تقریظ
از حضرت آیت الله جعفر سبحانی دام ظلّہ
اسلامی قوانین دو بنیادوں پر استوار ہے ۔ان میںسے ایک ”کلمہ توحید ،،یعنی یکتا پرستی ہے جو تمام مسلمانوں کا شعار ہے۔ اور دوسرا ”توحید کلمہ ،،ھے جوتمام مسلمانوںکو وحدت و اتفاق اور اتحاد و یگانگی کی دعوت دیتا ہے اگر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلّم لو گوں کو یکتا پرستی کی دعوت دیتے تھے تو ان کو تفرقہ اور گروہ بازی سے بھی منع کرتے تھے ۔اور ہم یشہ سے یہ آیت دنیا بھر کے تمام مسلما نوں کے پیش نظر رہی ہے :(
اِنَّ هَٰذِه اُمَّتَکُم اُمَّةًوَاحِدةًوَاَنَا رَبَّکُم فَاعْبُدُون
)
(سورہ انبیاء ۹۲)” بےشک ےہ تمھاری امت ایک امت یعنی ایک دین کو ماننے والی ہے اور میں تمھا را پروردگار ہوں تم میری ہی عباد ت کرو ،،۔
بنا بر این جو چیز بھی مسلمانوں کی وحدت کو نقصان پھونچائے، ان کے اتحادکو درہم و برہم کرے ،ان کو مختلف گروہوںمیں باٹے یا ان کے در میان جو موجودہ شگاف ہے اس میں اضافہ کرے تو وہ ایک شیطانی فعل اور شیطانی نعرہ کھا جانے کا مستحق ہے ،جو جاہلوں یا اسلام سے ناواقف افراد کے منہ سے بلند ہوتا ہے ۔
دنیا کے مسلمان آٹھویں صدی ھجری تک انبیاء و اولیا اور صالحین امت کے بارے میں وحدت کلمہ رکھتے تھے ۔ وہ پیغمبر اسلام کی زیارت کے سفر کو مستحب جانتے تھے اور خود زیارت کو قربت کا ایک عمل سمجھتے تھے ۔ نیز اسلامی اساسوں اور پیغمبر اسلام کے آثار ، مثلاً خود آپ کی اور آپ کے فرزندوں اور صحابیوں کی قبر کی حفاظت پر بہت توجہ دیتے تھے ۔ اور اس راہ میں کسی کو شش سے دریغ نہیں کر تے تھے ۔ وہ مشاہد مقدسہ کو آباد رکھتے تھے اور اس طرح اپنی اسلامی ذمہ داریوں کو عملی جامہ پھناتے تھے ۔
پھلی بار آٹھویں صدی ھجری میں احمد ابن تیمیہ ( ولادت ۶۶۱ اور وفات ۷۲۸ ) نامی ایک شخص نے شام میں مسلمانوں کے در میان پر چم مخالفت بلند کیا اور تمام مسلمانوں سے بغاوت کر تے ہوئے اس نے زیارت کے سفر کو حرام کرار دیا ۔ انبیاء وصالحین کی قبروں کی زیارت کو بد عت اور رسالت کے آثار کی حفاظت کو شرک قرار دیا ۔ البتہ اس شیطانی آواز کا اس وقت شام اور مصر کے بزرگ علماء اور دانشوروں نے گلا گھونٹ دیا اور ابن تیمیہ کا مسلک اور نظریہ رواج نہ پاسکا ۔
لیکن بارہویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ کی کتابوں کامطالعہ کرنے کے بعد محمد ابن عبدالوہاب ( ولادت ۱۱۱۵ اور وفات ۱۲۰۷ ) نامی ایک شخص نے اس کے خبیث افکار کو دوبارہ زندگی دی اور ۱۱۶۰ میں خاندان محمد ابن سعود کے ساتھ رشتہ والحاق پیدا کیا۔ اس طرح یہ خبیث افکار نجد میں رائج ہوئے۔ اس مسلک کی نشر اشاعت کیلئے یہ لوگ عراقی ،اردنیٰ ،حجازی اور نجد کے اطراف میں مقیم قبائل کے ساتھ مسلسل خونی جنگ کرتے رہے ،نتیجہ میں توحید کے نام پر مسلمانوں کے ناموس اور پاکیزہ اقدار کی ھتک حرمت اور ان کے گھر بار کو آگ لگاتے اور ویران کرتے رہے ۔
لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود وہابی مسلک کو قابل دید عروج حاصل نہ ہو سکا یہاں تک ادھر آخری صدی میں برطانیہ کی مدد سے دوسری جنگ عظیم کے بعد آل سعود نجد و حجاز پر مسلّط ہوگئی ۔ اور یہ لوگ چند خود فروش اہل قلم کو خریدکر دوسروں کو گمراہ کرنے اوراس مسلک کو کہ جس کا مقصد ہی اسلام کی بنیادوںکومٹانے اور اسلامی آثار کو فنا کرنے اور نسل جدیدکو گزشتہ نسلوںسے منقطع کرنے کے سواکچہ اور نہیں ہے ،دوردراز علاقوںتک پھچانے میں کامیاب ہوگئے ۔اس راہ میں انھوں نے پٹرول ڈالر کی بنیاد پر کا فی عروج حاصل کیا۔
لیکن باطل ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے اس کی تمام روشنی چند روزہ ہوتی ہے اور حق باقی رہنے والا ہے ۔دوسرے لفظوں میں ”للباطل جولة و للحق دولة
،،
اوراس بنا پر اہل سنّت اور تشیّع کی بہت سی شخصیتوں نے اس مسلک پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے ابن تیمیہ کے افکار کو رد کیا ہے جن میں اکثریت اہل سنت حضرات کی ہے ۔ان میں سے کچہ افرادکے نام اس کتابچہ میں جسے حجتہ الاسلام جناب سیدنیازعلی رضوی نے ترجمہ کیا ہے درج کئے گئے ہیں ۔
تاکہ وہابیت سے متعلق اس مختلف معلومات اور دندان شکن علمی جوابات کے مطالعہ سے با ایمان افراد خاص طور پر نوجوان نسل اس فکری بیماری سے اپنے آپ کو محفوظ رکہ سکے ۔
قم ۔موسسہ امام صادق علیہ السلام
جعفر سبحانی