بتالیسویں حدیث
( ۴۲) معراج رسول خدا
عن ابی ذرّ الغفاری قال: کنتُ جالساً عند النبیّ(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)ذات یومٍ فی منزل اُمّ سلمة ورسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)یُحدّثنی وانا اسمعُ،اذدخل علیّ بنُ ابیطالبٍ(علیه السلام)، فاَشرَق وجههُ نوراً فرَحاً باَخیه وابن عمِّه ، ثمّ ضمَّه الیه و قبَّل بین عینه ، ثمّ التفت الیّ فقٰال : یا اباذر اتعرف هٰذا الدّاخل علینا حقّ معرفته؟ قال ابوذرّ: فقلت : یارسول اللّه هٰذا اَخوک وابنُ عمّک وزوج فاطمة البتول وابوالحسن والحسین سیّدی شباب اهل الجنّه فقٰال رسول اللّه(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)
۱ یا ابٰاذرهٰذا الامٰام الازهر ، ورُمح اللّه الاَطوَل وبٰاب اللّه الاکبر فمن اراد اللّه فلیدخلُ البٰاب
۲ یٰا ابٰا ذرٍّهٰذا القائم بقسط اللّه والذّابّ عن حریم اللّه والنّاصر لدین اللّه وحجّة اللّه علیٰ خلقه انّ اللّه تعٰالیٰ لم یزل یحتجّ به علیٰ خلقه فی الامم کلّ یبعث فیهٰا نبیّاً
۳ یٰا اباذرانّ اللّه تعٰالیٰ جعل علیٰ کلّ رکنٍ من ارکان عرشه سبعین الف ملکٍ لیس لهم تسبیح ولاٰ عبٰادة الاّ الدّعٰاء لعلیٍّ وشیعته والدّعا ءَ علیٰ اعدٰائه
۴یا ابٰا ذر لولاٰ علیّ مٰا بٰان الحقّ من الباطل ولاٰ مؤمن من الکافر و لاٰ عبد اللّه ، لأنّه ضَرَبَ رؤُس المشرکین حتّیٰ اسلموا وعبدواللّه ، ولولاٰ ذٰلک لم یکن ثواب ولاٰ عقٰاب ولاٰ یستره من اللّه ستر ولاٰ یحجبه من اللّه حجٰاب وهوالحجٰابُ والسّترُ ثمّ قراءَ رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم ):شرع لکم من الدّین مٰا وصّیٰ به نوحاً والذّی اوحینٰا الیک ومٰا وصّینٰا به ابراهیم وموسیٰ وعیسیٰ ان اقیموا الدّین ولاٰ تتفرّقوا فیه کبُر علی المشرکین مٰا تدعوهم الیه اللّه یجتبی الیه من یشٰاءُ و یهدی الیه مَن ینیب
۵یٰا ابٰا ذرٍّ انّ اللّه تبارک وتعٰالیٰ تفرّد بمُلکه ووحدانیّته ، فعرّف عبٰادَه المخلصین لنفسه ، وابٰا ح لهم الجنّة ، فمن ارٰاد ان یهدیه عرّفه ولاٰ یته ومن ارٰاد ان یطمس علیٰ قلبه اَمسک عنه معرفته
۶یٰا ابٰاذرٍّ هٰذا رٰایة الهدیٰ ، وکلمة التّقویٰ ، والعروة الوثقیٰ ، وامٰامُ اولیٰائی ، ونور من اطٰا عنی، وهو الکلمة الّتی الزمها اللّه المتّقین فمن احبّه کان مؤمناً، ومن ابغضه کٰان کافراً ومن ترک ولاٰیته کٰان ضٰالاً مضلاًّ ، ومن جحد ولاٰیته کاٰن مشرکاً
۷یٰا ابٰاذرٍّ یؤ تیٰ بجٰاحد ولٰایة علیٍّ یوم القیامة اصمّ واعمیٰ وابکم فَیُکَبکَبُ فی ظلمٰات القیٰامة یُنٰادی یٰا حسرتٰا علیٰ مٰافرّطتُ فی جنبٍ اللّه وفی عنقه طوق من النّار ، لذٰلک الطّوق ثلاٰ ثُماءة شعبَةٍ علیٰ کلّ شعبة منهٰاشیطٰان یتفلُ فی وجهه ویکلح من جوف قبره الیٰ النّار ، قٰال ابوذر : فقلتُ : فداک ابی وامّی یٰا رسول اللّه ملأت قلبی فرحاً وسروراً فزدنی فقٰال: نعم انّه لمّا عرج بی الیٰ السّمٰاء الدّنیا اذّن ملک من الملائکة واقام الصلاة، فاخذ بیدی جبرائیل (علیه السلام) فقدّ منی ،
فقٰال لی : یٰا محمّد(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم ) صلّ بالملائکةفقد طٰال شوقهم الیک ،فصلّیت بسبعین صفّاًمن الملائکة ، الصّفّ مٰا بین المشرق والمغرب لاٰ یعلم عددهم الاّ الذی خلقهم ، فلمّا قضیت الصّلاة اقبل الیّ شر ذمة من الملائکة یسلّمون علیَّ یقولون : لنٰا الیک حٰاجة ، فظننت انّهم یساَلوننی الشّفاعة لاَنّ اللّه عزّوجلّ فضّلنی بالحوض والشّفاعة علیٰ جمیع الانبیاء فقلتُ : مٰا حٰا جتکم ملائکة ربّی ؟ قالوا : اذٰا رجعتََ الی الارض فاقرأ علیّاًمنّا السّلام واَعلمه باِنّا قد طٰال شوقنٰا الیه ، فقلتُ : ملائکة ربّی! تعرفوننٰا حقّ معرفتنٰا ؟ فقٰالوا:یا رسول الله لا نعرفکم انتم اول خلق خلقه الله خلق کم الله اشباح نورٍفی نورٍ من نور اللّه وجعل لکم مقاعدَ فی ملکوته بتسبیح وتقدیسٍ وتکبیرٍ له ثمّ خلق الملائکة ممّا اراد من انواٰر شتّیٰ ، کنّٰا نَمُرُّ بکم وانتم تسبّحون اللّه وتقدّسون وتکبّرون وتحمدون وتهلّلون ، فنسبِّحُ و نقدّس و نحمدُ ونهلّل ونکبّر بتسبیحکم وتقدیسکم وتحمیدکم وتهلیلکم وتکبیرکم فمٰا نزل من اللّه تعٰالیٰ فالیکم ومٰا صعد الیٰ اللّه تعٰالیٰ من عند کم ، فلم لاٰ نعرفکم ؟
ثمّ عُرجَ بی الیٰ السّمٰاء الثّانیة ، فقٰالت الملائکة مثل مقٰالة اصحٰابهم فقلتُ: ملائکة ربّی؟ هل تعرفوننٰا حقَّ معرفتنٰا ، قٰالوا: ولم لاٰ نعرفکم وانتم صفوة اللّه من خلقه وخزّان علمه والعروة الوثقیٰ ، والحجّة العظمیٰ ، وانتم الجنب والجٰانب وانتم الکَراسیّ واصول العلم ؟فاقرأ علیاً منّا السّلام
ثمّ عرج بی الیٰ السمآء الثالثة فقٰالت لی الملائکة مثل مقٰالة اصحابهم فقلت : ملاٰئکة ربّی ! تعرفوننٰا حقّ معرفتنٰا ؟ قٰالوا: ولِمَ لاٰ نعرفکم وانتم بٰاب المقٰام وحجّة الخصٰام وعلیّ دٰابّة الارض وفٰاصل القضٰاء وصٰاحب العصٰا، قسیم النّار غداً وسفینة النّجاة مَن رکبها نجیٰ ومَن تخلّف عنها فی النّار تردّیٰ یوم القیامة انتم الدّ عائم ونجوم الاقطار فلِمَ لا نعرفکم فاقرأ علیّاً منّا السّلاٰم
ثمّ عرج بی الیٰ السّماء الرّابعة ، فقٰالت لی الملائکة مثل مقٰالة اصحٰابهم فقلتُ: ملاٰ ئکه ربّی ! تعرفوننٰا حقّ معرفتنٰا ؟ فقالوا: ولِمَ لاٰ نعرفکم وانتم شجرة النّبوّة ، وبیت الرّحمة ومعدن الرّسالة ومختلف الملاٰئکة وعلیکم ینزل جبرٰائیل بالوحی من السماء ، فاقرأ علیاً منّا السّلام
ثمّ عرج بی الی السماء الخامسة ، فقٰالت لی الملائکة مثل مقٰالة اصحابهم فقلتُ : ملائکة ربّی! تعرفوننا حقّ معرفتنٰا؟ قالوا: ولِمَ لا نعرفکم ونحن نمرّ علیکم بالغدٰاة والعشیّ بالعرش ، علیه مکتوب ،،لاٰ اله الاّ الله محمد رسول الله وایّده بعلیّ بن ابی طالبٍ علیه السلام،، فعلمنٰا عند ذٰلک انّ علیاًولیّ من اولیاء الله تعالیٰ فاقرأ علیاً منّا السّلام
ثمّ عرج بی الی السماء السّٰادسة ، فقٰالت الملائکة مثل مقٰالة اصحابهم ، فقلت : ملائکة ربّی ! تعرفوننٰا حقّ معرفتنا؟ قالوا ولِمَ لاٰ نعرفکم وقد خلق الله جنّة الفردوس وعلیٰ بٰابِهٰا شجرة ولیس فیهٰا ورقة الاّ وعلیها حرف مکتوب بالنّور ،، لا اله الاّ الله ومحمد رسول الله وعلیّ بن ابی طالبٍ عروة الوثقیٰ وحبل المتین وعینه علیٰ الخلاٰئق اجمعین،،فاقرأ علیاً منّا السّلام
ثمّ عرج بی الی السّماء السّٰابعة ، فسمعت الملائکة یقولون : الحمد لله الذی صدقنٰا وعده ، فقلتُ : بمٰاذا وعدکم؟ قالوا: یا رسول الله لمّا خلقکم اشباح نورٍ فی نورٍ من نور الله تعالیٰ عرضت ولاٰیتکم علینافقبلنٰاها وشکونا مَحَبّتکُم الی الله تعالیٰ فامّا انت فوَعَدَنٰا باَن یرینٰاک معنٰا فی السّماء وقد فعل ،
وامّا علیّ علیه السلام فشکونٰا محبّته الی الله تعالیٰ فخلق لنا فی صورته ملکاً واقعده عن یمین عرشه علیٰ سریر من ذهبٍ مرصّع بالدّرٍّو الجوهر علیه قبّة من لؤلؤةٍ بیضٰاءَ ، یُریٰ بٰاطنها من ظاهرهاو ظاهرها من باطنهٰا ، بلاٰ دعٰامة من تحتها ولاٰ علاٰقة من فوقهٰا ، قٰال لهٰا صاحبُ العرش قومی بقدرتی فقٰالت ، فکلّمٰا اشتقنٰا الیٰ رؤیة علیٍّ نظرنٰا الیٰ ،، ذٰلک الملک فی السّمٰاء فاقرأ علیاً منّا السّلام
ترجمہ:
ابو ذر غفاری کہتے ہیں ایک دن میں ام سلمہ کے گھر رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)کے پاس بیٹھا تھا رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)میرے لئے حدیث بیان کر رہے تھے اور میں سن رہا تھا کہ اتنے میں حضرت علی(علیہ السلام) تشریف لاتے ہیں جب رسول کی نظر حضرت علی(علیہ السلام) پر پڑی تو پیامبر کے چہرے پر نور چمکا خوشحال اور مسرور ہوئے کہ پیامبر نے اپنے بھائی اور چچا زاد کاد یدار کیا رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے علی(علیہ السلام) کو اپنے سینے سے لگا یا اور رسول نے علی(علیہ السلام) کا ماتھا(پیشانی) کا بوسہ دیا اور مجھے دیکھ کر پیامبر نے فرمایا اے ابوذر یہ جو ہمارے پاس آیا ہے اسکو جس طرح پہچاننے کا حق ہے پہچانتا ہے ؟ ابو ذر نے عرض کی اے اللہ کے رسول وہ آپکا بھائی اور آپکے چچے کا بیٹا اور فاطمہ کا شوہر حسن(علیہ السلام) و حسین (علیہ السلام)جنت کے جوانوں کے سردار کا باپ ہے پھر رسول نے فرمایا :
( ۱ )اے ابوذر یہ نورانی امام ہے خدا کا بلند بالا نیزہ ہے یہ خداوند تبارک وتعالیٰ کا دروازہ ہے اور جو بھی خدا تک پہچنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اس دروازے سے داخل ہو۔
( ۲ ) اے ابوذریہ خدا کے عدل پر قیام کرنے والا ہے اور خدا کے حرم کا دفاع کرنے والا ہے
دین خدا کی مدد کرنے والا ہے اور خدا کی مخلوق پر خدا کی حجت ہے اور خدا نے جس قوم میں بھی کوئی نبی بھیجا ہے اس امت کے درمیان خدا نے علی(علیہ السلام) کے وسیلے سے حجت تمام کی ۔
۳ ۔ اے ابوذر خدا کی قسم خدا نے اپنے عرش کے ہر ستون پر ستر ہزار فرشتے مقرر کیئے ہیں اسکی تسبیح و عبادت سوائے اس کے نہیں کہ وہ علی(علیہ السلام) اور اسکے شیعوں کیلئے دعا کرتے ہیں ۔ اور انکے دشمنوں پر لعنت کرتے ہیں ۔
۴ ۔ اے ابوذر اگر علی (علیہ السلام) نہ ہوتے تو حق باطل سے روشن نہ ہوتا مومن کافر سے پہچانا نہ جاتا اور خدا کی عبادت نہ ہوتی کیونکہ اس نے مشرکوں کے سروں کوکا ٹا تاکہ اسلام لے آئیں اور خدا کی عبادت کریں اگر علی (علیہ السلام) نہ ہوتے تو نہ ثواب ہوتا نہ عقاب ہوتا، علی(علیہ السلام) اور خدا کے درمیان نہ کوئی پردہ ہے اور نہ کوئی حجاب بلکہ علی (علیہ السلام) ہی پردہ ہے اور حجاب ہے پھر رسول نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ،،شرع لکم من الدین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،خدا نے تمہارے لئے دین سے اس چیز کو مقررکیا کہ جسکی نوح(علیہ السلام) کو خدا نے وصیت کی اور وہ جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی ہے اور جسکی سفارش کی ہم نے ابراھیم (علیہ السلام) و موسیٰ (علیہ السلام) و عیسیٰ(علیہ السلام) کو کہ دین کو قائم کریں اور متفرق نہ ہو ں مشرکوں کیلئے بہت ہی سخت تھا جو تم انکوخدا کی دعوت دیتے ہو اور خدا جسکو چاہتا ہے اپنے لئے چن لیتا ہے اور اپنی طرف اسکی ھدایت کرتا ہے جسکو اپنا نائب بناتا ہے
۵ ۔ اے ابوذر خدا اپنی مملکت ووحدانیت میں یکتا ہے اور اپنے مخلص بندوں کو اپنی معرفت عطا کرتا ہے اور جنت کو ان کیلئے خلق فرمایا ہے اور جس کی ھدایت کا خدا ارادہ کرتا ہے اسکو ولایت علی(علیہ السلام) کی معرفت عطا کرتا ہے اور جس کے گمراہ ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے معرفت وولایت حضرت علی(علیہ السلام) کو سلب کر لیتا ہے ۔
( لیکن یاد رہے کہ خدا کا جس کے متعلق ارادہ ہوتا ہے اس چیز کی لیاقت ذاتی کے مطابق ہوتا ہے )
۶ ۔ اے ابوذر یہ ھدایت کا پرچم ہے حضرت علی (علیہ السلام)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیامبر نے ارشاد فرمایا یہ کلمہ تقویٰ ہے یہ عروۃ الوثقیٰ اور میرے اولیاء کا امام ہے اور جو بھی میری ا طاعت کریگا اس کا نور ہے یہ وہ کلمہ ہے کہ جس سے خدا نے متقین کو متمسک رہنے کا حکم دیا ہے پس جو بھی علی (علیہ السلام)سے محبت کرے گا وہ مومن ہے اور جو بھی علی(علیہ السلام) سے دشمنی کرے گا وہ کافر ہے اور جو بھی علی (علیہ السلام)کی ولایت کو ترک کرے گا وہ گمراہ ہے اور گمراہ کرنے والا ہے اور جو بھی اس کے حق سے انکار کرے گا وہ مشرک ہے ۔
۷ ۔ اے ابوذر علی(علیہ السلام)کی ولایت کا انکار کرنے والا قیامت کے دن بہرا اندھا اور گونگا محشور ہو گا اور قیامت کی ظلمت میں الٹا چلے گا اور فریاد کرے گا کہ ھائے افسوس کہ میں نے خدا کے حق میں کوتا ہی کی اور اس کی گردن میں آگ سے بنا ہوا طوق ہوگا کہ جس کے تین سو کنڈے ہونگے او ر ہر کنڈے پر شیطان مسلط ہے اور اس شخص کے منہ میں اپنے دھان سے آب دھان یعنی تھوکتا ہے جب قبر سے نکل کر جہنم کی آگ میں جاتا ہے تو اس کا چہرہ قبیح اور زشت ہو چکا ہوتا ہے ابوذر نے عرض کی یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں آپ نے میرے دل کو بہت خوش کیا اور بھی ارشاد فرمائیں تو پیامبر گرامی اسلام نے اپنے واقع معراج کو ایک آسمان سے ساتویں تک کو بیان کیا کہ سات آسمانوں کے ملائکہ نے حضرت علی (علیہ السلام)کے دیدار کے شوق کا اظہار کیا ،
پہلا آسمان :
رسول (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ارشاد فرمایا جب مجھے دنیا کے آسمان پر لے جایا گیا ایک فرشتے نے اذان و اقامت کہی اور پھر جبرائیل نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آگے کردیا ۔
اور کہا کہ ملائکہ کو نماز پڑھاؤ کہ کافی عرصے سے تمہارے دیدار کے مشتاق ہیں ۔
میں نے نماز پڑھائی جبکہ ملائکہ کی سترصفیں تھیں ایک صف کی لمبائی مشرق سے مغرب تک تھی اور انکی تعداد کو کوئی نہیں جانتا سوائے خالق اکبر کے کہ جس نے ان کو خلق کیا جب ہم نماز پڑھ چکے اور تسبیح اور تقدیس میں مشغول تھے کہ ملائکہ کا ایک گروہ میرے پاس آیااور مجھ پر سلام کیا اور کہنے لگے اے محمد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کیا ہماری حاجت کو پوراکرو گے ؟ رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ ملائکہ خدا سے شفاعت چاہتے ہیں کیونکہ خدا نے مجھے بوسیلہ حوض کوثر اورشفاعت، تمام انبیاء پر فضیلت برتری دی ہے میں نے کہا اے خدا کے فرشتے اپنی حاجت بیان کریں،تو ملائکہ کہنے لگے جب زمین پر واپس جائیں تو حضرت علی (علیہ السلام)کو ہماری طرف سے سلام پہنچا دینا اور ساتھ یہ کہنا کہ ہم تیرے دیدار کے بہت مشتاق ہیں تو میں نے کہا اے خدا کے ملائکہ کیا تمہیں جس طرح ہماری معرفت رکھنی چاہئے معرفت حاصل ہے؟کہنے لگے اے رسو ل خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کس طرح تمہیں نہ پہچانیں جبکہ آپ خدا کی پہلی مخلوق ہیں خدا نے تمہیں نور کی شکل میں نور کے پردوں میں خلق کیا اورتمہیں اپنے عرش کے پاس جگہ عطا کی تاکہ خدا کی تسبیح وتقدیس و تکبیر بیان کرتے رہیں اور پھر خدا نے ملائکہ کو جس سے ارادہ کیا خلق کیا یعنی مختلف انوار سے خلق کیا اور ہم آپکے پاس سے گزرتے تو آپ کی تسبیح و تقدیس و تکبیر و تہلیل کی آواز سنتے تھے تو ہم نے بھی آپکی طرح خدا کی تسبیح و تقدیس و تکبیر بیان کی پس جو بھی خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے وہ آپکی طرف نازل ہوتا اور جو بھی خدا کی طر ف زمین سے بلند ہوتا ہے وہ بھی آپکی طرف سے ہوتا ہے پس کیسے ہم آپکو نہ پہچانیں؟
دوسرا آسمان:
رسول فرماتے ہیں پھر مجھے دوسرے آسمان پر لے جایا گیا تو وہاں کے رہنے والوں
فرشتوں نے بھی پہلے آسمان پر رہنے والے فرشتوں کی طرح سوال کئے میں نے کہا اے خدا کے ملائکہ کیا جس طرح ہماری معرفت کا حق ہے ہماری معرفت رکھتے ہو تو ملائکہ نے جواب دیا ہم کیسے آپ کو نہ پہچانیں جبکہ خدا نے اپنی مخلوق سے آپکو منتخب کیا اور آپ خدا کے علم و معرفت کا خزانہ و منبع ہیں وعروۃ الوثقیٰ ہیں یعنی اللہ کی مضبوط رسی ہیں اور خدا کی عظیم حجت ہیں آپکا مقام خدا کے ساتھ ملا ہوا ہے اور آپ علم کا تخت اور مخزن ہیں اور جب زمین پر جائیں تو علی کو ہمارا سلام پہنچا دینا ۔
تیسرا آسمان:
پھر مجھے تیسرے آسمان پر لے جایا گیا وہاں پر رہنے والے ملائکہ نے بھی مجھ سے پہلے کی طرح سوال کیا میں نے جواب دیا کہ جس طرح ہماری معرفت رکھنے کا حق ہے معرفت رکھتے ہیں؟ کہنے لگے کیوں نہ ہم آپ کی معرفت رکھتے ہوں جبکہ آپ کا مقام بلند دشمنوں پر حجت ہیں ۔ اور علی دابۃ الارض ہے قضا کو جدا کرنے والا اور صاحب عصا ہے قیامت کے دن جہنم کو تقسیم کرنے والاہے ۔اور نجات کی کشتی ہے جو سوار ہوا نجات پا گیا اور جس نے تخلف کیا اور روگردان ہوا روز قیامت جہنم میں داخل ہو گاتم دین کے ستون ہو زمین پر روشن ستا رے ہوہم کیسے تمہیں نہ پہچانیں علی کو ہمارے سلام پہنچا دینا ۔
چوتھا آسمان:
پھر چوتھے آسمان پر رہنے والے ملائکہ نے اسی طرح سوال کیا میں نے جواب دیا کیا ہماری معرفت جس طرح معرفت رکھنے کا حق ہے رکھتے ہو؟تو ملائکہ نے ایک زبان ہو کر کہا ہم کیسے تمہیں نہ پہچانیں جبکہ تم نبوت کا شجرہ ہو اور رحمت کا گھر ہو اور رسالت کا خزانہ ہو اور ملائکہ کے آنے و جانے کا مقا م ہو اور تم پر جبرائیل آسمان سے وحی لیکر نازل ہوتا ہے علی کو ہمارا سلام پہنچا دینا ۔
پانچواں آسمان :
پھر مجھے پانچویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں پر بھی ملائکہ نے مجھ سے وہی سوال کیا میں نے انکو کہا کہ جس طرح انکو پہچاننے کا حق ہے پہچانتے ہو تو کہنے لگے کیسے آپ کو نہ پہچانیں جبکہ صبح وشام عرش پر تمہارے پاس سے گزرتے ہیں اور وہاں پر لکھا ہوا ہے لا الہ الاّ اللہ محمد الرسول اللہ اور خدا نے اپنے رسول کی علی بن ابی طالب کے ذریعے تائید کی ہے اس وقت ہم نے پہچانا کہ علی ولی خدا ہے علی کو ہماری طرف سے سلا م پہنچا دینا ۔
چھٹا آسمان:
پھر مجھے چھٹے آسمان پر لایا گیا پھر ملائکہ نے مجھ سے وہی سوال کیا میں نے ملائکہ سے کہا کیا تم ہماری معرفت رکھتے ہو جس طرح رکھنے کا حق ہے تو کہنے لگے ہم کیسے تمہاری معرفت نہ رکھتے ہوں تحقیق خدا نے جب جنّت الفردوس کو خلق کیا اور اس کے دروازے پر ایک شجرہے اور اس کے تمام پتوں پر نور سے لکھا ہوا ہے ،،لا الہ الاّ اللہ و محمد رسول اللہ و علی بن ابی طالب عروۃ اللہ وحبل اللہ المتین وعینہ علی الخلائق اجمعین ،،علی عروۃ الوثقیٰ ہے علی خدا کی مضبوط رسی ہے علی خدا کی مخلوق پر خدا کی آنکھ ہیں علی کو ہماری طرف سے سلام پہنچا دینا ۔
ساتواں آسمان:
پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے گئے میں نے سنا ملائکہ کہہ رہے تھے کہ حمداس اللہ کی جس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا میں نے ان کو کہا کس چیز کا خد ا نے تم سے وعدہ کیا تھا تو سب نے کہا اے رسول خدا جب خدا نے آپ کونور کی اشباء میں اور اپنے نور سے خلق کیا تو خدا نے تمہاری ولایت کو ہمارے سامنے پیش کیا ہم نے تمہاری ولایت کو قبول کیاا ور شدت محبت کی وجہ سے ہم نے تمہاری جدائی کے بارے خدا سے شکایت کی تو خدا نے تمہارے بارے ہم سے وعدہ کیا کہ ایک دن میں تمہیں دکھاؤں گا اور آج ہم آسمان پر آپ کی زیارت کر رہے ہیں اور خدا نے اپنے وعدہ کو پورا کیا ہے۔
اور ہم نے علی کے بارے میں بھی خدا سے شکایت کی تو خدا نے ایک فرشتے کو علی کی شکل میں خلق کیا اور اپنے عرش کے دائیں طرف سونے کے تخت پر جو لا ل و جواہر سے مزیّن ہے پر بٹھایا اور اس تخت پر سفید موتیوں سے ایک قبّہ ہے کہ جس کے اندر باہر دونوں طرف سے دیکھا جا سکتاہے اور اس قبہ کا کوئی ستون نہیں اور نہ اوپر سے کوئی سہارا دیا گیا ہے خدا نے اس کو حکم دیا اور وہ خدا کے حکم سے قائم ہے اور جب ہمیں علی کی محبت کی شدت ہوتی ہے تو ہم آسمان پر اس فرشتے کی زیارت کرتے ہیں جو علی کی شکل میں ہے اور جب زمین پر تشریف لے جائیں تو علی کو ہماری طرف سے سلام پہنچا دینا ۔
____________________