فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341258
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341258 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آذربائیجان کے گورنراشعث کے نام امام ـ کا خط

اشعث بن قیس کا رابطہ پچھلے خلیفہ کے ساتھ بھی بہت گہرا تھا اور اس کی بیٹی خلیفہ کی بہو(عمرو بن عثمان کی بیوی) تھی۔ امام ـ نے اپنے ایک چاہنے والے ہمدانی(۱) ،زیاد بن مرحب(۲) کے ذریعہ خط اس کے پاس بھیجا جس کی عبارت یہ تھی:

اگر تمھیں کوئی مشکل نہ تھی تو میری بیعت کرنے میں سبقت کرتے اورلوگوں سے بھی میری بیعت لیتے اگر تقوی اختیار کرو گے تو بعض چیزیں تمھیں حق کو ظاہر کرنے کے لئے آمادہ کردیں گی، جیسا کہ تمھیں معلوم ہے کہ لوگوںنے میری بیعت کی ہے اور طلحہ و زبیر نے بیعت کرنے کے بعد عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور ام المومنین کو ان کے گھر سے بلا کر اپنے ساتھ بصرہ لے گئے۔ میں بھی ان کے پاس گیا اور ان سے کہاکہ اپنی بیعت پر واپس آجاؤ لیکن ان لوگوںنے قبول نہیں کیا میں نے بہت اصرار کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا...(۳)

پھر امام ـ نے ایک تاریخی کلام اشعث کے گوش گزار کیا:

''و ان عملک لیس لک بطعمة و لکنه امانة و فی یدیک مال من مال الله و انت من خُزَّان الله علیه حتی تسلِّمه الی ...'' (۴)

گورنری تمہارے لئے مرغن غذا کالقمہ نہیں ہے ،بلکہ ایک امانت ہے او رتمہارے پاس جومال ہے وہ خدا کا ہے اور تم اس مال کے لئے خدا کی طرف سے خزانہ دار ہو یہاں تک کہ وہ مجھے واپس کردو، تم جان لو کہ میں تم پر برا حاکم نہیں رہوں گا جب کہ تم سچائی کو اپنا ساتھی بنائے رکھو گے۔

_______________________________

(۱)قبیلۂ ہمدان (میم پر ساکن) یمن کا ایک مشہور قبیلہ ہے اور وہاں کے لوگ سچے اور امام سے گہرا تعلق اور محبت رکھتے تھے۔

(۲) الامامة و السیاس، ص ۳، زیاد بن کعب۔----(۳) الامامة و السیاس ص ۳ وقعۂ صفین ص ۲۱۔ ۲۰۔

(۴) الامامة و السیاسة ص ۸۳ وقعہ صفین، ص ۲۱۔ ۲۰ جو کچھ وقعہ صفین کے مولف نصر بن مزاحم نے لکھاہے، مرحوم سید رضی نے شروع کے کچھ حصے کو حذف کردیا ہے۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر۵، ابن عبد ربہ عقد الفرید، ج۳، ص ۱۰۴۔ ابن قتیبہ ، الامامة والسیاسة ج۱،ص ۸۳ نے جو کچھ نصر بن مزاحم نے نقل کیا ہے اسے بطور خلاصہ لکھا ہے ،رجوع کریں ، مصادر نہج البلاغہ ج۳، ص۲۰۲ شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج۴،ص ۳۵۰

۴۶۱

دونوں خط ایک وقت لکھا گیا جب کہ پہلے خط میں الفت و محبت کی چاشنی ہے لیکن دوسرے خط میں الفت و محبت کے ساتھ تندی اور تنبیہ بھی شامل ہے ان دونوں میں فرق کی وجہ دونوں حاکموں کی روحانی کیفیت ہے اشعث لوگوں سے امام ـ کی بیعت اور شناخت امام کے لئے بہت زیادہ مائل نہ تھا لہذا امام ـ کا خط ملنے کے بعد بجائے یہ کہ حاکم ہمدان کی طرح خود اٹھ کر امام ـ کے فضائل سے لوگوں کو آشنا کراتا اور لوگوں سے

آپ کی بیعت کا خواستگار ہوتا۔ اس نے خاموشی اختیار کی، یہی وجہ ہے کہ امام ـ کا قاصد و نمائندہ زیاد بن مرحب اپنی جگہ سے اٹھا اور عثمان کے قتل کی داستان اور طلحہ و زبیر کی بیعت توڑنے کے واقعات کو لوگوں کے سامنے بیان کیا اور کہا:

اے لوگو، وہ شخص جسے مختصر کلام قانع نہ کر سکے اسے طولانی کلام بھی قانع نہیں کرے گا، عثمان کا مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے متعلق گفتگو کر کے تمھیں قانع کیا جا سکے یقیناواقعہ کا سننا دیکھنے کی طرح کبھی نہیں ہوسکتاہے۔

اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ عثمان کے قتل کے بعد مہاجرین و انصار نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان دو آدمیوں (طلحہ و زبیر) نے بغیر کسی وجہ کے اپنی بیعت سے انکار کردیا اور بالآخر خدا نے علی کو زمین کا وارث بنا دیااور نیک اور اچھی عاقبت متقیوں کے لئے

۴۶۲

ہے۔(۱)

اس موقع پر اشعث کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا لہذا مجبوراً اس حاکم کی اطاعت کرنے کی بنا پر جنھیں مہاجر و انصار نے منتخب کیاتھا۔ مختصر طور پر ان کے بارے میں کچھ بیان کرے، لہذا وہ اٹھا اور کہنے لگا:

اے لوگو! عثمان نے اس علاقے (آذربائیجان) کی حاکمیت مجھے دی تھی وہ قتل ہوگئے حکومت میرے ہاتھ میں تھی اور لوگوں نے علی کی بیعت کی ان کی اطاعت ہمارے لئے ایسی ہی ہے جس طرح سے ہماری اطاعت پچھلے والوں کے ساتھ تھی، تم نے طلحہ و زبیر سے متعلق ماجراسنااور جو کچھ ہم سے پوشیدہ ہے ان امور میں علی مورد اعتماد ہیں۔(۲)

حاکم نے اپنی بات ختم کی اور اپنے گھر چلا گیا اور اپنے دوستوں ، چاہنے والوں کو بلایا اور کہا:

علی کے خط نے مجھے وحشت میں ڈال دیاہے وہ آذربائجان کی دولت و ثروت کو ہم سے لے لیں گے، لہذا ہمارے لئے بہتر ہے کہ ہم معاویہ سے ملحق ہو جائیں، مگر حاکم کے مشاوروں نے اس

کی مذمت کی، اور کہا: تمہارے لئے موت اس کام سے بہتر ہے کیا تم اپنے قبیلہ اوردیار کو چھوڑ دو گے اور شامیوں کی طرف جاؤ گے؟ اس نے مشاوروں کی بات کو تسلیم کرلیا، اور اپنے روابط کو مستحکم کرنے کے لئے کوفہ روانہ ہوگیا۔(۳)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین، ص ۲۱، الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۳۔ (۱) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۴۔ ۸۳، وقعۂ صفین، ص ۲۱۔

(۲) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۲۔

۴۶۳

بارہویں فصل

جنگ صفین کے علل و اسباب

امام ـ کا پیغام معاویہ کے نام

حضرت امیر المومنین ـ کی الہی و حقیقی حکومت قائم ہونے اور متقی و پرہیزگار حاکموں کو منصوب کرنے اور غیر متدین حاکموں کے معزول کرنے کے بعد سب سے اہم کام یہ تھا کہ امام ـ شجرۂ خبیثہ کے ریشہ کو شام کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکیں ، اور جامعہ اسلامی سے اس کے شر کو ختم کردیں، یہ ارادہ اس وقت اورقطعی ہوگیاجب ہمدان کے حاکم جریر کوفہ پہونچ گئے اور جب امام ـ کے ارادے سے باخبر ہوئے تو امام سے درخواست کی مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کا پیغام لے جاؤں اس نے کہا: معاویہ سے میری دوستی بہت پرانی ہے میں اس سے کہوں گا کہ آپ کی حقیقی حکومت کو رسمی طور پر پہچانے اور جب تک خدا کی اطاعت کرے گا اس وقت تک شام کا حاکم رہے گا۔

امام ـ نے اس کی آخری شرط کو سن کر خاموشی اختیار کی اور کچھ نہیں کہا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جریر کے اندر اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں ہے مالک اشتر نے امام ـ کی طرف سے نمائندگی اختیار کرنے پر جریر کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ معاویہ کے ساتھ ملا ہوا ہے لیکن امام ـ ان کی رائے کو نظر انداز کر کے جریر کو اس کام کے لئے چنا،(۱) اور آئندہ اس نے حضرت کے انتخاب کوصحیحثابت کردیا، جب امام ـ نے جریر کو روانہ کیا تو اس سے فرمایا، تم نے دیکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام اصحاب جو سب کے سب متدین ہیں میرے ساتھ ہیں۔ پیغمبر نے تجھے یمن کا ایک بہترین شخص کہا ہے تم میرا خط لے کر معاویہ کے پاس جاؤ اگر ان چیزوں پر جس میں مسلمانوں کا اتفاق ہے داخل ہوا تو بہتر ہے اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس سے کہو کہ اب تک جو خاموشی تھی اب وہ خاموشی ختم ہو جائے گی(۲) اور یہ بات اس تک پہونچا دو کہ میں ہرگز اسکے

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۵ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۸۴ (مطبوعہ بیروت) کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۱؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۳، ص ۷۴۔

(۲) حاکم اسلامی کو چاہئے کہ اعلان جنگ سے پہلے متوجہ کرے کہ جتنی بھی سابقہ امانتیں موجود ہیں وہ ختم ہوگئیں ہیں ، قرآن کریم نے اس مسئلہ کو صراحت سے بیان کیا ہے :''و اما نخافنَّ من قوم خیانة فانبذ الیهم علی سوائ'' سورۂ انفال، آیت ۵۸۔

۴۶۴

حاکم ہونے پر راضی نہ تھا۔ اور لوگ بھی اس کی جانشینی پر راضی نہیں ہوںگے۔(۱)

جریر امام ـ کا خط لے کر شام روانہ ہوا، جب معاویہ کے پاس پہونچا تو اس سے کہا: علی کے ہاتھ پر مکہ، مدینہ ، کوفہ، بصرہ ،حجاز، یمن، مصر، عمان، بحرین اور یمامہ کے لوگوں نے بیعت کی ہے اور سوائے اس قلعہ کے کہ جس میں تو ہے کوئی باقی نہیں ہے ،اور اگر وہاں کے بیابانوں سے طوفان جاری ہو اتو سب کو غرق کردے گا میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تجھے اس چیز کی دعوت دوں جس میں سچائی ہے اور اس شخص کی بیعت کی رہنمائی کروں۔(۲)

پھر اس نے امام ـ کا خط معاویہ کے حوالے کیا جس میں تحریر تھا:

مدینے میں (مہاجر و انصار کی میرے ہاتھ پر) بیعت نے شام میں تجھ پر حجت کو تمام کردیا ہے

اور تجھے میری اطاعت کرنے پر مجبور کیا ہے جن لوگوںنے ابوبکر ، عمر اور عثمان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی بالکل اسی طرح انہوں نے میری بھی بیعت کی ہے لہذا اس بیعت کے بعدنہ حاضرین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مخالفت کریںنہ ہی غائبین کو حق ہے کہ بیعت کو چھوڑ دیں۔شوریٰ (تمھاری رائے کے مطابق) مہاجرین و انصار کے حقوق میں سے ہے کہ اگر وہ لوگ کسی کی امامت پر متفق ہو جائیں اور اسے امام کا نام دیں تو یہ کام خدا کی مرضی کے مطابق ہے اور اگر کوئی ان کے فرمان و حکم کی مخالفت کرے یا تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرے، تو اسے اس کی جگہ پر بٹھا دیتے ہیںاور اگر سرکشی کرے گا تو اس سے غیر مومنین کی راہوں کی پیروی کرنے کے جرم میں جنگ کرتے ہیں اور خدا اسے وسط راہ میں چھوڑ دیتا ہے اور قیامت کے دن جہنم میں ڈال دے گا اور واقعاً یہ کیسا مقدر ہے۔(۳)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۲۸۔ ۲۷ تاریخ طبری ج۵ ص ۲۳۵۔

(۲) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۴۷ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۵، وقعۂ صفین ص ۲۸۔

(۳) اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ''وَمَنْ یُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیرًا ً '' (سورۂ نسائ، آیت ۱۱۵)

۴۶۵

طلحہ و زبیر نے میری بیعت کی پھر خود ہی بیعت کو توڑ دیا ،بیعت کو توڑنا بیعت کی مخالفت کرنا ہے (یعنی اے معاویہ تمھاری طرح) یہاں تک کہ حق آگیا اور خدا کا حکم کامیاب ہوا، میرے نزدیک بہترین کام تمھارے لئے سلامتی و عافیت ہے لیکن اگر تو نے خود کو بلا میںگرفتا رکیا تو تجھ سے جنگ کروں گا اور اس راہ میں خدا سے مدد طلب کروں گا، عثمان کے قاتلوں کے بارے تو نے بہت کچھ کہا تم بھی اسی چیز میں داخلہو جاؤ جس میں سارے مسلمان داخل ہوئے ہیںاور اس وقت مجھے کوئی واقعہ نہ سناؤ میں تمام لوگوں کو خدا کی کتاب کا پابند کروں گا (جو تو یہ کہہ رہا ہے کہ میں پہلے عثمان کے قاتلوں کو تمھارے حوالے کروں تاکہ تو میری بیعت کرے) تمہاری یہ درخواست ایسی ہی جیسے بچے کو دودھ کے لئے دھوکہ دیا جائے، میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اپنی عقل کو کام میں لاؤ نہ کہ خواہشات نفس کو، تو مجھے عثمان کے خون کے متعلق پاکیزہ فرد پاؤ گے اور یہ بھی جان لو کہ تم اسلام کے قیدی بننے کے بعد طلقاء اور آزادہ شدہ لوگوں میں سے ہو اور ایسے لوگوں کے لئے خلافت حلال نہیں ہے اور شوریٰ کا ممبر بنے کا بھی حق نہیں ہے ،میں نے تمہارے پاس یا جو لوگ تمہاری طرح دوسرے کاموں میں مشغول ہیں۔ ان کی طرف اپنے نمائندے جریر بن عبد اللہ جو کہ مومن و متدین ہیں روانہ کیا ہے تاکہ بیعت کرو اور اپنی وفاداری کا

۴۶۶

اعلان کرو۔(۱)

شام میں امام ـ کا نمائندہ

انسان کا نمائندہ اور سفیراس کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے اور اس کا مناسب انتخاب اس کی عقل کا مل کی حکایت کرتا ہے لہذا زمانہ قدیم کے بہت ہی عمیق مفکروں نے کہا ہے:

''حُسنُ الانتخابِ دلیلُ عقلِ المرئِ و مبلغُ رشدِہ''

یعنی اچھی چیز کا انتخاب انسان کی عقلمندی کی دلیل اور اس کے فکر کی میزان ہے۔

امام ـ نے معاویہ کی معزولی کا فرمان بھیجنے کے لئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو سیاسی اور حکومتی مسائل میں مہارت رکھتا تھا۔ اور معاویہ کو اچھی طرح سے پہچانتا تھا اور خود ایک شعلہ ورخطیب تھا اور یہ شخص جریر بن عبد اللہ بجلی تھا(۲) اس نے امام ـ کا خط معاویہ کو ایک عمومی جگہ پر دیا اور جب وہ خط پڑھ چکا توجریر

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۳۰۔ ۲۹، الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۵۔ ۸۴، عقد الفرید ج۴ ص ۳۲۲، تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۵ (مطبوعہ لیدن) ۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں معاویہ کے حالات کی شرح کرتے وقت اور مرحوم شریف رضی نے نہج البلاغہ میں اس خط کے ابتدائی حصے کو خذف کردیا ہے۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۶۔

(۲) اگرچہ وہ بعد میں اپنے وظیفے کی انجام دہی میں سستی اور کاہلی کی وجہ سے متہم تھا مگر اسکا جرم ثابت نہ تھا اور ہم اسکے بارے میں گفتگو کریں گے۔

۴۶۷

امام ـ کے ترجمان کے طور پر اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک بہت ہی عمدہ اور دل کو لبھا دینے والا خطبہ پڑھا اور اس خطبے میں خدا کی حمد وثناء اور محمد و آل محمد پر درود کے بعد کہا:

عثمان کے کام (پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے ذریعہ عثمان کا قتل ہونا) نے مدینہ میں حاضر رہنے والے لوگوں کو عاجز و ناتوان کردیاہے ان لوگوں کی کیا بات جو واقعہ کے وقت موجودنہ تھے اور لوگوں نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور طلحہ و زبیر بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ،لیکن بعد میں بغیر کسی دلیل کے اپنی بیعت کو توڑ دیا ،اسلام کا قانون فتنوں کو برداشت نہیں کرتا عرب کے لوگ تلوار کو برداشت نہیں کرتے ابھی بصرہ میں غم انگیز واقعہ رونما ہوا ہے کہ اگر یہ دوبارہ واقع ہو جائے تو کوئی بھی باقی نہ بچے گا جان لو کہ تمام لوگوں نے علی کی بیعت کی ہے اور اگر خدا نے اس کام کی ذمہ داری ہمارے حوالے کی ہوتی تو ہم بھی ان کے علاوہ کسی کو منتخب نہ کرتے ، اور جو لوگ بھی عمومی انتخاب کی مخالفت کریں گے ان کو متنبہ کیا جائے گا، (کہ وہ بھی لوگوں کے منتخب کردہ حاکم کو قبول کریں)۔

اے معاویہ جس طریقے سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو بھی اسی طرح داخل ہو جا، اور علی کو مسلمانوں کا رہبر مان لے، اگر تو یہ کہے کہ عثمان نے مجھے اس منصب و مقام پر معین کیا ہے اور ابھی تک معزول نہیں کیا ہے تو یہ ایسی بات ہے کہ اگر اسے مان لیا جائے تو خدا کے لئے کوئی دین باقی نہیں بچے گا، اور ہر شخص کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لے گا۔(۱)

جب امام ـ کے نمائندے کی تقریر ختم ہوئی تو اس وقت معاویہ نے کہا، صبر کرو تاکہ میں شام

کے لوگوں سے مشورہ کروں اور پھر نتیجے کا اعلان کروں۔(۲)

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۵، وقعۂ صفین ص ۳۱۔ ۳۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۷۔ ۷۶۔

(۲) شرح نہج البلاغہ، ج۳، ص ۷۷۔

۴۶۸

امام ـ کا بیعت لینے کا مقصد معاویہ کو معزول کرنا تھا

امام ـ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں سے ہی کبھی بھی کسی سے بیعت لینے کے لئے اصرار نہیں کیا۔ تو پھر معاویہ سے بیعت لینے کے لئے اتنا اصرار کیوں کیا؟ اس کی علت یہ تھی کہ آپ اس سے بیعت لے کر منصب سے معزول کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کے مال و حقوق کو اس سے واپس لے لیں؛ کیونکہ جن لوگوں نے حضرت علی ـ کے ہاتھ پر مسلمانوں کے امام کے اعتبار سے بیعت کی تھی ان لوگوں نے شرط رکھی تھی کہ آپ مسلمانوں کی وضعیت کو پیغمبر کے زمانے کی طرح دوبارہ واپس لائیںگے۔ اور ان کی مصلحتوں اور اسلام کو ترقی عطا کرنے میں کوتاہی نہ کریںگے، معاویہ جیسے افراد کی موجودگی ایسے کاموں کے لئے رکاوٹ تھی، اصل میں عثمان کے خلاف انقلاب اسی لئے برپا ہوا تھا کہ پچھلے تمام حاکم اور سردار اپنے منصب سے برطرف ہو جائیں اور دنیا پرست اور مالدار لوگ مظلوموں کا حق لوٹنے سے باز آجائیں۔

۴۶۹

معاویہ کی جانب سے شامیوںکو اس قضیہ سے آگاہ کرنا

ایک دن دربار معاویہ کے منادی نے شام کے کچھ گروہوں کو مسجد میں جمع کیا، معاویہ مبنر پر گیا اور خدا کی حمد و ثنا کی اور سر زمین شام کے صفات اس طرح بیان کئے کہ خدا نے اس سرزمین کو پیغمبروں اور خدا کے صالح بندوں کی زمین قرار دیا ہے اور اس زمین پر بسنے والوں کی ہمیشہ مدد کی ہے اس کے بعد کہا:

(اے لوگو) تمھیں معلوم ہے کہ میں امیر المومنین عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کا نمائندہ

ہوں، میں نے کسی کے ساتھ کوئی ایساکام نہیں کیا کہ میں اس سے شرمندہ ہو ں۔ میں عثمان کا ولی ہوں، جو مظلومیت کے ساتھ مارا گیا ہے اور خدا کہتا ہے کہ ''جو شخص مظلوم قتل ہوگا میں اس کے ولی کو طاقت وقوت عطا کروں گا، لیکن قتل کرنے میں اسراف نہ کرو؛ کیونکہ قتل ہونے والا خدا کی طرف سے مدد پاتا ہے۔(۱)

پھر اس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں عثمان کے قتل کے بارے میں تم لوگوں کا نظریہ معلوم کروں۔

اس وقت مسجد میں موجود سبھی لوگ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے، ہم لوگ عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔

پھر لوگوں نے اس کام کے لئے اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور سب نے ایک آواز ہو کر کہا کہ ہم سب اس راہ میں اپنی جان و مال قربان کردیں گے۔(۲)

معاویہ کی گفتگو کا ایک جائزہ

۱۔ معاویہ نے شام کی سرزمین کو انبیاء کی سرزمین اور شام کے لوگوں کو خدا کی شریعت و دین کا دفاع کرنے

_______________________________

(۱) سورۂ اسرائ، آیت ۳۳۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۸۔ ۷۷، وقعۂ صفین ص ۳۲۔ ۳۱۔

۴۷۰

والا بتایا تاکہ اس کے ذریعے وہ خود کو الہی قانون کا دفاع کرنے والا ثابت کرسکے اور لوگوں کے احساسات و جذبات سے فائدہ اٹھائے اور تمام لوگوں کو آپسی جنگ کے لئے تیار کرے۔

۲۔مقتول خلیفہ کو مظلوم بتایاکہ ان کا خون ظالموں کے گروہ نے بہایا ہے جب کہ ان کا قتل پیغمبر اسلام کے صحابہ اور تابعین کے ہاتھوں ہوا تھااور ان کی نظر میں صحابہ اور تابعین راہ حق کی پیروی کرنے والے اور عادل و انصاف پسند ہیں۔

۳۔ اگرہم فرض کریں کہ عثمان مظلوم قتل کئے گئے لیکن ان کا ولی قاتلوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے اور''ولی الدم'' سے مراد مقتول کے مال کا وارث ہے ،توکیا معاویہ ان کے مال کا وارث تھا یا کسی قریبی وارث ہونے کی وجہ سے اس کی نوبت نہیں آتی؟ یہ بات صحیح ہے کہ عثمان عفان کا بیٹا اور وہ ابو العاص بن امیہ کا بیٹا اور معاویہ ابوسفیان کا بیٹا اور وہ حرب بن امیہ کا بیٹا تھا۔ اور سب کا سلسلہ امیہ تک پہونچتا ہے لیکن کیا یہ دوری رشتہ، نزدیکی رشتہ داروں کے باوجود بھی کافی تھا، کہ معاویہ نے اپنے کو عثمان کے خون کا ولی بتایا؟

امیر المومنین ـ اپنے خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں:

''انّما انتَ رجل من بنی امیه و بنو عثمان اولی بذالک منک'' (۱)

تم امیہ کی اولاد سے ہو اور عثمان کے بیٹے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تم سے اولیٰ ہیں۔

یہ سب ایسے سوالات ہیں کہ جن کا جواب ابوسفیان کے بیٹے کے ضمیر کا پردہ فاش کردیں گے، اور یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ عثمان کے خون کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ حکومت پر قبضہ کر کے امام کو اس سے دور کرنا تھا کہ جس کے ہاتھوں پر مہاجرین و انصا رنے بالاتفاق بیعت کیا تھا اور سب سے زیادہ تعجب کی بات اس کا لوگوں سے مشورہ کرنا ہے، وہ جب لوگوں سے اس سلسلے میں مشورہ لے رہا تھا اسی وقت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اپنی قطعی رائے بھی پیش کی تھی او راس پر بہت سنجیدہ تھااس طرح کی صحنہ سازی کی روایت قدیمی ہے اور زبردستی اپنی بات منوانے کو ''مشورہ'' کانام دیاجاتا ہے ۔

تاریخ لکھتی ہے: اگرچہ معاویہ نے لوگوں کا مثبت جواب سنا،مگر اس کے دل میں خوف طاری

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین، ص ۵۸، الامامة والسیاسة، ج۱، ص ۹۲۔ ۹۱۔

۴۷۱

تھا اور کچھ اشعاروہ خود بخود پڑھ رہا تھا، جس کا آخری شعر یہ ہے:

و انی لارجوا خیر ما نال نائل

و ما أنا من ملک العراق بائس(۱)

میں ایک بہترین چیز کا امیدوار ہوں ، کہ امید خود اس کی امید وار ہے اور میں ملک عراق سے مایوس نہیں ہوں۔

اس نے اپنے اس مقصد تک پہونچنے کے لئے اپنے لالچی ساتھیوں کو بلایا اور اسی میں سے عتبہ بن ابوسفیان نے اس سے کہا: علی کے ساتھ اگر جنگ کرنا ہے تو اس کے لئے عمرو عاص کو بھی باخبر کرو اور اس کے دین کو خرید لو، کیونکہ وہ ایسا شخص ہے کہ عثمان کی حکومت سے بھی دور رہا، اور طبیعی ہے کہ تمہاری حکومت سے تو بہت دور رہے گا، مگر یہ کہ اسے درہم و دینار دے کر راضی کرلو۔(۲)

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۸۔

(۲) وقعۂ صفین ص ۳۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۹۔

۴۷۲

تیرہویں فصل

حضرت علی ـ سے مقابلے کے لئے معاویہ کے اقدامات

معاویہ کا خط عمرو عاص کے نام

عمرو عاص جو کہ میدان سیاست کا ایک چالاک بھیڑیا تھا او راس وقت مشہورومعروف فلسطین میںگوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا تھا معاویہ نے اس کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے اسے اس مضمون کا خط لکھا:

''علی اور طلحہ و زبیر کا واقعہ تونے سنا ہے ،مروان بن حکم بصرہ کے کچھ لوگوں کے ہمراہ شام آیا ہے اور جریر بن عبد اللہ علی کی طرف سے نمائندہ بن کر بیعت لینے کے لئے شام آچکا ہے میں نے ہر طرح کا فیصلہ کرنے سے پرہیز کیا ہے تاکہ تمہارا نظریہ معلوم کروں جتنی جلدی ہو شام آجاؤ تاکہ اس سلسلے میں رائے و مشورہ کیا جائے۔(۱)

جب یہ خط عمرو کے پاس پہونچا تو اس نے اس خط کے مفہوم کو اپنے دونوں بیٹوں عبد اللہ اور محمد کو بتایا، اور ان سے ان کا نظریہ معلوم کیا اس کا بڑا بیٹا جو تاریخ میں اچھے نام سے مشہور ہے (و اللہ اعلم) اس کا کہنا تھا:

جب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے بعد کے دو خلیفہ زندہ تھے سب کے سب تم سے راضی تھے اور جس دن عثمان کا قتل ہوا اس دن تم مدینہ میں نہ تھے۔ اس وقت کتنا بہتر ہے کہ تم خود اپنے گھر میں بیٹھتے اور بہت کم منافع حاصل کرنے کے لئے معاویہ کی حاشیہ نشینی چھوڑ دیتے، کیوں کہ خلافت تمہیں ہرگز نہیں مل سکتی، اور قریب ہے کہ تمہاری عمر کا سورج غروب ہو جائے اور زندگی کے آخری مرحلے میں بدبخت ہو جاؤ۔

لیکن اس کے دوسرے بیٹے نے اپنے بڑے بھائی کے خلاف نظریہ پیش کیا کہ معاویہ کی دعوت کو قبول کرے اور کہا : تم قریش کے بزرگوں میں سے ہو اور اگر اس امر میں خاموشی اختیار کر کے بیٹھ گئے تو لوگوں کی

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ص ۸۴، وقعہ صفین ص ۳۴۔

۴۷۳

نگاہوں میں تم ایک معمولی شخص رہوگے، اور حق شام کے لوگوں کے ساتھ ہے ان کی مدد کرو اور عثمان کے خون کا بدلہ لو اور ایسی صورت میں بنی امیہ اس کام کے لئے قیام کریں گے۔

عمرو عاص جو ایک ہوشیار و چالاک شخص تھا اس نے عبد اللہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہارا نظریہ میرے دین کے نفع میں ہے،جب کہ محمد کا نظریہ میرے دنیاوی فائدے کے لئے ہے اس سلسلے میں میں غور و فکر کروں گا، پھر اس نے کچھ اشعار پڑھا اور دونوں بیٹوں کے نظریات کو شعری انداز میں بیان کیا ،اس کے بعد اپنے چھوٹے بیٹے وردان کے سے پوچھا: اس نے کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے دل میں ہے اس کے بارے میں خبر دوں؟ عمرو نے کہا: بتاؤ تم کیا جانتے ہو اس نے کہا: دنیا و آخرت نے تمہارے دل پر حملہ کردیا ہے علی کی پیروی آخرت کے لئے سعادت کا باعث ہے جب کہ ان کی پیروی دنیاوی نہیں ہے لیکن آخرت کی زندگی دنیا کی ناکامیوں کے لئے قابل تلافی ہے، جب کہ معاویہ کا ساتھ دینے میں دنیا ملے گی مگر آخرت سے محرومی ہوگی، اوردنیا کی زندگی آخرت کی سعادتوں کے لئے قابل تلافی نہیں ہے اس وقت تم ان دونوں کے درمیان کھڑے ہو اور تمہاری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس کا انتخاب کرؤ۔

عمرو نے کہا: تم نے بالکل صحیح کہا ہے۔ اب بتاؤ کہ تمہارا نظریہ کیا ہے؟

اس نے کہا: اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھ جاؤ۔ اگر دین کامیاب ہوگیا تو تم اس کے سائے میں زندگی بسر کرنا اور اگر اہل دنیا کامیاب ہوئے تو وہ لوگ تم سے بے نیاز نہیں ہیں۔

۴۷۴

عمرو نے کہا: کیا اب اس وقت گھر میں بیٹھوں جب کہ معاویہ کے پاس میرے جانے کی خبر پورے عرب میں پھیل چکی ہے۔(۱)

وہ اندرونی طور پر ایک دنیا پرست انسان تھا ،لہذا معاویہ کا ساتھ دیا لیکن اپنے چھوٹے بیٹے کی گفتگو کو شعری قالب میں ڈھال دیا:

اما علی فدین لیس یشرکه

دنیا و ذاک له دنیا و سلطان

فاخترت من طمعی دنیا علی بصرٍ

و ما معی بالذی اختار برهان(۲)

علی کی پیروی میں دین ہے لیکن دنیا نہیں ہے جب کہ معاویہ کی پیروی کرنے میں دنیا اور قدرت ہے۔

میں نے اپنی لالچ و آرزو کی وجہ سے حقیقت جانتے ہوئے دنیا کو اختیار کیا لیکن اس کے قبول کرنے کے لئے میرے پاس کوئی عذر یا حجت نہیں ہے، پھر وہ شام کی طرف روانہ ہوگیا اور اپنے پرانے اور قدیمی دوست کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے لگا اور امام علی ـ کو صفحہء ہستی سے مٹانے کے لئے ایک نقشہ تیار کیا جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔

_______________________________

(۱) الامامة والسیاسة، ص ۸۷۔

(۲) وقعۂ صفین، ص ۳۶۔

۴۷۵

دو کہنہ کار سیاستدانوں کی ہمکاری

بالآخر ''بنی سھم'' کا پرانا اور قدیمی سیاست دان اور اپنے زمانہ کا معروف و مشہور عمرو عاص نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دیا اور فلسطین سے شام کی طرف روانہ ہوگیا تاکہ اس ضعیفی اور بڑھاپے میں دوسری مرتبہ مصر کا حاکم بن جائے۔وہ خوب جانتا تھا کہ معاویہ کو اس کی دور اندیشی اور تدابیر کی ضرورت ہے لہٰذا اس نے سوچاکہ اس کی مددکرنے کے بدلے اس سے زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرے(۱) اور گفتگو کے دوران مطالب کو وقفہ ، و قفہ سے بیان کیا تاکہ معاویہ کی فکر و نظر کو اپنی طرف جذب کر لے۔

گفتگو کی پہلی نشست میں معاویہ نے تین مشکلیں بیان کیں جن میں ایک یہ تھی کہ علی ـ کی سر زمین شام پر حملہ کرنے کے ارادے نے تمام چیزوں سے زیادہ میرے ذہن کوالجھن میں ڈال دیاہے یہاں ہم بغیر کسی کمی و زیادتی کے ان دونوں کی گفتگو کو نصر بن مزاحم کی ''تاریخ صفین'' سے نقل کر رہے ہیں۔

معاویہ : کافی دنوں سے تین چیزوں نے میرے ذہن و فکر کو اپنی طرف مشغول کر رکھا ہے اور میں مسلسل اس بارے میں سوچ رہا ہوں، تم سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی حل پیش کرو۔

عمرو عاص : وہ تینوں مشکلیں کیا ہیں؟

معاویہ: محمد بن ابی حذیفہ نے مصر کا قید خانہ توڑ ڈالا ہے اور وہ دین کے لئے آفت ہے (یعنی حکومت معاویہ کیلئے)

(وضاحت: عثمان کی خلافت کے زمانے میں مصر کے تمام امور کی ذمہ داری عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح پر

_______________________________

(۱)الامامةوالسیاسة،ج۱،ص۸۷۔

۴۷۶

تھی اور محمد بن ابی حذیفہ ان لوگوں میں سے تھا جس نے لوگوں کو حاکم مصر کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا تھا عثمان کے قتل کے بعد اس کا حاکم لوگوں کے خوف سے مصر چھوڑ کر چلا گیا اور اپنی جگہ پر اپنے نمائندے کو منصوب کردیا، لیکن ابو حذیفہ کے بیٹے نے حاکم کے نمائندے کے خلاف لوگوں کو تشویق و رغبت دلائی اور بالآخر اسے مصر سے نکال دیا اور خود وہاں کی ذمہ داریوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حضرت علی ـ کی خلافت کے ابتدائی دور میں مصر کی حاکمیت قیس بن سعد کو دی گئی اور محمد کو

معزول کردیاگیا، جب معاویہ نے مصر پر قبضہ کیا تو محمد کو قید خانے میں ڈال دیا لیکن وہ اور اس کے ساتھی کسی صورت سے قید خانے سے بھاگ گئے،(۱) جی ہاں، محمد بن ابی حذیفہ بہت زیادہ فعال اور حادثہ کا ایجاد کرنے والا تھا، اور وہ معاویہ کا ماموں زاد بھائی تھا)۔

عمرو عاص: اس واقعہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے تم ایک گروہ کو بھیج کر اسے قتل کرواسکتے ہو یا وہ لوگ قید کر کے زندہ تیرے حوالے کرسکتے ہیں ، لیکن اگر یہ لوگ اسے گرفتار نہ کرسکے تو وہ اتنا خطرناک نہیں ہے کہ تمہاری حکومت کو تم سے چھین لے۔

معاویہ: قیصر روم، رومیوں کے گروہ کے ساتھ شام کی طرف چلنے والا ہے تاکہ شام کی حکومت ہم سے واپس لے لے۔

عمرو عاص: قیصر روم کی مشکلات کو ہدیہ وغیرہ مثلاً روم کے غلاموں اور کنیزوں اور سونے چاندی کے برتن وغیرہ بھیج کر دور کرو، اور اسے صحت و سلامتی کی زندگی دے کر دعوت کرو کہ عنقریب وہ اس کام میں شریک ہوگا۔

معاویہ: علی نے کوفہ میں قیام کیا ہے اور شام کی طرف بڑھ رہے ہیں اس مشکل کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟

عمرو عاص: عرب ہرگز تجھے علی جیسا نہیں سمجھتے ، علی جنگ کے تمام رموز و اسرار سے آشنا ہیں اور قریش میں ان کی مثال نہیں ہے، وہ اس حق کی بنا پر صاحب حکومت ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہے مگر یہ کہ تم

ان پر ظلم و ستم کرو اور ان کے حق کو سلب کرلو۔

_______________________________

(۱) اسد الغابہ، ج۴، ص ۳۱۶۔ ۳۱۵۔

۴۷۷

معاویہ: میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے جنگ کرو کہ اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور خلیفہ کو قتل کردیا ہے اور فتنہ پیدا کردیا اور اتحاد کو درہم برہم کردیا اور رشتہ داری کو توڑ دیا ہے۔

عمرو عاص: خدا کی قسم، تم اور علی ہرگز شرف و فضیلت میں برابر نہیں ہو تم نہ ان کی ہجرت کی فضیلت رکھتے ہو نہ ان کے دیگرسوابق کی فضیلت رکھتے ہو، نہ ان کی طرح تم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہے ہو نہ تم نے ان کی طرح مشرکوں سے جہاد کیا ہے نہ ان کی طرح تمہارے پاس عقل و دانش ہے ، خدا کی قسم علی کی فکر بہت عالی ، ذہن بہت صاف اور وہ ہمیشہ سعی وکوشش میں رہے ہیں، وہ با فضیلت اور سعادت مند اور خدا کے نزدیک کامیاب انسان ہیں، ایسے بافضیلت شخص کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے مجھے کیا قیمت دو گے کہ میں تمہارا ساتھ دوں؟ تمہیں معلوم ہے کہ اس ہمکاری میں کتنے خطرے موجود ہیں۔

معاویہ: تمہیں اختیار ہے، تمہیں کیا چاہئے؟

عمرو عاص: مصر کی حکومت۔

معاویہ: (جب کہ وہ دھوکہ کھا چکا تھا) اس نے مکاری کے طور پر دنیا و آخرت کے مسئلے کو سامنے رکھا، اور کہا: میں نہیں چاہتا کہ عرب تمہارے بارے میں اس طرح کی فکر کریں کہ تم دنیاوی غرض کے لئے ہمارے ساتھ جنگ میں شامل ہوئے ہو، کتنا اچھا ہوگا کہ وہ لوگ یہ کہیں کہ تم نے خدا کی مرضی اور آخرت کی اجرت لینے کے لئے ہمارا ساتھ دیا، اور کبھی بھی دنیا کی معمولی اور چھوٹی چیز آخرت کے اجر کے برابر نہیں ہو سکتی۔

عمرو عاص: ان بے ہودہ باتوں کا ذکر نہ کرو۔(۱)

معاویہ: میں اگر تجھے دھوکہ دینا چاہوں تو دے سکتا ہوں۔ عمرو عاص: مجھ جیسا آدمی دھوکہ نہیں کھا سکتا، میں اس سے بھی زیادہ چالاک ہوں جتنا تم سوچ رہے ہو۔

معاویہ: میرے نزدیک آؤ تاکہ تم سے اصلی راز بیان کروں۔

_______________________________

(۱) ابن ابی الحدید اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص ۶۵، مطبوعہ مصر، میں لکھتا ہے: میں نے اپنے استاد ابو القاسم بلخی سے کہا کہ یہ عمرو عاص کی گفتگو آخرت پر ایمان نہ رکھنے اور اس کے بے دینی کی وجہ سے نہیں ہے؟ انھوںنے جواب دیا: عمرو عاص نے اصلا ًاسلام قبول ہی نہیں کیا تھا، اور اپنے کفر پر باقی تھا۔

۴۷۸

عمرو عاص اس کے قریب گیا اور اپنے کان کو معاویہ کے منھ کے پاس لے گیا تاکہ اس کے اصلی راز کو سنے ،اچانک معاویہ نے اس کے کان کو زور سے دانتوں میں دبا لیا کہا: کیا تم نے دیکھا میں تم کو دھوکہ دے سکتا ہوں، پھر اس نے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ مصر عراق کی طرح ہے اور دونوں بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔

عمرو عاص: ہاں میں جانتا ہوں، لیکن عراق تمہارے قبضے میں اسی وقت ہوگا جس وقت مصر پر میرا قبضہ جب کہ عراق کے لوگوں نے علی کی اطاعت کی ہے اور ان کی رکاب میں رہتے ہوئے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں ۔

اس موقع پر جب کہ دو سوداگر بحث و مباحثہ میں غرق تھے معاویہ کا بھائی عتبہ بن ابوسفیان وہاں آ پہونچا اور کہا: عمرو کو مصر کی سرزمین دے کر کیوں نہیں خرید لیتے؟ کاش کہ یہی حکومت شام تمہارے لئے باقی رہے اور کوئی دوسرا اس میں مداخلت نہ کرے۔ اس وقت اس نے کچھ شعر کہا اور اس میں عمرو عاص کی معاویہ کے ساتھ نصرت و مدد کو ظاہر کیاجس کا ایک شعر یہ ہے:

اعط عمرواً ان عمرواً تارک

دینه الیوم لدنیا لم تجز(۱)

جو کچھ عمرو کی خواہش ہے اسے دیدو، اس نے آج اپنے دین کو دنیا کے لئے چھوڑ دیا ہے۔

بالآخر معاویہ نے سوچاکہ جیسے بھی ممکن ہو عمرو کی مدد کو اپنی طرف جذب کرے اور اس کی خواہش کو پورا کرے، لیکن عمرو اس کے مکر و فریب کی وجہ سے مطمئن نہیں تھا۔ اس نے یہ سوچا کہ کہیںایسا نہ ہو کہ معاویہ مجھ سے ایک کامیابی کی سیڑھی کی طرح استفادہ کرے اور کام ختم ہوتے ہی اسے اپنے سے دور کردے، لہذا اس نے معاویہ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ضروری ہے کہ اس تعہد اور معاملے کو کاغذ پہ لکھا جائے اور اس کے متعلق شرائط لکھی جائیں اور دونوں آدمی اپنے اپنے دستخط کریں۔

_______________________________

(۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی تقریر میں ایک شرعی مسئلہ کی طرف یاد دہانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لاتبع ما لیس عندک'' یعنی جس چیز کے تم مالک نہیں ہو اسے نہ بیچو، اب اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ عمرو نے مصر کی حکومت کے مقابلے میں کیا چیز بیچی ہے اور کس چیز کواپنے ہاتھوں سے گنوا دیا ہے وہ بقولے ابن ابی الحدید ، معاویہ سے معاملہ کرتے وقت بھی بے دین و بے ایمان تھا اور حقیقتاً اس معاملہ کو بھی اس مکر و فریب کے ذریعے انجام دیا تھا ، اور بغیر کسی اجرت کے مصر کی حکومت کو خرید لیاتھا۔

۴۷۹

تعہد نامہ لکھا گیا اور دونوںنے اپنے دستخط کیا لیکن دستخط کرنے والوں نے اپنے دستخط اور مہر کے سامنے ایک ایک جملے کا اضافہ کیااور اپنے فریب و نفاق کو ظاہر کردیا۔ معاویہ نے اپنے نام کے پاس لکھا:علیٰ ان لا ینقض شرط طاعةً '' یعنی ، یہ تعہد اس وقت تک معتبرہے جب تک شرط کرنے والااطاعت کو نہ توڑے، عمرو نے بھی اپنے نام اور مہر کے آگے ایک جملے کا اضافہ کیا،علیٰ ان لا تنقض طاعة شرطاً، (۱) یعنی شرط یہ ہے کہ اطاعت کرنے والا شرط کو نہ توڑے۔

ان دونوں نے یہ دو قیدیں لگا کر ایک دوسرے کو دھوکہ دیا اور خلاف ورزی کے راستے کو آشکار کردیا، کیونکہ اس قید کے لگانے سے معاویہ کا مقصد یہ تھا کہ عمرو نے بغیر کسی شرط و قید کے مطلقاً معاویہ کی بیعت کی ہے اور اگر معاویہ اسے مصر کی حکومت نہ دے تو اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس وجہ سے کہ معاویہ نے اپنے عہد و شرط کی وفا نہیں کی ہے اس بہانے سے اپنی بیعت توڑ دے، لیکن جب اس کا قدیمی دوست معاویہ کے اس مکر وفریب سے آگاہ ہوا تو اس نے اس راہ ہموار پر روک لگادی اور لکھا کہ میری بیعت اس وقت تک معتبر ہے کہ معاویہ اپنی شرط (مصر کی حکومت) کو نہ توڑے اور معاویہ مصر کو عمرو کے حوالے کرے۔حقیقت میں دونوں سیاست کے میدان میں لومٹری صفت تھے اور کبھی بھی ان کے پاس نہ دینی تقویٰ تھا اور نہ ہی سیاسی تقویٰ تھا۔عمرو اس معاملے کے بعد پھولے نہیں سما رہا تھا، معاویہ کے گھر سے نکلا اور جو لوگ باہر اس کا انتظار کر رہے تھے ان سے ملاقات کی اوران کے درمیان درج ذیل سوالات و جوابات ہوئے:

عمرو کے بیٹے: بابا بالآخر کیا نتیجہ نکلا؟

عمرو: مجھے مصر کی حکومت دی ہے۔

عمر کے بیٹے: ملک عرب کی بہادری و طاقت کے مقابلے میں مصر کی حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

عمرو: اگر سرزمین مصر سے تم سیر نہیں ہوئے تو خدا تمہیں کسی چیز سے سیر نہ کرے۔(۲)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۰۔

(۲) وقعۂ صفین، ص ۴۰۔ ۳۷، الامامة و السیاسة، ص ۸۸۔ ۸۷۔ (تھوڑے فرق کے ساتھ)

۴۸۰