فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341235
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341235 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تھی تو دونوں گروہ نے حد سے تجاوز کیا ہے ہم تم لوگوں کو کتابِ خدا کی حکومت کی دعوت دیتے ہیں اگر تم لوگوں نے دعوت دی ہوتی تو ہم ضرور قبو ل کرتے اس فرصت کو غنیمت جانو۔

دشمنوں کے اس فریبی نعروںنے عراق کے سادہ لوح لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا اور لوگ کمزوری و ناتوانائی کی حالت میں امام کے پاس آئے اور کہا ان کی دعوت کو قبول کر لیجیئے،امام علیہ السلام نے اس حسّاس موقع پر دھوکہ کھائے لوگوں کے ذہنوں کو واضح و روشن کرنے کے لئے ان سے کہا: ''اے خدا کے بندو!میں ہر شخص کی دعوت کو بحکم قرآن قبول کرنے میں تم لوگوں سے زیادہ شائستہ ہوں لیکن معاویہ ،عمروعاص ، ابن ابی معیط،حبیب بن مسلمہ اور ابن ابی سرح اہل دین اور قرآن نہیں ہیں، میں تم لوگو ں سے بہتر ان کو پہچانتا ہوں میں نے ان لوگوں کے ساتھ بچپن سے آج تک زندگی گزاری ہے، وہ لوگ ہر زمانے میں بدترین بچے اور بدترین مرد تھے خدا کی قسم ان لوگوں نے قرآن کو اس لئے بلند نہیں کیا کہ وہ قرآن کو پہچانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس پر عمل کریں ان کا یہ کا م مکر و فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے

اے خدا کے بندو اپنے سروں اور بازوؤں کو کچھ لمحوں کے لئے مجھے عاریةً دے دو،کیونکہ حق قطعی نتیجہ پر پہونچ گیا اور ستمگروں کی جڑ کو کاٹنے میں کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔

مخلص افراد نے امام علیہ السلام کے نظریہ کی طرفداری کی مگر اچانک عراق کی فوج کے( ۲۰) بیس ہزار آدمی جبکہ وہ آہنی لباس پہنے تھے اور ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشانات تھے اور کندھوں پر تلواریں لٹکی تھیں،(۱) میدان جنگ چھوڑ کر سردار کے خیمے کے پاس آگئے اس گروہ کی رہبری مسعر بن فدکی،زید بن حصین اور عراق کے بعض قاری کر رہے تھے اور بعد میں یہی لوگ خوارج کے سردار بن گئے یہ لوگ اما م علیہ السلام کی قیام گاہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور آپ کو یا امیرالمومنین کے بجائے یاعلی کہہ کر خطاب کیا اور بے ادبی سے کہا اس قوم کی دعوت کو قبول کر لو ورنہ تمھیں قتل کردیںگے جس طریقے سے عثمان بن عفان کو قتل کیا ہے خدا کی قسم اگر ان لوگوں کی دعوت قبول نہیں کی تو تمھیں قتل کردینگے ۔وہ سردارجس کی کل تک مکمل اطاعت ہو رہی تھی آج ایسے موڑ پر کھڑاتھا کہ اسے زبردستی تسلیم ہونے اور صلح قبول کرنے کا حکم دیا جا رہا تھا امام علیہ السلام نے ان لوگوں کے جواب میں کہا:

______________________

(۱) واقعہ صفین ص۴۸۹۔ تاریخ طبری ج ۳جزئ۶ص۲۷۔مروج الذہب ج ۲ص۴۰۱۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۶۱۔

۶۴۱

''میں پہلا وہ شخص ہوںجس نے خدا کی کتاب کی طرف لوگوں کو بلایا اور پہلا شخص ہوںجس نے خدا کی کتاب کی دعوت کو قبول کیا میرے لئے جائز نہیں ہے کہ میں تم لوگوں کو غیر کتاب ِخداکی طرف دعوت دوں، میں ان لوگوں کے ساتھ جنگ کروں گا کیونکہ وہ لوگ قرآن کے حکم پر عمل نہیں کرتے ان لوگوں نے خدا کی نافرمانی کی اور اس کے عہد و پیمان کوتوڑ ڈالا اور اس کی کتاب کو چھوڑ دیا ہے، میں تم لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کے ان لوگوں نے تمھیں دھوکہ دیا ہے وہ لوگ قرآن پر عمل کرنے کے خواہش مند نہیں ہیں ۔

امام علیہ السلام کی منطقی اور استدلالی گفتگو کا ان لوگوں پر اثر نہ ہوا کچھ دنوں کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ یہ لوگ تندمزاج اور حقیقت کو سمجھنے اور درک کرنے سے غافل تھے شامیوں کے بیہودہ نعروں سے متاثر ہوگئے تھے اور امام علیہ السلام ان کو جتنی بھی نصیحت کرتے وہ اتنے ہی زیادہ شیطان صفت ہوجاتے اور کہتے کہ اما م حکم دیں کہ مالک اشتر جنگ کرنے سے باز آجائیں۔

ایک فوج کے لئے جنگ کے دوران سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اختلاف کی وجہ سے فوج دو حصوں میں تقسیم ہوجائے اور اس سے بدترسادہ لوح گروہ کا فتنہ و فساد کرنا اور اپنے عاقل و دانہ سردار کے متعلق سیاسی مسائل سے دور ہونا ہے، امام علیہ السلام اپنے کو کامیابی کی راہ پر دیکھ رہے تھے اور دشمن کی پیش کش کی واقعیت سے باخبر تھے لیکن کیا کرتے کہ آپسی اختلاف نے فوج کے اتحاد و اتفاق کو ختم کردیا تھا ۔

امام علیہ السلام نے( ۲۰) بیس ہزار مسلح اور مقدس نما جن کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان تھے، سے مقابلہ کرنے میں مصلحت نہیں دیکھا اور اپنے ایک قریبی چاہنے والے یزید بن ہانی کو بلایا اور اس سے کہا:تم جتنی جلدی ہو جہاںمالک اشتر جنگ میں مشغول ہو وہاں پہونچو اور اشتر سے کہو کہ امام علیہ السلام نے حکم دیا ہے کہ جنگ سے ہاتھ روک لواور میری طرف واپس آجائو۔

یزید بن ھان نے اپنے کو مورچہ تک پہونچایا اور مالک اشتر سے کہا جنگ روک دو اور امام ـکے چلو

مالک اشتر: امام کی خدمت میں میرا سلام پہونچا دو اور کہہ دو کہ ابھی وہ وقت نہیں ہے کہ مجھے میدان سے بلائیں امید ہے کہ بہت جلد ہی فتح وکامرانی کی خوشبو پرچم اسلام سے اٹھے۔

قاصد نے واپس آکر کہا کہ اشتر واپس آنے میں مصلحت نہیں سمجھتے اور کہا ہے کہ میں کامیابی کے بالکل قریب ہوں ۔فتنہ فساد کرنے والوں نے امام سے کہا، اشتر کا واپس آنے سے منع کرنا تمھارا حکم ہے تم نے پیغام دیا کہ میدان جنگ میں مقابلہ کریں۔

۶۴۲

علی علیہ السلام نے باکمال سنجیدگی فرمایا: میں نے اپنے قاصد سے ہرگز محرمانہ گفتگو نہیں کی ہے بلکہ جو کچھ بھی میں نے کہا ہے تم لوگوں نے سنا ہے تم لوگ کیوں ایسی چیز پر جس کو میں نے واضح و آشکار کہا ہے الزام لگا رہے ہو؟

باغیوں نے کہا جلد سے جلد مالک اشتر کو حکم دو کہ واپس آ جائیں ورنہ جس طرح ہم لوگوں نے عثمان کو قتل کیا ہے تمہیں بھی قتل کر دیں گے یا معاویہ کے حوالے کر دیں گے

امام علیہ السلام نے یزید بن ہانی سے کہا جو کچھ تم نے دیکھا ہے وہ مالک اشتر تک پہونچا دو۔

مالک اشتر امام علیہ السلام کے پیغام سے باخبر ہوئے اور قاصد سے کہا کہ یہ فتنہ قرآن کو نیزے پر بلند کرکے پیدا کیا گیا ہے اور یہ عمروعاص کا کیا ہوا ہے پھر بڑے افسردہ انداز سے کہا کیا تم فتح کو نہیں دیکھ رہے ہو؟ اور خدا کی نشانیوں کو نہیں دیکھ رہے ہو؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ ایسی حالت میں جنگ کے معرکہ کو چھوڑدیا جائے؟

قاصد: کیا یہ بات صحیح ہے کہ تم یہاں رہو اور امیر المومنین قتل کردیئے جائیں یا دشمن کے سپر د کر دیے جائیں ؟ مالک اشتر یہ باتیں سن کر لرزنے لگے اور فوراً جنگ سے ہاتھ روک لیا اور خود امام علیہ السلام کی خدمت میں پہونچ گئے اور جب آپ کی نگاہ فتنہ و فساد کرنے والوں پر پڑی جو ذلت و رسوائی کے طلب گار تھے تو ان سے کہا اس وقت جب تم نے دشمن پر غلبہ پید ا کر لیاہے اور کامیابی کے مرحلے تک پہونچ گئے ہو،ان کے دھوکے میں آگئے ؟ خدا کی قسم ان لوگوں نے خدا کے حکم کو چھوڑ دیا ہے اور پیغمبر کی سنت کو بھی ترک کر دیا ہے ہرگز ان کی درخواست کو قبو ل نہ کرو اور مجھے کچھ مہلت دو تاکہ کام کو یک طرفہ کردوں ۔

فتنہ و فساد کرنے والے : تمھاری موافقت کرنا تمھار ی خطاؤں میں شریک ہونا ہے ۔

مالک اشتر: ہائے افسوس کے تمھارے بہترین لوگ قتل ہوگئے اور تمھارے مجبور و عاجز لوگ باقی بچے ہیں، مجھے بتاؤ کہ تم لوگ کس زمانے میں حقّ پر تھے؟کیا اس زمانے میں جس وقت تم نے جنگ کی اس وقت حق پر تھے اور اس وقت جب کہ جنگ سے باز آگئے ہوباطل پر ہو؟ یا اس وقت کہ جب تم نے جنگ کی باطل پر تھے اور اس وقت حق پر ہو ؟اگر ایسا گمان رکھتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کے تمھارے جتنے بھی افراد قتل ہوئے ہیں اور ان کے ایمان ، تقویٰ اور اخلاص کے تم معترف ہو، وہ لوگ جہنم میں ہوںگے۔

۶۴۳

فتنہ کرنے والے: ہم نے خدا کی راہ میں جنگ کی اور خدا کے لئے جنگ سے ہاتھ اٹھا لیا اور ہم لوگ تمھاری پیروی نہیں کریں گے ہم سے دور ہوجاؤ۔

مالک اشتر: تم لوگوں نے دھوکہ کھایا ہے اور اس وجہ سے جنگ چھوڑنے کے لئے دعوت دی گئی ہے پیشانیوں پر سجدوں کے نشان رکھنے والو، میں تمھاری نمازوں کو دنیا سے سرخرو جانے اور شہادت کے شوق میں سمجھ رہا تھا لیکن اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ تمھارا ہدف موت سے فرار اور دنیا کی طرف رغبت ہے تم پرتف ہو اے فضلہ خوار جانوروں ، ہرگز تمھیں عزت نصیب نہیں ہوگی دور ہوجاؤ جس طرح سے ظالم و ستمگر دور ہوگئے اس وقت فتنہ و فسا د پیدا کرنے والے ایک طرف اور مالک اشتر دوسری طرف،ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے اور ایک دوسروں کے گھوڑوں پر تازیانہ سے حملہ کر رہے تھے امام علیہ السلام کے سامنے یہ ناگوار منظر اتنا درد ناک تھا کہ آپ نے فریاد بلند کی کہ ایک دوسرے سے دور ہوجاؤ۔

ایسے حالات میں فتنہ و فساد اور فرصت طلب افراد نے امام علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے فریاد بلند کی کہ قرآن کے فیصلے سے راضی ہوجائیں تا کہ امام کو بنائے ہوئے منصوبے کے سامنے تسلیم کریں۔ امام علیہ السلام خاموش تھے اور کچھ نہیں کہہ رہے تھے اور فکر کے دریا میں غرق تھے۔(۱)

______________________

(۱) واقعہ صفین ص۴۹۲،۴۸۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن اابی الحدید ج۲ص۲۱۹،۲۱۶۔

۶۴۴

بیسویں فصل

مسئلہ تحکیم

عمرو عاص نے معاویہ کو جو مشورہ دیا تھاکہ اما م علیہ السلام کی فوج کو قرآن کی حاکمیت کی دعوت دو یا وہ قبول کریں یا نہ کریں آپس میں اختلاف کا شکار ہوجائیں گے ، مکمل طو ر سے کارگر ثابت ہوااور امام علیہ السلام کی فوج میں عجیب اختلاف پیدا ہوا جس نے فوج کودوگروہ میںتقسیم کردیا، لیکن اس میں اکثر سادہ لوح تھے جو جنگ سے تھک جانے کی وجہ سے معاویہ کے ظاہری فریب کا شکار ہوگئے تھے اور امام علیہ السلام کی اجازت کے بغیر نعرہ لگایا کہ ''علی نے حکمیت قرآن کی اجازت دیدی ہے '' جب کہ حضرت بالکل خاموش بیٹھے تھے اور اسلام کے مستقبل کے بارے میں فکر کر رہے تھے،(۱)

معاویہ کا خط امام ـ کے نام

ایسے پُر آشوب حالات میں معاویہ نے امام علیہ السلام کو یہ خط لکھا:

''ہمارے درمیان لڑائی ہوتے ہوئے بہت وقت ہوگیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک جو چیز مقابل سے حاصل کرنا چاہتا ہے اسے حق سمجھتا ہے، جب کہ دونوں میں کوئی بھی ایک دوسرے کی اطاعت نہیں کرتاچاہتا اور دونوں طرف سے بہت زیادہ لوگ قتل ہو گئے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ آئندہ، گزشتہ سے بدتر ہو اور ہم لوگ اس جنگ کے ذمہ دار ہیںاور میرے اور تمھار ے علاوہ اس کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے لہذا میرا ایک مشورہ ہے جس کے اند ر زندگی ،امت کی صلاح اور ان کی جان و مال کی حفاظت اور دین سے محبت اور کینہ کا دور ہونا ہے اور وہ یہ ہے کہ دوآدمی، یعنی ایک ہمارے دوستوں میں سے اور دوسرا تمھارے اصحاب سے جو مورد رضایت ہو، ہمارے درمیان قرآن کے مطابق فیصلہ کرے یہی میرے او ر تمھارے لئے اور فتنہ کو دور کرنے کے لئے بہتر راستہ ہے، اس مسئلہ میں خدا سے ڈرواور قرآن کے حکم کے مطابق راضی رہو اگر اس کے اہل ہو''۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج ۱ ص۱۰۴۔

(۲) الاخبارالطوال ص۱۹۱۔ وقعہ صفین ص۴۹۳۔

۶۴۵

نیزہ پر قرآن کا بلند کرنا صرف ایک جھوٹی اور بیہودہ تبلیغ اور اختلاف کرنا تھا یہ قرآن سے فیصلہ بالکل نہیں چاہتے تھے لیکن معاویہ نے اس خط میں اس ابہام کو با لکل دور کر دیا اور دونو ں طرف سے آدمیوں کے انتخاب کو تحریر کیا اور خط کے آخر میں امام علیہ السلام کو تقویٰ اور قرآن کی پیروی کرنے کی دعوت دی۔

امام علیہ السلام کا جواب معاویہ کے نام

جھوٹ اور ظلم وستم ، انسان کے دین اور دنیا دونوں کو تباہ کردیتا ہے اور اس کی لغزش کو عیب نکالنے والوں کے سامنے ظاہر کردیتا ہے ،تو جانتا ہے کہ جو تو نے اس سے پہلے انجام دیا ہے اس کو پورا نہیں کرسکتا ایک گروہ نے بغیر حق کے عہدو پیمان توڑ دیا اور خلافت کا دعویٰ کردیا اور خدا وند عالم کے صریحی حکم کی تاؤیل کردی اور خدا وند عالم نے ان کے جھوٹ کو ظاہر کردیا، اس دن سے ڈرو کہ جس دن کا م کی تعریف ہوگی تو وہ خوشحال ہوگا، اور جس شخص نے اپنی رہبری کو شیطان کے ہاتھوں میںسپرد کردیا ہے اور اس سے جنگ کے لئے نہیں اٹھا،شر مندہ و پشیمان ہوگا۔دنیا نے اسے دھوکہ دیا ہے اور اس سے دل لگایا ہے ،مجھے حکم قرآن کی دعوت دی ہے جب کہ تو خود ایسا نہیں ہے میں نے تجھے جواب نہیں دیا ہے لیکن قرآن کے فیصلے کو قبول کیا ہے۔(۱)

اشعث بن قیس جو پہلے ہی دن سے معاویہ کا جاسوس سمجھا جاتا تھا اور جنگ کے دوران بھی اکثر یہ چیزیں دیکھنے کو ملیں، اس مرتبہ اس نے اصرا ر کیا کہ معاویہ کے پاس جائے اور نیزہ پر قرآن بلند کرنے کی وجہ اس سے دریافت کرے،(۲)

اشعث کی دوستی امام علیہ السلام سے سچی نہ تھی، اس کے ذہن میں صلح کا خیال معاویہ کے بھائی عتبہ سے گفتگو کرنے کے بعد ہی آیاتھا۔ لیلة الہریر میں جنگ جاری رکھنے کو اس نے دونوں طرف کی تباہی سے تعبیر کیا اور'' رفع المصاحف'' (قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کا واقعہ)فتنہ کے واقع ہونے کے وقت اس

______________________

(۱)دونوںخط کوابن مزاحم منقری نے ''وقعہ صفین ''ص۴۹۴،۴۹۳ اور ابن اعثم کوفی نے کتاب ''الفتوح'' (ج۳،ص۳۲۲) میں نقل کیا ہے امام علیہ السلام کا خط تھوڑ ے فرق کے ساتھ نہج البلاغہ(مکتوب نمبر۴۸) میں بھی آیا اور نہج البلاغہ سے بھی مختصر دینوری نے اخبار الطوال ص ۹۱ میں ذکر کیا ہے۔

(۲) تاریخ طبری ج۳جزء ۶ص۲۸۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۶۱

۶۴۶

نے بہت اصرار کیا کہ علی علیہ السلام فوج ِشام کی دعوت کا جواب دیں، وہ فوج کی خستگی سے متعل بات کہتا تھا، اس مرتبہ اس نے اجازت مانگی کہ معاویہ سے ملاقات کرے اور صلح کے متعلق آخری حکم کومعلوم کرے، اور اسی بحث میں ہم انشأاللہ ذکر کریں گے ، کہ اس نے امام علیہ السلام سے نمائندہ معین کرنے کی قدرت کو سلب کر لیا اور حضرت کے مورد نظر نمائندے کوبہانہ سے پیچھے کردیا، اور اپنے مورد ِنظر شخص کو معین کرایا جو عراقی فوج کے لئے نقصان دہ تھا،جی ہاں اشعث نے معاویہ سے ملاقات کے بعد کوئی نئی بات نہیں بتائی اور معاویہ کے خط کے موضوع کو دہرایا۔

مسلّح گروہ کے اصرار نے امام علیہ السلام کو مجبور کردیاکہ قرآن کے فیصلہ کو قبول کریں ، اسی وجہ سے دونوں فوج کے قاری فوج کے درمیان آئے اور قرآن کو دیکھا اور ارادہ کیا کہ قرآن کے حکم کوزندہ کریں پھر اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے اور دونوں طرف سے آواز بلند ہوئی کہ ہم لوگ قرآن کے حکم اور فیصلہ پر راضی ہیں۔(۱)

حکمین کا انتخاب

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن بولتا نہیں بلکہ ضروری ہے کہ قرآن پر عبور رکھنے والے اسے بلوائیں اور اس میں غور و فکر کریں اور خدا کے حکم کو تلاش کریں تاکہ کینہ و دشمنی سے دوری اختیار کریں، اس ہدف تک پہونچنے کے لئے یہ طے پایا کہ شامیوں میں سے اور عراقیوں میں سے کچھ لوگ معین ہوں ،شام کے لوگ بغیر کسی قید و شرط کے معاویہ کے پیرو تھے کہ وہ جس کو بھی منتخب کرتا اسے قبول کرتے اور سبھی جانتے تھے کہ وہ فتنہ و فساد کا موجد عمروعاص کے علاوہ کسی کو منتخب نہیں کرے گا، مشہورمثل کے مطابق کہ شام کے لوگ مخلوق کے سب سے زیادہ فرماں برداراور خدا کے سب سے نا فرمان افراد تھے۔

لیکن جب امام علیہ السلام کی باری آئی تودباؤڈالنے والوںنے (جنہوں نے بعد میں اپنا نام خوارج رکھا اور حکمیت کے مسئلے کو گناہ کبیرہ سمجھا اور خو د اسے قبول کرنے سے توبہ کی اور علی علیہ السلام سے بھی کیا کہ توبہ کریں)دوچیز کے لئے حضرت پر دباؤ ڈالا۔

_______________________________

(۱ ) تاریخ طبری ج۳جزء ۶ص۲۸۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۶۱

۶۴۷

۱۔ حکمیت کو قبول کریں۔

۲۔ اپنے اعتبار سے حکم کا انتخاب ، نہ کہ امام علیہ السلام کی نظر کے مطابق،تاریخ اسلام کے اس حصہ کوجو واقعا درس عبرت ہے،ہم اسے تحریر کر رہے ہیں۔

دباؤ ڈالنے والے: ہم ابو موسیٰ اشعری کو حکمیت کے لئے منتخب کر رہے ہیں۔

امام علیہ السلام : میں ہر گز اس کام پر راضی نہیں ہوں اور ہرگز اسے یہ حق نہیں دوں گا۔

دباؤ ڈالنے والے: ہم بھی اس کے علاوہ کسی کو منتخب نہیں کریں گے یہ وہی ہے جس نے ابتداء سے ہی ہم لوگوں کواس جنگ سے منع کیا اور اسے فتنہ قرار دیا۔

امام علیہ السلام : ابو موسیٰ وہ شخص ہے جو خلافت کے پہلے ہی دن مجھ سے جدا ہوگیا اور لوگوں کو میری مدد کرنے سے منع کیا اور اپنی برائی کی وجہ سے بھاگ گیا یہاں تک کہ اسے امان دیا اور پھر میر ی طرف واپس آگیا، میں ابن عباس کو حاکم کے طور پر منتخب کر رہا ہوں۔

دباؤ ڈالنے والے: ہمارے لئے تمھارے اور ابن عباس میں کوئی فرق نہیں ہے، ایسے شخص کو منتخب کروتمھارے اور معاویہ کے لئے مساوی ہو۔

امام علیہ السلام : مالک اشتر کو اس کام کے لئے منتخب کروں گا۔

دباؤ ڈالنے والے: اشتر نے جنگ کی آگ کو بھڑکایا ہے اور اس وقت ہم لوگ ان کی نظر میں مرم ہیں۔

امام علیہ السلام : اشتر کا کیا حکم ہے؟

دباؤ ڈالنے والے: وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کی جان چلی جائے تاکہ اپنی اور تمھاری آرزو پوری ہو جائے ۔

امام علیہ السلام: اگر معاویہ حاکم کے انتخاب میں ہر طرح سے آزاد ہے تو قرشی (عمروعاص) کے مقابلے سوائے قرشی (ابن عباس) کے کوئی اور منا سب نہیں ہے تم لوگ بھی اس کے مقابلے میں عبد اللہ بن عباس کو منتخب کرو، کیونکہ عاص کا بیٹا کوئی گرہ نہیں باندھتا مگر یہ کہ ابن عباس اسے کھول دیتے ہیںیا گرہ کو نہیں کھولتا مگر یہ کہ اسے باندھ دیتے ہیں کسی چیز کو وہ مضبوط و محکم نہیں کرتا مگر یہ کہ ابن عباس اسے اور کمزور کر دیتے ہیں اور کسی کام کو کمزور نہیں کرتا مگر یہ کہ اسے محکم کردیتے ہیں۔

۶۴۸

اشعث : عمر وعاص اور عبد اللہ بن عباس دونوں قبیلہ مضَر سے ہیں اور دومضَری ایک ساتھ فیصلے کے لئے مناسب نہیں ہیں کہ بیٹھیں، اگر ایک مضَری ہو(مثلاً عمرو عاص) تو ضروری ہے کہ حتماً دوسرا یمنی (ابو موسیٰ اشعری) ہو۔ کسی نے اس شخص (اشعث) سے نہ پوچھا کہ اس قانون پر تمھارے پا س کیا دلیل ہے)

امام علیہ السلام :مجھے اس با ت کا ڈر ہے کہ تمھار ا یمنی دھوکہ نہ کھا جائے کیونکہ عمروعاص ایسا شخص ہے جو اپنے مقصد کو پورا کرنے میں کسی کام سے بھی نہیں ہچکچاتا۔

اشعث: خدا کی قسم جب بھی ان دو حکم میں سے ایک یمنی ہوگا تو یہ میرے لئے بہترہے اگر چہ وہ ہماری خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کرے اورجب بھی دونوں مضَری ہوں تو ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گے اگرچہ وہ ہمارے اعتبار سے فیصلہ کریں۔

امام علیہ السلام : اس وقت تم لوگ ابو موسیٰ اشعری کے لئے اصرار کررہے ہو تو تم خود ذمہ دار ہو، جو تمھارا دل چلے چاہے کرو۔(۱)

ابوموسیٰ اشعری جس وقت کوفہ کا سردار تھا اس وقت اس نے لوگوں کو امام کی ہمراہی میں جنگ جمل کے فتنہ میں جانے سے روک دیا تھا اور اس نے پیغمبر کی حدیث کو بہانہ بنایا تھا کہ پیغمبر نے فرمایا کہ ''جب بھی میری امت میں فتنہ و فساد پیدا ہو تو کنارہ کشی اختیار کرو'' اس وقت ایسا شخص چاہتا ہے کہ حکمیت کے مسئلے میں امام کی نمائندگی کرے، اس کی گزشتہ سادگی میں کوئی شک نہیں ، کیونکہ طبعاً امام کا مخالف تھا اور ہر گز وہ امام کے حق میں رائے نہیں دیتا۔

امام علیہ السلام نے دباؤ ڈالنے والے گروہ کوباطل اور نقصان دہ نظریہ سے واپس لانے کی دوبارہ کوشش نہیں کی۔اس وجہ سے اپنے تمام سرداروں کو ایک جگہ جمع کیا اور تمام مطالب کو مجمع عام میں اس طرح بیان کیا۔

''آگاہ رہو کہ شامیوں نے تو اپنے نزدیک ترین فرد کا انتخاب کر لیا ہے اور تم نے حکمیت کے لئے

______________________

(۱) الاخبار الطوال ص۱۹۲۔الامامةولسیاسة ج۱،ص۱۱۳۔ تاریخ یعقوبی ج ۲ص۱۸۹۔ وقعہ صفین ص۴۹۹۔

۶۴۹

ایسے نزدیک تریک فرد کو لوگوں کے درمیان سے منتخب کیا ہے (ابو موسی) جس سے تم راضی نہیں ہو : تمھارا واسطہ عبداللہ بن قیس(۱) سے ہے، یہ وہی شخص ہے جو کل تک کہتا پھرتا تھاکہ''کہ جنگ، فتنہ ہے کمانوں کے چلّے توڑ ڈالو، اور اپنی تلواروں کو نیاموں میں رکھ لو''۔

تو اگر وہ اپنے اس قول میں سچھاتھا تو تمھارے ساتھ جنگ میں زبردستی کیوں شامل ہوا اور اگر جھوٹا تھا تو اس پر (نفاق کی)تہمت لازم ہے (پھر اس پر اعتماد کیسا؟) عمروعاص کے سینے کا راز توڑنے کے لئے عبد اللہ ابن عباس کو منتخب کرو، اور اس موقع کوہاتھ سے نہ جانے دو اور اسلامی سرحدوں کو نہ چھوڑو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ تمھارے شہروں پر حملے ہورہے ہیں اور تمھاری سرزمین پر تیر اندازی کی جارہی ہے۔(۲)

اما م علیہ السلام کی باتوں کا سرداروں پر صرف ملاقات کے علاوہ کچھ اثر نہ ہوا، اس وجہ سے احنف بن قیس نے امام علیہ السلام سے کہا: میں نے ابو مو سیٰ کو آزمایا ہے اور اسے معمولی عقل والا پایا ہے یہ وہ ہے جس نے اسلام کے آغاز میں ان لوگوں سے مقابلہ کیا اگر آپ راضی ہوں تو مجھے حکمیت کے لئے چن لیجیۓ اور اگر مصلحت نہ ہوتو مجھے دوسرا یا تیسرا قرار دیجئے تاکہ آپ دیکھ لیجیۓ کہ عمرو عاص گرہ نہیں باندھ سکتا مگر یہ کہ میں اسے کھول دوں گا اور گرہ کو نہیں کھولے گامگر یہ کہ میں اسے باند ھ دوں گا،امام علیہ السلام نے احنف کی نمائندگی کو فوج کے سامنے پیش کیا لیکن وہ لوگ اتنے گمراہ اور جھگڑالو تھے کہ ابو موسیٰ کی نمائندگی کے علاوہ کسی کو رائے نہیں دیااور یہ انتخاب اس قدر نقصان دہ ہواکہ شام کے ایک شاعر نے اپنے شعر میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے وہ کہتا ہے:''اگر عراق کے لوگوں کے پاس صحیح رائے ہوتی تو ان لوگوں کو گمراہی سے محفوظ رکھتی اور ابن عباس کو لوگ منتخب کرتے لیکن یمن کے بوڑھے کو منتخب کیا جو شش و پنج میں گرفتار ہے علی تک اس شخص کی بات پہونچا دو جو حق بات کہنے میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا ابو موسیٰ اشعری امانتدار نہیں ہے۔(۳)

______________________

(۱) ابو موسیٰ اشعری کا نام ہے۔

(۲)نہج البلاغہ عبدہ خطبہ۲۳۳۔ عقدالفرید ۴،ص۳۰۹۔کامل مبّرد،ج۱،ص۱۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۳، ص۳۰۹۔

(۳) وقعہ صفین ص۵۰۲۔ الاخبار الطوال ص۱۹۳۔

۶۵۰

ہم آئندہ ذکر کریں گے کہ یہی لوگ جنہوں نے امام علیہ السلام پر معاویہ سے صلح کرنے کے لئے دباؤ ڈالا تھا اور حَکَم انتخاب کرنے میں آپ کے نظریہ کو رد کردیا تھا وہی پہلے لوگ ہیں جنہوں نے حکمیت کے موضوع کو بہت بڑا گناہ سمجھا اور صلح نا مہ لکھنے کے بعد امام علیہ السلام سے اس کے توڑنے پر اصرار کر نے لگے لیکن افسوس کہ امام عہد و پیمان کو کیسے توڑیں اور دوبارہ مقدس نما کم عقلوں کی بات پر عمل کریں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمیت کی عبارت کس طرح لکھی گئی اور کیا تیسری مرتبہ بھی امام علیہ السلام دباؤ ڈالنے والوں کے دبائو میں رہے۔

تحمیل عہد حَکمیت

سر زمین صفین پر واقعۂ حکمیت تاریخ ِ اسلام کابے نظیر واقعہ شمار ہوتا ہے امیر المومنین علیہ السلام جو فتح و کامیابی سے دو قدم کے فاصلے پر تھے اور اگر آپ کے بے خبر اور نادان ساتھی آپ کی حمایت سے منہ نہ موڑتے یاکم سے کم ان کے لئے زحمت کا باعث نہ بنتے ، تو فتنہ کی آنکھ کو اس کے ڈھیلے سے نکال لیتے اور بنی امیہ کی خبیث حکومت جو بعد میں ۸۰ سال یا اس سے کچھ زیادہ طولانی ہوئی اسے ختم کردیتے اور تاریخ اسلام اور مسلمانوں کے تمدن کو تبدیل کردیتے ، اور عمر وعاص کی چالاکی اور بعض لوگوں کے دھوکہ کھانے ، اور اپنے نادان سپاہیوں کی ہٹ دھرمی کو جنگ جاری رکھنے اور کامیابی تک پہونچنے کے لئے مانع ہوئے۔

ان نادان دوستوں نے جو دانا دشمنوں سے زیادہ ضرر رساں تھے چار چیزوں کے بارے میں امام علیہ السلام پر دباؤ ڈالاکہ جس کا دھواںپہلے ان کی آنکھوں میں پھر تمام مسلمانوں کی آنکھوں میں گیا اور یہ ہیں۔

۱۔ جنگ بندی کو قبول کرنا اور قرآن و سنت پیغمبر کی حکمیت قبول کرنا۔

۲۔ ابو موسیٰ اشعری کو امام علیہ السلام کے نمائندہ کے طور پر چُننا۔

۳۔ حکمیت کے عہد و پیمان کی تحریر سے لقب ''امیر المومنین''کاخدف کرنا۔

۴۔ حکمیت کے عہد و پیمان کو دستخط کے بعد اس کوتوڑنے پر اصرار۔

گزشتہ بحثوں میں پہلے اور دوسرے دباؤ کے طریقے کو واضح کیا ہے اب تیسرے اور چوتھے دباؤ کے طریقے اور صلح نامہ کی عبارت کو پیش کر رہا ہوں۔

۶۵۱

قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کی سیاست کے بعد جنگ اور بحث و مباحثہ ختم ہو گیا اور یہ طے پایا کہ دونوں فوج کے سردار حکمیت کے عہد و پیمان کو تنظیم کر دیں ایک طرف امام اور آپ کے ساتھی ، دوسری طرف معاویہ اور اس کی دوسری عقل یعنی عمر و عاص اور اس کی حفاظت کرنے والوں میں سے کچھ لوگ معین ہوئے۔ عہد نامہ کے لئے دو زرد ورق جس کے شروع اور آخر میں امام علیہ السلام کی مہر جس پر''محمد رسول اللہ(ص)''کندہ تھا اسی طرح معاویہ کی مہر جس پر یہی ''محمد رسول اللہ(ص)''لکھا تھا مہر لگا کر تیار کیا گیا اما م علیہ السلام نے صلح نامہ کی عبارت لکھوائی اور آپ کے کاتب عبید اللہ بن رافع نے لکھنے کی ذمہ داری سنبھالی امام علیہ السلام نے اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح کیا:

''بسم اللّه الرحمن الرحیم هٰذا ماتقاضٰا علیه علی امیر المومنین و معاویة ابن ابی سفیان وشیعتهما فیماتراضیٰا به من الحکم بکتاب اللّه وسنّة نبیهِ(ص)''

امیر المومنین علی اور معاویہ اور دونوں کی پیروی کرنے والوں نے یہ فیصلہ کیاہے کہ کتاب خدا اور پیغمبر کی سنت کے مطابق حکم کو مانیں گے۔

اس وقت معاویہ اپنی جگہ سے اچھل پڑا اور کہنے لگا: وہ بہت برا آدمی ہے جو کسی کو''امیر المومنین'' کے عنوان سے قبول کرے اور پھر اس سے جنگ کرے ، عمرو عاص نے فوراً امام علیہ السلام کے کاتب سے کہا علی اور ان کے باپ کا نام لکھو وہ تمھارا امیر ہے نہ کہ ہمارا ، احنف امام علیہ السلام کے بہادرسردار نے امام سے کہا آپ اپنے نام کے ساتھ اپنے لقب امیر المومنین کو حذف نہ کیجیۓ میں ڈر رہا ہوں کہ دوبارہ یہ لقب آپ تک نہ پہونچ سکے اس کی طرف زیاوہ دھیان نہ دیجیۓ چاہے جنگ و جدال ہی کیوں نہ ہو ،گفتگو طولانی ہوگئی اور دن کاکچھ حصہ اسی گفتگو میں گزر گیا اور امام علیہ السلام اپنے نام کے ساتھ امیر المومنین حذف کرنے کیلئے راضی نہ ہوئے، اشعث بن قیس ، جو پہلے ہی دن سے دوستی کا لباس پہن کر اما م علیہ السلام کے خلاف کام کر رہا تھا، اور معاویہ سے مخفیانہ رابطہ رکھے تھا اس نے بہت اصرار کیا کہ لقب حذف کردیا جائے،اس کشمکش میں امام علیہ السلام نے ''صلح حدیبیہ''جیسے تلغ واقعۂ کو بیان کیا اور فرمایا: میں حدیبیہ کی سر زمین پر پیغمبر اسلام (ص)کا کاتب تھا ایک طرف خدا کا پیغمبراور دوسری طرف سہیل بن عمرو تھے میں نے صلح نامہ کو اس طرح سے منظم کیا '' ھذا ماتصالح علیہ محمد رسول اللّہ(ص)صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم و سھیل بن عمرو'' لیکن مشرکین کے نمائندے نے پیغمبر سے کہا، میں ہرگز ایسے خط پردستخط نہیں کروں گا جس میں تم اپنے کو ''خدا کا پیغمبر '' لکھو گے،

۶۵۲

اگر میں مانتا کہ تم خدا کے نبی ہو تو ہرگز تم سے جنگ نہیں کرتا، میر ا ظالم و ستمگر میں شمار ہو کہ تمھیں خدا کے گھر کے طواف سے روک دوں جب کہ تم خدا کے پیغمبر رہو تم یہ لکھو،''محمد بن عبد اللہ'' تاکہ میں اسے قبول کرلوں۔

اس وقت پیغمبر نے مجھ سے فرمایا علی، میں خدا کا نبی ہوں جس طرح سے کہ عبد اللہ کا بیٹا ہوں ہرگزمیری رسالت عنوان''رسول اللہ(ص)'' میرے نام سے حذف ہونے سے ختم نہیں ہوگی ، لکھو، محمد بن عبداللہ ہاں۔اس دن مشرکوں نے مجھ پربہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ ''رسول اللہ(ص)'' کا لقب حضرت کے نام کے آگے سے ہٹا دوں۔ اگر اس دن پیغمبر اسلام نے صلح نامہ مشرکوں کے لئے لکھا تو آج میں ان کے فرزندوں کے لئے لکھ رہا ہوں میر ا اور پیغمبر ِخدا کا طور طریقہ ایک ہی ہے۔

عمر و عاص نے علی علیہ السلام سے کہا سبحان اللہ ہم لوگوں کو کافروں سے شبیہ دے رہے ہیں جب کہ ہم لوگ مومن ہیں ،امام علی السلام نے فرما یا کونسا ایسا دن تھا کہ تو کافروں کا حامی اور مسلمانوں کا دشمن نہ تھا،تو اپنی ما ں کی طرح ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے یہ سننے کے بعد عمروعاص وہاں سے اٹھ کے چلا اور کہا خدا کی قسم آج کے بعد کبھی بھی تمھارے ساتھ ایک جگہ نہیں بیٹھوں گا۔

امام علیہ السلام کے دوست نما لوگوں کے اس اصرار نے کہ امیر المومنین لقب کو اپنے نام کے ساتھ نہ لکھیں ،امام علیہ السلام کی مظلومیت کو اور بڑھا دیا۔(۱) لیکن امام علیہ السلام کے کچھ سچے اور حقیقی ساتھی تلواریں کھینچے ہوئے امام علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا حکم دیجیۓ تا کہ ہم اس پر عمل کریں عثمان بن حنیف نے ان لوگوں کو نصیحت کی اور کہا میں صلح حدیبیہ میں موجو د تھا اور ہم فی الحال پیغمبر اسلام(ص)کے راستے پر چلیں گے۔(۲)

______________________

(۱) وقعہ صفین (دوسرا ایڈیشن )ص ۵۰۹،۵۰۸۔ الاخبار الطوال ص۱۹۴۔الامامةولسیاسة ج۱ص۱۱۴۔ تاریخ طبری ج۳جزئ۶ص۲۹ کامل بن اثیرج ۳،ص۱۶۲۔ تاریخ یعقوبی ج ۲ص۱۸۹۔ (تھوڑے فرق کے ساتھ) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲ص۲۳۲۔

(۲) الامامة و السیاسة ج۱ص۱۱۲۔

۶۵۳

اما م علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر اسلام (ص)نے حدیبیہ میں اس واقعہ کی مجھے خبر دی تھی یہاں تک کہ فرمایا:اِنَّ لَکَ مثلهٰا سَتُعطِیْهٰا وانت مضطهد'' ایک دن تمہیں بھی ایسا واقع پیش آئے گا اور تم بے بس و مجبور ہو گے

صلح نامہ کی عبارت

اس سلسلے میں دونوں طرف کا اختلاف امام علیہ السلام کے سکوت کرنے اور پیغمبر اسلام کے طریقے پر عمل کرنے سے ختم ہوا، اور علی علیہ السلام نے اجازت دی کہ ان کا نام بغیر لقب امیر المومنین کے لکھا جائے اور صلح نامہ لکھا جانے لگا جس کے اہم دفعات یہ ہیں:

۱۔ دونوں گروہ کے َحکمَ اس بات پر راضی ہوئے کہ قرآن کی رو سے فیصلے کریں اور اس کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں

۲۔ علی اور ان کی پیروی کرنے والوں نے عبداللہ بن قیس ( ابوموسیٰ اشعری) کو ناظر وحاکم کے عنوان سے چنا ہے اور معاویہ اور اس کی پیروی کرنے والوںنے عمروعاص کو اس کام کے لئے منتخب کیا ۔

۳۔دونوں آدمی خدا کی کتاب کو اپنا پیشوا قرار دیں اور اگر اس نے فیصلہ کردیا تواس سے آگے نہ بڑھیں اور جہاں وہ فیصلہ نہ کرسکے وہاں پیغمبر (ص) کی سیرت وسنت کی طرف رجوع کریں اور اختلاف سے پرہیز کریں اور خواہشات کی پیروی نہ کریں اور مشتبہ کاموں کو انجام نہ دیں ۔

۴۔ عبداللہ بن قیس اور عمروعاص میں سے ہر ایک نے اپنے پیشوا ورہبر سے الٰہی عہد لیا کہ یہ دونوں قرآن اور سنت کی بنیاد پرجو بھی فیصلہ ہو گا اس پر راضی رہیں گے اور اسے توڑیںگے نہیں اور نہ ان کے علاوہ کسی کو چنیںگے اور ان لوگوں کی جان ومال و عزت و آبرو اگر حق سے تجاوز نہ کریں تو محترم ہے۔

۵۔ اگر دونوں حاکموں میں سے کوئی ایک حاکم اپنے وظیفے کو انجام دینے سے پہلے مرجائے تو اس گروہ کا امام ایک عادل شخص کو اس کی جگہ پر معین کرے گا انھیں شرائط کے ساتھ جس طرح سے اس کو معین کیا گیا تھا اور اگر دونوں پیشوا ورہبر میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنے سے پہلے مرجائے تو اس کے ماننے والے کسی کو اس جگہ پر معین کرسکتے ہیں ۔

۶۵۴

۶۔ حاکمین سے یہ عہد لیا گیاکہ تلاش وکوشش میں غفلت نہ برتیں اور غلط فیصلہ نہ کریں اور اگر اپنے تعہد پر عمل نہ کریں تو اس عہد نامہ پرامت والوں کے لئے عمل ضروری نہیں ہوگا۔ اس عہد نامہ پر امیر اور امت اور حاکم کے لئیعمل کرنا لازم وواجب ہے اور اس کے بعد سے اس عہد نامہ کی مدت ختم ہونے تک لوگوں کی جان ومال وعزت وآبرو سب محفوظ ہے اور تمام اسلحے رکھ دیئے جائیںگے اور امن وامان کا ماحول پیدا کیا جائے گا اور اس سلسلے میں اس واقعہ میں حاضر رہنے والوں اور غائب رہنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۷۔ حاکمین پر لازم ہے کہ عراق وشام کے درمیان اجتماع ہو اور وہاں ان کے دوست واحباب کے علاوہ کوئی اور نہ جائے اور ان کو ماہ رمضان المبارک کے آخرتک فیصلہ کر دینا چاہیئے اور اگر چاہیں تو اس سے پہلے بھی فیصلہ کرسکتے ہیں اور اسی طرح اگر وہ لوگ چاہیں تو فیصلہ موسم تمام ہونے تک کرسکتے ہیں ۔

۸۔ اگر دونوں حاکم قرآن وسنت کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو مسلمان اپنی جنگ کو جاری رکھیں گے اور پھر دونوں فوجوں کے درمیان کوئی عہد وپیمان نہ ہوگا اور امت اسلامی کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز اس میں تحریر ہے اس پر عمل کریں اوراگر کوئی زبردستی کرنا چاہے یا اس صلح کو توڑنے کا ارادہ کرے تو امت مسلمہ کو اور متحد ہونا چاہیے۔(۱) طبری کے نقل کے مطابق اس وقت دونوں طرف سے دس لوگوں نے پیمان حکمیت کے شاہد کے عنوان سے اپنے دستخط کئے، امام علیہ السلام کی طرف سے دستخط کرنے والوںمیں عبداللہ بن عباس، اشعث بن قیس ، مالک اشتر، سعید بن قیس ہمدانی ، خیّاب بن ارّت،سہل بن حنیف، عمرو بن الحمق الخزاعی اور امام علیہ السلام کے بیٹے امام حسن اور امام حسین تھے(۲) صلح نامہ ۱۷ صفر ۳۷ ہجری بروز بدھ عصر کے وقت لکھا گیا تھا اور دونوں طرف کے لوگوں نے دستخط کئے تھے(۳) حکمین نے چاہا کہ سرزمین '' اذرح '' ( شام وحجاز کے درمیان کی سرحدی جگہ ) میں جمع ہوں اور وہاں پر فیصلہ کریں اور دونوں طرف سے چار سو لوگ ناظر کے عنوان سے گئے تاکہ فیصلہ پر نگاہ رکھیں ۔

______________________

(۱)مروج الذھب ج۲ ص ۴۰۳۔ تاریخ طبری ج۳ جزئ۶ ص ۲۹۔ الاخبار الطوال ص ۱۹۵

(۲)تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۰۔ وقعہ صفین ص ۵۱۰۔ کامل ابن اثیرج۳، ص۱۶۲

(۳)کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۳

۶۵۵

تحکیم کے خلاف خوارج کا رد عمل

صلح نامہ لکھے جانے کے بعد طے پایا کہ شام اور عراق کے لوگ اس گفتگو کے نتیجہ سے باخبر ہوں ، اس وجہ سے اشعث نے عراقیوں اور شامیوں کے درمیان حکمیت کے صلح نامہ کو پڑھ کر سنایا پہلی مرتبہ کسی نے بھی کوئی مخالفت نہیں کی جب کہ بعض عراقی '' عنزہ'' وغیرہ نے مخالفت کی اور پہلی مرتبہ دو عنزی نوجوان معدان اور جعد کے منھ سے یہ نعرہ نکلا '' لا حکم الا للّٰہ ''اور دونوں جوانوں نے تلواریں کھینچیں اور معاویہ کی فوج پر حملہ کردیا اور معاویہ کے خیمے کے پاس مارے گئے اور جب اس صلح نامہ کو قبیلہ مراد کے سامنے پڑھا گیا تو اس قبیلے کے رئیس '' صالح بن شفیق '' نے ان جوانوں کے نعرے کو دھہرایا اور کہا '' لا حکم الااللّٰہ ولوکرہ المشرکون''پھر اس شعر کو پڑھا:

مالعلی فی الدماء قد حکم

لوقاتل الاحزاب یوماً ما ظلم

کیا ہوا کہ علی نے اتنے لوگوں کی شہادت کے بعد حکمیت کو قبول کرلیا حالانکہ اگر فوج ( معاویہ اور اس کے ہم فکروں) سے جنگ کرتے تو ان کے کام میں نقص نہ ہوتا۔

اشعث نے اپنا کام جاری رکھا اور جب وہ قبیلہ بن تمیم کے پرچم کے روبرو ہوا تو حکمیت کے صلح نامہ کو ان کے سامنے پڑھا تو ان کے درمیان سے یہ نعرہ بلند ہوا''لا حکم الا للّٰه یقضی بالحق وهو خیر الفاصلین''اور عروہ تمیمی نے کہا''أتحکّمون الرجال فی أمراللّٰه؟ لاحکم الّا للّٰه، أین قتلانایاأشعث ''(۱) یعنی کیا لوگوں کو دین خدا میں حَکَم قراردے لیا ہے؟حکم اور فیصلہ خدا کے لئے ہے اے اشعث ہمارے لوگ کیوںقتل کئے گئے ؟ ( کیا وہ لوگ حق کی راہ میں قتل ہوئے ہیں یا باطل کی راہ میں؟)پھر اپنی تلوار سے اشعث پر حملہ کیا لیکن وار اس کے گھوڑے پر لگا اور اشعث کو زمین پر گرادیا اور اگر دوسرے افراد مدد نہ کرتے تو اشعث عروہ تمیمی کے ہاتھوں قتل ہوجاتا۔

______________________

(۱) عروہ کا خیال یہ تھا کہ اس صلح نامہ سے پہلے عراقی فوج کے تمام کام غلط تھے لہٰذا سب کے سب جہنم میں جائیں گے ،وقعہ صفین ص ۵۱۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۳۷۔ الاخبار الطوال ص۱۹۷۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۶۳۔ مروج الذھب ج۲ ص ۴۰۳

۶۵۶

اشعث نے عراقی فوج پھر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایسے باتیں کرنے لگا جیسے امام علیہ السلام کے اکثر حامی حکمیت کے صلح نامہ پر راضی ہوں اور علاوہ ایک دوگروہ کے کوئی مخالف نہیں ہے لیکن زیادہ وقت نہ گزراتھا کہ چاروں طرف سے''لا حکم الا للّٰه ، والحکم للّٰه یا علیُّ لاٰ لکَ'' کا نعرہ بلند ہوگیا اور لوگ فریادبلند کرنے لگے ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ دین خدا میں لوگ حاکم ہوں ( اور حکم خدا کو بدل ڈالیں ) خدا نے حکم دیاہے کہ معاویہ اور اس کے ساتھی قتل ہوجائیں یا ہمارے حکم کے تابع ہوجائیں حکمیت کا واقعہ ایک لغزش تھی جو ہم سے ہوگئی اور ہم لوگ اس سے پھر گئے اور توبہ کرلیا تم بھی اس سے منھ موڑ لو اور توبہ کرلو اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو ہم تم سے بھی بیزار رہیں گے۔(۱)

چوتھا دباؤ

امام علیہ السلام کے نادان اور بے وقوف ساتھی اس مرتبہ چوتھا دباؤ ڈال رہے تھے اور وہ یہ کہ امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ اسی دن حکمیت کے صلح نامہ کو نظر انداز کردیتے اور اسے معتبر نہ جانتے ، لیکن اس مرتبہ امام علیہ السلام نے زبردست مقابلہ کیا اور ان لوگوں کے سامنے فریاد بلند کی ۔

( ویحکم،ابعد الرضا والعهد نرجع؟ ألیس اللّٰه تعالیٰ قد قال، اوفوا بالعقود ) (۲) ( وقال ، وأوفو ا بعهد اللّٰه اذا عاهدٰ تم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدها وقد جعلتم اللّٰه علیکم کفیلاً ان اللّٰه یَعلَم ما تفعلون ) (۳) ،(۴)

'' لعنت ہو تم پر ،اس وقت اب یہ باتیں کررہے ہو ؟ جب کہ راضی ہوگئے ہیں اور عہد کرلیا ہے تو دوسری مرتبہ جنگ کی طرف واپس آجائیں ؟ کیا خدا کا فرمان نہیں ہے کہ '' اپنے وعدوں کو وفا کرو'' او ر پھر خدا کہتاہے ، خدا کے عہد وپیمان پر جب کہ تم نے عہد کرلیا ہے تو وفا کرو اور قسم کھانے کے بعد اسے توڑو نہیں اور جب کہ اپنے کاموں پر خدا کو ضامن قرار دیا ہے اور خدا جو کچھ انجام دیتا ہے اس سے باخبرہے۔

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۳۷۔ وقعہ صفین ص۵۱۳۔

(۲)سورہ مائدہ آیت ۱----(۳)سورہ نحل آیت ۹۱----(۴)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲، ص ۲۳۸

۶۵۷

لیکن امام علیہ السلام کا کلام ان لوگوں پر اثر انداز نہ ہوا اور امام علیہ السلام کی پیروی سے منھ پھیر لیا اور حکمیت کے مسئلے کو گمراہی قراردیا اور امام علیہ السلام سے بیزاری کیا اور تاریخ میں '' خوارج '' یا ''محکمہ''کے نام سے مشہور ہوگئے اور اسلامی گروہوں میں سب سے زیادہ خطرناک گروہ بنایا۔

ان لوگوں نے کبھی بھی کسی حکومت سے تعلقات نہیں رکھا اور اپنے لئے خاص نظریہ اور روش اختیار کی ہم ''مارقین'' کی بحث میں تفصیلی طور پر ان لوگوں کی فکری غلطیوں کے بارے میں بحث کریں گے اور یہ بھی ذکر کریں گے کہ مسئلہ حکمیت ، دین میں لوگوں کو حکم قرار نہیں دینا تھا بلکہ دو گروہ کے درمیان اختلاف کے وقت قرآن و سنت پیغمبر کو حکم قرار دینا تھا اور یہ بہترین راستہ تھا ، گرچہ عمرو عاص نے یہ حربہ ،حلیہ و مکر سے اختیار کیا تھا۔

امام علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں :'' انا لم نحکّم الرجالُ وانما حکمنا القرآن وهذا القرآن انما هو خط مسطور بین الدفتین لاینطق بلسان ولا بد من ترجمان وانما ینطق عنه الرجال ، ولما دعانا القوم الیٰ ان نحکم بیننا القرآن لم نکن الفریق المتولی عن کتاب اللّٰه وقد قال سبحانه ( فان تنازعتم فی شئی فردّو ه الی الله والرسول) فرده الیٰ الله أن نحکم بکتابه ورده الی الرسول أن ناخذ بسنته (۱) '' ہم نے لوگو ں کو نہیں بلکہ قرآن کو حکم مقرر کیا اور یہ دفتیوں کے درمیان لکھی ہوئی کتاب ہے جو زبان سے نہیں بولتی اس کے لئے ترجمان ضروری ہے اور وہ ترجمان آدمی ہی ہوتے ہیں جو قرآن کی روشنی میں کلام کرتے ہیں ، جس قوم (اہل شام)نے ہم سے خواہش کی ہم اپنے اور ان کے درمیان قرآن مجید کو حکم قرار دیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منحرف ہوجاتے ، حالانکہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ اگر تم کسی بات میں اختلاف کرنے لگو تو خدا اور رسول کی طرف اسے پھیر دو ، خدا کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس کتاب کو حَکم مانیں اور رسول کی طرف رجوع کرنے کے معنی ہیں کہ ہم ان کی سنت ( طریقے) پر چلیں ''

______________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۵۔طبری نے اپنی تاریخ (ج، ۳ جزئ۶ ص۳۷)میں ۳۷ ہجری کے واقعات میں ا ور ابن اثیر نے اپنی کتاب کامل ( ج ۳، ص ۱۶۶) میں اس بات کو نہج البلاغہ سے مختصر طریقے سے لکھا ہے ۔ سبط ابن جوزی نے کتاب تذکرہ (ص۱۰۰) میں ہشام کلبی سے ،شیخ مفید نے ارشاد میں (ص، ۱۲۹) ۔طبرسی نے احتجاج (ج۱، ص ۲۷۵) میں اس خطبہ کو نقل کیا ہے ۔

۶۵۸

امام علیہ السلام کا اس خطبہ کے ساتھ ایک اور جملہ بھی ہے جو توجہ کے لائق ہے امام فرماتے ہیں :

'' فاذا حکم بالصدق فی کتاب اللّه فنحن أحسن الناس به وان حکم بسنة رسول اللّٰه فنحن أولاهم به''

اگر سچائی کے ساتھ کتاب خدا سے حکم حاصل کیا جائے تو اس کی رو سے سب سے زیادہ ہم حق دار ہیں اور اگر سنت رسول کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو ہم سب سے زیادہ اس کے اہل ہیں ۔

جی ہاں ! بالآخر جنگ صفین میں کئی مہینے تک امام علیہ السلام کا قیمتی وقت ضائع و برباد ہوا اور عراق کی فوج کے ۲۰ سے ۲۵ ہزار تک لوگ شہید ہوئے اور ۴۵ ہزار اور ایک قول کی بنیاد پر ۹۰ ہزار افراد فوج شام سے مارے گئے اور دونوں فوج ایک دوسرے سے دور ہوگئی اورلوگ اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے گئے(۱)

قیدیوں کی رہائی

جب صلح نامہ لکھ گیا اور اس پر دستخط ہوگئے اور دونوں طرف بھیج دئے گئے تو اس وقت امیر المومنین نے دشمن کی فوج کے تمام قیدیوں کورہا کردیا ، ان قیدیوں کی رہائی سے پہلے ہی عمرو عاص اصرار کررہا تھاکہ معاویہ امام علیہ السلام کی فوج کے قیدیوں کو پھانسی دیدے جب معاویہ نے امام علیہ السلام کے اس عظیم کام کو دیکھا تو کانپنے لگا اور عاص کے بیٹے سے کہا ، اگر ہم لوگ قیدیوںکو قتل کردیتے تو دوستوں اور دشمنوں کے درمیان رسوا ہوجاتے۔

جنگ کے وقت دشمن کے قیدیوں کے ساتھ امام علیہ السلام کا طریقہ دوسرا تھا اگر کوئی قید ہوتا تو اسے آزاد کردیتے مگر یہ کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو،تو اس صورت میں قصاص ( جان کا بدلہ جان) کے طور پر قتل کردیا جاتاتھا اور اگر آزاد ہونے والا قیدی دوبارہ گرفتار ہوتا تھا تو بغیر کسی چوں چراں کے اسے پھانسی دیدی جاتی تھی کیونکہ دشمن کی فوج میں اس کا واپس جانا اس کی پلیدی وبری نیت کی عکاسی کرتاہے ۔(۲)

______________________

(۱)جنگ صفین ۱۷ صفر ۳۷ ہجری کو ختم ہوئی اور ۱۱۰ دن تک جاری رہی اور اس مدت مین ۹۰ مرتبہ حملہ ہوا۔ مسعودی نے التنبیہ والاشراف ،ص۲۵۶ مطبوعہ قاہرہ ۔ اور مروج الذھب (ج۲، ص۳۰۵) میں قتل ہونے والوں کی تعدادایک لاکھ دس ہزار لکھا ہے ( ۲۵ ہزار امام علیہ السلام کے فوجی اور ۹۰ ہزار معاویہ کے فوجی ) اور ایک قول کی بناء پر ۷۰ ہزار آدمی ( ۲۵ ہزار امام علیہ السلام کی طرف سے اور ۴۵ ہزار معاویہ کے فوجی) نقل ہو اہے ۔

(۲) وقعہ صفین ص ۵۱۸۔

۶۵۹

حکمیت پر امام ـ کی نظارت

امام علیہ السلام صفین سے کوفہ جاتے وقت حکمیت کے واقعہ سے غافل نہ تھے اور ہمیشہ ضروری نکتوں کی طرف ابن عباس ( جو ۴۰۰ لوگ اس علاقے میں بھیجے گئے تھے) کو توجہ دلاتے رہے، معاویہ بھی حکمین کے کام سے غافل نہ تھا اور اس نے بھی ۴۰۰ لوگوں کو اس علاقے میں بھیجا امام علیہ السلام کے دوستوں اور معاویہ کے دوستوں میں فرق یہ تھا کہ شامی افراد آنکھ ، کان بند کئے ہوئے اپنے سرپرست کے مطیع وفرماں بردار تھے اور جب بھی معاویہ کی طرف سے کوئی خط پہونچتا تو کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ معاویہ نے کیا لکھا ہے ، جبکہ جب بھی امام علیہ السلام کا خط ابن عباس کے پاس آتا اس وقت سب کی نگاہیں ابن عباس پر ہوتیں کہ امام علیہ السلام نے اسے کیا حکم دیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ابن عباس نے ان لوگوں کی مذمت کی اور کہا جب بھی امام علیہ السلام کی طرف سے کوئی پیغام آتاہے توتم لوگ پوچھتے ہو کہ کیا حکم آیا ہے اگر اسے نہ بتاؤں تو تم لوگ کہو گے کہ کیوں چھپادیا اور اگر اسے بیان کردوں تو یہ راز سب پر ظاہر ہوجائے گا اور پھر ہمارے لئے کوئی راز، راز نہیں رہ جائے گا۔(۱)

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۵۳۳۔ تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۷۔کامل ابن اثیرج۳، ص۱۶۷۔ الاخبارالطوال ص ۱۹۸

۶۶۰