وہابیت :مسلمان علماء کی نظر میں

وہابیت :مسلمان علماء کی نظر میں0%

وہابیت :مسلمان علماء کی نظر میں مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 10 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5992 / ڈاؤنلوڈ: 3789
سائز سائز سائز
وہابیت :مسلمان علماء کی نظر میں

وہابیت :مسلمان علماء کی نظر میں

مؤلف:
اردو

وہابیت :مسلمان علماء کی نظر میں

بِسمِ اللهِ الرَّ حمٰنِ الرَّ حِیِم

( واذ اقیل لهم اتبعو اما انزل الله، قالو ا: بل نتّبع ما وجدنا علیه آبائنا )

( لقد کنتم انتم وآباو کم فی ضلال مبین ) القر آن الحکیم

” اور جب ان سے کھا گیا کہ خدا نے جو (دین ) نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو ( تو ) اُن لوگوں نے جواب دیا کہ ( نہیں ) بلکہ ہم اس ( دین ) کی پےروی کر تے ہیں جس پر ہم نے اپنے بزرگوں کو پایا ہے ،، ” یقینا تم لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہو اور تمھارے بزرگ بھی کھلی ہوئی گمراہی میں تھے ،، (قرآن کریم )

مسلمان بھائیوں

کیا آپ وہابیت کی حقیقت سے آگاہ ہیں ؟

اور کیا آپ جانتے ہیں کہ وہابی مسلک کو محمد ابن عبدالوہاب نجدی متوفی ۰۶ ۱۲ ئہ نے ایجاد کیا ہے ۔ اور اس نے اپنے تمام اصول احمد ابن تیمیہ حرانی کے افکار سے حاصل کئے ہیں ۔؟

اور کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ مذ ھب مسلمانوں کے چاروں مذاہب کے خلاف ہے ؟

اور کیا اس سے بھی با خبر ہیں کہ چاروں مذاہب وہابی مسلک کے قائدین اور اس کے پیرو کاروں کو گمراہ اور راہ ایمان سے خارج بتاتے ہیں ؟

خدا وند عالم نے فرمایا :

( ومن یشاقق الرّسول من بعد ما تبیّن له الهدیٰ ویتبع غیر سبیل المو منین نولّه ماتولّیٰ ، ونصله جهنّم وسائت مصیرا ،، صدق الله العظیم )

” اور جو شخص راہ ہدایت روشن ہو جانے کے بعد رسول خدا کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرے تو ہم اسے اس کے باطل راستہ پر چھوڑ دیں گے اور جھنم میں جلائیں گے اور یہ کتنا برا ٹھکانا ہے ،،۔

اور کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہم ارے اہل سنّت علماء کی ایک بڑی جماعت نے آپس میں اختلاف مذاہب کے با وجود وہابی مسلک کے مو جد اور اس کے استاد اور امام ، ابن تیمیہ کی رد میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں ۔اور وہابی مسلک کو باطل قرار دیا ہے ۔؟

محمد ابن عبدالوہاب نجدی اور اس کے عقائد

کیا آپ جانتے ہیں ؟کہ علماء مکہ نے محمد ابن عبد الوہاب کے ملحد ہو نے کا فتویٰ دیا ہے اور اسے خبیث ،بے شرم ،بے بصیرت اور گمراہ بتایا ہے۔ اور بتایا ہے کہ یہ شخص جھوٹا تھا ،قرآن و حدیث کے معنی میں تحریف کیا کرتا تھا خدا پر بہتان باندھتا تھااور قرآن کا منکر تھا اُنھوں نے اس پر بارہا لعنت کی ہے ۔

ہاں!یہ تمام باتیں حق کے حامی شاہ فضل رسول قادری نے اپنی کتاب ”سیف الجبار المسلوک علیٰ اعداء الابرار ،،میں لکھی ہے ۔یہ کتاب ۱۹۷۹ ءء میں ایک غیرت مند مسلمان حسین حلمی استانبولی نے تر کیہ میں شائع کی تھی ۔

عراق کی ایک مسلّم ومتفق علیہ عظیم علمی شخصیت شیخ جمیل آفندی زھاوی نے اپنی کتاب ”الفجر الصادق ،،میں صفحھ، ۱۷ پر محمد ابن عبدالوہاب کے حالات میںتحریر فرمایا ہے :یہ محمد ابن عبد الوہاب شروع میںایک طالب علم تھا ،،علماء سے علم حاصل کرنے کی خاطر مکہ ،مدینہ آتا جاتا رہتا تھا۔مدینہ میںجن علماء سے اس نے تحصیل علم کیاوہ یہ ہیں :شیخ محمد ابن سلیمان کردی ،شیخ محمد حیاةسندی ،یہ دونوں استاد اور دوسرے جن علماء سے یہ پڑھتا تھا،وہ حضرات اس کے اندر گمراہی و الحاد کو بھانپ گئے تھے اور کھتے تھے کہ خدا عنقریب اسے گمراہ کرے گا اور اس کے ذریعہ دوسرے بدنصیب بندے بھی گمراہ ہوںگے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اور اسکے باپ عبد الوہاب جو علماء صالحین میں تھے،انھوںنے بھی اس کی بے دینی کا اندازہ لگا لیا تھا اور لوگوںکو اس سے دور رہنے کا حکم دیتے تھے۔اسی طرح اس کے بھائی شیخ سلیمان بھی اس کے خلاف تھے بلکہ انھوں نے تو محمدابن عبدالوہاب کی ایجاد کردہ بدعتوں اور منحرف عقیدوں کی رد میں ایک کتاب بھی لکھی ۔وہ اسی کتاب کے صفحھ ۱۸ میں لکھتے ہیں کہ اس(محمد ابن عبدالوہاب )پر خدا کی لعنت ہو یہ اکثر پیغمبر اسلام کی مختلف الفاظ میں توہین کرتا تھا ،ً آپ کو پیغمبر کے بجائے ”طارش،،کھتا تھا جس کا مطلب عوام کی زبان میں وہ شخص ہے جسے کوئی کسی کے پاس بھیجے۔ حالانکہ عوام بھی صاحب عزت وقابل احترام شخصیت کے لئے یہ کلمہ نہیں استعمال کرتے ۔یہاں تک کہ اس کے بعض پیرو پیغمبر کی شان میں کھتے ہیں :”میرا یہ عصا محمد سے بھتر ہے ۔کیونکہ میں اس سے کام لیتا ہوںاور محمد مر گئے ہیں ۔اب ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ محمد ابن عبد الوہاب یہ سب سن کر خاموش رہتا تھا اور اپنی رضا ظاہر کرتا تھا آپ جانتے ہیں یہ بات مذاہب اربعہ میں کفر مانی جاتی ہے۔

اسی طرح یہ پیغمبر اسلام پر درود بھیجنے کو برا سمجھتا اور شب جمعہ میں رسول الله صلی الله علیہ و آلہ و سلّم پر درود پڑھنے سے روکتا تھا ۔منبروں پر بلند آواز سے درود پڑھنے سے منع کرتا اور اگر کوئی شخص ایسا کر تا تو اسے سخت سزا دیتا تھا یہاں تک اس نے ایک نابینا موذن کواسی بات پر قتل کردیا تھا کہ اسے اذان کے بعد درود پڑھنے سے منع کیا تھا لیکن وہ باز نہیں آیا تھا ۔

آپ کو جان کر بھی حیرت ہوگی اسماعیل پاشا بغدادی نے ”ھدیةالعا رفین ،،میں جو پہلے استانبول ،ترکیہ میں ۱۹۵۱ ئئمیں طبع ہوئی پھر دوبارہ بیروت میں ۱۴۰۲ ھئمیں آفسیٹ سے طبع ہوئی ،کی ج ۲ صفحہ ۳۵۰ پرذکر کیا ہے :محمد ابن عبدالوہاب نے ایک کتاب ان مسائل سے متعلق لکھی ہے جس میں اس نے پیغمبر کی مخالفت کی تھی ،اور پیغمبر کی مخالفت کا مطلب آپ سے دشمنی کرنا ہے جس کے متعلق خدا نے فرمایا ہے :( ومن یشاقق الرّسول من بعد ما تبیّن له الهدیٰ ویتبع غیر سبیل المو منین نولّه ماتولّیٰ ، ونصله جهنّم وسائت مصیرا )

جوراہ ہدایت روشن ہوجانے کے بعد پیغمبرکی مخالفت کرے اس کا ٹھکانا جھنّم ہے۔

محمد ابن عبدالوہاب کی رد میں لکھی گئی کتابیں

قارئین کرام جانتے ہیں کہ شیخ سلیمان ابن عبدالوہاب ،محمد ابن عبدالوہاب کے حقیقی بھائی نے سب سے پہلے اس بد عت ایجاد کرنے والے کی رد میں کتاب لکھی جس کا نام ” فصل الخطاب فی الرد علیٰ محمد ابن عبدالوہاب ،، رکھا تھا ۔ اس کا اسماعیل پاشا نے ” ایضاح المکنون ج ۲ ص ۱۹۰ طبع بیروت دار الفکر ۱۴۰۲ ئ

اور عمر رضا کحالہ نے ” معجم المو لفین ،، ج ۴ ص ۲۶۹ طبع بیروت ” دارا حیاء الترات العربی ،، میں ذکر کیا ہے

اور محمد ابن عبدالوہاب کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک شیخ عبدالله بن عیسیٰ صغانی ہیں ۔ انھوں نے جو کتاب لکھی اس کا نام ” السیف الھندی فی ابانة طریقةالشیخ النجدی ،، ہے۔ اس کا ذکر بھی اسماعیل پاشا نے ” ھدیة العارفین ،، ج ۱ ص ۴۸۸ میں کیا ہے

اس کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک سید علوی ابن حداد بھی ہیں جنھوں نے کتاب ”مصباح الانام ،،و ”جلاء الظلام فی رد شبہ البدعی النجدی التی اضلّ بھا العوام،،یہ کتاب مطبع عامر کے توسط سے ۱۳۲۵ ھئمیں طبع ہوئی ۔اس کا ابو حامد ابن مرزوق نے اپنی کتاب ”التوسل بالنبی وبالصالحین ،،میںکیا ہے۔ یہ کتاب بھی ابن عبد الوہاب کے عقائد کی رد میں لکھی گئی ہے ۔موصوف نے ایک اور کتاب بھی بنام ”السیف الباتر لعنق المنکر علی الاکابر ،،لکھی ہے اس کا ذکر بھی کتاب ”التوسل بالنبی وبالصالحین ،،صفحھ ۲۵۰ پر ہے ۔

محمد ابن عبد الوہاب کی رد میں لکھنے والوں میںسے ایک احمد ابن علی البصری ہیں جو قبائی کے نام سے مشھورتھے۔ انھوں نے اس کے ایک رسالہ کی رد میں ”فصل الخطاب فی رد ضلا لات ابن عبد الوہاب ،،کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کا تذکرہ بھی ابو حامد مرزوق نے” التوسل بالنبی وبالصالحین،،میں صفحھ ۲۵۰ پرکیا ہے اور اسماعیل پاشا بغدادی نے ”ایضاح المکنون،،میں ج ۲ صفحھ ۱۹۰ پراس کتاب کا نام ”فصل الخطاب،، ذکر کیا ہے۔

محمد ابن عبد الوہاب کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک بزر گوار سید احمد ابن زینی دحلان ،مفتی مکہ مکرّمہ بھی ہیں ۔ انھوں نے ”فتوحات اسلامیھ،،کی ج ۲ طبع مصر ۱۳۵۴ ھ مطبع مصطفی محمد میں اس کی رد کی ہے اوراس پر طعن کیا ہے (صفحھ ۲۵۱ سے ۲۶۹ تک دیکھئے )

مر حوم زینی دحلان نے لکھا ہے کہ محمد ابن عبد الوہاب کی رد میں بہت سی کتابیں اوررسالے لکھے گئے ہیں لیکن موصوف نے ان کتابوں کے نام نہیں ذکر کئے ۔

شیخ یوسف نبھانی نے بھی اس کی رد میں ”شواہدالحق فی التوسل بسید الخلق،،کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جوایک جلد میں طبع ہوئی ہے ۔اس کا ذکر بھی ”التوسل بالنبی وبالصالحین،،صفحھ ۲۵۲ پر ہے۔ اس کتاب کے ص ۱۵۱ پر سید احمد ابن دحلان کی کتاب ”خلاصةالکلام فی امراء البلد الحرام ،،سے نقل ہے۔

ان شبھات کا ذکر جن سے وہابیت نے تمسک کیا

مناسب یہ ہے کہ پہلے ان شبھات کا ذکر کریںجن سے محمد ابن عبد الوہاب نے لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر تمسک کیا۔

پھر ان کی رد پیش کریں گے اور یہ بیان کریں گے کہ جن باتوں کو اس نے دلیل بنایا ہے وہ سب جھوٹ ،افتراء اور عوام فریبی ہے ۔

پھر ”شواہد الحق،،کے ص ۱۷۶ میں لکھاہے۔

محمد ابن عبدالوہاب کے پاس اس کے استاد کردی کا خط

محمد ابن عبدالوہاب کی رد کر نے والوں میں سے ایک اس کے استاد شیخ محمد ابن سلیمان کردی شافعی ہیں انھوں نے منجملہ ان باتوں کے جو خط میں اس کی رد کرتے ہوئے لکھا تھا یہ باتیں بھی لکھی تھیں :

عبدالوہاب کے بیٹے !سلام ہو اس پر جس نے راہ راست کی پیروی کی، میں تمھیں الله کے لئے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی زبان کو مسلمانوں کی ایذا رسانی سے باز رکھو !

چنانچہ اگر کسی شخص کے بارے میں سنو کہ وہ غیر خدا جس سے مدد مانگی جائے اس کے موثر ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے تو اسے حق پہچنواؤ اور دلیل پیش کرو کہ غیر خدا میں تاثیر نہیں ہے ۔ اب اگر وہ انکار کرے تو صرف اسے کافر قرار دو ۔ تمھیں مسلمانوں کے سواد اعظم کو کافر قرار دینے کا کوئی حق نہیں ہے جبکہ تم خود سواد اعظم سے منحرف ہو اور جو شخص سواد اعظم سے منحرف ہو اس طرف کفر کی نسبت دینا زیادہ مناسب ہے ،کیوں کہ اس نے اہل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کی پیروی کی ہے خدا وند عالم نے فرمایا ہے :

( ومن یشاقق الرّسول من بعد ما تبیّن له الهدی ویتّبع غیر سبیل المو منین نولّه ما توّلّیٰ و نصلّه جهنّم و سائت مصیرا )

” کہ جو شخص راہ ہدایت روشن ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اس کے باطل راستہ پر چھوڑ دیں گے اور اسے جھنم میں جلائیں گے اور یہ برا ٹھکانا ہوگا ،، اور بھیڑ یا گلہ سے الگ ہو جانے والی بکری کو ہی کھاتا ہے ۔ انتھیٰ۔

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ : مذا ھب اربعہ میں سے جن لوگوں نے اس کی رد کی ہے ۔ خواہ مشرق کے رہنے والے ہوں یا مغرب کے ، بے شمار ہیں ۔ کسی نے مبسوط کتاب کی صورت میں رد لکھی اور کسی نے مختصر اور بعض نے صرف امام احمد ابن جنبل کے نصوص سے اس کی رد کی ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ وہ جھوٹا ہے ، اپنے کو امام احمد بن جنبل کے مذ ھب کی طرف نسبت دینے میں فریب دھی سے کام لے رہا ہے اور اپنے کلام کو اس طرح تمام کیا ہے کھ”ہم نے جو کچہ ذکر کیا اس سے وہ تمام باتیں باطل ہو جاتی ہیں جو محمد ابن عبدالوہاب نے گڑھی ہیں اور جن کے ذریعہ مومنین کو دھوکہ دے رہا ہے اور خود اس نے اور اس کے پیروؤںنے ان کی جان ومال کو مباح قرار دے رکھا ہے ،،۔ (خلاصہ کلام سید احمد دحلان )

کچہ اور افراد جنھوں نے اس کی رد میں کتابیں لکھیں

محمد ابن عبدالوہاب کی رد میں لکھنے والوں میں شیخ عطاء مکی بھی ہیں ، انھوں نے ” انصار الھند ی فی عنق النجدی ،، نام کی کتاب لکھی ۔ اس کا تذ کرہ ” التوصل بالنبی و بالصا لحین ،، میںص ۲۵۰ پر ہے ۔

اسی طرح اس کی رد میں لکھنے والوں میں بیت المقدس کے ایک عالم ہیں جنھوں نے ” السیوف الصقال فی اعناق من انکر علی الاو لیا ، بعد الا نتقال ،، لکھی اس کا تذ کرہ بھی ”التوسل بالنّبی و با لصالحین ،،میں ص ۲۵۰ پر ہے ۔ ایک اور بزرگ شیخ ابراہیم حلمی قادری اسکندری نے بھی اس کی رد کی ہے ، انھوں نے جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ” جلال الحق فی کشف احوال اشرار لخلق ،، ہے۔ یہ کتاب اسکندریہ میں ۵۵ ۱۳ ء ہ میں طبع ہوئی ہے اس کا تذ کرہ ” التوسل بالنبی وبالصالحین ،،میں ص ۲۵۳ پر ہے ۔

شیخ مالکی جزائری نے بھی اس کی رد کی ہے۔ انھوں نے ” اظھار العقوب ممن منع التو سلّ با لنّبی والو لی الصدوق ،، نام کی کتاب لکھی ہے۔ اسے صاحب کتاب ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین ،، نے ص ۲۵۲ پر ذکر کیا ہے ۔شیخ عفیف الدین عبدالله ابن داؤد جنبلی نے بھی اس کی رد میں ” الصّواعق والر عود ،، نام کی کتاب لکھی۔ اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین ،، کے ص ۲۴۹ پر ہے اور سید علوی ابن احمد حداد کا قول نقل کیا ہے کہ ’ بصرہ ، بغداد ، حلب ، اور احساء کے بزرگ علماء نے بھی اس کتاب کی تائید کی ہے اور اپنی تفریظوں میں بھی اس کی تعریف کی ہے ۔اور اس کی رد لکھنے والوں میں ایک شیخ عبدالله ابن عبد اللطیف شافعی ہیں ۔ انھوں نے ” تجرید الجھاد لمدی الا جتھاد ،، ص ۲۴۹ پر ہے ۔

اس کی رد کرنے والوں میں شیخ محقق محمد ابن الرحمن بن عفالق الحنبلی ہیں انھوں نے کتاب تحکم المقلدین بمن ادّعی تجدید الدین ،،لکھی ۔اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںص ۲۴۹ پرہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ انھوں نے ھر اس مسئلہ کی جسے محمد ابن عبد الوہاب نے گڑھا ہے خوب رد کی ہے۔

اسی طرح طائف کے ایک عالم شیخ عبد الله ابن ابراہیم میر غینی ہیں انھوں نے ”تحریض الاغبیاء علی الاستغاثہ بالانبیاء والاولیاء ،،نامی کتاب لکھی ہے اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ ۲۵۰ پرہے ۔

شیخ طاہر سنبل حنفی انھوںنے ”الانقصار للاولیاء الابرار ،،نام کی کتاب لکھی اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ ۲۵۰ پرہے ۔

شیخ مصطفی حمامی مصری نے بھی اس کی رد میں ”غوث العباد ببیان الرشاد ،،نام کی کتاب لکھی جو طبع ہو چکی ہے اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ ۲۵۳ پرہے ۔

اس کی رد لکھنے والوں میں علامہ محقق شیخ صالح کواشی تونسی بھی ہیں انھوں نے اس کی ردمیں ”رسالہ مسجعہ محکمة،،لکھا اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میں صفحہ ۲۵۱ پرہے اور لکھا ہے کہ علامہ موصوف نے اس رسالہ کے ذریعہ ابن عبدالوہاب کے ایک رسالہ کی رد کی ہے ۔علامہ مذکور کا یہ رسالہ ”سعادة الدار ین فی الرد علی الفریقین ،،کے ضمن میں طبع ہواہے نیز اس کی رد تونس کے شیخ الاسلام اسماعیل تمیمی مالکی نے بھی لکھی ہے ۔انھوں نے رد علی محمد ابن عبدالوہاب کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،صفحھ ۲۵۱ پرہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذکر کیا ہے کہ مذکورہ کتاب کافی محققانہ اور ٹھوس ہے اس کے ذریعہ ابن عبدالوہاب کے ایک رسالہ کی ردکی گئی ہے یہ کتاب تونس میں شائع ہوئی ہے ۔

علامہ مفتی فاس الشیخ مھدی وزّانی نے بھی اس کی رد کی ہے انھوں نے جواز توسل کے بارے میں ایک رسالہ لکھا ہے،اس کاذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ ۲۵۲ پرہے ۔

اور ابو حامد ابن مرزوق نے ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،کے صفحھ ۱ پرذکر کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :ائمہ اربعہ کے بعض پیرووں نے اس کی اور اس کے مقلدین کی بہت سی عمدہ تالیفات کے ذریعہ ردکی ہے۔

اور حنبلوں میں اس کی رد کرنے والوں میںسے اس کے بھائی سلیمان ابن عبدالوہاب ہیں اور شام کے حنبلیوں میں سے آل شطیٰ اور شیخ عبداللهقدومی نابلسی ہیں جنھوں نے اپنے سفرنامہ میں اس کی رد لکھی اوریہ سب کتابیں”زیارةالنبّی صلی الله تعالی علیہ وسلم والتوسل بہ وبالصا لحین من امتھ،،کے حاشیہ پر شائع ہوئی ہیں اور کھا کہ محمد ابن عبدالوہاب اپنے مقلدین سمیت خوارج میں سے ہے ۔ جن لوگوں نے اس مطلب پہ نص کی ہے ان میں سے علامہ محقق سیّد محمد امین بن عابدین بھی ہیں جنھوں نے اپنے حاشیہ ” ردالمختار علیٰ الدر المختار ،، میں باغیوں کے باب میں اور شیخ صاوی مصری نے جلالین کے حاشیہ میں صریحاً لکھا ہے کہ یہ اور اس کے مقلدین خوارج میں سے ہیں کیوں کہ یہ ” لاالھٰ الّا الله محمدرسول الله ،،کھنے والوں کو اپنی رائے سے کافر کھتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کافر کھنا خوارج اور دوسرے بدعت کاروں کی علامت ہے جو اہل قبلہ میں سے اپنے مخالفین کو کافر قرار دیتے ہیں ۔

محمد ابن عبدالوہاب اور اس کے ماننے والوں کی بنیادی عقائد فقط چار ہیں ۔ خدا وند عالم کو اس کی مخلوق کے مشابہ قرار دینا ، الوہابیت اور ربوبیت دونوں کی توحید کو ایک ماننا ، نبی صلیٰ الله علیہ وآلہ وسلّم ،کی عزت نہ کرنا ، اور مسلمانوں کو کافر قرار دینا ، اور یہ ان تمام عقائد میں احمد ابن تیمیہ کا مقلد ہے اور احمد ابن تیمیہ پہلے عقیدہ میں کرامیہ اور مجسمیہ جنبلیہ ( جو خدا کے لئے ہاتہ پاؤں وغیرہ اعضائے جسم کے قائل ہیں ) کا مقلّد ہے اور چوتھے عقیدہ میں ان دونوں فرقوں اور فرقئہ خوارج کا پیرو ہے ۔

اور وہابیوں کے نزدیک نقل دین کے سلسلہ میں بھی ثقہ اور قابل اعتماد افراد ابن تیمیھ، اس کے شاگرد ابن قیم اور محمد ابن عبدالوہاب ہی ہیں ۔ چنانچہ علماء مسلمین میں سے کسی عالم پر وہ اعتماد نہیں کرتے اور اس کی کوئی قدر نہیں جانتے جب تک کہ اس کے کلام میں کوئی ایسا شبہ نہ پایا جاتا ہو جو ان کی رائے اور خواہش کی تائید کرے چنانچہ یہ وسیع دین اسلام ان کے نزدیک تین مذکورہ بالا افراد میں محصور ہے ۔نیز کتاب التوسل النبّی ص ۲۴۹ پراس عنوان کے تحت ”محمد ابن عبدالوہاب کی رد کر نے والے علماء خواہ اس کے ہم عصر ہوں یا اس کے بعد میں آنے والے ان کی ایک جماعت کا تذکرہ کیا ہے جن میںمندرجہ ذیل نام گنائے ہیں :علامہ عبدالوہاب ابن احمد برکات شافعی احمدی مکّی ،علامہ سید منعمی ،جب محمد ابن عبدالوہاب نے ایک ایسی جماعت کو جنھوں نے اپنے سر نہیں منڈائے تھے قتل کردیا تو موصوف نے ایک قصیدہ کے ذریعہ اس کی رد کی تھی ۔

علامہ سید عبدالرحمن جو احساء کے بزرگ ترین علماء میں سے ہیں ،انھوں نے ایک زور دار قصیدہ کے ذریعہ اس کی رد کی اس قصیدہ میں سرسٹہ ( ۶۷) اشعار ہیں جس کا مطلع یہ ہے :

بدت فتنة اللیل قدغطّت الافق وشاعت فکادت تبلغ الغرب والشرقا

(فتنہ شب ظاہر ہوا جس نے افق کو اپنی لپیٹ میں لے لیااور پھیلاتو مغرب اور مشرق تک پھونچ گیا۔)

شیخ عبد الله ابن عیسیٰ مویسی ،شیخ احمد مصری احسائی ،شیخ محمد ابن شیخ احمد ابن عبد الطیف احسائی اور ص ۱۰۵ پر اس عنوان کے تحت کھ” محمد ابن عبدالوہاب پیغمبر پر درود بھیجنے سے منع کرتا تھا ،،لکھا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں اور ”صاحب کتاب ”مصباح الانام وجلاء الظلام فی رد شبہ البدعی النجدی التی اضلّ بِھَا الْعَوام ،،سید علوی ابن احمد ابن حسین ابن سید عارف بالله عبد الله ابن علوی حداد نے اپنی کتاب میں اس کا ذکرکیا ہے ،پھرسید احمد بن زینی دحلان نے اپنے رسالہ ”الدررالسنیةفی الرد علی الوہابیة،،میں لکھا ہے کہ محمد ابن عبدالوہاب پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم پرصلوات پڑھنے سے روکتا تھا اور منبروں پر بلند آواز سے صلوات پڑھنے کو روکتا تھا اور ایسا کرنے والے کو اذیّت اور سخت سزا دیتا تھا حتی کہ اس نے ایک نابینا کو جو ایک صالح اور خوش آوازموذن تھا قتل کردیا ۔اسے اذان کے بعد منارہ پر صلوات پڑھنے سے روکا تھا لیکن وہ باز نہیں آیا نتیجہ میںاسے جان سے مار ڈالا اور کھا کہ طوائف کے گھر باجہ بجانے والے کا گناہ اس شخص کی بہ نسبت کم ہے جو منارہ پر پیغمبر اسلام پر درود پڑھے۔

اورصفحھ ۲۵۰ پر لکھا ہے کہ سید علوی ابن احمد حداد نے فرمایا میں نے مذاہب اربعہ کے بے شمار بڑے بڑے علماء کے جوابات دیکھے ہیں یہ علماء حرمین شریفین ،احساء ،بصرہ بغداد ،حلب ،یمن اور دوسرے اسلامی شھروں کے رہنے والے تھے جنھوں نے نثر ونظم دونوں میں جوابات لکھے ۔میرے پاس ابن عبدالرّزاق حنبلی کی اولاد میں سے ایک شخص کا مجموعہ لایا گیا اس میں بہت سے علماء کی جانب سے لکھی گئی رد موجود تھیں ۔

اس کے بعد لکھا ہے :اور میرے پاس شیخ محدث صالح فلانی مغربی ضخیم کتاب لائے جس میں علماء مذاہب اربعہ حنفیہ ،مالکیہ ،شافعیہ ،اور حنبلیہ کے خطوط اور جوابات تھے جو محمد ابن عبدالوہاب کے جواب میں لکھے گئے تھے ۔اورص ۲۴۸ پر ہے۔ محمد ابن عبدالوہاب کی رد بہت سے علماء نے کی ہے ۔اس کے ہم عصر علماء نے بھی اور بعد میں آنے والے علماء نے بھی اور اب تک علماء اسلام کے اعتراضوں کے تیر اس کو نشانہ بناتے رہتے ہیں ۔

اس کے ہم عصر رد کر نے والوں میں پیش پیش احساء کے حنبلی تھے اور درحقیقت تمام اعتراضات ابن تیمیہ کو نشانہ بنارہے تھے ۔

مولف کھتا ہے :ابوالفضل قاسم محجوب مالکی نے بھی ایک رسالہ کے ذریعہ جس کا تذکرہ احمد ابن ضیاف کی کتاب ”اتحاف اہل الزمان باخبار ملوک تونس وعھد الامان ،،میں ملتا ہے ،محمد ابن عبدالوہاب کی رد کی ہے اور اس کے آراء اور فتاوی کو باطل قرار دیا ہے ۔

اس رسالہ کا ایک حصّہ حاج مالک داود کی کتاب ”الحقائق الاسلامیةفی الرد علی المز اعم الوہابیةبادلّةالکتاب والسنة النبویة ،،سے ملحق کرکے ۱۴۰۳ ئمیں طبع ہوا تھا اور دوبارہ آفسٹ سے ترکیہ میں ۱۴۰۵ ئمیں طبع ہوا ۔

جہاںمیری واقفیت میں علماء مذاہب اربعہ کی جانب سے رد اور طعن محمد ابن عبدالوہاب پرکی گئیں وہ میں نے درج کردیں ۔

احمد ابن تیمیہ حرانی اور اس پر کئے گئے اعتراضات

محمد ابن عبد الوہاب کے امام ، احمد ابن تیمیہ جس کے آراء و افکار کی اس نے تقلید کی ہے اور جس کے عقائد کو اس نے اخذ کیا اور جس پر اپنے دین کی بنیاد رکھی اور نتیجہ میں صراط مستقیم سے نہ صرف خود بھٹکا بلکہ اور بہت سے مسلمانوں کو بھی گمراہ کیا ہے اس کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں ۔

چنانچہ علماء مکہ کے بقول جیسا کہ کتاب ” سیف الجبار المسلول علی اعداء الا برار،، طبع ترکیہ ۱۹۷۹ ءء کے ص ۲۴ پر ہے کہ : بدبخت ابن تیمیہ کے دور کے علما نے اس کی گمراہی اور اس کے قید کر نے پر اجماع کیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدوں پر ہو گا اس کا مال اور خون مباح ہے ۔”کشف الظنون ،،ج ۱ ص ۲۲۰ پر ہے کہ علماء نے اس کی رد میں بہت مبالغہ کیا ہے یہاں تک کہ تصریح کی ہے کہ یہ شخص (ابن تیمیہ ) جسے شیخ الاسلام کھا گیا ہے ، کافر ہے ، اس کی کتاب کی جلد ۲ ص ۱۴۳۸ پر ہے :ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” العرش وصفتہ ،، میں ذکر کیا ہے کہ خداوند عالم کرسی پر بیٹھتا ہے اور ایک جگہ خالی چھوڑ کر رکھی ہے جہاں رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم بیٹھیں گے۔ اس کو ابو حیان نے کتاب ” النھر،، میں قول خدا ”وسع کرسیہ السمٰوات والارض ،،کے ذیل میں لکھا ہے : میں نے احمد ابن تیمیہ کی کتاب ” العرش ،، میں اسی طرح پڑھاہے ۔ انتھی

اور اسی کتاب کے ص ۱۰۷۸ پر احمد ابن تیمیہ جنبلی کی ایک کتاب بنام ”الصراط المستقیم والرد علی اہل الجحیم ،، کا ذکر کیا ہے اور اسی میں ایسی باتیں لکھی ہیں جن کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں ہے مثلا عبد الله ابن عباس کو کافر قرار دینا ۔حصینی نے اپنی کتاب میں اس کی رد لکھی ہے ۔ جامعہ ا زھر کے ایک عالم شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی نے اپنی کتاب ” تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد ،،میںص ۹ پر ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے اپنی کتاب ”الواسطہ ،، وغیرہ کی تالیف کی تو ایسی باتیں گڑھیں جن سے مسلمانوں کے اجماع کو پارہ کر دیا ۔اس نے کتاب خدا ، صریح سنت اور سلف صالح کی مخالفت کی ہے۔ اپنی فاسد عقل کا مطیع ہوا ہے اور جان بوجہ کر گمراہ ہواہے ۔اس کا معبود اس کی ہوائے نفس ہے۔ اسے یہ گمان ہوا ہے کہ جو کچہ اس نے بیان کیا ہے حق ہے حالانکہ وہ حق نہیں ہے بلکہ یہ جھوٹ اور قول منکر ہے ،اور اسی کتاب کے ص ۱۳ پر ہے :یہ کتاب ابن تیمیہ کی بہت سی من گڑھت باتوں پر مشتمل ہے جوکتاب و سنّت اور جماعت مسلمین کے مخالف ہے ۔

اور صفحھ ۱۰ /۱۱ پر ہے:وہ برابر اکابر کے پیچھے پڑا رہا یہاں تک کہ اس کے زمانے والے اس کے خلاف مجتمع ہوئے اسے فاسق قرار دیا اور بدعتی ٹھھرایا بلکہ ان میں سے زیا دہ لوگوں نے اسے کافر قرار دیا ۔

اور صفحہ ۱۷ پر ہے :اپنے زمانے میں ابن تیمیہ کا وتیرہ ادب اورہر زمانے میں اس کے پیرووں کا یھی طریقہ رہا ہے کھ:

”یقولون آمنّا بالله و بالیوم الاخروما ہم بمومنین ،یخادعون اللهوالذین آمنوا وما یخدعون الاانفسہم وما یشعرون ،،یہ لوگ کھتے ہیں کہ ہم الله اور روز قیامت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ یہ مومن نہیں ہیں ۔یہ الله کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ یہ خود اپنے کو دھوکہ دے رہے ہیں اور انھیں اس کا احساس نہیں ہے ۔،،

مولف کھتا ہے :یہ منافقیں کی صفت ہے جسے خدا وند عالم نے اپنی کتاب قرآن کریم میں بیان کیا ہے ۔

اور یافعی نے ”مرآةالجنان ،،ج ۴/ ص ۲۴۰ طبع حیدرآباد دکن ۱۳۳۹ ھئمطبع دائرةالمعارف النظامیہ میں ابن تیمیہ کے بعض مہم ل اقوال کا ذکر کیا ہے مثلاًلکھا ہے:خدا حقیقتاًعرش پر بیٹھا ہے اور الفاظ وآواز سے گفتگو کرتا ہے پھرلکھا ہے کہ دمشق میںیہ اعلا ن کردیا گیا کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدہ پر ہوگا اس کی جان اور اس کا مال مباح ہے ۔

اور صفحھ ۲۷۸ پر ۷۲۸ ئکے واقعات کے سلسلہ میں ہے :اس (ابن تیمیہ )کے عجیب وغریب مسائل ہیں جن کے بارے میں اس پر طعن وتشنیع کی گئی ہے اورجن کے سبب مذھب اہل سنّت ترک کرنے کی خاطر اسے قید کیا گیا ۔پھر اس کی بہت سی برائیوں کو شمار کراتے ہوئے لکھا ہے کھ:اس کی قبیح ترین برائی یہ تھی کہ اس نے پیغبر اسلام صلّی الله علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے منع کر دیا تھا ۔آپ پر اور دوسرے اولیاء خدا اور اس کے برگزیدہ بندوں پر طعن و تشنیع کی تھی اور اسی طرح مسلہ طلاق وغیرہ کے سلسلہ میں اس کا مسلک اور جھت کے بارے میں اس کا عقیدہ اور اس بارے میں جوباطل اقوال اس سے نقل ہوئے ہیں یہ سب اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں اس کے قبائح میں سے ہیں ۔

شیخ ابن حجر ہیتمی نے ”تحفہ ،،میں لکھا ہے :خدا کی جسمیت یا اس کے جھت میں ہونے کا دعویٰ ایساہے کہ اگر کوئی اس کا عقیدہ رکھے تو کافر ہے ۔سفینةالراغب ص ۴۴ طبع بولاق مصر ۱۲۵۵ ئ

شیخ یوسف نبھانی نے اپنی کتاب ”شواہدالحق ،،کے صفحہ ۱۷۷ پر لکھا ہے :چوتھا باب ،ابن تیمیہ کے اوپرعلماء مذاہب اربعہ کے اعتراضات کی عبارتیں اور اس کی کتابوں پر کئے گئے ایرادات اور بعض اہم مسائل جیسے خدا وندعالم کا ایک خاص جھت وسمت میں ہونا ،کے بارے میں اہل سنّت کی مخالفت کے بیان میں ۔پھر ایک جماعت کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اس پر طعن کیاہے لکھا ہے :

”انھیں طعن کرنے والوں میں سے امام ابوحیان ہیں جو ابن تیمیہ کے دوست تھے ۔جب اس کی بدعتوں سے با خبر ہوئے تو اس کو بالکل چھوڑ دیا اور لوگوں کو اس سے دور رہنے کی تاکید کی ۔اور انھیں میں سے امام عزالدین ابن جماعةھیں انھوں نے اس کی رد کی ہے اور اسے برا کھا ہے ۔،،

انھیں میں سے ملا علی قاری حنفی ہیں انھوں نے شفاء کی شرح میں لکھا ہے : حنبلیوں میں سے ابن تیمیہ نے افراط سے کام لیا چنانچہ اس نے زیارت نبی کے لئے سفر کرنے کو حرام قرار دیا ہے ۔اسی طرح اس کے مقابل والے نے بھی افراط سے کام لیا ہے چنانچہ کھا ہے :زیارت کا باعث تقرب خدا ہونا ضرویات دین میں سے ہے اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہے ۔اور شاید یہ دوسرا قول حق سے قریب ہے کیونکہ جس کے مستحب ہونے پر اجماع ہو اس کا حرام قراردینا کفر ہوگاکیونکہ یہ مباح متفق علیہ کے حرام قرار دینے سے بڑہ کر ہے۔

اور انھیں میں سے شباب الدین خفاجی حنفی ہیں جن کے کلام کو اس طرح ذکر کیا ہے :ابن تیمیہ نے ایسی خرافات باتیں لکھی ہیں جن کا ذکر کرنا مناسب نہیں کیونکہ یہ باتیں کسی عقلمند انسان کی ہو ہی نہیں سکتیںچہ جائیکہ ایک پڑھے لکھے آدمی کی زبان اورقلم سے صادر ہو ں ۔چنانچہ ابن تیمیہ کا یہ کھنا کہ ”قبر پیغمبر اسلام کی زیارت حرام کام ہے ،،کذب محض،لغو ہے اوربکواس ہے ۔ اس کا یہ کھنا ”اس کے بارے مےں کوئی نقل موجود نہیں ہے ،،باطل ہے کیونکہ امام مالک ،امام احمد ،اور امام شافعی رضی اللهعنہم کا مذھب یہ ہے کہ سلام ودعا میںقبر شریف کی طرف رخ کرنا مستحب ہے اور یہ بات ان بزرگوں کی کتابوںمیں درج ہے۔

اور انھیںمیں سے امام محمدزرقانی مالکی ہیں ۔(بنھانی نے ان کے کچہ کلام کو مواہب لدنیہ کی شرح میں نقل کیا ہے جسے ہم یہاںپیش کررہے ہیں :

”لیکن ابن تیمیہ نے اپنے لئے ایک جدید مذھب ایجاد کیا ہے اور وہ ہے قبروں کی تعظیم نہ کرنا ۰۰۰ کیا یہ شخص جس بات کا علم نہیں رکھتا اس کے جھٹلانے سے شرماتاہے ؟اور ابن تیمیہ کی طعن وتشنیع کے سلسلے میں اپنی پھلی والی بات دھرائی ہے ۔

اور انھیں میں سے امام کمال الدین ز ملکانی شافعی متوفی ۷۲۷ ھئنے کشف الظنون میں ان کی ایک کتاب”الذرةالمضیہ فی الرد علی ابن تیمیہ ،،کا ذکر کیا ہے انھوں نے ان مسائل میں اس سے مناظرہ کیا ہے جن میں وہ مذاہب اربعہ سے منحرف ہوگیا ہے اور ان میں قبیح ترین مسئلہ اس کا انبیاء وصالحین خصوصاًسیدالمرسلین کی قبروں کی زیارت اور آپ کے وسیلہ سے خدا سے مانگنے کو منع کرنا ہے ۔

اور انھیں میں سے امام کبیرشھیر تقی الدین سبکی شافعی ہیں (ابن تیمیہ پر اعتراضات کو ان کی کتاب شفاء السقام فی زیارت خیر الانام علیہ السلا م سے نقل کیا ہے) اس کتاب میں انھوں نے اسے بدعتی کھا ہے ۔ اور انھیں میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی ہیں (انھوں نے اپنی کتاب فتح الباری فی شرح البخاری میں اس پر رد کی ہے )اور انھیں میں سے امام عبد الرووف منادی شافعی ہیں انھوں نے شرح شمائل میں کھا ہے :اور ابن قیّم کا اپنے شیخ ابن تیمیہ کے حوالے سے یہ کھناکہ ”مصطفی صلّی الله علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے پرور دگارکو اپنے دونوں شانوں کے درمیان اپنے ہاتہ رکہ کر دکھائے تو خدااس جگہ کو بالوں کو نوازا ۔اس کی ردشارح یعنی ابن حجرمکّی نے اس طرح کی بات ان دو نوں (ابن تیمیہ وابن قیم)کی بد ترین گمراہی ہے اور یہ ان دونوں کے اس عقیدہ پر مبنی ہے کہ خدا جھت اور جسم رکھتا ہے۔خدا وند عالم ظالموں کے اس قول سے کھیں بزرگ وبرتر ہے اس کے بعد منادی نے لکھا ہے :اب میں کھتا ہوں ان دونوںکا بدعتیوں میں سے ہونا مسلّم ہے۔

اور انھیں میں سے ہم ارے دوست عالم با عمل ،فاضل کامل ، شیخ مصطفی ابن احمد سطی جنبلی دمشقی حفظ الله وجزا ہ الله احسن الجزا ء ہیں ۔ مو صوف نے ایک مخصوص رسالہ تالیف کیا ہے جس کا نام ( النقول الشرعیہ فی الرد علی الو ہابیة ) ہے۔انھیں میں سے امام شھاب الدین احمد بن حجر ہیثمی مکی شافعی ہیں انھوں نے ابن تیمیہ پر بہت سخت ردو تنقید کی ہے ۔

اور نبھانی نے شواہدالحق کے ص ۱۹۱ پر پہلے تو ان لوگوں کے نام نقل کئے ہیں جنھوں نے ابن تیمہ کو طعن و تشنیع کی اور جن کا ذکر ابھی گزرا ہے ۔ اس کے بعد کھتے ہیں : لھذا ثابت ہوا اور آفتاب نصف النھار کی طرح روشن ہوا کہ علماء مذ ھب اربعہ نے ابن تیمیہ کی بد عتوں کے رد کرنے پر اتفاق کیا ہے اور کچہ علماء نے اس کی نقل کی صحت پر طعن کیا ہے تو بھلا جن مسائل میں دین سے انحراف کیا ہے اور اجماع مسلمین کی مخالفت کی ہے خاص کر ان مسائل میں جو سید المر سلین سے متعلق ہیں اس کی کھلی ہوئی غلطی پر سخت طعن وتشنیع کیوں نہ کرتے ۔

حنفیوں میں سے جنھوں نے اس کی نقل کے صحیح ہونے پر طعن کیا ہے شھاب الدین خفاجی شارح الشفا ء ہیں جن کا ذکر گزر چکا ہے ۔ اور مالکیوں میں سے امام زرقانی ہیں شرح مواہب میں ، یہ تذ کرہ بھی گزر چکا ہے ۔ اور شافیوں میں سے امام سبکی ہیں جیسا کہ ان کی کتاب شفاء السقام میں مذ کور ہے اس میں انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ ابن تیمیہ کی رائے غلط ہے بلکہ اس کے نقل کئے ہوئے وہ احکام شرعیہ بھی صحیح نہیں ہیں جس کے ذریعہ اس نے اپنی بدعت کی تقویت پر استدلال کیا ہے اور انھیں مذاہب اربعہ کی طرف منسوب کیا ہے حالانکہ ائمہ مذا ھب اربعہ نے وہ احکام نہیں بیان کئے ہیں ۔اسی طرح اس کے نقل کی عدم صحت کا ذکر امام ابن حجر ہیثمی نے بھی اس کے اوپر اپنے اعترا ضات میں کیا ہے اور یہ بات پو شیدہ نہیں ہے کہ یہ چیز ایک عالم کے اندر بہت بڑاعیب اور بہت بڑا اخلاقی جرم ہے جو اس پر اعتماد کو ضعیف کر دیتا ہے اور اس کے منقولات کے اعتبار کو ساقط کر دیتا ہے چاہے وہ احفظ حفاظ اورا علم علماء میں سے ہو اور ابن تیمیہ کے منقو لات کے معتبر نہ ہونے کی تقویت اس قول سے بھی ہوتی ہے جو اس کے بارے میں حافظ عراقی نے کھا ہے۔ کلام نھبانی تمام ہوا ۔شواہد الحق ص ۱۷۷ تا ۱۹۱

ابن تیمیہ کا ذکر ڈاکٹر حامد حفنی داوؤد حنفی نے بھی اپنی کتاب ( نظرات فی الکتب الخالدة) ص ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۳۹۹ ء دارالمعلم للطباعة میں کیا ہے اور اسے بدعتی قرار دیا ہے اور حاشیہ میں اس کلمہ پر نوٹ لگایا ہے کہ : اکثر علماء اہل سنّت نے اس کے بد عتی ہونے کا قول اختیار کیا ہے رہ گئے صوفیہ تو انھوں نے اس پر اجماع کیا ہے ، امام تقی الدین سبکی اور ابن تیمیہ کے درمیان فقہ وعقیدہ کے اکثر گوشوں کے بارے میں خط وکتابت ہوتی ہے ۔دیکھئے ہم اری کتاب (التشریع الا سلامی فی مصر ) انتھی ۔

عبدالغنی حمادہ اپنی کتاب ( فضل الذاکرین والرد علی المنکر ین ) طبع سوریہ اَدْلَبْ ۹۱ ۱۳ ء ص ۲۳ پر اس طرح وہابیت پر طعن کر تے ہیں :

شیخ وہابیت ابن تیمیہ کے بارے میں علامہ مصر علاء الدین بخاری نے لکھاہے کہ : ابن تیمیہ کافر ہے جیسا کہ اس کے زمانے کے بزر گ عالم زین الدین حنبلی نے کھا ہے کہ میرا اعتقاد یہ ہے کہ ابن تیمیہ کافر ہے اور کھتے تھے کہ امام سبکی رضی الله عنہ ابن تیمیہ کی تکفیر سے معذور ہیں کیونکہ اس نے امت اسلامیہ کو کافرقرار دیا ہے اور اسے قول خدا :”اتخذ وااحبار ہم ورہبانہم ار بابا من دون الله ،،کی تفسیر کر تے ہوئے یھودو نصاریٰ سے تشبیہ دی ہے۔ علماء مذاہب نے لکھا ہے کہ : ابن تیمیہ زندیق ہے کیونکہ وہ پیغمبر اسلام اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی توہین کرتا تھا اور اس کی کتابیں خدا وند عالم کی تشبیہ اور اسے صاحب جسم قرار دینے سے بھری ہوئی ہیں ۔

اور اس کے زمانے کے علامہ ابن حجر رضی الله عنہ نے کھا ہے ۔ ابن تیمیہ ایک ایسا بندہ ہے جسے خدا نے رسوا ، گمراہ، اندھا ، بھرا اور ذلیل کیا ہے ۔اس کے خلاف مذاہب اربعہ میں سے اس کے دور کے علماء اٹہ کھڑے ہوئے اور اکثر نے اس کو فاسق اور کافر قرار دیا ہے ۔علماء نے کھا ہے کہ ابن تیمیہ نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو کافر قرار دینے میں خوارج کے مذ ھب کا اتباع کیا ہے ۔

اور ائمہ حفاظ نے کھا ہے کہ ابن تیمیہ خوارج میں سے ہے ،جھوٹا ہے ، شریر ہے ، افترا پر داز ہے ۔”فضل الذا کرین ،،میں لفظ بہ لفظ مو جود ہے ۔

اور ابو حامد مرزوق شامی نے اپنی کتاب ۔” التوسل بالنّبی وبا لصالحین ،،مطبوعہ تر کیہ طبع آفسٹ ۸۴ ۱۹ ءء کے ص ۴ پر لکھا ہے:

” ایک بار ابن تیمیہ نے دمشق کے ممبر پر جانے کے بعد کھا : ” خدا وند عالم اسی طرح عرش سے اتر تا ہے جیسے میں ممبر سے اتر رہا ہوں اور ایک زینہ نیچے اتر کر دکھایا ہے ، ، اس کے بعد ابو حامد نے لکھا ہے کہ اس واقعہ کو دیکھنے والوں میں فقیہ سیاح ابن بطوطہ مغری بھی ہیں اور ” التوسل بالنّبی وبالصالحین ،،کے ص ۶ پر ابن تیمیہ سے نقل کیا ہے کہ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کھ” خدا حق تعالیٰ عرش کے اوپر ہے ،، اور اسی کتاب کے ص ۲۱۶ پر کتاب ” دفع شبہ من شبّہ وتمرّد ،،طبع مصر ۵۰ ۱۳ ء ہ مطبع عیسیٰ حلبی ، تصنیف ابو بکر حصنی دمشقی متوفی ۸۲۹ ء سے نقل کر تے ہوئے لکھا ہے کہ مصنف مذکور نے ابن تیمیہ کے بارے میں کھا ہے :” میں نے اس خبیث (ابن تیمیہ ) کے کلام کو دیکھا جس کے دل میں انحراف کا مرض ہے جو فتنہ پیدا کر نے کے لئے متشابہ آیات و احادیث کا اتباع کر تا ہے اور عوام و غیر عوام میں سے ان لوگوں نے اس کی پیروی کی جس کے ھلاک کر نے کا خدا نے ارادہ کیا تھا ، میں نے اس میں ایسی باتیں پائیں جن کو ادا کر نے کی مجھ میں قدرت نہیں ہے اور نہ میری انگلیوں اورقلم میں انھیں تحریر کر نے کی جرات ہے کیو نکہ اس نے پر وردگار عالم کی اس بات پر تکذیب کی ہے کہ اس نے کتاب مبین میں اپنے کو منزہ قرار دیا ہے ۔اسی طرح اس کے بر گزیدہ اور منتخب افراد خلفاء راشدین اور ان کے صالح پیروکاروں کی توہین اور عیب جوئی کی ہے لھذا میں نے ان کا ذکر کرنا مناسب نہ جانا اور صرف ان باتوں کو ذکر کیا جنھیں ائمہ متقین نے ذکر کیا تھا اور جن پر ان کا اتفاق ہے وہ یہ کی ابن تیمیہ بد عتی اور دین سے خارج ہے ۔

حافظ ابن حجر نے ” الفتاوی الحدیثیہ ،، ص ۸۶ پر لکھا ہے کہ ” ابن تیمیہ ایسا بندہ ہے جسے خدا نے رسوا ، گمراہ ، اندھا ، بھرہ ، اور ذلیل بنا دیا ہے اور اسی بات کی تصریح ان اماموں نے بھی کی ہے جنھوں نے اس کے فاسد ہونے اور اس کی باتوں کو جھوٹ ہونے کا بیان کیا ہے اور جو شخص اسے جاننا چاہتا ہو وہ امام مجتھد ابوالحسن سبکی جن کی ،امامت ، جلالت ، شان اور مرتبہ اجتھاد تک پھنچنے پر اتفاق ہے ان کے اور ان کے فرزند تاج اور شیخ امام عزّ بن جماعہ اور شافعیہ ، مالکیہ ، حنفیہ ، میں سے ان کے ہم عصر علماء کے کلام کو ملا حظہ کریں ، ابن تیمیہ نے صرف متاخرین صوفیہ کے اوپر اعتراض کرنے پر اکتفاء نہیں کی ہے بلکہ عمر ابن خطاب اور علی ابن ابی طالب رضی الله عنہم ا ،، جیسے حضرات پر بھی اعتراض کیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اس کے کلام کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے اور چاہئے کہ اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ بد عتی گمراہ ،گمراہ کن ، جاہل اور غلو کر نے والا ہے ، خدا اس کے ساتھ اپنے عدل سے معاملہ کرے اور ہم یں اس کے طریقہ ، عقیدہ ، اور عمل سے محفوظ رکھے ۔ آمین ۔

کلام ابن حجر تمام ہوا اسے ہم نے تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد ص ۹ طبع مصر ۱۳۱۸ ء ہ تصنیف شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی سے نقل کیا ہے۔

اس کے بعد کھا کہ وہ خدا کے لئے سمت کا قائل ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے جسمیت ، محاذات ،اور استقرار کا قائل ہے ۔

کتاب ”التوسل با لنّبی وبا لصالحین ،، میں ابن تیمیہ پر اور بھی بہت سے طعن ہیں جن کو چند عناوین کے تحت ذکر کیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں ۔

۰ علّامہ شھاب الدین احمد بن یحییٰ حلبی کی جھت کے بارے میں ابن تیمیہ پر رد۔

۰ ابن تیمیہ کے اس زعم کا ابطال کہ خدا حق تعالیٰ عرش کے اوپر ہے ۔

۰ عقیدہ ابن تیمیہ جس کے سبب اس نے جماعت مسلمین سے مخالفت کی ہے اور انھیں برا کھا ہے جسے قر آن میں طعن کر نے والے او باش ملحدین سے حاصل کیا ہے ۔

۰ ابن تیمیہ کی تمام علماء اسلام سے مخالفت ۔

ابن تیمیہ کے فتووں کے نمو نے

عالم کبیر شیخ محمد بخیت حنفی عالم جامعہ ا زھرنے اپنی کتاب ”تطھر الفواد من دنس الا عتقاد ،،طبع مصر مطبو عہ ۱۳۱۸ ئکے ص ۱۲ پر اس شخص کے کچہ فتوؤں کا ذکر کیا ہے جن میں سے بعض نمو نے ہم یہاں پر پیش کر رہے ہیں تا کہ ایک غیر جانبدارقاری کو اس کے انحراف ، فاسد عقیدے اور منحرف فتوؤں میں علماء اسلام سے اس کی مخالفت کا زیا دہ سے زیا دہ علم ہو سکے ۔

( ۰) ” اگر کو ئی شخص جان بو جہ کر نماز تر ک کر دے تو اس کی قضا وا جب نہیں ہے۔“

( ۰) ” حیض والی عورت کے لئے خانہ ء کعبہ کا طواف کرنا جائز ہے اور اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔“

( ۰)” تین طلاق ایک طلاق کی طرف پلٹایا جائے گا“ اور اس بات کا دعویٰ کر نے سے پہلے خود اسی نے نقل کیا ہے کہ اجماع مسلمین اس کے بر خلاف ہے ۔

( ۰) ” جس اونٹ کے پیر کی موٹی والی نسیں کاٹ دی گئی ہوں وہ کاٹنے والے کے لئے حلال ہے اور وہ جب تاجروں سے لے لیا جائے تو زکوٰة کے عوض کافی ہے اگر چہ زکوٰة کے نام سے نہ لیا گیا ہو ۔،،

( ۰)” بھنے والی چیزوں میں اگر جاندار مثلا چوہا مر جائے تو یہ چیزیں نجس نہیں ہو تیں“

( ۰)” جنب کو چاہئے کہ حالت جنا بت میں نافلہ شب پڑھے اور تا خیر نہ کرے کہ فجر سے پہلے غسل کر کے پڑھے گا اگر چہ اپنے ہی شھر میں ہو ۔“

( ۰) ” وقف کرنے والے کی شرط کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ اگر اس نے شا فعیہ پر وقف کیا ہے تو حنفیہ پر صرف کیا جائے گا اور بر عکس ،اور قاضیوں پر وقف کیا ہے تو صو فیہ پر صرف کیا جائے گا ۔،،

اسی طرح عقائد اور اصول دین کے مسائل میں بھی انحراف کا مر تکب ہوا ہے۔

( ۰)” ْ خدا وند عالم محل حوا دث ہے“تعالیٰ عن ذالک علوا کبیرا

( ۰)” خدا مرکب ہے اس کی ذات ویسے ہی محتاج ہے جیسے کل اپنے جزء کا محتاج ہوتا ہے ”تَعَا لیٰ عَنْ ذَالِکَ،،

( ۰)” خدا جسم رکھتا ہے،وہ خاص سمت میں ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے ،وہ ٹھیک عرش کے برابر ہے نہ چھوٹا نہ بڑا“(خدا وندعالم اس قبح وبد ترین افترا ء اور صریحی کفر سے کھیں بالا تر ہے ۔خدا اس کے پیرووں کو رسوا کرے اور اس کے معتقدین کا شیرازہ منتشر کرے )

( ۰)” جھنم فنا ہوجائے گی ،انبیاء معصوم نہیں ہیں ۔“

( ۰)” رسول الله صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔ان سے توسل نہ کیا جائے۔“

( ۰)” پیغمبر اسلام کی زیا رت کے لئے سفر کرنا معصیت ہے اس سفر میں نمازقصر نہیں ہوگی۔“