فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341369
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341369 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اکیسویں فصل

امام ـ کی صفین سے کوفہ کی طرف روانگی

حکمیت کا مسئلہ ایک ایسا امر ہے جسے امام علیہ السلام نے زور وزبردستی اور تمام راستے بند ہوجانے کی صورت میں قبول کیا کیونکہ اگر اس کا مقابلہ کرتے تو خود اپنی فوج کے مخالفین ،معاویہ کی فوج کی مدد سے امام علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ جاتے جس کا انجام آپ اور آپ کے وفادار ساتھیوں کی بربادی کے علاوہ کچھ نہ ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب حکمیت کے تعیین کا مسئلہ ختم ہوا تو امام علیہ السلام اپنے نمائندوں کو اعزام اور فیصلہ اور مشکلات کے رفع ،دفع کرنے اور اس پر ناظر وغیرہ معین کرنے کے لئے کوفہ واپس آگئے اور وہاں سے روانہ ہوتے وقت اس دعا کو پڑھا جو پیغمبر اسلام (ص) سے نقل ہوئی ہے : '' بارالٰہا سفر کی مشکلات اور غم سے نجات عطا کر اور اہل وعیال اور مال پر بری نظر ڈالنے والوں سے پناہ مانگتاہوں ۔

امام علیہ السلام نے اس دعا کو پڑھا اور فرات کے کنارے سے کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور جب '' صندودائ''(۱) شہر کے پاس پہونچے تو قبیلہ بن سعید کے لوگ آپ کے استقبال کے لئے آئے اور خواہش ظاہر کی کہ ہمارے قبیلے میں تشریف لائیے اور ہمیں رونق بخشیں لیکن امام علیہ السلام نے ان کی دعوت قبول نہیں کیا(۲) آپ جب کوفہ کے نخلستان ( کھجور کے باغ) میں پہونچے تو ایک ضعیف شخص سے ملاقات ہوئی جو ایک گھر کے سائے میں بیٹھا تھا اور اس کے چہرے سے بیماری کے آثار نمایا ں تھے امام اور اس کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ یہ ہیں :امام علیہ السلام:تیرے چہرے کا رنگ کیوں اڑا ہے؟ کیا بیمار ہے؟

ضعیف :جی ہاں۔

امام علیہ السلام : بیماری کو اچھا نہیں سمجھتے؟

ضعیف : نہیں ، میں نہیں چاہتا کہ بیمار پڑوں۔

_______________________________

(۱) صندودائ، عراق وشام کے درمیان کا شہر ، معجم البلدان،یاقوت حموی

(۲) وقعہ صفین ص۵۲۸۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۸۶

۶۶۱

امام علیہ السلام:کیا اس طرح کی بیماریاں خدا کے سامنے '' بہترین نیکی'' شمار نہیں ہوتیں؟

ضعیف : کیوں نہیں ؟

امام علیہ السلام : مبارک ہو خدا کی رحمت نے تمہارا احاطہ کیا ہے اور تمہارے گناہوں کو بخش دیا ہے ، تمہارا کیا نام ہے؟

ضعیف : میرا نام صالح بن سلیم ہے اور سلامان بن طیّ اور اس کے وفادار سلیم بن منصور قبیلے سے ہوں ۔

آپ نے خوش ہوکر فرمایا: تمہارا اور تمہارے باپ اور تمہارے وفاداروں کا نام کتنا بہترین ہے کیا ہماری جنگوں میں تم نے شرکت کی ہے؟

ضعیف:نہیں ، میں جنگ میں شریک نہیں ہوسکا لیکن اس کی طرف مائل تھا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جسم کی کمزوری نے جو بخار کی وجہ سے ہے مجھے ان کاموں سے روک دیا ہے۔

امام علیہ السلام: خدا کے کلام کو غور سے سنو وہ فرماتاہے:( لیس علی الضعفاء ولا علی المرضی ولا علی الذین لایجدون ماینفقون حرج اذا نَصحُوالله ورسوله ماعلی المحسنین من سبیل والله غفور رحیم ) (توبہ : ۹۱)( اے رسول جہاد میں نہ جانے کا ) نہ توکمزوروں پر کچھ گناہ ہے نہ بیماروں پراورنہ ان لوگوں پر جو کچھ نہیں پاتے کہ خرچ کریں بشرطیکہ یہ لوگ خدا اور اس کے رسول کی خیر خواہی کریں ، نیکی کرنے والوں پر (الزام) کوئی سبیل نہیں ہے اورخدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔

امام علیہ السلام : شامیوں کے ساتھ ہمارے کام کے متعلق لوگ کیا کہتے ہیں؟

ضعیف:آپ کے دشمن اس کام سے خوش ہیں لیکن آپ کے حقیقی دوست ناراض اور افسوس کرتے ہیں ۔

امام علیہ السلام : تم سچ کہتے ہو خدا تمہاری بیماریوں کو تمہارے گناہوں کی بخشش کا سہارا قرار دے اگرچہ بیماری کا کوئی اجر نہیں ہے مگر یہ کہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں ، اجر و ثواب ، انسان کے کردار وگفتار پر منحصر ہے لیکن کبھی بھی حسن نیت (اچھی نیت) سے غفلت نہیں برتنا چاہیے کیونکہ خداوندعالم بہت زیادہ گروہوں کو ان کی بہترین نیت کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا امام علیہ السلام اتنا کہنے کے بعد

۶۶۲

اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔(۱)

ابھی امام علیہ السلام نے تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ عبداللہ بن ودیعہ انصاری سے ملاقات ہوئی آپ نے چاہا کہ معاویہ کے ساتھ صلح کے متعلق لوگوں کے نظریہ سے آگاہی پیدا کریں لہٰذا اس کے ساتھ کچھ دیر گفتگو ہوئی جسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔

امام علیہ السلام : ہمارے کاموں کے بارے میں لوگوں کا کیا نظریہ ہے؟

انصاری : آپ کے متعلق لوگوں کے دو نظریے ہیں بعض لوگوں نے اسے پسند کیا ہے اور بعض لوگ اس سے ناراض ہیں اور ( قرآن کی تعبیر کے مطابق''ولا یزالون مختلفین '')ہمیشہ اختلاف کے خواہاں ہیں ۔

امام علیہ السلام: عقلمندوں کا کیا نظریہ ہے؟

انصاری: ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ گروہ علی کے ساتھ تھے لیکن علی نے انہیں دور کردیا بہترین قلعہ تھا لیکن اسے ویران کردیا اب علی کب ان لوگوں کو اپنے پاس بلائیں گے جنہیں دور کردیا ہے اور جس قلعہ کو ویران کیا ہے اسے کب آباد کریں گے؟ اگر وہ اسی گروہ کے ساتھ جو ان کے تابع تھے جنگ کو جاری رکھتے تو یا تو کامیاب ہوجاتے یا ختم ہوجاتے انہوں نے عقلمندی اور بہترین سیاست سے کام انجام دیا تھا۔

امام علیہ السلام : میں نے ویران کیا ہے یا ان لوگوں (خوارج) نے؟ میں نے ان لوگوں کو دور کردیا یا ان لوگوں نے اختلاف اور تفرقہ ایجاد کیا؟ اور جو یہ کہتے ہو کہ حسن تدبیر یہ تھی کہ جس وقت کچھ لوگوں نے میرے خلاف بغاوت کیا تھا تو میں اپنے وفاداروں کے ساتھ جنگ جاری رکھتا یہ ایک ایسا نظریہ نہ تھاکہ میں اس سے غافل ہوتا، میں اس بات پر حاضر تھا کہ اپنی جان کو قربان کر دیتا او رموت کو خندہ پیشانی کے ساتھ گلے لگا تا لیکن حسن وحسین پر نہیں رویا اور دیکھا کہ وہ مجھ سے پہلے شہید ہونا چاہتے ہیں لہذا میں نے اس بات کا خوف محسوس کیا کہ ان دونوں کے مرنے سے پیغمبر اسلام (ص) کی نسل نہ منقطع ہوجائے لہٰذا اس کام کو نہیں پسند کیا خدا کی قسم اگر اس مرتبہ شامیوں سے مقابلہ ہواتو اس راہ کو انتخاب کروں گا اور ہرگز وہ دونوں

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۵۲۸۔ تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۲

۶۶۳

( حسن و حسین) میرے ساتھ نہ ہوں گے۔(۱)

امام علیہ السلام کے ساتھ انصاری کی صاف صاف باتیں دو مطلب کو واضح کرتی ہیں :

۱۔وہ ماحول جس میں امام علیہ السلام زندگی بسر کررہے تھے وہ آزاد ماحول تھا اور لوگوں کو یہ حق حاصل تھاکہ وہ حکومت وقت کے بارے میں اپنے افکار و نظریات کو پیش کرسکیں اور امام علیہ السلام کی نظر میں اپنے نظریہ کو ظاہر کرنے میں مخالف وموافق برابر تھے اور جب تک کہ مخالف اسلحہ نہیں اٹھاتااور حملہ نہیں کرتا مکمل آزاد رہتا تھا۔

۲۔پیغمبر اسلام (ص) کی نسل کی حفاظت کہ جسے قرآن کریم نے لفظ '' کوثر'' سے تعبیر کیا ہے اسلام کے واجبات سے اہم ہے اور اگر امام علیہ السلام معاویہ اور اپنے مخالفوں سے جنگ جاری رکھتے کہ جن کی تعداد کم نہ تھی تو خود امام علیہ السلام اور حسنین علیھم السلام شہید ہوجاتے اور پیغمبر اسلام (ص) کی نسل ختم ہوجاتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ خود '' امامت'' ہی ختم ہوجاتی ، جب کہ پروردگار عالم کا ارادہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ معصومین علیھم السلام کی نسل ظہور امام زمان علیہ السلام تک باقی رہے اسی لئے امام علیہ السلام نے حکمیت کو قبول کرلیا، اور تمام علتوں میں سے ایک یہ بھی علت تھی جس کی وجہ سے امام علیہ السلام نے اسے قبول کیا۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۸ ۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۴،وقعہ صفین ص ۵۳۰،۵۲۹۔

۶۶۴

امام ـ خباب بن ارت کی قبر پر

امام علیہ السلام چلتے چلتے بنی عوف کے گھروں کے پاس پہونچے راستے کے داہنی طرف ایک اونچی جگہ پر آپ نے سات یا آٹھ قبروں کو دیکھا امام علیہ السلام نے ان قبروں میں دفن کے نام پوچھے ، قدامہ بن عجلان ازدی نے جواب دیا ، آپ کے صفین جانے کے بعد خباب بن ارت کا انتقال ہوگیا اور اس نے خواہش ظاہر کی تھی کہ اسے بلند جگہ پر دفن کیا جائے یہاں پر اس کے دفن ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اپنے مردوں کو بھی اس کے اطراف میں دفن کرنا شروع کردیا ، امام علیہ السلام نے خباب کے لئے رحمت ومغفرت طلب کرنے کے بعد اس کے متعلق کہا اس نے صدق دل سے اسلام قبول کیا اور اپنی مرضی سے ہجرت کیا تھا اور پوری عمر جہاد کیا اور پھر اس کا جسم کمزور ہوگیا خداوند عالم اچھے لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا اور پھر وہاں پر دفن ہوئے تمام لوگوں کے بارے میں فرمایا:

'' اے خوفناک زمین اور بے آب وگیاہ محلہ میں رہنے والو! تم پر درود وسلام ہو اے مؤمن اور مومنات ، تم نے ہم پر سبقت حاصل کی ہم بھی تمہارے پیچھے آ رہے ہیں اور کچھ ہی دیر میں تم لوگوں سے ملحق ہوجائیں گے خدایا ہمیں اور ان لوگوں کو بخش دے اور ان کی اور ہماری غلطیوں کو معاف کردے۔ (پھرفرمایا)اس خدا کا شکر جس نے زمین کو مردوں اور زندوں کے جمع ہونے کی جگہ بنائی ، شکر اس خدا کا جس نے ہمیں پیدا کیا اور پھر ہم اسی کی طرف پلٹ کر جائیں گے اور اس کے سامنے حاضر ہوں گے کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو قیامت کو یاد کرتے ہیں اور حساب وکتاب کے دن کے لئے صحیح امور انجام دیتے ہیں

۶۶۵

اور اپنے امور میں قناعت کرتے ہیں۔(۱)

پھر امام علیہ السلام نے اپنے سفر کو جاری کیا اور قبیلہ ہمدان کے گھروں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ نے عورتوں کے رونے کی آواز سنی ، جو جنگ صفین میں قتل ہونے والے اپنے رشتہ داروں پر رورہی تھیں۔

امام علیہ السلام نے شرحبیل کو بلایا اور کہا: کہ اپنی عورتوں سے کہو کہ صبر کریں اور چیخ و فریاد نہ کریں اس نے امام علیہ السلام کے جواب میں کہا: اگر بات صرف چند گھروں کی ہوتی تو اس درخواست پر عمل کرنا ممکن تھا لیکن تنہا صرف اس علاقے سے ۱۸۰ آدمی قتل ہوئے ہیں اور کوئی بھی ایسا گھر نہیں ہے جہاں گریہ وزاری نہ ہو لیکن ہم سب مرد ہرگز نہیں روتے بلکہ ہم لوگ ان کی شہادت پر بہت خوش ہیں ، امام علیہ السلام نے ان کے مرنے والوں پر رحمت کی دعا دی، امام علیہ السلام چونکہ گھوڑے پر سوار تھے اور شرحبیل نے چاہا کہ آپ کو کچھ دور جا کر خداحافظ کرے لہذا اس سے فرمایا: ارجع فان مشی مثلک فتنة لِلوالی ومذ لة للمومنین(۲) یعنی واپس چلے جاؤ کہ اس طرح سے مشایعت کرنا( کسی کو رخصت کرنے کے لئے تھوڑی دور جانا) حاکم کے غرور ارو مومنین کی ذلت کا سبب ہے۔

جب آپ کوفہ پہونچے تو چار سو لوگوں کو حکمین کے کاموں پر بعنوان ناظر معین کیا اور شریح کو فوج کا سردار اور ابن عباس کو مذہبی پیشوا معین کیا اور پھر وہ وقت آیا کہ اپنے زبردستی منتخب ہونے والے نمائندے

______________________

(۱) تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۴ ۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۴۔وقعہ صفین ص ۵۳۰،۵۲۹

(۲)وقعہ صفین ص ۵۳۱۔ تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۵ ۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۴

۶۶۶

یعنی ابوموسیٰ اشعری کوبھیجیں(۱)

امام علیہ السلام اپنے دور خلافت کے آغا ز ہی سے اپنی خلافت ورہبری میں اس کی بے پرواہی سے باخبر تھے اور لوگ بھی اس کی سادگی اور بے وقوفی سے آگاہ تھے یہی وجہ ہے کہ اس کو بھیجنے کے وقت امام علیہ السلام اور لوگوں نے اس سے گفتگو کی اس میں سے بعض باتوں کو ہم یہاں نقل کررہے ہیں ۔

امام علیہ السلام اور ابو موسیٰ اشعری کے درمیان گفتگو

ابو موسیٰ اشعری کی بیوقوفی اور کم عقلی کودوست ودشمن سبھی جانتے تھے اور اسے (بغیر دھار اور قبضے کی چھری)اور کم ظرف کہتے تھے لیکن علی علیہ السلام کیا کرسکتے تھے؟ ان کے سادہ اور کم ظرف دوستوں نے جو ابوموسیٰ اشعری ہی کی صفت کے تھے امام کو دو چیزوں پر مجبور کردیا تھا۔کہ خود حکمیت کو قبول کریں اور حکم کے عنوان سے ابو موسی اشعری ہی ہو امام علیہ السلام نے ابو موسیٰ کو '' دومة الجندل'' بھیجتے وقت اس سے اور اپنے کاتب عبیداللہ بن ابی رافع سے اس طرح گفتگو کی:

امام علیہ السلام نے ابو موسیٰ سے کہا '' احکم بکتاب اللہ ولا تجاوزہ '' یعنی خدا کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرنا اور اس سے تجاوز نہ کرنا۔

جب ابو موسیٰ روانہ ہوا تو امام علیہ السلام نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس واقعہ میں ضرور دھوکہ کھائے گا۔

عبیداللہ : اگر واقعا ایسا ہے اور وہ دھوکہ کھائے گا تو پھر اسے کیوں بھیج رہے ہیں ؟

امام علیہ السلام :''لوعمِلَ اللّهُ فی خَلقِهِ بعلمه مااحتج علیهم بالرسل '' (۲) یعنی اگر خداوند عالم اپنے علم کے مطابق اپنے بندوں سے محاسبہ کرتاتو وہ پیغمبروں کو نہ بھیجتا اور ان کے ذریعے سے ان لوگوں پر اپنی دلیلیں قائم نہیں کرتا۔

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۵۳۳،۔تاریخ طبری ج، ۳ جزئ۶ ص ۳۷ ۔مروج الذھب ج۲، ص ۴۰۶

(۲) مناقب ابن شہر آشوب ج۲، ص ۲۶۱

۶۶۷

فوج کے سردار اور ابوموسیٰ اشعری کے درمیان گفتگو

سردار شریح بن ہانی جسے امام علیہ السلام نے چار سو آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ کے ساتھ دومة الجندل بھیجا تھا اس نے ابو موسیٰ کا ہاتھ پکڑ کر کہا ، تمہارے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے ایسا کام نہ کرنا کہ جس کی تعمیر ممکن نہ ہو، جان لو کہ اگر معاویہ نے عراق پر قبضہ کرلیا تو پھر عراق باقی نہ رہے گا لیکن اگر علی نے شا م پر قبضہ کرلیا تو شامیوں پر کوئی آفت ومشکل نہیں آئے گی تم نے امام علیہ السلام کی حکومت کے اوائل میں خاموشی اختیار کی ، اگرتم نے پھر ایسا کیا توجان لو کہ گمان یقین میں اور امید، نا امیدی میں بدل جائے گی۔

ابو موسیٰ اشعری نے اس کے جواب میں کہا : وہ گروہ جو ہم پر الزام لگارہا ہے اس کے لئے بہتر نہیں ہے کہ مجھے قاضی کے طور پر معین کریکہ باطل کو ان لوگوں سے دور اور حق کو ان لوگوں سے قریب کروں(۱) امام علیہ السلام کی فوج کے مشہور شاعر اور ابوموسیٰ کے دوست نجاشی نے اس کے لئے اشعار کہے جس میں اسے حق اور عدالت کی رعایت کرنے کی تاکید کی اور جب وہ اشعار ابوموسیٰ کو سنایا گیا تو اس نے کہا ، میری خدا سے دعا ہے کہ میرا نصیب چمک اٹھے اور خدا کی مرضی کے مطابق اپنے فریضہ کو انجام دوں ۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۵

(۲) وقعہ صفین ص۵۳۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۷

۶۶۸

ابو موسیٰ اشعری اور احنف کے درمیان گفتگو

سب سے آخر میں جس نے ابو موسیٰ اشعری کو خدا حافظ کیا وہ احنف تھا، اس نے ابو موسیٰ کا ہاتھ پکڑا اور اس سے یہ کہا اس کام کی عظمت کی قدر کرو اور جان لو کہ یہ کام جاری رہے گا اگر عراق کوبربادکیا تو پھر عراق ختم ہوجائے گا ، خدا کی مخالفت کرنے سے پرہیز کرو ، خدا دنیا وآخرت کو تمہارے لئے ذخیرہ کرے گا اگر آئندہ عمروعاص سے تمہاری ملاقات ہو تو تم پہلے سلام مت کرنا اگر چہ پہلے سلام کرنا مستحب ہے لیکن وہ سلام کے لائق نہیں ہے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں نہ دینا کیونکہ تیرا ہاتھ امت کی امانت ہے ممکن ہے کہ تجھے مجمع میں صدر جگہ پر بٹھائے تو جان لو کہ اس کام میں دھوکہ وفریب ہے اور اگر تم سے اکیلے میں بات کرنا چاہے تو اس سے پرہیز کرنا کیونکہ ممکن ہے وہاں کچھ لوگوں کو گواہ کے طور پر چھپائے رہے تاکہ بعد میں وہ لوگ تمہارے خلاف گواہی دیں۔

پھر احنف نے ابو موسیٰ کو آزمانے کے لئے کہ امام علیہ السلام سے اسے کتنا خلوص ہے اس سے یہ درخواست کی کہ ، اگر عمرو کے ساتھ امام علیہ السلام کے بارے میں توافق نہ ہوسکے تو اس سے درخواست کرنا کہ عراقی لوگ شام میں رہنے والے قرشیوں میں سے کسی کو بھی خلیفہ چن سکتے ہیں اور اگر اسے قبول نہ کیا تو دوسری درخواست کرنا اور وہ یہ کہ شامی لوگ عراقیوں میں سے کسی ایک کو بھی خلیفہ منتخب کرسکتے ہیں(۱)

ابو موسیٰ نے اس بات کو ، جس میں امام علیہ السلام کا خلافت سے معزول ہونا اور دوسرے خلیفہ کا انتخاب تھا، سنا لیکن اس نے کوئی عکس العمل نہ دکھایا۔

احنف فوراً امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور پورا واقعہ آپ سے بیان کیا اور کہا کہ ہم ایسے شخص کو اپنے حق کے ثابت کرنے کے لئے بھیج رہے ہیں جو آپ کے عزل اور دور ہونے کی پرواہ نہیں کرتا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: '' ان اللّٰہ غالب علیٰ امرہ''احنف نے کہا یہ کام ہم لوگوں کی ناراضگی کا سبب ہے۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۶۔وقعہ صفین ص۵۳۶۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۹

(۲) وقعہ صفین ص۵۳۷

۶۶۹

سعد وقاص اور اس کا بیٹا عمر

سعد وقاص ان لوگوں میں سے تھاجس نے امام علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کیا تھا لیکن خود کو قضیے میں داخل نہیں کیا تھا اور جنگ صفین کی آگ بھڑکنے کے بعد وہ سرزمین بنی سلیم چلا گیا اور مستقل دونوں فوجوں کی خبروںسے آگاہ ہورہاتھا ، اسی فکر میں غرق تھا کہ ایک دن دور سے اسے سواری نظر آئی جو اسی کی طرف آرہی تھی لیکن جب نزدیک پہونچی تو معلوم ہوا کہ وہ اس کا بیٹا عمر ہے ( یہ وہی شخص ہے جس نے کربلا میں امام حسین اور آپ کے باوفا ساتھیوں کو قتل کیا تھا) باپ نے اس سے حالات معلوم کئے اور عمر نے جبری حکمیت اور دومة الجندل میں حکمین کے اجتماع کی خبر دی اور اپنے باپ سے کہا کہ اسلام کی آپ نے بہت خدمتیں کی ہیں لہٰذا آپ اس علاقے میں ضرور جائیں ،شاید کہ خلافت اسلامی پر آپ کا قبضہ ہوجائے ، باپ نے کہا، بیٹا خاموش رہو میں نے پیغمبر سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا

۶۷۰

ہے کہ میرے بعد فتنہ برپا ہوگا اور بہترین شخص وہ ہے جو اس سے بچا رہے اور اس سے دور رہے ، خلافت کا مسئلہ ایک ایسا امر ہے کہ میں نے پہلے ہی دن سے اس میں دخالت نہیں کی اورآئندہ بھی داخل نہیں ہوؤں گا اور اگر بنا یہ ہو کہ میں اس میں دخالت کروں تو علی کا ساتھ دوں گا لوگوں نے تلوار سے مجھے ڈرایالیکن میں نے اسے آگ پر مقدم کیا۔(۱)

سعد وقاص نے دونوں طرف سے کسی ایک کی مدد کرنے کو فتنہ وفساد سمجھا اور اس کے نتیجہ واختتام کو آگ تصورکیا لیکن اس کے باوجود اس نے علی علیہ السلام کی شخصیت کو معاویہ پر ترجیح دیا اور اسی رات جو اس نے اشعار کہے تھے اس میں علی علیہ السلام کی تعریف اور معاویہ کی مذمت کی تھی اور کہا تھا:

ولو کنت یوماً لا محالة وافداً

تبعت علیاً والهویٰ حیث یُجعلُ

اگربنا ہو کہ کسی دن اس کام کے لئے اقدام کروں تو علی کی پیروی کروں گا یہاں تک کہ وہ راضی ہوں ، اس کے اندھے دل کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ امام علیہ السلام کی پیروی اور اطاعت جو غدیر خم میں سب پر واضح اور روشن ہوگئی اور عثمان کے قتل کے بعد تمام مہاجرین وانصار نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ، کو فتنہ میں داخل کرتاہے جب کہ ایسے امام سے منھ موڑنے والے کا انجام جہنم میں داخل ہونا ہے(۲)

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۹

(۲) وقعہ صفین ص۵۳۹

۶۷۱

معاویہ کا حالات سے پریشان ہونا

بعض صحابہ اور ان کے بیٹے ،جنہوں نے علی علیہ السلام سے دور رہنے کے بعد بھی معاویہ کا ساتھ نہیں دیا تھا اور جنگ تمام ہونے کے بعد معاویہ کے کہنے پر شام آگئے تھے مثلا ً عبداللہ بن زبیر ، عبداللہ بن عمر، مغیرہ بن شعبہ '' معاویہ نے مغیرہ سے التجا کی کہ وہ اس کام میں اس کی مدد کرے اور اسے حکمین کی فکروں سے آگاہ کرے مغیرہ نے یہ ذمہ داری قبول کرلی اور دومة الجندل کے لئے روانہ ہوگیا اور حکمین کے نظریات معلوم کرنے کے لئے ہر ایک سے الگ الگ ملاقات کی ، سب سے پہلے اس نے ابو موسیٰ سے ملاقات کی اور کہا اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے جس نے اس اضطرابی کیفیت سے پرہیز اور قتل وخوں ریزی سے دوری اختیار کی ہے ؟ ابو موسیٰ نے کہا ، وہ لوگ نیک اور اچھے افراد ہیں ! ان کی پیٹھ خون کے بوجھ سے ہلکی اور ان کے پیٹ حرام مال سے خالی ہیں ۔

پھر اس نے عمرو سے ملاقات کی اور یہی سوال اس سے بھی کیا اس نے جواب دیاکہ کنارہ کشی کرنے والے بدترین لوگ ہیں نہ ان لوگوں نے حق کو پہچانا ہے اور نہ باطل کا انکار کیاہے ۔ مغیرہ شام واپس آگیا اور معاویہ سے کہا میں نے دونوں حکم کا امتحان لیا ، ابو موسیٰ ،علی کو خلافت سے دور کردے گا اور عبداللہ بن عمر جو اس واقعہ میں شریک نہیں ہوا تھا اسے خلافت دیدے گا لیکن عمرو عاص تمہارا قدیمی ساتھی ہے لوگوں کا کہنا ہے وہ خلافت خود لینا چاہتا ہے اور تجھے اپنے سے بہتر نہیں جانتا۔(۱)

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۵۳۹۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۵۱۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۷۔

۶۷۲

فتنہ حکمیت کا خاتمہ

وہ مسائل جن کے لئے ضروری تھا کہ دونوں طرف کے نمائندے اس موضوع پر گفتگو کریں اور اس کے حکم کو کتاب وسنت سے نکالیں اور امام علیہ السلام اور معاویہ کے ساتھیوں کو اس کی خبر کردیں وہ موضوع یہ ہیں :

۱۔ عثمان کے قتل کی تحقیق ۔

۲۔ امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ہونا۔

۳۔ امام علیہ السلام کی قانونی حکومت سے معاویہ کی مخالفت اور اس کا صحیح ہونا۔

۴۔ وہ چیز جو ایسے حالات میں صلح کی ضامن بنے۔

لیکن افسوس کہ حکمین نے جس موضوع پر بحث وگفتگو نہیں کی وہ یہی چار موضوع تھے کیونکہ

ان میں سے ہر ایک خاص سابقہ ،تجربہ کے ساتھ حکمیت کے میدان میں وارد ہوا اور اپنی ہی خواہش کے مطابق حکم چلانا چاہا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان موضوعات کاحکمین سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

حکمین اور نظارت کرنے والوں کے بہت دنوں تک دومة الجندل میں رہنے کی وجہ سے اسلامی معاشرے کے اندر تشویش اور خوف کا سماں بن گیا اور ہر آدمی طرح طرح کی باتیں سوچ رہا تھا عجلت کرنے والے ، اسی طرح کم عقل لوگ کچھ اور فکر میں تھے تو دور اندیش اور دانشمند کچھ اور فکر کررہے تھے۔ سب سے پہلے جس موضوع پر بحث ہونی تھی وہ یہ تھی کہ خلیفہ سوم اور اس کے حاکم کے عمدہ امور جس پر اعتراضات ہوئے ہیں انہیں صحیح سندوں کے ساتھ پیش کیا جائے اور پھر جن لوگوں نے خلیفہ کو قتل کیا ہے چاہے عراقی ہوں یا مصری یا صحابی ، انہیں دعوت دی جائے اور ا س مسئلہ کی دقیق تحقیق و جستجو کی جائے اور قاتلوں کے اس دعوے کو کہ خلیفہ نے اسلامی اصولوں کو نظر انداز کردیا تھا اور رسول خدا (ص) کی سیرت حتیٰ شیخین سے بھی منحرف ہوگیاتھا ، منصفانہ تحقیق کی جائے لیکن اس سلسلے میں دقت سے کام نہیں لیا گیا

۶۷۳

اور صرف عمروعاص نے اپنے مقصد کے حصول( امام کو خلافت سے دور کرکے اس جگہ پر معاویہ یا اپنے بیٹے عبداللہ کو مسند خلافت پر بٹھائے )کے لئے ابو موسیٰ سے کہا: کیا تو اس بات کو قبول کرتاہے کہ عثمان مظلوم قتل ہواہے؟ اس نے بھی ایک طرح سے تصدیق کردی(۱) اور کہا، خلیفہ کے قاتلوں نے انہیں تو بہ کرایا پھر قتل کردیا جب کہ مجرم توبہ کرلے تو اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔

اور اسی طرح وہ موضوع جو اصلاً زیر بحث نہ رہا وہ امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ہونا تھا ، وہ حکومت جو مہاجرین وانصار کے اتحاد واتفاق سے علی علیہ السلام کو ملی اور خودآپ ابتداء میں اسے قبول نہیں کررہے تھے اور جب مہاجرین وانصار کے مجمع کو دیکھا کہ سب کے سب اصرار کررہے ہیں کہ ان کے علاوہ کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کریں گے اس وقت آپ نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا اور حکومت قبول کی ، اگر سقیفہ میں خلیفہ اول کی خلافت چند آدمیوں کی بیعت سے قانونی ہوگئی اور خلیفہ دوم کی خلافت ابوبکر کے نصب کرنے سے قانونی ہوگئی تو امام علیہ السلام کی خلافت تمام مہاجرین وانصار ( علاوہ پانچ لوگوں ) کی بیعت کی وجہ سے قطعاً حقیقی اور قانونی تھی اور اس کے بارے میں ہرگز شک وتردد نہیں کرنا چاہیے۔

اور تیسرے مرحلے میںبھی مثل دوسرے مرحلے کے اصلاً گفتگو نہ ہوئی کیونکہ دونوںحَکم جانتے تھے کہ معاویہ کے مخالفت کرنے کی صرف وجہ یہ تھی کہ امام علیہ السلام کو منصب خلافت سے ہٹا کر خلافت پر قبضہ کرلے ، معاویہ کی پوری زندگی ، اس کے رفتار وکردار چاہے عثمان کے قتل سے پہلے چاہے اس کے بعد سب پر واضح ہے کہ وہ بہت دنوں سے خلافت کو بنی امیہ میں لے جانا چاہتاہے تاکہ خلافت اسلامی کے نام پر قیصر وکسریٰ کی سلطنت کو زندہ کرے اور '' خلیفہ کے خون کا بدلہ اور قاتلوں کو سزا وقصاص دینا'' یہ سب قانون

______________________

(۱)الاخبار الطوال ص۱۹۹

۶۷۴

توڑنے اور مخالفت کی توجیہ کرنے کے لئے ایک بہانہ تھا اگر وہ حقیقت میں اپنے کوعثمان کے خون کا ولی سمجھتا تو ضروری تھا کہ تمام مسلمانوں کی طرح امام علیہ السلام کی قانونی حکومت کی پیروی کرتا اور ا س وقت خلیفہ وقت سے کہتا کہ عثمان کے قاتلوں کے قصاص کے بارے میں اقدام کریں ۔

امام علیہ السلام نے معاویہ کی مخالفت کے اوائل ہی میں کئی مرتبہ خلیفہ کے مخالفوں کی مخالفت میں دلیل وغیرہ قائم کر کے دکھایا اور کہا کہ میرا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ میں لوگوں کو متحد کروں اور مہاجرین وانصار کی شوریٰ (انجمن) کا احترام کروں اور پھر دعوے اور قصاص وغیرہ کے مسئلہ کو حل کروں اور جب تک وہ حکومت کو صحیح تصور نہیں کرتا تو وہ کسی بھی مسئلہ کو بیان کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

چوتھے مرحلے میں ، ابوموسیٰ نے بجائے اس کے کہ معاویہ کی سرکشی کی اس حکومت پر جو مہاجرین وانصار کے توسط سے بنی تھی مذمت کرتا ،یا خود اپنے کو امام علیہ السلام کی خلافت کے اوائل میں بیعت نہ کرنے کی وجہ سے مقصر سمجھتا ، اس نے دونوں طرف کے لوگوں کو قصور وار ٹھہرایا اور چاہا کہ ایسے شخص کوخلافت کے لئے منصوب کرے کہ جس کے افتخار کے لئے یہی کافی تھا کہ وہ خلیفہ دوم کا بیٹا ہے اور ان تمام چیزوں سے دورتھا جب کہ عبداللہ بن عمر کام وغیرہ کرنے میں اتنا ضعیف تھا کہ اس کے باپ نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ میرا بیٹا اس قدر سست ہے کہ اپنی عورت کو طلاق دینے سے بھی عاجزہے(۱)

جب کہ حکمین کا فریضہ یہ تھا کہ ان چاروں موضوع پر منصفانہ بحث وگفتگو کرتے اور شاید امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ہونا اور مرکزی حکومت معاویہ کی سرکشی پر توجہ دینا ہی کافی تھا کہ دوسرے مواردمیں صحیح رائے ومشورہ لیا جاتا ،لیکن افسوس امام علیہ السلام کے نادان دوستوں نے آپ پر ایسے نمائندہ کو تحمیل کردیا تھا کہ جو فیصلہ اور دلیل قائم کرنے میں ایسے ذرات کی طرح تھا جسے ہوا کے جھونکے ادھر سے ادھر کرتے ہیں ۔

عمروعاص نے دومة الجندل میں قدم رکھتے ہی ابوموسیٰ اشعری کا پیغمبر کا صحابی اور اپنے سے بزرگ ہونے کی حیثیت سے اس کا احترام کرنے لگا اور گفتگو کرتے وقت ہمیشہ اسے مقدم کرتاتھا اور جس وقت یہ طے پایا کہ دونوں حَکم علی اور معاویہ کو معزول کریں اس وقت بھی عمروعاص نے اپنا نظریہ ظاہر کرنے اور اپنے پیشوا کو

______________________

(۱) طبقات ابن سعد ج۳، ص ۳۴۳ مطبوعہ بیروت

۶۷۵

معزول کرنے میں بھی اسی کو مقدم رکھا ، کیونکہ دنوں کے دومة الجندل میں دونوں کی روش یہی تھی ، اسی وجہ سے پہلے ابو موسیٰ نے امام علیہ السلام کو خلافت سے دور کیا اور چلتے وقت تمام دوستوں نے جو سفارشیں کی تھیں اسے نظر اندازکردیالیکن عمرو عاص نے فوراً ہی معاویہ کو مسند خلافت پر بٹھا دیا ! یہاں بھی دونوں کے درمیان ہوئی باتوں کو نقل کررہے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ حکمیت کا کھیل کس طریقے سے ختم ہوا اور امام علیہ السلام کے سادہ لوح اور ضدی ساتھیوں نے اسلام کو کیا نقصان پہونچایا :

عمروعاص: کیا تم جانتے ہو کہ ، عثمان مظلوم قتل ہوئے ہیں ؟

ابوموسیٰ : ہاں ۔

عمروعاص: اے لوگو تم لوگ گواہ رہنا علی کے نمائندے نے عثمان کے مظلوم ہونے کا اعتراف کرلیا ہے، اس وقت ابو موسیٰ کی طرف متوجہ ہوکر کہا ،کیوں معاویہ سے کہ جو عثمان کا ولی ہے اپنا منھ پھیرے ہو جب کہ وہ بھی قرشی ہے؟ اور اگر لوگوں کے اعتراض کرنے کی وجہ سے ڈر رہے ہو کہ لوگ کہیں گے کہ ایسے شخص کو خلافت کے لئے چنا ہے جس کا اسلام میں کوئی سابقہ، خدمات نہیں ہے توتم یہ جواب دے سکتے ہو کہ معاویہ خلیفہ مظلوم کا ولی ہے اور خلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کی قدرت رکھتا ہے اور تدبیر وسیاست کے لحاظ سے ممتاز ہے اور پیغمبر سے نسبت کے اعتبار سے پیغمبر کی بیوی ( ام حبیبہ) کا بھائی ہے اس کے علاوہ اگر خلافت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہوگی تو سب سے زیادہ تمہارا احترام کرے گا۔

ابوموسیٰ : خدا سے ڈر ،خلافت ان لوگوں کے لئے ہے جو اہل دین وفضیلت ہیں اور اگر خلافت کے لئے خاندانی شرافت معیار ہے تو قریش میں سب سے شریف علی ہیں ، میں نے ہرگز پہلے مہاجرین کو نظر انداز نہیں کیا ، معاویہ کو خلافت کے لئے منتخب نہیں کروں گا، یہاں تک اگر معاویہ میرے لئے خلافت سے دور ہوجائے پھر بھی میں اس کی خلافت کے لئے رائے نہیں دوں گا اگر تو چاہے تو عمر بن خطاب کا نام زندہ کریں اور عبداللہ بن عمر کو خلافت کے لئے منتخب کریں۔

عمرو عاص : اگر تو عبداللہ بن عمر کی خلافت چاہتا ہے تو کیوں میرے بیٹے عبداللہ کی تائید نہیں کرتاکہ وہ ہرگز اس سے کم نہیں ہے اور اس کی سچائی اور فضیلت سب پر واضح ہے؟

ابوموسیٰ: وہ بھی اپنے باپ کی طرح اس فتنے میں شریک ہے اور خلافت کے لائق نہیں ہے ۔

۶۷۶

عمروعاص: خلافت اس کے لئے قطعی ہے جو خود بھی کھائے اور دوسرے کوبھی کھلائے اور عمر کے بیٹے میں یہ چیز موجود نہیں ہے۔

ابھی تک ہم لوگ کسی فرد پر متفق نہیں ہوئے کوئی دوسرا مشورہ دو شاید اس پر توافق ہو جائے اس کے بعد دونوں نے خفیہ طور پر جلسہ منعقد کیا جس چیز پر دونوں نے توافق کیا وہ حسب ذیل ہیں:

ابوموسیٰ : میرا نظریہ ہے کہ دونوں (علی اور معاویہ )کو خلافت سے معزول کر دیں اور خلافت کا فیصلہ مسلمانوں کی شوریٰ کے حوالے کردیں ، تاکہ وہ لوگ جس کو بھی چاہیں خلیفہ منتخب کریں۔

عمروعاص: میں اس نظریہ سے موافق ہوں اور ضروری ہے کہ اپنے نظریہ کو باقاعدہ طور پر اعلان کروں، ناظر اور دوسرے افراد جو حکمین کے فیصلے کے منتظر تھے سب کے سب جمع ہوگئے تاکہ ان دونوں کی گفتگو سنیں ، اس وقت عمرو نے ابوموسیٰ کی بیوقوفی اور کم عقلی سے فائدہ اٹھایا اور اسے مقدم کیا کہ گفتگو کا آغاز کرے اور اپنے نظریہ کو بیان کرے ، ابوموسیٰ ان تمام چیزوں سے غافل تھا کہ ممکن ہے کہ عمروعاص میری گفتگو کے بعد اس نظریہ کی جس پر دونوں نے موافقت کی تھی تائید نہ کرے لہٰذا اس نے اپنی گفتگو شروع کی اور کہا:

'' میں اور عمروعاص ایک نظریہ پر متحد ہیں اور امید ہے کہ اس میں مسلمانوں کی کامیابی اور مصلحت ہو گی ۔

عمروعاص: بالکل صحیح ہے اپنی گفتگو کو جاری رکھئے۔

اس موقع پر ابن عباس ابوموسیٰ کے پاس پہونچے اور اسے متنبہ کیا اور کہا کہ اگر تم لوگ ایک ہی نظریہ پر متحد ہوتو اجازت دو کہ پہلے عمروعاص گفتگو کرے اور پھرتم اپنے نظریہ کو بیان کرو، کیونکہ اس سے کوئی بعید نہیں ہے کہ وہ جس چیز پر متحد ہے اس کے برخلاف بیان کرے ، لیکن ابوموسیٰ نے ابن عباس کے منع کرنے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور کہا، چھوڑدو ، ہم دونوں نے ایک ہی نظریہ پر موافقت کی ہے اور پھر اٹھا اور کہا:

ہم لوگوں نے امت کے حالات کا جائزہ لیا اور اختلاف ختم کرنے اور پھر سے متحد ہونے کے لئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں دیکھا کہ علی اور معاویہ کو خلافت سے معزول کردیں اور خلافت کے مسئلے کو مسلمانوں کی شوریٰ کے حوالے کردیں تاکہ وہ لوگ جس کو چاہیں بہ عنوان خلیفہ منتخب کرلیں ، اس بنیاد پر ، میں نے علی اور معاویہ کو خلافت سے معزول کردیا۔

۶۷۷

یہ جملے کہنے کے بعد وہ بیٹھ گیا پھر عمروعاص ابوموسیٰ کی جگہ پر کھڑا ہوا اور خداکی حمد وثناء کے بعد کہا '' اے لوگو ، تم نے ابوموسیٰ کی گفتگو سنی اس نے اپنے امام کو معزول کردیا اور میں اس سلسلے میں اس کا موافق ہوں اور انہیں خلافت سے معزول کررہا ہوں لیکن اس کے برخلاف ،میں نے معاویہ کو خلافت پر باقی رکھا ہے وہ عثمان کا ولی اور اس کے خون کا بدلہ لینے والا ہے اورخلافت کے لئے بہترین شخص ہے''۔

ابوموسیٰ نے غصہ میں آکر عمروعاص سے کہا : تو کامیاب نہیں ہوگا جوتو نے مکروفریب اور گناہ کیا ہے تیری مثال اس کتے کی ہے کہ اگراس پر حملہ کیا جائے تو اپنا منھ کھولتا ہے اور اپنی زبان کو باہر نکالتاہے اور اگر اسے چھوڑدیا جب بھی وہ ویسا ہی ہے(۱)

عمروعاص: تیری بھی حالت گدھے کی طرح ہے اگرچہ اس کی پیٹھ پر بہت کتابیں ہوں(۲)

اس وقت عمرو کا مکروفریب سب پر ظاہر ہوگیا اور لوگ منتشر ہوگئے(۳)

شریح بن ہانی اپنی جگہ سے اٹھے اور زبردست تازیانہ عمرو کے سر پر مارا ، عمروعاص کا بیٹا اپنے باپ کی مدد کے لئے دوڑا اور شریح پر تازیانہ مارا اور لوگ دونوں کے درمیان میں آگئے ۔ شریح بن ہانی بعد میں یہی کہتے تھے کہ ، میں بہت پشیمان ہوں کہ کیوں تازیانہ کہ جگہ پر میں نے اس کے سر پر تلوار نہیں ماری ۔(۴)

ابن عباس : خدا ابوموسیٰ کے چہرے کو برباد کردے میں نے اسے عمروعاص کے دھوکہ وفریب سے آگاہ کیا تھا لیکن اس نے کوئی توجہ نہ دی۔

______________________

(۱) یہ اس آیت کریمہ کا مفہوم ہے کہ جو لوگ خد ا کی نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں انہیں کتے سے شباہت دی جاتی ہے خدا فرماتاہے'' فمثله کمثل الکلب ان تحمل علیه یلهث او تترکه یلهث ذالک مثل القوم الذین کذبوا بأیاتنا'' (سورہ اعراف ۱۷۶)

(۲) قرآن مجید کی اس آیت سے اقتباس ''کمثل الحمار یحمل اسفاراً ''سورہ جمعہ آیت ۵

(۳)الاخبارا لطوال ص۱۹۹ ۔ الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۸۔تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۳۸۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۷۔ تجارب السلف ص ۴۸۔ مروج الذھب ج۲، ص ۴۰۸

(۴) تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۴۰۔ کامل ابن اثیر ص۱۶۸، وقعہ صفین ص ۵۴۶

۶۷۸

ابوموسیٰ : یہ صحیح ہے کہ ابن عباس نے مجھے اس فاسق کے دھوکہ وفریب سے آگاہ کیا تھا لیکن میں نے اس پر یقین واطمینان کرلیا اور کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ میری خیر خواہی کے علاوہ میرے بارے میں کچھ کہے گا۔(۱)

سعیدبن قیس نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اگر تم لوگ سچائی پرمتفق ہوجاتے توبھی ہم لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہونچتا چہ جائیکہ تم لوگوں نے گمراہی اور ضلالت پر اتفاق واتحاد کیا ، اور تم لوگوں کا نظریہ ہم حجت نہیں ہے آج بھی اسی حالت میں ہیں جیسے پہلے تھے اور سرکشوں کے ساتھ جنگ جاری رہے گی(۲) ۔

اس واقعہ میں سب سے زیادہ ابوموسیٰ اشعری اور اشعث بن قیس ( مسئلہ حکمیت کا کھلاڑی )

لعنت وملامت کے مستحق قرار پائے ، ابوموسیٰ مسلسل عمروعاص کو برا بھلا کہتا رہا اور اشعث کی زبان بند ہوگئی تھی وہ بالکل خاموش تھا ،آخر کار عمروعاص اور معاویہ کے ساتھیوں نے اپنا بوریا بستر باندھا اور شام کی طرف روانہ ہوگئے اور پورا واقعہ معاویہ کو تفصیل سے سنایا اور اسے خلیفہ مسلمین کے عنوان سے سلام کیا ۔ ابن عباس اور شریح بن ہانی بھی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور پورا ماجرا بیان کیا ، لیکن ابوموسیٰ اپنی غلطیوں کی وجہ سے جو اس نے انجام دی تھیں مکہ کی طرف روانہ ہوگیا اور وہیں رہنے لگا۔(۳)

بالآخر جنگ صفین اور حاکمیت کا واقعہ ۴۵ ہزار لوگوں یا ایک قول کی بناء پر ۹۰ ہزار شامی اور ۲۰ یا ۲۵ ہزار عراقیوں کے قتل(۴) کے بعد شعبان ۳۷ ہجری کو ختم ہوگیا(۵) اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت اور اسلامی خلافت کے لئے مختلف مشکلیں پیدا ہوگئیں جس میں سے اکثر ختم نہ ہوسکیں ۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۴۰۔ کامل ابن اثیر ص۱۶۸، وقعہ صفین ص ۵۴۶

(۲)وقعہ صفین ص ۵۴۷

(۳)الاخبارا لطوال ص۲۰۰ ۔کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۸۔ تجارب السلف ص۴۹۔ الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۸

(۴)مروج الذھب ج۲، ص۴۰۴

(۵) تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۴۰۔ طبری نے اس قول کو واقدی سے نقل کیا ہے اور مسعودی نے مروج الذھب ( ج۲، ص ۴۰۲) اور التنبیہ الاشراف ( ص،۲۶۵) نے بھی اسی قول کو نقل کیا ہے لیکن سب سے صحیح قول ماہ صفر ۳۷ ہجری ۔ تجارب السلف ص ۵۰

۶۷۹

بائیسویں فصل

جنگ نہروان یا قرآن کو نیزہ پر بلند کرنے کا نتیجہ

ابوسفیان کے بیٹے کی غلط سیاست اور اس کی دوسری عقل عمروعاص کی وجہ سے بہت زیادہ تلخ اور غم انگیز واقعات رونماہوئے ، اس کی پلاننگ بنانے والا پہلے ہی دن سے اس کے برے آثار سے آگاہ تھااور اپنی کامیابی کے لئے حکمیت کے مسئلہ پر اسے مکمل اطمینان تھا اس سیاست کو سمجھنے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اس بدترین سیاست کی وجہ سے دشمن نے اپنی آرزو حاصل کی ، جو نتیجہ اس سلسلہ میں نکلا ہے اس میں سے درج ذیل چیزوں کا نام لے سکتے ہیں :

۱۔ شام پر معاویہ کا قبضہ ہوگیا اور اس کے تمام سردار اور اس علاقہ میں اس کے نمائندے صدق دل سے اس کے مطیع وفرماں بردار ہوگئے اور اگر کسی وجہ یا غرض کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام سے دل لگائے ہوئے تھے تو ان کو چھوڑ کر معاویہ سے ملحق ہوگئے۔

۲۔ امام علیہ السلام جو کامیابی کی آخری منزل پر تھے اس سے بہت دور ہوگئے اور پھر کامیابی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ، کیونکہ امام علیہ السلام کی فوج میں جہاد کرنے کا جذبہ ختم ہو گیا تھا اور اب لوگوں کے اندر شہادت کا جوش و جذبہ نہیں تھا۔

۶۸۰