فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341214
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341214 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابونوح : ہاں ، قسم اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں انہوں نے جنگ جمل میں مجھ سے کہا کہ ہم اصحاب جمل پرکامیاب ہوں گے اور کل تجھ سے کہا کہ اگر شامی ہمارے اوپر حملہ کریں گے اور ہمیں سرزمین''ہجر'' پر دوڑائیں گے تب بھی ہم جنگ سے باز نہیں آئیں گے۔ کیو نکہ ہم جا نتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر ہیں اور ہمارے قتل ہونے والے جنت اور ان کی فوج سے قتل ہونے والے جہنم میں ہوں گے۔

عمروعاص: کیا تم ایسا کر سکتے ہوکہ میں عمار سے ملاقات کرسکوں؟

ابونوح : میں نہیں جانتا ، لیکن میں کوشش کروں گا کہ ملاقات ہوجائے اس کے بعدان لوگوںسے جدا ہوئے اور امام علیہ السلام کے لشکر میں جہاں عمار یاسر تھے وہاں پہونچے اور اپنی پوری داستان شروع سے آخر تک انہیں سنائی اور کہا کہ بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ جس میں عمروعاص بھی ہے آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔

عمار، ملاقات کرنے کے لئے تیار ہوگئے، اور پھر ایک گروہ جس میں سب کے سب سوار تھے امام علیہ السلام کی فوج سے روانہ ہوئے اور عوف بن بشر عمار سے رخصت ہوئے اور خود کو فوجِ شام کے پاس پہونچایا اور بلند آواز سے کہاعمر وعاص کہاںہے؟ لوگوں نے کہا یہاں ہے، عوف نے عمار کی جگہ بتائی، عمرو عاص نے درخواست کی کہ عمار شام کی طرف روانہ ہوں، عوف نے کہا کہ تمھارے مکروفریب سے وہ مطمئن نہیں ہیں، پھر یہ طے پایا کہ دونوں آدمی فوجوں کے تھوڑے فاصلے پر گفتگوکریں،اور دونوں کی فوج حمایت کرے، دونوں گروہ معین جگہ کے لئے روانہ ہوئے لیکن احتیاط کو مد نظر رکھا اور وہاں اترتے وقت اپنے ہاتھوں کو تلواروں پررکھا، عمرو نے عمار کو دیکھتے ہی بلند آواز سے کلمہ شہادتین سے گفتگو شروع کیا تاکہ اسلام سے اپنی الفت و محبت کا اظہار کرے لیکن عمار اس کے دھوکہ میں نہیں آئے اور سخت لہجہ میں کہا، خاموش ہوجاتونے پیغمبر کی زندگی اور ان کے مرنے کے بعد بھی اسے (اسلام کو)چھوڑدیا اور اس وقت نعرہ بلند کررہاہے؟ عمر و عاص نے بے حیا ئی سے کہا، عمار ہم ان باتوں کے لئے نہیں آئے ہیں میں نے اس فوج میں تمھیں سب سے زیادہ مخلص پایا ہے اور میں نے سوچا کہ تم سے معلوم کروں کہ ہم سے جنگ کیوںکررہے ہو جب کہ خدا، کتاب اور قبلہ دونوں کا ایک ہی ہے، عمار نے مختصر گفتگو کے بعد کہا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں خبر دی ہے کہ عہد و پیمان(جمل) توڑنے اور حق سے منحرف ہونے والوں سے جنگ کروں گا اور میں نے عہدو پیمان توڑ نے والے سے جنگ کی اور تم وہی حق سے دور ہونے والے ہو۔

۶۲۱

لیکن میں نہیں جانتا دین سے خارج ہونے(نہروان) والوں کو درک کر سکوں گایا نہیں پھر عمر و کی طرف رخ کرکے کہا، اے عقیم !تو جانتا ہے کہ پیغمبر نے علی کے بارے میں کہا ہے :''مَنْ کُنْتُ مولاَ ه فَعِلیّ مولاَ ه اللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وعٰادِ مَن عَادَاهُ'' (جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں پرودگار ان کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن رکھ) دونوں کی گفتگو عثمان کے قتل کی گفتگو کے بعد ختم ہوگئی اور دونوںایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے قیام کی جگہ واپس آگئے۔(ا)

اس ملاقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو چیز عمر وعاص نہیں چاہتا تھا وہ عمار کا امام علیہ السلام کی فوج میںشریک ہوناتھا ۔ کیونکہ وہ علی علیہ السلام کی فوج کے سرداروں کو بہت اچھی طرح پہچانتا تھا،لہٰذا عمار کی منطقی و عقلی باتوں کے مقابلے میں جنگ و جدال و اختلاف کی باتیں کرنے لگا اور عثمان کے قتل کی باتیںکرنے لگا تاکہ ان سے اقرار کرالے کہ خلیفہ کے قتل میں شامل تھے، اور اس طرح سے بے خبر شامیوں کو حملہ و شورش کے لئے آمادہ کرے، البتہ معاویہ او ر عمر وعاص کے لئے بہتر ہوا کہ ذوالکلاع عمار سے پہلے قتل ہوگیا ،کیونکہ اگر وہ عمار یاسر کی شہادت کے بعد زندہ ہوتا تو عمرو عاص اپنی بے ہودہ گفتگو کی بنیاد پر اسے دھوکہ نہیں دے سکتا تھا اور خود وہ شام کی فوج کے درمیان اور معاویہ و عمرو عاص کے لئے بہت بڑی مشکل بن جاتا۔ لہٰذا ذوالکلاع کے قتل ہونے اور عما ر یاسر کی شہادت کے بعد عمرو عاص نے معاویہ سے کہا میں نہیں جانتا کہ دونوں میں سے کس کے قتل پر خوشی مناؤں ،ذوالکلاع کے قتل پر یاعمار یاسر کی شہادت پر؟ خدا کی قسم اگر ذوالکلاع، عمار یاسر کے قتل کے بعد زندہ ہوتا تو تمام شامیوں کو علی علیہ السلام کی فوج میں داخل کردیتا۔(۲)

______________________

( ۱) دقعہ صفین ص۳۳۶،۳۳۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۸ص۲۲۔۱۶۔

(۲) کامل ابن ثیرج۳ص۱۵۷۔

۶۲۲

جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی بہادری

امام علیہ السلام پوری فوج کے سردارتھے،آپ ، معاویہ اور عمر وعاص جیسے سرداروں کی طرح نہ تھے

کہ سب سے امن کی جگہ ، اور فوج کے بڑے بڑے طاقتوروں کی حفاظت میں رہتے اور خطرے کے وقت بھاگ جاتے ، بلکہ آپ نے اپنی سرداری کو فوج کے مختلف علاقوں میںگھوم کر نبھایا اور مشکل سے مشکل لمحوں میں بھی اپنے سپاہیوں سے آگے آگے جنگ اور زبردست حملوں میں کامیابی آپ کے مبارک اور طاقتور ہاتھوں سے ہوتی تھی۔اب ہم امام علیہ السلام کی بہادری کے چند نمونے یہاں ذکر رہے ہیں:ان واقعات کی تفصیلات ابن مزاحم کی کتاب وقعہ صفین اور تاریخ طبری میں موجود ہے دلچسپی رکھنے والے قارئین ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

امام علیہ السلام تیروں کی بارش میں

امام علیہ السلام کی فوج کین میمنہ کا نظام عبد اللہ بن بدیل کے مارے جانے کی وجہ سے درہم برہم ہو گیا، معاویہ نے حبیب بن مسلمہ کو بچی ہوئی فوج کی سر کوبی کے لئے میمنہ پر معین کردیا ادھر اما م علیہ السلام کے میمنہ کی فوج کی سرداری سہیل بن حنیف کو ملی لیکن یہ نئی سرداری بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی میمنہ کے حیران و پریشان فوجی قلب لشکر سے ملحق ہوگئے جس کی رہبری خود امام علیہ السلام کررہے تھے، اس مقام پر تاریخ نے قبیلۂ ربیعہ کی تعریف اور قبیلۂ مضر کے بھاگنے اور ان کے خوف وہراس کے متعلق تذکرہ کیا ہے، امام علیہ السلام نے ایسے حالات میں قدم آگے بڑھایا اور خود میدان جنگ میں آئے۔

جنگ صفین کے خبر نگار زید بن وہب کا کہنا ہے کہ میں نے خود امام علیہ السلام کو تیروں کی بارش میں دیکھا کہ دشمن کے تیر آپ کی گردن اور شانے سے گزر رہے تھے، امام علیہ السلام کے بیٹوں کو خوف محسوس ہوا کہ امام علیہ السلام دشمن کے شدید باراں میں زخمی نہ ہوجائیں لہٰذا امام علیہ السلام کی مرضی کے بر خلاف سپر کے طور پر ان کے اطراف کھڑے ہوگئے لیکن امام علیہ السلام ان لوگوں کی خواہش کے بر خلاف آگے بڑھتے ہی رہے اور دشمن کو پچھاڑتے رہے اچانک امام کے بالکل سامنے آپ کے غلام کیسان اور ابوسفیان کا غلام احمر لڑتے لڑتے آگئے اور بالآخر کیسان قتل ہوگئے۔ ابو سفیان کا غلام اپنی کامیابی پر غرور کرتے ہوئے برہنہ تلوار کے ساتھ امام کی طرف آیا لیکن امام علیہ السلام نے پہلے ہی حملے

۶۲۳

میں اس کی زرہ کے دستہ پر ہاتھ ڈالا اور اسے اپنی طرف کھینچا اور پھر اٹھایا اور پوری طاقت سے اُسے زمین پر اسطرح پٹکا کہ اسکا شانہ اور بازوٹوٹ گیااور پھر اسے چھوڑ دیا اس وقت امام حسین علیہ السلام اور محمد حنیفہ نے اپنی تلوار سے اس کی زندگی کا خاتمہ کردیا اور امام کے پاس واپس گئے ، امام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام سے کہا، اپنے بھائیوں کی طرح اس کے قتل میں کیوں شریک نہ ہوئے۔امام نے جواب دیا''کَفیانی یٰا امیر المومنین'' یعنی وہ دونوں بھائی کافی تھے،

زید بن وہب کہتے ہیں ، امام علیہ السلام جتنا شام کے لشکر سے قریب ہوتے تھے اپنی رفتار کو بڑھاتے تھے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اس خوف سے کہ کہیں معاویہ کی فوج امام علیہ السلام کا محاصرہ نہ کر لے اور آپ کی زندگی خطرے میں نہ پڑ جائے ، حضرت سے کہا تھوڑا سا ٹھہر جائیں تو آپ کے وفادار ، ثابت قدم قبیلہ ربیعہ کے ساتھی آپ تک پہونچ جائیں۔ امام علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے جواب میں فرمایا:''ان لا بیک یوماً لَنْ یَعْدوه ولاٰ یُبطِیُٔ بَهِ عنه السّعُ ولاٰ یُعجلُ به اِالیه المش اَنّ اباکَ واللّٰهِ لاٰ یُبالِی وَقَعَ عَلیَ الموتِ اَوْوُقِعَ الموتُ علیه'' (۱)

''تمھارے باپ کی موت کے لئے ایک دن معین ہے جو آگے نہیں بڑھے گا،توقف سے نہ تو پیچھے ہٹے گا ، تمھارے باپ کو یہ خوف نہیں ہے کہ وہ موت کا استقبال کریں یا موت خود ان کا استقبال کرے''۔

ابو اسحاق کہتے ہیں:اما م علیہ السلام جنگ صفین کے دوران اپنی فوج کے سردار سعید بن قیس کے پاس سے گزرے جب کہ امام علیہ السلام کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا نیزہ تھا، اس نے امام علیہ السلام سے کہا کہ آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ دشمن سے اتنا قریب ہونے کی وجہ سے اچانک ان کے ہاتھوں قتل ہوجائیں ؟ امام علیہ السلام نے اس کے جواب فرمایا،''انّه لیس من احدٍ الاّٰ عَلَیْهِ مَن اللّٰهِ حَفِظَة یحفظونِه مِنْ ان یَتَرَدّیٰ فی قَلیِبٍ أویَخِرَّ علیه حائط اَوْ تصیبه آفة، فاذا جَأ الْقَدر خَلوْ بینَه و بَینَه'' (۲)

''کوئی شخص نہیں ہے مگر یہ کہ خدا کی طرف سے اس پر محافظ ہے کہ اگر وہ کنویںمیں گر جائے یا دیوار کے نیچے دب جائے یا اس پر آفت آجائے تو وہ اس کی حفاظت کرے گا اور جب قدرت کا لکھا ہوا وقت

پہونچ جائے گا تو وہ خود اپنی سر نوشت کو پہونچ جائے گا''۔

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۵۰،۲۴۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۰۰،۱۹۸، تاریخ طبری ج ۳ جز ۶ ص۱۱،۰ ۱ ۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۵۲،۱۵۱۔------(۲) وقعہ صفین ص ۲۵۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۱۹۹۔

۶۲۴

معاویہ کے غلام حریث کا قتل

شام کی فوج میں سب سے بڑا بہادر معاویہ کا غلام حریث تھا ، وہ کبھی کبھی معاویہ کا کپڑا پہن کر جنگ کرتا تھا اور جو لوگ اِ سے نہیں پہچانتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ معاویہ جنگ کررہا ہے۔

ایک دن معاویہ نے اسے بلایا اور کہا علی سے جنگ نہ کرو اور اپنے نیزے سے جس کو چاہو مارو، وہ عمرو عاص کے پا س گیا اور اس سے معاویہ کی بات بتائی، عمروعاص (چاہے اس کی جو بھی نیت رہی ہو) نے معاویہ کی بات کو غلط بتایا اور کہا اگر تو قرشی ہوتا تو معاویہ کی خواہش و آرزو یہی ہوتی کہ تو علی کو قتل کردے کیونکہ وہ نہیں چا ہتا کہ یہ افتخار کسی غیر قرشی کو نصیب ہو لہٰذا اگر تجھے موقع ملے تو علی پر بھی حملہ کر،اتفاقاً امام علیہ السلام اسی دن اپنے سوار لشکر کے سامنے میدان میں آئے ، حریث نے عمر و عاص کی گفتگو پر عمل کرتے ہوئے امام علیہ السلام کو جنگ کی دعوت دی، امام علیہ السلام رجز پڑھنے کے بعد آگے بڑھے اور جنگ شروع کی اسی وقت ایک ضربت اس پر لگائی اور اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا،جب معاویہ کے پاس خبر پہونچی تو وہ بہت زیادہ متاثر ہوا اور عمرو عاص کی مذمت میں کہ اسے دھوکہ دیا ہے بہت سے شعر کہے جس کے دوشعر یہ ہیں :

حریث الم تعلم وجهلک ضائر

بان علیاً للفوارس قاهر

وان علیاً لم یبارزه فارس

من الناس الا اقصدته الاّٰ ظافِرُ

حریث(اے میرے شکست کھائے ہوئے بہادر) کیا تو نہیں جانتا تھا کہ علی تمام بہادروں سے زیادہ بہادر اور کامیاب ہیں علی سے کوئی بھی بہادر جنگ کے لئے نہیں اٹھا مگر یہ کہ ان کے حملے غلط نہ ہوئے اور اسے ختم کردیا،حریث کے قتل ہونے کی وجہ سے معاویہ کی فوج میں خوف پھیل گیا ایک دوسرا بہادر بنام عمر و بن الحصین میدان جنگ میں آیا تاکہ امام علیہ السلام سے اسکا بدلہ لے، لیکن ابھی حضرت کے سامنے بھی نہ آیا تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج کے ایک سردار بنام سعید بن قیس کے ہاتھوں مارا گیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۷۳،۲۷۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۱۶،۲۱۵۔ الاخبار الطول ص ۱۷۶۔

۶۲۵

امام علیہ السلام نے معاویہ کو جنگ کی دعوت دی

ایک دن امام علیہ السلام میدان میں آئے اور دونوں صفوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور چاہا کہ آخری مرتبہ معاویہ پر حجت تمام کریں۔

امام علیہ السلام:معاویہ.معاویہ.معاویہ.!

معاویہ نے اپنے مخصوص محافظوں سے کہا جاؤ اور مجھے ان کے مقصد سے آگاہ کرو

محافظ:اے ابو طالب کے بیٹے کیا کہہ رہے ہیں؟

امام علیہ السلام: میں چاہتا ہوں کہ اس سے بات کروں،

محافظ:محافظوں نے معاویہ سے کہا علی تم سے بات کرنا چاہتے ہیں، اس وقت معاویہ، عمروعاص کے ساتھ میدان میں آیا اور امام کے سامنے کھڑا ہوگیا،امام علیہ السلام نے عمر وعاص کو نظر انداز کرتے ہوئے معاویہ کی طرف رخ کرکے کہا تجھ پرلعنت ہو کیوں ہمارے درمیان لوگ ایک دوسرے کو قتل کریں؟ اس سے بہتر ہے کہ تو میدان میں آ،تاکہ ایک دوسرے سے جنگ کریں اور ہم میں سے جوبھی کامیاب ہو، وہ لوگوں کے امور کی ذمہ داری سنبھالے۔

معاویہ: عمر وعاص اس بارے میں تیرا کیا نظریہ ہے؟

عمروعاص: علی نے انصاف کے بات کہی ہے اگر تو نے منھ پھیر لیا تو تیرے خاندان کے دامن پر ایسا داغ لگے گاکہ جب تک عر ب اس دنیا میں زندہ رہیں گے اس وقت تک نہیں دھلاجاسکے گا۔

معاویہ: عمرو میرے جیسا ہرگز تیرے دھوکہ میں نہیں آئے گا کیونکہ کوئی بھی بہادر و شجاع علی سے جنگ کرنے نہ اٹھا مگر یہ کہ زمین اس کے خون سے سیراب ہوگئی یہ جملہ کہنے کے بعد دونوں اپنی فوج کی طرف واپس چلے گئے،

امام علیہ السلام بھی مسکرائے اور اپنی فوج کی طرف واپس آگئے،معاویہ نے عمرو کی طرف رخ کرکے کہا، تو کتنا نادان اور بھولا ہے اور پھر کہا کہ مجھے گمان ہے کہ تیری یہ درخواست واقعی نہ تھی بلکہ تو مذاق

۶۲۶

کر رہا تھا(۱)

شہید کے بیٹے کی بہادری

ہاشم مِر قال، امام علیہ السلام کی فوج کے بہادر اور طاقتور سردار تھے اور اسلام کی عظیم جنگوں میں ان کی روشن اور عمدہ کارکردگی کسی سے پوشیدہ نہیں تھی، ممکن تھا کہ ان کی شہادت کی وجہ سے امام علیہ السلام کے لشکر میں بے ادبی پیدا ہوجائے، لیکن ان کے بیٹے کے شعلہ ور خطبے نے حالات کو تبدیل کردیا اور ا س کی راہ پر چلنے والوں نے اسے اور بھی مصمم بنا دیا، اس نے اپنے باپ کے پرچم کو ہاتھ میں لیا(۲) اور راہ حق و حقیقت کے جانبازوں کی طرف رخ کرکے کہا:''ہاشم خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا جس کے لئے ایک دن معین تھااور اس کے کارنامے الہی دفتر میں محفوظ ہیں، اس کی موت آگئی اور وہ خدا کہ جس کی مخالفت نہیں کرسکتے اس نے اسے اپنی طرف بلالیااور اس نے بھی موت کا جام پی لیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس چچازاد بھائی کی راہ میںجہاد کیا جو آپ پر سب سے پہلے ایمان لایا اور خدا کے قوانین لوگوں سے زیادہ خبر رکھنے والا، اور خدا کے دشمنوں کا سخت مخالف ہے ، وہ دشمنان خدا جنہوںنے خدا کے حرام کو حلال بناتے ہیں اور لوگوں کے درمیان ظلم و ستم کے ساتھ حکومت کرتے ہیں او ر شیطان ان لوگوں پر کامیاب ہوگیا اور ان کے برے کاموں کو انکی نظر میں خوبصورت بنا کر دکھایا ہے۔

تم پر ان لوگوں سے جہاد کرنا واجب ہے جنہوں نے پیغمبر کی سنت کی مخالفت کی ہے اورحدودالہی(سزاؤں) کو جاری نہیں کیا اور خدا کے دوستوں کی مخالفت کے لئے اٹھ گئے ہیں، اس دنیا میں اپنی پاکیزہ جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کرو تاکہ آخرت میں بلند ترین مقام پر فائز ہو( اس کے بعد کہا)''فَلوْلم یکن ثواب ولا عقاب ولا جنّة ولاٰ نار لکان القتال مع عل أفضل مِنَ الْقتَال مَعَ معاویةَ بن آکِلَةِ الا کباٰدِ وَکیف وأنتم ترجُونَ مٰا ترجُونَ' (۳) اگر بالفرض، ثواب و عذاب نہ ہو،

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۷۵،۲۷۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۱۷،۲۱۷۔ الاخبار الطول ص ۱۷۷،۱۷۶، تاریخ طبری ج۳ جزء ۶ ص ۲۳ ۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۸ (تھوڑے فرق کے ساتھ)---- (۲) الاخبار الطول ص ۱۷۴۔مروج الذہب ج۲ص۳۹۳۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ ص ۲۹۔

(۳) وقعہ صفین ص ۳۵۶۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ص۲۹۔

۶۲۷

جنت و جہنم نہ ہو، تو کیا علی کے رکاب میں رہ کر معاویہ جگر خوار کے بیٹے کے ساتھ جنگ کرنا بہتر نہیں ہے اور کیوں ایسا نہ ہو کیونکہ تم لوگ امید وار ہو اس چیز کے جس کی امید رکھتے ہو۔

ابھی شہید کے بیٹے کی شعلہ ور گفتگو ختم نہ ہوئی تھی کہ ابو طفیل صحابی جو امام علیہ السلام کے مخلص شیعوں میں سے تھا ہاشم کے متعلق اشعار کہے جس کا صرف پہلا شعر یہاں نقل کررہے ہیں:

یَا هاشمَ الخیرِ جزیتَ الجنّة

قَاتلْتَ فی اللّٰه عدوَّ السنّة(۱)

(خدا کے بہترین بندے ہاشم تیری جزا جنت ہے اور تم نے اللہ کی راہ میں سنت الہی کے دشمنوں سے جہاد کیا۔رضوی)

لومڑی، شیر کے پنجے میں

جنگ کی شدت نے معاویہ کی فوج کے لئے زمین تنگ کر دی تھی اور جنگ چھیڑنے والوں نے لوگوں کی زبان کو بند کرنے کے لئے مجبور ہوئے کہ خود بھی میدان میں جائیں ، عمرو عاص کا ایک دشمن حارث بن نضرَ تھا اگر چہ دونوں ایک ہی مزاج کے تھے لیکن ایک دوسرے کے مخالف تھے حارث نے اپنے شعر میں عمر وپر اعتراض کیا کہ وہ کیوں خود علی کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کرتا فقط دوسروں کو میدان میں روانہ کرتا ہے، اس کے اشعار شام کی فوج کے درمیان منتشر ہو گئے عمر و مجبور ہوا کہ ایک ہی بار صحیح میدان جنگ میں امام علیہ السلام کے روبروہوا، لیکن میدان سیاست کی لومڑی نے میدان جنگ میں بھی مکر وفریب سے کام لیا جب امام علیہ السلام کے مقابلے میں آیا تو حضرت نے اسے مہلت نہیں دی اور نیزے کے زور سے اسے زمین پر گرادیا عمر و نے جو امام کی جواں مردی سے آگاہ تھا فوراًبرہنہ ہوکر اپنی جان بچائی امام نے اپنی آنکھوں کو بند کرلیا اور اس کی طرف سے منھ پھیر لیا۔(۲)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۳۵۹۔

(۲) وقعہ صفین ص۴۲۳۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۶ ص۳۱۳۔ اعیان الشیعہ ج۱ص۵۰۱ ۔

۶۲۸

عمروعاص اور مالک اشتر آمنے سامنے

میدان جنگ میں مالک اشتر کی بہادری نے معاویہ کی آنکھوں میںنیند حرام کردی تھی، لہٰذامروان بن حکم کو حکم دیا کہ کچھ لوگوں کی مدد سے مالک اشتر کو قتل کردے مگر مروان نے اس ذمہ داری کو قبول نہیں کیا اور

کہا: تمھارا سب سے قریبی ساتھی عمروعاص ہے کہ جس سے تو نے مصر کی حکومت کا وعدہ کیا ہے بہتر ہوتا کہ اس ذمہ داری کو اس کے کاندھوں پر ڈالتا، وہ تمھارا رازدار ہے نہ کہ میں، اس پر تونے اپنا لطف وکرم کیا ہے اور مجھے محروموں کے خیمے میں جگہ دی ہے، معاویہ نے مجبور ہو کر عمر و عاص کو یہ ذمہ داری سونپی کہ کچھ لوگوں

کے ساتھ مالک اشتر سے جنگ کرے، کیونکہ ان کی بے مثال بہادری اور جنگی تدبیروں نے شامیوں کی فوج کی صفوں کو درہم برہم کردیا تھا،عمروعاص جو مروان کی باتوں سے باخبر تھا مجبوراً ذمہ داری کو قبول کیا لیکن مگس کہاں اور سمیرغ (بہت بڑا پرندہ)کی عظمت کہاں؟عمروعاص جب مالک اشتر کے سامنے آیا تو اس کا بدن لرزرہا تھا لیکن میدان سے بھاگنے کی بد نامی کوبھی قبول نہیں کیا، دونوں طرف سے رجزکا سلسلہ ختم ہوا، اوردونوں نے ایک دوسرے پر حملہ کیا، عمرو پر جب مالک اشتر نے حملہ کیاتو پیچھے ہٹ گیا اور مالک اشتر کے نیزے سے اس کے چہرے پر خراش پڑگئی، عمرونے اپنی جان کے خوف سے اپنے چہرے کے زخم کابہانہ بنایا اور ایک ہاتھ سے گھوڑے کی لگام اور دوسرے ہاتھ سے اپنے چہرے کو پکڑا اور بہت تیزی سے اپنی فوج کی طرف بھاگ گیا اس کے میدان سے بھاگنے کی وجہ سے معاویہ کے سپاہیوں نے اعتراض کرناشروع کردیا کہ کیوں ایسے ڈرپوک اور بے غیرت انسان کو ہمارا امیر بنایا ہے۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۴۴۰۴۴۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ ص۷۹۔

۶۲۹

پرہیز گار نوجوان اور دنیا طلب بوڑھا

جنگ کے دنوں میں ایک دن مالک اشتر نے عراقیوں کے درمیان بلند آواز سے کہا، کیا تمھارے درمیان میں کوئی ایسا ہے جو اپنی جان کو خدا کی مرضی کے بدلے بیچ دے ؟ایک نوجوان اثال بن حجل میدان میں گیا، معاویہ نے ایک بوڑھے کو جس کا نام بھی حجل تھا میدان جنگ میں اس کے مقابلے کے لئے بھیجا دونوں ایک دوسرے پر نیزے سے حملہ کررہے تھے اور اسی حالت میں اپنا حسب و نسب بھی بیان کررہے تھے اچانک انہیں معلوم ہوا کہ وہ باپ اوربیٹے ہیں اس لئے وہ دونوں گھوڑے سے اترے اور ایک دوسرے کے گلے لگ گئے باپ نے بیٹے سے کہا اے میرے لال دنیا کی طرف آجا! بیٹے نے کہا اے بابا آپ آخرت کی طرف آجائیے یہی آپ کے لئے بہتر ہے اگر میں دنیا کو طلب کروں اور شامیوں کی طرف جاؤں تو آپ مجھے اس کام سے روکیںآپ علی اور ان مومن اور صالح دوستوں کے بارے میں کیا کہتے

۶۳۰

ہیں؟ بالآخر یہ طے ہوا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ واپس چلے جائیں۔(۱) وہ جنگ جس کی بنیاد عقیدہ سے دفاع ہو اس میں ہرطرح کا رشتہ ، سوائے دینی رشتہ کے، سب بیکار ہے۔

شام کے سپاہیوں کی بزدلی

ابرہہ معاویہ کی فوج کا ایک سردار تھا ، جو معاویہ کی زیادہ فوج کے مارے جانے کی وجہ سے بہت غمگین تھا، اس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ شامی معاویہ کی خواہشات نفسانی کا شکار ہوئے ہیں اور غصبی حکومت کی حفاظت کرنے کے لئے ایسی و حشتناک جنگ کر رہے ہیں، اسی وجہ سے شام میں رہنے والے یمنی لوگوں کے درمیان اس نے بلند آواز میں کہا: افسوس ہے تم لوگوں پر۔ اے یمن کے لوگو، اے لوگو جو خود کو فنا کرنا چاہتے ہو، ان دونوں آدمیوں (علی ور معاویہ) کو ان کے حال پر چھوڑ دو تاکہ آپس میں جنگ کریں اور ان میں سے جو بھی کامیاب ہو، ہم اس کی پیروی کریں، جب ابرہہ کی باتیں امام علیہ السلام تک پہونچی تو آپ نے فرمایا: بہت اچھی بات کہی ہے جب سے میں شام کی سرزمین پر آیا ہوں ایسی بات نہیں سنی ہے، اس خبر کے پھیلنے کی وجہ سے معاویہ بہت خوف زدہ ہوااور خود فوج کی آخری صف میں گیا اور اپنے اردگرد رہنے والوں سے کہا ابرہہ کی عقل زائل ہو گئی ہے جبکہ یمن کے تمام لوگوں نے مل جل کر کہا ابرہہ عقلمندی ، دینداری اور بہادری میں سب لوگوں سے اچھاہے۔

ٰایسے حالات میں شام کی فوج کو حوصلہ دینے کے لئے عروۂ دمشقی میدان جنگ میں گیا اور پکار کر کہا: اگر معاویہ نے علی سے جنگ کرنے سے منھ موڑا ہے تو اے علی میرے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ امام علیہ السلام کے دوستوں نے چاہا کہ اس کو اس مقابلے(اس کے کمینہ پن کی وجہ سے) سے روکیں، لیکن اما م علی علیہ السلام نے قبول نہیں کیا اور فرمایا، معاویہ اور عروہ دونوں میری نظر میں برابر ہیں، اتنا کہنے کے بعد اس پر حملہ کیا اور سے ایک ہی وار میں دو ٹکڑوں میں اس طرح تقسیم کردیا کہ دونوں ٹکڑے ادھر اُدھر گر گئے دونوںفوجیں امام علی علیہ السلام کے اس زبردست وار سے لرز اٹھیں، اس وقت امام علیہ السلام نے لاش کے دونوں ٹکڑوں سے کہا: اس خدا کی قسم جس نے پیغمبر اسلام (ص)کو پیغمبری کے لئے چنا، آگ کو دیکھا اورپشیمان ہوگئے،اس وقت عروہ کا چچا زاد بھائی اس کا انتقام لینے کیلئے میدان میں آیا اور امام علی علیہ السلام

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ ص۸۲۔ وقعہ صفین ص۴۴۳۔

۶۳۱

سے جنگ کرنے کا خواہا ںہوا ، اور وہ بھی امام کی تلوار کے وار سے عروہ کے پاس پہونچ گیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۴۵۵۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ ص۹۴۔

۶۳۲

تاریخ اپنے کو دہراتی ہے

امام علیہ السلام کی بے مثال بہادری کے سامنے فوج شام کا دل بیٹھنے لگا، معاویہ جو پہاڑ کی چوٹی سے تمام حالات کا مشاہدہ کر رہا تھا ، بے اختیار شام کے لوگوں کی مذمت کرنے لگا اورکہا:برباد ہوجاؤ، کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جو ابو الحسن کو جنگ کے وقت یا حملہ کرکے یاجب دونوں فوجیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں اور گرد و غبار انہیں چھپا دیتا ہے، ایسے وقت قتل کردے؟ ولید بن عتبہ جو معاویہ کے پاس کھڑا تھا اس نے معاویہ سے کہا، تو اس کام کو انجام دینے میں سب سے زیادہ بہتر ہے ، معاویہ نے کہا،علی نے مجھے ایک با رجنگ کی دعوت دی لیکن میں ہرگز ان کے مقابلہ میں میدان میں نہیں جاؤں گا کیونکہ فوج سردار کی حفاظت کے لئے ہے، آخر اس نے بُسر بن ارطاة کو امام علیہ السلام سے مقابلے کرنے کی تشویق و ترغیب دلائی اور کہا ، اس سے جب گرد و غبار ہو اس وقت جنگ کرو، بُسر کا چچازاد بھائی جو ابھی ابھی حجاز سے شام آیا تھا اس نے بُسر کو اس کام سے روکا لیکن چونکہ بُسر نے معاویہ سے وعدہ کر لیا تھا اس لئے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگیا، جب کہ اس کا پورا بدن لوہے سے چھپا ہوا تھا، اس نے علی علیہ السلام کو جنگ کی دعوت دی امام علیہ السلام کے نیزے کے وارنے اسے زمین پر گرادیا اور اس نے بھی عمر و عاص کی طرح اپنی شرمگاہ سے لباس ہٹا دیا اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے اس کا پیچھا نہیں کیا۔

صلح کے لئے معاویہ کا اصرار

صفین میں جنگ کے طولانی ہونے اور فوج شام سے بہت زیادہ سپاہی مارے جانے کی وجہ سے معاویہ نے ارادہ کیا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو،امام علیہ السلام کو صلح ودوستی اور جنگ ختم کرنے اور دونوں فوجوں کو ان کے اصلی مرکز پر واپس جانے کے لئے تیار کرے اور اس کام کو ایک خاص طریقے سے شروع کیا کہ جس میں سے تین اہم راستے یہ تھے۔

ا۔ اشعث بن قیس سے گفتگو

۲۔ قیس بن سعد سے گفتگو

۳۔ اما م علیہ السلام کو خط لکھنا

۶۳۳

لیکن امام علیہ السلام کی فوج کے مستحکم ایمان و عقیدہ کی بنا پر اس کا یہ پروگرام بے نتیجہ ثابت ہوا یہاں تک کے مسئلہ ''لیلة الہریر'' پیش آگیا اور قریب تھا کی معاویہ کی پوری فوج معدوم ہوجائے لیکن معاویہ کا فریب و دھوکا اور عراقیوں کا سادہ لوح ہونا شام کے جاسوسوں کا امام علیہ السلام کی فوج میں کام کرنا،حالات کو شام کی فوج کے حق میں لے گیاہم یہاں معاویہ کی ملاقاتوں اور گفتگوؤں کو ذکر کر رہے ہیں:

ا۔معاویہ نے اپنے بھائی عتبہ بن ابو سفیان کو جو بہتر ین خطیب تھا اپنے پاس بلایا اور یہ ذمہ داری سونپی کہ اشعث بن قیس جو امام کی فوج میں کافی نفوذ رکھتا تھا، سے ملاقات کرے اور اس سے درخواست کرے کہ طرفین سے جو باقی ہیں ان پر رحم کرے،عتبہ فوج کے بالکل سامنے آیااور وہیں سے اس نے اپنا تعارف کرایا پھر اشعث کو بلایا تاکہ معاویہ کا پیغام اس تک پہونچائے اشعث نے اسے پہچان لیا اور کہا کہ وہ فضول آدمی ہے اس سے ملاقات کرنا چاہیے عتبہ کے پیام کا خلاصہ یہ تھا کہ اگربنا یہ ہوتی کہ معاویہ، علی کے علاوہ کسی اور سے ملاقات کرتا تو صرف تجھ سے ملاقات کرتا کیونکہ تو عراق کے لوگو ں کا سردار اور اہل یمن کے بزرگوں میں سے ہے اور عثمان کا داماد اور اس کا کارمند تھا تیرا مسئلہ مالک اشتر اور عدی بن حاتم سے جدا ہے، اشتر عثما ن کا قاتل اور عدی اس کام کی طرف رغبت دلانے والا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ علی کو چھوڑ دو اور معاویہ کی مدد کو پہونچو بلکہ تجھے جوافراد باقی بچے ہیں ان کہ حفاظت کے لئے بلا رہا ہوں اس میں تمھارے اور میرے لئے مصلحت ہے۔

اشعث نے اس کے جواب میں امام علیہ اسلام کی بہت زیادہ تعریف و تکریم کی اور کہا عراق اور یمن میں سب سے بزرگ علی ہیں لیکن اپنے کلام کے آخر میں ایک سیاسی کے مثل اس نے صلح کی درخواست قبول کر لی اور کہا کہ تمھاری ضرورت باقی بچے لوگوں کی حفاظت کے لئے ہم سے زیادہ نہیں ہے جب عتبہ نے اشعث کی باتوں سے معا ویہ کو باخبر کیا تو اس نے کہا''قَدْ جَنَحَ لِلسَّلمِ'' صلح کے لئے آمادگی ظاہرکی ہے۔(۱)

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۴۰۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن اابی الحدید ج۸ص۶۱۔ الا مامة و السیاسة ج ۱ ص۱۰۲۔ اعیان الشیعہ ج ۱ ص۵۰۳۔

۶۳۴

۲۔ پیغمبر اسلام (ص)کے اصحاب جو مہاجرین اور انصار میں سے تھے امام علیہ السلام کے اطراف میں جمع تھے، انصار میں سے صرف افراد نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلّد نے معا ویہ کا ساتھ دیا، معاویہ نے نعمان بن بشیر سے کہا کہ امام علیہ السلام کے بہادر سردار قیس بن سعد سے ملاقات کرو اور اس کو اپنی طرف راغب کرکے صلح کے مقدمات کو فراہم کرو اس نے جب قیس سے ملاقات کی تو دونوں فوجوں کوجو نقصا ن پہونچے تھے اس کو بیان کیا اور کہا:''أخذتِ الحربُ مِنّٰا و منکم مارأ یتم فاتّقُو االلّٰه فِیْ البقیّةِ'' جنگ نے ہم سے اور تم سے وہ چیزیں لے لی ہیں جوتم دیکھ رہے ہو، لہٰذاجو باقی بچے ہیں ان کے لئے خدا سے ڈرو(اور ان کے بارے میں کچھ فکر کرو)۔

قیس نے نعمان کے جواب میں معاویہ اور علی علیہ السلام کے ساتھیوں کے حالات بیا ن کیے اور کہا ہم نے پیغمبر (ص)کے زمانے میں خوش و خرم ہو کر دشمن کے نیزہ وتلوار کاجواب دیا اور حق کامیاب ہوگیا اگر چہ کافر اس کام سے ناراض تھے ۔ اے نعمان یہ لوگ جو معاویہ کہ مدد کر رہے ہیں وہ تھوڑے سے آزاد کئے ہوئے اور بیابانوں میں رہنے والے اور یمنی لوگ ہیں جو معاویہ کا دھوکہ کھائے ہوئے ہیں علی کی طرف دیکھو کہ ان کے اطراف میں تمام مہاجرین و انصار اور تابعین جمع ہیں اور ان سب سے خدا راضی ہے لیکن معاویہ کے اطراف میں تمھار ے اور تمھارے دوست (مسلمہ بن مخلّد) کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور تم میں سے کوئی ایک بھی نہ جنگ بدر میں تھا اور نہ ہی احد میں اور نہ ہی اسلام کے لئے تم لوگوں کی خدمات ہیں اور نہ ہی تم لوگوں کے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی اگر ان چیزو ں کے برخلاف تم نے قدم بڑھایا تو اس کے پہلے تمھارے باپ نے بھی یہی کام کیا تھا۔(۱)

۳۔ ان سب ملاقاتوں کا مقصد صرف اور صرف صلحا ور سازش تھی لیکن معاویہ کا مقصد پورا نہ ہوا اس وجہ سے وہ مجبو ر ہوا کہ امام علیہ السلام کو خط لکھے اور اس میں ایسی چیز کی درخواست کرے جس کی اس نے سرکشی و نافرمانی کے پہلے ہی دن درخواست کیا تھا یعنی شام کی حکومت اسے دیدیں بغیر اس کے کہ اطاعت

______________________

(۱) اس سے مراد سقیفہ کا واقعہ ہے جس میں نعمان کے باپ بشیر نے صرف اس وجہ سے کہ اس کے چچا زاد بھائی قیس کے باپ یعنی سعد بن عبادة تک خلافت نہ پہونچے اٹھا اور ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی اور انصار کے اتحاد کو توڑدیا،شرح نہج البلاغہ ابن اابی الحدید ج۸ص۸۷،وقعہ صفین ص۴۴۸،الا مامة و السیاسة ج ۱ ص۹۷۔

۶۳۵

اور بیعت اس کی گردن پر ہو اور اس وقت کہا ہم سب عبد مناف کے بیٹے ہیں اور ہم میں کوئی بھی ایک دوسرے پر فضلیت نہیں رکھتا مگر وہ شخص جو عزیز کو خوار و ذلیل اور آزاد کو غلام نہ کرے ۔

امام علیہ السلام نے اپنے منشی ابن ابی رافع کو بلا یا اورا سے حکم دیا کہ اس کا جواب اس طرح لکھوجیسے کہ میں لکھوارہا ہوں،امام علیہ السلام کے خط کی عبارت نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۱۷ کے ضمن میں تحریر ہے۔(۱)

______________________

(۱) اس خط کی عبارت جو کہ نہج البلاغہ میں تحریر ہے اور یہ عبارت جو کہ اخبار الطوال ص۱۸۷،اور الا مامة و السیاسة ج ۱ ص۱۰۴،۱۰۳۔ اور وقعہ صفین ص۴۷۱۔ میں ہے فرق ہے۔

۶۳۶

انیسویں فصل

جنگ صفین میں تبدیلی اور تاریخ اسلام

امام علیہ اسلام نے ۱۰ ربیع الاوّل ۳۸ھ منگل کے دن ہنگام فجر جبکہ ابھی اندھیرا چھایہ ہوا تھا، نمازِ صبح اپنے دوستوں کے ساتھ پڑھی آپ فوج ِ شام کی ناتوانی اور خستگی سے مکمل طور پر آگا ہ تھے اور جانتے تھے کہ دشمن آخری مورچے تک پیچھے چلا گیا ہے اور ایک زبردست حملے سے معاویہ کے خیمہ تک پہونچا جا سکتا ہے، اسی وجہ سے آپ نے مالک اشتر کو حکم دیا کہ فوج کو منظم کریں جب کہ مالک اشتر لوہے کا پورا لباس پہنے تھے فوج کے پاس آئے اور اپنے نیزے پر ٹیک لگایا اور بلند آواز سے پکارا''سَوُّوْاصُفُوفَکُمْ رَحِمَکُمُ الله'' اپنی صفوں کو مرتب کرو تھوڑی دیر نہ گزر ی تھی کہ حملہ شروع ہوگیا اور ابتدا سے ہی دشمن کی شکست ان کے بھاگنے کی وجہ سے ظاہر ہوگئی تھی۔

اس موقع پر ایک شام کا آدمی باہر آیا اور امام علیہ السلام سے با ت کرنے کی پیشکش کی امام علیہ السلام نے دونوں صفوں کے درمیان اس سے گفتگو کی اس نے فرمائش کی کہ دونوں فوجیں اپنی پہلی جگہ پر واپس چلی جائیں اور امام، شام کومعاویہ کے حوالے کر دیں، امام علیہ السلام نے اس کی فرمائش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس موضو ع کے بارے میں مدتوں فکر کیا ہے اور اس میں دو راستوں کے علاوہ میں نے کوئی راستہ نہیں دیکھایا نا فرمانوں سے جنگ کروںیا کافر ہو جائوں اور جو چیز پیغمبر پر نازل ہوئی ہے اس سے انکار کردوں اور خدا اس سے بالکل راضی نہیں ہے کہ اس کی مملکت میں گنا ہ و نافرمانی ہو اور دوسرے لوگ اس کے مقابلے میں خاموش رہیں ،اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے منہ پھیر لیں ،اسی وجہ سے ہم نے نافرمانوں سے میل جول کے بجائے جنگ کرنا بہتر جانا ہے۔

وہ شخص امام علیہ السلام کی رضامندی حاصل کرنے سے مایوس ہو گیا جب کہ اسکی زبان پر''اِنَّالِلّٰهِ وَانّٰا اِلَیْهِ رَاجِعُونَ'' کی آیت جاری تھی وہ سیاہ شام کی طرف واپس چلا گیا۔(۱)

دونوں فوجو ں کے درمیان گھمسان کی جنگ دوبارہ شروع ہوگئی اور اس جنگ میں جتنے بھی وسائل

______________________

(۱) الاخبار الطوال ص۱۸۷ ۔ وقعہ صفین ص۴۷۴۔ اعیان الشیعہ ج ۱، ص۵۱۰۔

۶۳۷

ممکن تھے اسے استعمال کیا گیا تیر و پتھر، نیزہ و تلوار اور لوہے سلاخیں جو دونوں طرف کے فوجیوں کے سر پر مثل پہاڑ کے گر رہے تھے استعمال ہوئے جنگ بد ھ کو صبح تک جاری رہی معاویہ کی فوج کے لوگ زخمی اور قتل ہوئے، لوگ اس رات میں کتوں کی طرح چیخ رہے تھے اور اسی لئے بدھ کی اس رات کو تاریخ نے ''لیلة الہریر'' کے نا م سے یاد کیا۔

مالک اشتر اپنے سپاہیوںکے درمیان ٹہل رہے تھے اور لوگوں سے کہہ رہے تھے: لوگو فتح و کامرانی میں ایک کمان سے زیادہ کا فاصلہ نہیں بچا ہے اور بلند آواز سے کہا''الاٰ من یشری نفسه لِلّٰهِ ویقاتل مع ألاشتر حتٰی یَظْهَرَ اَوْ یَلْحَقَ باِللّٰهِ'' ؟ یعنی کیا کوئی ایسا شخص ہے جو اپنی جان کو خدا کے لئے بیچ دے اور اس راہ میں اشتر کے ساتھ جنگ کرے تاکہ فتح پائے یا خدا سے ملحق ہو جائے ؟(۱)

امام علیہ السلام نے ایسے حسّاس موقع پر اپنے سرداروں اور فوج کے بااثر افراد کے سامنے تقریر کی اور فرمایا:''اے لوگو ، تم لوگ دیکھ رہے ہو کہ تمھار ا اور دشمن کا اقدام کہاں تک پہونچ چکا ہے اور دشمن کے پاس آخری سانس کے سوا کچھ باقی نہیں ہے کام کی آغاز کو انجام کے ساتھ میں حساب کیا جاتاہے میں صبح کے وقت ان لوگوں کو محکمہ الہی میں لے جاؤں گا اور ان کی ذلت بھری زندگی کو ختم کر دونگا۔(۲) معاویہ امام علیہ السلام کی تقر یر سے باخبر ہو ا لہٰذا عمروعاص سے کہا یہ وہی را ت ہے کہ علی کل جنگ کو یک طرفہ کردینگے اس وقت ضروری ہے کہ کچھ فکر کرو؟

عمر و عاص نے کہا: نہ تمھارے سپاہی ان کے سپاہی کی طرح ہیںاور نہ تو ہی ان کی طرح ہے وہ دینی جذبے کے تحت جنگ کررہے ہیں اور تو دوسرے مقصد کی خاطہر ،تو زندگی کی تمنا کر رہا ہے اور وہ شہادت کے طلبگار ہیں، عراق کی فوج تمھاری فتح سے خوف زدہ ہیں، جب کہ شام کی فوج علی کی فتح سے خوف زدہ نہیں ہے ۔

معاویہ:اس وقت کیا کرنا چاہئے؟

عمروعاص: اس وقت ایسی دعوت دینی چاہیے کہ اگر قبول کریں تو اختلاف کا شکار ہوجائیں اوراگر

______________________

(۱) تاریخ طبری ج ۳جزئ۶ص۲۶۔ واقعہ صفین ص۴۷۵۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۶۰۔

(۲) واقعہ صفین ص ۴۷۶۔ الاخبار الطوال ص۱۸۸۔ الا مامة و السیاسة ج ۱ص۸۔

۶۳۸

قبول نہیں کریں تو دوگروہ ہوجائیں گے ان لوگوں کو خدا کی کتاب کی طرف دعوت دو تاکہ خدا کی کتاب تمھارے اور ان کے درمیان حاکم ہے اس طرح سے تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا ،یہ بات بہت دنوں سے ہمارے ذہن میں تھی لیکن اس کو ظاہر کرنے سے میں نے پرہیز کیا تاکہ اس کا وقت پہونچ جائے ،معاویہ نے اپنے قدیمی طرین ساتھی کا شکریہ ادا کیااور اس نقشے کو عملی صورت دینے کی کوشش میں لگ گیا۔

۱۳ ربیع الاوّل جمعرات کے دن صبح سویرے یاایک قول کی بناء پر ۱۳ صفر کو امام علیہ السلام کی فوج بالکل نئے دھوکے سے روبرو ہوگئی ،اس کی وجہ سے عمر و عاص نے شام کے سر کشوں کی جوخدمت کی امیہ کے گروہ کو دوبارہ زندگی کے حق میں اور وہ معاشرے میں منہ دیکھانے کے لائق ہوے،شام کی فوج نے عمرو کے دستور کے مطابق قرآن کو نوک ِ نیزہ پر اٹھایا اورصف میں کھڑی ہوگئی ، دمشق کا سب سے بڑا قرآن دس آدمی کی مدد سے نوک ِ نیزہ پر اٹھایا گیا اور اس وقت سب نے ایک آواز ہوکر نعرہ بلند کیا ''ہمارے اور تمھارے درمیان خدا کی کتاب حاکم ہے''

عراقیوں کے کان میں یہ آواز پہونچی اور ان کی آنکھیں نوک نیزہ پر پڑیں شام کی فوج سے نعروں اور رحم و کرم کی فریادوں کے علاوہ کوئی دوسری چیز سنائی نہیں دے رہی تھی سب ایک آواز ہوکر کہہ رہے تھے :

''اے عرب کے لوگو اپنی عورتوں اور لڑکیوں کے لئے خدا کو نظر میں رکھو''!

خدا کے واسطے خدا کے واسطے دین کے واسطے میں !

شام کے لوگوں کے بعد کون شام کی سرحدوں کی حفاظت کرینگے اور عراق کے لوگوں کے بعد کون عراق کی سرحدوں کی حفاظت کریںگے؟کون لوگ روم و ترک اور دوسرے کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے باقی رہیں گے؟(۱)

قرآن اور ان کے محبت آمیز نعروں کے دلنشین منظر نے اما م علیہ السلام کی فوج کے بہت سے سپاہیوں کے عقل و ہوش اڑا دیئے تھے ،جنگ کرنے والے بہادر جو کچھ دیر پہلے فخر و مباہات کر رہے تھے اور کامیا بی کے

______________________

(۱) واقعہ صفین ص۴۸۱۔ الاخبارا لطوال۱۸۸۔ مروج الذہب ج ۲ص۴۰۰۔ تاریخ طبری ج ۳جزئ۶ص۲۶۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۶۰۔

۶۳۹

ایک قدم فاصلے پر تھے افسو س اور تأسف میں اپنی جگہ پر گڑکر رہ گئے لیکن عدی بن حاتم ، مالک اشتر،اور عمروبن الحمق جیسے شجاع و بہادر ان کے فریبی حربہ سے با خبر تھے اور جانتے تھے کہ چونکہ دشمن کے اندر مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے اور نابود ہونے کی منزل میں ہیں لہذا وہ اپنے کو اس طریقے سے نجا ت دینا چاہتے ہیں ورنہ یہ لوگ کبھی بھی قرآن کو نہ اٹھاتے اور نہ کبھی اٹھائیں گے اسی وجہ سے عدی بن حاتم نے امام علیہ السلا م سے کہا:کبھی بھی باطل کی فوج حق سے مقابلہ نہیں کرسکتی دونوں طرف لوگ زخمی یا قتل ہوئے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے ساتھ باقی بچے ہیں ان لوگوں سے طاقت ور ہیں شامیوں کے نعروں پر دھیان نہ دیجیے اور ہم سب آپ کے مطیع اور فرما نبردار ہیں ۔

مالک اشتر نے کہا: معا ویہ کا کوئی جانشین نہیں ہے لیکن آپ کا جانشین موجو د اس کے پاس فوجی ہیں لیکن آپ کے فوجی کی طرح صبر و تحمل نہیں رکھتے، لوہے کو لوہے سے کاٹئیے اور خدا سے مدد طلب کیجیے۔

تیسرے(عمرو بن الحمق)نے کہا: اے مولا ہم نے جانبداری کی وجہ سے پر آ پ کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ خدا کی مرضی کے لئے آپ کی دعوت پرلبیک کہا ہے اس وقت حق آخری نقطے پر پہونچ گیا ہے اور ہم لوگوں کو آپ کے وجود کے علاوہ کوئی فکر نہیں ہے ۔(۱) لیکن اشعث بن قیس جس نے اپنے کو امام علیہ السلام کے خیمے کے محافظوں میں شامل کر لیا تھا جس کے حرکات و سکنات پہلے ہی دن سے مشکوک تھے اور معا ویہ سے اس کا رابطہ تقریباً آشکار ہوچکا تھا، نے امام علیہ السلام سے کہا : اس قوم کی دعوت کا جواب دیجیۓ کیونکہ انکی درخواست کا جواب آپ سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا اور لوگ زندگی کے خواہاں ہیں اور جنگ سے خوش نہیں ہیں،امام علیہ السلام اس کی ناپاک نیت سے آگا ہ تھے فرمایا اس مسئلے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے،(۲)

معاویہ نے امام کی فوج کے احساسات کو ابھارنے کے لئے عمروعاص کے بیٹے عبد اللہ کو جو اس زمانے میں مقدس نما بنا تھا ،حکم دیا کہ دونوں صفوں کے درمیان کھڑا ہو کر ان لوگوں کو قرآن مجید کے طرف فیصلہ کی دعوت دے، وہ دونوں صفوں کے درمیان کھڑا ہوا اور کہا: اے لوگو اگر ہماری جنگ دین کے لئے تھی تو دونوں گروہ نے اپنے اپنے مخالف پرحجت تمام کردی ہے اور اگر ہماری جنگ دنیا کے لئے

______________________

(۱ )،(۲) وقعہ صفین ص۴۸۲۔ الامامة والسیاسة ج۱ص ۱۰۸۔ مروج الذہب ج ۲ص۴۰۱۔

۶۴۰