نسیم غدیر

نسیم غدیر0%

نسیم غدیر مؤلف:
زمرہ جات: امامت

نسیم غدیر

مؤلف: حسین اثنا عشری
زمرہ جات:

مشاہدے: 5905
ڈاؤنلوڈ: 3020

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 56 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5905 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
نسیم غدیر

نسیم غدیر

مؤلف:
اردو

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِینَ بِوِلاَیَهِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ الْأَئِمَّهِ عَلَیْهِمُ السَّلاَمُ

https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=261

انتیسویں حدیث

(۲۹ ) قال النّبی(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)ّ : مکتوب علیٰ باب الجنّةلا الٰه الاّ اللّه محمد رسول اللّه علیّ ولیُ اللّه اخو رسول اللّه قبل ان یخلق السمٰوات والارض الفی عٰام

ترجمہ:

پیامبر گرامی (صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا جنت کے دروازے پر دو ہزار سال آسمانوں اور زمین کو خلق کرنے سے پہلے لکھا تھا ، لا الٰہ اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ اخورسول اللہ (رسول خدا کا بھائی )۔(۱)

____________________

(۱) (شبہائے پشاور ص۸۱۸ح۳)

تیسویں حدیث

( ۳۰ ) محمد بن یحیٰ ، عن سلمة بن الخطّاب ، عن علی بن سیف عن العبّاس بن عٰامر عن احمد بن رزق الغمشٰانیّ، عن محمد بن عبد الرحمٰن عن ابی عبد الله( علیه السلام) قال: ولاٰیتنا ولاٰیة اللّه الّتی لم یبعث نبیاً قطّ الاّ بهٰا

ترجمہ :

امام صادق ( علیہ السلام) نے فرمایا ہماری ولایت خدا کی ولایت ہے کہ خدا نے اس کے بغیر کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا ۔(۱)

____________________

(۱) (کتاب الحجہ اصول کافی ج۲ص۳۱۹ح۳)

اکتیسویں حدیث

(۳۱ ) قال النّبی(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) : من ارٰاد ان ینظر الیٰ نوحٍ فی عزمه والیٰ آدم فی علمه والیٰ ابرٰاهیم فی حلمه والیٰ موسیٰ فی فطنته والیٰ عیسیٰ فی زهده ، فلینظر الیٰ علی بن ابیطالب( علیه السلام)

ترجمہ:

رسول خدا نے فرمایا جو چاہتا ہے کہ دیکھے حضرت نوح کو اپنے عزم وارادہ میں اور آدم کو علم میں اور حضرت ابراھیم کو حلم و بردباری میں اور حضرت موسیٰ کو عقل مندی میں حضرت عیسیٰ کو زھد میں پس اسے چاہئے کہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام ) کے چہرے کو دیکھ لے ۔(۱)

____________________

(۱) (بوستان معرفت ص۴۵۰ح۱۰)

پتیسویں حدیث

(۳۲ ) محمدبن یحیٰ ، عن احمد بن محمد بن عیسیٰ ، عن محمد بن اسمٰاعیل بن بزیغ ، عن محمد بن الفضیل ، عن ابی الصّبّاح الکنٰانیّ عن ابی جعفر ( علیه السلام) قال:سمعته یقول :واللّه انّ فی السّمٰاء لسبعین صفّاً من الملائکة ، لو اجتمع اهل الارض کلّهم یحصون عدد کلّ صفّ منهم مٰا احصوهم وانّهم لیدینون بولاٰیتنا

ترجمہ:

امام باقر (علیہ السلام ) فرماتے ہیں خدا کی قسم آسمان میں ملائکہ کی ستر صفیں ہیں اور اگر اھل زمین جمع ہو جائیں اور ملائکہ کی ایک صف کو شمار کرنا چاہیں تو شما ر نہیں کر سکتے او ر وہ سب کے سب فرشتے ہماری ولایت پر اعتقاد رکھتے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) (اصول کافی کتاب الحجہ ص۳۲۰ ح۵)

تینتیسویں حدیث

(۳۳ ) سهل بن زیادٍ عن محمد بن الولید قال سمعت یونسَ بن یعقوب عن سنٰان بن طریفٍ عن ابی عبد اللّه(علیه السلام) یقول: قال انّا اوّلُ اهل بیتٍ نوّه اللّه بأسمٰا ئنٰا انّه لمّا خلق السّمٰاوٰات والارض أمر مُنٰادیاًفنادیٰ أشهدُ أن لاٰ الٰه الاّ اللّه ثلاٰ ثاً اشهدانّ محمّداً رسول اللّه ثلاثاً اشهدُ انّ علیّاً امیر المؤمنین حقاً ثلاثاً

ترجمہ:

امام جعفر صاد ق(علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ ہم اھل بیت رسول، خدا کی وہ پہلی مخلوق ہیں کہ خدا نے ہمارے نام کو بلند کیا جب خدا نے آسمان و زمین کو خلق کیا تو منادی کو حکم دیا اور اس نے ندادی اشھد ان لا الاالّا اللہ تین مرتبہ پھر اشھد انّ محمداً رسول اللہ تین مرتبہ پھر اشھدانّ علیاً امیرالمؤمنین (علیہ السلام ) حقاًتین مرتبہ ۔(۱)

____________________

(۱) (اصول کافی کتاب الحجہ ج۲ص۳۲۷ ح۸)

چونتیسویں حدیث

(۳۴ ) قال ابو حمزة وسمعتُ ابٰا عبد اللّه جعفر بن محمّد(علیه السلام ) یقول:رُفع القلم عن الشیعة بعصمة الله وولایته

ترجمہ:

ابو حمزہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام ) سے سنا کہ انھوں نے فرمایا کہ شیعوں کی خطاؤں اور گناہوں کو لکھا نہیں جاتا کیونکہ خدا ان کی حفاظت کرتا ہے اور خدا کی ولایت و قلعہ میں زندگی کرتے ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) (فضائل شیعہ شیخ صدوق ص۱۴ح۱۴)

پینتیسویں حدیث

(۳۵ ) قال النّبیّ (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): من أحبّ علیاً (علیه السلام) اعطاه اللّه بکلّ عرقٍ فی بدنه مدینة فی الجنّة

ترجمہ:

حضرت رسول گرامی اسلام نے فرمایا جو بھی علی سے محبت کرتا ہے خدا تبارک وتعالیٰ اسکو بدن کے اندر جتنی رگیں ہیں ان کے برابر جنت میں شہر عطا کریگا ۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق ابن حجر العسقلانی در لسان المیزان ص۶۲)

چھتیسویں حدیث

(۳۶ ) قال رسول اللّه(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): من انکر حقّ علی(علیه السلام)لعِن وخاب

ترجمہ:

رسول خدا نے فرمایا جو بھی حضرت علی (علیہ السلام ) کے حق سے انکار کرتا ہے وہ ملعون ہے اور اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکے گا ۔(۱)

____________________

(۱) (احقاق الحق اخطب خوارزمی مناقب خوارزمی ص۲۲۷)

سینتیسویں حدیث

(۳۷ ) عدّة من اصحٰابنٰا عن احمد بن محمد، عن ابن فضّالٍ، عن ابن بُکیر، عن فُضیل بن یسٰار ، عن عبد الوٰاحدین المختٰار الاَنصٰاری قال: قال ابو جعفر(علیه السلام) :یٰا عبد الوٰاحد مٰا یضرّ رجلاً اذٰا کان علیٰ ذا الرّای ماقال النّاس له ولو قٰالوا مجنون، ومٰایضرّه ولو کان علی رأس جبلٍ یعبد اللّه حتّیٰ یجیئه الموت

ترجمہ:

عبد الواحد بن مختار کہتا ہے کہ امام باقر (علیہ السلام )نے فرمایا اے عبدا لواحد جو بھی ہماری محبت پر اعتقاد رکھتا ہو اسکو لوگوں کی باتیں کوئی نقصان نہیں پہچا سکتیں اگرچہ لوگ کہیں کہ یہ دیوانہ ہے اور اس کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اگر چہ پہاڑ کی چوٹی پر چلا جائے خدا کی عبادت کرتا ہے یہا ں تک کہ اسے موت آجائے ۔(۱)

____________________

(۱) ( اصول کافی کتاب ایمان و کفر ص۳۴۲ح۱)

آٹھتیسویں حدیث

(۳۸ ) عن عمرو و سلمة قٰالاٰ: سمعنٰارسول اللّه فی حجّة الودٰاع وهو یقول: علیِّ یعسوب المؤمنین والمٰال یعسوب الظّالمین ، علیُّ اخی و مولیٰ المؤ منین من بعدی وهو منّی بمنزلة هٰارون من موسیٰ،

الاّ أنّ اللّه ختم النّبوّة فلٰا نبیّ بعدی وهو الخلیفة فی الأهل و ا لمؤمنین

ترجمہ:

عمرو اور سلمہ کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ہم نے رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)سے سنا کہ فرما رہے تھے کہ علی (علیہ السلام ) مومنوں کا سردار ہے اور مال ظالموں کا سردار ہے علی (علیہ السلام )میرے بعد مومنوں کا ولی ہے اور علی (علیہ السلام )کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی ،

مگر یہ کہ خداوند نے سلسلہ نبوت کو ختم کردیا ہے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور علی میری آل و خاندان میں اور مومنین میں میری طرف سے خلیفہ ہے ۔(۱)

____________________

(۱) (عقائد الانسانج۳ ص۱۲۴ح۱۸)

انتالیسویں حدیث

(۳۹ ) قال الحسین بن علی ( علیه السلام ) عن ابیه علیّ بن ابی طالبٍ ( علیه السلام) قال ، قال رسول اللّه(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) : یا علیّ انت اخی وانا اخوک یٰا علیّ انت منّی وانا منک یا علیّ انت وصی وخلیفتی وحجّة اللّه علیٰ اُمّتی بعدی لقد سعِد من تولاّٰک و شقی من عٰادٰاک

ترجمہ:

امام حسین (علیہ السلام) اپنے بابا پیامبر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا اے علی تو میرا بھائی اور میں تیرا بھائی ہو ں اے علی تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں ، اے علی تو میرا خلیفہ اور خدا کی حجت میری امت میں ہو ، خوش بخت ہے و ہ شخص جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور بد بخت ہے وہ شخص جو تجھ سے دشمنی کرتا ہے ۔(۱)

____________________

(۱) (امالی شیخ صدوق ص۳۶۰ح۱۲)

چالیسویں حدیث

(۴۰ ) محمّد بن یحییٰ والحسن بن محمّد جمیعاً، عن جعفر بن محمّد الکوفیّ عن الحسن بن محمّد الصّیرفیّ عن صٰالح بن خٰالدٍ عن یمٰان التّمّٰار قال : کنّٰاعندأبی عبد اللّه ( علیه السلام) جلوساًفقٰال لنا: انّ لصٰاحب هٰذا الامر غیبة ، المتمسّک فیهٰا بدینه کالخٰارط للقتٰادٍ ثمّ قٰال: هٰکذا بیده فاَیُّکم یمسک شوک القتٰاد بیده ؟ثمّ أطرق ملیاً ، ثمّ قٰال: انّ لصٰاحب هٰذا الامر غیبةً، فلیتّق اللّه عبد ولیتمسّک بدینه

ترجمہ:

یمان تمار کہتا ہے کہ امام جعفر صادق ( علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر تھا امام نے مجھ سے فرمایا کہ ہمارے صاحب امر کو غیب ہونا ہے اور جو بھی اس دور میں اپنے ایمان کو محفوظ رکھے گا وہ اس شخص کی طرح ہے جو خار دار درخت کو اپنے ہاتھوں سے تراشتا ہے پھر امام نے فرمایا اسی طرح اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے مجسم کرکے فرما رہے تھے کہ تم میں سے کون ہے جو اس قسم کے درخت کو اپنے ہاتھ سے اٹھائے پھر امام نے اپنا سر تھوڑی دیر کیلئے نیچے کی طرف جھکا لیا اور فرمایا کہ صاحب امر کیلئے غیبت ہے پس لوگوں کو اس دور میں تقویٰ الہیٰ اختیار کرنا چاہئے اور اپنے دین کو محفوظ رکھیں ۔

اکتالیسویں حدیث

(۴۱ ) حدّثنٰا الحسن بن محمّد بن سعید الهٰاشمی قٰال حدِّثنٰا فرٰات بن ابرٰاهیم فرٰات الکوفی قٰال حدّثنٰا محمّد بن ظهیر قٰال حدّثنٰا عبد اللّه بن الفضل الهٰاشمی عن الصّادق جعفر بن محمّد (علیه السلام)عن ابیه عن آبائه (علیهم السلام)قٰال ،قٰال رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) یومُ غدیر خم افضلُ اَعیادِامّتی وهو الیومُ الّذی امرنی اللّه تعٰالیٰ ذکره فیه بنصبِ اخی علیّ بن ابی طالبٍ (علیه السلام)علماً لاُمّتی یهتدون من بعدی وهو الیوم الذی اکمل الله فیه الدین واتم علی امتی فیه النِّعمة ورضِیَ لهم الاسلامَ دیناً ثمّ قٰال : ( صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)معٰاشر النّاس انّ علیاً منّی وانا من علیٍّ خُلق من طینتی وهو امٰام الخلق بعدی یبیّنُ لهم مَا اختلفوا فیه من سنّتی وهو امیرُالمؤمنین وقٰائد الغرَّ المحجّلین ویعسوب المؤمنین وخیر الوصین وزوج سیّدة نسٰاء العٰالمین واَبوالاَئمّة المهدیین معٰاشر النّاس من احبّ علیاً احببتُه ومن ابغض علیاً ابغضته ومن وصل علیاً وصلته ومن قطع علیاً قطعته ومَن جفٰا علیّاً جفوته ومن وٰالیٰ علیّاً وٰالیتُه ومن عاد علیّاً عٰادیته ، معاشر النّاس أنا مدینةالحکمة وعلیّ بن ابیطالبٍ بٰابهٰا ولن تُؤتی المدینة الاّ من قِبَلِ البٰاب وکذب من زعم انّه یحبّنی ویبغض علیّاً

معٰاشر النّاس والّذی بعثنی بالنّبوّة واصطفانی علیٰ جمیع البریّة مٰا نصبتُ علیّاًعلماً لاُمّتی فی الارض حتّیٰ نوّه اللّه باسمه فی سمٰوٰاته واوجب ولاٰیته علیٰ ملائکته (والحمدُ للّه ربّ العٰالمین والصّلاةعلیٰ خیر خلقه محمّدٍ وآله)

ترجمہ:

رسول گرامی اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)نے فرمایا میری امت کی بہترین عیدوں میں سے ایک عید غدیر خم کی عید ہے اور یہ وہ دن ہے کہ جس دن خدا نے مجھے حکم دیا کہ اپنی امت کی امامت کیلئے اپنے بھائی علی ابن ابی طالب (علیہ السلام )کو منصوب کروں تاکہ لوگ میرے بعد اس کی اتباع کریں یہ وہ دن ہے کہ جس دن خدا نے اپنے دین کو مکمل کیا اور میری امت کیلئے اس دن نعمتوں کوتمام کیا اور دین اسلام لوگوں کیلئے انتخاب کر نے پر راضی ہوا اور پھر پیامبر(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا اے لوگو آگا ہ ہو جاؤ کہ علی (علیہ السلام ) مجھ سے ہے اور میں علی (علیہ السلام ) سے ہوں خدا نے علی (علیہ السلام ) کو میری طینت سے خلق فرمایا اور میرے بعد میری امت کا امام ہے اور جب لوگ میری سنت کے بارے میں اختلاف کریں گے تو ان کیلئے میری سنت کو بیان کرے گا ۔ اور علی(علیہ السلام ) مؤمنوں کا امیر ہے سفید پیشانی والوں کا رہبر ہے اور یعسوب المومنین ہے یعنی مومنوں کا سردار ہے اور خیر الوصیین ہے اور عالمین کی عورتوں کی سردار کا شوہر ہے اور ابولآئمہ ہے یعنی گیارہ اماموں کا باپ ہے اے لوگوں جو علی (علیہ السلام ) سے محبت کرے گا میں اس سے محبت کروں گا اور جو علی (علیہ السلام ) سے بغض رکھے گا میں اس سے ناراض ہونگا اور جو علی (علیہ السلام ) سے دوستی رکھے گا میں اس سے دوستی رکھوں گا اور جو علی (علیہ السلام ) سے قطع تعلقی کرے گا میں اس سے قطع تعلقی کروں گا اور جو علی پر ظلم کرے گا میں اس پر جفا کروں گا اور جو علی (علیہ السلام ) کی ولایت کا اقرار کرے گا میں اس کا ولی ہو نگا جو علی (علیہ السلام ) سے دشمنی کرے گا میں اس سے دشمنی کروں گا اے لوگو آگاہ رہو میں حکمت کا شہر ہوں علی(علیہ السلام ) اس کا دروازہ ہے اور کوئی شہر میں نہیں آسکتا مگر دروازے سے اور جھوٹ بولتا ہے وہ شخص جو کہے کہ میں رسول سے محبت کرتا ہوں جبکہ علی (علیہ السلام ) سے بغض رکھتا ہو۔

اے لوگومجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبی بنایا اور تمام لوگوں سے مجھے منتخب کیا میں نے علی(علیہ السلام) کو اس زمین پر اپنی امت کا عَلَم نہیں بنایا یعنی امام نہیں منصوب کیا مگر خدا نے علی (علیہ السلام)کے نام کو آسمانوں پر بلند کیا اور ملائکہ پر علی(علیہ السلام) کی محبت وولایت کو واجب کردیا ہے حمد ہے اس اللہ کیلئے جو عالمین کا رب ہے اور درود وسلام ہوں خدا کی بہترین مخلوق حضرت محمد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) پر اور اس کی پاک آل پر ۔(۱)

____________________

(۱) ( امالی شیخ صدوق)

بتالیسویں حدیث

( ۴۲) معراج رسول خدا

عن ابی ذرّ الغفاری قال: کنتُ جالساً عند النبیّ(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)ذات یومٍ فی منزل اُمّ سلمة ورسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)یُحدّثنی وانا اسمعُ،اذدخل علیّ بنُ ابیطالبٍ(علیه السلام)، فاَشرَق وجههُ نوراً فرَحاً باَخیه وابن عمِّه ، ثمّ ضمَّه الیه و قبَّل بین عینه ، ثمّ التفت الیّ فقٰال : یا اباذر اتعرف هٰذا الدّاخل علینا حقّ معرفته؟ قال ابوذرّ: فقلت : یارسول اللّه هٰذا اَخوک وابنُ عمّک وزوج فاطمة البتول وابوالحسن والحسین سیّدی شباب اهل الجنّه فقٰال رسول اللّه(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم)

۱ یا ابٰاذرهٰذا الامٰام الازهر ، ورُمح اللّه الاَطوَل وبٰاب اللّه الاکبر فمن اراد اللّه فلیدخلُ البٰاب

۲ یٰا ابٰا ذرٍّهٰذا القائم بقسط اللّه والذّابّ عن حریم اللّه والنّاصر لدین اللّه وحجّة اللّه علیٰ خلقه انّ اللّه تعٰالیٰ لم یزل یحتجّ به علیٰ خلقه فی الامم کلّ یبعث فیهٰا نبیّاً

۳ یٰا اباذرانّ اللّه تعٰالیٰ جعل علیٰ کلّ رکنٍ من ارکان عرشه سبعین الف ملکٍ لیس لهم تسبیح ولاٰ عبٰادة الاّ الدّعٰاء لعلیٍّ وشیعته والدّعا ءَ علیٰ اعدٰائه

۴یا ابٰا ذر لولاٰ علیّ مٰا بٰان الحقّ من الباطل ولاٰ مؤمن من الکافر و لاٰ عبد اللّه ، لأنّه ضَرَبَ رؤُس المشرکین حتّیٰ اسلموا وعبدواللّه ، ولولاٰ ذٰلک لم یکن ثواب ولاٰ عقٰاب ولاٰ یستره من اللّه ستر ولاٰ یحجبه من اللّه حجٰاب وهوالحجٰابُ والسّترُ ثمّ قراءَ رسول اللّه (صلّی اللّه علیه وآله وسلّم ):شرع لکم من الدّین مٰا وصّیٰ به نوحاً والذّی اوحینٰا الیک ومٰا وصّینٰا به ابراهیم وموسیٰ وعیسیٰ ان اقیموا الدّین ولاٰ تتفرّقوا فیه کبُر علی المشرکین مٰا تدعوهم الیه اللّه یجتبی الیه من یشٰاءُ و یهدی الیه مَن ینیب

۵یٰا ابٰا ذرٍّ انّ اللّه تبارک وتعٰالیٰ تفرّد بمُلکه ووحدانیّته ، فعرّف عبٰادَه المخلصین لنفسه ، وابٰا ح لهم الجنّة ، فمن ارٰاد ان یهدیه عرّفه ولاٰ یته ومن ارٰاد ان یطمس علیٰ قلبه اَمسک عنه معرفته

۶یٰا ابٰاذرٍّ هٰذا رٰایة الهدیٰ ، وکلمة التّقویٰ ، والعروة الوثقیٰ ، وامٰامُ اولیٰائی ، ونور من اطٰا عنی، وهو الکلمة الّتی الزمها اللّه المتّقین فمن احبّه کان مؤمناً، ومن ابغضه کٰان کافراً ومن ترک ولاٰیته کٰان ضٰالاً مضلاًّ ، ومن جحد ولاٰیته کاٰن مشرکاً

۷یٰا ابٰاذرٍّ یؤ تیٰ بجٰاحد ولٰایة علیٍّ یوم القیامة اصمّ واعمیٰ وابکم فَیُکَبکَبُ فی ظلمٰات القیٰامة یُنٰادی یٰا حسرتٰا علیٰ مٰافرّطتُ فی جنبٍ اللّه وفی عنقه طوق من النّار ، لذٰلک الطّوق ثلاٰ ثُماءة شعبَةٍ علیٰ کلّ شعبة منهٰاشیطٰان یتفلُ فی وجهه ویکلح من جوف قبره الیٰ النّار ، قٰال ابوذر : فقلتُ : فداک ابی وامّی یٰا رسول اللّه ملأت قلبی فرحاً وسروراً فزدنی فقٰال: نعم انّه لمّا عرج بی الیٰ السّمٰاء الدّنیا اذّن ملک من الملائکة واقام الصلاة، فاخذ بیدی جبرائیل (علیه السلام) فقدّ منی ،

فقٰال لی : یٰا محمّد(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم ) صلّ بالملائکةفقد طٰال شوقهم الیک ،فصلّیت بسبعین صفّاًمن الملائکة ، الصّفّ مٰا بین المشرق والمغرب لاٰ یعلم عددهم الاّ الذی خلقهم ، فلمّا قضیت الصّلاة اقبل الیّ شر ذمة من الملائکة یسلّمون علیَّ یقولون : لنٰا الیک حٰاجة ، فظننت انّهم یساَلوننی الشّفاعة لاَنّ اللّه عزّوجلّ فضّلنی بالحوض والشّفاعة علیٰ جمیع الانبیاء فقلتُ : مٰا حٰا جتکم ملائکة ربّی ؟ قالوا : اذٰا رجعتََ الی الارض فاقرأ علیّاًمنّا السّلام واَعلمه باِنّا قد طٰال شوقنٰا الیه ، فقلتُ : ملائکة ربّی! تعرفوننٰا حقّ معرفتنٰا ؟ فقٰالوا:یا رسول الله لا نعرفکم انتم اول خلق خلقه الله خلق کم الله اشباح نورٍفی نورٍ من نور اللّه وجعل لکم مقاعدَ فی ملکوته بتسبیح وتقدیسٍ وتکبیرٍ له ثمّ خلق الملائکة ممّا اراد من انواٰر شتّیٰ ، کنّٰا نَمُرُّ بکم وانتم تسبّحون اللّه وتقدّسون وتکبّرون وتحمدون وتهلّلون ، فنسبِّحُ و نقدّس و نحمدُ ونهلّل ونکبّر بتسبیحکم وتقدیسکم وتحمیدکم وتهلیلکم وتکبیرکم فمٰا نزل من اللّه تعٰالیٰ فالیکم ومٰا صعد الیٰ اللّه تعٰالیٰ من عند کم ، فلم لاٰ نعرفکم ؟

ثمّ عُرجَ بی الیٰ السّمٰاء الثّانیة ، فقٰالت الملائکة مثل مقٰالة اصحٰابهم فقلتُ: ملائکة ربّی؟ هل تعرفوننٰا حقَّ معرفتنٰا ، قٰالوا: ولم لاٰ نعرفکم وانتم صفوة اللّه من خلقه وخزّان علمه والعروة الوثقیٰ ، والحجّة العظمیٰ ، وانتم الجنب والجٰانب وانتم الکَراسیّ واصول العلم ؟فاقرأ علیاً منّا السّلام

ثمّ عرج بی الیٰ السمآء الثالثة فقٰالت لی الملائکة مثل مقٰالة اصحابهم فقلت : ملاٰئکة ربّی ! تعرفوننٰا حقّ معرفتنٰا ؟ قٰالوا: ولِمَ لاٰ نعرفکم وانتم بٰاب المقٰام وحجّة الخصٰام وعلیّ دٰابّة الارض وفٰاصل القضٰاء وصٰاحب العصٰا، قسیم النّار غداً وسفینة النّجاة مَن رکبها نجیٰ ومَن تخلّف عنها فی النّار تردّیٰ یوم القیامة انتم الدّ عائم ونجوم الاقطار فلِمَ لا نعرفکم فاقرأ علیّاً منّا السّلاٰم

ثمّ عرج بی الیٰ السّماء الرّابعة ، فقٰالت لی الملائکة مثل مقٰالة اصحٰابهم فقلتُ: ملاٰ ئکه ربّی ! تعرفوننٰا حقّ معرفتنٰا ؟ فقالوا: ولِمَ لاٰ نعرفکم وانتم شجرة النّبوّة ، وبیت الرّحمة ومعدن الرّسالة ومختلف الملاٰئکة وعلیکم ینزل جبرٰائیل بالوحی من السماء ، فاقرأ علیاً منّا السّلام

ثمّ عرج بی الی السماء الخامسة ، فقٰالت لی الملائکة مثل مقٰالة اصحابهم فقلتُ : ملائکة ربّی! تعرفوننا حقّ معرفتنٰا؟ قالوا: ولِمَ لا نعرفکم ونحن نمرّ علیکم بالغدٰاة والعشیّ بالعرش ، علیه مکتوب ،،لاٰ اله الاّ الله محمد رسول الله وایّده بعلیّ بن ابی طالبٍ علیه السلام،، فعلمنٰا عند ذٰلک انّ علیاًولیّ من اولیاء الله تعالیٰ فاقرأ علیاً منّا السّلام

ثمّ عرج بی الی السماء السّٰادسة ، فقٰالت الملائکة مثل مقٰالة اصحابهم ، فقلت : ملائکة ربّی ! تعرفوننٰا حقّ معرفتنا؟ قالوا ولِمَ لاٰ نعرفکم وقد خلق الله جنّة الفردوس وعلیٰ بٰابِهٰا شجرة ولیس فیهٰا ورقة الاّ وعلیها حرف مکتوب بالنّور ،، لا اله الاّ الله ومحمد رسول الله وعلیّ بن ابی طالبٍ عروة الوثقیٰ وحبل المتین وعینه علیٰ الخلاٰئق اجمعین،،فاقرأ علیاً منّا السّلام

ثمّ عرج بی الی السّماء السّٰابعة ، فسمعت الملائکة یقولون : الحمد لله الذی صدقنٰا وعده ، فقلتُ : بمٰاذا وعدکم؟ قالوا: یا رسول الله لمّا خلقکم اشباح نورٍ فی نورٍ من نور الله تعالیٰ عرضت ولاٰیتکم علینافقبلنٰاها وشکونا مَحَبّتکُم الی الله تعالیٰ فامّا انت فوَعَدَنٰا باَن یرینٰاک معنٰا فی السّماء وقد فعل ،

وامّا علیّ علیه السلام فشکونٰا محبّته الی الله تعالیٰ فخلق لنا فی صورته ملکاً واقعده عن یمین عرشه علیٰ سریر من ذهبٍ مرصّع بالدّرٍّو الجوهر علیه قبّة من لؤلؤةٍ بیضٰاءَ ، یُریٰ بٰاطنها من ظاهرهاو ظاهرها من باطنهٰا ، بلاٰ دعٰامة من تحتها ولاٰ علاٰقة من فوقهٰا ، قٰال لهٰا صاحبُ العرش قومی بقدرتی فقٰالت ، فکلّمٰا اشتقنٰا الیٰ رؤیة علیٍّ نظرنٰا الیٰ ،، ذٰلک الملک فی السّمٰاء فاقرأ علیاً منّا السّلام

ترجمہ:

ابو ذر غفاری کہتے ہیں ایک دن میں ام سلمہ کے گھر رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)کے پاس بیٹھا تھا رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)میرے لئے حدیث بیان کر رہے تھے اور میں سن رہا تھا کہ اتنے میں حضرت علی(علیہ السلام) تشریف لاتے ہیں جب رسول کی نظر حضرت علی(علیہ السلام) پر پڑی تو پیامبر کے چہرے پر نور چمکا خوشحال اور مسرور ہوئے کہ پیامبر نے اپنے بھائی اور چچا زاد کاد یدار کیا رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے علی(علیہ السلام) کو اپنے سینے سے لگا یا اور رسول نے علی(علیہ السلام) کا ماتھا(پیشانی) کا بوسہ دیا اور مجھے دیکھ کر پیامبر نے فرمایا اے ابوذر یہ جو ہمارے پاس آیا ہے اسکو جس طرح پہچاننے کا حق ہے پہچانتا ہے ؟ ابو ذر نے عرض کی اے اللہ کے رسول وہ آپکا بھائی اور آپکے چچے کا بیٹا اور فاطمہ کا شوہر حسن(علیہ السلام) و حسین (علیہ السلام)جنت کے جوانوں کے سردار کا باپ ہے پھر رسول نے فرمایا :

( ۱ )اے ابوذر یہ نورانی امام ہے خدا کا بلند بالا نیزہ ہے یہ خداوند تبارک وتعالیٰ کا دروازہ ہے اور جو بھی خدا تک پہچنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اس دروازے سے داخل ہو۔

( ۲ ) اے ابوذریہ خدا کے عدل پر قیام کرنے والا ہے اور خدا کے حرم کا دفاع کرنے والا ہے

دین خدا کی مدد کرنے والا ہے اور خدا کی مخلوق پر خدا کی حجت ہے اور خدا نے جس قوم میں بھی کوئی نبی بھیجا ہے اس امت کے درمیان خدا نے علی(علیہ السلام) کے وسیلے سے حجت تمام کی ۔

۳ ۔ اے ابوذر خدا کی قسم خدا نے اپنے عرش کے ہر ستون پر ستر ہزار فرشتے مقرر کیئے ہیں اسکی تسبیح و عبادت سوائے اس کے نہیں کہ وہ علی(علیہ السلام) اور اسکے شیعوں کیلئے دعا کرتے ہیں ۔ اور انکے دشمنوں پر لعنت کرتے ہیں ۔

۴ ۔ اے ابوذر اگر علی (علیہ السلام) نہ ہوتے تو حق باطل سے روشن نہ ہوتا مومن کافر سے پہچانا نہ جاتا اور خدا کی عبادت نہ ہوتی کیونکہ اس نے مشرکوں کے سروں کوکا ٹا تاکہ اسلام لے آئیں اور خدا کی عبادت کریں اگر علی (علیہ السلام) نہ ہوتے تو نہ ثواب ہوتا نہ عقاب ہوتا، علی(علیہ السلام) اور خدا کے درمیان نہ کوئی پردہ ہے اور نہ کوئی حجاب بلکہ علی (علیہ السلام) ہی پردہ ہے اور حجاب ہے پھر رسول نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ،،شرع لکم من الدین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،خدا نے تمہارے لئے دین سے اس چیز کو مقررکیا کہ جسکی نوح(علیہ السلام) کو خدا نے وصیت کی اور وہ جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی ہے اور جسکی سفارش کی ہم نے ابراھیم (علیہ السلام) و موسیٰ (علیہ السلام) و عیسیٰ(علیہ السلام) کو کہ دین کو قائم کریں اور متفرق نہ ہو ں مشرکوں کیلئے بہت ہی سخت تھا جو تم انکوخدا کی دعوت دیتے ہو اور خدا جسکو چاہتا ہے اپنے لئے چن لیتا ہے اور اپنی طرف اسکی ھدایت کرتا ہے جسکو اپنا نائب بناتا ہے

۵ ۔ اے ابوذر خدا اپنی مملکت ووحدانیت میں یکتا ہے اور اپنے مخلص بندوں کو اپنی معرفت عطا کرتا ہے اور جنت کو ان کیلئے خلق فرمایا ہے اور جس کی ھدایت کا خدا ارادہ کرتا ہے اسکو ولایت علی(علیہ السلام) کی معرفت عطا کرتا ہے اور جس کے گمراہ ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے معرفت وولایت حضرت علی(علیہ السلام) کو سلب کر لیتا ہے ۔

( لیکن یاد رہے کہ خدا کا جس کے متعلق ارادہ ہوتا ہے اس چیز کی لیاقت ذاتی کے مطابق ہوتا ہے )

۶ ۔ اے ابوذر یہ ھدایت کا پرچم ہے حضرت علی (علیہ السلام)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیامبر نے ارشاد فرمایا یہ کلمہ تقویٰ ہے یہ عروۃ الوثقیٰ اور میرے اولیاء کا امام ہے اور جو بھی میری ا طاعت کریگا اس کا نور ہے یہ وہ کلمہ ہے کہ جس سے خدا نے متقین کو متمسک رہنے کا حکم دیا ہے پس جو بھی علی (علیہ السلام)سے محبت کرے گا وہ مومن ہے اور جو بھی علی(علیہ السلام) سے دشمنی کرے گا وہ کافر ہے اور جو بھی علی (علیہ السلام)کی ولایت کو ترک کرے گا وہ گمراہ ہے اور گمراہ کرنے والا ہے اور جو بھی اس کے حق سے انکار کرے گا وہ مشرک ہے ۔

۷ ۔ اے ابوذر علی(علیہ السلام)کی ولایت کا انکار کرنے والا قیامت کے دن بہرا اندھا اور گونگا محشور ہو گا اور قیامت کی ظلمت میں الٹا چلے گا اور فریاد کرے گا کہ ھائے افسوس کہ میں نے خدا کے حق میں کوتا ہی کی اور اس کی گردن میں آگ سے بنا ہوا طوق ہوگا کہ جس کے تین سو کنڈے ہونگے او ر ہر کنڈے پر شیطان مسلط ہے اور اس شخص کے منہ میں اپنے دھان سے آب دھان یعنی تھوکتا ہے جب قبر سے نکل کر جہنم کی آگ میں جاتا ہے تو اس کا چہرہ قبیح اور زشت ہو چکا ہوتا ہے ابوذر نے عرض کی یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں آپ نے میرے دل کو بہت خوش کیا اور بھی ارشاد فرمائیں تو پیامبر گرامی اسلام نے اپنے واقع معراج کو ایک آسمان سے ساتویں تک کو بیان کیا کہ سات آسمانوں کے ملائکہ نے حضرت علی (علیہ السلام)کے دیدار کے شوق کا اظہار کیا ،

پہلا آسمان :

رسول (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ارشاد فرمایا جب مجھے دنیا کے آسمان پر لے جایا گیا ایک فرشتے نے اذان و اقامت کہی اور پھر جبرائیل نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آگے کردیا ۔

اور کہا کہ ملائکہ کو نماز پڑھاؤ کہ کافی عرصے سے تمہارے دیدار کے مشتاق ہیں ۔

میں نے نماز پڑھائی جبکہ ملائکہ کی سترصفیں تھیں ایک صف کی لمبائی مشرق سے مغرب تک تھی اور انکی تعداد کو کوئی نہیں جانتا سوائے خالق اکبر کے کہ جس نے ان کو خلق کیا جب ہم نماز پڑھ چکے اور تسبیح اور تقدیس میں مشغول تھے کہ ملائکہ کا ایک گروہ میرے پاس آیااور مجھ پر سلام کیا اور کہنے لگے اے محمد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کیا ہماری حاجت کو پوراکرو گے ؟ رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ ملائکہ خدا سے شفاعت چاہتے ہیں کیونکہ خدا نے مجھے بوسیلہ حوض کوثر اورشفاعت، تمام انبیاء پر فضیلت برتری دی ہے میں نے کہا اے خدا کے فرشتے اپنی حاجت بیان کریں،تو ملائکہ کہنے لگے جب زمین پر واپس جائیں تو حضرت علی (علیہ السلام)کو ہماری طرف سے سلام پہنچا دینا اور ساتھ یہ کہنا کہ ہم تیرے دیدار کے بہت مشتاق ہیں تو میں نے کہا اے خدا کے ملائکہ کیا تمہیں جس طرح ہماری معرفت رکھنی چاہئے معرفت حاصل ہے؟کہنے لگے اے رسو ل خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کس طرح تمہیں نہ پہچانیں جبکہ آپ خدا کی پہلی مخلوق ہیں خدا نے تمہیں نور کی شکل میں نور کے پردوں میں خلق کیا اورتمہیں اپنے عرش کے پاس جگہ عطا کی تاکہ خدا کی تسبیح وتقدیس و تکبیر بیان کرتے رہیں اور پھر خدا نے ملائکہ کو جس سے ارادہ کیا خلق کیا یعنی مختلف انوار سے خلق کیا اور ہم آپکے پاس سے گزرتے تو آپ کی تسبیح و تقدیس و تکبیر و تہلیل کی آواز سنتے تھے تو ہم نے بھی آپکی طرح خدا کی تسبیح و تقدیس و تکبیر بیان کی پس جو بھی خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے وہ آپکی طرف نازل ہوتا اور جو بھی خدا کی طر ف زمین سے بلند ہوتا ہے وہ بھی آپکی طرف سے ہوتا ہے پس کیسے ہم آپکو نہ پہچانیں؟

دوسرا آسمان:

رسول فرماتے ہیں پھر مجھے دوسرے آسمان پر لے جایا گیا تو وہاں کے رہنے والوں

فرشتوں نے بھی پہلے آسمان پر رہنے والے فرشتوں کی طرح سوال کئے میں نے کہا اے خدا کے ملائکہ کیا جس طرح ہماری معرفت کا حق ہے ہماری معرفت رکھتے ہو تو ملائکہ نے جواب دیا ہم کیسے آپ کو نہ پہچانیں جبکہ خدا نے اپنی مخلوق سے آپکو منتخب کیا اور آپ خدا کے علم و معرفت کا خزانہ و منبع ہیں وعروۃ الوثقیٰ ہیں یعنی اللہ کی مضبوط رسی ہیں اور خدا کی عظیم حجت ہیں آپکا مقام خدا کے ساتھ ملا ہوا ہے اور آپ علم کا تخت اور مخزن ہیں اور جب زمین پر جائیں تو علی کو ہمارا سلام پہنچا دینا ۔

تیسرا آسمان:

پھر مجھے تیسرے آسمان پر لے جایا گیا وہاں پر رہنے والے ملائکہ نے بھی مجھ سے پہلے کی طرح سوال کیا میں نے جواب دیا کہ جس طرح ہماری معرفت رکھنے کا حق ہے معرفت رکھتے ہیں؟ کہنے لگے کیوں نہ ہم آپ کی معرفت رکھتے ہوں جبکہ آپ کا مقام بلند دشمنوں پر حجت ہیں ۔ اور علی دابۃ الارض ہے قضا کو جدا کرنے والا اور صاحب عصا ہے قیامت کے دن جہنم کو تقسیم کرنے والاہے ۔اور نجات کی کشتی ہے جو سوار ہوا نجات پا گیا اور جس نے تخلف کیا اور روگردان ہوا روز قیامت جہنم میں داخل ہو گاتم دین کے ستون ہو زمین پر روشن ستا رے ہوہم کیسے تمہیں نہ پہچانیں علی کو ہمارے سلام پہنچا دینا ۔

چوتھا آسمان:

پھر چوتھے آسمان پر رہنے والے ملائکہ نے اسی طرح سوال کیا میں نے جواب دیا کیا ہماری معرفت جس طرح معرفت رکھنے کا حق ہے رکھتے ہو؟تو ملائکہ نے ایک زبان ہو کر کہا ہم کیسے تمہیں نہ پہچانیں جبکہ تم نبوت کا شجرہ ہو اور رحمت کا گھر ہو اور رسالت کا خزانہ ہو اور ملائکہ کے آنے و جانے کا مقا م ہو اور تم پر جبرائیل آسمان سے وحی لیکر نازل ہوتا ہے علی کو ہمارا سلام پہنچا دینا ۔

پانچواں آسمان :

پھر مجھے پانچویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں پر بھی ملائکہ نے مجھ سے وہی سوال کیا میں نے انکو کہا کہ جس طرح انکو پہچاننے کا حق ہے پہچانتے ہو تو کہنے لگے کیسے آپ کو نہ پہچانیں جبکہ صبح وشام عرش پر تمہارے پاس سے گزرتے ہیں اور وہاں پر لکھا ہوا ہے لا الہ الاّ اللہ محمد الرسول اللہ اور خدا نے اپنے رسول کی علی بن ابی طالب کے ذریعے تائید کی ہے اس وقت ہم نے پہچانا کہ علی ولی خدا ہے علی کو ہماری طرف سے سلا م پہنچا دینا ۔

چھٹا آسمان:

پھر مجھے چھٹے آسمان پر لایا گیا پھر ملائکہ نے مجھ سے وہی سوال کیا میں نے ملائکہ سے کہا کیا تم ہماری معرفت رکھتے ہو جس طرح رکھنے کا حق ہے تو کہنے لگے ہم کیسے تمہاری معرفت نہ رکھتے ہوں تحقیق خدا نے جب جنّت الفردوس کو خلق کیا اور اس کے دروازے پر ایک شجرہے اور اس کے تمام پتوں پر نور سے لکھا ہوا ہے ،،لا الہ الاّ اللہ و محمد رسول اللہ و علی بن ابی طالب عروۃ اللہ وحبل اللہ المتین وعینہ علی الخلائق اجمعین ،،علی عروۃ الوثقیٰ ہے علی خدا کی مضبوط رسی ہے علی خدا کی مخلوق پر خدا کی آنکھ ہیں علی کو ہماری طرف سے سلام پہنچا دینا ۔

ساتواں آسمان:

پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے گئے میں نے سنا ملائکہ کہہ رہے تھے کہ حمداس اللہ کی جس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا میں نے ان کو کہا کس چیز کا خد ا نے تم سے وعدہ کیا تھا تو سب نے کہا اے رسول خدا جب خدا نے آپ کونور کی اشباء میں اور اپنے نور سے خلق کیا تو خدا نے تمہاری ولایت کو ہمارے سامنے پیش کیا ہم نے تمہاری ولایت کو قبول کیاا ور شدت محبت کی وجہ سے ہم نے تمہاری جدائی کے بارے خدا سے شکایت کی تو خدا نے تمہارے بارے ہم سے وعدہ کیا کہ ایک دن میں تمہیں دکھاؤں گا اور آج ہم آسمان پر آپ کی زیارت کر رہے ہیں اور خدا نے اپنے وعدہ کو پورا کیا ہے۔

اور ہم نے علی کے بارے میں بھی خدا سے شکایت کی تو خدا نے ایک فرشتے کو علی کی شکل میں خلق کیا اور اپنے عرش کے دائیں طرف سونے کے تخت پر جو لا ل و جواہر سے مزیّن ہے پر بٹھایا اور اس تخت پر سفید موتیوں سے ایک قبّہ ہے کہ جس کے اندر باہر دونوں طرف سے دیکھا جا سکتاہے اور اس قبہ کا کوئی ستون نہیں اور نہ اوپر سے کوئی سہارا دیا گیا ہے خدا نے اس کو حکم دیا اور وہ خدا کے حکم سے قائم ہے اور جب ہمیں علی کی محبت کی شدت ہوتی ہے تو ہم آسمان پر اس فرشتے کی زیارت کرتے ہیں جو علی کی شکل میں ہے اور جب زمین پر تشریف لے جائیں تو علی کو ہماری طرف سے سلام پہنچا دینا ۔(۱)

____________________

(۱) ( بحار الانوار ج۴۰ ص۵۵تا ۵۸ح۹۰ تفسیر فرات کوفی ص۳۷۰تا ۳۷۴کمی اختلاف علی والمناقب ج ۳ ص۹۴ تا )