اب مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ الجواد مسجد میں’’اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ‘‘ نہیں کہا جاتا، دوسرا شخص بھی کہے گا کہ میں نے بھی سنا ہے کہ الجواد مسجد میں’’اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ‘‘ نہیں کہا جاتا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ سب لوگ کہہ رہے ہوں گے کہ ہم نے سنا ہے کہ الجواد مسجد میں’’اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ‘‘ نہیں کہا جاتا! اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ جب بھی تم ایسی بات سنو تو اسے اپنی زبان پر نہ لاؤ۔ اگر تمہیں فکر ہے تو خود تحقیق کرو۔ جب تم میں تحقیق کرنے کی ہمت ہی نہیں ہے تو پھر اس بات کا ہر جگہ تذکرہ کیوں کرتے ہو؟ تم کو اس کا تذکرہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اس دیہات کے آدھے لوگ یہودی تھے اور آدھے مسلمان۔ اس گاؤں سے چتل تک دو فرسخ کا فاصلہ تھا۔ یہودیوں کا کہنا تھا کہ چتل ہمارا ہے۔ اسے ہم نے بنایا ہے۔ یہ ہمارا مزار ہے۔ جبکہ مسلمان کہتے تھے کہ یہ ہمارا ہے کیونکہ اس کا مینار ہے۔ اس بات پر ان کے درمیان کئی لڑائیاں بھی ہوئیں جن میں بعض افراد زخمی ہوئے اور بعض مارے گئے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اس کا مینار ہے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ اس کا مینار نہیں ہے اور ان میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ دو فرسخ چل کر دیکھ آئیں کہ اس کا مینار ہے یا نہیں۔
) داستان افک کا) دوسرا فائدہ یہی تھا کہ اس نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور قرآن میں اس کو بیان کیا تاکہ ابد تک باقی رہے، لوگ اس کا مطالعہ کریں اور اسے ہمیشہ یاد رکھیں کہ اے مسلمانو! تم نادانی کی بناء پر دشمن کا آلہ کار نہ بنا کرو۔ دشمنوں کی گھڑی ہوئی باتوں کا چرچا اپنی جہالت کی وجہ سے نہ کیا کرو۔ خدا جانتا ہے کہ یہودیوں اور ان کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے بہائیوں نے ایسی کتنی ہی داستانیں گھڑی ہیں۔ یوں بھی ہوا ہے کہ یہودیوں یا عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں پر لگائی جانے والی تہمت نے اس قدر شہرت پکڑی کہ بتدریج اس کا تذکرہ کتابوں میں ہونے لگا اور بعد کو اس تہمت کو اس قدر مسلم فرض کیا گیا کہ مسلمان بھی اس پر یقین کرنے لگے۔ مثلاً اسکندریہ کی کتاب سوزی کی داستان۔ سکندر نے مشرق میں آنے اور مصر، ایران اور ہندوستان فتح کرنے کے بعد اس جگہ ایک شہر بنایا جس کا نام ’’اسکندریہ‘‘ رکھا گیا۔ بعض علماء وہاں گئے۔ انہوں نے وہاں ایک لائبریری بنائی۔ وہ لائبریری درحقیقت ایک مدرسہ کی حیثیت رکھتی تھی جس میں بہت زیادہ کتابیں جمع ہو گئی تھیں۔ اب مسلمانوں کی تاریخ بلکہ عیسائیت کی تاریخ نے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی فتح اسکندریہ سے قبل اس لائبریری کو دو تین مرتبہ لوٹا اور نذر آتش کیا گیا۔
جب مشرقی روم کا بادشاہ عیسائیت کی جانب مائل ہوا تو چونکہ وہ فلسفہ کو عیسائیت کے خلاف سمجھتا تھا اس لئے اس نے اسکندریہ کے مرکز کو تباہ کر دیا۔ آپ حضرات نے سنا ہو گا کہ سات ہزار فلاسفہ نے ایران (انوشیروان کے دربار) میں آ کر پناہ لی۔ لائبریری نہ بچ سکی۔ دورِ حاضر میں ویل ڈیورنٹ جیسے مؤرخین نے ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی فتح اسکندریہ سے قبل اس لائبریری کو چند مرتبہ نقصان پہنچا۔ جب مسلمان اسکندریہ میں داخل ہوئے اس وقت اس لائبریری کا وجود ہی نہیں تھا۔
دوسری جانب مسلم اور عیسائی مورخین نے مسلمانوں کی ایران، مصر اور دوسرے مقامات کی فتوحات کے واقعات کی جزئیات کو تحریر کیا ہے۔ خصوصاً فتح اسکندریہ کے واقعات کی جزئیات کو عیسائی مورخین نے بھی تحریر کیا ہے۔ بعد کو جب دوسری اور تیسری صدی میں تاریخِ یعقوبی، تاریخِ طبری اور فتوح البلدان جیسی عظیم کتابیں (ان کتابوں کا تعلق اسلام کی ابتدائی صدیوں سے ہے اور ان کا سلسلہ اسناد بھی منظم و مرتب ہے) تحریر کی گئیں تو کسی ایک مورخ نے بھی تحریر نہیں کیا کہ اس وقت اسکندریہ میں کوئی لائبریری موجود تھی جسے مسلمانوں نے نذرِ آتش کر دیا ہو۔ ویل ڈیورنٹ رقمطراز ہے: ’’اس زمانے میں ایک پادری اسکندریہ میں سکونت پذیر تھا۔ اس نے فتحِ اسکندریہ کے واقعات کی تمام جزئیات تحریر کی ہیں۔ اس کی کتاب اب بھی ہماری دسترس میں ہے اس نے کسی کتاب سوزی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔‘‘
چھٹی صدی ہجری کے اواخر (یعنی چھ سو سال بعد) اور ساتویں صدی ہجری میں دو شخص، جو کہ مورخ بھی نہیں تھے، عیسائی تھی۔ انہوں نے عیسائیت کے دامن کو اس تہمت کے دھبہ سے پاک کرنے کے لئے کسی کتاب کا ریفرنس دیئے بغیر کہا: ’’عمرو بن عاص جب اسکندریہ میں داخل ہوا تو اس نے وہاں ایک بہت بڑی لائبریری دیکھی۔ اس نے خلیفہ کو خط لکھ بھیجا کہ ہم اس لائبریری کا کیا کریں؟
’’خلیفہ نے جواب دیا کہ ان کتابوں میں جو مطالب درج ہیں وہ یا تو قرآن کے مطابق ہیں، اس صورت میں ہمارے لئے قرآن کافی ہے، یا قرآن کے خلاف ہیں اور جو چیز قرآن کے خلاف ہو وہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ اس لئے تمام کتابوں کو نذر آتش کر دو تو عمرو بن عاص نے تمام کتابوں کو جلا دیا۔ بعد کو آٹھوں و نویں صدی میں آہستہ آہستہ مسلمانوں نے خود بھی ان جعلی کتابوں سے اسی داستان کو نقل کیا۔ مسلمانوں نے اس بات کی طرف توجہ نہ دی کہ اگر یہ بات درست ہوتی تو ابتدائی صدیوں کے مورخین اس کو بیان کرتے ہیں۔‘‘
اس داستان کے غلط ہونے کی بہت سی ادلہ ہیں۔ اگر ان سب کو بیان کروں تو پھر ہم اصلی بحث سے دور ہو جائیں گے۔ میں نے ایک مرتبہ ’’کتاب سوزیِ اسکندریہ‘‘ کے موضوع پر تین تقریریں کر کے ثابت کیا تھا کہ یہ داستان سراسر جھوٹی ہے، شبلی نعمانی نے بھی اس موضوع پر ایک کتابچہ تحریر کیا ہے۔ محققین، علماء اور مورخین کو اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ یہ واقعہ سراسر جھوٹ ہے۔ لیکن اس کے باوجود دشمنوں اور ان کے گماشتوں نے جانتے ہوئے اور مسلمانوں نے نادانی کی بناء پر، اس واقعہ کو کتابوں میں نقل کیا ہے اور نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بی اے کی فلسفہ و منطق کی کتابوں میں جب قضیہ منفصلہ کی مثال بیان کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جیسا کہ مسلمانوں کے خلیفہ نے اسکندریہ لائبریری کے متعلق کہا تھا: ’’یہ کتابیں یا تو قرآن کے مطابق ہیں، اس صورت میں ہمارے لئے قرآن ہی کافی ہے۔ یا قرآن کے خلاف ہیں، تو جو چیز قرآن کے خلاف ہو وہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ پس ان کو جلا دو۔‘‘ کالجز کی کتابوں میں تحریر کیا جا چکا ہے کہ مسلمانوں کا کام کتابوں کو نذرِ آتش کرنا تھا۔
شبلی نعمانی کا کہنا ہے: ’’انگریزوں نے جب ہندوستان پر اپنا تسلط جما لیا تو انہوں نے وہاں ایسے مدارس قائم کئے جان کو وہ اپنے پروگرام کے مطابق چلاتے تھے۔ جب وہ منطق کی کتب میں قضیہ حقیقیہ منفصلہ کی مثال بیان کرنا چاہتے تو خاص طور پر اس بات کو مثال کے طور پر پیش کرتے تاکہ مسلمان اور ہندو بچوں کے اذہان میں یہ بات بٹھا سکیں کہ تم ایک ایسی قوم ہو جو قدیم زمانہ سے ہی کتابوں کو نذر آتش کرتی رہی ہے۔‘‘ (یہ بات شبلی نعمانی نے کی ہے۔ میں نے جب بعد کو اپنے کالجز کی کتابوں میں اسی بات کو بعینہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ کام انگریزوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا ہے) ۔ بعد کو میں نے دیکھا کہ ایران کے کالجز کی کتب میں بھی اسی بات کو بیان کیا گیا ہے اور ہم یہ دیکھے بغیر کہ اس کا کوئی مستند حوالہ بھی ہے یا نہیں، ہر جگہ اس کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ اور اب یہ بات اس حد تک مشہور ہو چکی ہے کہ اگر ہم کسی جگہ یہ کہیں کہ یہ واقعہ غلط ہے تو لوگوں کو تعجب ہوتا ہے۔ وہ تعجب آمیز لہجے میں کہتے ہیں: ’کیا کہا یہ واقعہ غلط ہے! ہمارے ذہن میں تو کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ یہ واقعہ جھوٹ ہو ا۔‘‘ قرآن یہ جو کہہ رہا ہے کہ’’لاَ تَحْسُبوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرُ لَّکُمْ ‘‘ تو حقیقت میں قرآن کہنا چاہتا ہے: ’’ اے مسلمانو! تم کو اس واقع سے عبرت پکڑنی چاہئے۔ قرآن پڑھو۔ اس کی تفسیر کرو تاکہ اس سے نصیحت حاصل کرو اور دشمنوں کی اڑائی ہوئی افواہوں کی چرچا نہ کرتے پھرو۔‘‘
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ جَآ ءُ وْ بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لاَ تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرُ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیًٴ مِّنْهُمْ مَّااکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ‘‘ قرآن کہتا ہے کہ جن بدبختوں نے یہ داستان گھڑی تھی ان میں ہر ایک کے دامنِ کردار پر گناہ کا دھبہ لگ چکا ہے اور انہیں اس گناہ کے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ گناہ کا سب سے زیادہ بوجھ ان میں سے ایک شخص کے کندھوں پر ہے۔ (یعنی عبداللہ ابن ابی، جسے عبداللہ ابی بن سلول بھی کہتے ہیں)’’ وَالَّذِیْ تَوَلّیٰ کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابُ عَظِیمُ ‘‘ ان اشخاص میں سے کسی جس نے زیادہ بوجھ اٹھایا ہے خدا نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ دنیاوی بدنامی یعنی جب تک اس دنیا میں زندہ رہے گا منافقین کے سرغنہ کے نام سے پہچانا جائے گا کے علاوہ آخرت میں خدا اس کو بڑے سخت عذاب سے دو چار کرے گا۔
لَوْلَآ اِذْسَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْراً ‘‘
اس بات کو قرآن ان الفاظ میں بھی ادا کر سکتا تھا کہ جب تم نے یہ داستان سنی تو اپنے بھائیوں کے متعلق برا گمان کیوں کیا؟ اگر قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا تو یہ ایک معمولی بات ہوتی۔ قرآن اسی بات کو دوسرے الفاظ میں بیان کر رہا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا: ’’تم نے اپنے مومن بہن بھائیوں کے متعلق برا گمان کیوں کیا؟‘‘ بلکہ وہ ارشاد فرما رہا ہے: ’’تم نے اپنے بارے میں برا گمان کیوں کیا؟‘‘ یعنی اس بات کی طرف متوجہ رہو کہ تم ایک ہی پیکر ہو، مولانا جلال الدین رومی کے بقول ’’نفسِ واحدہ‘‘ ہو۔ ’’مؤمنان ہستند نفسِ واحدہ‘‘۔ تمام مسلمانوں اور مؤمنین کو یہی سمجھنا چاہئے کہ وہ سب ایک ہی پیکر کے اعضاء ہیں۔ اگر کسی مؤمن پر تہمت لگائی جا رہی ہو تو دوسرے مسلمان سمجھیں کہ وہ تہمت ان کی ذات پر لگائی جا رہی ہے۔ پس ایک نکتہ اس مقام پر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ قرآن یہ کہتا ہے کہ تم نے اپنے مؤمن بھائیوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا، یہ کہہ رہا ہے کہ تم نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا؟ یعنی مسلمانوں کے درمیان ’’میں‘‘ اور ’’وہ‘‘ کا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ ہر مسلمان کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس کے کسی بھی دوسرے مسلمان بھائی کی عزت اس کی اپنی عزت ہے اور دوسرے مسلمان بھائی کی آبرو اس کی اپنی آبرو ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ ’’تم‘‘ نے کیوں اچھا گمان نہیں کیا؟ بلکہ کہہ رہا ہے کہ ’’مؤمنین و مؤمنات‘‘ نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا؟ بلکہ کہہ رہا ہے کہ ’’مؤمنین و مؤمنات‘‘ نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا۔؟
اولاً۔ یہاں عورت و مرد دونوں کا ایک جگہ ذکر کر رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اعتبار سے عورت اور مرد برابر ہیں۔ ان میں فرق نہیں ہے۔
ثانیاً: ایمان کو خصوصی طور پر ذکر کر رہا ہے۔ یعنی قرآن بتانا چاہتا ہے کہ وحدت اور اتحاد کا معیار ایمان ہے۔ مؤمنین اس لئے نفسِ واحدہ ہیں کیونکہ وہ مؤمن ہیں۔ یعنی اس مقام پر قرآن اتحاد کے معیار کو بھی بیان کر رہا ہے۔ درحقیقت قرآن کہنا چاہتا ہے:
’’اے ایمان لانے والے مردو اور ایمان لانے والی عورت! اگر تم پر اس قسم کی تہمت لگائی جاتی تو کیا تم اس تہمت کا چرچا کرنے پر تیار ہوتے؟ جس محفل میں بیٹھتے کیا اس میں بیان کرتے کہ مجھ پر یہ تہمت لگائی گئی ہے؟ لوگ میرے متعلق ایسی باتیں کر رہے ہیں؟ کیا کبھی تم اپنے متعلق ایسی باتیں کرتے؟ اگر تمہارے اپنے متعلق اس قسم کی باتیں ہوں تو تم فوراً سمجھ جاتے ہو کہ تم کو خاموشی سے کام لینا چاہئے اور لوگوں نے جو جھوٹی تہمت تم پر لگائی ہو تم کو اس کا چرچا نہیں کرنا چاہئے۔ تو اب اپنے مؤمن بہن بھائیوں پر لائی جانے والی تہمت سن کر تم اسی طرح خاموشی کیوں نہیں اختیار کر لیتے جس طرح تم اپنے اوپر لگائی جانے والی تہمت سن کر اختیار کر لیتے ہو۔‘‘
لَوْ لَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمَؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِهمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا هٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ ‘‘
جب تم ایمان والوں نے سنا تو مومنین نے اپنے متعلق اچھا گمان کیوں نہ کیا؟ انہوں نے یہ داستان سنتے ہی کیوں نہ کہا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے؟ نبی اکرم نے ایک ماہ یا اس سے زیادہ مدت تک خاموشی اختیا ر کی۔
غافل مسلمان بجائے اس کے کہ پہلے دن ہی کہہ دیتے’’هٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ ‘‘ یہ واضح جھوٹ ہے، وہ مزے مزے لے لے کر اس داستان کو ایک دوسرے سے بیان کرتے۔ جس محفل میں بیٹھتے یہی کہتے: ’’ہم نے اس طرح سنا ہے‘‘۔ اور اپنی ہر محفل میں اس جعلی داستان ہی کو اپنی بحث و گفتگو کا موضوع قرار دیتے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمہیں پہلے دن ہی کہنا چاہئے تھا’’هٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ اب اس کے بعد آگاہ رہو۔ ایسے جھوٹ جو تم میں سے بعض افراد گھڑ لیتے ہیں ان کو سنتے ہی کہو’’هٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ ‘‘
لَوْلاَ جَآ ءُ وْ عَلَیْهِ بِاَرْبَعَة شُهَدَآءَ فَاِذْ لَمْ یاْ تُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰئِکَ عِنْدَاللّٰهِ هُمُ الْکَاذِبُوْنَ ۔ (سُورہ نُور، آیت 13(
تمہارے کام اصول و قوانین کے تحت ہیں۔ اسلام نے تم پر فرض عائد کیا ہے۔ شرعاً تم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جب بھی کسی مسلمان پر لگائی جانے والی ایسی تہمت سنو جو شرعی طریقے سے ثابت نہ ہوئی ہو، تو فوراً کہو کہ یہ جھوٹ ہے۔ خدا کے نزدیک یہ جھوٹ ہے۔ اور اس جملہ (خدا کے نزدیک یہ جھوٹ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ قانونِ الٰہی کے مطابق یہ جھوٹ ہے۔
ذمہ داری بہت واضح ہے۔ اب کے بعد ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص یا ادارے کے متعلق کوئی بات کرے تو ہم پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟ کیا ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم خاموش رہیں؟ کیا ہمارا فرض یہ ہے کہ یہ کہیں کہ ’’ہمیں حقیقت کا علم نہیں ہے۔ خدا ہی جانتا ہے‘‘؟ مجھے کیا خبر، ممکن ہے یہ بات درست ہو، ممکن ہے غلط ہو‘‘؟ کیا ہماری ڈیوٹی یہ ہے کہ ہم اپنی محافل میں ایسے واقعات کا تذکرہ کریں اور کہیں: ’’لوگ یوں کہتے ہیں۔‘‘ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جب تک شرعی طور پر ثابت نہ ہو جائے تب تک یہ کہیں کہ یہ واقعہ بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ جب شرعی طور پر ثابت ہو جائے اور ہمیں یقین ہو جائے، مثلاً چار عادل زنا کی گواہی دیں یا زنا کے علاوہ کسی دوسرے کام کی گواہی دو عادل دیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یا کہیں کہ ہم نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ (یہ شرعی گواہی ہے) تو اس وقت ہماری ذمہ داری بدل جاتی ہے۔ جب تک شرعی ثبوت نہ ہو اس وقت تک ہمیں اس واقعہ کے تذکرہ کا حق نہیں پہنچتا او نہ ہی یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ ’’شاید یہ واقعہ صحیح ہو، شاید غلط ہو۔‘‘ بلکہ اس قسم کی داستان سن کر ہمیں خاموشی اختیار کرنے کا حق بھی حاصل نہیں۔ بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ کہیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ہاں جب شرعی ثبوت مل جائے تو اس وقت ہمارا فریضہ ہے کہ مقابلہ کریں۔ البتہ ہر موقع پر ہم پر کوئی فرض عائد ہوتا ہے۔
بعض برائیوں کا مقابلہ ہمیں کرنا چاہئے اور بعض مسائل مثلاً زنا کے بارے میں، حاکم ِ شرع کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ قرآن فرماتا ہے کہ اے ایمان والو تم اس داستان کا چرچا کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو گئے ہو۔ لیکن خدا نے تمہارا یہ گناہ معاف کر دیا ہے۔ اب بیدار رہنا۔ آئندہ اس کا ارتکاب نہ کرنا۔’’وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُه فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة‘‘ اگر دنیا و آخرت میں تم پر خدا کا فضل نہ ہوتا’’لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَفَضْتُمْ فِیْهِ عَذَابُ عَظِیْمُ ‘‘ تو تمہاری ان بے سروپا باتوں کی وجہ سے خدا کی جانب سے دنیا و آخرت میں تم پر عذاب نازل ہوتا۔ یہ فقط خدا کا فضل ہی تھا جس نے تم کو اس عذاب سے بچا لیا۔ پس اب متوجہ رہو اور اب کے بعد ایسا کام نہ کرنا۔ کونسا گناہ اور افاضہ؟ ہم کس چیز میں غرق ہو چکے تھے اور کس چیز کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے تھے؟اِذُ تَلَقَّوْنَه بِاَلْسِنَتِکُمْ‘‘ جب تم اس کو ایک دوسرے کی زبان سے نقل کرتے تھےوَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِکُمْ مَّالَیْسَ لَکُمْ بِه عِلْمُ ‘‘ تم ایسی بات کرتے تھے جس کا تمہیں علم نہیں تھا اور چونکہ تم اسے نہیں جانتے تھے وَتَحسَبُونَہ ھَیِّنًا اس لئے اسے معمولی بات خیال کرتے تھے ،وَهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمُ حالانکہ خدا کے نزدیک یہ بہت بڑی بات تھی۔ مسلمانوں کی آبرو کا مسئلہ ہے اور اس مقام پر خصوصاً پیغمبر کا مسئلہ ہے۔وَلَوْ لَآ اِذْسَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّایَکُوْنُ الَنَآ اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِهٰذَا جب تم نے اس کو سنا تو کیوں نہ کہا کہ ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم اس کے بارے میں کلام کریں۔ ہمیں اس کے تذکرہ کا حق حاصل نہیں ہے۔ (بلکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ ہم کو منفی بات کرنی چاہئے۔ یعنی اگر کوئی شخص ایسی بات کرے تو ہمیں کہنا چاہئے کہ یہ جھوٹ ہے۔ نہ صرف یہ کہ مثبت بات نہ کریں اور اس کو مشہور نہ کریں بلکہ ہمیں چاہئے کہ منفی بات کریں۔ یعنی دوسروں کے جواب میں کہیں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے، جھوٹ ہے۔ اس مطلب کو خدا دوسرے جملے میں بیان فرما رہا ہے) تمہیں کہنا چاہئے تھا’’مَایَکُوْنَ لَنَا اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِهٰذَآ ۔ ہمیں اس کے متعلق گفتگو کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ بلکہسُبْحَانَکَ هٰذَا بُهْتَانُ عَظِیْمُ ‘‘ ہمارا فریضہ ہے کہ کہیں کہ اللہ کی ذات پاک ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ باندھا اور تہمت لگائی گئی ہے۔یَعِظُکُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٓ اَبَدًا‘‘ خدا مسلمانوں کو موعظہ فرما رہا ہے کہ خبردار دوبارہ کبھی بھی اس قسم کی کوئی غلطی نہ کرنا۔ اب قیامت تک متوجہ رہنا اور کبھی بھی کسی گروہ کا آلہ کار نہ بننا۔
دشمنوں نے تمہارے خلاف جو باتیں گھڑی ہیں ان کا چرچا نہ کرنا۔وَیُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُمْ الْاٰیَاتِ وَاللّٰهُ عَلِیْمُ حَکیْمُ ‘‘ اللہ تم سے اپنے احکام کو کھول کر بیان کرتا ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا، حکمت والا ہے۔ اس نے حکمت کی اساس پر ہی یہ آیات تمہارے لئے نازل کی ہیں۔
کتبِ حدیث میں ایک حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم اہلِ بدعت کو دیکھو تو ان کا مقابلہ کرو۔ بدعت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص دینِ خدا میں ایسی چیز شامل کر دے جو دین میں موجود نہ ہو، یعنی ایک من گھڑت بات کو دین سے منسوب کرنا۔ بدعت کی مخالفت کرنا سب مسلمانوں پر لازم ہے۔ مثلاً صلوات جس وقت بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ آپ جب بھی صلوات پڑھیں گے تو آپ کے اس عمل (صلوات) کو مستحب شمار کیا جائے گا۔ فرض کریں ایک خطیب تقریر کے دوران اپنی تھکن دور کرنے کے لئے سامعین سے صلوات پڑھنے کو کہتا ہے تو یہ ایک پسندیدہ اور اچھا کام ہے۔ لیکن اگر آپ خیال کریں کہ اسلام نے حکم دیا ہے کہ خطیب کی تقریر کے دوران صلوات پڑھا کریں اور آپ اسلام کا حکم بجا لانے کی نیت سے صلوات پڑھیں گے تو یہ بدعت ہو گی۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام نے خطیب کی تقریر کے دوران صلوات پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
ہم (ایرانیوں) میں ایک عادت پائی جاتی ہے جس سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔ جب چراغ جلایا جاتا ہے تو صلوات پڑھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ صلوات جس وقت بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ میں بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ صلوات جب بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ لیکن ایران میں اس کا سابقہ ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ ایران میں چونکہ آتش کی پرستش کی جاتی رہی ہے، آگ کا احترام کرنے کا رواج رہا ہے، اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری اس صلوات میں آتش کی تعظیم و تکریم کے وہ جذبات بھی شامل ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ اسلام کہتا ہے کہ نماز کے ہنگام آپ کی توجہ خدا کی جانب ہونی چاہئے۔ اگر آپ کے روبرو کوئی شخص ہو تو آپ کی نماز مکروہ ہے کیونکہ اس سے آدم پرستی کی بو آتی ہے۔ تصویر کے بالمقابل نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے شکل پرستی کی بو آتی ہے۔ چراغ کے روبرو نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے آتش پرستی کی بو آتی ہے۔ اس لئے اب جب چراغ جلایا جائے تو صلوات نہ پڑھا کریں کیونکہ ا س سے آتش پرستی کی بو آتی ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ان چیزوں کو ’’بدعت‘‘ کہا جاتا ہے۔
بہت سی چیزیں بدعت ہیں اور لوگوں، خصوصاً عورتوں کے مابین ان کا رواج ہے۔ مثلاً ابودرداء کی نیاز۔ منگل کے دن بی بی کی نیاز۔ حضرت عباس کا لنگر۔ اسلام میں ایسی چیزوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسلام میں حضرت عباس کے لنگر کے نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کوئی نیک کام کریں مثلاً فقراء کو کھانا کھلائیں اور اس کا ثواب نبی اکرم پر نثار کریں، امیرالمومنین پر نثار کریں، فاطمہ زہرا پر نثار کریں، امام حسن، امام حسین یا کسی بھی امام پر نثار کریں، یا حضرت عباس پر نثار کریں۔ اگر آپ اس ثواب کو اپنے رفتگان میں سے کسی پر نثار کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میں دسترخوان لگائیں بشرطیکہ زنانہ انداب و رسومات جو عورتوں نے خود سے گھڑ لئے ہیں (مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون کونسے ہیں اور اگر کوئی شخص ان کو اسلامی آداب سمجھ کر بجا لائے تو یہ بدعت بن جاتے ہیں) ترک کر دیں۔ اگر اس میں کسی مسلمان کو کھانا کھلائیں، خصوصاً مسلمان محتاجوں کو کھانا کھلائیں اور اس کا ثواب حضرت عباس کو ہدیہ کر دیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ان افعال کو آداب و رسومات کے ساتھ اس خیال سے انجام دیا جائے کہ یہ بھی اسلام کا حصہ ہیں تو یہ بدعت اور حرام ہوں گے۔ بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو بدعت ایجاد کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میں علی ابن محمد بابویہ کی طرح امامِ زمانؓ کا خاص نائب ہوں تو اس کو ’’اہلِ بدعت‘‘ کہا جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ ’اہلِ بدعت‘‘ کی مخالفت کرو۔ عالم پر لازم ہے کہ وہ اہلِ بدعت سے نبرد آزما ہو۔ اسے خاموش رہنے کا حق نہیں پہنچتا۔ دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں’’وَباَهِتُوْ هُمْ‘‘ یعنی ان کو مبہوت کر دو، ان کو رسوا کرو۔ یعنی ان کے ساتھ مناظرہ کر کے ان کی دلیلوں کو باطل ثابت کرو۔’’فَبُهِتَ الَّذِیْ کَفَرَ‘‘ جس طرح ابراہیم نے اپنے زمانہ کے کافر (فرعون) کو مبہوت کیا تھا۔ اسی طرح تم بھی ان کو مبہوت کرو۔ کم عمل رکھنے والے بعض افراد نے’’باهتوهم‘‘ کا معنی کیا ہے کہ ’’ان پر تہمت لگاؤ اور ان سے جھوٹی بات منسوب کرو۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اہلِ بدعت خدا کے دشمن ہیں اس لئے ان پر تہمت لگانا جائز ہے۔
جس کے ساتھ بھی ان افراد کی ذاتی دشمنی ہو اس کو ملعون و اہلِ بدعت قرار دے دیتے ہیں، صغریٰ و کبریٰ تشکیل دینے کے بعد غلط باتوں کو منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ حضرات توجہ کریں کہ جو معاشرہ اپنے ذاتی اور شخصی دشمنوں کو اہلِ بدعت قرار دینے جیسے مرض میں مبتلاء ہو گیا ہو اور’’بَاهِتُوْهُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’ان پر تہمت لگاؤ‘‘ کرتا ہو وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتا ہو گا۔ اور اس وقت آپ دیکھیں گے کہ دھڑادھڑ جھوٹ گھڑے جا رہ یہیں۔ ایک مرتبہ ایک عالم (عالم سے بھی کبھی غلطی ہو جاتی ہے) میرے پاس آیا اور کہنے لگا میں نے سنا ہے کہ فلاں شخص (وہ ایسا شخص تھا جو پورے طور پر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہے) العیاذ باللّٰہ، اس بات کو بیان کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے، لیکن چونکہ موعظہ ہے اس لئے بیان کر رہا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ ہمارا معاشرہ شرمناک حد تک بگڑ چکا ہے۔ تو اس عالم نے کسی سے سنا تھا وہ عالم خود بہت نیک اور پارسا ہے۔ اس نے کہا کہ فلاں شخص نے کہا ہے کہ کتنا ہی اچھا ہوا۔ نعوذ باللہ۔ کہ حضرت فاطمہؓ کا بیٹا محسن سقط ہو گیا کیونکہ اگر وہ بھی زندہ رہتا تو اسلام کے لئے کئی مصیبتیں کھڑی کرتا! میں نے کہا آپ اس طرح کیوں کہہ رہے ہیں؟ وہ مسلمان ہے میں اسے قریب سے جانتا ہوں۔ جب وہ اَئمہؓ کے مصائب سنتا ہے تو اس کے اشک جاری ہو جاتے ہیں۔
غور کیجئے کہ کس قدر ایک دوسرے پر تہمتیں لگائی جا رہی ہیں اور جس معاشرے کا کام ہی دروغ گوئی اور تہمت لگانا ہو خدا نے اس کو عذاب دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ بعد کی آیت یہ ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَة فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ (سُورہ نُور، آیت 19)
تیسری تقریر
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَة فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَهُمْ عَذَابٌُ اَلِیْمٌْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تََعْلَمُوْنَ وَلَوْ لاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهوَاَنَّ اللّٰهَ رَ ءُو فٌ رَّحِیْمٌ یٰاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَولاَ فَضلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُه مَا زَکیٰ مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰهَ یُزَکِیْ مَنْ یَّشَآ ءُ وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (سُور نُور، آیت 19 تا 21)
گزشتہ تقریر میں ہم نے کہا تھا کہ قرآنِ کریم نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ اسلامی معاشرے میں سرے سے ہی تہمت، بہتان، افتراء اور بد گوئی کا وجود تک نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمان جب بھی اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے متعلق کوئی ناروا بات سنیں تو جب تک ان کو اس کا (گمان و ظن نہیں بلکہ) قطعی یقین نہ ہو جائے اور کوئی شک باقی نہ رہے، یا وہ بات شرعی طور پر ثابت نہ ہو جائے ان پر لازم ہے کہ اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں۔ بالفاظ دیگر اس پر مٹی ڈال دیں۔ یہاں تک کہ اس بات کا ذکر کسی دوسرے شخص سے یہ کہہ کر بھی نہ کریں (’’میں نے سنا ہے‘‘ کہ) نہ صرف یہ کہ اس غلط نسبت کو پورے وثوق کے ساتھ بیان نہ کریں بلکہ یہ بھی نہیں کہیں کہ ’’میں نے ایسی بات سنی ہے۔‘‘ کیونکہ ’’ میں نے سنا ہے‘‘ کہنے سے بھی اس بات کی تشہیر ہوتی ہے۔ اسلام ایسی بری، غلیظ اور ناپاک خبروں کی تشہیر کو ناپسند کرتا ہے۔ خصوصاً اس آیت کے ذیل میں ایک جملہ ہے جس میں خدا ارشاد فرماتا ہے۔’’وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ وہ بتانا چاہتا ہے کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کتنا بڑا ظلم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس ظلم کی سزا کتنی زیادہ ہے۔
اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے اور ایک دوسرے کے متعلق اچھا گمان رکھنے کا ماحول قائم کرے، نہ یہ کہ اس میں بے اعتمادی، بدگمانی اور بد گوئی کا ماحول پایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے غیبت کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ اس کے بارے میں قرآن نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں:’’وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّا کُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا‘‘ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی کی غیبت کرنے والا شخص درحقیقت اپنے اس مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔
اسی بناء پر قرآنِ کریم نے مختلف الفاظ کی صورت میں اس مطلب پر بہت زور دیا ہے۔ ایک آیت یہ ہے کہ:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَة فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ (سُورہ نور، آیت 19) اس آیت کا ترجمہ کرنے کے بعد بیان کروں گا کہ اس کی تفسیر دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے اور مفسرین نے دونوں طرح سے اس کی تفسیر کی ہے۔ دونوں تفسیریں ایک دوسری کے بہت قریب ہیں۔ آیت کہتی ہے کہ بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مؤمنین کے درمیان فحشاء کا رواج ہو ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو اپنے دامن میں دو دو معانی سمیٹے ہوئے ہیں اور دونوں معانی درست ہیں۔
جن بڑے گناہوں کے ارتکاب پر خدا نے ’’عذابِ الیم‘‘ کی وعید کی ہے ان میں لوگوں کے درمیان فحشاء کو عام کرنے کا گناہ بھی ہے۔ بعض لوگ عملی طور پر فحشاء کی ترویج میں مصروف ہیں۔ وہ یا تو دولت کی خاطر یا دوسرے مقاصد کے حصول کے لئے اس کی ترویج کر رہے ہیں۔ البتہ دورِ حاضر میں یہ مقاصد عموماً سامراجی ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اشخاص فحشاء کو عام کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ لوگوں کی مردانگی کو فحشاء کا رواج جتنا زیادہ متزلزل کرتا ہے دوسری کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ اگر آپ کسی ملک کے نوجوانوں کی توجہ اہم مسائل (ایسے اہم مسائل جو سامراج کے مفاد کو خطرے میں ڈالتے ہیں) سے ہٹا کر انہیں عیش و نوش جیسے امور میں مشغول کرنا چاہیں تاکہ وہ کبھی بھی ان اہم مسائل کے متعلق غور و فکر نہ کریں اور نہ ہی ان کی جانب متوجہ ہوں، تو اس کا حربہ یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو شراب فروشی میں اضافہ کیجئے، میخانوں کی تعداد بڑھائیے، بازاری عورتوں میں اضافہ کیجئے، لڑکے لڑکیوں کی ملاقاتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیجئے۔ جس قدر ہیروئن اور تریاک نوجوان طبقے کی جسمانی و روحانی قوت کو تباہ کرتے ہیں، لوگوں سے قوت ارادی چھین لیتے ہیں، ان کے ارادے کو متزلزل کر دیتے ہیں، عزتِ نفس اور شرافت کے احساس اور مردانگی کو تباہ کرتے ہیں، اسی قدر فحشاء کا کردار بھی ہے۔
امریکی حکمران جو پوری دنیا کو برائیوں میں مبتلا کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں، ان کا منصوبہ یہی ہے کہ فحشاء پھیلائیں تاکہ عوام کی جانب سے انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک رسالہ کے مدیر نے اس ہفتے کے شمارے میں کہا ہے کہ ’’میں ایسا حربہ اختیار کروں گا کہ تہران میں آئندہ دس سالوں تک دس سال اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکی کی بکارت محفوظ نہیں رہے گی۔‘‘
اسلام پاکدامنی پر اتنا زیادہ زور کیوں دیتا ہے؟ ایک رات میں نے پاکدامنی کے فلسفہ پر تقریر کی تھی۔ پاکدامنی کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ انسانی قوتیں جسموں میں جمع ہوں۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسانی جسم کے ’’اوپری حصے کی نچلی جانب‘‘ سے انسان کی قوت ارادی بھی خارج ہوتی ہے۔
اسلام یہ نہیں کہتا کہ جنسی عمل بالکل انجام نہ دیا جائے۔ وہ بیوی کے ساتھ جنسی عمل انجام دینے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ کلیسا اور کتھولک عیسائیوں کی رائے سے متفق نہیں ہے۔ البتہ دائرہ ازدواج سے باہر رہ کر جنسی عمل انجام دینے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ اور یہ تدبیر اسلام نے زن و مرد کی شرافت، انسیت، مروت اور مردانگی کو محفوظ کرنے کے لئے اختیار کی ہے۔
پردہ کے متعلق بعد میں چند آیات آئیں گی۔ ان کے ضمن میں ہم اسی موضوع پر مزید گفتگو کریں گے۔
جو لوگ روح کو تباہ کرنے کے لئے فحشاء کی ترویج کرتے ہیں، قرآن ان کے متعلق فرماتا ہے’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَة فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ جو لوگ مؤمنین کے درمیان فحشاء کو زیادہ کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے خدا نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یہاں یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے اس (عذابِ الیم) کو قرآن کی آیت میں کیوں بیان کیا ہے؟ یہ سمجھانے کے لئے کہ یہ مسئلہ اسلام کی نظر میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے!
پس اس آیت کی ایک تفسیر یہی ہے کہ قرآن مؤمنین کے درمیان فحشاء پھیلائے جانے کا سختی سے نوٹس لیتا ہے۔ آیت کے دوسرے معنی کی وضاحت کی خاطر میں اس جگہ لفظ ’’فی‘‘ کے متعلق ایک ادبی نکتہ ذکر کرنے پر مجبور ہوں۔ فارسی میں ’’فی‘‘ کی جگہ ’’در‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں ’’درخانہ‘‘ جس کو عرب ’’فی الدار‘‘ کہتے ہیں۔ بعض اوقات عربی زبان میں لفظ ’’فی‘‘ لفظ ’’در‘‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات لفظ ’’دربارہ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مقام پر اس آیت کی تفسیر اس طرح بھی کی جا سکتی ہے اور بعض مفسرین نے اسی طرح کی ہے۔
اور دونوں تفسیریں درست ہیں۔ یہ دونوں معانی آیاتِ اِفک سے مربوط ہیں۔ آیت کا دوسرا معنی یہ ہے۔ ’’وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مومنین کے بارے میں فحشاء عام ہو‘‘ یعنی اب اس کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ ’’مومنین کے درمیان فحشاء عام ہو‘‘ بلکہ اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مؤمنین کے متعلق فحشاء عام ہو، یعنی جو لوگ ایمان والوں سے بری باتیں منسوب کرنا چاہتے ہیں۔ بعض لوگ حاسد ہوتے ہیں۔ جب یہ دیکھتے کہ کسی شخص کو معاشرے میں ایک اچھا مقام حاصل ہے تو چونکہ اس سے حسد کرتے ہیں اور دوسری جانب ان میں آگے بڑھنے اور اچھا مقام حاصل کرنے کی اہلیت و ہمت نہیں پائی جاتی، اس لئے فوراً اس پر کوئی تہمت لگانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے دل میں کہتے ہیں کہ ہم تو اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے، لہٰذا اب اس کو لوگوں کی نظروں سے گرائیں گے۔ (وہ یہ کام کس طرح انجام دیتے ہیں؟) یہ کام بہت مشہور کر دیتے ہیں، اس پر کوئی تہمت لگا دیتے ہیں جبکہ خدا جانتا ہے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ ایک مرتبہ نبی اکرم نے اپنے اصحاب سے فرمایا’’ اَلَآ اُخْبِرُکُمْ بِشَرٍّ النَّاسِ‘‘ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے زیادہ برا کون ہے؟ اصحاب نے عرض کیا’’بلیٰ یا رسول الله‘‘ جی ہاں یا رسول اللہ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ایسا شخص سب سے زیادہ برا ہے جس سے دوسروں کو بھلائی نہ پہنچے۔ اس کے پاس جو کچھ بھی ہو اسے فقط اپنی ذات تک محدود رکھے۔ جو اصحاب نبی اکرم کے ہمراہ تھے انہوں نے گمان کیا کہ ایسے شخص سے زیادہ برا اور کوئی نہیں ہو گا۔ مگر آپ نے فرمایا: ’’کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اس شخص سے بھی زیادہ برا کون ہے؟‘‘ تب آپ نے دوسرے گروہ کا نام لیا۔ اصحاب نے کہا ہمارا خیال تھا کہ اس دوسرے گروہ سے زیادہ برا کوئی نہیں ہو گا۔ لیکن نبی اکرم نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ برا کون ہے؟‘‘ اصحاب نے عرض کیا ’’کیا ان سے زیادہ برا بھی کوئی ہے؟‘‘ تو اس وقت آپ نے تیسرے گروہ کا نام لیا۔ اور وہ گالیاں بکنے، تہمت لگانے، دوسروں کو بے آبرو کرنے والے اور بدزبان لوگوں کا گروہ ہے۔ اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے۔ یعنی ان سے زیادہ برا اور کوئی نہیں۔
پس آیت کا دوسرا معنی یہ ہوا کہ ’’ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان سے ناروا باتیں منسوب ہوں اور ان کا چرچا ہو وہ جان لیں کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘
اس کے بعد خدا فرماتا ہے’’فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة ’’ دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں‘‘ ان پر دردناک عذاب نازل ہوگا۔ یعنی اللہ تعالیٰ فقط آخرت میں ہی عذاب نازل نہیں کرے گا بلکہ دنیا میں بھی ان کو عذاب سے دوچار کرے گا۔
مجازات کا مسئلہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ ہر گناہ کی سزا اسی دنیا میں ملے گی۔ بہت سے گناہوں کی سزا اس دنیا میں نہیں دی جاتی جبکہ آخرت میں ہر گناہ کی سزا دی جائے گی۔ البتہ بعض گناہ ایسے بھی ہیں جن کی سزا خدا اسی دنیا میں بھی دیتا ہے۔ ان گناہوں کا عکس العمل اسی دنیا میں ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ (آپ تجربہ کر کے بھی دیکھ سکتے ہیں) ۔ ان میں سے کسی پر تہمت لگانے اور بے آبرو کرنے کا ایک گناہ ہے۔ جو شخص کسی پر جھوٹی تہمت لگاتا ہے ایک نہ ایک دن وہ اپنے کئے کی سزا پا لیتا ہے۔ یا تو کوئی دوسرا شخص اس جیسی تہمت اس پر لگا دیتا ہے۔ یا پھر وہ کسی اور طرح سے ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے۔
وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔ قرآن بتانا چاہتا ہے کہ یہ بہت بڑی بات ہے۔ خدا جانتا ہے کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔
’’وَلَوْ لاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهٌ وَاَنَّ اللّٰهَ رَ ءُ وْ فٌُ رَّحِیْمٌ ‘‘
اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، اگر خدا مہربان اور رؤف نہ ہوتا تو اس غفلت کے سبب تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔ لیکن خدا کے فضل نے تمہیں بچا لیا۔ یعنی تم اپنی اس غفلت اور منافقین کی گھڑی ہوئی باتوں کا چرچا کرنے کی وجہ سے دنیا میں ہی اتنے بڑے عذاب کے مستحق ہو گئے تھے کہ تمہارے پورے معاشرے کو نیست و نابود ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر خدا کے فضل اور اس کی رحمت نے تمہیں بچا لیا۔
اس کے بعد قرآن مزید تاکید کرتا ہے۔
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَنْ یَّتَّبِعَ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ‘‘
اے ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ اور جو شخص شیطان کے قدم بقدم چلے گا تو وہ ضرور اس کو بے حیائی اور بدی کی باتوں کا حکم دے گا۔‘‘
اگر آپ کہیں کہ ہم تو شیطان کو نہیں پہچانتے، وہ ہمیں نظر نہیں آتا، لہٰذا ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہم اس کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ تو اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ شیطان کو اس کے وسوسوں سے پہچانو۔ جب آپ محسوس کریں کہ آپ کے دل میں ایک ایسے خیال نے جنم لیا ہے جو آپ کو برائی کی دعوت دے رہا ہے تو جان لو کہ اسی جگہ شیطان کا قدم ہے۔ شیطان آگے بڑھ کر آپ سے کہہ رہا ہے ’’آجاؤ۔‘‘ وہ خیال شیطان کا ’’آ جاؤ‘‘ ہے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ شیطان کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ بلکہ اسے اپنے دل سے دیکھئےوَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ‘‘ شیطان کے نقش قدم پر چلنے والے کو جان لینا چاہئے کہ’’فَاِنَّه یَاْمُرُ بِالْفَحْشآءِ والْمُنْکَرِ شیطان بے حیائی اور بدی کی باتوں کا حکم دیتا ہے۔‘‘
’’وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُه‘‘ دوبارہ ارشاد ہوتا ہے: اے مسلمانو! تم نبی اکرم کے زمانے میں ہی تباہی کے کنارے پر جا کھڑے ہوئے تھے کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت (اور وہ بھی فقط پیغمبر کی وجہ سے) تمہیں اپنے دامن میں نہ لے لیتی تو تمہارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا اور تمہاری نجات کی کوئی صورت باقی نہ رہتی۔ اور جان لو کہ اگر آئندہ کسی زمانے میں ایسا واقعہ پیش آئے اور مسلمانوں کے خلاف کثرت سے افواہیں اڑائی جانے لگیں تو سمجھ لو کہ تم تباہ و برباد ہو جاؤ گے جیسا کہ آج کل ہم تباہ ہو چکے ہیں۔’’ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُه مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا‘‘ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی کبھی پاک ہی نہ ہوتا۔وَلٰکِنَّ اللّٰهَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآ ءُ وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اور جس کو مستحق سمجھتا ہے گناہ سے پاک کر دیتا ہے۔ اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ دوسری آیت بھی اسی واقعہ کے بارے میں ہے۔ البتہ اس واقعہ کے ذیل میں ایک اور مطلب پایا جاتا ہے۔
وَلاَ یَاتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَة اَنْ یُّؤتُوْٓا اُولِی الْقُرْبیٰ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُهَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَلیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاطاَلاَتُحِ بُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰهُ لَکُمْ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ (سُورہ نُور، آیت 22)
یہ ایک واقعہ کو بیان کر رہی ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ بعض مسلمان قرآن کے الفاظ میں’’اُولُواالْفَضْلِ‘‘ تھے (جو انفاق نہیں کرتے تھے) اس فضل سے مراد مال و دولت ہے۔ یہ لوگ اہلِ فضل تھے یعنی مال دار تھے۔
دورِ حاضر میں لفظ ’’فضل‘‘ علمی فضلیت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب اگر ہم کہیں کہ فلاں شخص فاضل ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ عالم ہے، ’’وہ فضلاء میں سے ہے‘‘ ، یعنی علماء میں سے ہے۔ لیکن قرآن مجید میں لفظ ’’فضل‘‘ کا اطلاق اس مال و دولت پر بھی کیا گیا ہے جسے جائز ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہو۔ مثلاً سورہ جمعہ میں ارشاد ہے کہ جب تم نماز جمعہ سے فارغ ہو جاؤوَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ ’’فضلِ الٰہی کی تلاش میں نکل پڑو‘‘ یعنی محنت مزدوری، کام اور تجارت کرو اور پیسہ کماؤ۔ قرآن فرماتا ہے کہ جو مسلمان جائز ذرائع سے مالدار بنے ہیں اور انفاق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ دوسروں کی مالی امداد روک لینے کی قسم نہ کھائیں۔ صاحبِ توفیق اور دولتمند مسلمان مہاجرین، مساکین اور اپنے قرابت داروں کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر ایک واقعہ (بظاہر یہی افک والا واقعہ) پیش آیا جس کے باعث ان دولتمند مسلمانوں کو ان کی جانب سے دلی صدمہ پہنچا۔ وہ ان سے ناراض ہو گئے اور تعجب کے ساتھ کہنے لگے۔ ’’ہم تو خدا کی خوشنودی کی خاطر ان کی مالی امداد کیا کرتے تھے جبکہ یہ لوگ اس سے سوء استفادہ کر کے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہم ان کی امداد کرتے ہیں جبکہ یہ افواہیں اڑاتے ہیں، جھوٹی خبروں کی تشہیر کرتے ہیں۔ انہوں نے واقعہ افک میں حصہ لینے والے ان فقراء و مساکین کی مالی امداد روک لینے کا فیصلہ کر لیا اور ان کی امداد نہ کرنے کی قسم کھا لی۔ قرآن اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اس کے باوجود کہ اس مقام پر افک و تہمت کا واقعہ پیش آیا تھا اور عام مسلمانوں سے غلطی سرزد ہوئی تھی مگر پھر قرآن یہاں مسلمانوں کی اس غلطی کی فقط اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ وہ عامۃ المسلمین سے کہہ رہا ہے کہ تم نے ایک منظم گروہ کی افواہ کا چرچا کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ لیکن جب مالدار مسلمانوں نے ان کی مالی امداد روک لینے کا فیصلہ کیا، اور اگر وہ اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ پہناتے تو جو لوگ جدا ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لئے ان سے جدا ہو جاتے۔ اس لئے قرآن نے فرمایا کہ تمہیں درگزر سے کام لینا چاہئے۔ اب ان کی غلطی سے چشم پوشی کرو اور انہیں معاف کر دو۔وَلاَ یَاْ تَلِ اُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَة‘‘ اور تم میں سے مالدار اور صاحب مقدور لوگ یہ قسم نہ کھا بیٹھیں کہ وہ رشتہ داروں، مساکین اور راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دیں گے، بلکہ اب بھی ان کی امداد کریں۔وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاطاَلاَ تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰهُ لَکُمْ ’’ انہیں معاف کریں، درگزر سے کام لیں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے‘‘؟ یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور مالی امداد بحال کر دی۔
اس جگہ ایک نکتہ کو بیان کرنا ضروری ہے۔ جو اشخاص اسلام کی منطق سے آگاہ نہیں اور پورے طور پر اس سے آشنا نہیں ہیں وہ اس بات سے غافل ہیں کہ اسلام نے محبت کو اس کا جائز مقام عطا کیا ہے۔ عیسائیوں نے مشہور کیا ہے اور اب بھی وہ یہی مشہور کر رہے ہیں کہ عیسائیت ’’محبت کا دین‘‘ ہے، بھلائی کرنے اور درگزر کرنے کا دین ہے۔ کیوں؟ ان کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا رخسار اس کے سامنے کر دو اور کہو کہ اب اس پر بھی مار جبکہ اسلام سخت گیری کا قائل ہے، اسلام تلوار کا دین ہے، اس میں درگزر کرنے کا ذکر تک نہیں، محبت کا نام و نشان تک نہیں عیسائیوں نے اس کا بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیا ہے اور مسلسل کر رہے ہیں، درحالانکہ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اسلام دینِ شمشیر بھی ہے اور دینِ محبت بھی۔ وہ سختی سے بھی کام لیتا ہے اور نرمی سے بھی جہاں سختی برتنے کا مقام ہو وہاں سختی برتنے کا حکم دیتا ہے اور نرمی برتنے کے مقام پر نرمی کو جائز قرار دیتا ہے۔ اسلام کی عظمت و اہمیت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اگر اسلام ایسا نہ ہوتا یعنی اگر وہ نہ کہتا ’’طاقت کا جواب طاقت سے دو، منطق کا جواب منطق کے ذریعے دو، محبت کے مقام پر محبت کرو، حتیٰ کہ بعض ایسے مقامات پر کہ جہاں تمہارے حق میں بدی کی گئی ہو وہاں تم اس کا جواب نیکی کے ساتھ دو تو ہم اس دین کو تسلیم ہی نہ کرتے۔
اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ اگر کوئی ستمگر تمہارے ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو دوسرا رخسار اس کے سامنے کر دو۔ وہ کہتا ہےفَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتدٰی عَلَیْکُمْ‘‘ (بقرہ۔ 194)
جو شخص تم پر زیادتی کرے تو ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو جیسی اس نے تم پر کی ہے۔ اگر اسلام نے اس طرح نہ کہا ہوتا تو یہ ایک ناقص دین ہوتا۔
عیسائیت کے غیر قابلِ عمل ہونے کی ایک دلیل یہی ہے کہ اس کے پیروکار پوری دنیا کے لوگوں سے زیادہ خونخوار ثابت ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جو کبھی اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے اور انجیل ہاتھ میں لے کر کہا کرتے تھے کہ یہ ’’محبت کی کتاب‘‘ ہے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی لوگ بیسیوں ٹن ’’محبت‘‘ ویٹ نام پر برسا رہے ہیں۔ اسی محبت کا حکم ان کو انجیل نے دیا ہے؟ اس محبت نے بم حتیٰ کہ نیپام بم کی شکل اختیار کر لی ہے۔
جس کے زمین پر پڑتے ہی بچے، بوڑھے اور عورتیں جل کر راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اسلام ابتداء میں محبت سے کام لیتا ہے۔ جہاں محبت کارگر نہ ہو وہاں خاموش نہیں رہتا۔ وہ کہتا ہے ’’چون پند دھند نشنوی بند نہند۔‘‘ علیؓ نے نبی اکرم کے متعلق فرمایا’’طَبِیْبٌ دَوَّارٌ بِطِبِّه قَدْ اَحْکَمَ مَرَاهِمَه وَاَحْمٰی مَوَاسِمَه آپ چلتے پھرتے طبیب ہیں۔ آپ کے ایک ہاتھ میں مرہم ہے اور دوسرے میں آپریشن کے آلات۔ جہاں مرہم پٹی کے ساتھ معالجہ ہو سکتا ہو وہاں آپ مرہم پٹی کرتے ہیں اور جہاں مرہم کارگر ثابت نہ ہو وہاں آپ نشتر استعمال کرتے ہیں، وہاں داغنے کے آلات سے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ دونوں سے استفادہ کرتے ہیں، سختی سے بھی اور نرمی سے بھی۔
سعدیؒ نے کیا خوب کہا ہے۔
درشتی و نرمی بہ ہم در بہ است
چور گزن کہ جراح و مرہم نہ است
اور یہ بالکل وہی بات ہے کہ جو امیر المؤمنینؓ نے بیان فرمائی ہے یہ اللہ کی طرف دعوت دینے کی بات ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔’’اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَه عَدَوَة کَاَنَّه وَلِیّ حَمِیْمٌ ‘‘ اے پیغمبر (آپ کا فریضہ لوگوں کو خدا کی طرف بلانا ہے) جان لو کہ نیکی اور بدی ہم وزن نہیں ہیں، حتیٰ کہ برائیاں بھی ایک جیسی نہیں ہیں اور نہ ہی تمام نیکیاں ایک ہی درجے کی ہیں۔ تم برائیوں کو بہترین نیکیوں کے ذریعے دور کر دو۔’’اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ‘‘ دوسرے لوگ تمہارے حق میں بدی کرتے ہیں مگر تم نیکی سے پیش آؤ۔ اس کے بعد قرآن نفسیاتی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اگر تمہارا دشمن تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے اور تم اس کا جواب بھلائی سے دو تو تم دیکھ لو گے کہ برائی کا جواب نیکی کے ساتھ دینے میں کیمیا کا اثر ہے، یعنی یہ نیکی ماہیت کو تبدیل کر دیتی ہے۔ ایک وقت ایسا آئے گا جب تم دیکھو گے کہ جو تمہارا جانی دشمن تھا اس کی ماہیت بدل چکی ہے اور وہ تمہارا مہربان دوست بن چکا ہے۔
کون کہتا ہے کہ اسلام محبت کرنے کا حکم نہیں دیتا؟ کون کہتا ہے کہ اسلام محبت کا دین نہیں ہے؟ اسلام محبت کا دین ہے۔ لیکن جہاں محبت موثر نہ ہو اس جگہ اسلام خاموشی نہیں سادھ لیتا بلکہ سخت گیری کرتا ہے، تلوار استعمال کرتا ہے۔ آپ’’اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَه عَدَاوَة کَاَنَّه وَلِیّ حَمِیْمٌ ‘‘ کے حوالہ سے نبی اکرم، امیرالمومنینؓ اور دوسرے ائمّہ طاہرین کی سوانح حیات میں بہت سے واقعات پڑھتے ہیں۔ اگر آپ بدی کا جواب نیکی سے دیں گے تو اس کا اچھا نتیجہ بھی دیکھ لیں گے۔ اس عمل کا اثر یہ ہے کہ یہ دشمن کو دوست بنا دیتا ہے۔
دعائے ’’مکارمِ اخلاق‘‘ میں بہت عمدہ مضامین پائے جاتے ہیں۔ ’’ اے خدا مجھے اس بات کی توفیق عطا کر کہ جو شخص مجھے گالی بکے میں اس سے اچھی بات سے پیش آؤں۔ جو شخص مجھ سے اپنا رشتہ توڑ ڈالے میں اس کے ساتھ ناطہ جوڑ لوں۔ جو میری غیر موجودگی میں میری غیبت کرے میں اس کی عدم موجودگی میں اس کی خوبیاں بیان کرو۔‘‘ اس دعا میں اس قسم کے بہت زیادہ جملے پائے جاتے ہیں۔
خواجہ عبداللہ انصاری نے بھی اس مطلب کو بہت اچھے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بدی کا جواب بدی سے دینا کتوں کا شیوہ ہے۔ کتے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ جب ایک کتا دوسرے کتے کو کاٹتا ہے تو دوسرا کتا پہلے کتے کو کاٹ لیتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی سے برا سلوک کرے اور وہ بھی جواب میں برا سلوک کرے تو اس دوسرے شخص نے کتے کی مانند عمل انجام دیا ہے۔ اگر انسان کتے کو مارے تو وہ فوراً پلٹ کر اس کی ٹانگ پر کاٹ لیتا ہے۔ اور بھلائی کا جواب بھلائی سے دینا گدھوں کا شیوا ہے، یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے سے اچھا سلوک کرے اور وہ بھی اس کا جواب نیکی سے دے تو اس نے کوئی قابل تحسین کام نہیں کیا۔ جب ایک گدھا دوسرے گدھے کے کندھے کو اپنے دانتوں سے کھجاتا ہے تو دوسرا گدھا بھی اس کے کندھے کو اپنے دانتوں سے کھجلاتا ہے۔ اتنی سی بات تو گدھا بھی جانتا ہے کہ نیکی کا جواب نیکی سے دینا چاہئے اور احسان کے بدلہ میں احسان کرنا چاہئے اور برائی کا جواب بھلائی سے دینا، برائی کے مقابلہ میں نیکی سے پیش آنا خواجہ عبداللہ انصاری کا کام ہے۔