فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341458
ڈاؤنلوڈ: 5178

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341458 / ڈاؤنلوڈ: 5178
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۴۔ امام علیہ السلام کا خط خوارج کے لئے ذرہ برابر بھی مؤثر ثابت نہ ہواان لوگوں نے حضرت کی درخواست کو رد کردیا۔ اس وجہ سے امام علیہ السلام ان لوگوں سے مایوس ہوگئے اور ارادہ کیا کہ ان لوگوں کا انتظار نہ کریں اور جتنے سپاہی موجود ہیں یا آنے والے ہیں ان کے ساتھ صفین کی طرف جائیں، پھر آپ نے بصرہ کے حاکم ابن عباس کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی، جب امام علیہ السلام کا خط بصرہ کے حاکم کے پاس پہونچا تو انہوں نے لوگوں کے درمیان اس خط کو پڑھ کر سنایا مگر افسوس کہ صرف پندرہ سو آدمیوں نے اخنف بن قیس کی سرداری میں امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہی۔ ابن عباس فوج کی اقلیت پر بہت رنجیدہ ہوئے اور لوگوں کے مجمع میں بہترین تقریر کی اور کہا: '' امیر المومنین علیہ السلام کا خط میرے پاس آیا ہے اور اس میں مجھے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو میرے پاس جنگ میں شرکت کرنے کے لئے روانہ کرو لیکن صرف پندرہ سو (۱۵۰۰) لوگ جہاد کے لئے آمادہ ہیں جب کہ سرکاری رجسٹر میں ساٹھ ہزار آدمی کا نام درج ہے ۔جلدسے جلد روانہ ہوجاؤ اور عذر اور بہانہ سے پرہیز کرو اور جو شخص بھی اپنے امام کی دعوت کی مخالفت کرے گا بہت زیادہ شرمندہ ہوگا ۔ میں نے ابوالاسود کو حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کی روانگی کا پروگرام ترتیب دیں۔

ابوالاسود اور دوسرے افراد کی تمام تر کوششوں کے باوجود صرف اٹھارہ سو (۱۸۰۰) لوگ پہلے گروہ سے ملحق ہوئے اور بالآخر تین ہزار دوسو (۳۳۰۰) افراد پر مشتمل ایک لشکر کوفہ کے لئے روانہ ہوا ، امام علیہ السلام بصرہ کی فوج کی کمی پر بے حد رنجیدہ ہوئے اور کوفہ کے لوگوں کے درمیان آپ تقریر کرنے کے لئے اٹھے اور ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہا:اے کوفہ کے لوگو! تم لوگ حق کے امور میں میرے بھائی اور میرے دوست ہو میں تم لوگوں کی مدد سے ،جوحق سے منھ موڑے گا اسے سرنگوں کردوں گا۔ مجھے امید ہے کہ تم لوگ اس راہ میں حق کے پاسدار اور ثابت قدم رہو گے ، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بصرہ سے صرف تین ہزار دوسو لوگ ہمارے پاس آئے ہیں۔ تم لوگوں پر لازم ہے کہ خلوص کے ساتھ اوردھوکہ ، فریب و خیانت سے دور رہ کر میری مدد کرو، اور قبیلے کے بزرگ اور سردار اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کو خط لکھیںاور ان سے کہیں کہ جو لوگ جنگ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ اس جنگ میں شرکت کریں ۔

۷۲۱

بڑی شخصیتیں مثلاً سعد بن قیس ہمدانی ، عدی بن حاتم ، حجر بن عدی اور قبیلوں کے بزرگ افراد نے امام کے فرمان کو دل وجان سے قبول کیا اور اپنے اپنے قبیلوں کو خط لکھا ، اور اس طرح چالیس ہزار (۰۰۰،۴۰) بہادر جنگجو اور سترہ ہزار (۱۷۰۰۰) نوجوان اور آٹھ ہزار (۸۰۰۰) غلام کوفہ میں داخل ہوئے اور بصرہ کا لشکر بھی اسی میں شامل ہوگیا اور ایک قابل دید اور دشمن شکن لشکر امام علیہ السلام کے پرچم تلے جمع ہوگیا۔

کچھ لوگوں نے امام علیہ السلام سے بہت زیادہ اصرار کیا کہ معاویہ سے جنگ کرنے سے پہلے خوارج کے معاملے کو ختم کردیں ، لیکن امام علیہ السلام نے ان کی درخواست پر توجہ نہ دی اور فرمایا: ان لوگوں کو چھوڑ دو اورایسے گروہ کی طرف چلو جو چاہتے ہیں کہ زمین پر ستمگروں کے بادشاہ رہیں ، اور مومنین کو اپنا غلام بنائیں ، اس وقت فوج کے ہر گوشہ سے آواز بلند ہوئی اور لوگوں نے امام سے کہا :آپ جہاں بھی مصلحت سمجھیں ہمیں بھیج دیں کیونکہ ہم سب کا دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہے اور آپ کی نصرت و مدد کے لئے تڑپ رہا ہے۔

۵۔ایسے حساس حالات میں خبر پہونچی کہ خوارج نے عبداللہ بن خباب کو نہر کے کنارے بھیڑ کی طرح ذبح کردیا ہے اور صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا ہے اور ان کے شکم سے بچہ نکال کر اسے بھی ذبح کردیا ہے۔

ابن قتیبہ '' الامامة والسیاسة '' میں اس بارے میں لکھتے ہیں :جب خوارج عبداللہ کے سامنے آئے تو ان سے کہا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا خدا کا مومن بندہ ہوں۔ ان لوگوں نے کہا: علی کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟ انہوں نے کہا: وہ امیرالمومنین اور خدا اوراس کے رسول پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں ۔ ان لوگوں نے کہا: تمہارا نام کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ، عبداللہ بن خباب بن الارّت ۔ ان لوگوں نے کہا: تمہارا باپ پیغمبر کا صحابی ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ ان لوگوں نے کہا: ہم نے تمہیں ناراض کیا ہے ؟ کہا : ہاں ان لوگوں نے کہا۔ وہ حدیث جو کہ تم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے پیغمبر سے سنی ہے ہمارے لئے نقل کرو ۔ انہوں نے کہا: میرے باپ نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایاہے:'' میرے بعد ایسا فتنہ برپا ہوگا کہ مومن کا دل اس میں مرجائے گا ، رات کو باایمان سوئے گا اور دن میں کافر ہوجائے گا ''۔

۷۲۲

ان لوگوں نے کہا :ہم لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ یہ حدیث تم سے سنیں قسم ہے تمہیں اس طرح قتل کریں گے کہ آج تک اس طرح کسی کو قتل نہیں کیا ہے اور پھر فوراً ہی ان کے ہاتھ پیر باندھ دیئے اورانہیں ان کی حاملہ بیوی کے ساتھ کھجور کے درخت کے پاس لائے ۔اس وقت ایک کھجور پیڑ سے گری اور خوارج میں سے ایک شخص نے اُسے منھ میں رکھ لیا فوراً ہی اس کے ہم خیالوں نے اعتراض کیاکہ لوگوں کے مال کو بغیر اجازت یا بغیر قیمت دیئے ہوئے کھارہے ہو؟ اس نے فوراً کھجور منھ سے نکال دی اور پھینک دیا! اور اسی طرح ایک عیسائی کا سور وہاں سے گزررہا تھا جو کسی خوارج کے تیر سے اس وقت دوسروں نے اعتراض کیا کہ تمہار ایہ کام زمین پر فساد کرنا ہے لہٰذا اس کے مالک سے لوگوںنے رضایت طلب کی ۔پھر عبداللہ کو جنہیں باندھ رکھا تھا نہر کے کنارے لائے اور بھیڑ کی طرح ذبح کردیا اور صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ان کی بیوی کوبھی قتل کردیا اور ان کے شکم کو چاک کرکے بچے کے سر کو بھی کاٹ دیا ، اور پھر بھی اتنے ہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ تین اور دوسری عورتوں کو بھی قتل کردیا جن میں سے ایک صحابیہ تھیں جن کا نام ام ّ سنان تھا(۱) ۔

خباب بن الارّت ، عبداللہ کے والد ، اسلام کے سابقین میں سے تھے اور قریش کے شکنجوں کے نشانات ان کے بدن پرآخر وقت تک موجودتھے۔ وہ امام علیہ السلام کے صفین سے کوفہ پہونچنے سے پہلے ہی انتقال کرگئے اورامام علیہ السلام صفین سے آنے کے بعد ان کی قبر پر گئے اور ان کے رحمت کی اور تعریف کی۔

مبرّدنے اپنی کتاب '' کامل '' میں عبداللہ کے دردناک قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب قاتل نے انہیں پکڑا تو عبداللہ نے کہا : میں تم سے درخواست کرتاہوں کہ جس چیز کو قرآن نے زندہ کیا ہے اسے زندہ کرو اور جس چیز کو مردہ کیاہے اسے ماردو، پھر عبداللہ کی روایت ان کے والد کے واسطے پیغمبر سے نقل کرنے کے بعدمبرد لکھتے ہیں:خوارج نے کھجور کے مالک سے درخواست کی کہ اس کی قیمت لے لے، اس نے کہا کہ میں نے اس پیڑ کی کھجور کے استعمال کو تم لوگوں کے لئے بخش دیاہے لیکن ان لوگوں نے قبول نہیں کیا اورکہا کہ تم کو اس کی قیمت لینا پڑے گی ، اس وقت ایک عیسائی نے فریاد بلند کی کہ تم لوگ ایک مسلمان کا خون بہانے سے نہیں ڈرتے لیکن ایک پھل کھانے سے پرہیز کرتے ہو جب کہ اس کے مالک

______________________

(۱) الامامة والسیاسة: ص۱۳۶۔

۷۲۳

نے رضایت بھی دیدی ہے ؟!(۱)

۶۔ امیرالمومنین علیہ السلام جب عبداللہ کے قتل سے باخبر ہوئے تو حارث بن مرّہ کو خوارج کی چھاؤنی بھیجا تاکہ واقعہ کی حقیقت معلوم کریں جب حارث ان کے پاس پہونچے تاکہ واقعہ کا صحیح پتہ لگائیں تو ان لوگوں نے تمام اسلامی اورانسانی اصولوں کے برخلاف انہیں قتل کردیا۔ امام علیہ السلام پر سفیر کے قتل ہونے کی وجہ سے بہت اثرہوا ۔اس موقع پر کچھ لوگ امام علیہ السلام کے پاس پہونچے اور کہا : کیا یہ صحیح ہے کہ ایسے خطروں کے باوجود ہم شام جائیں اور اپنے بچوں اور عورتوں کو ان کے پاس چھوڑدیں؟

______________________

(۱) الکامل: ص ۵۶۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۲، ص۲۸۲۔

۷۲۴

عبداللہ کے قاتلوں کی تنبیہ

عبداللہ کے قتل سے جو وحشت اور رعب پیدا ہوا اس نے امام علیہ السلام کو آمادہ کیا کہ جہالت اور بدبختی کو جڑ سے ختم کردیں ، اسی وجہ سے آپ نے ارادہ کیا کہ حروراء یا نہروان جائیں جب امام روانہ ہونے لگے تو اس وقت آپ کے دوستوں میں سے ایک شخص نے جو علم نجوم میں ماہر تھا ، علی علیہ السلام کو اس وقت سفر کرنے سے منع کیا اور کہا: اگر اس وقت آپ نے سفر کیا تو بہت سخت مشکل میں گرفتار ہوں گے امام علیہ السلام نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی اور ان مسائل میں علم نجوم سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں تنقید کرتے ہوئے فرمایا: نجوم کو جنگل کی تاریکیوں اور دریاؤں میں راہنمائی کے لئے استعمال کرو ، قضاء الہی سے امام علیہ السلام کو عظیم کامیابی ملی۔ امام علیہ السلام کوفہ سے کچھ ہی دور ہوئے تھے کہ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک شخص دوڑا دوڑا آیا اور کہااے امیرالمومنین !بشارت دیجئے کہ خوارج کا گروہ آپ کے سفر سے آگاہ ہوگیا اور بھاگ گیا اور نہر عبور کرچکا ہے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو نہر عبور کرتے دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: ہاں ، امام نے اُسے تین مرتبہ قسم دی اور اس نے تینوں مرتبہ قسم کھا کر کہا: میں نے خوارج کو پانی اور پل پر سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:

۷۲۵

''واللّٰه ما عبروه ولن یعبروه وانّ مصارِعَهم دون النّطفة والذی خلق الحبّة وبرئَ النسمة لن یبلغوا الا ثلاث ولا قصربوازِن ''(۱) خدا کی قسم ان لوگوں نے دریا کو عبور نہیں کیا ہے اور عبور کربھی نہیں کرسکتے ، ان کا مقتل دریا کے کنارے ہے۔ اس خدا کی قسم جس نے دانوں کو چاک کیا اور انسانوں کو پیدا کیا وہ لوگ '' اثلاث '' اور'' قصربوازن'' بھی نہیں پہونچ پائیں گے۔

اس شخص کی دو آدمیوں نے اور بھی تائید کی لیکن امام علیہ السلام نے ان کی باتوں کو قبول نہیں کیا اور امام کس طرح سے قبول کرتے کیونکہ پیغمبر معصوم (ص) نے آپ کو خبر دی تھی کہ تین گروہ سے تمہاری جنگ ہوگی ؟ دوگروہوں سے جنگ ہوچکی تھی اور تیسرا گروہ پیغمبر کے قول میں ذکر شدہ نشانیوں کے مطابق یہی گروہ تھا ۔ اس وقت ایک جوان شک وشبہ میں پڑ گیا اور سوچنے لگاکہ عینی شاہدوں کی بات مانے یا امام علیہ السلام کی غیبی باتوں کو صحیح مانے ، آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اگر امام علیہ السلام کی بات کے برخلاف ثابت ہوا تو ان کے دشمن سے مل جائے گا۔

امام علیہ السلام گھوڑے پر سوار ہوئے اور آپ کی فوج بھی پیچھے پیچھے چلی، جب خوارج کی چھاؤنی پر پہونچے تو پتہ چلا کہ ان لوگوں نے نیام کو توڑ ڈالا ہے اور گھوڑوں کو چھوڑدیا ہیاور جنگ کے لئے تیار ہیں اس وقت وہ سادہ لوح نوجوان امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اپنے برے خیال کے متعلق امام سے معافی مانگی۔

تاریخ بیان کرتی ہے کہ امام علیہ السلام مدائن سے گزر کر نہروان پہونچے اور انہیں پیغام دیا کہ عبداللہ اور اس کی بیوی بچے کے قاتل کو ہمارے حوالے کریں تاکہ ان کا قصاص لیں۔ خوارج نے جواب دیا ہم سب نے مل کر انہیں قتل کیا ہے اور ان کے خون کو حلال سمجھا ہے۔ امام علیہ السلام ان کے نزدیک پہونچے اور فرمایا:

'' اے (سرکش)گروہ میں تم کو متنبّہ کررہا ہوں کہ ایسا نہ ہوکہ کل امت اسلامی تم کو لعنت کامستحق قراردے اور بغیر کسی واضح دلیل کے دریا کے کنارے قتل کردیئے جاؤ۔

میں نے تم لوگوں کو مسئلہ حکمیت قبول کرنے سے منع کیا اور میں نے کہا تھا کہ بنی امیہ کو نہ دین

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص۲۷۲''مضارعهم دون النطفةواللّٰه لایفلت منهم عشرةولا یهلک منکم عشرة'' خطبہ ،۵۸

۷۲۶

سے محبت ہے اور نہ قرآن ہی چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو بچپن سے لے کر اس وقت تک کہ وہ بڑے ہوئے ہیں خوب پہچانتاہوں ، وہ لوگ بد ترین بچے اور بدترین لوگ ہیں ۔لیکن تم لوگوں نے میری بات غور سے نہیں سنی اور میری مخالفت کی اور میں نے ایسے ہی دن کے لئے دونوں قاضیوں سے عہد وپیمان لیا کہ جو کچھ قرآن نے زندہ کیاہے اُسے زندہ کریں اور جس چیز کو ختم کیا ہے اسے ختم کر دیں اب جبکہ دونوں نے قرآن و سنت کے برخلاف حکم کر دیا ہے ہم اپنے پہلے ہی قول اور طریقے پر باقی ہیں(۱)

'' خوارج کے پاس امام علیہ السلام کی معقول اور محکم گفتگو کے جواب میں بے ہودہ باتوں کی تکرار کے علاوہ کچھ نہیں تھااور اصرار کررہے تھے کہ مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے ہم سب کافر ہوگئے ہیں اور ہم نے توبہ کی ہے آپ بھی اپنے کفر کا اعتراف کیجیے اور توبہ کیجئے، اس صورت میں ہم آپ کے ہمراہ ہیں اور اگر ایسا نہیں کیا تو ہم کوچھوڑ دیجیے اور اگر جنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم جنگ کے لئے تیار ہیں ''۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا رسول اسلام پر ایمان اور ان کی رکاب میںجہاد کرنے کے بعد اپنے کفر پر گواہی دوں ؟ کیا مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے تم لوگوں نے اپنی تلواروں کو کاندھوں پر رکھا ہے اور انھیں لوگوں کے سروں پر مارنا چاہتے ہو اور لوگوں کا خون بہانا چاہتے ہو ؟یہ تو کھلا ہوا گھاٹاہے۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ خطبہ نمر ۳۶ کی طرف رجوع کریں

۷۲۷

آخری اتمام حجت

امام علیہ السلام ان کے ساتھ گفتگو کرنے سے مایوس ہوگئے اور اپنی فوج منظم کرنے لگے فوج کے میمنہ کا سردار حجر بن عدی کواور میسرہ کا سردار شبث بن ربعی کو بنایا اور ابو ایوب انصاری کوسواروں کاسردار اور ابو قتادہ کو پیادہ چلنے والوں کا سردار بنایا ۔اس جنگ میں امام علیہ السلام کے ساتھ آٹھ سو صحابی شریک تھے اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کا سردار قیس بن سعد بن عبادہ کو بنایا اور خود میںتھے پھر سوار لوچگوں میں ایک پرچم بلند کیا اور ابو ایوب انصاری کو حکم دیا کہ بلند آواز سے کہیں کہ واپسی کا راستہ کھلا ہواہے اور جو لوگ اس پرچم کے سایہ میں آجائیں گے ان کی توبہ قبول ہوجائے گی اور جو شخص بھی کوفہ چلا جائے یا اس گروہ سے الگ ہوجائے وہ امن وامان میں رہے گا ، ہم تم لوگوں کا خون بہانا نہیں چاہتے اس وقت ایک گروہ پرچم کے نیچے

۷۲۸

آگیا اور امام علیہ السلام نے ان کی توبہ قبول کرلی ۔(ا) بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خوارج میں سے ایک ہزار لوگوں نے واپسی کا راستہ اختیار کر لیا اور پرچم کے سایہ میں آگئے ۔خوارج کے بعض سردار جو امام علیہ السلام کی طرف آگئے ان کے نام یہ ہیں ، مسعر بن فدکی ، عبداللہ طائی ، ابومریم سعدی، اشرس بن عوف اور سالم بن ربیعہ۔ حقیقت میں صرف عبداللہ بن وہب راسبی کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی بھی سردار نہ بچا(۲) ۔

طبری لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام کی فوج میں اس گروہ کے شامل ہونے کے بعد خوارج کی فوج میں کل دو ہزار آٹھ سو (۲۸۰۰) سپاہی بچے،(۳) اور ابن اثیر نے ان کی تعداد ایک ہزار آٹھ سو (۱۸۰۰)لکھی ہے ۔

امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ جب تک دشمن جنگ شروع نہ کرے تم لوگ جنگ شروع نہ کرنا۔ اسی وقت خوارج میں سے ایک شخص بڑھا اور امام علیہ السلام کے ساتھیوں پر حملہ کیا اور تین آدمیوں کو قتل کردیا ، اب امام علیہ السلام نے اپنے حملہ سے جنگ شروع کی اور اپنے پہلے ہی حملے میں اس شخص کو قتل کردیا اور پھر اپنے فوجیوں کو حملہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: خدا کی قسم تم لوگوں میں دس آدمی کے علاوہ کوئی قتل نہیں ہوگا اور ان میں سے صرف دس آدمی کے علاوہ کوئی زندہ نہیں رہے گا(۴) ۔اس وقت عبداللہ بن وہب راسبی میدان میں آیا اور کہا : اے ابوطالب کے بیٹے !تم سے اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک تمہیں قتل نہیں کردو یا تم مجھے قتل کر دو ۔ امام علیہ السلام نے اس کا جواب دیا: خدا اسے قتل کرے کتنا بے حیا شخص ہے وہ جانتاہے کہ میں تلوار اور نیزہ کا دوست ہوں۔ اور فرمایا کہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا ہے اور جھوٹی امید میرے خلاف باندھے ہے۔ پھر ایک ہی حملہ میں اسے قتل کرکے اس کے دوستوں سے ملحق کردیا(۵) ۔اس جنگ میں بہت کم وقت میں امام علیہ السلام کو کامیابی مل گئی، امام علیہ السلام کے بہادر سپاہیوں

______________________

(۱)الاخبار الطوال ص۲۱۰۔----(۲)مقالات اسلامیین ج۱، ص ۲۱۰۔----(۳)کامل ابن اثیر ج۳،ص ۳۴۶۔ تاریخ طبری ج۴،ص ۶۴ ۔

(۴) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص۲۷۳،۲۸۲

(۵)الامامة والسیاسة ص۱۳۸

۷۲۹

نے داہنے بائیں سے اور خود امام علیہ السلام نے قلب لشکر سے اپنے بدترین وذلیل دشمن پر حملہ کیااورکچھ ہی دیر میں خوارج کے بے جان جسم زمین پر پڑئے ہوئے نظر آئے ۔اس جنگ میں تمام خوارج قتل ہوگئے ، صرف نو آدمی باقی بچے تھے جن میں دو شخص خراسان میں، دو شخص عمّان میں، دو شخص یمن میں، دو شخص جزیرہ عراق میں اورایک شخص نے '' تلّ موزن '' میں پناہ لی ، اور وہیں زندگی بسر کرنے لگے اور خوارج کی نسل کو باقی رکھا(۱) ۔

امام علیہ السلام جنگ کے بعد ان کے مردہ جسموں کے درمیان کھڑے ہوئے اور بہت ہی افسوس کرتے ہوئے فرمایا:''بؤساً لکم ، لقد ضرَّ کم من غرَّکم ، فقیل له' من غرّهم یا امیرالمومنین ؟ فقال: الشیطانُ المضلُّ والا نفسُ الامّارة بالسُّوئِ غرّتهم بالامانیّ وفسحت لهم بالمعاصی ووعدتهم الا ظهار فأ فتحمت بهم النّار ''(۲) تمہارے لئے بدبختی ہو ، جس نے تم لوگوں کو دھوکہ دیا اس نے تمہیں بہت بڑا نقصان پہونچایا۔ لوگوں نے پوچھا :کس نے انہیں دھوکہ دیاہے ؟ آپ نے فرمایا:گمراہ کن شیطان اور سر کش نفسوں نے ان لوگوں کو لالچ دے کر دھوکہ دیا اور نافرمانی کی راہوں کو ان کے لئے کھول فیا اور انہیں کامیابی کا وعدہ دیا اور بالآخر ان لوگوں کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا۔

امام علیہ السلام کے دوستوں نے سمجھا کہ خوارج کی نسل ختم ہوگئی ہے لیکن امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا:''کلّا ، واللّٰه انّهم نطففی اصلاب الرجال وقرارات النساء ، کلّما نَجَمَ منهم قرن قُطِعَ حتٰی یکون آخرهم لصوصاً سلّابین ''(۳) نہیں ایسا ہرگزنہیں ہے ، خدا واہ ہے کہ وہ لوگ بصورت نطفہ مردوں کے صلب میں اور عورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں سے کوئی سرنکالے گا (حکومتوں کی طرف سے اسے) کاٹ دیا جائے گا ( اور دوسرا سروہیں پر نکل آئے گا) یہاں تک کہ آخر میں صرف چور اور لٹیرے ہو کر رہ جائیں گے ۔

______________________

(۱) کلمات قصار نمبر ۳۱۵۔

(۲) کشف الغمہ ج۱، ص ۲۶۷۔

(۳) نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۵۹۔

۷۳۰

پھر آپ نے فرمایا: میرے بعد تم لوگ خوارج سے جنگ نہ کرنا کیونکہ تمہارا اصلی دشمن معاویہ ہے اور میں نے امن وامان کی حفاظت کے لئے ان لوگوں سے جنگ کی ہے ان میں سے بہت کم لوگ بچے ہیں اوروہ جنگ کرنے کے لائق نہیں ہیں ۔

امام علیہ السلام نے جنگی غنائم میں سے اسلحہ اور چوپایوں کو اپنے فوجیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور ان کے سامان زندگی، کنیزوں اور غلاموں کو ان کے وارثوں کو واپس کردیا ۔ پھر اپنی ہماری تلواریں ٹوٹ گئی ہیں اور تیر ختم ہوگئے ہیں ، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ کوفہ واپس چلیں اپنی قوت میں اضافہ کریں پھر آگے بڑھیںفو ج میں آئے اور فوجیوں کی جواں مردی کی تعریفیں کیں اور فرمایا اسی وقت صفین کی طرف بڑھنا ہے تاکہ فتنہ کو جڑ سے ختم کر دیا جائے مگر فوجیوں نے کہا ہم تھک گئے ہیں ان لوگوں نے واپس جانے پر اتنا زیادہ اصرار کیاکہ امام علیہ السلام کو افسوس ہوا اور مجبوراً آپ ان لوگوں کے ساتھ نخیلہ کوفہ کی چھاؤنی پر واپس آگئے ۔ وہ لوگ دھیرے دھیرے کوفہ چلے جاتے تھے اور اپنی بیوی بچوں سے ملتے تھے اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ چھاؤنی پر کچھ ہی لوگ باقی بچے ۔ اتنے کم سپاہیوں کے ساتھ شامیوں سے جنگ کرنا ممکن نہ تھا۔

فتنۂ خوارج کے خاتمہ کی تاریخ

سرزمین صفین پر امام علیہ السلام کے اوپر خروج کرنے کی فکر ماہ صفر ۳۸ ہجری میں پیدا ہوئی اور زمانے کے ساتھ ساتھ کتاب خدا کے حکم کی مخالفت شدید ہوتی گئی ، کوفہ کے خوارج ماہ شوال ۳۸ کو عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ہوئے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی اورکوفہ چھوڑنے کا ارادہ کیا اوروہاں سے'' حروراء ''اور پھر '' نہروان '' چلے گئے ۔ امام علیہ السلام نے اپنے شام کے پروگرام کو مجبوراً بدل کر خوارج سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا اور مؤرخین کے نقل کرنے کے مطابق ۹ صفر ۳۸ ہجری کو فساد کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳، س۹۸ ۔والخوارج

۷۳۱

چھٹاباب

جنگ نہروان کے بعد کے واقعات اورحضرت علی علیہ السلام کی شہادت

پہلی فصل

لوٹ مار، بدامنی اور دردناک قتل عام

جنگ نہروان کی ناگہانی آفت وبلا امام علیہ السلام کے استقلال اور آپ کے باوفا ساتھیوں کی ہمت سے ختم ہوئی اور اب وہ وقت آگیا کہ امام علیہ السلام سرکشوں سے اپنی فوج کی پاکسازی کے لئے دوسری مرتبہ اسلامی سرزمین پرامن اورراحت کوزندہ کریں ، اور معاویہ اورفریب خوردہ شامیوں کی خود غرضی کو ختم کردیں کیونکہ تمام فتنہ وفساد کی جڑ ابوسفیان کا بیٹا تھا۔

معاویہ نے عراق میں اپنے جاسوس معین کئے تھے تاکہ مسلسل ساتھ تمام واقعوں کی خبر اسے دیتے رہیں ، ان میں سے بعض جاسوس علی علیہ السلام سے پرانا کینہ اور بغض وحسد رکھتے تھے مثلاً ولید بن عقبہ بھائی عمارة بن عقبہ ، یہ دونوں بھائی جو بنی امیہ کے شجرۂ خبیثہ کی شاخوں میں سے تھے، ، چونکہ امام علیہ السلام نے اس خبیث خاندان کے بہت سے افراد پر زبردست اور کاری ضربیں لگائی تھیں اس لئے یہ لوگ امام علیہ السلام کی دشمنی کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے خصوصاً ولید کا باپ جنگ بدر میں علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوا تھا ، ولید وہی شخص ہے جس کو قرآن نے سورہ حجرات کی چھٹی آیت میں فاسق کہا ہے اورعثمان کی حکومت کے زمانے میں امام علیہ السلام نے اسے تازیانہ مارا اور شراب پینے کی وجہ سے اس پر حد جاری کی ، اس بنا پر کوئی تعجب نہیں ہے کہ اس کابھائی عمارہ کوفہ میں معاویہ کا جاسوس ہواور خود ولیدامام علیہ السلام کی تمام جنگوں میں معاویہ کو تشویق اور ترغیب دلانے والاہو۔عمارہ نے معاویہ کو خط لکھا جس میں علی ـ کے ساتھیوں کے درمیان تفرقہ واختلاف اور نہروان کے واقعہ کو تحریر کیا اور لکھا کہ بہت سے قاریان قرآن اس جنگ میں علی اور ان کے دوستوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں، اس وجہ سے ان کے درمیان اختلاف اور نااتفاقی بڑھ گئی ہے۔ اس نے ایک مسافر کے ذریعہ خط کو شام روانہ کیا۔ معاویہ نے خط پڑھا اور دونوں بھائیوں کا شکریہ ادا کیا جن میں ایک موجود تھا اور دوسرا غائب تھا(۱) ۔

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغۂ ابن ابی الحدید :ج۲ ص۱۱۴،۱۱۵ بحوالہ تاریخ۔

۷۳۲

معاویہ نے بدامنی پھیلانے ، لوٹ مار کرنے اور امام علیہ السلام کے شیعوں کے قتل کے لئے مناسب موقع دیکھا ،اسی وجہ سے اس نے چند گروہ حجاز، یمن اور عراق کے علاقوں میں بھیج کر ذہنی و نفسیاتی جنگ کا آغاز کردیا وہ دھوکہ ،فریب ، بے گناہ افراد کا قتل ، عورتوں اور محتاجوں کا مال غارت وبرباد کرکے نہ صرف امام علیہ السلام کے ذہن سے شام کو شکست دینے کا خیال نکالنا چاہ رہا تھا دیا بلکہ عملی طور پر یہ ثابت کرنا چاہ رہا تھا کہ مرکزی حکومت اپنی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرسکتی ہے۔

یہ سیاست جو حقیقت میں شیطانی سیاست تھی اس نے اپنا اثر دکھایا، معاویہ نے حضرت علی ـ حکومت کے حدود میں بہت سے سنگدلوں کو بھیج کر امام علی علیہ السلام کی حکومت کے ایک ہزار آدمیوں کو قتل کرادیااور ان سرکش و نافرمان حملہ کرنے والوں نے بچوں اور عورتوں پر بھی رحم نہیں کیا اور جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا ان لوگوں نے عبیداللہ بن عباس کے دو بچوں کا سر لوگوں کے سامنے قلم کردیا۔

امام علیہ السلام کی حکومت کا یہ دورتاریخ کا بہت غمگین اور درد ناک دور تھا البتہ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امام علیہ السلام کے پاس دشمن کو نابود وبرباد کرنے کے لئے کوئی سیاسی تدبیر یا دوسرا طریقہ نہ تھا بلکہ جو چیز مشکل تھی وہ صرف مٹھی بھر فضول اور بہانے باز ، آرام طلب اور اس سے بھی بدتر وہ لوگ تھے ایسے سادہ لوح تھے کہ ہر کسی کی بات سن کر مان لیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ امام علیہ السلام اپنے بلند وعالی ترین مقصد تک نہیں پہونچ سکے، تاریخ نے ان وحشیانہ حملوں کو بہت ہی دقیق ذکر کیاہے اورہم یہاں پر اسین حملوں کی ایک واضح تصویر پیش کررہے ہیں تاکہ معاویہ کا عہد وپیمان ،اسلامی اور انسانی اصولوں کی نسبت سے واضح ہوجائے۔

۷۳۳

۱۔ضحّاک بن قیس کی لوٹ مار

معاویہ کو خبر ملی کہ امیر المومنین شام کی طرف روانہ ہونے والے ہیں تاکہ دوبارہ جنگ کا آغاز کریں ، معاویہ نے اس سلسلے میں خطوط لکھے اور اپنے نمائندوں کو شام کے تمام علاقوں میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو خط کے مضمون سے آگاہ کریں، شام کا ایک گروہ عراق کی طرف جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ حبیب بن مسلمہ نے ان لوگوں سے کہا : صفین سے آگے نہ بڑھنا کیونکہ ہم نے اسی جگہ پر دشمن غلبہ حاصل کیا تھا اور کامیاب ہوئے تھے لیکن عمروعاص نے رائے دی کہ معاویہ اپنی فوج کے ساتھ عراق کی سرزمین کے اندر تک گھس جائے کیونکہ یہ کام شام کے فوجیوں کو حوصلہ اور قوت عطا کرے گا اور اہل عراق کے لئے ذلت کا باعث ہو گا معاویہ نے اس کی بات مان لی مگر کہا: شام کے لوگ صفین سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے ۔ ابھی اس موضوع پر گفتگو ہورہی تھی کہ فوج کہاں قیام کرے کہ اچانک خبر ملی کہ امام علیہ السلام اور خوارج کے درمیان بہت زبردست جنگ ہوئی ہے اور وہ اپنی فوج کے سرکشوں پر کامیاب ہوگئے ہیں اور لوگوں سے کہا ہے کہ شام کی طرف روانہ ہوں لیکن ان لوگوں نے مہلت طلب کی ہے ۔ پھر عمارة بن عقبہ بن ابی معیط کا خط پہونچا جس میں اس نے لکھا کہ علی علیہ السلام کے دوستوں میں تفرقہ واختلاف اور فوج کے قاریوں اور عابدوں نے ان کے خلاف فساد برپا کر رکھا ہے اور ان کے درمیان شدید جنگ اور ان کی سرکوبی کے باوجود اختلاف ابھی بھی باقی ہے۔

ایسے حالات میں معاویہ نے ضحّاک بن قیس فہری کی سرداری میں تین سے چار ہزار لوگوںکو چنا اور حکم دیا کہ کوفہ جائیں اور جن قبیلوں کے لوگ امام کے مطیع وفرماں بردار ہیں انہیں غارت و برباد کردیں اور یہ کام بہت تیزی کے ساتھ انجام دیں اس طرح سے کہ اگر کسی شہر میں بالکل صبح سویرے داخل ہوں تو اسی دن شام کو دوسرے شہر میں رہیں اور کہیں پر بھی قیام نہ کریں کہ اپنے مقابلے والوں سے جنگ کرنی پڑے بلکہ جنگ و گریز اور لوٹ مارکرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھیں۔

۷۳۴

ضحّاک چلتے چلتے '' ثعلبیہ '' دیہات پہونچا جو عراقیوں کے مکہ جانے کا راستہ تھا اس نے حاجیوں کے مال و سامان کو لوٹا اور پھر اپنا سفر جاری رکھا اور پھر عمروبن عمیس عبداللہ بن مسعود کے بھتیجے کے روبرو ہوا اور انہیں اور ان کے ساتھ بہت سے لوگوں کو قتل کردیا۔جب حضرت علی علیہ السلام کو ضحّاک کی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کی خبر ملی تو امام علیہ السلام منبر پر گئے اور کہا: ''اے لوگو! ، بندہ صالح عمرو بن عمیس کی طرف جلدی جاؤ، اپنے دوستوں کی مدد کے لئے اٹھو جو دشمن کے حملے سے زخمی ہوئے ہیں ، روانہ ہو جائواور اپنے دشمن سے جنگ کرو اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو تاکہ دشمن اسے عبور نہ کرسکے ، ان لوگوں نے امام علیہ السلام کی تقریر کے مقابلے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ،جب امام نے ان کی سستی اور ناتوانی کو مشاہدہ کیا تو فرمایا: ''خدا کی قسم !میں حاضر ہوں کہ تم لوگوں میں سے دس آدمیوں کو معاویہ کے ایک آدمی سے بدل لوں ، لعنت ہو تم پر کہ میرے ساتھ میدان میں آؤ اور مجھے بیچ میدان میں چھوڑدو اور بھاگ جاؤ ، خدا کی قسم میں بابصیرت موت سے ناخوش نہیں ہوں اور اس میں میرے لئے بہت بڑی آسائش ہے کہ تم سے

۷۳۵

اور تمہاری سختیوں سے نجات پاجائوں گا'' ۔(۱)

امام علیہ السلام منبر سے اترے اور روانہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ سرزمین '' غریبین'' پہونچے اور پھر حجر بن عدی کو چار ہزار فوج کا سردار بنایا اور ان کے لئے علم باندھا ، حجر روانہ ہوئے اور سرزمین '' سماوہ'' پہونچے اور مستقل ضحاک کی تلاش میں تھے یہاں تک کہ '' تدمر'' کے علاقہ میں اس کو پالیا۔ دونوں گروہوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی اور دشمن کی فوج کے ۱۹ آدمی اور علی علیہ السلام کے دو آدمی مارے گئے ، ضحاک نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھایا اور بھاگ گیا اور صبح تک اس کا کوئی پتہ نہ تھا۔ ضحاک عراق سے بھاگنے کے بعد پیاس کی شدت سے جاں بلب ہوا ، کیونکہ جس اونٹ پر اس نے پانی رکھا تھا وہ راستے میں غائب ہوگیا لیکن بالآخر اس نے اطراف میں رہنے والوں سے پانی طلب کیا اور اپنی پیاس بجھائی ۔

امام علیہ السلام نے ضحاک کی لوٹ مار اورغارتگری پر ایک خطبہ دیا جس کا خلاصہ یہاں تحریر کررہے ہیں:''ایها الناس، المجتمعةُ أبد انُهُم المختلفةُ أهوا ؤهُم کلَا مُکم یوهِی الصُّمَّ الصِّلابَ وفِعلکم یُطمِعُ فیکُم الاعداء َ تقولونَ فی المجالسِ: کَیتَ وکَیتَ فاذا جَائَ القتالُ قُلتُم حیدِی حیادٍ '' ،اے وہ لوگو! جن کے جسم یکجا اور خواہشیں مختلف ہیں تمہاری باتیں سخت پتھروں کو نرم کردیتی ہیں مگر تمہارا عمل تمہارے بارے میں دشمنوں کو لالچ دلاتا ہے اپنی مجلس میں بیٹھ کر کہتے ہو کہ یہ کرینگے وہ کرینگے اور جب جنگ کا وقت آجائے تو کہتے ہو ائے جنگ دور ہو، دور ہو ۔

''۔۔۔أیّ دارٍ بعد دارِکم تمنعون؟ ومع ای اِمام بعدِی تقاتلون؟ المغرور واللّٰه من أ غررتموه و من فاز بکم فقد فاز واللّٰه بالسَّهم الاخیبِ ومن رمیٰ بکم فقد رمیٰ بأفوق ناصِل '' ، '' اپنا گھر چھن جانے کے بعد کس کے گھر کی حفاظت کروگے؟ اور میرے بعد کس امام کے ساتھ رہ کرجہاد کروگے؟، خدا کی قسم جسے تم اپنے فریب میں مبتلا کرلو وہ دھوکہ میں ہے اور جو تمہارے ذریعہ کامیاب ہونا چاہے اس کے حصّے میں ناکام تیر آئے گا ( جس کا کوئی انعام نہ ہو) اور جس نے تمہارے ذریعہ تیر چلایا گا اس نے (گویا) شکستہ پیکان سے نشانہ لگایا''۔

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ نمبر۷ ۹

۷۳۶

خطبہ کے آخر میں فرماتے ہیں : ''القوم رجال أمثالُکم، أقولاً بغیرعلم ٍ ؟وغفلَة ً من غیرورعٍ ؟ وطمعاً فی غیرحقٍّ ''؟(۱) '' (دشمن )لوگ (شامی) بھی تمہارے ہی جیسے مرد ہیں ، کیا عقیدہ کے بغیر باتیں صحیح ہیں ؟تقوی کے بغیر غفلت صحیح ہے؟ کیا نا حق چیز میں طمع صحیح ہے ؟

امام علیہ السلام کے بھائی عقیل کو ضحاک کے حملہ کی خبر ملی اور مکہ سے آپ کے پاس ہمدردی کے طور پر خط لکھا اور خط کے آخر میں لکھا کہ اگر اجازت دیں تو اپنے بچوں کے ساتھ عراق آجاؤں اور اپنے بھائی کی خوشی اور غم میں شریک رہوں کیونکہ میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ حضرت کے بعد زندہ رہوں ، امام علیہ السلام نے اپنے بھائی کو جواب لکھا جوکہ آپ کا تاریخی خط ہے اور اس میں قریش کے حالات اور ان کے ظلم وستم کو اس انداز سے لکھا:

''الا وان العرب قد اجمعت علیٰ حربِ اخیک الیوم اجماعَها عَلیٰ حربِ رسول اللّٰه قبل الیوم فاصبحوا قد جهِلوا حقّه' وجَحدوا فضله وبادروه العداوةونصبوا له الحرب وجهدو ا علیه کلَّ الجحد وجرّوا اِلیه جیش الاحزاب ''(۲) ، '' آج عرب نے تمہارے بھائی کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے عہد کر لیا ہے جیسا کہ اس سے پہلے پیغمبر سے جنگ کرنے کے لئے عہد وپیمان باندھا تھا۔ ان لوگوں نے تمہارے بھائی کے حق سے انکار کردیا ہے اور اس کی فضیلت کو نظر انداز کردیاہے اور دشمنی کرنے میں بہت جلدی کی اور پیغمبر کے زمانے میں اس کی سخت ترین محنت وں وکوششوں سے چشم پوشی کرلی ہے اور بالآخر احزاب کی فوج لے کر اس کے سامنے آگئے ہیں''۔امام ـ کایہ کلام اس بات کی حکایت کرتاہے کہ آپ معاویہ کے ساتھ جنگ کو پیغمبر کی ابوسفیان کے ساتھ جنگ کا سلسلہ سمجھتے ہیں۔ حقیقتاً جنگ احزاب عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے سے صفین میں دوبارہ برپا کی گئی۔

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۲۹۔ الغارات ثقفی: ج۲، ص ۴۱۶۔ تاریخ طبری: ج۴، ص ۱۰۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۲ ص ۱۱۱تا۱۲۵

(۲)الغارات ج۲، ص ۴۳۱

۷۳۷

۲۔ بُسر کو حجاز ویمن بھیجنا

امام علیہ السلام نے یمن کے ایک حصے کا والی عبیداللہ بن عباس کو بنایا تھا اور ایک دوسرے حصّے جند(۱) کا والی سعید بن نمران کو بنایا تھا۔ یمن کے مرکزی علاقہ میں کچھ ایسے گروہ تھے جو عثمان اور عثمانیوں پیروی کرتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کی حکومت سے کوئی رغبت نہیں رکھتے تھے بلکہ ہمیشہ دھوکہ ،فریب اور فتنہ وفساد کی فکر میںرہتے تھے جب ان لوگوں کو خوارج کے حادثہ اور امام کی فوج میں اختلاف کی خبر ملی تو مخالفت کرنے لگے یہاں تک کہ سعید بن نمران کو جند کے علاقہ سے باہر نکال دیا، ایک گروہ جو فکر کے اعتبار سے عثمانی نہ تھا وہ بھی مالیات (ٹیکس) ادا نہ کرنے کی وجہ سے فسادیوں کے ساتھ مل گیا ۔

سعید بن نمران اور عبیداللہ ابن عباس نے مخالفین کے تما م حالات امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے کوفہ میں یمن کی ایک عظیم شخصیت یزید بن قیس ارحبی سے مشورہ کیا اور آخر میں یہ طے ہوا کہ فتنہ وفساد برپاکرنے والوں کو خط لکھیں اور ان لوگوں کو نصیحت کریں اور پھر دوبارہ مرکزی حکومت کی اطاعت وپیروی کے لئے دعوت دیں۔

امام علیہ السلام نے خط کو یمن کے ایک آدمی کے ہمراہ جو قبیلہ ہمدان سے تھا ان لوگوں کے پاس بھیجا، امام علیہ السلام کے قاصد نے آپ کا خط ایک بہت بڑے اجتماع میں لوگوں کو سنایا، خط کامضمون بہت تربیتی اور مؤثر تھا، لیکن مخالفین نے اطاعت وپیروی کو اس شرط پر قبول کرنے کا وعدہ کیا کہ امام عبیداللہ اور سعید کوبر طرف کر دیں۔

ادھر فساد کرنے والوں نے فرصت کو غنیمت جانا اور معاویہ کوچند اشعار پر مشتمل ایک خط لکھا اور اس سے درخواست کی کہ اپنا نمائندہ صنعاء اور جند روانہ کرے تاکہ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں اور اگر اس کام میں تاخیر کی تو ہم لوگ علی علیہ السلام اور ان کے مشاور یزید ارحبی کی بیعت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

جب فتنہ وفساد کرنے والوں کا خط معاویہ کو ملا تو اس نے طے کہ یمن اور حجاز میں قتل وغارت گری،

_______________________________

(۱) یمن اس وقت تین حصوں میں تھا ایک حصّہ حجاز پڑوس'' حضرموت'' اور مرکزی حصہ''، صنعاء '' اور سب سے دور کا علاقہ ''

۷۳۸

جندَ '' کے نام سے مشہور تھا ۔ مراصد الاطلاع، مادہ جند۔

بدامنی اور فساد کامزید ماحول پیدا کرے، اسی وجہ سے اپنی فوج کے سب سے سنگدل سردار بُسربن ارطاة کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا کہ تین ہزار کا لشکر لے کر حجاز اور مدینہ جاؤ اور راستے میں جہاں بھی پہونچنا وہ اگر علی کے ماننے والے ہوں تو اانہیں خوب گالی گلوج دینا،سب کو میری بیعت کے لئے دعوت دینا ، بیعت کرنے والوں کو آزاد چھوڑدینا اور جو لوگ بیعت نہ کریں انہیں قتل کردینا اور جہاں بھی علی کے چاہنے والے ملیں انہیں قتل کردینا۔

معاویہ نے یہ خاص طریقہ استعمال کیا جب کہ وہ خود شام میں تھا اور علی علیہ السلام سے روبرو ہوکر جنگ نہیں کی لیکن اسی مقابلے کی جنگ کا نتیجہ حاصل کیا اور ولید بن عقبہ جیسے لوگ کہ جنہوں نے معاویہ کو امام علیہ السلام سے روبرو ہوکر جنگ کرنے کے لئے کہا تھا اسے بیوقوف اور احمق کہا اور وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ سیاسی تجربہ میں ماہر نہیں ہیں ۔

ابن ابی الحدید نے اس سلسلے میں بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے، وہ لکھتاہے :ولید امام علیہ السلام پر بہت غضبناک تھا کیونکہ جنگ بدر میں اس کے باپ کو مولائے کائنات نے قتل کیا تھا اور عثمان کی حکومت کے زمانے میں خود وہ امام کا تازیانہ کھا چکا تھا چونکہ اس نے بہت دنوں تک کوفہ پر حکومت کی تھی ، اورآمنے سامنے ہو کر اس وقت اپنی میراث کو حضرت علی کے ہاتھوں میں دیکھ رہا تھا لہذا علی علیہ السلام سے مقابلہ کرنے کے علاوہ کسی اور فکر میں نہ تھا۔ لیکن معاویہ ولید کے برخلاف دوراندیش تھا کیونکہ اس نے صفین میں امام علیہ السلام سے جنگ کرکے تجربہ کرلیا تھااور سمجھ گیا تھا کہ اگر اس جنگ میں قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کا فریب نہ کیا ہوتا توعلی علیہ السلام کے ہاتھوں اپنی جان نہیں بچا سکتاتھا اور اگر دوبارہ ان سے جنگ کرتا تو ممکن تھا جنگ کے شعلوں میں جل کر راکھ ہوجائے ، اسی وجہ سے اس نے مصلحت سمجھی کہ بدامنی ، خوف و وحشت اور فساد بر پا کرکے حضرت علی کی حکومت کو کمزور کرے اور امام علیہ السلام کو مجبور اور ناتواں اسلامی ملک کی رہبری کے لئے ثابت کرے(ا)۔

_______________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۲ ص۸

۷۳۹

بُسر کا سفر

بُسر تین ہزار لوگوں کے ساتھ شام سے روانہ ہوا اور جب دیر مردو کے پاس پہونچا تو اس میں سے چار سو لوگ بیماری کی وجہ سے مر گئے اور وہ ۲۶۰۰ آدمیوں کے ساتھ حجاز کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہ جس آبادی سے بھی گزرتا لوگوں کے اونٹ کو زبردستی ان سے چھین لیتا ، اور خود اور اس کے فوجی اس پر سوار ہوتے تاکہ دوسری آبادی میں پہونچ جائیں پھر وہاں ان اونٹوں کو چھوڑ دیتے تھے اور اس دوسری آبادی کے اونٹوں کو لے لیتے تھے ۔ اسی طرح سے اپنا طولانی سفر طے کیا یہاں تک کہ مدینہ پہونچابُسر نے مدینے میں قدم رکھتے ہی وہاں کے لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور عثمان کے قتل کا واقعہ چھیڑدیا اور کہا: تم سب عثمان کے قتل میں شریک ہو یا ان کی طرف سے بے توجہی اختیار کرکے انھیں ذلیل و خوار کئے ہو۔ خدا کی قسم ایسا کام کروں گا کہ عثمان کا پورا خاندان قلبی سکون محسوس کرے گا۔

پھر دھمکیاں دینا شروع کردیں اور لوگوں نے اس کے خوف کی وجہ سے حویطب بن عبد العزّی کے گھر میں پناہ لی جوکہ اس کی ماں کے شوہر(سوتیلے باپ) کا گھر تھا اور اس کے سمجھانے کی وجہ سے بُسر کا غصہ ٹھنڈا ہوا ۔ اس وقت سب کو معاویہ کی بیعت کی دعوت دی کچھ لوگوں نے اس کی بیعت کی لیکن اس نے صرف اس گروہ کی بیعت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مدینہ کے اہم افراد کو جو فکری اعتبار سے معاویہ کے مخالف تھے یا عراق میں علی علیہ السلام کے بہت زیادہ نزدیک تھے ان کے گھروں میں آگ لگادی زرارہ بن حرون، رفاعہ بن رافع اور ابو ایوب انصاری کا گھر جل کر راکھ ہوگیا ۔ پھر بنی مسلمہ کے سرداروں کو بلایا اور ان سے پوچھا : جابر بن عبداللہ کہاں ہے ؟ یااسے حاضر کرو یا قتل ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ،اس وقت جابر نے پیغمبرا سلام (ص)کی بیوی ام سلمہ کے گھر میں پناہ لی تھی اور جب ام سلمہ نے پوچھا کہ کیا سوچ رہے ہو تو انھوں نے جواب دیا کہ اگر بیعت نہیں کروں گا تو قتل ہوجاؤں گا اور اگر بیعت کروں تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا لیکن '' الغارات'' کے نقل کرنے کے مطابق جابر نے ام سلمہ کے مشورہ کے مطابق بیعت کرلی ۔

۷۴۰