فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341286
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341286 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تاریخ دہراتی ہے

یہ واقعہ بذات خود بے مثال نہیں ہے بلکہ جنگ صفین میں کم وبیش اس طرح کا واقعہ ہوا ہے جس میں بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ نعیم بن صہیب بَجلی عراقی قتل ہوا اس کاچچازاد بھائی نعیم بن حارث بَجلی جو شام کی فوج میں تھا ، اس نے معاویہ سے اصرار کیا کہ اپنے چچازاد بھائی کی لاش کو کپڑے سے چھپادے، لیکن اس

نے اجازت نہیں دی اور بہانہ بنایا کہ اسی گروہ کے خوف سے عثمان کو رات میں دفن کیا گیا لیکن بَجلی شامی نے کہا یا تو یہ کام انجام پائے گایا تجھے چھوڑ دوں گا اور علی کے لشکر میں شامل ہوجاؤں گاآخرکار معاویہ نے اسے اجازت دی کہ اپنے چچا زاد بھائی کے جناز ے کو دفن کردے۔(۱)

۲۔ قبیلۂ ازد کے دو گروہ آمنے سامنے تھے ان دونوں قبیلوں میں سے ایک قبیلے کے سردار نے کہا سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایک ہی قبیلہ کے دو گروہ ایک دوسرے سے مقابلے کے لئے آمادہ ہیں۔ خدا کی قسم، ہم اس جنگ میں اپنے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ پیر کاٹنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے اور اگر یہ کام انجام نہ دیا تو ہم نے اپنے رہبر اور قبیلے کی مدد نہیں کی، اور اگر انجام دیں تو اپنی عزت کو برباد اور اپنی زندگی کی لو کو خاموش کردیا ہے۔( ۲)

۳۔ شامیوں میں سے ایک نے میدان ِ میں قدم رکھا اور جنگ کی دعوت دی ،عراق کا ایک شخص اس سے مقابلہ کرنے کے لئے مید ان میں آیا اور دونوںنے زبردست حملے کئے بالآخر عراقی نے شامی کی گردن پکڑی اور اسے زور سے زمین پرپٹک دیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گیا جس وقت اس نے خودشامی کے چہرے سے نقاب اور سر سے ٹوپی اتاری تو دیکھا کہ اس کا اپنا بھائی ہے! اس نے امام علیہ السلام کے دوستوں سے کہا کہ امام علیہ السلام سے کہو کہ اس مشکل کو حل کریں۔ امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ اُسے آزاد کردو لہٰذا اس نے آزاد کردیا اس کے باوجود وہ دوبارہ معاویہ کی فوج میں شامل ہوگیا۔(۳)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۵۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۰۷۔ تاریخ طبری ج ۳جزئ۶، ص۱۴،کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۴۔---(۲) وقعہ صفین ص۲۶۲۔ تاریخ طبری ج ۳،جزئ۶، ص۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵،ص۲۰۹۔---(۳)وقعہ صفین ص۲۷۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۵۔

۶۰۱

۴۔ معاویہ کی فوج سے ایک شخص بنام ''سوید'' میدان میں آیا اور مقابلے کے لئے للکارا امام علیہ السلام کی فوج سے قیس میدان میں آئے، جب دونوں نزدیک ہوئے تو ایک دوسرے کو پہچان گئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے رہبر و پیشوا کی طرف آنے کی دعوت دی، قیس نے امام علیہ السلام سے اپنی محبت و ایمان کو اپنے چچازاد بھائی سے بیان کیااور کہا،وہ خدا کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اگر ممکن ہوتا تو اس تلوار سے اس سفید خیمے(معاویہ کا خیمہ) پر اتنا زبردست حملہ کرتا کہ صاحب خیمہ کا کوئی آثار باقی نہ رہتا۔(۱)

شمر بن ذی الجوشن امام علیہ السلام کی رکاب میں

تعجب کی بات (ایسی حیرت و تعجب جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے) یہ ہے کہ شمر جنگ صفین میں امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا، اور میدان جنگ میں''ادھم''نام کے ایک شامی نے اس کی پیشانی پر سخت ضربت لگائی جس سے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی،وہ بھی بدلہ لینے کے لئے اٹھا اور شامی پر تلوار سے زبردست حملہ کیا، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، شمر اپنی توانائی واپس کرنے کے لئے اپنے خیمے میں پانی پیا اور ہاتھ میں نیزہ لے لیا پھر میدان میں آگیا اس نے دیکھا کہ شامی اسی طریقے سے اپنی جگہ پر کھڑا ہے، اس نے شامی کو مہلت نہ دی اور اپنا نیزہ اس کے اوپر اس طرح مارا کہ وہ گھوڑے سے زمین پر گر گیا اور اگر فوج شام سے لوگ اسکی مدد کو نہ پہونچتے تو اسے قتل کردیتا اس وقت شمر نے کہا یہ نیزہ کی مار اس حملہ کے مقابلے میں ہے۔(۲)

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۶۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۳۔

(۲)تاریخ طبری ج ۳جزئ۶، ص۱۸۔شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۳۔

۶۰۲

شہادت پر فخر و مباہات

شہادت اور اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت پر مومنین اور قیامت پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے ہی افتخار کرتے ہیں اورمقد س مقصد کے تحت جنگ کرتے ہیں اور یہ افتخار اور فخرو مباہات ایک ایسی ثقافت ہے جو دوسری قوموں میں نہیں ، شہادت سے عشق و محبت قیام و جہاد کے لئے ایک بہترین محرّک اور علت ہے، شہید اپنی چند روزہ زندگی کو ابدی زندگی سے اسی عقیدے کی بنا پر تبدیل کرتا ہے اور پھر وہ اپنے مقصد کے پیش نظر کسی کو نہیں پہچانتا ہے۔

جنگ صفین کے زمانے میں ایک دن فوج شام کے قبیلۂ بنی اسد کا ایک بہادر سپاہی میدان میں آیا اور جنگ کے لئے بلایا عراقی فوجی اس بہادر کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے اچانک ایک ضعیف شخص بنام''مقطّع عامری'' اٹھا تاکہ بنی اسد کے اس شخص سے لڑنے کے لئے میدان میںجائے،لیکن جب امام علیہ السلام متوجہ ہوئے تو اسے میدان جنگ میں جانے سے منع کردیا، ادھر اس شامی بہادر کیهَلْ مِنْ مبارز کی بلند آواز نے لوگوں کے کانوں کوبہرا کر دیا تھا۔ ادھر ہر مرتبہ و ہ ضعیف جو شہادت کا عاشق تھا اپنی جگہ سے مقابلے کے لئے اٹھتا تھا لیکن امام اُسے منع کردیتے تھے، اس ضعیف نے عرض کیا اے میرے مولا، اجازت دیجیے کہ اس جنگ میں شرکت کروں تا کہ شہید ہو جاؤں اور بہشت کی طرف جاؤں یا اسے قتل کردوںاور اس کے شرّ سے آپ کو امان دوں ، امام علیہ السلام نے اس مرتبہ اسے اجازت دی اور اس کے حق میں دعا کی۔

۶۰۳

اس دلیر اور بہادر کے عاشقانہ حملے نے اس بہادر شامی کے دل میں ایسا رعب پیدا کر دیا کہ اسے بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ اور اتنا دور ہوگیا کہ خود کو معاویہ کے خیمے کے پاس پہونچا دیا لیکن اس بوڑھے مجاہد نے اس کا وہاں تک پیچھا کیا اور جب اس کو نہ پایا تو اپنی جگہ پر وآپس آگیا۔ اور جب علی علیہ السلام کی شہادت ہوگئی اور لوگوں نے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کی تو معاویہ نے مقطّع عامری کو تلاش کرایا اور اسے اپنے پاس بلایا،مقطّع جب کہ پیری اور ضعیفی کی زندگی بسر کر رہے تھے معاویہ کے پاس آئے۔

معاویہ:بھائی ، اگر تم ایسی حالت میں(بہت بڑھاپا اور ضعیفی میں ) میرے پاس نہ آئے ہوتے تو ہرگز میرے ہاتھ سے نہ بچتے (یعنی قتل کردیتا)

عامری:میں تجھے خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے قتل کردے اور ایسی ذلت کی زندگی سے مجھے نجات دیدے اور خدا کی ملاقات سے نزدیک کردے۔

معاویہ: میں ہرگز تمھیں قتل نہیں کروں گا بلکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔

عامری: تیری حاجت کیا ہے؟

معاویہ: میری حاجت ہے کہ میں تمھارا بھائی بنوں۔

عامری: میں خدا کے لئے تجھ سے پہلے ہی جدا ہوچکا ہوں اور اسی حالت پر باقی ہوں تاکہ خدا وند عالم قیامت کے دن ہم لوگوں کو اپنے پاس بلائے اور ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ کرے۔

معاویہ: اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔

عامری: میں نے اس سے آسان درخواست کو ٹھکرادیا تو پھر یہ درخواست کہا ں (قبول کرسکتا ہوں)

معاویہ: مجھ سے کچھ مال لے لو۔

۶۰۴

عامری: مجھے تمھارے مال کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

ایک فوجی حکمت عملی

دسویں دن یا اس کے بعد جب کہ عراقیوں اور شامیوں کی سواروںکے درمیان گھمسان کی

جنگ ہو رہی تھی، امام علیہ السلام کی فوج کے ایک ہزار آدمیوں کا شامیوں نے محاصرہ کر لیا اور ان لوگوں کا رابطہ آپ سے منقطع ہوگیا اس وقت امام علیہ السلام نے بلند آواز سے فرمایا، کیا کوئی نہیں ہے جو خدا کی رضاخریدے اور اپنی دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دے؟ عبدالعزیز کا لے گھوڑے پر سوار اور زرہ پہنے ہوئے آنکھ کے علاوہ بدن کا کوئی حصّہ نظر نہیں آرہا تھا امام علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا آپ جو بھی حکم دیں گے اسے انجام دوںگا، امام علیہ السلام نے اس کے لئے دعا کی اور کہا: فوج شام پر حملہ کرو اور خود کو گھیرے ہوئے لوگوں تک پہونچا دو اور جب ان کے پاس پہونچنا تو کہنا کہ امیر المومنین نے تمھیںسلام کہا ہے اور کہا ہے کہ تم لوگ اس طرف سے تکبیر کہو اور ہم اس طرف سے تکبیر کہتے ہیں اور تم لوگ اس طرف سے اور ہم اس طرف سے حملہ کریں تاکہ محاصرہ کو ختم کردیںاور تم لوگوں کو آزادی مل جائے۔

امام علیہ السلام کے بہادر سپاہی نے فوج شام پرزبردست حملہ کیا اور اپنے کو محاصرہ ہوئے لوگوں تک پہونچایااور امام علیہ السلام کا پیغام پہونچایا، لوگ امام علیہ السلام کا پیغام سن کر بہت خوش ہوئے اور اس وقت تکبیر و تہلیل کی آوازاور دونوں طرف سے جنگ شروع ہوگئی اور محاصرہ ختم ہوگیا اور محاصرہ ہوئے لوگ امام علیہ السلام کے لشکرسے مل گئے۔ شامیوں کے آٹھ سو لوگ مارے گئے اورجو بچے وہ پیچھے ہٹ گئے اور جنگ وقتی طور پر رک گئی۔(۲)

_______________________________

(۱)۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۴،۲۲۳۔ وقعہ صفین ص ۲۷۸۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۴۳۔ وقعہ ٔ صفین ص ۳۰۸۔

۶۰۵

شدیدجنگ کے دوران سیاسی ہتھکنڈے

امور جنگ کے ماہرین نے امام علی علیہ السلام کی فوج کے اجتماعی حملے کو ابتدأ ہی میں دیکھ کر یہ

سمجھ گئے تھے کہ جنگ میں اما م کے لشکر کو کامیابی ملے گی، کیونکہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ہر دن جنگ کے حالات امام علیہ السلام کے حق میں جارہے ہیں اور معاویہ کی فوج نابودی اور موت کی طرف جا رہی ہے۔ یہ کامیابی ان علتوں کی بنأ پر تھی جس میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں:

۱۔ سب سے بڑے سردار کی شائستہ اور مدّبرانہ رہبری ،یعنی حضرت علی علیہ السلام ،اور اسی صحیح نظام ِ رہبری کی وجہ سے معاویہ کی فوج تقریباً اما م کے لشکر سے دوگنی تھی، قتل ہوئی (جنگ صفین کے واقعات نقل کرنے کے بعد دونوں فوج کے مرنے والوں کی تعداد تحریر کی جائے گی)

۲۔ امام علیہ السلام کی بے مثال شجاعت و بہادری کہ دنیا نے آج تک ایسا بہادر نہیں دیکھا، ایک دشمن کے قول کے مطابق، علی علیہ السلالم نے کسی بھی بہادر سے مقابلہ نہیں کیا مگر یہ کہ زمین کو اس کے خون سے سیراب کردیااس سور ما کی بنا پر عراقیوں کے سامنے سے بڑے بڑے شر ہٹا لئے گئے اور دشمنوں کے دل میں زبردست رعب بیٹھ گیا اور میدان جنگ میں ٹھہرنے کے بجائے بھاگنے کو ترجیح دیا۔

۳۔ امام علیہ السلام کی فوج کا آنحضرت کی فضیلت،خلافت،تقویٰ اور امامت برحق پر ایمان وعقیدہ رکھنا، جن لوگوں نے نص الہٰی کو رہبری کا ملاک سمجھااور جنہوں نے انصارو مہاجرین کے انتخاب کو معیار خلافت جانا، وہ سب کے سب امام علیہ السلام کے پرچم تلے حق و عدالت کے ساتھ باطل و سرکش سے جنگ کرنے آئے تھے، جب کہ معاویہ کی فوج کی حالت کچھ اورہی تھی،اگرچہ کچھ خلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے معاویہ کے ساتھ آئے تھے اور ان کے لئے تلوار چلا رہے تھے مگر بہت زیادہ لوگ مادیت کی لالچ اور دنیا طلبی کے لئے اس کے ہمراہ آئے تھے اور ان میں سے بعض گروہ امام علیہ السلام سے دیر ینہ بغض وعداوت کی وجہ سے یہاں آئے تھے اور یہ حقیقت کسی بھی مؤرخ سے پوشیدہ نہیں ہے۔

۴۔ امام علیہ السلام کی فوج میں مشہور و معروف اور امت اسلامیہ کی محبوب شخصیتوں کا موجود ہونا، وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے پیغمبر اسلام (ص)کے ہمرکاب ہو کر بدر، اُحد ،حنین میں جنگیں کی تھیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی سچائی اور پاکیزگی پر گواہی دی تھی،

۶۰۶

ان لوگوں میں چند کا نام قابل ذکر ہے مثلاً عمار یاسر، ابوایوب انصاری،قیس بن سعد، حُجر بن عدی اور عبد اللہ بن بدیل ، جنہوں نے معاویہ کی فوج کے بہت سے خود غرض لیکن سادہ لوح سپاہیوں کے دل میں شک و تردید پیدا کر دی تھی، یہ علتیں اور دوسری چیزیں سبب بنیں کہ معاویہ اور اس کی دوسری عقل عمرو عاص نے اپنی شکست کو قطعی سمجھااور اس سے بچنے کے لئے سیاسی حربے چلنے لگا تاکہ امام علیہ السلام کی فوج کی کامیابی کو کسی بھی صورت سے روک سکے، اور وہ سیاسی حربہ، علی علیہ السلام کی فوج کے سرداروں سے خط و کتابت اور ان لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے اور امام کی فوج میں تفرقہ و اختلاف کرنے کا تھا۔

۱۔ جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی فوج میںسب سے وفادار ربیعہ والے تھے اگرچہ قبیلۂ مُضَر والے اپنی جگہ سے ہٹ گئے لیکن قبیلہ ربیعہ والے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر موجو د رہے. جب امام علیہ السلام کی نظر ان کے پرچموں پر پڑی تو آپ نے پوچھا کہ یہ پرچم کس کے ہیں لوگوں نے کہا یہ پرچم ربیعہ کے ہیں اس وقت آپ نے فرمایا:''هِیَ رایات عَصَمَ اللّٰه أهلهاو صبَّر هم و ثبّتَ اَقْدامهم'' (۱)

''یعنی یہ سب خدا کے پرچم ہیں خدا ان کے مالکوں کی حفاظت کرے اور انہیں صبر عطا کرے اور یہ ثا بت قدم رہیں''

امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ اسی قبیلے کا ایک سردار خالد بن معمّر، معاویہ سے قریب ہوگیا ہے اور اس کے اور معاویہ کے درمیان ایک خط یا متعد د خطوط لکھے جاچکے ہیں تو امام علیہ السلام نے فوراً اس کواور قبیلہ ربیعہ کے بزرگوں کو طلب کیا اور ان سے فرمایا:اے قبیلہ ربیعہ کے لوگو ،تم لوگ میرے چاہنے والے اور میری آواز پر لبیک کہنے والے ہو، مجھے خبر ملی ہے کہ تمھارے سرداروں میں سے کسی ایک نے معاویہ کے ساتھ خط و کتابت کی ہے اور پھر خالد کی طرف نگاہ کی اور کہا : اگر تمھارے متعلق جو باتیں ہم تک پہونچی ہیں اگر وہ سچی ہیں تو میں تمھیں بخش دوں گا اور امان دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ عراق اور حجاز یا ہر وہ جگہ جہاںپر معاویہ کی حکومت و قدرت نہیں ہے وہاں جا کر زندگی بسر کرو اور اگر وہ چیزیں جو تمھارے متعلق ہم تک پہونچی ہیں جھوٹی ہیں تو ہمارے دھڑکتے ہوئے دل کواپنی مطمٔن قسم کے ذریعے آرام پہونچاؤ،اس نے اسی وقت سب

______________________

(۱)تاریخ طبری ج ۳جزء ۶ ص۱۹،۸۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۶،۲۲۵۔

۶۰۷

کے سامنے قسم کھائی کہ ہرگز ایسا نہیں ہے اس کے دوستوں نے کہا اگر یہ بات سچی ہوگی تو اسے قتل کردیں گے اور انہیں میں سے ایک شخص زید بن حفصہ نے امام علیہ السلام سے کہا خالد کی قسم پر آپ کوئی چیز بطور ضمانت رکھئے تاکہ آپکے ساتھ خیانت نہ کرے(۱)

تمام قرأین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام علیہ السلام کی فوج میں وہ معاویہ کی طرف سے خصوصی نمائندہ تھا اور کامیابی کے وقت یہاں تک کہ اس موقع پر کہ عنقریب تھا کہ لوگ معاویہ تک پہونچیں اور اس کے خیمے میں اسے گرفتار کرلیں ،خالد نے فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا اور پھر اپنے کام کی توجیہ پیش کرنے لگا اس سلسلے میں چند باتوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

امام علیہ السلام نے میسرہ قبیلہ ربیعہ کے سپرد کیا تھا اور اس کی سرداری عبداللہ ابن عباس کے ہاتھوں میں تھی، امام علیہ السلام کا میسرہ معاویہ کے میمنہ کے مقابلے میں تھا اور اس کی ذمہ داری شام کی مشہور ترین شخصیتیں ذوالکلاع حمیری اورعبیداللہ بن عمر کے ہاتھوں میں تھی قبیلہ حمیر، ذوالکلاع کی سرداری میں اور عبید اللہ نے سواروں اور پیادوں کے ساتھ امام علیہ السلام کے میسرہ پر شدید حملہ کیا لیکن زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوا دوسرے حملے میں عبیداللہ بن عمر فوج کے بالکل آگے کھڑا ہوا اور شامیوں سے کہا عراق کے اس گروہ نے عثمان کو قتل کیا ہے اگر ان لوگوں کو شکست دیدیا تو تم نے انتقام لے لیا اور علی کو نابود کردیا ۔ اس حملے میں بھی ربیعہ کے لوگوں نے ثابت قدم رہتے ہوئے اپنا دفاع کیا اور کمزوروناتواں لوگوں کے علاوہ کوئی بھی پیچھے نہ ہٹا۔

امام علیہ السلام کی فوج کے تیز بین لوگوں نے بتا دیاکہ جس وقت خالد نے امام علیہ السلام کی فوج کے کچھ لوگوں کو پیچھے ہوتے دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ پیچھے ہونے لگا اور چاہا کہ اپنے اس عمل سے امام کی فوج کے ثابت قدم سپاہیوں کو پیچھے ہٹنے کے لئے آمادہ کرے لیکن جب اس نے ان لوگوں کی ثابت قدمی دیکھی تو فوراً ان لوگوں کی طرف واپس چلا گیا اور اپنے فعل کی توجیہ کرنے لگا اور کہا: میرے پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ بھاگ رہے تھے ان کو تم لوگوں کی طرف واپس پلٹا دوں۔(۲)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج ۳جزء ۶ ص۱۹،۸۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۶،۲۲۵۔

(۲)تاریخ طبری ج ۳ جز ۶ ص ۱۹۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۵۶

۶۰۸

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :

اسلامی مؤرخین مثلاً کلبی اور واقدیمی کا نظریہ ہے کہ خالد نے جان بوجھ کر دوسرے حملے میں پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تھا تاکہ میسرہ میں امام کی فوج شکست کھاجائے کیونکہ معاویہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر امام کی فوج پر اس نے کامیابی حاصل کرلی تو جب تک خالد زندہ رہے گا خراسان کی گورنری اسے دے دے گا۔(۱)

ابن مزاحم لکھتے ہیں :

معاویہ نے خالد سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس جنگ میں کامیابی ملی تو خراسان کی گورنری اس کے ہاتھ میں ہوگی، خالد معاویہ کے دھوکہ میں آگیا مگراس کی آرزو پوری نہ ہوسکی کیونکہ جب معاویہ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی تو اسے خراسان کاگورنر تو بنادیا لیکن اس سے پہلے کہ معین شدہ جگہ پر پہونچتا آدھے ہی راستے میں ہلاک ہوگیا۔(۲)

شام کی فوج عبید اللہ ابن عمر کے وجود پر افتخار کرتی تھی اور کہتی تھی کہ پاکیزہ کا بیٹا ہمارے ساتھ ہے اور عراقی محمد بن ابو بکرپرافتخار کرتے تھے اور اسے طیب بن طیب(اچھا اور اچھے کا بیٹا) کہتے تھے۔

جی ہاں، بالآخرشام کی فوج حمیرا اور امام کی فوج ربیعہ کے درمیان زبردست جنگ کی وجہ سے دونوں طرف کے بہت زیادہ افراد مارے گئے اور سب سے کم نقصان یہ تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج سے پانچ سو سپاہی جب کہ وہ سر سے پیر تک اسلحوں سے لیس تھے اور ان کی آنکھوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا میدان جنگ میں آئے اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں معاویہ کی فوج کے سپاہی ان سے مقابلے کے لئے میدان میں آئے پھر دونو ں گروہوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور دونوں فوجوں میں سے کوئی ایک بھی اپنی چھاؤنی میں واپس نہیں گیا اور سب کے سب مارئے گئے۔

دونوں فوجوں کے دور ہوتے وقت سروں کے ٹیلوں میں سے ایک سر نیچے گرا جسے''تل الجماجم'' کہتے ہیں، اور اسی جنگ میں ذوالکلاع جو معاویہ کا سب سے بڑا محا فظ تھا اور قبیلۂ حمیر کو معاویہ

_______________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۲۸

(۲) وقعہ صفین ص ۳۰۶

۶۰۹

کی جان کی حفاظت کے لئے آمادہ کرتا تھا خندف نامی شخص کے ہاتھوں ماراگیا اور حمیریان کے درمیان عجیب خوف وہراس پیدا ہوگیا۔(۱)

۲۔ عبید اللہ بن عمر نے جنگ کے شدید ترین لمحات میں شیطنت اور تفرقہ ایجاد کرنے کے لئے کسی کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا اور ان سے ملاقات کرنے کی درخواست کی امام حسن علیہ السلام نے امام کے حکم سے اس سے ملاقات کی، گفتگو کے دوران عبید اللہ نے امام حسن علیہ السلام سے کہا ، تمھارے باپ نے پہلے بھی اور اس وقت بھی قریش کا خون بہایا ہے کیا تم اس بات کے لئے آمادہ ہو کہ ان کے جانشین بنو، اور تمھیں مسلمانوں کے خلیفہ کے عنوان سے پہچنوائیں؟امام علیہ السلام نے بہت تیز اس کے سینہ پر ہاتھ مارا اور اس وقت علم امامت کے ذریعے عبید اللہ کے ذلت سے مارے جانے کی اُسے خبر دی اور کہا آج یا کل تو مارا جائے گا۔ آگاہ ہوجا کہ شیطان نے تیرے بُرے کام کو تیری نظر میں خوبصورت بنا کر دکھایا ہے، راوی کہتا ہے کہ وہ اسی دن یا دوسرے دن چار ہزار سبز پوش سپاہیوں کے ساتھ میدان میں آیا اور اسی دن قبیلہ ہمدان سے تعلق رکھنے والے ہانی بن خطاب کے ہاتھوں مارا گیا۔(۲)

۳۔معاویہ نے اپنے بھائی عتبہ بن سفیان کوجو فصیح وبلیغ تقریر کرنے والا تھا اپنے پاس بلایا اور کہاکہ اشعث بن قیس کے ساتھ ملاقات کرو، اور اسے صلح اور سازش کے لئے دعوت دو، وہ امام علیہ السلام کی فوج میں آیا اور بلند آواز سے پکارا ، لوگو اشعث کو خبرکردو کہ معاویہ کی فوج کا ایک شخص تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہے، اس نے کہاکہ اس کا نام پوچھو اور جب سے خبر دی کہ وہ عتبہ بن سفیان ہے تو کہا وہ جو ان خوش کلام ہے اس سے ملاقات کرنا چاہیے عتبہ نے جب اشعث سے ملاقات کی تو اس سے کہا:اگر معاویہ علی کے علاوہ کسی اور سے ملاقات کرتاتو تم سے کرتاکیونکہ تم عراقیوں اوریمنیوں میں سب سے بزرگ ہو اور عثمان کے داماد اور اس کے زمانے میں حاکم تھے تم اپنے کو علی کی فوج کے دوسرے سپہ سالاروں سے برابری نہ کرو، کیونکہ اشتر وہ ہے جس نے عثمان کو قتل کیا اور عدی حاتم وہ ہے جس نے لوگوں کو قتل عثمان پر ورغلایا اور سعید بن قیس وہی ہے جس کی دیت ،امام علی نے اپنے ذمہ لی ہے اور شریح اور زحربن قیس خواہشات نفس کے علاوہ کوئی دوسری چیز

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۳۰۶-------(۲) وقعہ صفین ص ۲۹۷ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۳۳ ۔

۶۱۰

کی فکر نہیں کرتے تم نے نمک حلالی کرتے ہوئے عراق والوں کا دفاع کیا اور تعصب کی وجہ سے شامیوں سے جنگ کیا ، خدا کی قسم ،کیا تم جانتے ہو کہ ہمارا اور تمھارا کام کہا ں تک پہونچ چکا ہے ، میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ علی کو چھوڑ دو اور معاویہ کی مدد کرو، میں تجھے اس راہ کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہا ہوں جس میں میرا اور تمھار ا دونوں کا فائدہ ہے۔

تاریخ کابیان ہے کہ اشعث، خفیہ طور پر معاویہ سے رابطہ رکھے تھا اور موقع کی تلاش میں تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو جنگ کی کامیابی کو معاویہ کی طرف موڑ دے، اس نے پہلے تو اپنے جواب میں امام علیہ السلام کی تعریف کی اور عتبہ کی گفتگو کو ایک ایک کرکے رد کیا، لیکن آخر میں جنگ کو ختم کرنے کے لئے اشارة موافقت کر لی اور کہا تم لوگ مجھ سے زیادہ زند گی گزارنے اور باقی رہنے میں محتاج نہیں ہو میں اس سلسلے میں فکر کروں گا اور خدا نے چاہا تو اپنے نظریہ کا اعلان کروں گا۔

جب عتبہ معاویہ کے پاس واپس پہونچا اور اس سے پورا ماجرا بیان کیا تو معاویہ بہت خوش ہواور کہا اس نے اپنی نظر میں صلح کا اعلان کردیاہے۔(۱)

۴۔ معاویہ نے عمر و عاص سے کہا، علی کے بعد سب سے مشہور و معروف شخضیت ابن عباس کی ہے اگر وہ کوئی بات کہے تو علی اس کی مخالفت نہیں کریں گے، ، جتنی جلدی ہو کوئی تدبیرکروکیونکہ یہ جنگ ہم لوگوں کو ختم کردیگی، ہم ہرگز عراق نہیں پہونچ سکتے مگر یہ کہ شام کے لوگ نابود ہوجائیں ۔

عمر و عاص نے کہا: ابن عباس دھوکہ نہیں کھا سکتے اگر اس کو دھوکہ دے دیا تو علی کو بھی دھوکہ دے سکتے ہو، معاویہ کے بے حد اصرار پر عمر و عاص نے ابن عباس کو خط لکھا اور خط کے آخر میں کچھ شعر بھی

لکھا، جب عمروعاص نے اپنا خط اور اپنا کہا ہواشعر معاویہ کو دکھایا تو معاویہ نے کہا''لاٰ أریٰ کتابک علیٰ رقّةِ شعرِک'' یعنی تیراخط تیرے شعر کے پائے کا نہیں ہے!

دھوکہ بازوں کے سردار نے اس خط اور اشعار میں ابن عباس اور ان کے خاندان کی تعریف اور مالک اشتر کی برائی کی تھی اور آخر میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر جنگ ختم ہوگئی تو ابن عباس شوریٰ کے ایک ممبر ہوگے جس کے ذریعے سے امیر اور خلیفہ معین ہوگا، جب یہ خط ابن عباس کو ملا تو انہوں نے امام علیہ السلام کو

______________________

( ۱)وقعہ صفین ص۴۰۸ ۔

۶۱۱

دکھایا اس وقت امام نے فرمایا۔ خدا وند عالم عاص کے بیٹے کو موت دے، کیسا دھوکہ دینے والا خط ہے جتنی جلدی ہو اس کاجواب لکھو اور اس کے شعر کے جواب کے لئے اپنے بھائی سے شعر لکھواؤ کیونکہ وہ شعر کہنے میں ماہرہے۔

ابن عباس نے خط کے جواب میں لکھا:

میں نے عربوں کے درمیان تجھ جیسا بے حیا نہیں دیکھا اپنے دین کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا اور دنیا کو گناہگاروں کی طرح بہت بڑی سمجھا، اور ریاکاری کے ذریعے تقویٰ نمایاںکرتا ہے، اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کو راضی کرے ،تو سب سے پہلے مصر کی حکومت کی ہوس اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر واپس چلاجا، علی اور معاویہ ایک جیسے نہیں ہیں جس طرح سے عراق اور شام کے لوگ برابر نہیں ہیں، میں نے خدا کی مرضی چاہی ہے اور تو نے مصر کی حکومت ، اور پھر ان اشعار کو جو ان کے بھائی فضل نے عمر وعاص کے اشعار کے وزن پر کہے تھے اس خط میں لکھا اور امام علیہ السلام کو خط دکھا یا ۔ امام علیہ السلام نے کہا اگر وہ عقلمند ہوگاتو تمھارے خط کا جواب نہیں دے گا۔

جب عمرو عاص کو خط ملا تو اس نے معاویہ کو دکھایا اور کہا تو نے مجھے خط کی دعوت دی لیکن نہ تجھے کوئی فائدہ ہوا اور نہ مجھے فائدہ ہوا، معاویہ نے کہا: علی اور ابن عباس کا دل ایک ہی جیسا ہے اوردونوں عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔(۱)

۵۔ جب معاویہ نے احساس کیا کہ علی کے سپاہی پہلے سے کچھ زیادہ آمادہ ہوگئے ہیں اور محاصرہ تنگ ہوگیا ہے اورقریب ہے کہ،شکست کھا جائیں تو اس نے خود براہ راست ابن عباس کو خط لکھا اور یا د دلایا کہ یہ جنگ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان بغض وعداوت کی بھڑکتی ہوئی چنگاری ہے اور انہیں اس کام کے انجام سے ڈرایا، اس خط میں اس نے ابن عباس کو لالچ دلائی اور کہا : اگر لوگ تمھارے ہاتھ پر بیعت کریں تو ہم بھی تمھار ی بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں۔

جب ابن عباس کو خط ملا تو آپ نے ٹھوس او ر دندان شکن جواب معاویہ کو لکھا ، ایسا جواب کہ معاویہ اپنے

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۴۱۴۔۴۱۰ (تھوڑے فرق کے ساتھ اور دونوں خطوط کے اشعارکے بغیر)۔ الامامة السیاسةج۱ص۹۹۔۹۸

۶۱۲

خط لکھنے پربہت شرمندہ ہوا اور کہا یہ خود میر ے کام کا نتیجہ ہے اب ایک سال تک اُسے خط نہیں لکھوں گا۔(۱)

عمار اور باغی گروہ

یاسر کا گھرانہ اسلام کے عظیم گھرانے میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے آغاز اسلام میں ہی پیغمبر اسلام (ص)کی دعوت پر لبیک کہا اور اس راہ میں زبردست مصائب و آلام برداشت کیایہاں تک کہ یاسر اور ان کی بیوی سمیہ نے خدا کی راہ میں ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے ظلم و ستم سے اپنی جان دیدی۔

ان دونوں کے جوان بیٹے عمار مکہ کے جوانوں کی سفارش اور نئے قوانین سے ظاہری اظہار بیزاری کرنے سے نجات پاگئے خداوند عالم نے عمار کے اس فعل کو اس آیت میںقرار دیا ہے:

( اِلّٰا مَنْ اُکرِ ه و قلبُه مطمئن بالایمان ) (سورۂ نحل آیت ۱۰۶)

مگر وہ شخص کہ جو (کفر کہنے پر) مجبور ہوجائے جب کہ اس کا قلب ایمان سے مطمئن ہے۔

جس وقت عمار کے واقعات اور ان کے کفر ظاہر کرنے کی خبر پیغمبر (ص)کو ملی تو آپ نے فرمایا: ہرگزنہیں بلکہ عمار کا پورا وجود ایمان سے سرشار ہے اور توحید ان کے گوشت و خون میں رچ بس گئی ہے اسی وقت عمار وہاں پہونچ گئے جب کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے آنسوؤں کو صاف کیااور کہا کہ اگر دوبارہ ایسی مشکل پیش آئے تو اظہار برائت کرنا۔(۲) صرف یہی ایک آیت نہیں ہے جو اس بزرگ صحابی کی شان میں نازل ہوئی بلکہ مفسرین نے دواور آیتوں کو لکھا ہے جو ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۱) وہ پیغمبر اسلام کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپ کے ہم رکاب رہے اور تمام غزوات اور بعض سریوں میں شرکت کی اور پیغمبر(ص)کے انتقال کے بعد، اگرچہ خلافت ِوقت سے راضی نہ تھے مگر خلافت کی مدد کرنے میں اگر اسلام کا فائدہ ہوتا تو مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔پیغمبر اسلام (ص)نے مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے جو کام انجام دیا وہ مسجد کی تعمیر تھی، عمار

_______________________________

(۱)آیتیںاَمّنْ هو ٰقانتٔ آنأ اللیل ساجد اوقائماً یحذرالآخرة (زمر، ۹)ولا تطرد الذین ید عون ربّهم بالغداوة والعشی ۔ اس سلسلے میں تفسیر قرطبی۔کشاف۔درالمنثور۔تفسیررازی کی طرف رجوع کریں۔----(۲)وقعہ صفین ص۲۱۶۔۲۱۴ ۔ الامامة السیاسة ج۱ص۱۰۰

۶۱۳

نے مسجد بنانے میں سب سے زیادہ زحمت برداشت کی اکیلے کئی لوگوں کا کام انجام دیتے تھے ، اسلام سے عشق سبب بناکہ لوگ انہیں ان کی طاقت سے زیادہ کام لیں، ایک دن عمار نے ان لوگوں کی پیغمبر سے شکایت کی اور کہا ان لوگوںنے مجھے مار ڈالا ہے، پیغمبر اسلام(ص)نے اپنا تاریخی بیان دیا جو تمام حاضرین کے دل میں اتر گیا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''انک لن تموتَ حتیٰ تقتُلک الفئة الباغیةُ النّٰا کِبَةُعنِ الحقّ یکونُ آخِر زادِک من الدّنیٰا شَر بةُلَبن'' (۱)

''تمھیں اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک تجھے باغی اور حق سے منحرف گروہ قتل نہ کرے دنیا میں تمہارا آخری رزق ایک پیالہ دودھ ہے''۔

یہ بات پیغمبر (ص)کے تما م صحابیوں میں پھیل گئی اور پھر ایک سے دوسروں تک منتقل ہو گئی، اسی دن تمام مسلمانوں کی نظر میں عمار ایک خاص مقام کے حامل ہوگئے پیغمبر اسلام (ص)نے مختلف مواقع پر بھی آپ کی تعریف کی، جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی فوج میں عمار کے شامل ہونے کی خبر نے معاویہ کی دھوکہ کھائی ہوئی فوج کے دلوں کو لرزا دیا، اور بعض لوگ اس بات کی تحقیق کرنے لگے۔

______________________

(۱)یہ حدیث جس میں پیغمبر(ص)نے غیب کی خبر دی ہے محدثین اور مؤرخین نے اسے نقل کیا ہے اور سیوطی نے اپنی کتاب خصائص میں اس کے تو اتر کی تصریح کی ہے ،اور مرحوم علامہ امینی نے الغدیر(ج۹ص۲۲،۲۱) میں اس کی سندوں کو ذکر کیا ہے ۔ تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶ص۲۱۔ کامل ابن اثیرج ۳، ص۱۵۷ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

۶۱۴

عمار کی تقریر

جب عمار نے چاہا کہ میدان جنگ میں جائیں تو امام علیہ السلام کے دوستوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اسطرح سے گفتگو شروع کی:اے خدا کے بندو ، ایسی قوم سے جنگ کرنے کے لئے اٹھو ، جو ایسے شخص کے خون کا بدلہ لینا چاہتی ہے جس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور خدا کی کتاب کے خلاف حکم دیا اور اسے صالح گروہ ، نہی عن المنکر اور امر با لمعروف کرنے والوں نے قتل کیا ہے لیکن وہ گروہ جس کی دنیا اس کے قتل کی وجہ سے خطرے میں پڑگئی تھی، ان لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ کیوں اسے قتل کر دیاتو اس کا جواب دیاگیا کہ وہ اپنے برے کاموں کی وجہ سے مارا گیاہے، ان لوگوں نے کہا عثمان نے کوئی برا کام نہیں کیا ہے جی ہاں! ان لوگوں کی نظر میں عثمان نے براکام انجام نہیں دیا ، تمام دینار ان کے ہاتھ میں تھے وہ سب کھا گئے اور ہضم کرگئے ، وہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا نہیں چاہتے بلکہ وہ دنیا کی لذتوں سے آشنا ہیں اور اسے دوست رکھتے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ہمارے ہاتھوں گرفتار ہوئے تو دنیا کی وہ لذ ت و آرام و آسایش سے محروم ہوجائیں گے۔

بنی امیہ کا خاندان اسلام قبول کرنے میں آگے نہ تھا کہ وہ رہبری کے لایق ہوتا، انہوں نے لوگوں کو دھوکہ دیا اور ''ہمارا ا مام مظلوم مارا گیا'' کا نعرۂ لگایا تا کہ لوگوںپر ظلم و ستم کے ساتھ حکومت و سلطنت کرے، یہ ایک ایسا بہانہ ہے جو ان لوگوں کی طرف سے ہواہے جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اور اگر ایسا دھوکہ اور فریب انجام نہ دیتے تو دو آدمی بھی ان کی بیعت نہ کرتے اور ان کی

۶۱۵

مددکے لئے نہ اٹھتے۔(۱)

عمار تقریر ختم کرنے کے بعد میدان میں آئے اور ان کے ساتھی بھی انکے پیچھے پیچھے تھے، جب عمر و عاص کے خیمے پر نگاہ پڑی تو بلند آوا ز سے کہا تو نے اپنے دین کو مصر کی حکومت کے بدلے بیچ دیا ،لعنت ہو تجھ پر یہ پہلی مرتبہ تو نے اسلام پر وار نہیں کیاہے، اور جب آپ کی نگاہ عبید اللہ بن عمر کے خیمے پر پڑی تو پکار کر کہا: خدا تجھے نابو د کرے تو نے اپنے دین کو خدا اور اسلام کے دشمن کی دنیا کے بدلے بیچ دیا ہے، اس نے جواب دیا میں شہید مظلوم کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں عمار نے کہا تو جھوٹ بول رہا ہے خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ تو ہرگز خدا کی مرضی نہیں چاہتا اگر تو آج مارا نہ گیا تو کل ضرور مارا جائے گا، سوچ لے کہ اگر خدا وند عالم اپنے بند وں کو ان کی نیت کے مطابق جزاء و سزا دے تو تیری نیت کیاہے(۲)

اس وقت جب کہ ان کے چاروں طرف علی علیہ السلام کے دوست جمع تھے، کہا خدا وندا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہو کہ تیری مرضی اس میں ہے کہ اس دریا میں کود جاؤ ںتو کود جاؤنگا اگر مجھے معلوم ہو کہ تیر ی مرضی اس میں ہے کہ تلوار کی نوک کو اپنے سینہ پر رکھوں اور اتنا جھکوں کہ پشت کے پار ہو جائے تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کرونگا، خدا یا میں جانتا ہو ں اور مجھے آگا ہ بھی کیا ہے کہ آج کے دن وہ کام جس سے تو سب سے زیادہ راضی ہوگا وہ اس گروہ کے ساتھ جہاد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اگر مجھے معلوم ہو تا کہ

_______________________________

(۱) کامل ابن اثیرج ۳ ص۱۵۷ ۔ وقعہ صفین ص۳۱۹۔ تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶ص۲۱

(۲) وقعہ صفین ص۳۳۶۔ اعیان الشیعہ ج۱ ص۴۹۶ مطبوعہ بیروت لبنان۔

۶۱۶

اس عمل کے علاوہ کوئی اور کام ہے تو اس کو ضرور انجام دیتا۔(۱)

_______________________________

( ۱) تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶،ص۲۱ ۔ کامل ابن اثیرج ۳ ص۱۵۷ ۔ وقعہ صفین ص۳۲۰۔

۶۱۷

امام کی فوج میں عمار کے ہونے کا اثر

عمار کی شخصیت اور اسلام میں ان کی خدمات ایسی چیز نہ تھی جو اہل شام سے پوشیدہ ہوتی۔ ان کے بارے میں پیغمبر اسلام کی حدیث شہرت پاچکی تھی اور جو چیز شام کے لوگوں سے کچھ پوشیدہ تھی وہ اما م علیہ السلام کی فوج میں عمار کا شریک ہونا تھا، جب عمار کی امام علیہ السلام کی فوج میں احتمالاً شرکت کی خبر معاویہ کے فوج میں پھیلی تو جو لوگ معاویہ کی جھوٹی اور مسموم تبلیغ کی وجہ سے اس کی فوج میں داخل ہوئے تھے وہ چھان بین کرنے لگے ، انھی میں سے ایک یمن کی مشہور و معروف شخصیت ذوالکلاع کی تھی جس نے حمیر ی قبیلے کے بہت سے آدمیوں کو معاویہ کے لشکر میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، اب اس کے دل میں حقانیت کا نور چمک گیا وہ چاہتا تھا کہ حقیقت کو پالے، لہٰذا اس نے ارادہ کیا کہ ابونوح کے ساتھ ، جو کہ حمیر قبیلے کا سردار تھااور کوفہ میں رہتا تھا اور اس وقت امام علیہ السلام کی فوج میں شامل تھا اس سے ملاقات کرے، اسی لئے ذوالکلاع نے معاویہ کی فوج میں سب سے آگے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا :میں ابو نوح حمیری جو کلاع قبیلے کا ہے سے بات کرناچاہتا ہوں ۔

ابونوح یہ آواز سن کر اس کے سامنے آیا اور کہا،تم کون ہوں،اپنا تعارف کراؤ؟

ذوالکلاع : میں ذوالکلاع ہوں میر ی التجا ہے کہ میر ے پاس آؤ۔

ابونوح :میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں جو تنہا تمھارے پاس آؤں ،مگر اپنے گروہ کے ہمراہ جو میرے اختیا ر میں ہے ۔

ذوالکلاع : تم خدا اور اس کے رسول اور ذوالکلاع کی پنا ہ میں ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم سے ایک موضوع کے سلسلے میںگفتگو کرو ں،لہٰذا تم اکیلے میرے پاس آؤ،اور میں بھی تنہا تمھار ے پاس آؤنگا اور دونوں صفوں کے درمیان گفتگو کریں ، دونوں اپنی اپنی صف سے نکلے اور صفوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہوا۔

ذوالکلاع : میں نے تمھیں اس لئے بلایا ہے کہ میں نے پہلے (عمربن خطاب کے زمانے میں)

عمرو عاص سے ایک حدیث سنی ہے ۔

ابونوح : وہ حدیث کیا ہے؟

ذوالکلاع : عمروعاص نے کہا کہ رسول ِ خدا (ص)نے فرمایا ہے کہ ! اہل عراق اور اہل شام ایک دوسرے کے مقابلے میں جمع ہونگے، حق اور ہدایت کرنے والا ایک طرف ہے اور عمار بھی اسی طرف ہوگا۔

۶۱۸

ابونوح : خدا کی قسم عمار ہمارے ساتھ ہیں۔

ذوالکلاع : کیا ہم سے جنگ کا مکمل ارادہ ہے

ابونوح : ہاں کعبہ کے رب کی قسم ! کہ وہ تمھارے ساتھ جنگ کے لئے ہم سے زیادہ مصر ہیں اور خود میرا ارادہ یہ ہے کہ کاش تم سب لوگ ایک آدمی ہوتے اور میں سب کا سر کاٹ دیتا اور سب سے پہلے میں تمھارا سر قلم کرتا جب کہ تو میرا چچا زاد بھائی ہے۔

ذوالکلاع : کیوں ایسی آرزو تمھار ے دل میں ہے جب کہ میں نے اپنی رشتہ داری کو ختم نہیں کیا اورتمہیں اپنی قوم کا سب سے قریبی شخص جانااور میں نہیں چاہتا کہ تمھیں قتل کروں۔

ابونوح : خدا نے اسلام کی وجہ سے ایک رشتہ ختم کردیا ہے اور جو افراد دور تھے ان کو قریبی عزیز بنا دیا تم نے اور تمھارے دوستوں نے ہمارے سا تھ معنوی رشتہ کو ختم کر دیا ہے ہم حق پر ہیںاور تم باطل پر ہو سردارِکفر اور اور اس کے لشکر کی مدد کر رہے ہو۔

ذوالکلاع : کیا تم شام کی فوج کے درمیان میرے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہو؟ میں تمھیں امان دے رہا ہوں کہ اس راہ میں قتل نہیں کئے جاؤ گے او ر نہ تجھ سے کوئی چیز لی جائے گی۔ اور نہ بیعت کے لئے مجبور ہوگے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عمروعاص کو آگاہ کردو کہ عمار، امام علی علیہ السلام کے لشکر میں موجود ہیں۔شاید خداوند عالم دونوں لشکروں کے درمیان صلح و آشتی کا ماحول پیدا کردے۔

ابونوح :میں تمھارے اور تمھارے دوستوں کے مکر و فریب سے خوف محسوس کر رہا ہوں۔

ذواکلاع :میں اپنی بات کا ضامن ہوں۔

ابونوح نے آسمان کی طرف رخ کرکے کہا ، خدا یا تو بہتر جانتا ہے کہ ذوالکلاع نے مجھے امان دیا ہے اور جو کچھ میرے دل میں ہے تو اس سے باخبر ہے ، میر ی حفا ظت فرما، اتنا کہنے کے بعد ذوالکلاع کے ساتھ معاویہ کی فوج کی طرف گئے اور جب عمروعاص اور معاویہ کے خیمے کے پاس پہونچے تو دیکھا کہ دونوں ،لوگوں کو جنگ کے لئے تیار کر رہے ہیں۔

ذوالکلاع نے عمرو عاص کو متوجہ کر تے ہوئے کہا کیا تو ایک سچے اور عقلمند انسان سے عمار یاسر کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہے؟

۶۱۹

عمروعاص : یہ کون آدمی ہے؟

ذوالکلاع نے ابونوح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ میرا چچا زادبھائی اورکوفہ کا رہنے والا ہے، عمرو عاص نے ابونوح سے کہا میں تمھارے چہرے پر ابوتراب کی نشانیاں دیکھ رہا ہوں۔

ابونوح : میرے چہرے پرمحمد (ص)اور ان کے دوستوں کی نشانیاں ہیں اور تیرے چہرے پر ابوجہل و فرعون کی نشانیاں ہیں۔ اس وقت معاویہ کی فوج کا ایک سردار ابوالاعور اٹھا اور اپنی تلوار کھینچ کر کہاکہ اس جھوٹے کے چہرے پر ابوتراب کی نشانیاں ہیں میں اس کو قتل کروں گا، اس میںکیسے اتنی جرأت پیدا ہو گئی کہ ہمارے درمیان ہوتے ہوئے بھی ہمیں گالی دے رہا ہے۔

ذوالکلاع نے کہا: خدا کی قسم ، اگر تم نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں تجھے تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ یہ میرا چچازاد بھائی ہے اور میری امان میں وہ اس صف میں داخل ہوا ہے، میں اسے اس لئے لایا ہوںکہ تم لوگ عمار کے بارے میں سوال کرو کہ جس کے متعلق مستقل جنگ و جدال کررہے ہو۔

عمر وعاص : میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ سچ بولنا کیاعمار یا سر تمھاری فوج میں ہیں۔

ابونوح : میں جواب نہیں دوں گا مگر یہ کہ اس سوال کی وجہ سے آگاہ ہو جاؤں ، جب کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت دوست ہمارے ساتھ ہیںاور سب کے سب تمھارے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔

عمرو عاص :میں نے پیغمبر (ص)سے سنا ہے کہ عمار کو ظالم وستمگر گروہ قتل کرے گا اور عمار کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ حق سے دور ہو ں جہنم کی آگ ان پرحرام ہے۔

ابونوح :اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں و اللہ وہ ہمارے ساتھ اور وہ تم لوگوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

عمر وعاص : وہ ہم سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں؟!

۶۲۰