ہوگے۔

زبیر: یہ بات صحیح ہے اگر یہ واقعہ میرے ذہن میں ہوتا تواس طریقے سے پیش نہ آتا خدا کی قسم میں تم سے جنگ نہیں کروں گا۔

زبیر ، امام ـ کی باتیں سن کر بہت متأثر ہوا اور عائشہ کے پاس گیااور پورا واقعہ بیان کیامگر جب عبداللہ اپنے باپ کے ارادے سے باخبرہوا تو بہت زیادہ ناراض ہوکر کہنے لگا ان دو گروہ کو یہاں جمع کیا ہے اور اس وقت کہ ایک گروہ طاقتور ہوا ہے دوسرے والے گروہ کو چھوڑ کر جا رہے ہو؟ خدا کی قسم! علی نے جو تلوار بلند کی ہے تم اس سے ڈر رہے ہو، کیونکہ تم جانتے ہو کہ ان تلواروں کو بہادر اٹھاتے ہیں ۔

زبیر نے کہا: میں نے قسم کھائی ہے کہ علی سے جنگ نہیں کروں گا اب میں کیا کروں؟

عبد اللہ نے کہا: اس کا حل کفارہ ہے ،بہتر ہے کہ ایک غلام آزاد کرو، اس بناء پرزبیر نے اپنے غلام ''مکحول'' کو آزاد کردیا۔

یہ واقعہ زبیر کی سطحی ذہنیت پر دلالت کرتاہے وہ پیغمبر اسلام کی حدیث کو یاد کرتے ہوئے قسم کھاتا ہے کہ علی کے ساتھ جنگ نہیں کرے گا لیکن اپنے بیٹے کے غلط بہکانے پر پیغمبر کی حدیث کو نظر انداز کردیتا ہے اور اپنی قسم کو کفارہ دے کر بے اہمیت کردیتا ہے۔

۴۱۵

حالات سے معلوم ہوگیاہے کہ جنگ کا ہونا یقینی ہے لہذا ناکثین نے ارادہ کیا کہ اپنی فوج کو مزید مضبوط اور منظم کریں۔

ایسے علاقوں میں جہاں لوگ قبیلائی نظام کے طور پر زندگی بسر کرتے ہیں وہاں کے سارے امور قبیلہ کے سردار کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور اسے ہر شخص قبول کرتا ہے ۔بصرہ کے قبیلوں کے اطراف میں ایک شخصیت احنف نام کی بھی ہے، اگر وہ ناکثین کے گروہ میں مل جاتا تو اس کی فوج بہت زیادہ طاقتور ہو جاتی اور چھ ہزار سے بھی زیادہ لوگ ناکثین کے زیر پرچم جمع ہو جاتے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا لیکن احنف نے اپنی ہوشیاری اور عقلمندی سے سمجھ لیاکہ ان کا ساتھ دینا خواہشات نفسانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس نے اپنی ذہانت سے سمجھ لیا کہ عثمان کا خون صرف ایک بہانہ ہے اور اصل حقیقت ، حکومت حاصل کرنا ہے اور علی کو منصب سے دور کرنے اور خلافت پر قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے، اسی وجہ سے امام ـ کے حکم کے مطابق اس نے کنارہ کشی اختیار کی اور اپنے قبیلے اوراطراف کے قبیلے سے چھ ہزار آدمیوں کو ناکثین کے گروہ میں شامل ہونے سے بچا لیا ۔

احنف کا ایسے وقت میں کنارہ کشی اختیا رکرنا ناکثین کو بہت ناگوار گزرا، اس کے علاوہ ان کی امیدیں بصرہ کے قاضی، کعب بن سور پر تھیں لیکن جب اس کے پاس پیغام بھیجا تو اس نے بھی ناکثین کا ساتھ دینے سے پرہیز کیا اور جب لوگوں کوخبر ملی کہ اس نے بھی ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے تو ارادہ کیا کہ اس سے ملاقات کریں او رروبرو اس سے گفتگو کریں لیکن اس نے ملاقات کرنے سے انکار کردیالہذا اب ان کے پاس عائشہ سے توسل کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا تاکہ وہ اس سے ملنے جائیں۔

عائشہ خچر پر سوار ہوئیں اور بصرہ کے لوگوں کا ایک گروہ ان کی سواری کے اطراف میں چلنے لگا وہ قاضی کے گھر گئیں قاضی سب سے بڑا قبیلہ ''ازد'' کا سردارتھا اور یمنی لوگوں کی نگاہ میں اس کا ایک خاص مقام تھا، عائشہ نے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کی اور انھیں اجازت ملی، عائشہ نے اس کی معزولی کی وجہ دریافت کی ۔ اس نے جواب دیا۔ لازم نہیں ہے کہ میں اس فتنہ میں شریک رہوں، عائشہ نے کہا: میرے بیٹے اٹھو کیونکہ میں کچھ ایسی چیزیں دیکھ رہی ہوں جسے تم نہیں دیکھ رہے ہو (ان کا مقصد یہ تھا کہ فرشتے مومنین یعنی ناکثین کی حمایت کیلئے آئے تھے!) پھر انہوں نے کہا میں خدا سے خوف محسوس کر رہی ہوں کہ وہ سخت سزا دینے والا ہے اس طرح بصرہ کے قاضی کو ناکثین کا ساتھ دینے کے لئے راضی کرلیا۔

۴۱۶

زبیر کے بیٹے کی تقریر اورامام حسن مجتبیٰ ـ کا جواب

زبیر کا بیٹا اپنی فوج کو منظم کرنے کے بعد تقریر کرنے لگا اور اس کی آواز امام ـ کے دوستوں کے درمیان پہونچی اس وقت امام حسن ـ نے خطبے کے ذریعے عبداللہ کی باتوں کا جواب دیاپھر ایک کہنہ مشق شاعر نے امام حسن ـ کی شان میں قصیدہ پڑھا جس نے موجودہ لوگوں کے جذبات کو ابھار دیا امام مجتبیٰ ـ کا نوارنی کلام اور شاعر کا کلام ناکثین کے گروہ میں بہت زیادہ مؤثرثابت ہوا ،کیونکہ پیغمبر اسلام کی بیٹی کے فرزند نے عثمان کے سلسلہ میں طلحہ کے کردارکو آشکار کردیا یہی وجہ ہوئی کہ طلحہ تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوااور وہ قبیلے جو حضرت علی کے پیرو تھے انھیں منافق کہا، طلحہ کی تقریر ان لوگوںکے رشتہ داروں پر جو کہ طلحہ کی فوج میں تھے بہت گراں گزری،اچانک ایک شخص نے اٹھ کر کہا:اے طلحہ تم مضر، ربیعہ اور یمن کے قبیلے والوں کو گالی دے رہے ہو؟ خدا کی قسم، ہم لوگ ان سے اور وہ لوگ ہم سے ہیں زبیر کے پاس موجود لوگوںنے چاہا کہ اسے گرفتار کریں لیکن قبیلہ بنی اسد کے لوگوں نے منع کیا مگر بات یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ ایک دوسرا شخص اسود بن عوف کھڑا ہوا اور اس نے بھی پہلے والے شخص کی بات کو دہرایا ۔ یہ تمام باتیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ طلحہ جنگجو تھا لیکن ایسے حساس موقع پر سیاست کے اصولوں سے باخبر نہ تھا ۔

۴۱۷

حضرت علی علیہ السلام کی تقریر

امام ـایسے حالات میں اٹھے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں ان چیزوں کو بیان کیا:

''طلحہ اور زبیر بصرہ میں داخل ہوئے جب کہ بصرہ کے لوگ میرے مطیع و فرمانبردار اور میری بیعت میں تھے ان لوگوں نے ان کو میری مخالفت کے لئے اکسایا اور جس نے بھی ان کی مخالفت کی اسے قتل کردیا تم سب لوگ اس بات سے واقف ہو کہ انھوںنے حکیم بن جبلۂ اور بیت المال کے محافظوں کو قتل کر ڈالا اور عثمان بن حنیف کو نا گفتہ بہ صورت میںبصرہ سے نکال دیااب جب ان کی حقیقتوں کا پردہ چاک ہوگیاہے تو جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے ہیں۔

امام ـ کی تقریر کے بعد حکیم بن مناف نے امام ـ کی شان میں اشعار پڑھ کر امام کی فوج میں نئی روح پھونک دی اس کا دو شعر یہ ہے:

أبا حسن أ یقظت من کان نائماً

و ما کل من یدعی الی الحق یسمع

اے ابو الحسن! خواب غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو بیدار کردیا ورنہ ضروری نہیں ہے کہ جس کو حق کی دعوت دی جائے وہ اس کو سنے۔

۴۱۸

و أنت امرء أعطیت من کل وجهةٍ

محاسنَها و اللّه یعطی و یمنع

آپ ایسے شخص ہیں کہ ہر بہترین کمال آپ کوعطاہوا ہے اور خدا جسے بھی چاہے عطا کرے یا عطا نہ کرے۔

امام ـ نے ناکثین کو تین دن کی مہلت دی کہ شایدمخالفت کرنے سے باز آجائیں اور آپ کی اطاعت کرنے لگیں لیکن جب ان کے حق کی طرف آنے سے مایوس ہوگئے تو اپنے چاہنے والوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں ناکثین کے دردناک واقعات کو بیان کیا جب امام ـ خطبہ دے چکے تو شداد عبدی اٹھا اور مختصر طور پر اہل بیت پیغمبر سے اپنی صحیح شناخت کو ا س طرح بیان کیا :

''جب گناہگارزیادہ ہوگئے اوردشمن مخالفت کرنے لگے اس وقت ہم نے اپنے پیغمبر کے اہلبیت کے پاس پناہ لی۔ اہل بیت وہ ہیں جن کی وجہ سے خدا نے ہم لوگوں کو عزیز و محترم بنایا اور گمراہی سے ہدایت کی طرف راستہ دکھایا۔ اے لوگو! تم پر لازم ہے ان لوگوں کا دامن تھام لو۔ اور جوادھر ادھر بہک گئے ہیں ( اور ان سے منھ موڑ لیاہے) انھیں چھوڑ دو تاکہ وہ ضلالت و گمراہی کے کھنڈر میں چلے جائیں۔(۱)

______________________

(۱) الجمل، ص ۱۷۹۔ ۱۷۸۔

۴۱۹

امام ـ کا آخری مرتبہ اتمام حجت کرنا

۱۰ جمادی الاول ۳۶ ھ جمعرات کے دن امام ـ اپنے سپاہیوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور کہا: جلدی نہ کرو میں آخری مرتبہ اس گروہ پر اپنی حجت تمام کردوں ۔ اس وقت ابن عباس کو قرآن دیا اور کہا یہ قرآن لے کر ناکثین کے سرداروں کے پاس جاؤ اوران لوگوں کو اس قرآن کی دعوت دو اور طلحہ و زبیر سے کہو کیا ان لوگوںنے میری بیعت نہیں کی تھی؟ تو پھر کیوں بیعت کو توڑ دیا؟ اور ان سے کہنا کہ یہ خداکی کتا ب ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی۔

ابن عباس سب سے پہلے زبیر کے پاس گئے اورامام ـ کے پیغام کوان تک پہونچایااس نے امام ـ کا پیغام سن کر جواب دیا۔ میری بیعت اختیاری نہ تھی اور مجھے قرآن کے فیصلے کی ضرورت نہیں ہے، پھر ابن عباس طلحہ کے پاس گئے اور اس سے کہا امیر المومنین نے کہا ہے کہ کیوں تم نے بیعت کو توڑ ڈالا؟ اس نے کہا: میں عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔

ابن عباس نے کہا: عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے عثمان کا بیٹا ''آبان'' سب سے زیادہ سزاوار ہے۔

طلحہ نے کہا: وہ کمزور آدمی ہے اور ہم اس سے زیادہ طاقتور ہیں۔ سب سے آخر میں ابن عباس عائشہ کے پاس گئے دیکھا کہ وہ اونٹ کے کجاوہ پر سوار بیٹھی ہیں اور اونٹ کی مہار بصرہ کا قاضی کعب بن سور پکڑے ہوئے ہے اور قبیلہ ازد اور ضبہ کے لوگ اس کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں جب عائشہ کی نظر ابن عباس پر پڑی تو کہا: کس لئے آئے ہو؟ جاؤ اور علی سے کہو کہ ان کے اور ہمارے درمیان تلوار کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔

ابن عباس امام ـ کی خدمت میں آئے اور پورا ماجرا بیان کیاامام ـ نے چاہا کہ دوسری مرتبہ اتمام حجت کریں تاکہ واضح و روشن دلیل کے ساتھ تلوار اٹھائیں لہذاآپ نے اس مرتبہ فرمایا: تم میں سے کون حاضر ہے جواس قرآن کواس گروہ کے پاس لے جائے۔ اور انھیں دعوت دے اور اگر اس کے ہاتھ کو کاٹ دیں تواسے دوسرے ہاتھ میں لے لے۔ اوراگر دونوں ہاتھ کاٹ دیں تو اسے دانتوں سے پکڑ لے؟

۴۲۰