فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341284
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341284 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابن عباس : فیصلہ کرنے والوںکا مرتبہ امام علیہ السلام کے مرتبہ وعظمت سے بلند نہیں ہے۔ جب بھی مسلمانوں کا امام غیر شرعی کام کرے تو امت کو چاہیے کہ اس کی مخالفت کرے ، تو پھر اس قاضی کی کیا حیثیت جو حق کے خلاف حکم کرے؟

اس وقت خوارج لاجواب ہوگئے اور انہوں نے شکست تو کوردل کافروں کی طرح دشمنی اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے اور ابن عباس پر اعتراض کیا اور کہا: تم اسی قریش کے قبیلے سے ہو جس کے بارے میں خدا نے کہا ہے: ''بَل هُم قوم خصِمُون '' (زخرف: ۵۸) یعنی قریش جھگڑالوگروہ ہے۔ اورنیز خدا نے کہا ہے: ''وتُنذر به قوماً لدّاً '' (مریم :۹۷) قرآن کے ذریعے جھگڑالوگروہ کو ڈراؤ۔(۱)

اگر وہ لوگ حق کے طلبگار ہوتے اورکوردلی ، اکٹر اور ہٹ دھرمی ان پر مسلط نہ ہو تو ابن عباس کی محکم و مدلل معقول باتوں کو ضرور قبول کرلیتے اور اسلحہ زمین پر رکھ کر امام علیہ السلام سے مل جاتے اور اپنے حقیقی دشمن سے جنگ کرتے ، لیکن نہایت ہی افسوس ہے کہ امام علیہ السلام کے ابن عم کے جواب میں ایسی آیتوں کی تلاوت کی جو مشرکین قریش سے مربوط ہیں نہ کہ قریش کے مومنین سے۔

حَکَم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے ان لوگوں کو چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں بھی مثلاً گھریلو اختلاف کو حل کرنے کے لئے جائز قرار دیا ہے اور اس کے نتیجے کو دونوں طر ف کے حسن نیت کو نیک شمار کیا ہے ،جیسا کہ ارشادہواہے :( وان خِفتُم شقاق بینهما فابعثوا حکماً من اهله و حکماً من أهلِها ان یریدا اصلاحاً یوفِقُ اللّٰهُ بینهما ان اللّٰه کان علیماً خبیراً ) (سورہ نساء : ۳۵)'' اور اگر تمہیں میاں بیوی کی نااتفاقی کا خوف ہو تو مرد کے کنبہ سے ایک حکم اور زوجہ کے کنبہ سے ایک حکم بھیجواگر یہ دونوں میں میل کرانا چاہیں گے تو خدا ان کے درمیان اس کا موافقت پیدا کردے گا، خدا تو بے شک واقف وبا خبر ہے''۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲، ص ۲۷۳۔بحوالہ کامل مبرد ( ص ۵۸۲ مطبوعہ یورپ)۔

۷۰۱

یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ امت کا اختلاف تین مہینے کی شدید جنگ کے بعد میاں اور بیوی کے اختلاف سے کم ہے لہذا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اگر امت دونوں طرف سے دو آدمیوں کے فیصلے کو قرآن وسنت کی روشنی میں چاہے تو کام انجام دیا ہے اور کفر اختیار کیا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ توبہ کرے(۱)

ان آیتوں پر توجہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خوارج کا مسئلۂ حکمین کو غلط کہنا سوائے ہٹ دھرمی ، دشمنی اور انانیت کے کچھ نہ تھا۔ ابن عباس نے صرف ایک ہی مرتبہ احتجاج نہیں کیا بلکہ دوسری مرتبہ بھی امام علی السلام نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے ابن عباس کو بھیجا اور اس پر گواہ یہ ہے کہ انہوں نے پچھلے مناظرہ میں قرآنی آیتوں سے دلیلیں پیش کی تھیں، جب کہ امام علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں انہیں حکم دیا تھا کہ خوارج کے ساتھ پیغمبر کی سنت سے مناظرہ کریں ، کیونکہ قرآن کی آیتوں میں بہت زیادہ احتمال اور مختلف توجیہیں کی جا سکتی ہیں اور ممکن ہے خوارج ایسے احتمال کو لیں جو ان کے لئے مفید ہو، جیسا کہ حضرت فرماتے ہیں: ''لا تخاصِمهم بالقرآن ، فان القرآن حمّال ذو وجوهٍ تقول ویقولون ولکن حاججهُم بالسُّنة فانّهُم لن یجدوا عنها محیصاً ''(۲) خوارج کے ساتھ قرآن کی آیتوں سے مناظرہ نہ کرو کیونکہ قرآن کی آیتوں میں بہت سے وجوہ و احتمالات پائے جاتے ہیں اس صورت میں تم کچھ کہو گے اور وہ کچھ کہیں گے ( اور کوئی فائدہ نہ ہوگا) لیکن سنت کے ذریعے ان پر دلیل قائم کرو تو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ان کے پاس نہ ہوگا۔

خود امام علیہ السلام کا خوارج کی چھاؤنی پر جانا

جب امام علیہ السلام عظیم اور بزرگ شخصیتوں مثلاً صعصعہ بن صوحان عبدی ، زیاد بن النضر اور ابن عباس وغیرہ کو ان کے پاس ہدایت وراہنمائی کے لئے بھیجا مگر مایوس ہوئے تو خود آپ نے ارادہ کیا ان کے پاس جائیں تاکہ پوری تشریح ، وضاحت کے ساتھ حکمین کے قبول کرنے کے مقدمات اورعوامل و اسباب کو ان کے سامنے بیان کریں اور یہ بتائیں کہوہ لوگ خود اس کام کے باعث بنے ہیں( مجبور کیا تھا)، شاید اس کے ذریعے تمام خوارج یا ان میں سے کچھ لوگوں کو فتنہ وفساد سے روک دیں ۔

______________________

(۱) میاں اور بیوی کے اختلاف سے مربوط یہ آیت امام علیہ السلام کی دلیلوں میں بیان کی جائے گی ۔

(۲)شرح نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۷۷۔

۷۰۲

امام نے روانہ ہوتے وقت صعصعہ سے پوچھا: فتنہ وفساد کرنے والے خوارج کون سے سردار کے زیر نظر ہیں؟ انہوں نے کہا: یزید بن قیس ارحبی(۱) لہذا امام علیہ السلام اپنے مرکب پر سوار ہوئے اور اپنی چھاؤنی سے نکل گئے اور یزید بن قیس ارحبی کے خیمے کے سامنے پہونچے اور دورکعت نماز پڑھی پھر اپنی کمان پر ٹیک لگائی اور خوارج کی طرف رخ کر کے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:

کیا تم سب لوگ صفین میں حاضر تھے؟ انہوں نے کہا :نہیں ۔آپ نے فرمایا: تم لوگ دوگروہوں میں تقسیم ہوجاؤ تاکہ ہر گروہ سے اس کے مطابق گفتگو کروں ۔ پھر آپ نے بلند آواز سے فرمایا: ''خاموش رہو شور وغل نہ کرو اور میری باتوں کو غور سے سنو، اپنے دل کو میری طرف متوجہ کرو اور جس سے بھی میں گواہی طلب کروں وہ اپنے علم وآگاہی کے اعتبار سے گواہی دے '' اس وقت اس سے پہلے کہ آپ ان لوگوں سے گفتگو کرتے اپنے دل کو پروردگارکی طرف متوجہ کیا اور پھر تمام لوگوں کو خدا کی طرف متوجہ کیا اور کہا:'' خدایا یہ ایسی جگہ ہے کہ جو بھی اس میں کامیاب ہوا وہ قیامت کے دن بھی کامیاب ہوگا اور جو بھی اس میں محکوم مذموم ہوگا وہ اس دوسری دنیا میں بھی نابینا اور گمراہ ہوگا''۔

''کیا تم لوگوں نے قرآن کودھوکہ اور فریب کے ساتھ نیزہ پر بلند کرتے وقت یہ نہیں کہا تھا کہ وہ لوگ ہمارے بھائی اور ہمارے ساتھ کے مسلمان ہیں اور اپنے گزشتہ کاموں کوچھوڑدیا ہے اور پشیمان ہوگئے ہیں اور خدا کی کتاب کے سایہ میں پناہ لئے ہوئے ہیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کی بات کو قبول کریں اور ان کے غم واندوہ کو دور کردیں ؟اور میں نے تمہارے جواب میں کہاتھا: یہ ایک ایسی درخواست ہے کہ جس کا ظاہر ایمان اورباطن دشمنی ،بغض وحسداورکینہ ہے اس کی ابتدا رحمت اور راحت اور اس کا انجام پشیمانی اور ندامت ہے۔لہذا اپنے کام پر باقی رہو اپنے راستہ سے نہ ہٹو، اور دشمن سے جہاد کرنے پر دانتوں کو بھینچے رہو اور کسی بھی نعرہ باز کی طرف توجہ نہ دو ، کیونکہ اگر اس سے موافقت کروگے تو گمراہ ہوجائوگے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ذلیل وخوار ہوجائے گا۔بہرحال یہ کام (مسئلۂ تحکیم) میری تاکید کے برخلاف انجام پایا اور میں نے دیکھا کہ ایسا موقع تم نے دشمن کو دیدیا ہے(۲) ۔

______________________

(۱) خوارج کا ایک سردار ، قبیلہ یشکر بن بکر بن وائل سے۔

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۸۰۔

۷۰۳

ابن ابی الحدید ۳۶ ویں خطبہ کی شرح میں کہتا ہے :خوارج نے کہا: جو کچھ بھی تم نے کہا ہے وہ سب حق ہے اور بجا ہے لیکن ہم کیا کریں ہم سے تو بہت بڑا گناہ ہوگیا ہے اور ہم نے توبہ کرلیا ہے اور تم بھی توبہ کرو ، امام علیہ السلام نے بغیر اس کے کہ کسی خاص گناہ کی طرف اشارہ کریں، بطور کلی کہا: ''اَستغفِر اللّٰه من کلّ ذنبٍ '' اس وقت چھ ہزار لوگ خوارج کی چھاؤنی سے نکل آئے اور امام علیہ السلام کے انصار میں شامل ہوگئے اور ان پر ایمان لے آئے ۔

ابن ابی الحدید اس استغفار کی توضیح میں کہتا ہے : امام علیہ السلام کی توبہ ایک قسم کا توریہ اور ''الحرب خُد عة '' کے مصادیق میں سے ہے۔آپ نے ایک ایسی مجمل بات کہی جو تمام پیغمبرکہتے ہیں اور دشمن بھی اس پر راضی ہوگئے ، اس کے بغیرکہ امام علیہ السلام نے گناہ کا اقرار کیا ہو۔(۱)

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۸۰۔

۷۰۴

دوست نما دشمن کی شرارت

جب خوارج اپنی چھاؤنی سے کوفہ واپس آئے تو انہوں نے لوگوں کے درمیان یہ خبر پھیلادی کہ امام نے حکمیت قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، اسے ضلالت وگمراہی سمجھا ہے اور ایسے وسائل آمادہ کررہے ہیں کہ لوگوں کو حکمین کی رائے کے اعلان سے پہلے معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ کریں ۔

اسی دوران اشعث بن قیس جس کی زندگی اور امام علیہ السلام کے ساتھ رہنے کی روش مکمل طور پر نفاق آمیز تھی، ظاہرمیں دوستانہ طور پر لیکن باطن میں معاویہ کے نفع کے لئے اس نے کام کرنا شروع کیا اور کہا : لوگ کہتے ہیں کہ امیر المومنین نے اپنے عہد وپیمان کو توڑدیا ہے اور مسئلہ حکمیت کو کفر و گمراہی سے تعبیر کیا ہے اور مدت ختم ہونے کے انتظار کو خلاف جاناہے۔

اشعث کی گفتگو نے امام علیہ السلام کوایسی مصیبت میں قرار دیا کہ ناچار امام علیہ السلام نے حقیقت بیان کردی اور کہا: جو شخص یہ فکر کررہا ہے کہ میں نے تحکیم کے عہد وپیمان کو توڑ دیا ہے وہ جھوٹ بول رہاہے اور جو شخص بھی اس کو گمراہی وضلالت سے تعبیر کررہا ہے وہ خود گمراہ ہے۔

حقیقت بیان کرنا خوارج کے لئے اتنا سخت ہوا کہ لاحکم الاّ للّٰہ کا نعرہ لگاتے ہوئے مسجد سے

باہر چلے گئے اور دوبارہ اپنی چھاؤنی میں واپس چلے گئے۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام کی حکومت میں ہر طرح کا رخنہ وفساد اشعث کی وجہ سے تھا کیونکہ اگر وہ اس مسئلہ کو نہ چھیڑتا تو امام علیہ السلام حقیقت کو بیان نہ کرتے ، اور خوارج جو استغفار کلی پر قناعت کئے ہوئے تھے امام علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر معاویہ سے جنگ کرتے،لیکن وہی (اشعث) سبب بنا کہ امام علیہ السلام توریہ کے پردہ کو چاک کرکے حقیقت کو واضح وآشکار کردیں۔

۷۰۵

خوارج کی ہدایت کی دوبارہ کوشش

مبرّد اپنی کتاب '' کامل '' میں امام علیہ السلام کا دوسرا مناظرہ نقل کرتے ہیں جو پہلے والے مناظرہ سے بالکل الگ ہے اور احتمال یہ ہے کہ یہ دوسرا مناظرہ ہے جو امام علیہ السلام نے خوارج سے کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:

امام علیہ السلام : کیا تمہیں یاد ہے جس وقت لوگوں نے قرآن کو نیزے پر بلند کیا اس وقت میں نے کہا تھا کہ یہ کام دھوکہ اورفریب ہے ، اگر وہ لوگ قرآن سے فیصلہ چاہتے تو میرے پاس آتے اور مجھ سے فیصلے کے لئے کہتے ؟ کیا تمہاری نگاہ میں کوئی ایسا ہے جو ان دونوں آدمیوں کے مسئلۂ حکمیت کو میرے اتنا برا اور خراب کہتا؟

خوارج : نہیں ۔

امام علیہ السلام : کیا تم لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ تم لوگوں نے مجھے اس کام مجبور کیا جبکہ میں اسے ہر گز نہیں چاہ رہا تھا اور میں نے مجبور ہوکر تمہاری درخواست کو قبول کیا اور یہ شرط رکھی کہ قاضیوں کا حکم اس وقت قابل قبول ہوگا جب خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں ؟ اور تم سب جانتے ہو کہ خدا کا حکم مجھ سے تجاوز نہیں کرے گا ( اور میں امام برحق اور مہاجرین و انصار کا چنا ہوا خلیفہ ہوں )۔

عبداللہ بن کوّائ: یہ بات صحیح ہے کہ ہم لوگوں کے اصرار پرآپ نے ان دونوں آدمیوں کو دین خدا کے لئے َحکمَ قرار دیا لیکن ہم اقرار کرتے ہیں کہ اس عمل کی وجہ سے ہم کافر ہوگئے اور اب اس سے توبہ کررہے ہیں اورآپ بھی ہم لوگوں کی طرح اپنے کفرکا اقرار کیجئے اور اس سے توبہ کیجئے اور پھر ہم سب کو معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کیجئے۔

امام علیہ السلام : کیا تم جانتے ہو کہ خدا نے میاں بیوی کے اختلاف کے بارے میں حکم دیا ہے کہ دو آدمیوں کی طرف رجوع کریں ، جیسا کہ فرمایا ہے:کہ ''فابعثوا حکماً من أهلهِ وحکماً من اَهلِها ؟ ''اور اسی طرح حالت احرام میں شکار کے قتل کا کفارہ معین کرنے کے بارے میں حکم دیا ہے کہ حَکَم (فیصلہ کرنے والے) کے عنوان سے دد عادلوں کی طرف رجوع کریں جیسا کہ فرمایا ہے: ''یحکم بهِ ذوا عَدل ٍ مِنکُم ؟ ''

۷۰۶

ابن کوّائ:آپ نے اپنے نام سے '' امیر المومنین '' کا لقب مٹاکر اپنے کو حکومت سے خلع اور برکنار کر دیا۔

امام علیہ السلام : پیغمبرا سلام (ص) ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ جنگ حدیبیہ میں جس وقت پیغمبر اور قریش کے درمیان صلح نامہ اس طریقے سے لکھا گیا :''هذا کتاب کتبه محمّد رسولُ اللّٰه وسُهیلُ بن عَمر '' اس وقت قریش کے نمائندے نے اعتراض کیا اور کہا: ، اگر آپ کی رسالت کا مجھے اقرار ہوتا تو آپ کی مخالفت نہ کرتا، لہٰذا اپنے نام سے ''رسول اللہ ''کا لقب مٹادیجیے، اور پیغمبر نے مجھ سے فرمایا: اے علی! میرے نام کے آگے سے '' رسول اللہ '' کا لقب مٹادو، میں نے کہا: اے پیغمبر خدا(ص)! میرا دل راضی نہیں ہے کہ میں یہ کام کروں ، اس وقت پیغمبر نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا لقب مٹادیا اور مجھ سے مسکرا کر فرمایا: اے علی !تم بھی میری ہی طرح ایسی سرنوشت سے دوچار ہو گے۔

جب اما م علیہ السلام کی گفتگو ختم ہوئی اس وقت دو ہزار آدمی جو '' حروراء '' میں جمع ہوئے تھے وہ حضرت کی طرف واپس آگئے ۔اور چونکہ وہ لوگ(خوارج) اس جگہ پر جمع ہوئے تھے اس لئے انہیں '' حروریّہ '' کہتے ہیں(۱) ۔

______________________

(۱)کامل مبرّد: ص ۴۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲، ص ۲۷۵،۲۷۴۔

۷۰۷

دوسرا مناظرہ

خوارج کے سلسلے میں امام علیہ السلام کی سیاست یہ تھی کہ جب تک خون ریزی نہ کریں اور لوگوں کے مال کو برباد نہ کریں اس وقت تک کوفہ اور اس کے اطراف میں آزاد زندگی بسر کرسکتے ہیں ، اگرچہ روزانہ رات دن ان کے انکار کے نعرے مسجد میں گونجتے رہیں اور امام کے خلاف نعرے لگاتے ہیںاس وجہ سے امام علیہ السلام نے ابن عباس کو دوبارہ '' حروراء '' دیہات روانہ کیا ، انہوں نے ان لوگوں سے کہا: تم لوگ کیا

چاہتے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : جتنے لوگ صفین میں موجود تھے اور حکمیت کی موافقت کی ہے وہ کوفہ سے نکل جائیں اور سب لوگ صفین چلیں اور وہاں تین دن ٹھہریں اور جو کچھ انجام دیا ہے اس کے لئے توبہ کریں اور پھر معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے شام روانہ ہوں۔

اس درخواست میں ضد، ہٹ دھرمی اور بیوقوفی صاف واضح ہے کیونکہ اگر حکمیت کا مسئلہ برا اور گناہ ہو تو ضروری نہیں ہے کہ توبہ اسی جگہ کی جائے جہاں گناہ کیا ہے اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ وہاں تین دن تک قیام کیا جائے ! بلکہ توبہ تو صرف ایک لمحہ بھر ہی واقعی شرمندگی اور کلمہ استغفار کے ذریعہ ہوجاتی ہے ۔

امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا : کیوں اس وقت ایسی باتیں کررہے ہو جب کہ دو حَکَم معین کر کے بھیج دیئے گئے ہیں اور دونوں طرف کے لوگوں نے ایک دوسرے سے عہد وپیمان کرلیا ہے ؟

ان لوگوں نے کہا: اس وقت جنگ طولانی ہوگئی تھی ، بہت زیادہ سختی و شدت بڑھ گئی تھی ، بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے اور ہم نے بہت زیادہ اسلحے اور سواریاں گنوادی تھیں ، اس لئے حکمیت کو قبول کیا تھا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : کیا جس د ن شدت اور سختی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اس دن تم نے قبول کیا ہے ؟ پیغمبراسلام (ص) نے مشرکوں کے ساتھ عہد وپیمان کیا تھا ، اس کا احترام کیا لیکن تم لوگ مجھ سے کہتے ہو کہ اپنے عہدوپیمان کو ختم توڑ دو!

۷۰۸

خوارج نے اپنے اندر احساس ندامت کیا لیکن اپنے عقیدہ کے تعصب کی بنا پرایک کے بعد ایک وارد ہوتے گئے اور نعرہ لگاتے رہے :''لاحکم الّا للّٰه ولو کَرِه المشرکون ''۔

ایک دن خوارج کا ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور وہی نعرہ لگایا (جسے ابھی ہم نے ذکر کیا ہے) ، لوگ اس کے پاس جمع ہوگئے اور اس نے پھر وہی نعرہ لگایا اور ا س مرتبہ کہا: ''لاٰ حُکمَ الّا للّٰه وَ لوکرِه ابوالحسنِ ''۔امام علیہ السلام نے اس کا جواب دیا: ، میں ہرگز خدا کی حکومت (اور اس کے حکم )کو مکروہ تصور نہیں کرتا، لیکن تمہارے بارے میں خدا کے حکم کا منتظر ہوں ۔ لوگوں نے امام علیہ السلام سے کہا: کیوں آپ نے ان لوگوں کو اتنی مہلت اور آزادی دی ہے ؟ کیوں ان کو جڑ سے ختم نہیں کردیتے ؟ آپ نے فرمایا:

''لاٰ یفنُون انّهُم لفِی اصلاب ِ الرّجال وأرحام ِ النّساء الیٰ یومِ القیامةِ '' (ا) وہ لوگ ختم نہیں ہوں گے ان لوگوں کا ایک گروہ ان کے باپوں کے صلب اور ماؤں کے رحم میں باقی ہے اوریہ اسی طرح قیامت کے دن تک رہیں گے۔

______________________

(۱) شرح حدیدی ج۲، ص ۳۱۱،۳۱۰۔

۷۰۹

تیئیسویں فصل

خوارج کی مخالفت کی وجہ اور اس کی وضاحت

امام علیہ السلام سے خوارج کی مخالفت کی وجہ اور معاویہ کی مخالفت کی وجہ میں بہت فرق تھا، معاویہ نے عمر کی خلافت کے وقت سے ہی شام کی حکومت کی خود مختاری کے لئے مقدمات فراہم کرتے تھے اور خودکوشام کامطلق العنان حاکم (ڈکیٹیٹر) سمجھتا تھا۔ عثمان کے قتل کے بعد جب اسے خبر ملی کہ امام علیہ السلام شام کی حکومت سے اس کو بر طرف کرنا چاہتے ہیں تو وہ مخالفت کرنے کے لئے اٹھ گیا پہلے تو طلحہ وزبیر کو ورغلایا پھر جنگ صفین برپاکر کے امام علیہ السلام کے مقابلے میں آگیا اور پھرمنحوس سیاست کے ذریعہ قرآن کو نیزہ پر بلند کر کے امام علیہ السلام کے لشکر میں اختلاف وتفرقہ پیدا کر دیا اور بالآخر امام علیہ السلام اسی اختلاف کی وجہ سے قربان ہوگئے۔

لیکن خوارج ظاہر بین تھے اور آج کی اصطلاح میں خشک مقدس تھے اور اپنی جہالت ونادانی اور سطحی فکر ونظر اور اسلام کے اصول و مبانی سے واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے امام علیہ السلام کی مخالفت کرنے لگے، اورکھوکھلے اور بے بنیاد علل و اسباب گڑھ کر خدا کے چراغ ہدایت کے مقابلہ میں آگئے اور اس الٰہی چراغ کوخاموش کرنے کے لئے ہزاروں پاپڑ بیلے یہاں تک کہ خود کو ہلاک کرنے کے لئے بھی تیار ہو گئے۔

۷۱۰

معاویہ اور خوارج کے درمیان اسی فرق کی وجہ سے امام علیہ السلام نے ان پرفتح وکامیابی حاصل کرنے کے بعد فرمایا: ''لاٰ تقاتلوا الخوارجَ بعدی، فلیسَ مَن طَلبَ الحقَّ فأخطاٰ ه کَمَن طلب الباطل فادرکَه ''' (ا)، خبردار میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا کیونکہ جو حق کا طالب ہے اور اسے حاصل کرنے میں کسی وجہ سے اس سے غلطی ہوجائے وہ اس شخص کے مثل نہیں ہے جس نے باطل کو چاہا اور اسے پابھی لیا۔( یعنی معاویہ اور اس کے اصحاب)

خوارج کی مخالفت کے تمام عوامل و اسباب کی تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ لوگ ، شامیوں کے برخلاف ہرگز جاہ ومنصب اور حکومت کے طلبگار نہ تھے بلکہ ایک خاص کج فکری اور ذہنی پستی

______________________

نہج البلاغہ خطبہ ۵۸ (عبدہ)۔

۷۱۱

ان پرمسلط تھی ۔ یہاں ہم خوارج کے اہم ترین اعتراضات نقل کررہے ہیں۔

۱۔دین پر لوگوں کی حکومت

وہ لوگ ہمیشہ یہ اعتراض کررہے تھے کہ کس طرح سے ممکن ہے کہ دومخالف گروہ کے دو آدمی اپنے اپنے سلیقے کے اعتبار سے مسلمانوں کی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لیں اور اپنی رائے کو مسلمانوں کے معین شدہ رہبر کی رائے پر مقدم کریں ، دین اور مسلمانوں کا مقدر اس سے بلند وبرتر ہے کہ لوگ اپنی ناقص عقلوں سے ان کے اوپر حکومت کریں ۔وہ لوگ مستقل کہہ رہے تھے: '' حکم الرجال فی دین اللّٰہ '' یعنی علی نے لوگوں کو دین خدا پر حاکم قرار دیاہے۔

یہ اعتراض اس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ لوگ حکمین کے فیصلے کے قبول کرنے کے شرائط سے باخبر نہ تھے اور ان لوگوں نے خیال کیا کہ امام علیہ السلام نے ان دونوں کو مسلمانوں کی قسمت معین کرنے کے لئے آزاد چھوڑدیا ہے کہ جس طرح چاہیں ان کے لئے حکم معین کریں۔ امام علیہ السلام نے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا:''اِنا لم نحکّم الرجالُ وانّما حکّمنٰا القرآنَ، هذا القرآن انّما هو خطّ مستور بین الدَّفتین لا ینطقُ بلسانٍ ولابدَّله من ترجمان ، وانما ینطق عنه الرجالُ ، ولمّٰا دَعانَا القَومُ اِلیٰ ان نُحکَّم بیننَا القرآن لم نَکُنِ الفریقَ المتولّ عن کتاب اللّٰه سبحانه وتعالیٰ ، وقد قال اللّٰه سبحانه: '' فان تنازعتم فی شیئٍ فَردَّ وهُ اِلَی اللّٰه والرّسول ِ ''فرُدُّهُ اِ لٰی اللّٰه أن نَحکُمَ بکتابِهِ ، وردّهُ اِلَی الرّسول اَن ناخذ بسنّتِهِ ، فاذا حُکِمَ بالصّدق فی کتابِ اللّٰه فنحن أحقُّ الناس بهِ وان ُحکِمَ بسنةِ رسول اللّٰه (ص) فنحن أحقُّ الناس وَ اَولاَ هُم بِها ۔(۱)

ہم نے لوگوں کو نہیں بلکہ قرآن کو حَکَم مقرر کیا ہیاور یہ قرآن دودفتیوں کے درمیان لکھی ہوئی کتاب ہے جو زبان سے نہیں بولتی اس کے لئے ترجمان ضروری ہے اور وہ ترجمان آدمی ہی ہوتے ہیں جو قرآن کی روشنی میں کلام کرتے ہیں جب قوم (اہل شام ) نے ہم سے خواہش کی کہ ہم اپنے اور ان کے درمیان قرآن مجید کو حکم قرار دیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منحرف ہوں حالانکہ خداوند عالم فرماتا ہے: ''اگر

______________________

(۱)نہج البلاغہ: خطبہ ۱۲۱.

۷۱۲

تم کسی بات میں اختلاف کرو تو خدااور رسول کی طرف اسے پھیر دو'' ۔خدا کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس کی کتاب کو حَکَم مانیں اور رسول کی طرف رجوع کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہم ان کی سنت کو اختیار کریں ، پس اگر سچائی کے ساتھ کتاب خدا سے حکم حاصل کیا جائے تو اس کی رو سے لوگوں میں سب سے زیادہ ہم اس کے حق دار ہیں اور اگر سنت رسول کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو ہم سب سے زیادہ اس کے اہل ہیں ۔

امام علیہ السلام ایک دوسرے خطبہ میں اسی جواب کو دوسری عبارت میں بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں : '' دونوں حَکم کو اس لئے مقرر کیا گیا تھا کہ وہ انہیں چیزوں کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور جن چیزوں کو قرآن نے ختم کیا ہے انہیں یہ بھی ختم کر دیں (حق کو زندہ اور باطل کو نابود کردیں) اور قرآن کا زندہ کرنا اس پر اتفاق کرناہے اور اسے ہلاک کرنا اس سے دوری اختیار کرنا ہے پس قرآن اگر ہمیں ان (شامیوں )کی طرف کھینچ لے جائے تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر وہ انہیں ہماری طرف کھینچ لائے تو انہیں ہماری پیروی کرنی چاہیے ، تمہارا برا ہو، میں نے اس بات میں کوئی غلط کام تو نہیں کیا نہ تمہیں دھوکہ دیا ہے اور نہ کسی بات کو شبہہ میں رکھا ہے ۔(۱)

______________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۳،۱۷.

۷۱۳

۲۔ وقت کا تعیین

خوارج کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ کیوں فیصلہ کرنے والوں کے لئے وقت معین ہوا ہے اور یہ طے پایا ہے کہ دونوں (عمروعاص اورابوموسیٰ )غیر جانب دار علاقہ (دومة الجندل) میں ماہ رمضان ختم ہونے تک اختلاف کے بارے میں اپنی اپنی رائے پیش کردیں اور یہ کام میدان صفین ہی میں اس دن کیوں نہیں انجام دیا گیا جس دن قرآن کو نیزہ بر بلند کیا گیا تھا؟!

حقیقتاً اس طرح کے اعتراضات کیا ان کی جہالت پر دلالت نہیں کرتے ؟ کیا ایسا عظیم فیصلہ ، اوروہ بھی اس وقت دونوں گروہ کا ہاتھ کہنی تک ایک دوسرے کے خون میں ڈوبا ہواتھا، کوئی آسان کام تھا کہ ایک دو دن کے اندر فیصلہ ہوجاتا اور دونوں گروہ اُسے قبول کرلیتے؟ یا اس کے لئے صبر وضبط کی ضرورت تھی تاکہ جاہل کی بیداری اور عالم کے استحکام کا امکان زیادہ پیدا ہو جائے اور امت کے درمیان صلح کا ذریعہ اور زیادہ فراہم ہوجائے۔

امام علیہ السلام اس جواب کے اعتراض میں فرماتے ہیں : ''وَاماقَو لکم:لم جعلت بینکم و بهینم أجلاً فی التحیکم؟فانما فَعَلتُ ذالک لِیتبیّنَ الجَاهِلُ ویتثبّتَ العالم ولَعلَّ اللّٰه اَن یصلحَ فی هذهِ الهُدنَةِ أمرهذه الامةِ ''(۱) اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے اپنے اور ان کے درمیان تحکیم کی مہلت کیوں دی تو میں نے یہ موقع اس لئے دیا کہ جاہل تحقیق کرے اور عالم ثابت قدم ہوجائے ، اور شاید خداوند عالم اس مہلت کے ذریعے اس امت کے حالات کی اصلاح فرمادے۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۱

۷۱۴

۳۔ حاکمیت انسان اور حاکمیت خدا کے انحصار سے تارض

خوارج نے امام علیہ السلام سے مخالفت کے زمانے میں ایة ''لاحکم الّا لِلّٰه '' کا سہارا لیا اورحضرت کے کام کو نص قرآن کے خلاف شمار کیا اور یہ نعرہ لگایا:''لاحکم الّا لِلّٰه لا لَکَ و لا لِاَصحابک یا علُّ ''یعنی حاکمیت خدا سے مخصوص ہے نہ کہ تم سے اور نہ تمہارے ساتھیوں سے اور یہ نعرہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے قرآن سے اقتباس ہے جو سورہ یوسف آیت نمبر ۴۰ اور ۶۷ میں وارد ہوا ہے اور اس کا مفہوم توحید کے اصول میں شمار ہوتاہے اور اس بات کی حکایت کرتاہے کہ حاکمیت اور فرمانروائی ایک حقیقی اور اصل حق ہے جو خدا سے مخصوص ہے اور کوئی بھی انسان اس طرح کا حق دوسرے انسان پر نہیں رکھتا۔ لیکن خدا میں حاکمیت کا منحصر ہونا اس چیز کے منافی نہیں کہ کوئی گروہ ایک خاص ضوابط کے ساتھ جن میں سب سے اہم خداکی اجازت ہے دنیا پر حکومت کرے ، اورخدا کی حاکمیت کی تجلی گاہ ہوجائے اور کوئی بھی عقلمند انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اجتماعی زندگی، بغیر حکومت کے ممکن ہے ، کیونکہ وظائف و فرائض کاانجام دینا، اختلافات کا حل ہونا اور لڑائی جھگڑے کا ختم ہوناوغیرہ یہ تمام چیزیں ایک حکومت کے سایہ میں انجام پاسکتی ہیں ۔

اما م علیہ السلام نے جب ان کے نعرہ کو سنا تو فرمایا ، ہاں یہ بات صحیح ہے کہ حکومت کاحق صرف خدا کو ہے لیکن اس حق کی بات سے باطل مراد لیا جا رہا ہے: ''کلمة حقٍ یراد بها الباطل، نعم انّه' لاحکم الّٰا لِلّٰه ولکن هولائِ یقولون لا امراة الا لِلّٰه وانَّه لابُدَّ لِلنَّاسِ مِن اَمیرٍ بّرٍ او فاجر یعمل فی

۷۱۵

امرته المومن ویستمتع فیها الکافر '' (۱)

''بات حق ہے مگر اس سے مراد باطل لیا جارہاہے ہاں بے شک حکم خدا ہی کے لئے ہے لیکن یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ امیر (حاکم) بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے حالانکہ لوگوں کے لئے ایک نہ ایک امیر (حاکم ) کا ہونا لازم ہے نیکو کار ہویا فاسق وفاجر ، تاکہ اس حکومت میں مومن عمل (خیر ) کرے اور کافر اس میں اپنے پورے پورے حقوق حاصل کرے ''۔

اگر حکومت نہ ہوتو امن اور چین نہیں ہوگا اور ایسی صورت میں نہ مومن اپنے کار خیر میں کامیاب ہوسکے گا اور نہ کافر دنیاکی زندگی سے فیضیاب ہوسکے گا اور اگر حقیقت میں مقصد، حکومت کا تشکیل نہیں دینا ہے تو اس صورت میں پیغمبراسلام(ص) اور شیخین کی حکومت کی کس طرح توجیہ کریں گے؟

خوارج اپنے عقیدہ و عمل میں ہمیشہ کشمکش میں مبتلا تھے ، ایک طرف سمجھتے تھے کہ اجتماعی زندگی ایک با اثر مدیر اور رہبر کے بغیر ممن نہیں ہے اور دوسری طرف اپنی کج فہمی کے زیر اثر ہر طرح کی حکومت کی تشکیل کو حاکمیت خدا کے انحصار کے خلاف سمجھتے تھے ۔اس سے بھی تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہ کہ خوارج نے خود اپنے کام کے آغاز میں اپنے گروہ کے لئے حاکم کا انتخاب کیا ! طبری لکھتاہے : ماہ شوال ۳۸ ہجری میں خوارج کے کچھ گروہ عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے اور عبداللہ نے اپنی تقریر میں کہا: یہ بات شائستہ نہیں ہے کہ لوگ خدا پر ایمان لائیں اور حکم قرآن کو تسلیم کریں اور دنیا کی زندگی ان لوگوں کی نظر میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زیادہ باعث مشقت ہو ، پھر اس کے بعدحرقوص بن زہیر اور حمزہ بن سنان نے بھی گفتگو کی، اور تیسرے نے اپنے کلام کے آخر میں کہا :فولوا أمرکم رجلاً فانه لابد لکم من عمادٍ وسنادٍ ورایة تحفون بها وترجعون الیها ۔(۲)

تم کسی شخص کو اپنا امیر اور حاکم بنائو اس لئے کہ تمہارے لئے ایک ستون ، معتمد اور جھنڈا ضروری ہے جس کے پاس آئو اور رجوع کرو۔

______________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۴۰

(۲) تاریخ طبری ج۶، ص ۵۵

۷۱۶

حکمیت، آخری امید

مسلمانوںکے درمیان ،جنگ صفین سے پہلے اور اس کے بعد بہت سے ایسے بنیادی مسائل تھے کہ جن کے حل کا ایک طریقہ ایسے فیصلہ کرنے والوں کا انتخاب کرنا تھا جوحقیقت بینی کے ساتھ مسائل کی دقیق اور بہترین تحقیق کریں اور پھر ان کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کریں۔ وہ مسائل یہ تھے:

۱۔ عثمان کا قتل ۔

۲۔ امام کے دوستوں پر خلیفہ کے قتل کا الزام ۔

۳۔ معاویہ کا دعویٰ کہ وہ عثمان کے خون کا ولی ہے ۔

بنیادی طور پر یہی مسائل تھے جس کی بنا پرجنگ صفین ہوئی اور ان مشکلوں کے حل کے لئے دو راستے تھے: پہلاراستہ یہ کہ دونوں فریق اپنے اختلافی مسائل کو مہاجرین اور انصار کے ذریعہ چنے ہوئے امام کے پاس پیش کریں اور وہ ایک آزاد شرعی عدالت میں خداکے حکم کو ان کے بارے میں جاری کریں اور یہ وہی راہ تھی جس کے بارے میں امام علیہ السلام نے صفین سے پہلے تاکید کی تھی اور اپنے خط میں معاویہ کو لکھا تھا: ''قد اکثرت فی قتلة عثمان فادخل فیمادخلَ فیه النّاسُ ثمّ حاکمَ القومَ الیّ أن احملک وایّا هم علی کتابِ اللّٰه ''(۱) اور تم نے عثمان کے قاتلوں کا باربار ذکر کیا ہے اور جس دائرہ اطاعت میں لوگ داخل ہوچکے ہیں تم بھی (بیعت کرکے) داخل ہوجاؤ پھر میری عدالت میں ان لوگوں کا مقدمہ پیش کرو تاکہ میں کتاب خدا کے مطابق تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کروں۔دوسراراستہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو ایک صلح پسند عدالت میں بھیج دیا جائے تاکہ وہاں منصف مزاج اورحقیقت پسند قاضی مشکل کا حل تلاش کریں اور فیصلہ کرتے وقت اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی اور واقعی مصلحتوں سے چشم پوشی نہ کریں اور عمروعاص جیسے لوگوں کی ہر طرح کی بن الوقتی اور مفاد پرستی سیاور ابو موسیٰ جیسے لوگوں کے کینہ وبغض سے دو رہوں ، ایسی عدالت میں امام علیہ السلام اپنے حقیقی مقصد تک پہونچ سکتے تھے اور مشکلات کا حل وفیصلہ کرسکتے تھے۔خلیفہ کا قتل بہت پیچیدہ مسئلہ نہ تھا ۔ اس کے عوامل و اسباب کئی سالوں پہلے سے وجود میں آ چکے تھے

______________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب نمبر۶۴

۷۱۷

اور روز بروز بڑھتے ہی جا رہے تھے یہاں تک کہ دبائو اور گھٹن کی شدت صالحین پر ظلم وستم اورمصلحین پر سختی و شکنجہ دھماکے (قت ) کا سبب بن گیا یہ ایسا دھماکاتھا جسے علی علیہ السلام بھی روک نہیں سکے اور خلیفہ کو قتل سے بچانہیں سکے۔

معاویہ اورمقتول خلیفہ کے ہواخواہوں کے دعوے کے لئے ضروری تھا کہ اُسے شرعی عدالت میں

پیش کیا جاتا اورحق وباطل میں تمیز پیدا کی جاتی ۔ دنیا کی کسی بھی جگہ مقتول کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لشکر کشی جائز نہیں سمجھی جاتی،تو پھر تقریباً ۶۵ ہزار انسانوں کے قتل کا جواز کیے ہو سکتا ہے ؟

'' دومة الجندل '' کی عدالت میں اگرصحیح طریقہ سے فیصلہ ہوتا تو ان تمام مسائل کی صحیح چھان بین ہوتی اور مسلمانوں کا وظیفہ ان واقعات کے بارے میں واضح ہوجاتا. مگر افسوس ، اس عدالت میں جس چیز کے بارے میں بحث نہیں ہوئی وہ اختلاف کی جڑیں اور بنیادیں تھیں۔ عمروعاص اپنے رقیب ( ابوموسیٰ) کی عقل و رائے کو سلب کرنے کی فکر میں تھا تاکہ امام علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے کے لئے اس کو راضی کرلے اورمعاویہ کی خلافت نافذ کر دے اور ابوموسیٰ اس فکر میں تھا کہ اپنے ہمفکروہم خیال عبداللہ بن عمر کو خلافت تک پہونچادے کیونکہ اس کا ہاتھ دونوں طرف میں سے کسی ایک کے خون سے آلودہ نہ ہوا تھا ۔ جب عدالت کے نظریہ کا اعلان ہوا تو علی علیہ السلام نے اسے قانونی و اصولی طور پر قبول نہ کیا اورفرمایا: فیصلہ کرنے والوں نے اپنے عہد وپیمان کے خلاف عمل کیا ہے اور ارادہ کیا کہ اپنی فوج کو منظم کر کے معاویہ سے جنگ کنے کو روانہ ہوںلیکن خوارج کے حادثہ نے معاویہ کا پیچھا کرنے سے روک دیا۔

فساد کو جڑ سے ختم کرنا

خوارج کے ساتھ امام علیہ السلام کا برتائو بہت ہی نرم اورلطف و مہربانی سے پُر تھا اور آپ جب بھی ان کو خطاب کرتے تھے تو صرف محبت ، نصیحت اور ہدایت وراہنمائی کرتے تھے اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز آپ سے نہیں سنی گئی ، حضرت نے بالکل اس باپ کے مثل جو چاہتا ہے کہ اپنے عاق اور سرکش بیٹے کوصحیح راستے پر لائے ان لوگوں سے برتائو کرتے تھے،ان کے حقوق کوبیت المال سے ادا کرتے تھے ، مسجد اور اس کے اطراف میں ان کے ظلم وستم اورشوروغل کرتے تھے،

۷۱۸

پرواہ نہ کی اور آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ اس گروہ کو مسخّر اور قابو میں کر کے معاشرے میں اتحاد کوواپس لے آئیں اور شام کے سرطانی غدّہ کو جڑ سے ختم کردیںکیونکہ خوارج بھی اسی کی پیداوار تھے ، اور صفین کا عہد وپیمان بھی امام علیہ السلام کو یہ حق دے رہا تھا کیونکہ عہدنامہ کی عبارت میں یہ بات لکھی گئی تھی کہ اگر حکمین نے قرآن وسنت کے برخلاف فیصلہ کیا تو امام علیہ السلام اپنے پہلے اصل منصب پر باقی رہیں گے(۱) ۔

اما م علیہ السلام نے لوگوں کو یہ بات واضح کرنے کے لئے بہت سی تقریر یں کیں کہ معاویہ سے دوبارہ جنگ صفین کے عہد نامہ کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ اس کے مطابق تو جنگ دوبارہ ہونا چاہیے تاکہ دشمن کا خاتمہ ہوجائے ۔ آپ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں :''وقد سبق استثناؤنا علیهما فی الحکم بالعدل والعمل بالحقّ سوء رأیهماوجور حکمهما ، والثّقةُ فی ایدینا بانفسنا حین خالفا سبیل الحق وآتیٰا بما لایعرف من معکوس الحکمِ ''(۲) ،ہم نے تو ان کی غلط رائے اور ناروا فیصلوں سے پہلے ہی ان سے شرط کرلی تھی کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق پر قائم رہنے میں بدنیتی اور ناانصافی کو دخل نہ دیں گے ، اب جب کہ انہوں نے راہ حق سے انحراف کیاہے اور طے شدہ قرار داد کے برعکس حکم لگایا ہے تو ہمارے ہاتھ میں ان کا فیصلہ ٹھکرادینے کے لئے ایک مستحکم دلیل اور معقول وجہ موجود ہے۔

امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی نظر میں شجرہ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور فساد کے غدہ کو نکال باہر کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا او ر ان لوگوں کی پوری سعی وکوشش یہی تھی لیکن اچانک تاریخ نے ورق پلٹا اور یہ واقعہ اس فکرونظر کے برخلاف ہوگیا اور معاویہ سے جنگ کے بجائے، خوارج سے جنگ ایک قطعی مسئلہ کی صورت میں چھڑ گئی، اب اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ آخر کون سی چیز سبب بنی کہ امام علیہالسلام کے صبروتحمل کا جام لبریز ہوگیا اورآپ کو ان لوگوں سے جنگ کرنے پر مجبور کردیا۔ اس مسئلہ کی علت کو دومندرجہ ذیل باتوں سے معلوم کرسکتے ہیں :

______________________

(۱)عہد نامہ کی عبارت یہ تھی :وان کتاب اللّٰه سبحانه وتعالیٰ بیننا عن فاتحته الیٰ خاتمته ، نحیی ما احیی القرآن ونمیت ماأمات القرآن فان وجد الحکمان ذالک فی کتاب اللّٰه اتبعناه وان لم یجداه اخذا بالسنة العادلة وغیر المفرقة ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ص۲۳۴

(۲)نہج البلاغہ (عبدہ) خطبہ ۱۷۲

۷۱۹

۱۔ خبر ملی کی خوارج عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے ہیں اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے بصرہ میں موجود اپنے ہمفکروں کو خط لکھا ہے اور ان لوگوں کو دعوت دی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو خوارج کی چھاؤنی '' خیبر'' کے پاس نہروان پہونچ جائیں ، بصرہ کے خوارج نے بھی اپنی آمادگی کا اعلان کردیاہے۔(۱)

۲۔دومة الجندل کے قاضیوں کے فیصلے نے ، کہ جس میںنہایت بے حیائی سے امام علیہ السلام کو ان کے منصب سے معزول اور معاویہ کو ان کی جگہ پر منصوب کیا گیا تھا، امام علیہ السلام کوعمومی افکار کے واضح کرنے پر مجبورکیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام علیہ السلام کوفہ کے منبر پر تشریف لائے اور خدا کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا:'' نیک، خیرخواہ اورصاحب علم وبصیرت شخص کی مخالفت حسرت وشرمندگی کاسبب ہے ، میں مسئلہ حکمیت اور ان دونوں آدمیوں کی قضاوت کے بارے میں منفی نظریہ رکھتا تھا لیکن تم لوگوں نے میرے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور ان دونوں کو حاکمیت کے لئے معین کر دیا اور ان لوگوں نے اپنے عہد وپیمان کے برخلاف جس چیز کو قرآن نے مردہ کیا تھا اسے زندہ کردیا اور جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا تھا اسے مردہ کردیا اور اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی اور بغیر دلیل اور حجت کے حکم جاری کردیا ، اسی وجہ سے خدا وپیغمبر اور مومنین ان دونوں قاضیوں سے بری ء الذمہ ہیں ،جہاد کے لئے آمادہ اور شام چلنے کے لئے تیار ہوجاؤ ، اور دوشنبہ کے دن نخیلہ کی چھاؤنی کے پاس جمع ہوجاؤ، خدا کی قسم ! میں اس گروہ (شامیوں ) سے جنگ کروں گا ، اگرچہ ہمارے لشکر میں میرے علاوہ کوئی بھی باقی نہ رہے''۔

۳۔ امام علیہ السلام نے سوچا کہ جتنی جلدی ممکن ہو کوفہ چھوڑ کر صفین پہونچ جائیں ، آپ کے بعض دوستوں نے آپ سے کہا کہ بہتر ہے کہ خوارج جو ہمارے راستے سے دور ہوگئے ہیں انہیں بھی جنگ میں شریک ہونے کے لئے دعوت دیں ، اس وجہ سے امام علیہ السلام نے خوارج کے سرداروں کے پاس خط لکھا اور یاد دہانی کی کہ عمروعاص اورابوموسیٰ نے گناہ کیا ہے اور کتاب خدا کی مخالفت کی ہے اور اپنے خواہشات کی پیروی کی ہے نہ سنت پر عمل کیا ہے اور نہ ہی قرآن پر ، خدا اور اس کا رسول اور مومنین ان کے کرتوت سے بری ء الذمہ ہیں ، جب میرا خط تمہارے پاس پہونچے تو میری طرف آنے میں جلدی کرو تاکہ مشترک دشمن

سے جنگ کرنے کے لئے ایک ساتھ چلیں ۔

_______________________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۳۲

۷۲۰