فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341219
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341219 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام ـ نے کس طرح ہجرت کی

پیغمبر(ص) کی ہجرت کے بعد امام علیہ السلام پیغمبر کے خط کے منتظر تھے .کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابو واقد لیثی حضرت کا خط لیکر مکہ پہونچا اور حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کیا. پیغمبر نے جو کچھ بھی ہجرت کی تیسری شب غار ثور میں زبانی حضرت علی سے کہا تھا اس خط میں ان چیزوں کی تاکید کی اور حکم دیا کہ خاندان رسالت کی عورتوں کولے کر روانہ ہو جائیں اور غریب و ناتوان افراد جو ہجرت کی طرف مائل ہیں ان کی مدد کریں۔

امام علیہ السلام لوگوں کی امانت ادا کرنے کے سلسلے میں پیغمبر کے حکم پرپورے طور پر عمل کرچکے تھے اور اب صرف ایک کام باقی تھا اور وہ یہ کہ خود اور خاندان رسالت کی عورتوں کو مدینہ لے جانے کا اسباب فراہم کریں. لہٰذا مومنین کا وہ گروہ جو ہجرت کے لئے آمادہ تھا اسے حکم دیاکہ خاموشی سے مکہ سے باہر نکل جائیں اور چند کیلو میٹر دور ''ذو طویٰ'' مقام پر قیام کریں تاکہ امام کا قافلہ وہاں پہونچ جائے، حضرت علی ـ نے مومنین کو خاموشی سے جانے کا حکم دیا تھا مگر خود دن کے اجالے میں سفر کے لئے آمادہ ہوئے اورعورتوں کو ام ایمن کی بیٹی ایمن کے ذریعے عماریوں پر سوار کرایا اور ابوواقد سے کہا اونٹوں کو آہستہ آہستہ لے جاؤ کیونکہ عورتیں تیز تیز جانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

ابن شہر آشوب لکھتے ہیں :

جب عباس حضرت علی کے اس ارادے سے باخبر ہوئے کہ وہ دن کے اجالے میں دشمنوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کر رہے ہیں اور عورتوں کو بھی اپنے ساتھ لے جارہے ہیں تو فوراً حضرت علی کی خدمت میں آئے اور کہا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پوشیدہ طور سے مکہ سے گئے تو قریش ان کو تلاش کرنے کے لئے پورے مکہ اور اطراف مکہ میں ڈھونڈتے رہے تو تم کس طرح سے دشمنوں کے سامنے عورتوں کے ہمراہ مکہ سے باہر نکلو گے؟ کیاتم نہیں جانتے کہ دشمن تمھیں مکہ سے باہر نہیں جانے دیں گے؟

علی علیہ السلام نے اپنے چچا کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: کل رات جب میں نے غار ثور میں پیغمبر سے ملاقات کی اور پیغمبر نے حکم دیاکہ ہاشمی عورتوں کے ساتھ مکہ سے ہجرت کرنا تو اسی وقت مجھے خوشخبری بھی دی کہ اب مجھے کوئی بھی تکلیف نہیں پہونچے گی، میں اپنے پروردگار پر اعتماداور احمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول پر ایمان رکھتا ہوں اور ان کا اور میرا راستہ ایک ہی ہے اسی لئے میں دن کے اجالے اور دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کروں گا۔

۶۱

پھر، امام علیہ السلام نے کچھ اشعار پڑھے جن کا مفہوم وہی ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں۔(۱)

امام نے نہ صرف اپنے چچا کو ایسا جواب دیا، بلکہ جب لیثی نے اونٹوں کی ذمہ داری اپنے سر لی اورقافلے کو جلدی جلدی لے جانے لگا تاکہ دشمنوں کے سامنے سے جلدی سے دور ہو جائے تو امام نے اُسے اونٹوں کو تیز تیز لے جانے سے منع کیا اور فرمایا: پیغمبر نے مجھ سے فرمایا ہے کہ اس سفر میں تمھیں کوئی تکلیف واذیت نہیں پہونچے گی پھر اونٹوں کو لے جانے کی ذمہ داری خود لے لی اور یہ رجز پڑھا۔

تمام امور کی باگ ڈور خدا کے ہاتھ میں ہے لہٰذا ہر طرح کی بدگمانی کو اپنے سے دور کرو کیونکہ اس جہان کا پیداکرنے والا ہر اہم حاجت کے لئے کافی ہے۔(۲)

______________________

(۱) امام علیہ السلام کے اشعار یہ ہیں:

ان ابن آمنة النبی محمداً

رجل صدوق قال عن جبرئیل

ارخ الزمام و لاتخف عن عائق

فالله یردیهم عن التنکیل

انی بربی واثق و باحمد

و سبیله متلا حق بسبیلی

(۲) امالی شیخ طوسی ص۲۹۹، بحار الانوار ج۱۹ ص ۶۵ اور رجز کی عبارت یہ ہے:

لیس الا الله فارفع ظنکا یکفیک رب الناس ما اهمّکا

۶۲

قریش نے حضرت علی ـ کا تعاقب کیا

امام کا قافلہ سرزمین ''ضجنان'' پہونچنے والا تھا کہ سات نقاب پوش سوار سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو اپنے گھوڑوں کو بہت تیزی کے ساتھ قافلے کی طرف دوڑائے ہوئے تھے. امام نے عورتوںکو ہر طرح کی مشکلات سے بچانے اور ان کی حفاظت کے لئے واقد اور ایمن کوحکم دیا کہ فوراً اونٹوں کو بٹھادواوران کے پیروں کو باندھ دو. پھر عورتوں کواونٹوں سے اتارنے میں مدد فرمائی، جیسے ہی یہ کام ختم ہوا تمام نقاب پوش سوار برہنہ تلواریں لئے ہوئے قافلے کے قریب آگئے اور چونکہ وہ غصے سے بھرے ہوئے تھے اس لئے اس طرح برا و ناسزا کہنا شروع کردیا : کیاتم یہ سوچتے ہو کہ ان عورتوں کے ساتھ ہمارے سامنے فرار کرسکتے ہو؟ بس اس سفر سے باز آجاؤ!

حضرت علی علیہ السلام نے کہا: اگر واپس نہ گیاتو کیا کرو گے؟

انھوں نے کہا: زبردستی تم کو اس سفر سے روکیں گے یا تمہارے سر قلم کردیںگے۔

اتنا کہنے کے بعد وہ لوگ اونٹوں کی طرف بڑھے تاکہ ان کو واپس لے جائیں اس وقت حضرت علی نے اپنی تلوار نکال کر ان کو اس کام سے روکا. ان میں سے ایک شخص نے اپنی برہنہ تلوار حضرت علی کی طرف بڑھائی. ابوطالب کے لال نے اس کی تلوار کے وار کو روکا اور غصے کی حالت میں تھے ان پر حملہ کیا اور اپنی تلوار سے ''جناح'' نامی شخص پر وار کیا. قریب تھا کہ تلوار اس کے شانے کو کاٹتی کہ اچانک اس کا گھوڑا پیچھے کی طرف ہٹا اورامام کی تلوار گھوڑے کی پشت پر جالگی، اس وقت حضرت علی نے ان سب کو متوجہ کرتے ہوئے بآواز بلندکہا:

''میں عازم مدینہ ہوں اور رسول خدا کی ملاقات کے علاوہ میراکوئی اور مقصد نہیں ہے ،جو شخص بھی یہ ارادہ رکھتا ہے کہ انھیں ٹکڑے ٹکڑے کرے اور ان کا خون بہائے وہ میرے ساتھ یامیرے نزدیک آئے۔''

۶۳

اتنا کہنے کے بعد آپ نے ایمن او رابوواقد کو حکم دیاکہ فوراً اٹھ کر اونٹوں کے پیر کھول دیںاور چلنے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔

دشمنوں نے یہ احساس کرلیا کہ حضرت علی جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں او رانھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص عنقریب مرنے ہی والا تھا، لہٰذا اپنے ارادے سے باز آگئے او رمکہ کے راستے کی طرف چل پڑے. امام نے بھی اپنے سفر کو مدینے کی طرف جاری رکھا آپ نے کوہ ضجنان کے نزدیک ایک دن او رایک رات قیام کیا تاکہ وہ لوگ جوہجرت کے لئے آمادہ تھے وہ بھی آجائیں تمام افراد میں سے جو حضرت علی اور ان کے ہمراہیوں سے ملحق ہوئے ان میں ایک ام ایمن تھیں جوایک پاکدامن عورت تھیں جنھوں نے آخر عمر تک خاندان رسالت کو نہیں چھوڑا۔

تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت علی نے یہ پورا راستہ پیدل چل کر تمام کیا،اور ہر ہر منزل پر خدا کا ذکر کرتے رہے اور پورے سفر میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نماز پڑھی۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ درج ذیل آیت ان افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(۱)

( الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اﷲَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ً ) (۲)

جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے ، کروٹ لیتے (الغرض ہر حال میں) خدا کا ذکر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میںغور و فکر کرتے ہیں اور (بے ساختہ) کہہ اٹھتے ہیں کہ خداوندا تونے اس کو بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔

جب حضرت علی ، اور ان کے ہمراہی مدینہء منورہ پہونچے تو رسول اکرم(ص) ان کے دیدار کے لئے فوراً گئے جس وقت پیغمبر اسلام کی نگاہ حضرت علی پر پڑی تو آپ نے دیکھا کہ ان کے پیر ورم کر گئے ہیںاوران سے خون کے قطرے گر رہے ہیں.آپ نے فوراً حضرت علی کو گلے سے لگایا اورفرط محبت سے آپ کی چشم مبارک سے آنسووؤں کے قطرات جاری ہوگئے۔(۳)

______________________

(۱) امالی شیخ طوسی ص ۳۰۳۔ ۳۰۱

(۲) سورۂ آل عمران، آیت ۱۹۱

(۳) اعلام الوریٰ ص ۱۹۲، تاریخ کامل ج۲ ص ۷۵

۶۴

دوسری فصل

دو بڑی فضیلتیں

اگر اجتماعی مسئلوں کے ہر مسئلے پر شک کریں یا ان کو ثابت کرنے کے لئے تحقیق ،دلیل اور برہان کے محتاج رہیں توایسی صورت میں اجتماعی اتحاد و ہمبستگی اور منافع وغیرہ کے سلسلے میں شک و تردید میں نہیں الجھیں گے .اور کوئی شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جویہ کہے کہ نااتفاقی اوراختلاف مفید چیزہے اور اتحاد واتفاق برا اور نقصان دہ ہے. کیونکہ اتفاق کی وجہ سے سب سے کم فائدہ جومعاشرے کو پہونچے گا وہ یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی اور بکھری ہوئی فوجیں آپس میں مل جائیں گی ،اور عظیم فوج کے سائے میں معاشرے میں مختلف طریقوں سے بڑے بڑے تحولات پیدا ہوںگے۔

وہ پانی جو بڑی بڑی ندیوں کے کنارے چھوٹی چھوٹی نہروں کی طرح بہتا ہوا نظر آتا ہے وہ چھوٹے دریاؤں سے ملنے کی وجہ سے وجود میں آیا ہے جس کے اندر نہ اتنی صلاحیت ہے کہ بجلی پیدا کرسکے اور نہ اتنی مقدار ہی میں ہے کہ اس سے کھیتی کی جاسکے ،لیکن جب یہ چھوٹی چھوٹی نہریں ایک جگہ جاکر مل جاتی ہیں تو ایک دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور اب یہ دریاہزاروں کیلو واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے اور اس کے پانی سے ہزاروں ایکٹر زمین سیراب کر کے کھیتی کی جاتی ہے۔

غرض ز انجمن واجتماع وجمع قواست

چرا کہ قطرہ چوشدمتصل بہ ہم دریا است

اجتماع اور انجمن اور جمع ہونے کا مقصد طاقت ہے ،کیونکہ اگر پانی کا ایک قطرہ دریاسے مل جائے تو وہ بھی دریا بن جاتا ہے۔

ز قطرہ ہیچ نیایدولی چو دریا گشت

ہر آنچہ نفع تصور کنی در آن آنجا است

قطرہ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ،لیکن اگر یہی قطرہ دریابن گیا تو تم جتنا بھی فائدہ سوچ سکتے ہو تمہیں ملے گا۔

۶۵

ز قطرہ ماہی پیدا نمی شود ہرگز

محیط گشت ، از آن نہنگ خواہد خاست

قطرہ میں کبھی بھی مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی، مگر جب یہی قطرہ دریا بن گیا تواس میں نہنگ مچھلی زندہ رہ سکتی ہے ۔

ز گند می نتوان پخت نان وقوت نمود

چو گشت خرمن وخروار وقت برگ ونواست

ایک گیہوں سے روٹی نہیں پکائی جاسکتی اور زندگی بسر نہیں ہو سکتی جب وہ کھلیہان میں گیاتو ایک ذخیرہ بن گیا ہے

ز فرد فرد محال است کارہای بزرگ

ولی ز جمع توان خواستہ ہرچہ خواہی خواست

ایک بڑا کام الگ الگ مردوں سے انجام پانابہت محال ہے، لیکن اگر یہی تمام لوگ ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو جو بھی کرناچاہیں انجام دے سکتے ہیں۔

۶۶

بلی چو مورچگان را وفاق دست دہد

بہ قول شیخ، ہژ بر ژیان اسیر و فنا است

اگر چیونٹیوں کی طرح اتحاد و اتفاق کا دامن ہاتھ میں رہے تو شیخ کے بقول زندگی فنا و برباد ہے ۔

اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے نہ صرف مادی چیزوں کو طلب کرے بلکہ ضروری ہے کہ لوگوں کی فکری اور معنوی قدرت وطاقت سے اجتماعی مشکلوں کا حل تلاش کرے ،اور صحیح لائحہ عمل بنانے میں مددطلب کرے، اور ایک دوسرے سے مشورہ اور تبادلۂ نظر کے نئے نئے راستے ہموار کرے اور بزرگ و سنگین پہاڑ جیسی مشکلوں سے ہوشیار رہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئین اسلام کے اصلی اور بیش قیمتی برناموںمیں تبادلہ خیالات اور مشورے کی اجتماعی امور میں بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے، اور قرآن مجید نے جن لوگوں کوحق پسند اور حق شناس جیسے ناموں سے تعبیر کیا ہے ان کے تمام کام مشورے اور تبادلہ خیالات سے انجام پاتے ہیں۔

( وَالَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَاقَامُوا الصَّلاَةَ وََمْرُهُمْ شُورَی بَیْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنْفِقُونَ ) (۱)

اور جو اپنے پروردگار کا حکم مانتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیںاور ان کے کل کام آپس کے مشورے سے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں عطا کیاہے اس میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔

______________________

(۱) سورۂ شوریٰ آیت ۳۸

۶۷

اتحاد اور اخوت

آئین اسلام کاایک اہم اور اجتماعی اصول ''اخوت و برادری'' ہے .پیغمبر اسلام(ص) مختلف صورتوں سے اخوت و برادری کو عام کرنے میں بہت زیادہ کوشاں رہے ہیں۔مہاجرین کے مدینہ پہونچنے کے بعد پہلی مرتبہ اخوت وبرادری کا رشتہ انصار کے دو گروہ یعنی اوس و خزرج کے درمیان پیغمبر اسلام کے ذریعے قائم ہوا۔

یہ دو قبیلے جومدینہ ہی کے رہنے والے تھے اور عرصۂ دراز سے آپس میں جنگ وجدال کرتیتھے ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کوششوں کے نتیجے میں ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اورارادہ کرلیاکہ ہم لوگ پرانی باتوں کو کبھی نہیں دہرائیں گے.اس اخوت و برادری کاہدف و مقصد یہ تھاکہ اوس و خزرج جو اسلام کے دواہم گروہ مشرکوںکے مقابلے میںتھے وہ آپس میں ظلم و بربریت، لڑائی جھگڑا او رایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے باز آجائیں اور پرانی دشمنی کی جگہ صلح و صفا کویاد رکھیں۔

دوسری مرتبہ پیغمبر نے اپنے صحابیوں اوردوستوں کوچاہے مہاجرین سے ہوںیاانصار میں سے ، حکم دیا کہ آپس میں ایک دوسرے کواپنا بھائی بنالیں اوردوسرے کے بھائی بن جائیں ،کتنی عمدہ بات ہے کہ دومہاجر ایک دوسرے کے بھائی یا ایک مہاجر میں سے اور ایک انصار میں سے ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اور بھائی چارگی کے عنوان سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں اپناہاتھ دیااوراس طرح سے ایک سیاسی اور معنوی قدرت و طاقت ابھر کر ان کے سامنے آگئی۔

اسلامی مؤرخین ومحدثین لکھتے ہیں:

ایک دن پیغمبر اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوستوں سے فرمایا: ''تآٔخوا فی الله اخوین اخوین''

یعنی خدا کی راہ میں آپس میں دودوآدمی بھائی بن جاؤ۔

تاریخ نے اس موقع پر ان افراد کا نام ذکر کیا ہے جن لوگوں نے اس دن پیغمبر کے حکم سے ایک دوسرے کے ساتھ رشتۂ اخوت کو قائم کیا مثلاً ابوبکر اور عمر ،عثمان اور عبدالرحمن بن عوف، طلحہ او ر زبیر، ابی ابن کعب اور ابن مسعود، عمار اور ابو حذیفہ، سلمان اور ابو الدرداء وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بنے اور ان افراد کی بھائی چارگی کو پیغمبر نے تائید کیا .یہ برادری اوربھائی چارگی جو چند افراد کے درمیان قائم ہوئی اس برادری اور اسلامی برادری کے علاوہ ہے جسے قرآن کریم نے اسلامی معاشرے میں معیار ومیزان قرار دیا ہے اور تمام مومنین کوایک دوسرے کا بھائی کہا ہے۔

۶۸

حضرت علی ـ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی تھے :

رسول اسلام(ص) نے جتنے افراد بھی مسجد نبوی میں حاضر تھے انھیںایک دوسرے کا بھائی بنایا، صرف علی ـان کے درمیان تنہا بچے جن کے لئے بھائی کانتخاب نہیں کیا، اس وقت حضرت علی آنکھوں میں آنسوؤوں کا سوغات لئے ہوئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہونچے اور کہا آپ نے اپنے تمام دوستوں کے لئے ایک ایک بھائی کا انتخاب کردیا لیکن میرے لئے کسی کو بھائی نہیں بنایا۔

اس وقت پیغمبر اکرم نے اپنا تاریخی کلام جوحضرت علی کی پیغمبر سے قربت و منزلت اور نسبت اور آپ کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

''اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَةِ وَالَّذِیْ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ مٰا اَخَّرتُکَ الاّٰ لِنَفْسِیْ اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰاوَ الْآخِرَةِ'' (۱)

تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو .وہ خدا جس نے ہمیںحق پر مبعوث کیا ہے میں نے تمہاری برادری کے سلسلے میں خود تاخیر سے کام لیا ہے تاکہ تمہیںاپنابھائی قرار دوں، ایسی بھائی چارگی جو دونوں جہان (دنیا و آخرت) میں باقی رہے۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کلام حضرت علی ـ کی عظمت اور پیغمبر اسلام سے نسبت کو معنوی و پاکیزگی اور دین کے اہداف میں خلوص کو بخوبی واضح ورو شن کرتا ہے. خود اہلسنت کے دانشمندوں میں سے

______________________

(۱) مستدرک حاکم، ج۳، ص ۱۴، استیعاب ، ج۳، ص ۳۵

۶۹

الریاض النضرة کے مؤلف نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔(۱)

یہاں پر آیت مباہلہ(۲) کی تفسیر کا مبنٰی سمجھ میں اتا ہے تمام علمائے تفسیر کا اتفاق ہے کہ( اَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ) سے مراد علی بن ابی طالب ہیںجسے قرآن نے ''نفس پیامبر'' کے خطاب سے یاد کیا ہے. اس لئے کہ فکری اور روحی جاذبیت نہ یہ کہ صرف دو فکروں کواپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ کبھی کبھی دو انسان کو ایک ہی شخص بتاتی ہے۔

اس لئے کہ ہر موجود اپنے ہم جنس کو جذب اور اپنے مخالف کو دفع کرتی ہے، اور یہ عالم اجسام اور اجرام زمین و آسمان سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ عظیم وبزرگ شخصیتیں جذب اوردفع کا مظہر ہیں.ایک گروہ کو جذب اور دوسرے گروہ کو دفع کرتی ہیں. اس طریقے کی کشش اور گریز سنخیت یا روح کے متضاد ہونے کی وجہ سے ہے اور یہی سنخیت اور تضاد ہے جوایک گروہ کواپنے قریب کرتی ہے اور دوسرے گروہ کواپنے سے دور کردیتی ہے۔ اس مسئلہ کو اسلامی فلسفۂ نے اس طرح تعبیر کیا ہے''السنخیة علة الانضمام'' یعنی سنخیت اور مشابہت اجتماع اورانضمام کا سرچشمہ ہے۔

امام ـ کی ایک اور فضیلت

جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوچکی تو پیغمبر کے صحابیوں نے مسجد کے اطراف میں اپنے اپنے لئے گھر بنائے اور ہر گھر کا ایک دروازہ مسجد کی طرف کھلا رکھا پیغمبر اسلام نے بحکم خدا فرمایا: تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیں اسے بند کردیا جائے سوائے علی بن ابی طالب کے دروازے کے ، یہ بات رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے صحابیوں پر ناگوار گذری لہٰذا پیغمبر اسلام منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : خداوند عالم نے مجھے حکم دیاہے کہ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیںانھیں بند کردوں سوائے حضرت علی کے دروازے کے، اور خودمیں نے اپنی طرف سے دروازہ بند کرنے یا کھولنے کا حکم نہیں دیاہے بلکہ میں اس مسئلے میں خدا کے حکم کا پابند ہوں۔(۳)

______________________

(۱)الریاض النضرة ج۲ ص ۱۶ مؤلف محب الدین طبری

(۲)سورہ آل عمران ۶۱

(۳) مسند احمد ج۳ ص ۳۴۹، مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۲۵ ،الریاض النضرة ج۳ ص ۱۹۲

۷۰

اس دن رسول خدا کے تمام صحابیوں نے اس واقعہ کو حضرت علی ـ کی ایک بہت بڑی فضیلت سمجھا یہاں تک کہ بہت زمانے کے بعد خلیفۂ دوم نے کہا کہ ، کاش وہ تین فضیلتیں جو علی کونصیب ہوئیں وہ مجھے بھی نصیب ہوتیں، اور وہ تین فضیلتیں یہ ہیں:

۱۔ پیغمبر نے اپنی بیٹی کا عقد علی ـ سے کیا۔

۲۔ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے تھے وہ بند ہوگئے صرف علی ـکے گھر کا دروازہ کھلا رہا۔

۳۔ جنگ خیبر میں پیغمبر نے علم کوعلی ـ کے ہاتھوں میں دیا۔(۱)

حضرت علی ـاور لوگوں کے درمیان جو فرق ہے وہ اسی لئے کہ آپ کا مسجد سے کسی وقت بھی رابطہ منقطع نہیں ہوا ،وہ خدا کے گھر میں پیدا ہوئے اورکعبہ میں آنکھ کھولی اس بنا پر پہلے ہی دن سے مسجد آپ کا گھر تھا اور یہ تمام فضیلتیں کسی دوسرے کے لئے نہ تھیں اس کے علاوہ حضرت علی ہمیشہ اور ہر حالت میں مسجد کے احکام کی رعایت کرتے تھے لیکن دوسرے افرادبہت کم مسجدکے آداب و احکام کی رعایت کرتے تھے۔

______________________

(۱) مسند احمد، ج۲، ص ۲۶

۷۱

تیسری فصل

جنگ بدر کا بے نظیر بہادر

ضمضم نامی شخص کی دلسوز آواز، جس نے اپنے اونٹ کا کان کاٹ ڈالا ،اس کی ناک کو شگافتہ کر ڈالا،کوہان کو موڑے ، اونٹ کو الٹا کئے ہوئے تھا، نے قریش کو اپنی طرف متوجہ کیا .اس نے اپنے پیراہن کو آگے سے پیچھے تک پھاڑ دیا اور اونٹ کی پیٹھ پر سوار جس کے کان اور دماغ سے خون ٹپک رہا تھا ،کھڑا ہوا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اے لوگو جس اونٹ کے ناف میں مشک ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے .وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان تمام اونٹوں کو سر زمین بدر کا تاوان قرار دیں، میری مدد کو پہونچو میری مدد کرو۔اس کے مسلسل چیخنے اوراستغاثہ کرنے کی وجہ سے قریش کے تمام بہادر اور نوجوان گھر، کارخانہ اور دوکانوں سے نکل کر اس کے پاس جمع ہوگئے .زخمی اونٹ کی حالت اور ضمضم کی آہ و بکا نے ان لوگوں کی عقلوں کو حیرت میں ڈال دیا اور لوگوں کواحساسکے حوالے کر دیا، اکثر لوگوں نے یہ ارادہ کرلیا کہ شہر مکہ کو کاروان قریش سے نجات دینے کے لئے ''بدر'' کی طرف چلے جائیں۔پیغمبر اسلام(ص) اس سے بلند و بالا تھے کہ کسی کے مال و دولت پر نگاہ کرتے اور کسی گروہ کے مال و متاع کو بغیر کسی سبب کے تاوان قرار دیتے، تو پھر کیاہوا کہ آپ نے اس طرح کا ارادہ بنالیا تھا؟

رسول اسلام (ص) کا مقصداس کام سے فقط دو چیز تھا۔

۱۔ قریش کواس بات کا علم ہو جائے کہ ان کے تجارت کرنے کا طریقہ ،اسلام کے ہاتھوں میں قرار دیا گیاہے اور اگر وہ لوگ اسلام کی نشر واشاعت اور تبلیغ کے لئے مانع ہوں اور بیان آزادی کو مسلمانوں سے چھین لیںتو ان کے حیات کی رگوں کواسلامی طاقتوں کے ذریعہ کاٹ دیا جائے گا. کیونکہ بولنے والا جتنا بھی قوی ہواور چاہے جتنا بھی خلوص واستقامت دکھائے لیکن اگر آزادیٔ بیان و تبلیغ سے استوار نہ ہو تو شائستہ طور پر اپنے وظیفے کو انجام نہیں دے سکتا۔

مکہ میں قریش، اسلام کی تبلیغ واشاعت اورآئین الہی کی طرف لوگوں کے متوجہ ہونے میں سب سے زیادہ مانع تھے. ان لوگوںنے تمام قبیلے والوں کواجازت دیدیا کہ حج کے زمانے میں مکہ آئیںلیکن اسلام اور مسلمانوں کے عظیم المرتبت رہبر کو مکہ اور اطراف مکہ میںداخلے پر پابندی عائد کردی ، یہاں تک کہ اگر ان کو پکڑ لیتے تو قتل کردیتے .اس وقت جب لوگ حج کے زمانے میں حجاز کے تمام شہروںسے خانہ کعبہ کے اطراف جمع ہو رہے تھے ، قوانین اسلام وتوحید کے پیغام کو پہونچا نے کا بہترین وقت تھا۔

۷۲

۲۔ مسلمانوں کے بعض گروہ جو کسی بھی وجہ سے مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت نہیں کرسکے تھے وہ ہمیشہ قریش کے عذاب میں مبتلا تھے. وہ اپنا مال و متاع اور جولوگ ہجرت کر گئے تھے ان کے مال و متاع کوآج تک حاصل نہ کرسکے تھے اور قریش کی طرف سے ہمیشہ ڈرائے اور دھمکائے جاتے تھے۔

پیغمبر اسلام نے کاروان قریش سے تجارت کے سامانوں کا تاوان لینے کے لئے قدم اٹھایااور ارادہ کیا کہ سختی سے ان کی تنبیہ کی جائے جنھوں نے مسلمانوں سے ہر طرح کی آزادی کو چھین لیا تھا اور مسلسل انھیں اذیت وتکلیف دیتے رہتے تھے اور ان کے اسباب کی پرواہ تک نہ کرتے تھے۔

اسی وجہ سے پیغمبر ماہ رمضان ۲ھ میں۳۱۳/ آدمیوںکے ہمراہ کاروان قریش کے مال و سامان سے تاوان لینے کے لئے مدینہ سے باہر آئے اور بدر کے کنویں کے پاس ٹھہر گئے، قریش کا تجارتی لشکر شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا تھا اور راستے میں اسے ''بدر'' نامی دیہات سے ہوکر گذرنا تھا۔

ابو سفیان جواس قافلے کا سرپرست تھا، پیغمبر کے ارادے سے باخبر ہوگیا اوراس خبر کو قریش کے سرداروں کے پاس ضمضم کے ذریعے بھیج دیا اور اسے قریش کے سرداروں کے پاس اپنا پیغام بھیجوانے کے لئے اجیر کرلیا تاکہ لوگ قافلے کی مدد کرنے جلد سے جلد آجائیں. ضمضم نے جوماحول بنایا وہ باعث ہوا کہ قریش کے تمام بہادر نوجوان اور جنگجو،قافلے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور جنگ کے ذریعے اس کام کا خاتمہ کردیں۔

قریش نے ایسے نو سو سپاہیوں کا لشکر تیار کیا جوجنگ کے امور میں پختہ دلیری سے لڑنے والے بہترین اسلحوںکے ساتھ ''بدر'' کی طرف روانہ ہوئے لیکن مقصد پر پہونچنے سے پہلے ہی راستے میں ابوسفیان کے دوسرے ایلچی نے اس خبر سے آگاہ کیا کہ قافلے نے اپنا راستہ بدل دیا ہے اور ایک دوسرے راستے سے مسلمانوں سے بچ کر نکل گیا اوراپنے کو محفوظ کرلیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اسلام کو، جوابھی شباب کی منزل پر پہونچا تھا سرکوبی کے لئے اپنے ہدف کی طرف سفر جاری رکھااور ۱۷ رمضان ۲ ھ کی صبح کوایک پہاڑ کے پیچھے سے بدر کے میدان میں وارد ہوئے۔

۷۳

مسلمان بدر کے شمالی طرف سے گذرنے والے درہ کی ڈھلان''العدوة الدنیا'' (۱) کوپناہ گاہ بنائے ہوئے قافلہ کے گذر نے کا انتظار کر رہے تھے. کہ اچانک یہ خبر پہونچی کہ قریش کا لشکر اپنے تجارتی سامان کی حفاظت کے لئے مکہ سے روانہ ہوچکا ہے اورالعدوة القصویٰ(۲) درہ کی بلندی سے نیچے اتر رہا ہے ۔

پیغمبر اسلام کا انصار سے عہد و پیمان، دفاعی تھانہ کہ جنگی، انھوں نے عقبہ میں پیغمبر کے ساتھ عہد کیا تھا کہ اگر دشمن نے مدینہ پر حملہ کیا تووہ پیغمبر اکرم (ص)کا دفاع کریں گے نہ یہ کہ ان کے ساتھ مدینہ کے باہر دشمنوں سے لڑیںگے لہٰذا پیغمبر اسلام نے سپاہیوںکی ایک میٹنگ جوکچھ جوانان انصار اور کچھ مہاجرین کے نوجوانوں پر مشتمل تھی بلائی اور اس میں لوگوں کا نظریہ جاننا چاہا. اس میٹنگ میں جونظریات وجود میں آئے وہ یہ تھے کہ کچھ لوگوںنے شجاعت و بہادری کی بات کی اور کچھ لوگوںنے بزدلی اور عاجزی وبے چارگی کی باتیں کیں۔

سب سے پہلے ابوبکر اٹھے اور کہا:

قریش کے بزرگان اورنوجوان نے اس قافلے سے مقابلے کے لئے شرکت کی ہے، اور قریش آج تک کسی بھی قانون پر ایمان نہیں لائے اورایک لمحہ کے لئے بھی ذلیل ور سوا نہیں ہوئے ہیں اور ہم لوگ مکمل تیاری کے ساتھ یہاں نہیں آئے ہیں(۳) یعنی مصلحت یہ ہے کہ یہاں سے مدینہ واپس چلے جائیں۔

عمربھی اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوست کی بات کی مزید وضاحت کی ۔

اسی وقت مقداد اٹھے اور انھوں نے کہا :

خدا کی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ہیں جو موسیٰ سے کہیں : ''اے موسیٰ تم اپنے خدا کے ساتھ جاؤ جہاد کرواورہم لوگ یہاںبیٹھے ہیں'' بلکہ ہم اس کے برعکس کہتے ہیں کہ آپ پروردگار کے زیر سایہ جہاد کیجئے ہم بھی آپ کے ہمراہ جہاد کریںگے۔

______________________

(۱)،(۲) سورۂ انفال، آیت ۴۲

(۳)مغازی واقدی ج۱ ص ۴۸

۷۴

طبری لکھتا ہے کہ جس وقت مقداداٹھے اور چاہا کہ گفتگو کریں توپیغمبر اکرم کے چہرے سے غیض و غضب (جو عمر وابوبکر کی باتیں سن کر ہوا تھا) کے آثار نمودار تھے. لیکن جب مقداد کی گفتگواور مدد کرنے کی خوشخبری سنا تو آپ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔(۱)

سعد معاذ بھی اٹھے اور کہا کہ جب بھی تم اس دریا (بحر احمر کی طرف اشارہ) کی طرف قدم بڑھاؤ گے ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے اپنے قدم بڑھائیں گے، اور جہاں پر بھی تم مصلحت سمجھناہمیں راستہ دیدینا، اس موقع پر خوشی اور مسرت کے آثار پیغمبر کے چہرۂ اقدس پر آشکار ہوئے اور خوشخبری کے طور پر ان سے کہا: میں قریش کے قتل عام کی وجہ سے مضطرب ہوں. پھر اسلام کی فوج پیغمبر کی سپہ سالاری میں وہاں سے روانہ ہوگئی اور دریائے بدر کے کنارے مستقر ہوئی۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۲ ص ۱۴۰، عبداللہ بن مسعود سے نقل ہوا ہے۔

۷۵

حقیقت کوچھپانا :

طبری اور مقریزی جیسے مؤرخین نے کوشش کی ہے کہ حقیقت کے چہرے کوتعصب کے پردے سے چھپادیں اور شیخین کی پیغمبر کے ساتھ ہوئی گفتگو کو جس طرح سے کہ واقدی نے مغازی میں نقل کیا ہے اس طرح نقل نہ کریں ،لہذاکہتے ہیں کہ ابوبکر نے اٹھ کر بہترین گفتگو کی اور اسی طرح سے عمر نے بھی اٹھ کر اچھی باتیں کیں۔

لیکن ضروری ہے کہ یہاں پران دو تاریخ لکھنے والوں سے سوال کیا جائے کہ جب ان دونوںنے اس میٹنگ میں اچھی اچھی باتیں کہی تھیں تو پھر تم لوگوںنے ان کی اصل گفتگوکو نقل کرنے سے کیوںگریز کیا؟ جب کہ تم لوگوں نے مقداد اور سعد کی گفتگو کو تمام جزئیات کے ساتھ نقل کیا ہے؟ تواگر ان لوگوںنے بھی اچھی گفتگواور عمدہ بات کہی تھی تو کیوں پیغمبر کا چہرہ ان کی باتیں سن کر رنجیدہ ہوگیا جیسا کہ خود طبری نے اس چیز کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے؟

لہذا ضروری ہے کہ حضرت علی ـ کی شخصیت و عظمت کے بارے میں اس جنگ کے حوالے سے تحقیق و جستجو کیا جائے۔

حق و باطل کا مقابلہ

مسلمان اور قریش دونوںگروہوں نے جنگ کے لئے صف بندی شروع کردی، اور چند چھوٹے چھوٹے حادثوں نے آتش جنگ کو شعلہ ور کردیا، ابتدا میں ایک ایک شخص لڑنے کوآمادہ ہوا تین افراد بنام عتبہ پدرہندہ (ابوسفیان کی بیوی کا باپ) اوراس کا بڑا بھائی شیبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید میدان جنگ میں آکر کھڑے ہوگئے اور اپنا مقابل طلب کیا .سب سے پہلے انصار میں سے تین آدمی ان سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں آئے اور اپنا تعارف کرایا،لیکن مکہ کے بہادروں نے ان سے جنگ کرنے سے پرہیز کیا اور آواز دی''یٰا مُحَمَّدُ اُخْرُجْ اِلَیْنَا اِکْفَائَنٰا مِنْ قَوْمِنٰا'' یعنی اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! جو لوگ ہماری قوم اور ہمارے شایان شان ہیں انھیں ہمارے ساتھ جنگ کے لئے بھیجو۔

۷۶

رسول خدا نے عبیدہ بن حارث بن عبد المطلب اور حمزہ اور علی کوحکم دیا کہ اٹھ کر دشمن کا جواب دیں، اسلام کے تین عظیم سپہ سالار چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے. ہر ایک نے اپنا اپنا تعارف کرایااو رعتبہ تینوں افراد سے لڑنے کے لئے تیار ہوگیااورکہاکہ یہ سب کے سب ہمارے شایان شان ہیں۔

یہاں پر بعض مؤرخین مثلاً واقدی لکھتاہے :

جس وقت انصار کے تین بہادر میدان جنگ میںجانے کے لئے تیار ہوئے تو خود پیغمبر نے انھیں جنگ کرنے سے روکا، کیونکہ پیغمبر نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کی سب سے پہلی جنگ میں انصار شرکت کریںاور اسی کے ساتھ ساتھ تمام افراد کواس بات سے بھی باخبر کردیاکہ آئین توحید میری نگاہ میں اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ آپ نے اپنے عزیز ترین اور نزدیک ترین افرادکو بھی اس جنگ میں شریک کیا اسی وجہ سے بنی ہاشم کی طرف رخ کر کے کہا کہ اٹھو اور باطل کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ نور خدا کوخاموش کردیں۔(۱)

بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ اس جنگ میں ہر سپاہی اپنے ہم سن و سال اوراپنے مقابل سے لڑنے گیااوراس میں سب سے جوان فرد حضرت علی ، ولید (جو معاویہ کا ماموں تھا) سے لڑے اور ان سے کچھ

______________________

(۱) مغازی واقدی ج۱ ص ۶۲

۷۷

بڑے حمزہ جنہوں نے عتبہ (معاویہ کا نانا) سے اور عبیدہ جو ان دونوں سے بوڑھے تھے شیبہ سے جنگ کرنا شروع کردی۔

ابن ہشام کہتے ہیں کہ شیبہ ، حمزہ کا مقابل اورعتبہ ، عبیدہ کا مقابل تھا.(۱) اب دیکھتے ہیں کہ ان دونوں نظریوں میں کونسا نظریہ صحیح ہے ان دونوں کی تحقیق و جستجوکے بعد حقیقت واضح ہوجائے گی۔

۱۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ علی ـ اور حمزہ نے اپنے حریف ومقابل کو فوراً ہی زمین پر گرادیا. لیکن عبیدہ اور ان کے مقابل کے درمیان بہت دیرتک زور آزمائی ہوتی رہی اور ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کومجروح کردیااور کسی نے بھی ایک دوسرے پرغلبہ حاصل نہیں کیا .علی ـاور حمزہ اپنے رقیبوں کو قتل کرنے کے بعد عبیدہ کی مدد کی لئے دوڑے اور ان کے مقابل کو قتل کردیا۔

۲۔ امیر المومنین علیہ السلام معاویہ کو خط لکھتے ہوئے اسے یاد دلاتے ہیںکه'' وَ عِنْدِیْ اَلْسَّیْفُ الَّذِیْ اَعْضَضْتُه بِجَدِّکَ وَ خَالِکَ وَاَخِیْکَ فِیْ مَقَامٍ وَاحِدٍ'' (۲) یعنی وہ تلوار جسے میں نے ایک دن تیرے نانا (عتبہ ، ہندہ کا باپ ہند معاویہ کی ماں) او رتیرے ماموں (ولید بن عتبہ) اور تیرے بھائی (حنظلہ) کے سر پر چلائی تھی اب بھی میرے پاس موجود ہے یعنی ابھی اسی قدرت پر باقی ہوں۔ایک اور مقام پر حضرت امیر فرماتے ہیں کہ''قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نصالِهٰا فِیْ اَخِیْکَ وَخَالِکَ وَجَدِّکَ وَمَا هِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ'' .(۳) یعنی تواے معاویہ! مجھے تلوار سے ڈراتا ہے ؟جب کہ میری تلوار جوتیرے بھائی ، ماموں، اور نانا کے سر پر پڑی تھی تواس سے خوب باخبر ہے اور تو یہ بھی جانتا کہ میں نے ان سب کوایک ہی دن میں قتل کردیا تھا۔

امام علیہ السلام کے ان دونوںخطووں سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت علی نے معاویہ کے جد کو قتل کیا تھا اور دوسری طرف یہ بھی جانتے ہیں کہ حمزہ او رحضرت علی دونوںنے اپنے مد مقابل کو بغیر کسی تاخیر کے ہلاک کر ڈالا تھا ،لہٰذا اگر حمزہ کی جنگ عتبہ (معاویہ کا جد) سے ہوتی توحضرت امیر علیہ السلام یہ کبھی نہیں فرماتے کہ ''اے معاویہ تیرے جد میری ہی تلوار کے وار سے ہلاک ہوئے ہیں'' ایسی صورت میں یہ کہنا پڑے گا کہ شیبہ اور حمزہ ایک ساتھ لڑے اور عتبہ ، عبیدہ کے مقابلے میں تھا اور حضر ت علی اور حمزہ اپنے اپنے حریفوںکوقتل کرنے کے بعد اس کی طرف گئے اوراسے قتل کردیا۔

______________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام ج۱ ص ۶۲۵------(۲) نہج البلاغہ نامہ ۶۴---(۳) نہج البلاغہ نامہ ۶۴

۷۸

چوتھی فصل

حضرت علی ـ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داماد ہیں

حکم الہی اور سنت حسنہ پر عمل پیراہونے کے لئے حضرت علی کے لئے ضروری تھا کہ جوانی کے بحران سے نکلنے کے لئے اپنی زندگی کی کشتی کو سکون و آرام دیں، مگر حضرت علی جیسی شخصیت کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی کو وقتی آرام وآسایش کے لئے اپنی شریک حیات بنائیں اور اپنی زندگی کے بقیہ ایام کو ایسے ہی چھوڑ دیں. لہٰذا ایسی شریک حیات چاہتے ہیں جو ایمان، تقویٰ، علم اور بصیرت، نجابت واصالت میں ان کی کفو اوران کی ہم پلہ ہو. اور ایسی شریک حیات سوائے پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا جن کی تمام خصوصیات سے بچپن سے لے کر اس وقت تک آپ واقف تھے، کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔

حضرت زہرا سے شادی کے خواہشمندافراد

حضرت علی سے پہلے بہت سے دوسرے افراد مثلاً ابوبکر، عمر نے حضرت زہرا کے ساتھ شادی کے لئے پیغمبر کو رشتہ دیا تھا اور دونوں نے پیغمبر سے ایک ہی جواب سنا تھا آپ نے فرمایا تھا کہ میں زہرا کی شادی کے سلسلے میں وحی کا منتظر ہوں۔

ان دونوں نے جو حضرت زہرا سے شادی کے سلسلے میں ناامید ہوچکے تھے رئیس قبیلہ اوس، سعد معاذ کے ساتھ گفتگو کی اور آپس میں سمجھ لیا کہ حضرت علی کے علاوہ کوئی بھی زہرا کا کفونہیں بن سکتا ،اور پیغمبر کی نظر انتخاب بھی علی ـکے علاوہ کسی پر نہیں ہے. اسی بنا پر یہ لوگ ایک ساتھ حضرت علی کی تلاش میں نکلے اور بالآخر انھیں انصار کے ایک باغ میں پایا .آپ اپنے اونٹ کے ساتھ کجھور کے درختوں کی سینچائی میں مصروف تھے ،ان لوگوں نے علی ـ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : قریش کے شرفا نے پیغمبر کی بیٹی سے شادی کے لئے رشتہ دیا تو پیغمبر نے ان کے جواب میں کہا کہ زہرا کی شادی کے سلسلے میں میں حکم خدا کا منتظر ہوں ہمیں امید ہے کہ اگر تم نے (اپنے تمام فضائل کی وجہ سے) فاطمہ سے شادی کی درخواست کی تو تمہاری درخواست ضرور قبول ہوجائے گی اور اگر تمہاری مالی حالت اچھی نہیں ہے تو ہم سب تمہاری مدد کریں گے۔اس گفتگو کو سنتے ہی حضرت علی کی آنکھو میں خوشی کے آنسو آگئے اور کہا: میری بھی یہی آرزو ہے کہ میں پیغمبر کی بیٹی سے شادی کروں. اتنا کہنے کے بعد آپ کام چھوڑ کر پیغمبر کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ،اس وقت پیغمبر ام سلمہ کے پاس تھے. جس وقت آپ نے دروازے پر دستک دی. پیغمبر نے فوراً ام سلمہ سے کہا جاؤ اور دروازہ کھولو، کیونکہ یہ وہ شخص ہے جسے خدا اور اس کا رسول دوست رکھتا ہے۔

۷۹

ام سلمہ کہتی ہیں کہ اس شخص کودیکھنے کے لئے میرا دل بے چین ہوگیا کہ جس شخص کی پیغمبر نے ستائش کی ہے. میں اٹھی کہ دروازہ کھولوں.عنقریب تھا کہ میرے پیر لڑکھڑا جاتے. میں نے دروازہ کھولا حضرت علی داخل ہوئے اور پیغمبر کے پاس بیٹھ گئے ،لیکن پیغمبر کی عظمت و جلالت کی وجہ سے حیا مانع بن رہی تھی کہ پیغمبر سے گفتگو کریں،اس لئے سر کو جھکائے بیٹھے تھے یہاں تک کہ پیغمبر نے خاموشی کوختم کیا اور کہا:شاید کسی کام سے آئے ہو؟حضرت علی نے جواب دیا: ہماری رشتہ داری ومحبت خاندان رسالت سے ہمیشہ ثابت و پائدار رہی اور ہمیشہ دین و جہاد کے ذریعے اسلام کو ترقی کے راستے پر لگاتے رہے ہیں، یہ تمام چیزیںآپ کے لئے روشن و واضح ہیں. پیغمبر نے فرمایا:جوکچھ تم نے کہا تم اس سے بلند و بالا ہو۔ حضرت علی نے کہا:کیا آپ میری شادی فاطمہ سے کرسکتے ہیں۔(۱)

حضرت علی نے اپنا پیغام دیتے وقت تقویٰ اور اپنے گذرے ہوئے روشن سابقہ اوراسلام پر اعتماد کیا، اور اس طرح سے دنیا والوں کویہ پیغام دیا کہ معیار فضیلت یہ چیزیں ہیں نہ کہ خوبصورتی، دولت اور منصب وغیرہ۔

پیغمبر اسلام نے شوہر کے انتخاب میں عورت کو آزاد رکھا ہے اور حضرت علی کے جواب میں فرمایا:تم سے پہلے کچھ لوگ اور بھی میری بیٹی سے شادی کی درخواست لے کر آئے تھے ، میں نے ان کی درخواست کواپنی بیٹی کے سامنے پیش کیا لیکن اس کے چہرے پر ان لوگوں کے لئے عدم رضایت کوبہت شدت سے محسوس کیا ۔اب میں تمہاری درخواست کواس کے سامنے پیش کروں گا پھر جو بھی نتیجہ ہوگا تمہیں مطلع کروں گا۔

پیغمبر اسلام جناب فاطمہ زہرا کے گھر آئے آپ ان کی تعظیم کے لئے اٹھیں، آپ کے

______________________

(۱) حضرت علی، شادی کے پیغام کے وقت ایک سنت پر عمل کر رہے تھے ،جب کہ ان پر بہت زیادہ حیا طاری تھی .آپ بذات خود اور بغیر کسی واسطے کے پیغام دے رہے تھے ،اور یہ روحی شجاعت و بہادری ، عفاف کے ہمراہ لائق تقدیر ہے

۸۰