فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341320
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341320 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نہیں ہے، یہاں تک کہ معاویہ کے عوامل نفوذی میں سے ایک بنام ''اربد'' امام علیہ السلام پر اعتراض کے سبب ، وہ بھی نازک وقت میں لوگوں کے لات وگھونسوں کا نشانہ بنا، اور اس کے قاتل کی پہچان نہ ہوسکی۔(۱)

اس حادثہ کا سبب یہ ہوا کہ دوسرے عوامل نفوذی اپنے امور کو انجام دینے سے باز آجائیں اور امام علیہ السلام کے ارادے کو سست کرنے اور رخنہ اندازی ڈالنے کے لئے کوئی دوسرا طریقہ اپنائیں تاکہ اس کے ذریعے سے امام علیہ السلام کو جنگ سے روک دیں اور یہ معلوم نہیں کہ کس گروہ کو نفع حاصل ہو ان کو ڈرائیں اسی وجہ سے رخنہ اندازی کرنے والوں میں ایک قبیلہ عبس (شایدغطفان کا باشندہ ) اور دوسرا قبیلہ بنی تمیم سے جن کے نام عبداللہ اور حنظلہ تھے ،نے ارادہ کیا کہ امام علیہ السلام کے دوستوں کے درمیان نظریاتی اختلاف پیدا کریں اور خیر خواہی اور نصیحت کا طریقہ اپنائیں لہٰذا دونوں نے اپنے قبیلے والوں کو اپنا ہم خیال بنالیا اور پھر امام علیہ السلام کے پاس آئے پہلے حنظلہ تمیمی نے کہا:

ہم لوگ خیر خواہی اور بھلائی کے لئے آپ کے پاس آئے ہیں امید ہے کہ آپ ہماری باتوں کو قبول کریں گے، ہم لوگ آپ کے اور ان لوگوں کے بارے میں جو آپ کے ساتھ ہیں سوچ رہے ہیں کہ اس مرد (معاویہ) سے خط وکتابت کریں اور شامیوں کے ساتھ جنگ کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ۔ خدا کی قسم کوئی بھی نہیں جانتا کہ دونوں گروہوں کے درمیان مقابلے میں کون گروہ کامیاب ہوگا اور کس گروہ کو شکست ہو گی۔پھر عبید اللہ عبسی اٹھا اور حنظلہ کی طرح اس نے بھی گفتگو کی اور جو لوگ ان دونوں کے ساتھ آئے تھے ان لوگوں نے ان دونوں کی تائید کی ۔

امام علیہ السلام نے خدا کی حمد وثناء کے بعد ان لوگوں کے جواب میں فرمایا:

'' خداوند عالم انسانوں اور، اس سرزمین کا وارث ہے، آسمانوں اور ساتوں زمین کا پروردگار ہے ہم سب کے سب اسی کی بارگاہ میں پلٹ کر جائیں گے وہ جس شخص کو چاہتا ہے سرداری عطا کرتاہے، اور جس شخص سے چاہتاہے سرداری کو روک دیتا ہے، جس شخص کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس شخص کو چاہتا ہے

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۹۴

۵۲۱

ذلیل خوار کردیتا ہے دشمن کی طرف پشت کرنا گمراہوں اور گنہگاروں کا کام ہے اگرچہ ظاہری طور پر کامیابی اور غلبہ پاجائیں ۔ خدا کی قسم میں ایسے لوگوں کی باتیں سن رہا ہوں جو ہرگز اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ اچھائیوں کو پہچانیں اور برائیوں سے انکار کریں''(۱) امام علیہ السلام نے اپنے کلام کے ذریعے ان دونوں جاسوسوں کو جو لوگوں سے اپنے کوپوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کی طرف سے گفتگو کررہے تھے ذلیل ورسوا کردیا اور واضح لفظوں میں فرمایا کہ معاویہ کے ساتھ جنگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک حصہ ہے اورکوئی بھی مسلمان اس وجوب سے انکار نہیں کرسکتا اور وہ لوگ جو ان لوگوں کو معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روک رہے ہیں حقیقت میں وہ اسلام کے ان دو اصولوں کو پامال کررہے ہیں ۔

پردے فاش ہونے لگے

امیرالمومنین علیہ السلام کی گفتگو کا اثر یہ ہوا کہ حقیقت سب پر آشکار ہوگئی اور اسی مجمع میں دونوں جاسوس بے نقاب ہوگئے،لہٰذا معقل ریاحی نے اٹھ کر کہا، یہ گروہ خیر خواہی کے لئے آپ کی طرف نہیں آئے ہیں بلکہ آپ کو بہکانے کے لئے آئے ہیں ان سے دور رہئیے کیونکہ یہ لوگ آپ کے قریبی دشمن ہیں۔(۲) اسی طرح مالک نامی شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہنے لگا: حنظلہ کی معاویہ سے خط وکتابت ہے آپ اجازت دیجیئے کہ جنگ شروع ہونے تک اسے قید کردوں ، قبیلہ عبس کے دوآدمی ، عیاش اور قائد نے کہا: خبر ملی ہے کہ عبداللہ کا معاویہ کے ساتھ رازونیاز ہے اور دونوں کے درمیان خط وکتابت ہوتی ہے آپ اسے قید کر لیجئے یا اجازت دیجیے کہ ہم لوگ اسے جنگ شروع ہونے تک قید رکھیں۔(۳) ان چار افراد کی حقیقت بیانی کا سبب یہ ہوا کہ جاسوس بے سرو پا ہو کر کہنے لگے: یہ اس شخص کی جزا ہے جو آپ کی مدد کے لئے آیا اور اپنے نظریہ کو آپ کے اور آپ کے دشمنوں کے بارے میں بیان کیا؟ امام علیہ السلام نے ان لوگوں کے جواب میں فرمایا : خدا وند عالم ہمارے اور تمہارے درمیان حاکم ہے میں تم لوگوں کو اس کے سپرد کررہاہوں اور اسی سے مدد حاصل کروں گا جو شخص جاناچاہتا ہے چلا جائے امام نے یہ بات کہی اور لوگ منتشر ہوگئے، چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ حنظلہ اور قبیلہ تمیم کے بزرگوں کے درمیان ایک

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۹۶۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۵

(۲)،(۳) واقعہ صفین ص ۹۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۵

۵۲۲

جھڑپ ہوئی جس کی وجہ سے دونوں نفوذی عامل اپنے گروہ کے ساتھ عراق سے شام کی طرف روانہ ہوگئے اور معاویہ سے جاکر مل گئے، امام علیہ السلام نے حنظلہ کی خیانت کی وجہ سے حکم دیا کہ اس کے گھر کو ویران کردیا جائے تاکہ دوسروں کے لئے درس عبرت ہو۔(۱)

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۶۔وقعہ صفین ص ۹۷

۵۲۳

انتظار یا شام کی طرف روانگی

فوج کے تمام سپہ سالار او ر امام علیہ السلام کے چاہنے والے ابو سفیان کے بیٹے کو نیست ونابود کرنے کیلئے متفق تھے سوائے چند لوگوں کے مثلاً عبداللہ بن مسعود کے اصحاب جو خود اپناخاص نظریہ رکھتے تھے ( ان کے نظریات آئندہ بیان ہوں گے)

لیکن انہی افراد کے درمیان امام علیہ السلام کے مورد وثوق اور مخلص لوگ،مثلاً عدی بن حاتم ، زید بن حسین طائی تاخیر کے خواہاں تھے شاید خط وکتابت اور بحث ومباحثے کے ذریعے مشکل ختم ہوجائے ، لہٰذا عدی نے امام علیہ السلام سے کہا:اے امام! اگر مصلحت ہو تو تھوڑا صبر کیجیے اور ان لوگوں کو کچھ مہلت دیجئے تاکہ ان لوگوں کا جواب آجائے اور آپ کے بھیجے ہوئے افرادان سے گفتگو کریں اگر قبول کرلیا تو ہدایت پا جائیں گے اور دونوں کے لئے صلح بہتر ہے اور اگر اپنی کٹ حجتی پر اڑے رہے تو ہمیں ان سے مقابلے کے لئے لے چلئے۔

لیکن ان لوگوں کے مقابلے میں علی علیہ السلام کے لشکر کے اکثرسپہ سالار شام جانے کے لئے بیتاب تھے ان میں سے یزید بن قیس ارحبی ، زیاد بن نضر ، عبداللہ بن بدیل ، عمرو بن حمق(دوبزرگ صحابی) اورمعروف بابعی حُجر بن عدی بہت زیادہ اصرار کررہے تھے اور اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے ایسے نکات کی یاد دہانی کررہے تھے جو ان کے نظریہ کو صحیح ثابت کررہے تھے۔

مثلاً عبداللہ بن بدیل کا نظریہ یہ تھا :

وہ لوگ ہم سے دو چیزوں کی وجہ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں :

۵۲۴

۱۔ وہ لوگ مسلمانوں کے درمیان مساوات سے فرار کر رہے ہیں اور مال ودولت اور منصب میں

تبعیض کے قائل ہیں اور جو مقام ومنصب رکھتے ہیں اس میں بخل سے کام لیتے ہیں اور جس دنیا کو حاصل کرچکے ہیں اسے گنوانا نہیں چاہتے۔

۲۔ معاویہ ،علی علیہ السلام کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کرے جب کہ امام علیہ السلام نے ایک ہی دن میں اس کے بھائی ،ماموں اور نانا کو جنگِ بدر میں قتل کیا ہے، خدا کی قسم مجھے امید نہیں ہے کہ وہ لوگ تسلیم ہوں گے مگر یہ کہ ان کے سروں پر نیزے ٹوٹیں اور تلواریں ان کے سروں کو پارہ پارہ کردیں اور لوہے کی سلاخیں ان کے سروں پر برس پڑیں۔

عبداللہ کی دلیلوں سے یہ بات واضح وروشن ہوتی ہے کہ شام کی طرف روانہ ہونے میں جتنی بھی تاخیر ہوگی اتنا ہی دشمن کو فائدہ اور امام علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نقصان پہونچے گا ، لہٰذا امام کے ایک چاہنے والے ، یزید ارجی نے امام علیہ السلام سے کہا:

'' جنگ کرنے والے افراد سستی اور کاہلی سے کام نہیں لیتے اور جو کامیابی انہیں نصیب ہوتی ہے ہرگز اسے اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے اوراس سلسلے میں آج اور کل پر بات نہیں ٹالتے(۱)

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۷۔وقعہ صفین ص ۱۰۲۔۹۸

۵۲۵

غیظ وغضب میں بردبار ی

اسی اثناء میں امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ بزرگ صحابی عمروبن حمق اور حجر بن عدی شام والوں پر

لعنت وطعن کررہے ہیں(۱) امام علیہ السلام نے کسی کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو اس کام سے منع کرے وہ لوگ امام علیہ السلام کا پیغام سن کر امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا: کیوں آپ نے ہمیں اس کام سے روکا؟ کیا وہ لوگ اہل باطل سے نہیں ہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: کیوں نہیں لیکن '' مجھے پسند نہیں ہے کہ تم لوگ لعنت کرنے والے او ربراکہنے والے بنو، گالی نہ دو اور نفرت نہ کرو اگر اس کی جگہ ان کی برائیوں کو بیان کرو توبہت زیادہ مؤثر ہوگا اور اگر لعنت اور ان سے بیزاری کرنے کے بجائے کہوکہ ، خدا یا ہمارے خون اور ان کے خون کی حفاظت فرما ۔ ہمارے اور ان کے درمیان صلح قراردے ، ان لوگوں کو گمراہی سے ہدایت عطا کرتاکہ جولوگ ہمارے فضائل وکمالات سے بے خبر ہیں اس سے وہ باخبر وآشنا ہوجائیں تو یہ میرے لئے

۵۲۶

خوشی کا باعث اور تمہارے حق میں بہتر ہوگا''(۱)

دونوں افراد نے امام علیہ السلام کی نصیحتوں کو قبول کرلیا اور عمروبن حمق نے امام علیہ السلام سے اپنی الفت ومحبت کو ان الفاظ میں بیان کیا:

'' میں نے رشتہ داری یا مال ومقام کی لالچ کے سبب آپ کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کی ہے بلکہ بیعت کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے اندر ایسی پانچ اہم صفتیں ہیں جن کی وجہ سے میں نے آپ کی محبت کو اپنے اوپر فرض کیا ہے ،آپ پیغمبر (ص)کے چچا زادبھائی ہیں اور آپ ہی سب سے پہلے وہ شخص ہیں جو ان پر ایمان لائے ہیں اور آپ اس امت کی سب سے بہترین اور پاکیزہ عورت کے شوہر ہیں، آپ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت ِ طاہرہ کے باپ ہیں اور مہاجرین کے درمیان جہاد کرنے والوںمیں سب سے زیادہ اور عظیم حصہ آپ کا ہے ، خدا کی قسم اگر مجھے حکم دیں کہ بلند پہاڑوں کو اس کی جگہوں سے ہٹادوں اور دریا کے پانی کو ان سے نکالوں اور جہاں تک ممکن ہو آپ کے دوستوں کی مدد کروں اور آپ کے دشمنوں کو نابود کردوں تو بھی جو حق آپ کا میری گردن پر ہے میں اسے ادا نہیں کرسکتا۔

امیر المومنین علیہ السلام نے جب عمرو کے خلوص وجذبہ کا مشاہدہ کیا تو ان کے حق میں یہ دعا فرمائی''اللهم نوّر قلبه بالتقیٰ وأیدهُ الیٰ صراط مستقیم لیت أنَّ فِی جُندی مأةٍ مثلک فقال حُجر اِذاً واللّه یاأمیر المومنین صحّ جُندک و قلَّ من یَغشّیک '' (۲)

خدا اس کے قلب کو نورانی بنادے اور اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما کاش میری فوج میں تمہاری طرح کے سو افراد ہوتے۔حُجر نے کہا: اگر ایسا ہوتا ،توآپ کی فوج اصلاح کو قبول کرتی اور متقلّب (بدلنے والے) افراد اس میں بہت کم ہوتے۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۰۳،نہج البلاغہ،خطبہ ۱۹۷، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۸۱۔ اخبارالطوال ص ۱۵۵ تذکرہ الخواص ابن جوزی ص ۱۵۴ ۔ مصادر نہج البلاغہ ج۳ص۱۰۲

(۲)وقعہ صفین ص ۱۰۴۔۱۰۳

۵۲۷

امام علیہ السلام کا آخری فیصلہ

امام علیہ السلام اپنے موافقوں اور مخالفوں کی گفتگوؤں کو سننے کے بعد اس آیت '' وشاورھم فی الأمر فاذا غرمت فتوکل علی اللّہِ '' کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہونچے کہ خود کوئی قطعی فیصلہ کریں ۔ لہٰذا ہر کام سے پہلے یہ حکم دیا کہ جتنے بھی ذخیرے یا اضافی مال حاکموں کے پاس ہیں انہیں ایک جگہ جمع کیا جائے تاکہ فوج کو شام روانہ کرتے وقت ان کے اخراجات مہیا ہو سکیں ۔

جہاد اسلامی کے تین اہم رکن

جنگ اور قرآن کے مطابق '' جہاد'' یا ''قتال'' کے لئے بہت سے مقدمات ( چیزوں ) کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سب سے اہم تین چیزیں ہیں۔

۱۔ بہترین وطاقتور اور بہادر جانباز وسپاہی ۔

۲۔ لائق اور عمدہ سپہ سالار۔

۳۔ اخراجات کا کافی مقدار میں ہونا۔

مختلف طرح سے آزمانے اور لوگوں کی طرف سے مستقل دعوت ناموں اور بہت زیادہ گروہوں مثلاً عراق کے بہت سے قبیلوں کا امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہنے نے ان تینوں اہم رکنوں میں سے پہلے رکن کو تو پورا کردیا ،اس بارے میں امام علیہ السلام کے لئے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن ان کو اپنے ارادے پر باقی رکھنے کے لئے عظیم شخصیتوں مثلاً خود آپ کے بیٹوں امام حسن مجتبیٰ وحضرت حسین علیھما السلام اور ان کے باوفا اصحاب اسی طرح عماریاسروغیرہ نے مختلف موقعوں پر تقریریں کیں اور دوسرے رکن کی انجام دہی کے لئے امام علیہ السلام نے محترم اور عظیم شخصیتوں کے پاس خط لکھا اور ان لوگوں کوجنگ میں شریک ہونے کے لئے دعوت دی ، ان افراد کے وجود نے علاوہ اس کے کہ امام علیہ السلام کے لشکر کو معنویت اور جذبہ عطا کیا اورخود جہاد کو باحیثیت اور معنویت سے پُرکردیا لشکر کی طاقت میں بھی اضافہ کردیا ، یہاں پر ہم صرف امام علیہ السلام کے اس خط کا ترجمہ پیش کرنے پر اکتفا کریں گے جو آپ نے اصفہان کے حاکم مخنف بن سلیم کے نام لکھا ، خط کا مضمون یہ ہے:

۵۲۸

'' تجھ پر سلام : اس خدا کی حمد وثناء جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اما بعد، اس شخص سے جنگ کرنا عارفوں پر لازم ہے جس نے حق سے منہ موڑ رکھا ہے اور خواب غفلت کی وجہ سے اس کے دل اندھے اور گمراہی کے دلدل میں پھنس گئے ہیں۔

جو لوگ خداوند عالم کی مرضی پر راضی ہیں خدا ان سے راضی ہے اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں خدا ان پر غضبناک ہوتاہے، ہم نے ارادہ کیاہے کہ اس گروہ کی طرف جائیں جو بندگان خدا کے بارے میں جس چیز کا خداوند عالم نے حکم دیا ہے اس کے خلاف عمل کرتاہے اور بیت المال کو اپنا مال سمجھ بیٹھا ہے اور حق کو پامال کرکے باطل کو ظاہر کردیا ہے اور خدا کی اطاعت نہ کرنے والوں کو اپنا راز دار بنالیا ہے اگر خدا کا کوئی ولی ومطیع ان بدعتوں کو بزرگ شمار کرتا ہے تو وہ لوگ اسے اپنا دشمن تصور کرتے ہیں اسے اس کے گھر اور علاقے سے باہر نکال دیتے ہیں اور اُسے بیت المال سے محروم کردیتے ہیں اوراگر کوئی ظالم ان کے ظلم میں شریک ہوتاہے تو وہ اسے اپنا دوست سمجھتے ہیں اور اُسے اپنا قریبی تصور کرتے ہیں اور اس کی دلجوئی کرتے ہیں، ان لوگوں نے بہت زیادہ ظلم وستم کیئے ہیں اور (شریعت کی ) مخالفت کا ارادہ کرلیا ہے بلکہ بہت دنوں سے اس کام کو انجام دے رہے ہیں تاکہ لوگوں کو حق سے دور کردیں اور ظلم وستم اور گناہوں کے پھیلانے میں ان کی مدد کریں ۔

جس وقت میرا خط تمہارے پاس پہونچے تم اپنے کاموں کو کسی مورد اعتماد شخص کے حوالے کرنا اور جلدی سے ہمارے پاس آنے کی کوشش کرنا شاید ان مکار اور دھوکے باز دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا پڑے ہم جہاد کے ثواب میں تم سے بے نیاز نہیں ہیں''۔(۱)

جس وقت امام علیہ السلام کے منشی عبداللہ بن ابی رافع کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط اصفہان کے حاکم کے پاس پہونچا فوراً ہی اس نے اپنے دو قریبی ساتھیوں کو بلایا اور اصفہان کے تمام امور کو حارث بن ابی الحارث اور ہمدان کے تمام امور کو جو اس زمانے میں سیاسی اعتبار سے اصفہان کے زیر نظر تھا ،سعید بن وہب کے سپرد کیا ، اور امام کی خدمت کے لئے چل پڑا اور اسی طرح سے کہ جیسا کہ امام نے کہا تھا ( کہ ہم جہاد کے اجروثواب میں تم سے بے نیاز نہیں ہیں ) جنگ کے دوران

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۰۶۔۱۰۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۸۳۔۱۸۲

۵۲۹

شہادت پر فائز ہوگیا(۱)

یہی تنہا حاکم نہیں تھا جسے امام علیہ السلام نے جنگ کے لئے بلایا تھا بلکہ اسی سلسلے میں ذیقعدہ ۳۷ ھ میں ابن عباس کو خط لکھا کہ باقی بیت المال کو میرے حوالے کر دو لیکن جو لوگ تمہارے اطراف میں ہیں پہلے ان کی ضرورتوں کو پورا کرو اور بقیہ تمام مال کو کوفہ بھیج دو البتہ جنگ کے شرائط کو دیکھتے ہوئے صرف کوفہ کا بیت المال امام علیہ السلام کے لئے کافی نہ تھا جس کی وجہ سے دوسرے شہروں سے بھی مدد حاصل کی ہے(۲)

سپاہیوں کو حوصلہ عطا کرنا

امام علیہ السلام کے پاس سپاہیوں کی کمی نہ تھی، سرزمین اسلام کے بہت سے حصے آپ کے اختیار میں تھے لیکن ، نفوذی عوامل ، بزدل افراد ، مایوسی اور بے یقینی کی وجہ سے راہ حق سے دور ہورہے تھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام اور آپ کے بیٹے امام مجتبیٰ علیہ السلام ،دوسرے بیٹے امام حسین علیہ السلام فوجی چھاونی نخلیہ سے چلتے وقت تک لوگوں کے درمیان تقریریں کرتے رہے اوران کے دلوں کو محکم ومطمئن کرتے رہے ، تاریخ نے ان تقریروں اور خطبوں کی عبارتوں کو اپنے دامن میں محفوظ کررکھا ہے(۳)

اور کبھی عظیم شخصیتیں اور شہادت کے متمنی افراد مثلاً ہاشم بن عتبہ بن وقاص ، سعد وقاص کے بھتیجے نے لوگوں کے مجمع میں تقریر کی اور بہت زیادہ اصرار کیا کہ جلد سے جلد ان لوگوں سے جنگ شروع کریں جن لوگوں نے خدا کی کتاب کی مخالفت کی ہے اور خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا ہے ، اس نے اتنا زیادہ جوش وخروش اور دلسوز انداز میں گفتگو کی کہ امام علیہ السلام نے اس کے حق میں دعا کی اور فرمایا:اللهمّ ارزقه الشهادة فی سبیلک والمرافقة لنبیّک صلی الله علیه وآله وسلم '' (۴) ۔یعنی پروردگارا: اسے اپنی راہ میں شہادت کے درجے پر فائز کر اور اسے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہم نشین قرار دے۔

ہاشم صفین میں امام علیہ السلام کے لشکر کا علمبردار تھا اورجنگ کے آخری دنوں میں جام شہادت نوش کیا ۔

______________________

(۱)،(۲)وقعہ صفین ص ۱۰۶۔۱۰۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۸۳۔۱۸۲

(۳) وقعہ صفین ص ۱۱۵۔۱۱۲

(۴)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۸۴

۵۳۰

راہ کے انتخاب میں آزادی

عبداللہ بن مسعود(۱) کے ماننے والوں کا ایک گروہ امام علیہ السلام کے پاس پہونچا اور کہا : ہم لوگ آپ کے ساتھ چلیں گے اور آپ لوگوں سے دور اپنا پڑاؤ ڈالیں گے تاکہ آپ کے اور آپ کے مخالفوں کے کام پر نظر رکھیں ، جس وقت ہم دیکھیں گے کہ ایک گروہ غیر شرعی کام کررہا ہے یا تجاوز کررہا ہے تو اس کے خلاف جنگ کریں گے۔

امام علیہ السلام کی پوری حیات اور حکومت میں ایسی کوئی بات نہ تھی جوان کے لئے شک و تردید کا سبب بنتی لیکن دشمن کے بہکاوے نے ان کے دلوں میں وسوسے ڈال رکھے تھے اور صالحین کو ابوسفیان سے جنگ کرنے کے سلسلے میں مردّد کر رکھا تھا ، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے ان لوگوں سے فرمایا:'' مرحباً وأهلاً ، هٰذا هوالفقه فی الدین والعلم بالسنة من لم یرض بهذا فهو جائر خائن '' (۲) مبارک ہو تمہیں یہ کلام وہی دین فہمی اور حقیقت سے آشنا ئی اور پیغمبر اسلام

کی سنت سے آگاہی ہے جو شخص بھی اس کام پر راضی نہ ہو وہ ستم گر اور خائن ہے۔

عبداللہ بن مسعود کے دوستوں کا دوسرا گروہ بھی امام کے پاس آیا اور اس نے کہا : ہم آپ کی تمام فضیلتوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اس جنگ کے شرعی ہونے کے سلسلے میں شک وتردید کررہے ہیں ، اگر بنا ہے کہ ہم لوگ بھی دشمن کے ساتھ جنگ کریں تو ہم لوگوں کو کسی دور مقام پر بھیج دیں تاکہ وہاں سے دین کے دشمنوں سے جہاد کریں ۔ امام علیہ السلام یہ سن کر ناراض نہ ہوئے بلکہ ربیع بن خثیم کی سرپرستی میں ان میں سے چار سو آدمیوں پر مشتمل ایک لشکر '' ری '' کی طرف روانہ کردیا تاکہ وہاں اپنا وظیفہ انجام دیں اور اسلامی جہاد جو خراسان کے اطراف میں رونما ہوا ہے اس میں مدد کریں۔(۳)

_______________________________

(۱) عبداللہ بن مسعود حافظ قرآن اور صدر اسلام کے مسلمانوں میں سے ہے اور عثمان سے اس کی مخالفت کی روداد بہت طویل ہے ۳۲ ہجری میں مدینے میں انتقال ہوا، جنگ صفین کی آمادگی ۳۷ ہجری کے آخر میں ہوئی جس میں اس کا کوئی وجود نہ تھا بلکہ کچھ گروہ جن لوگوں نے اس سے قرآن و احکام سیکھا تھا وہ لوگ باقی تھے۔ طبقات ابن سعد ج۳،ص ۱۶۰ (مطبوعہ بیروت)۔

(۲)وقعہ صفین ص، ۱۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۸۶۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۸۶ ۔

۵۳۱

جب یہ گروہ جنگ میں شرکت کرنے کی طرف مائل نہ ہوا تو امام علیہ السلام نے میں قبیلہ باہلہ کے لوگوں کو بھی جن کے امام سے روابط اچھے نہیں تھے اس جنگ میں شرکت کرنے سے منع کردیا اور جو ان کا وظیفہ تھا انہیں دے دیا اور حکم دیا کہ '' دیلم '' کی طرف چلے جائیں اور وہاں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر خدمت کریں(۱)

امام علیہ السلام کی فوج کے عظیم سپہ سالار

امام علیہ السلام کے لشکر کے اکثر سپاہی کوفہ وبصرہ اور ان دونوں شہروں کے اطراف میں رہنے والے یمن کے قبیلے تھے۔

امام علیہ السلام ان پانچ قبیلے والوں کو جو ابن عباس کے ہمراہ بصرہ سے نخلیہ ( کوفہ کی فوجی چھاؤنی ) آئے تھے ، ان کے لئے پانچ عظیم سپہ سالار معین کئے:

۱۔ قبیلہ بکر بن وائل کے لئے خالد بن معمر سدوس

۲۔ قبیلہ عبد القیس کے لئے عمروبن مرجوم عبدی

۳۔ قبیلہ ازد کے لئے صبرة بن شیمان ازدی

۴۔ تمیم وضُبّہ ورباب کے لئے احنف بن قیس

۵۔ اہل عالیہ کے لئے شریک بن اعور

یہ تمام سپہ سالار ابن عباس کے ہمراہ بصرہ سے کوفہ آئے اور انہوں نے ابو الاسود دوئلی کو اپنا جانشین قراردیا۔ اور خودسفر میں امام علیہ السلام کے ہمراہ رہے(۲)

اسی طرح امام علیہ السلام نے کوفہ کے سات قبیلوں پر، جن کی شرکت سے کوفہ کی فوجی چھاؤنی چھلک رہی تھی سات سپہ سالارمعین فرمائے ، جن کے نام تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کررکھا ہے۔(۳)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۱۶

(۲)وقعہ صفین ص ۱۱۷۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۹۴

(۳)وقعہ صفین ص ۱۲۱۔مروج الذھب(ج۲، ص ۳۸۴) میں ابومسعود عقبہ بن عامر کا ذکر ہوا ہے۔

۵۳۲

پہلا فوجی دستہ

تمام سپہ سالاروں کا تعیّن اپنے اختتام کو پہونچا، امام علیہ السلام نے عقبہ بن عمرو انصاری کو اپنا جانشین معین فرمایا جو سابق الاسلام تھے اور پیغمبر کے ہاتھوں پر '' عقبہ '' میں بیعت کی تھی ۔ آپ نے حکم دیا کہ جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔ جس وقت کوفہ کی فوجی چھاؤنی سپاہیوں سے چھلک رہی تھی ایک گروہ جو عثمان کی حکومت کے زمانے میں صرف حکومت کوفہ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے جلا وطن کیا گیاتھا چاروں طرف سے آگیا اور یہ نعرہ لگایا '' قد آن للذین أخرجوا من دیارھم '' وہ وقت آپہونچا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں سے دور کردیئے گئے تھے وہ دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں(۱)

شروع میں امام علیہ السلام نے بارہ ہزار افراد پر مشتمل دو طاقتور فوج کو شام کی طرف روانہ کیا اور آٹھ ہزار افراد پر مشتمل فوج کی ذمہ داری زیاد کو سونپی اور دوسری فوج جو چار ہزار جانبازوں پر مشتمل تھی اس کی ذمہ داری ہانی کے سپرد کی اور دونوں کو حکم دیا کہ پورے اتحاد واتفاق کے ساتھ شام کی طرف سفر کریں اور جہاں پر دشمن کا سامنا ہو وہیں پڑاؤ ڈال دیں(۲) ۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۲۱

(۲)کامل ابن اثیر ص ۱۱۴، تاریخ طبری ۳ جزء ۴ ص ۲۳۷

۵۳۳

پندرہویں فصل

حضرت علی علیہ السلام کی میدان صفین کی طرف روانگی

کوفہ کی فوجی چھاؤنی مجاہدوں سے چھلک رہی تھی اور سب ہی اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھے ہوئے امام علیہ السلام کے ہمراہ چلنے کے لئے آپ کے حکم کے منتظر تھے۔ بالآخر امام علیہ السلام ۵ شوال ۳۶ ہجری بروز بدھ، چھاؤنی میں تشریف لائے اور سپاہیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

'' اس خدا کی حمد وثنا جب بھی رات آتی ہے تو پورے جہان میں تاریکی چھا جاتی ہے، اس خدا کی حمدوثناجس وقت ستارہ نکلے یا پوشیدہ ہوجائے اس خدا کی حمدوثناء کہ جس کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور اس کی عطا کے مقابلے میں کوئی اجر وثواب اس کے برابر نہیں ہے۔

ہاں اے لوگو، ہم نے اپنی فوج کے کچھ لوگوں کو پہلے روانہ کردیا ہے(۱) اور انہیں حکم دیا ہے کہ فرات کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں اور میرے حکم کے منتظر رہیں ، اب وہ وقت آپہونچا ہے کہ ہم دریا کو پار کریں اور ان مسلمانوں کی طرف روانہ ہوں جو دجلہ کے اطراف میں زندگی بسر کررہے ہیں اور ان لوگوں کو تم لوگوں کے ساتھ دشمن کی طرف روانہ کریں تاکہ تمہارے مدد گار رہیں ۔''(۲) ''عقبہ بن خالد ''(۳) کو کوفہ کا حاکم بنایا ہے خود کو اور تم کو میں نے رہا نہیں کیا ہے ( یعنی اپنے

اور تمہارے درمیان میں نے کوئی فرق نہیں رکھا ہے )ایسا نہ ہو کہ کوئی جانے سے رہ جائے ، میں نے مالک بن حبیب یربوعی کو حکم دیا ہے کہ مخالفت کرنے والوں اور پیچھے رہ جانے والوں کو رہا نہ کرے مگر یہ کہ تمام لوگوں کو تمہارے ہمراہ کردے ۔(۴)

اس وقت معقل بن قیس ریاحی ، جو کہ بہت ہی بہترین اور غیور شخص تھا اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

_______________________________

(۱) امام علیہ السلام نے ۱۲ ہزار سپاہیوں کو زیاد بن نضر وشریح کی سپہ سالاری میں پہلے ہی روانہ کردیا تھا۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۴۸، وقعہ صفین ص ۱۳۱ ( تھوڑے فرق کے ساتھ) امام علیہ السلام نے اس خطبہ کو کوفہ کی فوجی چھاؤنی ، کوفہ شہر کے باہر ۲۵ ،شوال ۳۷ ہجری کو بیان کیا تھا ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۲۰۱۔

(۳)عقبہ بن عامر ، مروج الذھب ج۲ ص ۳۸۴---(۴)وقعہ صفین ص ۱۳۲

۵۳۴

خدا کی قسم ! کوئی بھی خلاف ورزی نہیں کرے گا مگر جو شک کی حالت میں ہو اور کوئی بھی مکر نہیں کرے گا مگر منافق، بہتر ہوتا آپ مالک بن حبیب یر بوعی کو حکم دیتے کہ مخالفت کرنے والے کو قتل کرڈالے۔

امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں کہا: جو ضروری حکم تھا وہ میں نے اسے دیدیا ہے اور وہ انشاء اللہ میرے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرے گا، اس وقت دوسرے لوگوں نے بھی چاہا کہ گفتگو کریں لیکن امام علیہ السلام نے اجازت نہیں دی اور اپنا گھوڑا طلب کیا اور جب آپ نے اپنا قدم رکاب پر رکھا تو اس وقت کہا '' بسم اللہ '' اور جب زین پر بیٹھے تو کہا( سبحان الذی سخّر لنا هذا وما کنّا له مقرنین وَ انا اِلیٰ ربّنا لمنقلبون ) (۱) وہ خدا (ہر عیب سے ) پاک ہے جس نے اس (سواری )کو ہمارا تابعدار بنایا حالانکہ ہم تو ایسے (طاقتور) نہ تھے کہ اس پر قابو پاتے ، اور ہم کو تو یقینااپنے پروردگا رکی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ پھرآپ نے فرمایا:

اے خدا ،میں سفرکی پریشانیوں اور زحمتوں اور واپسی کے غم واندوہ کے ساتھ چلنے اور اہل وعیال ومال پر بری نظر رکھنے والوں سے تیری پناہ مانگتاہوں ،خدایا! تو سفر میں ہمارے ہمراہ اور اہل وعیال کے لئے نگہبان ہے اور یہ دونوں چیزیں تیرے علاوہ کسی کے اندر جمع نہیں ہوسکتیں ، کیونکہ جو شخص جانشین ہوگا وہ ساتھ میں نہیں ہوسکتا اور جو شخص ساتھ میں ہوگا وہ جانشین نہیں ہوسکتا۔

پھر آپ نے اپنی سواری کو بڑھایا جب کہ حر بن سہم ربعی آپ کے آگے آگے چل رہا تھا اور رجز پڑھ رہا تھا اس وقت کوفہ میں رہنے والوںکے سردار مالک بن حبیب نے امام علیہ السلام کے گھوڑے کی لگام پکڑی اور بہت ہی غمگین انداز سے کہا: اے میرے آقا! کیا یہ مناسب ہے کہ آپ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے جائیں اور ان لوگوں کو جہاد کے ثواب سے مالا مال کریں اور مجھے مخالفوں کو جمع کرنے کے لئے چھوڑ جائیں ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ لوگ جتنا بھی ثواب حاصل کریں گے تم ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوگے اور تمہارا یہاں رہنا ہمارے ساتھ رہنے سے زیادہ ضروری ہے ابن حبیب نے کہا:

_______________________________

(۱)سورہ زخرف، آیت ۱۳

۵۳۵

''سمعاًو طاعة یا امیر المومنین'' (۱) (آپ کا جیسا حکم ہو میں تہ دل سے قبول کروں گا)

امام علیہ السلام اپنے سپاہیوں کے ہمراہ کوفہ سے روانہ ہوئے اور جب کوفہ کے پل سے گزرے تو لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: اے لوگو تم میں سے جو لوگ رخصت کرنے آئے ہیں یا ان کا قیام یہیں پر ہے وہ یہاں پر پوری نماز پڑھیں گے، لیکن ہم لوگ مسافر ہیں اور جوبھی ہمارے ساتھ سفر پر ہے وہ واجب روزہ نہ رکھے اور اس کی نماز قصر ہے پھر آپ نے ظہر دورکعت پڑھی اور پھر اپنے سفر کو جاری رکھا اور جب آپ ابو موسیٰ کے گھر کے پاس پہونچے جو کوفہ سے دوفرسخ کی دوری پرواقع ہے تو وہاں آپ نے دو رکعت نماز عصر پڑھی اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا:

کتنی بابرکت ہے خدا کی ذات جو صاحب نعمت وبخشش ہے کتنا پاکیزہ ومنزہ ہے خدا جو صاحب قدرت وکرم ہے خدا سے میری یہی دعا ہے کہ مجھے اپنی قضاء قدر پر راضی ، اپنی اطاعت و فرمانبرداری پر کامیاب ، اپنے حکم پر متوجہ کرے کہ وہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔(۲) پھر آپ اپنے سفر پر روانہ ہوئے اور '' ثرس '' نامی جگہ پر جوفرات سے نکلی ایک بڑی نہر کے کنارے واقع ہے اور یہ جو فرات سے نکلتی ہے اترے اور نماز مغرب ادا کی اس کے بعد خداکی اس طرح سے تعریف کی:

تمام تعریفیں اس خدا سے مخصوص ہیں جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں تبدیل کرتاہے اس خدا کا شکر کہ جس وقت رات کی تاریکی پھیل جاتی ہے، تعریف اس خدا کی جب کہ ستارے نکل آتے ہیں یا ڈوب جاتے ہیں(۳)

آپ نے شب وہیں بسر کی اور نماز صبح پڑھنے کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے جس وقت آپ '' قبہ قبین '' نامی جگہ پر پہونچے تو آپ کی نگاہیں لمبے لمبے کھجور کے درختوں پر پڑیں جو نہر کے کنارے لگے تھے اس وقت آپ نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( والنخل باسقات لّها طلع نضید ) (۴)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۳۴۔۱۳۲

(۲)،(۳)وقعہ صفین ص ۱۳۴۔۱۳۲

(۴)سورہ ق آیت ۱۰

۵۳۶

اور لمبی لمبی کھجوریں جس کا بور باہم گُھتا ہوا ہے '' اپنے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ہی آپ نے نہر کو پار کیااور یہودیوں کی عبادت گاہ کے پاس آپ نے آرام فرمایا(۱) ۔

سرزمین کربلا سے عبور

امام علیہ السلام جب کوفہ سے صفین کے لئے روانہ ہوئے تو سرزمین کربلاسے بھی گزرے ہرثمہ بن سلیم کہتا ہے:

امام علیہ السلام کربلا کی سرزمین پر اترے اور وہاں ہمارے ساتھ نماز پڑھی، جس وقت آپ نے نمازتمام کی اس وقت تھوڑی سی مٹی اٹھائی اور اسے سونگھا اور کہا ( اے خاک کربلا کتنی خوش نصیب ہے کہ تیرے ساتھ کچھ لوگ محشور ہوں گے اور بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے)، پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے کچھ مقامات کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہاں اور وہاں ، سعید بن وہب کہتے ہیں : میں نے امام علیہ السلام سے آپ کی اس سے کیا مرادہے ؟ آپ نے فرمایا: ایک عظیم خاندان اس سرزمین پر وارد ہوگا ،تم ہی میں سے ان لوگوں پر لعنت ہو ، ان لوگوں میں سے تم لوگوں پر لعنت ہو، میں نے کہا : آپ کے کہنے کا کیا مقصد ہے ؟ امام نے کہا تم لوگوں میں سے ان لوگوں پر لعنت جو ان لوگوں کوقتل کریں ، لعنت ہو تم لوگوں میں سے ان پر کہ ان کو قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔(۲) حسن بن کثیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام کربلا کی سرزمین پر کھڑے ہوئے اور کہا: '' ذات کربٍ و بلائٍ '' ( یہ غم اور بلا کی زمین ہے ) اس وقت آپ نے اپنے ہاتھوں سے ایک خاص جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، یہ ان لوگوں کے قیام کی جگہ اور ان کی سواریوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے پھر ایک اور مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس جگہ پر وہ لوگ قتل کئے جائیں گے۔ پہلا راوی ،ہرثمہ کہتاہے کہ جنگ صفین کا معرکہ ختم ہوا اور میں اپنے گھر واپس آگیا اور اپنی بیوی سے جو کہ امام کی چاہنے والی تھی ان تمام باتوں کا ذکر کیا جو امام نے کربلا کی سرزمین پر بیان کیا تھا اور میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ کس طرح سے امام غیب کی باتوں کو جانتے ہیں ؟ میری بیوی نے کہا مجھے چھوڑدو، کیونکہ امام، حق کے

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۱۳۵

(۲)وقعہ صفین ص ۱۴۲۔۱۴۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۷۰۔۱۶۹

۵۳۷

علاوہ کچھ نہیں کہتے، وقت گذرتا گیاعبیداللہ بن زیاد ایک عظیم لشکر لے کر حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوا اور میں بھی اسی لشکر میں تھا جس وقت ہم کربلا کی سرزمین پر پہونچے اس وقت ہمیں امام کی باتیں یاد آئیں اس بات سے میں بہت زیادہ غمگین ہوا میں فوراً تیزی کے ساتھ حسین ( علیہ السلام) کے خیمے کی طرف بڑھا اور ان کی خدمت میں پہونچ کر پورا واقعہ بیان کیا ، حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: اچھا تم یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ ہو یا میرے مخالف ہو؟ میں نے کہا کسی کے ساتھ نہیں ہوں ، میں نے اپنے اہل وعیال کو کوفہ چھوڑدیا ہے اور ابن زیاد سے ڈرتاہوں۔ آپ نے فرمایا: جتنی جلدی ہو اس سرزمین کو چھوڑ کرچلے جاؤ ، اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد(ص) کی جان ہے جو شخص بھی آواز استغاثہ سنے گا اور میری مدد کو نہیں پہونچے گا خداوند عالم اسے جہنم کی آگ میں ڈال دے گا اس وجہ سے میں فوراً کربلا کی سرزمین سے روانہ ہوگیا تاکہ ان کی شہادت کا دن نہ دیکھ سکوں ۔(۱)

امام علیہ السلام ساباط اور مدائن میں

امام علیہ السلام کربلا کے قیام کے بعد ساباط کے لئے روانہ ہوئے اورشہر بہر سیر پہونچے وہاں کسریٰ کے کچھ آثار باقی نہ تھے اس وقت آپ کے چاہنے والوں میں سے ،حربن سہم(۲) نے ابویعفر کایہ شعرتمثل کے طور پر پڑھا:

جَرَتْ ِ الریاحُ علیٰ مکان ِ دیارِهم

فکانّما کانوا اعلیٰ میعادٍ

خزاں کی ہوائیں اس زمین پر چلیں جیسے وہ اپنے وعدہ کی جگہ پہونچ گئے ہیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : تم نے کیوں اس آیت کی تلاوت نہیں کی؟

( کم ترکوا من جنات وعیون وزروع ومقام کریم ونعمة کانوا فیها فاکهین کذالک واورثنا ها قوماً آخرین فما بکت علیهم السماء والارض وما کانوا منظرین ) ( دخان آیت ۲۵۔۲۹)'' وہ لوگ ( خدا جانے) کتنے باغ اور چشمے اور کھیتیاں اور نفیس مکانات

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۴۱۔۱۴۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۶۹

(۲)بعض جگہوں پر '' حریز'' لکھاہے ، حاشیہ وقعہ صفین ص ۱۴۲

۵۳۸

اور آرام کی چیزیں جس میں وہ عیش وچین کیا کرتے تھے چھوڑگئے یوں ہی ہوا، اور ان تمام چیزوں کا دوسرے لوگوں کو مالک بنادیا تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہ آیا اور نہ انہیں مہلت ہی دی گئی ''

اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا : دوسرے لوگ بھی ان کے وارث تھے لیکن وہ لوگ ختم ہوگئے اور پھر دوسرے لوگ اس کے وارث ہوگئے یہ گروہ بھی اگر اس نعمت پر خدا کا شکر بجانہ لائے تو یہ نعمت الٰہی ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان سے سلب ہوجائے گی لہٰذا کفران نعمت سے بچو تاکہ بدبختی میں گرفتار نہ ہو پھر آپ نے حکم دیا کہ تمام سپاہی اس بلندی سے نیچے اتریں ، جس جگہ امام علیہ السلام نے قیام کیا تھا وہ مدائن سے بہت قریب تھی، امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ '' حارث اعور''شہر میں یہ اعلان کرے کہ جو شخص بھی جنگ کرنے کی صلاحیت وقدرت رکھتا ہے وہ نماز عصر تک امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں پہونچ جائے، نماز عصر کا وقت ہوا اور طاقتور افراد امام کی خدمت میں حاضر ہوئے امام نے خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا:

'' میں جہاد میں شرکت سے مخالفت کرنے اور اپنے علاقے کے لوگوں سے جدا ہونے اور ظالم وجابر لوگوں کی زمین پر زندگی بسر کرنے پر بہت حیرت میں ہوں نہ تم لوگ اچھے کام کا حکم دیتے ہو اور نہ لوگوں کو برائیوں سے روکتے ہو''(۱)

مدائن کے کسانوں نے کہا: ہم لوگ آپ کے حکم کے مطابق عمل کریں گے جو مناسب ہو آپ حکم دیں، امام علیہ السلام نے عدی بن حاتم کو حکم دیا کہ وہاں قیام کرے اور ان لوگوں کو لے کر صفین کی طرف روانہ ہو ، عدی نے وہاں تین دن قیام کیا پھر مدائن کے تین سو لوگوں کے ساتھ صفین کی طرف روانہ ہوا ور اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ تم یہاں ٹھہر جاؤ اور دوسرے گروہ کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہونا، وہ چارسو آدمیوں کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہوگیا(۲) ۔

انبار کے کسانوں نے امام علیہ السلام کا استقبال کیا

امام علیہ السلام مدائن سے '' انبار'' کی طرف روانہ ہوئے، انبار کے لوگوں کو امام علیہ السلام کے سفر اور اس راستے سے گزرنے کے بارے میں معلوم ہوا لہٰذایہ لوگ امام کے استقبال کے لئے بڑھے،

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۳ص۲۰۳۔۲۰۲،وقعہ صفین ص۱۴۲

(۲)وقعہ صفین ص۱۴۲۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۳ ص۲۰۳

۵۳۹

ا مام علیہ السلام اور ان لوگوں کے درمیان بہت سی باتیں ہوئیں۔ جب یہ لوگ امام کے سامنے پہونچے تو اپنے اپنے گھوڑوں سے اتر ے اور آپ کے سامنے اچھلنے کودنے لگے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ کیا کر رہے ہو اور ان جانوروں کو کیوں لائے ہو؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ( ایرانی بادشاہوں کے زمانے سے)حکمرانوں کی تعظیم وتکریم کے اظہار کا طریقہ ہمارے ہاں یہی ہے اور یہ جانور ہم لوگوں کی طرف سے آپ کے لئے ہدیہ ہیں ہم لوگوں نے آپ اور آپ کے سپاہیوں کے لئے کھانا اور سواریوں اور جانوروں کے لئے چارے کابھی انتظام کیاہے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے بزرگوں کی تعظیم کے لیے جو عمل انجام دیتے ہو خدا کی قسم! اس سے ان لوگوں کو فائدہ نہیں پہونچتااس سے اپنے کو زحمت ومشقت میں ڈالتے ہو ، دوبارہ یہ کام انجام نہ دینا جو جانور تم لوگ اپنے ساتھ لائے ہو اگر تم لوگ راضی ہو تو اس شرط پر قبول کروں گاکہ اس کی قیمت خراج میں محسوب ہواور جو کھانے پینے کی چیزیں ہمارے لئے لائے ہواسے ایک شرط پر قبول کروں گا کہ اس کی قیمت ادا کروں ۔

انبار کے لوگوں نے کہا: آپ قبول کرلیں ہم اس کی قیمت معلوم کریںگے پھر آپ سے لے لیں گے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ایسی صورت میں تم لوگ اصل قیمت سے کم لوگے۔

انبار کے لوگوں نے کہا: اے میرے امام ، عربوں کے درمیان ہمارے دوست واحباب ہیں کیا آپ ہم لوگوں کو ان کو ہدیہ وتحفہ دینے اور ان لوگوں سے ہدیہ وتحفہ قبول کرنے سے منع کررہے ہیں ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: تمام عرب تم لوگوں کے دوست ہیں لیکن ہر آدمی شائستہ نہیں ہے کہ تمہارے قیمتی وسنگین تحفے کو قبول کرے اور اگر کوئی تم لوگوں سے دشمنی کرے تو مجھے اس سے آگاہ کرو۔

انبار کے لوگوں نے کہا: اے میرے آقا! ہمارے ہدیہ کو قبول فرمائیے ہم لوگوں کی خواہش وآرزو ہے کہ ہمارے ہدیہ کو قبول کرلیجیئے۔

امام علیہ نے فرمایا : تم پر افسو س ہے ہم تم سے زیادہ بے نیاز ہیں ، اتنا کہنے کے بعد امام علیہ السلام اپنے سفر پر روانہ ہوگئے اور ان لوگوں کو عدالت الٰہیہ کا درس دیا جو بہت زیادہ عرصہ سے عجم کے بادشاہوں کے ظلم وستم کا شکا ر تھے اور اس کے حاکموں کے ظلم وستم کو

۵۴۰