واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا0%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا

مؤلف: لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
زمرہ جات:

صفحے: 438
مشاہدے: 186156
ڈاؤنلوڈ: 5080

تبصرے:

واقعۂ کربلا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 186156 / ڈاؤنلوڈ: 5080
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

لوگوں سے وہاں کے بارے میں سن چکا تھا کہ مسلم بن عوسجہ امام حسین علیہ السلام کے لئے بیعت لے رہے ہیں ۔یہ وہیں آکر بیٹھ گیا اور نماز تمام ہونے کا انتظار کرنے لگا جب جناب مسلم بن عوسجہ نماز تمام کر چکے تو کہنے لگا : ائے بندہ خدا میں شام کا رہنے والا قبیلہ'' ذوالکلاع ''سے وابستہ ہوں خدا وند عالم نے مجھ پر احسان کیا ہے کہ میرے دل میں اہل بیت کی محبت اور ان سے محبت کرنے والوں کی محبت جاگزیں کردی ہے۔ یہ ٣ہزار درہم کے ساتھ میں چاہتا ہو ں کہ اس شخص سے ملاقات کروں جس کے بارے میں مجھ کو خبر ملی ہے کہ وہ کوفہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کے بیٹے کی طرف سے بیعت لینے آیا ہے۔ میں اُن سے ملا قات کا مشتاق تھا لیکن کوئی ایسا شخص نہیں مل سکاجو میری ان تک رہنمائی کر تا اور نہ ہی کو ئی ان کی منزل گاہ سے آگاہ ہے۔ابھی میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ مسلمانوں میں سے کسی کو یہ کہتے سنا کہ اس مرد کو ان کے جائے قیام کا علم ہے لہذا میں آپ کے پاس حاضر ہو گیا تاکہ آپ یہ مال لے لیں اور مجھے اپنے آقا کے پاس لے چلیں تاکہ میں ان کے ہاتھوں پر بیعت کرسکوں ۔ اگر آپ چاہیں تو ملنے سے پہلے ہی مجھ سے اْن کی بیعت لے لیں ۔

اس پر مسلم بن عوسجہ نے اس سے کہا : میں اس پر خدا کی حمد کر تا ہوں تم کوان سے ملوا دوں گا ۔ مجھے اس کی خوشی ہے کہ تم جو چاہتے ہو وہ تم کو مل جائے گا اور تمہارے وسیلہ سے خدا اپنے نبی کے اہل بیت کی مدد کرے گا؛ لیکن مجھے اس کی سخت فکر ہے کہ اپنے مقصد تک پہچنے سے قبل تم نے مجھ کو پہچان لیا۔یہ فکر اس لئے ہے کہ یہ ابن زیاد سر کش ہے۔ یہ کہہ کر مسلم بن عوسجہ نے چلنے سے پہلے ہی اس سے بیعت لے لی اور بڑے ہی سخت اور سنگین عہد وپیمان کرائے کہ ہمیشہ خاندان رسالت کا خیر خوا ہ اور ان کے راز وں کو چھپا نے والا رہے گا۔ معقل نے مسلم بن عوسجہ کی رضایت کے لئے سب کچھ قبول کرلیا۔ اس کے بعد مسلم بن عو سجہ اسے اپنے گھر لے گئے اور کہا چند روز یہیں رہوتاکہ میں وقت لیکر تم کو ان کا دیدار کرا سکوں ، پھر مسلم بن عو سجہ نے اجازت لے کر جناب مسلم علیہ السلام سے اس کی ملا قات کرادی ۔(١)

____________________

١۔ ابو مخنف نے معلی بن کلیب سے اور انہو ں نے ابو وداک سے نقل کیا ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٦١)

۱۶۱

ابن زیاد کے قتل کا منصوبہ

انہی شرائط میں ہانی بن عروہ مریض ہو جاتے ہیں اورعبیداللہ ابن زیاد، ہانی کی عیادت کے لئے آتا ہے۔ ابن زیاد کے آنے سے پہلے عمارةبن عبیدسلولی نے(١) ہانی سے کہا : ہمارے اجتماع کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح اس خون آشام جلا دکو موت کے گھاٹ اتار دیں ۔اللہ نے آج ہم کو مہلت دیدی ہے لہذا جیسے ہی وہ آئے اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن ہانی نے کہا: مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ میرے گھر میں قتل کیا جائے لہٰذا ابن زیاد آیا، عیادت کی اور چلا گیا ۔

ابھی اس واقعہ کو ایک ہفتہ نہ گزار تھاکہ شریک بن اعور حارثی مریض ہو گیا۔ چونکہ وہ تمام حکمرانوں سے نزدیک تھا منجملہ ابن زیاد کا بھی مقرب تھااور دوسری طرف اس کے دل میں تشیع اور محبت اہل بیت کی گرمی شعلہ ورتھی لہذا جب عبید اللہ ابن زیاد نے اس کے پاس آدمی بھیج کر کہا کہ آج شام میں تمہا رے دیدار کو آؤں گا تو شریک نے جناب مسلم کو بلا کر کہا : وہ فا جر آج رات میری عیادت کو آے گا جب وہ آکر بیٹھے تو آپ پردے کے پیچھے سے آکر اسے قتل کر دیجئے پھر محل میں جا کر بیٹھ جائیے ، اس کے بعد کوئی نہیں ہے جو آ پ اور اس کے درمیان حائل ہو سکے۔ اب اگر میں اپنے اس مرض سے صحت یاب ہو گیا تو میں بصرہ چلا جاؤں گا اور حکومت آپ کی ہو گی ۔

جب رات آئی تو ابن زیاد شریک کی عیادت کے لئے آیا اور مسلم نے اپنے آپ کو آمادہ کیا۔ شریک نے مسلم سے کہا : دیکھو جب وہ بیٹھ جائے تو فرصت کو ہاتھ سے جا نے نہ دینااسی اثنا میں ہانی بن عروہ کھڑے ہوئے اور کہا : مجھے پسند نہیں ہے کہ وہ میرے گھر میں قتل ہو (گویا ہانی اس کو اپنے لئے ننگ وعار سمجھ رہے تھے) بنا برین عبیداللہ بن زیاد آیا اور داخل خانہ ہو کر شریک کی احوال پرسی کی۔ اس احوال پرسی نے طول اختیار کیا لیکن شریک نے دیکھا کہ مسلم نہیں نکل رہے ہیں لہذا فرصت کے فوت ہونے کے خوف سے ایک شعر پڑھا جس کا معنی اس طرح ہے : کس انتظار میں ہو کہ سلمیٰ کو سلام وتہنیت پیش کرو ؟ مجھے

____________________

١۔ یہ کو فہ والو ں کے نامہ برو ں میں سے ایک ہیں جو ٥٣ خطوط لے کر گئے تھے اور امام علیہ السلام نے انہیں مسلم بن عقیل ،قیس بن مسہر صیداوی اور عبد الر حمن ارجی کے ساتھ کوفہ روانہ کیا تھا۔

۱۶۲

سیراب کرو چاہے اس میں میری جان چلی جاے!یہ شعر اس نے دو تین بار پڑھا تو ابن زیاد نے کہا : تم کو کیا ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرض کی شدت سے تم ہذیان بک رہے ہو!ہانی نے کہا : ہاں ! اللہ آپ کوصحیح وسالم رکھے ؛صبح سے لے کر اب تک ان کی حالت ایسی ہی ہے۔ اس پر ابن زیاد اٹھ کر چلا گیا ۔ مسلم باہر نکلے تو شریک نے کہا اس کے قتل سے تمہیں کس چیز نے روک دیا ؟ مسلم نے جواب دیا : ''خصلتا ن'' دو چیزوں نے روک دیا''اما احد هما: فکر اهة هانیٔ أن یقتل فی داره'' پہلی چیز تو یہ کہ ہانی کو ناپسند تھا کہ وہ ان کے گھر میں قتل کیا جائے''اما الأخریٰ : فحد یث حدثه الناس عن النب صلی اللّٰه علیه و آله وسلّم ان الا یمان قید الفتک ولا یفتک المؤ من '' دوسری چیز حدیث نبوی ہے جسے لوگوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نقل کیا ہے کہ خدا پر ایمان، غفلت کی حالت میں قتل کر نے سے روک دیتاہے اور مومن دھوکے سے کبھی کسی کو قتل نہیں کرتا ۔

اس پر ہانی نے کہا : خدا کی قسم اگر تم قتل کرتے تو میں بھی اس فاسق و فاجر اور دھو کہ باز کو قتل کرنے میں شریک رہتا لیکن مجھے یہ نا پسند تھا کہ وہ میرے گھر میں قتل ہو۔(١)

معقل کی جناب مسلم سے ملاقات

معقل چند دن جناب مسلم بن عوسجہ کے گھر میں رہاتا کہ جناب مسلم بن عقیل کے پاس جا سکے۔ چند دنوں کے بعد یہ جناب مسلم بن عو سجہ کے توسط سے مسلم بن عقیل علیہ السلام کے پاس پہنچ گیا ۔ جناب مسلم بن عو سجہ نے سارا واقعہ تفصیل سے سنا دیا تو جناب مسلم بن عقیل نے بیعت لے لی اور جناب ابو ثما مہ صائدی(٢) کو حکم دیا کہ اس سے وہ پیسہ لے لیں جو وہ لے کر آیا ہے اس کے بعد معقل نے آنا جانا شروع کر دیا ۔وہ یہاں آکر ان کی خبروں کو سنتا ، رازوں سے آشنا ہو تا پھر وہاں سے نکل کر جا تا اور ابن زیاد کو ساری سر گذشت سنا دیتاتھا ۔

____________________

١۔ابو مخنف نے معلی بن کلیب سے اور اس نے ابو وداک سے روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥ ، ص ٣٦١)

٢۔ ابو ثمامہ چونکہ مسائل اقتصادی سے آگا ہ تھے لہٰذا جو اموال لوگ دیتے تھے اسے بھی جناب مسلم کی طرف سے آپ ہی لیتے تھے اور اس سے اسلحہ خرید ا کر تے تھے۔آپ عرب کے شہسوارو ں اور شیعو ں کے بزرگو ں میں شمار ہوتے تھے۔ (طبری ،ج٥،ص ٣٦٤) جناب مسلم نے ان کو قبیلہ ٔ ہمدان اور قبیلہ بنی تمیم کے لوگو ں کی سر براہی سوپنی تھی۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٣٦٩) آپ کر بلا میں بھی حاضر تھے اور وہا ں امام حسین علیہ السلام سے نماز پڑھنے کی در خواست کی تو امام علیہ السلام نے آپ کے حق میں خیر کی دعا کی اور فرمایا :'' ذکر ت الصلوٰة جعلک اللّہ من المصلین الذ اکر ین''تم نے نما ز کو یاد کیا ؛خدا تم کوان نما زگزارو ں میں شامل کرے جو ہمیشہ یاد الہٰی میں رہتے ہیں ۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٤٣٩) نماز سے پہلے ہی آپ کے اس چچا زادبھائی نے آپ سے مبارز طلبی کی تھی جو عمر بن سعد کے لشکر میں تھااور آپ نے اس ملعون کو قتل کیا تھا۔(طبری ،ج٥، ص ٤٤١)

۱۶۳

ہانی کا دربار میں طلب کیا جانا

انہی دنوں ایک دن ابن زیاد نے اپنے درباریوں سے پوچھا: ہانی مجھے یہاں دکھائی نہیں دے رہے ہیں ؟ حاضرین نے جواب دیا: وہ مشکوک ہیں ۔اس پر عبیداللہ بن زیاد نے محمد بن اشعث،(١)

____________________

١۔ محمد بن اشعث بن قیس کندی : اسی شخص سے زیاد نے کوفہ کی اور اس کے قبیلہ کی بزرگ شخصیت جناب حجربن عدی کو طلب کیا ۔حجر نے اس سے درخواست کی کہ زیادسے امان کا مطالبہ کرے اور مجھے معاویہ کے پاس بھیج دے پھرمعاویہ جو چاہے میرے ساتھ سلوک کرے۔ شروع میں تو اس نے اسے قبول کرلیا لیکن آخر کا رحجر کو زیاد کے حوالے کر دیا۔(طبری ج ٥؛ص ٢٦٣،٢٦٤)اس کی اس حرکت پر عبیدہ کندی نے محمد بن اشعث پر طنز کیا کہ تو نے حجر کے ساتھ دغا کی اور مسلم علیہ السلام سے جنگ پر آمادہ ہوا اس سلسلہ میں اس نے شعر کہہ ڈالے:

أسلمت عمک لم تقاتل دونه

فرقاً ولولا انت کان منیعا

وقتلت وافد آل بیت محمد

وسلبت أسیافاله ودروعا

(طبر ی، ج، ص٢٨٥)تونے اپنے چچا کی طرف سے لڑنے کے بجائے انہیں ظلم کے ہاتھو ں سونپ دیا اور ان کی نجات کے لئے کچھ بھی نہ کیا جب کہ اگر تو انھی ں دھو کہ نہ دیتا تو کبھی بھی وہ لوگ ان پر ہاتھ نہیں رکھ پاتے ؛اسی طرح تو نے سفیر حسین علیہ السلام اور نمائندہ خاندان اہلبیت کو شہید کر دیا اور ان کے اسلحو ں کو تاراج کردیا۔'' کندہ'' اور ''حضرموت ''کے جتنے لوگ اس کی اطاعت میں تھے سبھی نے ابن زیاد کی طرف سے پرچم امان بلند کرکے مسلم بن عقیل کو فریب و دھوکہ دیکر چھوڑدینے کے لئے کہا (طبری، ج ٥،ص ٣٦٩)لیکن جنگ کے لئے ابن زیاد نے اسی کو قبیلہ قیس کے جوانو ں کے ساتھ روانہ کیا کیونکہ ہر آیندہ نگر انسان ابن عقیل سے مقاتلہ اور جنگ کو ناپسند کرتا تھا ۔(طبری ، ج٥،ص ٣٧٣) طبری کا کہنا ہے کہ اسی نے جناب مسلم کو امان دیا ۔(طبری ،ج٥ ، ص ٢٧٤) لیکن جب ابن زیاد کو اس امان کی خبر ملی تو اس نے قبول نہیں کیا ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٧٥) اسی طرح ہانی بن عروہ کے سلسلہ میں بھی سفارش کی لیکن اس کی سفارش قبول نہیں ہوئی ۔(طبری ،ج ٥ ،ص ٣٧٨) قبیلہ کندہ عمر بن سعد کے حکم پر قیام کرتے

۱۶۴

تھے کیونکہ وہ سب پسر سعد کے مامو ں ہوتے تھے۔ جب یزید بن معاویہ ہلاک ہوگیا اور ان لوگو ں کو ابن زیاد نے اپنی طرف بلایا تو ان لوگو ں نے ابن زیاد کو چھوڑدیا اور عمر بن سعد کو اپنا حاکم بنا لیا۔ جب ہمدان کے مردو ں نے تلواری ں کھینچ لی ں اور ان کی عورتی ں امام حسین علیہ السلام پر رونے لگی ں تو اشعث کا لڑکا اپنے ارادے سے منصرف ہو گیا اور بولا : ایسا مسئلہ پیش آگیا ہے کہ اب ہم اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے (طبری ،ج٥، ص ٥٢٥) اس کے بعد ان لوگو ں نے مکہ میں ابن زبیر کو خط لکھا تو ابن زبیر نے محمدبن اشعث بن قیس کو موصل بھیج دیا۔ جب موصل میں اس نے قدم رکھا تو وہا ں مختار کی جانب سے عبدالرحمن بن سعیدبن قیس امیر تھالہذا یہ موصل سے نکل کرتکریت آگیا اور وہا ں قبیلو ں کے اشراف وغیرہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کردیا اور انتظار کرنے لگا کہ دیکھی ں لوگ کیا کرتے ہیں پھر خود جناب مختار کے پاس جاکر ان کی بیعت کرلی (طبری ، ج٦، ص ٣٦) لیکن جب ابن زیاد شام کے لشکر کے ہمراہ موصل آیا اور مختار کے ساتھیو ں سے جنگ کے لئے خروج کیا تو اشراف کوفہ بھی اس سے مل گئے اور اس کے ساتھ حملہ کردیا۔ انہیں کوفیو ں میں محمدبن اشعث بھی تھا اور اس کا بیٹا اسحاق بن محمد بن اشعث۔انھو ں نے قبیلہ ''کندہ ''کے ایک گروہ کے ساتھ جناب مختار پر خروج کیا۔ (طبری ،ج٦،ص ٣٩، ٤٥) لیکن ان سب کے متفرق ہو جانے او شکست کھانے کے بعد محمد بن اشعث ابن قیس قادسیہ کے پہلو میں اپنے قریہ کی طرف نکل گیا ۔ مختار نے وہا ں اپنے ساتھیو ں کو بھیجا لیکن محمد بن اشعث وہا ں سے نکل کر مصعب بن زبیر سے ملحق ہوگیا۔مختار کے سپاہیو ں نے اس کا گھر منہدم کر دیا (طبری، ج٦، ص٦٦) پھر مصعب نے اس کو حکم دیا کہ وہ مہلب بن صفرہ کے پاس چلاجائے اور مصعب کا یہ خط اسے دیدے ۔وہ یہ چلاگیا اور پھر مہلب کے ساتھ مختار سے جنگ کے لئے آیا (طبری ،ج٦،ص٩٤) پھر کوفہ کی ایک عظیم فوج کے ساتھ آیا جس کا مقصد مختار کو ہٹاناتھا۔ وہ فوج بصرہ والی فوج سے زیادہ خطرناک تھی۔ وہ شکست کھاکر اسیر ہونے کے لئے تیار نہیں تھے یہا ں تک کہ مختار ان کو قتل کردیتے ۔وہ مصعب کے ہمراہ مختار سے جنگ کرنے میں ماراگیا ۔مصعب نے اس کے بیٹے عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کو کوفہ کے کوڑے خانے کے پاس اس کی لاش کے لئے بھیجا ۔(طبری ،ج٦، ص ١٠٤)

۱۶۵

اسماء بن خارجہ(١) اورعمرو بن حجاج(٢) کو بلایا(عمروبن حجاج کی بہن روعة، ہانی بن عروہ کی بیوی تھی) اور ان سے پوچھا: ہانی بن عروہ کو ہم تک آنے سے کس نے روکاہے ؟ اس پر ان لوگو ں نے جواب

____________________

١۔اسے فزاری بھی کہاجاتا ہے۔ یہ شخص وہی ہے جس نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی تحریر کی تھی (طبری ،ج٥، ص ٩٢٠٧) یہ وہی ہے جسے حجاج نے کمیل بن زیاد نخعی اور عمیر بن صنائی کے سلسلے میں یاد کیا تھا۔ یہ دونو ں وہ تھے جنہو ں نے عثمان کی طرف خروج کیا تھا ۔ حجاج نے ان دونو ں کو قتل کر دیا ۔(طبری،ج٤، ص ٤٠٤)اسی نے ابن زیاد پر ہانی بن عروہ کو مارنے کے سلسلے میں اعتراض کیا تھا تو ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے قید کرلو (طبری، ج٥،ص ٣٦٧)پھر یہ ابن مطیع کے اصحاب میں شمار ہونے لگا (طبری ،ج ٦ ، ص ٣١) پھر ٦٨ھمیں مصعب بن زبیر کے ساتھیو ں میں ہوگیا ۔(طبری، ج٦ ،ص ١٢٤)

٢۔امام حسین علیہ السلام کو جن لوگو ں نے خط لکھا ان میں ایک یہ بھی ہے۔اس سے قبل اس شخص کے احوال بیان ہوچکے ہیں ۔

۱۶۶

دیا ہم لوگ نہیں جانتے ہیں !اللہ آپ کو صحیح وسالم رکھے۔اس پر ابن زیاد نے کہا : مجھے تو خبر ملی ہے کہ وہ صحت یاب ہوچکے ہیں اور اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھا کر تے ہیں لہٰذا تم جاؤ،ان سے ملاقات کرو اور انھیں سمجھادو کہ حکومت کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری سے کوتاہی نہ کریں کیونکہ یہ مجھے پسند نہیں ہے کہ ان جیسے اشراف و بزرگانِ عرب میری نظر سے گر جا ئیں ۔(١)

ہانی، ابن زیاد کے دربار میں

یہ تمام افرادہانی کے پاس گئے اور شام تک ان کے پاس بیٹھے رہے۔ اس وقت جناب ہانی بن عروہ اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھے تھے۔ ان لوگوں نے جناب ہانی سے پوچھا کہ آپ امیر سے ملاقات کرنے کیوں نہیں آتے ؟وہ تو آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور کہا ہے کہ اگر آپ مریض ہیں تو میں عیادت کے لئے آوں ۔ ہانی نے جواب دیا : بیماری میرے آنے میں مانع ہے تو اس پر ان لوگوں نے کہا : امیر تک یہ خبر پہنچی ہے کہ ہرشام کو آپ اپنے گھرکے دروازہ پر بیٹھتے ہیں اور انہیں انتظار میں رکھے ہیں ۔ آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ حاکم ایسی چیزوں کے متحمل نہیں ہوتے ہیں ؛لہٰذا ہم آپ کو قسم دیتے ہیں کہ آپ ابھی ہمارے ساتھ چلیں ۔اس پر ہانی نے لباس منگوائے اور اسے پہناپھر خچر منگواکر اس پر سوار ہوکر قصر کے پاس پہنچے اور گویا وہاں پہنچتے ہی ان بعض چیزوں سے آگاہ ہوگئے تھے جو ہونے والی تھیں لہذاحسان بن خارجہ سے کہا : جان برادر ! خدا کی قسم میں اس مرد سے خائف ہوں ، تم اس سلسلسہ میں کیا کہتے ہو؟اس پر حسان بن خارجہ نے کہا : اے چچا خدا کی قسم! میں آپ کے سلسلے میں ذرہ برابر خوف زدہ نہیں ہوں ؛ آپ اپنے دل میں کسی خوف کو راہ کیوں دیتے ہیں جب کہ آپ بالکل بری ہیں ؟ ابن زیاد کے گرگے جناب ہانی کو لے کر دربار میں داخل ہوئے۔ ابن زیاد کی نگاہ جیسے ہی ہانی پر پڑی زیر لب کہنے لگا ۔ احمق اپنے پیروں سے چل کر

____________________

١۔ابو مخنف نے معلی بن کلیب سے اور اس نے ابوودّاک سے نقل کیا ہے پھر مجالد بن سعید ، حسن بن عقبہ مرادی اور نمیربن وعلہ نے ابو وداک سے نقل کیا ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٦١، ٣٦٤ و الارشاد ،ص ١٠٨)

۱۶۷

اپنی موت کی طرف آیا ہے۔جب ہانی ابن زیاد کے پاس پہنچے تو قاضی شریح(١) بھی وہاں موجود تھا۔ ابن زیاد نے ہانی کی طرف متوجہ ہو کر کہا :

ارید حیا ته و یرید قتلی

عذیرک من خلیلک من مراد

میں اس کی حیات کی فکر میں ہوں لیکن یہ تو مجھکو قتل کرنا چاہتا ہے، ذرا اس سے پوچھو کہ اس کے پاس قبیلۂ مراد کے اپنے دوست کے لئے کون ساعذرہے ۔

ہانی، ابن زیاد کے روبرو

ہانی بن عروہ اپنی درایت سے ابن زیاد کے ارادہ کو بھانپ چکے تھے لہٰذا خود ہی ابن زیاد کو مخاطب کیا: اے امیر ! تمہارا منظور نظر کیا ہے ؟ ابن زیاد بولا : ہانی ! بس کرو ! اپنے ارد گرد تم امیر المومنین اور مسلمین کے خلاف کیا کھیل کھیل رہے ہو ۔ تم نے مسلم بن عقیل کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے اور اپنے اطراف میں اسلحوں اور جنگجوؤں کو جمع کر رہے ہو اور اس گمان میں ہو کہ یہ بات مجھ سے پوشیدہ ہے ۔

____________________

١۔ اس کا نام شریح بن حارث کندی ہے۔ عمر نے ١٨ھ میں اسے کوفہ کا قاضی بنایا تھا۔ (طبری ،ج٤، ص ١٠١)اس کا شمار ان لوگو ں میں ہوتا ہے جنہو ں نے کوفیو ں کو عثمان کی مدد و نصرت کے لئے شعلہ ور کیا تھا۔ (طبری ،ج ٤، ص ٣٥٢) شریح بن حارث قاضی ہی نے گواہو ں کی گواہی کے ذیل میں جناب حجر بن عدی کے خلاف تحریر لکھی تھی لیکن وہ کہتا ہے کہ مجھ سے ابن زیاد نے جب ان کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ وہ بڑے روز ہ دار اور نماز گزار ہیں ۔ (طبری، ج٥، ص ٢٧٠)زیاد نے اس سے مشورہ کیا کہ اپنے مجزوم ہاتھ کو کاٹ دے تواس نے مشورہ دیا کہ ایسا نہ کرو! اس پر لوگو ں نے اس کی ملامت کی تو اس نے کہا کہ رسول خدا نے فرمایا ہے :'' المستشار مؤتمن '' جس سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امین ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٢٨٩)ابن زبیر نے اسے قاضیٔ کوفہ بنانا چاہا تو اس نے انکار کردیا ۔(طبری، ج٥، ص ٥٨٢)لیکن مختار کی جانب سے قضاوت کی دعوت کو قبول کرلیا پھر جب اس نے یہ سنا کہ مختار کے افرادکی زبان پر یہ زمزمہ ہے کہ یہ عثمانی ہے اور یہ جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والو ں میں شمار ہوتا ہے حضرت علی علیہ السلام نے اسے قضاوت کے عہدہ سے معزول کردیا تھا اور ہانی کے سلسلے میں اس نے صحیح خبر نہیں دی تھی تو اس نے مریض ہونے کا بہانہ بناکر قضاوت چھوڑدی۔ مختار نے اس کی جگہ پر عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کو قاضی بنادیا پھر عبداللہ بن مالک طائی کو قضاوت کا عہدہ دیدیا۔ (طبری، ج ٦ ، ص ٣٤) مختار کے بعد اس نے ابن زبیر کی طرف سے قضاوت کو قبول کرلیا(طبری ،ج ٦ ،ص ١٤٩) اور حجاج کے زمانے میں اس عہدہ سے ٧٩ھ میں اس عہدہ سے استعفی دیدیا اور مشورہ دیا کہ بردہ بن ابو موسی اشعری کو قاضی بنادے۔ حجاج نے استعفی قبول کرکے ابو بردہ کو والی بنادیا ۔اس نے تقریبا ساٹھ ٦٠ سال تک قضاوت کی۔

۱۶۸

ہانی : میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے اور نہ ہی مسلم میرے پاس ہیں ۔

ابن زیاد : کیوں نہیں ! تم نے ایسا ہی کیا ہے ۔

ہانی : میں نے یہ کام انجام نہیں دیا ہے ۔

ابن زیاد :کیوں نہیں ! یہ کام تم نے ہی کیا ہے۔

اس ردّ و قدح اور توتو میں میں کا سلسلہ بڑھتا ہی گیااور ابن زیاد ان باتوں کا ذمہ داران کو ٹھہراتا رہا اور ہانی انکار کرتے رہے۔ آخر کار ابن زیاد نے معقل کو بلایا جوجاسوسی کے فرائض انجام دے رہاتھا۔ معقل فوراًسامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ ابن زیاد نے کہا : اسے پہچانتے ہو ؟ تو ہانی نے کہا : ہاں ، اس وقت ہانی کے سمجھ میں آیا کہ یہ جاسوس تھا جو وہاں کی باتیں یہاں آکر سنایا کرتا تھا۔ اب چار وناچار ہانی بولے :

میری باتیں سنو اور اسے سچ سمجھو!خدا کی قسم میں تم سے جھوٹ نہیں بول رہاہوں ۔ قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔میں نے مسلم کو اپنے گھر آنے کی دعوت نہیں دی تھی اور نہ ہی میں اس کے سلسلہ میں کچھ جانتا تھا لیکن ایک دن میں نے انہیں اپنے گھر کے دروازہ پر بیٹھاہوا دیکھا ۔انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میرے گھر میں آجائیں تو مجھے اس درخواست کو ٹھکرانے میں شرم آئی اور وہ اس طرح میری حرمت میں داخل ہوگئے۔ میں نے انہیں اپنے گھر میں جگہ دی،انکی مہمان نوازی کی اور پناہ دی ۔یہی وہ بات ہے جو ان کے سلسلہ میں تم تک پہنچائی گئی ہے۔اب اگر تم چاہو تو میں ابھی سنگین عہدو پیمان باندھ لوں کہ میرا حکومت کے خلاف شورش اور برائی کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اگر چاہوتو میں تمہارے پاس کوئی چیزگرو رکھ دوں تاکہ دوبارہ تمہارے پاس آجاؤں اور ان کے پاس جاکر انہیں حکم دوں کہ میرے گھر سے نکل کر جہاں چاہے چلاجائے اور میرے پیمان و میری ہمسایگی سے نکل جائے ۔

ابن زیاد : ہرگز نہیں ! میں اس وقت تک تم کو نہیں جانے دوں گا جب تک تم انہیں یہاں نہ لے آؤ!

۱۶۹

ہانی : نہیں خدا کی قسم میں اسے کبھی نہیں لاؤں گا !میں اپنے مہمان کو یہاں لے آؤں تاکہ تم اسے قتل کردو !

ابن زیاد: خداکی قسم تم ضرور اسے یہاں لاؤ گے۔

ہانی : خدا کی قسم میں کبھی نہیں لاؤں گا ۔

جب دونوں کے درمیان اسی طرح تکرار بڑھتی گئی تو مسلم بن عمرو باہلی اٹھا اور اس نے کہا : خدا امیر کو سلا مت رکھے ! کچھ دیر آپ مجھے اور ان کو تنہا چھوڑ دیں تا کہ میں ان سے کچھ گفتگو کر سکوں اور اس کے بعد ہانی سے کہا : آپ اٹھ کر یہاں میرے پاس آیئے تاکہ میں آپ سے کچھ گفتگو کر سکوں ۔ہانی وہاں سے اٹھ کر اس کے کنارے آگئے جہاں ابن زیاد سے دوری تھی لیکن اتنی دوری پر تھے کہ ابن زیاد ان دونوں کو بخوبی دیکھ سکتا تھا اور جب ان دونوں کی آواز یں بلند ہو رہی تھیں تو وہ بخوبی ان کی گفتگو سن رہا تھالیکن جب وہ لوگ آہستہ آہستہ گفتگو کر رہے تھے تو یہ بات چیت ابن زیاد کے لئے نا مفہوم تھی۔ مسلم بن عمرو باہلی نے ہانی سے کہا : ا ے ہانی !تم کو خدا کا واسطہ ہے کہ اپنی جان کو خطرہ میں نہ ڈالو اور اپنے خاندان اور قبیلہ کو بلا ؤں میں مبتلا مت کرو!خدا کی قسم میں تمہا رے قتل سے بہت زیادہ پر یشان ہوں اور یہ نہیں چاہتا کہ تم قتل کر دئے جاؤ۔ یہ (مسلم بن عقیل) جو تمہارے مہمان ہیں یہ انہیں لوگوں کے چچا زاد بھائی ہیں ۔ یہ لوگ نہ تو انہیں قتل کریں گے اور نہ ہی نقصان پہنچائیں گے پس تم انہیں حاکم کوسونپ دو۔ اس میں نہ تو تمہا ری ذلت وخواری ہے اور نہ ہی تمہارے لئے عیب و منقصت ہے، تم تو انہیں فقط حاکم کے حوالے کر رہے ہو ۔

ہانی : کیوں نہیں ! خدا کی قسم اس میں میری ذلت وخواری ہے۔میں اپنے مہمان اور ہمسایہ کو اسے سونپ دوں ! جب کہ میں ابھی صحیح وسالم ہوں ، دیکھنے اور سننے کی صلا حیت ابھی باقی ہے،میرے بازؤں کی مچھلیاں ابھی قوت رکھتی ہیں اور میرے ناصرو مددگا ر بڑی تعداد میں موجودہیں خدا کی قسم اگر میں تنہا رہ جاؤں اور میرا کو ئی ناصر ومددگا ر نہ رہے تب بھی میں اس کے ہاتھوں اپنے مہمان کو نہیں سونپوں گا یہاں تک کہ اس کے لئے مجھے موت آجائے۔ یہ جملے ہانی اس یقین کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ ان کاقبیلہ ابھی ابھی ان کی مدد کے لئے حرکت میں آجائے گا اور اس ظلم وجورکے خلاف تلوار کھینچ لے گالہٰذا وہ بار بار قسم کھارہے تھے کہ میں خدا کی قسم کبھی بھی اپنے مہمان سے دست بردارنہیں ہوں گا ۔

۱۷۰

موت کی دھمکی

ابن زیاد نے ہانی کی گفتگو سننے کے بعد کہا : اسے میرے پاس لاؤ! ہانی کو اس کے پاس لے جا یا گیا؛ جب ہانی وہاں پہنچے توابن زیاد نے کہا : خدا کی قسم تم اسے (جناب مسلم) ضرور یہاں لاؤ گے ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا ۔

ہانی : اگر تم ایسا کروگے تو اپنے محل کے ارد گرد برہنہ شمشیروں کو پاؤ گے۔(١) وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے قبیلہ والے باہر ان کی باتیں سن رہے ہیں ۔

ابن زیاد : وائے ہو تجھ پر ! تو مجھے بر ہنہ شمشیروں سے ڈراتا ہے ! اسے میرے نزدیک لاؤ! جب نزدیک لا یا گیا تو چھڑی سے ہانی کے چہرہ پراتنا مارا کہ ان کی پیشانی اور رخسار زخمی ہوگئے،ناک ٹوٹ گئی اور خون کپڑوں پربہنے لگا،رخسار اور پیشانی کے گوشت کٹ کرداڑھی پر گرگئے اور آخر کار چھڑی ٹوٹ گئی ۔

ہا نی نے اپنے بچاؤ کے لئے وہیں کھڑے ایک شخص کے تلوار کے دستہ پر ہاتھ مارا لیکن لوگوں نے ان کو پکڑ لیا اور یہ کام نہ کرنے دیا ۔

____________________

١۔طبری نے عیسیٰ بن یزید کنانی سے روایت کی ہے کہ ابن زیاد نے ہا نی سے کہا : کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ جب میرا باپ اس شہر میں آیا تو تم کو اور حجر بن عدی کو چھوڑکر اس شہر کے تمام شیعو ں کو قتل کر دیا تھا اور حجر کے ساتھ جو ہواوہ تم کو معلوم ہے۔ اس کے بعد تمہاری معاشرت ہمیشہ اچھی رہی پھر تمہارے باپ نے امیر کوفہ کو لکھا کہ تم سے ہا نی کے سلسلے میں میری درخواست اور حاجت ہے۔ ہانی نے جواب دیا : ہا ں ! تو ابن زیاد بولا : کیا اس کی جزا یہی تھی کے تم اپنے گھر میں اس شخص کو چھپا ئے رکھو جو مجھے قتل کر نا چا ہتا ہے ! ہانی نے جواب دیا: میں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ابن زیاد نے اپنے تمیمی غلام کو نکال کرسامنے کھڑا کر دیا جو ان لوگو ں کی جا سوسی کیا کر تا تھا۔جب ہا نی نے اسے دیکھا فوراً سمجھ گئے کہ یہ ساری خبری ں پہنچا یا کر تا تھا پھر ہا نی بولے : اے امیر ! جو باتی ں تجھ تک پہنچی ہیں وہ صحیح ہیں لیکن میں نے تمہارے حقوق کو ضائع نہیں کیا ہے،امن میں ہے اور ہلا کت سے محفوظ ،پس تو جس طرح چاہتا ہے خوش رہ۔

۱۷۱

ابن زیاد کا غلام مہران وہیں اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چھٹری تھی، وہ چلا یا : ہائے یہ کیسی ذلت ہے ! یہ جو لا ہاغلام آپ کو امان دے رہا ہے ۔یہ کہہ کر چھڑی ابن زیاد کی طرف پھینکی اور کہا اس کو پکڑیے اور اس نے جناب ہانی کے بالوں کو پکڑا اور ابن زیاد نے اس چھڑی سے ہانی کو مارنا شروع کیا یہاں تک کہ ان کی ناک اور پیشانی ٹوٹ گئی اور چھڑی کے اوپر کا حصہ ٹوٹ کردیوار سے ٹکرایا اور اس میں گھس گیا۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٦١)

ابن زیاد نعرہ لگا تے ہوئے:اے ہانی! کیا تو خارجی ہو گیا ہے اور امیر المو منین کے خلاف شورش بر پا کر رہا ہے ؟ آگا ہ ہو جا کہ تونے اس کے ذریعہ سے خود کو بڑی سخت سزا میں مبتلا کر لیا ہے۔ اب تیرا قتل ہمارے لئے صحیح اور حلا ل ہے۔پھر حکم دیا کہ اسے پکڑ و اور محل کے ایک کمرے میں ڈال دو۔کمرے کا دروازہ بند کر کے اس پر ایک نگھبان معین کردو ۔ جلا دوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی ، لیکن اسی موقع پر اسماء بن خارجہ اٹھ کھڑا ہو ا اور بولا : کیا ہم فریب کا ر اور دھوکہ باز پیغام رساں تھے جو آج تیری طرف سے ان کے پاس گئے تھے تا کہ انہیں تیرے پاس لے آئیں اور جب وہ آجائیں تو ان کے چہرہ کو توچھڑی سے چور چور کردے اور ان کی داڑھی کو خون سے رنگین کردے! اسکے بعد قتل کا بھی در پئے ہو جائے!

ابن زیاد بولا : تو ابھی تک یہیں ہے، پس حکم دیا کہ اسے مارو ! جلا دوں نے اس کے سر و گر دن پر مار نا شروع کیا اور اسے قید کر دیا ۔

محمد بن اشعث بولا : ہم امیر کے منشا ء ومرام سے راضی ہیں خواہ ان کی رائے ہمارے حق میں ہو یا ہمارے نقصان۔ میں ، واقعاً ہمارے امیر بڑے مودّب ہیں ۔(١) اس کے بعد محمد بن اشعث اٹھ کر عبید اللہ بن زیادکے پاس آیا اور اس سے محو سخن ہوا : اے امیر ! شہر میں ہا نی بن عروہ کی شان و منزلت اور قبیلہ میں ان کے گھر کی عزت آپ پر ہویداہے۔ ان کی قوم کو معلوم ہے کہ ہم دو آدمی ان کو یہاں آپ کے پاس لے کر آئے ہیں لہذا آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ ان کو ہمیں دیدیں کیونکہ میں ان کی قوم سے دشمنی مول لینا نہیں چا ہتا۔ ان کی قوم اس شہر اور اہل یمن کے درمیان با عزت قوم میں شمار ہوتی ہے ۔(٢) اس پرابن زیاد نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔(٣)

____________________

١۔ طبری ،ج٥، ص ٣٦٧ ، ابو مخنف نے کہاکہ اس مطلب کو مجھ سے نمیر بن واعلہ نے ابو وداک کے حوالے سے نقل کیا ہے۔

٢۔ کیو نکہ قبیلہ ء کندہ کا شمار کوفہ میں یمنی قبا ئل میں ہو تا تھا اور قبیلہ مذحج اور مراد'' قبیلہ کندہ ''میں سے تھے ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے عون بن ابی جحیفہ کے حوالے سے یہ روایت کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٧٨، ''الارشاد'' ص ٢١٠ ، خوارزمی ص ٢٠٥)

۱۷۲

عمر وبن حجاج تک یہ خبر پہنچی کہ ہانی مارڈالے گئے تو وہ قبیلۂ مذحج کے ہمراہ ایک بڑی بھیڑ کو لیکر چلا جس نے پورے قصر کو گھیر لیا ؛پھر وہاں پہنچ کر چلا یا : میں عمروبن حجاج ہو ں اور یہ قبیلۂ مذحج کے جنگجو جو ان اور ان کے اشراف وبزرگان ہیں ۔ ہم نے نہ تو حکومت کی فرما نبرداری سے سر پیچی کی ہے،نہ امت میں تفرفہ ایجاد کیا ہے اور نہ ہی امت سے جدا ہو ئے ہیں لیکن انہیں خبر ملی ہے کہ ان کے بزرگ کو قتل کر دیا گیا ہے اور یہ ان کے لئے بڑا سخت مرحلہ ہے۔

ابن زیاد کو فوراًخبر دی گئی کہ قبیلہ مذحج کے افراد دروازہ پہ کھڑے ہیں ۔ ابن زیاد نے فوراً قاضی شریح سے کہا : تم فوراً ان کے سردار کے پاس جاؤ اور اسے دیکھو پھر آکر ان لوگو ں کو بتاؤ کہ وہ قتل نہیں ہوا ہے اور تم نے خود اسے دیکھا ہے۔(١) شریح کہتا ہے : میں ہا نی کے پاس گیا جیسے ہی ہا نی نے مجھے دیکھا ویسے ہی کہا : اے خدا ! اے مسلمانوں ! کیا میرے قبیلہ والے مرگئے ہیں ؟! وہ دیندار افراد کہاں ہیں ؟شہر والے سب کہاں ہیں ؟ کیا سچ مچ وہ سب مرگئے ہیں اور مجھے اپنے اور اپنے بچوں کے دشمنوں کے درمیان تنہا چھوڑ دیا ہے؟ ! خون ان کے چہرے سے ٹپک رہا تھا اور وہ اسی عالم میں چیخ رہے تھے کہ اسی اثناء میں انھوں نے دروازہ پر چیخ پکار کی آواز سنی۔میں یہ آواز یں سن کر با ہر آیا ۔وہ بھی تھوڑا سا مجھ سے نزدیک ہوئے اور کہا : اے شر یح ! میں گمان کر رہا ہوں کہ یہ قبیلہ ء مذحج اورمیرے چاہنے والے مسلمانوں کی آواز یں ہیں ؛ جو مجھے بچا نے آئے ہیں ؛ اگر ان میں سے دس بھی آجائیں تو مجھے نجات دلا دیں گے ۔

شریح کہتاہے کہ میں ان کے پاس گیاجو محل کے دروازہ پر کھڑے تھے لیکن چونکہ ابن زیاد نے اپنے ایک گرگے'' حمید بن بکر احمری'' کوہمارے ساتھ روانہ کردیاتھا جو اپنی برہنہ شمشیرکے ساتھ ہمیشہ ابن زیاد کے سر پر اس کی محافظت کیا کرتاتھالہٰذاامیر کے حکم کے خلاف میں کچھ نہ کہہ سکااوران کے سامنے جاکریہی کہا: اے لوگو!امیر کو جب تمہاری آمد کی اطلاع ملی اورہانی کے سلسلے میں تمہاری گفتگو سنی تو مجھے فورا ً ان کے پاس بھیجاتاکہ میں نزدیک سے ان کو دیکھ کر آوں میں خود ان کے پاس گیااور دیکھا کہ وہ زندہ

____________________

١۔طبری ،ج٥ ،ص ٣٦٧، ابو مخنف کا بیان ہیکہ یہ روایت مجھ سے نمیر بن واعلہ نے ابو وداک کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔(ارشاد ،ص ٢١٠ ،خوارزمی، ص ٢٠٥)

۱۷۳

ہیں ،ان کے قتل کے سلسلے میں تم لوگوں کو جو خبر دی گئی ہے وہ سب غلط ہے۔ اس پر عمروبن حجاج اور اس کے ساتھیوں نے کہا: اگر وہ قتل نہیں ہوئے ہیں توخدا کاشکرہے یہ کہکر وہ سب پلٹ گئے۔(١)

ہانی کو قید کرنے کے بعد ابن زیاد کا خطبہ

ہانی کوقید کرنے کے بعدابن زیاد لوگوں کی شورش سے ہر اساں اور خوفزدہ ہوگیا لہٰذا قوم کے سربرآوردہ افراد اور اپنے حشم و خدم نیزاپنی پولس کے افسروں کے ہمراہ محل کے باہر آیا اور منبر پر گیا۔ حمد و ثناے الٰہی کے بعدبولا: امابعد، اے لوگو!خداوند عالم کی فرمانبرداری اور اپنے حاکم کی اطاعت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو نیز اختلاف اور افتراق سے بچو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے ،ذلیل و رسوا ہوجاؤگے ، قتل ، جفا اور محرومیت تمہارا مقدر ہوجائے گی! آگاہ ہوجاؤکہ تمہارا بھائی وہ ہے جو سچ بولتا ہے اور جو ہوشیار کردیتا ہے اس کا عذر معقول ہے۔(٢)

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے عبد الرحمن بن شریح سے یہ روایت نقل کی ہے۔اس نے کہاکہ میں نے اسماعیل بن طلحہ سے حدیث سنی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٦٧)

٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ حجاج بن علی نے مجھ سے محمد بن بشر ہمدانی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥ ، ص٣٦٨)

۱۷۴

جناب مسلم علیہ السلام کاقیام

سب سے پہلے جناب مسلم نے عبداللہ بن خازم کو محل کی طرف خبر لانے کے لئے روانہ کیا تاکہ وہ جناب ہانی کی سرگذشت سے آگاہ کرے۔عبداللہ بن خازم کہتا ہے : جب ہانی کو زد و کوب کے بعد قید کردیا گیا تو میں فوراً اپنے گھوڑے پر بیٹھ گیا اور میں وہ سب سے پہلا شخص تھاجس نے جناب مسلم کو وہاں کے تمام حالات سے آگاہ کیاتھا۔ اس وقت قبیلہ مراد کی عورتیں چلارہی تھیں : ہاے رے مصیبت و غم ، ارے یہ کیسا سانحہ ہمارے قبیلہ پر ہوگیا ۔میں جناب مسلم کے پاس آیا اور ساری خبرسناڈالی؛ جناب مسلم نے مجھے فوراً حکم دیا کہ میں ان کے اصحاب کے درمیان صدابلندکروں ''یا منصور امت'' اے امت کے مددگارو ! اس وقت سب کے سب جناب مسلم کے ارد و گرد جمع تھے اور ١٨ہزار بیعت کرنے والوں میں ٤ہزار اس وقت موجود تھے۔ میں نے آواز لگائی : یامنصو امت اے امت کے مدد گارو ! میری آواز ہوا کے دوش پر لہرائی اور سب کے سب جمع ہوگئے پھر جناب مسلم نے لشکر کو منظم کرتے ہوئے عبداللہ بن عمرو بن عزیز کندی کو قبیلہ کندہ اور ربیعہ کا سربراہ بنایا اور فرمایا : ابھی لشکر کے ہمراہ میرے سامنے حرکت کر جا ؤ پھر مسلم بن عوسجہ اسدی کو قبیلہ مذحج اور اسد کی سربراہی سونپی اور فرمایا :تم ان پیدلوں کے ساتھ نکل جاؤ کہ ان کے سربراہ تم ہو۔اس کے بعد ابو ثمامہ صائدی کو تمیم اور ہمدان کی سر براہی اور عباس بن جعدہ جدلی(١) کومدینہ والوں کا سر براہ بنایا اورخود قبیلۂ مراد کے لوگوں کے ساتھ چل پڑے ۔

اشراف کوفہ کا اجتماع

کوفہ کے سر بر آوردہ ا فراد ابن زیادکے پاس اضطراری دروازہ سے پہنچ گئے جو دارالر ومیین(٢) سے ملاہوا تھا۔عبیداللہ بن زیاد نے کثیر بن شہاب بن حصین حارثی(٣) کو بلایا اور اسے

____________________

١۔یہ شخص ہمیں مختار کی اس فوج کے میسرہ(بایا ں محاذ) پر دکھائی دیتا ہے جو مدینہ میں ابن زبیر سے لڑنے آئی تھی لیکن وہا ں اسکانام عیاش بن جعدہ جدلی ملتا ہے۔ جب یہ لوگ ابن زبیر کی فوج کے سامنے شکست خوردہ ہوگئے تویہ ابن زبیرکے امان کے پرچم تلے نہیں گئے جب کہ اس کے ہمراہ ٣٠٠افراد تھے لہٰذاجب یہ لوگ ان کے ہتھے چڑھے تو ان لوگو ں نے ١٠٠ لوگو ں کو قتل کر دیااور جو (٢٠٠) دوسو کے آس پاس بچے تھے ان میں سے اکثر راستے میں مر گئے۔ (طبری ،ج٦،ص٧٤) چو نکہ ہم نے عباس اور عیاش کا اس کے علا وہ کوئی ذکر کہیں نہیں دیکھا ہے اور اس قرینہ سے کہ انہو ں نے جناب مختار سے وفا کا ثبوت پیش کیا بعید معلوم ہو تا ہے کہ کو ئی دوشخص ہو بلکہ تر جیح اس کو حاصل ہے کہ یہ ایک شخص ہے جس کانام یا عباس ہے یاعیاش۔ یہ جناب مسلم کے بعد زندہ رہے یہا ں تک کہ جناب مختار کے ساتھ خروج کیااوریاتووہا ں قتل ہوئے یا وفات پاگئے ۔

٢۔ یہا ں سے معلوم ہوتا ہے کہ'' دارالر و میین '' دارالامارہ کے پیچھے سے متصل تھا۔چونکہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے وہ لوگ یہا ں مسلمانو ں کی پناہ میں رہتے تھے لہٰذاعبیداللہ اور اس کے افراد ادھر سے ان سے رفت وآمد رکھتے تھے۔افسوس کہ یاران جناب مسلم اس دروازہ کے بند ہونے سے غافل تھے ۔

٣۔ یہ شخص وہی ہے جس نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی تحریر کی تھی (طبری ،ج ٥، ص ٢٦٩) اور حجر اوران کے ساتھیو ں کو معاویہ کے پاس لے گیا تھا۔(طبری ،ج٥،ص ٢٧٠) اشراف کوفہ میں یہی وہ پہلا شخص ہے جس سے ابن زیاد نے عہد وپیمان کیا کہ لوگو ں کو دھوکہ دے کر جناب مسلم علیہ السلام سے دورکرے گا۔(طبری،ج٥،ص٣٧٠)

۱۷۵

حکم دیا کہ اپنے مذحجی پیرو ئوں کے ہمراہ کوفہ کی گلیوں میں منتشر ہوجائے اور لوگوں کو جھوٹے پروپگنڈہ کے ذریعہ جناب مسلم سے دور کردے۔انھیں جنگ سے ڈرائے اور حاکم کے ظلم و ستم اور قیدو بند سے بر حذر کرائے ۔

اسی طرح محمدبن اشعث کو حکم دیا کہ قبیلہ کندہ اور حضر موت میں سے جو اس کے طرف دار ہیں ان کے ہمراہ پرچم امان لے کر نکلے اور کہے جو اس میں پرچم تلے آجائے گا وہ امان میں ہے۔ اسی طرح قعقاع بن شور ذھلی،(١) شبث بن ربعی تمیمی ، حجار بن ابجر عجلی اور شمر بن ذی الجوش عامری(٢و٣) سے بھی اسی قسم کی باتیں کہیں ۔ شبث بن ربعی کے ہاتھ میں پرچم دے کر کہا : تم ایک بلندی سے نمودار ہوکر اپنے نوکر

____________________

١۔یہ وہی شخص ہے جس نے جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی تحریر کی تھی۔(طبری، ج٥، ص ٢٦٩) اور جناب مسلم علیہ السلام کے مقابلہ پر بھی آیا تھا۔ (طبری ،ج٥، ص ٢٧٠، ٢٨١)

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٦٨،ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجھ سے یوسف بن یزید نے عبداللہ بن خازم کے حوالے سے نقل کی ہے ۔

٣۔یہ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں تھا (طبری، ج٥، ص ٦٨)(لیکن اپنی بد اعمالیو ں کے نتیجے میں اس حد تک پہنچا کہ) اس کا نام بھی جناب حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والو ں میں آتا ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٧٠) اسی نے ابن زیاد کو امام حسین علیہ السلام کے قتل پر شعلہ ور کیا تھا ۔(طبری، ج٥، ص ٤١٤) یہ کربلامیں موجود تھا وہا ں اس نے ام البنین کے فرزندو ں جناب عباس علیہ السلام کے بھائیو ں کو امان کی دعوت دی تھی اور امام حسین علیہ السلام کو چھوڑنے کی طرف راغب کیا تھا۔ (طبری، ج٥، ص ٤١٥) جب شب عاشور امام حسین علیہ السلام کو ایک رات کی مہلت دینے کے سلسلہ میں پسر سعد نے اس سے مشورہ کیا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔(طبری ،ج٥،ص ٤١٧) یہ پسر سعد کے لشکر میں میسرہ (بائی ں محاذ) کا سردار تھا (طبری، ج٥،ص ٤٦٦)اسی نے امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کا جواب دریدہ دھنی اور بد کلامی کے ذریعہ سے دیا تھا تو جناب حبیب بن مظاہر نے اسکی بڑی ملامت کی تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٣٦) جناب زہیر بن قین کے خطبہ کا جواب اس نے تیر پھینک کر دیا تھا جس پر جناب زہیر بن قین نے اس کی لعنت وملامت کی تھی ۔(طبری، ج٥، ص ٤٣٦) پسر سعد کے میسرہ سے اس نے امام حسین علیہ السلام کے بائی ں محاذ پر حملہ کیا (طبری ،ج٥، ص ٤٣٦) اور امام علیہ السلام کے خیمہ پر تیر پھینکا اور چلا یا کہ آگ لاؤاور خیمو ں کو رہنے والو ں کے ہمراہ جلادو یہ آواز سن کرمخدرات عصمت با آواز بلند رونے لگی ں اور باہر نکلنا چاہا لیکن امام حسین علیہ السلام نے ڈھارس بندھوائی (طبری ،ج٥، ص ٤٣٨) اسی نے جناب نافع بن ہلال جملی کو قتل کیا۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٤٢) جناب امام سجاد علیہ السلام کو بھی قتل کرنا چاہتاتھالیکن لوگو ں نے منع کیا۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٥٤) یہ ا ن لوگو ں میں شمار ہوتا ہے جو سرو ں کو لے کر ابن زیاد کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے (طبری ،ج٥،ص ٤٥٦) اور انہیں مقدس سرو ں کو اسیرو ں کے ہمراہ لے کر یزید کے دربار میں حاضر ہواتھا۔(طبری، ج٥،ص ٤٦٠و٤٦٣) اس کے ہمراہ ٢٠ مقدس سر تھے جو گرد غبار میں اٹے تھے۔ (طبری، ج٥، ص ٤٦٨)ابن مطیع نے مختار سے لڑنے کے لئے اسے سالم کے ایک گروہ کے ہمراہ روانہ کیا، (طبری ،ج٦،ص ١٨) اس کے ہمراہ دوہزار سپاہی تھے۔ (طبری ،ج٦، ص ٢٩) یہ ان لوگو ں میں شامل ہوتا ہے جو اشراف کوفہ کے ساتھ مختار سے لڑنے آئے تھے(طبری ،ج٦، ص ٤٤) اور جب ہزیمت کا سامنا ہواتو کوفہ سے بھاگ کھڑاہوا اور ہزیمت کے عالم میں فرارکے وقت ٦٤ھ میں عبدالرحمن بن ابی الکنود کے ہاتھو ں ماراگیا۔ (طبری ،ج٦،ص٥٢، ٥٣)کلمہ ''شمر''عبری زبان کا لفظ ہے جس کی اصل شامر ہے بمعنی سامر ،جیسا کہ آج کل اسحاق شامیر کہاجاتا ہے ۔

۱۷۶

سرشت اور فرمانبردارافراد کو انعام و اکرام و احترام وپاداش کے وعدہ سے سرشار کردو اور خاندان رسالت کے پیرو ئوں کو ڈراؤ کہ سنگین کیفر ، قطع حقوق اور محرومیت میں مبتلا ہونگے اور ان کے دلوں میں یہ کہہ کر خوف ڈال دوکہ عبیداللہ کی مدد کے لئے شام سے لشکر آنے ہی والا ہے۔(١)

پرچم امان کے ساتھ اشراف کوفہ

جناب مسلم سے لوگوں کو دور کرنے کے لئے اشراف کوفہ ابن زیاد کے قصرسے پرچم امان کے ہمراہ باہر نکلے۔ ان میں سب سے پہلے کثیر بن شہاب نے بولنا شروع کیا ۔اس نے کہا: اے لوگو!اپنے گھر اور گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ ، خشونت ، بدی اور شر میں جلدی نہ کرو ، اپنی جان کو موت کے منہ میں نہ ڈالو!کیونکہ امیرالمومنین یزید کی فوج شام سے پہنچنے ہی والی ہے۔ جان لو کہ امیر نے عہد کیا ہے کہ اگرآج شام تک تم نے اپنی جنگ کا سلسلہ جاری رکھا اور اس سے منصرف نہ ہوئے تو وہ تمہاری نسل کو حقوق سے محروم کردیں گے اورتمہارے جنگجوؤں کو اہل شام کی فوج میں تتر بتر کردیں گے۔جان لو کہ حاکم کا فیصلہ یہ ہے کہ بیماروں کے بدلے صحت یاب افرادپکڑے جائیں اور غائب کے بجائے حاضر لوگ قید کئے جائیں گے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا یہاں تک کہ شورش کرنے والا اس وبال کا مزہ چکھ لے جسے اس نے اپنے ہاتھوں سے شروع کیا تھا ۔

ابن شہاب کے بعد دوسرے اشراف نے بھی اسی قسم کے الفاظ کی تکرار کی۔جب لوگوں نے اپنے بزرگوں سے اس طرح کی باتیں سنیں توانہوں نے جداہونا شروع کردیا ...۔(٢) نوبت یہاں تک پہنچی کہ عورتیں اپنے بچوں ،بھائیوں اور شوہروں کا ہاتھ پکڑکر کہنے لگیں چلویہاں جتنے لوگ ہیں وہی کافی ہیں ۔دوسری طرف مرد اپنے بھائیوں اور بیٹوں کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے : کل'' شام'' سے فوج آرہی ہے ۔ اس جنگ اور شر میں تم کیا کرسکتے ہو۔ یہ کہہ کر لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو لے جانے لگے۔(٣)

____________________

١ ۔ابومخنف نے کہا : مجھ سے ابو جناب کلبی نے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٦٩)

٢۔ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے عبد بن خازم کثیرازدی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔ (طبری، ج٥، ص ٣٧٠)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجالد بن سعید نے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٧١)

۱۷۷

ادھر ابن زیاد کی بتائی ہو ئی سازشوں پر عمل کر تے ہوئے محمد بن اشعث محل سے با ہر نکلا اور قبیلہ بنی عمارہ کے گھروں کے پاس جا کر کھڑا ہوا ۔''عمارہ ازدی''کو جو اسلحہ لے کر جناب مسلم کی مدد کے لئے نکل کر ان کے مددگاروں سے ملحق ہو نا چاہ رہے تھے گر فتار کر لیااور ابن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ وہاں اس نے اس جواں مرد کو قید کر لیا۔ جناب مسلم کوجیسے ہی اس کی خبر ملی فوراً مسجد سے عبد الر حمن بن شریح شبامی(١) کو اس ملعون(محمد بن اشعث) کی طرف بھیجا ۔ اس خیانت کار نے جیسے ہی حق وحقیقت کے جوانوں کو دیکھاوہاں سے بھاگ کھڑا ہوا.(دوسری طرف قعقاع بن شور ذہلی نے ایک علا قہ سے جسے ''عرار'' کہتے ہیں جناب مسلم اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کردیا)(٢) اور محمد بن اشعث کو پیغام بھیجا کہ میں نے مقام ''عرار '' سے حملہ شروع کر دیا ہے،تم پر یشان نہ ہو لیکن پھر خود عقب نشینی کرلی۔(٣)

ادھر تیسری طرف شبث بن ربعی نے جناب مسلم کے سپاہیوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی اور کچھ دیر لڑنے کے بعد اپنے سپاہیوں سے کہنے لگا : شام تک انتظار کرویہ سب کے سب پر اکندہ ہو جائیں گے۔اس پر قعقاع بن شور نے کہا : تم نے تو خود ان لوگوں کا راستہ بند کررکھا ہے ،انہیں چھوڑ دو یہ خود ہی متفرق ہو جائیں گے۔(٤)

جناب مسلم علیہ السلام کی غربت و تنہائی

عباس جدلی کا بیان ہے کہ جب ہم جناب مسلم بن عقیل کے ہمراہ نکلے تھے تو ہماری تعداد ٤ ہزار تھی لیکن ابھی محل تک پہنچنے بھی نہ پا ئے تھے کہ ہم ٣٠٠ کے اند ر سمٹ گئے ۔(٥) اس جدائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا گو یا ہر شخص فرار کی فکر میں تھا۔ اب رات کا پر دہ دن کی سفیدی پر غالب ہو رہا تھا اور

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے مجھ سے یہ روایت کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٦٩)

٢۔ اس مطلب کو ہارون بن مسلم نے علی بن صالح سے عیسیٰ بن یزید کے حوالے سے نقل کیا ہے۔(طبری ج٥ ص ٣٨١) چو نکہ یہ مطلب ابو مخنف کی خبر میں نہیں ہے لہٰذا اسے بر یکٹ میں لکھا گیا ہے۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجھ سے سیلمان بن ابی راشد نے عبد اللہ بن خازم کثیرازدی کے حوالے سے بیان کی ہے ۔(طبری ،ج٥ ،ص٣٧٠)

٤۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجا لد بن سعیدنے یہ روایت کی ہے ۔

٥۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجھ سے یو نس بن ابو اسحاق نے کی ہے۔(طبری ،ج ٥ ،ص ٣٦٩)

۱۷۸

وہاں مسجد میں فقط ٣٠ افراد مو جود تھے ۔مسلم نے انہی ٣٠ لوگوں کے ساتھ نماز اداکی۔ جناب مسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو مسجد سے نکل کر کو چہ ء کندہ کا رخ کیا ۔ گلی پار کر تے وقت دیکھا تو فقط ١٠ آدمی آپ کے ساتھ تھے اور جب گلی ختم ہو گئی تو اب مسلم تنہا تھے۔ اب جو مسلم ملتفت ہو ئے تو محسوس کیا کہ ان کے ساتھ کو ئی راستہ بتا نے والا بھی نہیں ہے اور کوئی ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر دشمن سامنے آجائے تو اپنی جان پر کھیل کے انھیں بچالے۔ چارو ناچار بے مقصد کو فہ کی گلیوں میں سر گرداں گھو منے لگے۔کچھ سمجھ ہی میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جا ئیں ۔چلتے چلتے آپ قبیلہ کندہ کے بنی'' جبلہ'' کے گھر وں کی طرف نکل گئے اور وہاں آپ کا قدم آکر ایک خاتون کے دروازہ پر رکا جسے ''طو عہ ''کہتے ہیں جو ام ولد تھی۔ یہ اشعث بن قیس(١) کی کنیزتھی جب اس سے اشعث کو بچہ ہوگیا(جس کی وجہ سے وہ ام ولید کہی جانے لگی)

____________________

١۔ ١٠ ھ میں اشعث ٦٠ لوگو ں کے ہمراہ پیغمبر اسلام کی خدمت میں شرفیاب ہو ا اور اسلام قبول کیا ۔ یہ اپنی ما ں کی طرف سے آکل مرار کی طرف منسوب تھا۔چو نکہ وہ ملوک تھے اور اس نے چاہاکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اسی سے منتسب کری ں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے'' نضر بن کنانہ ''سے منتسب کیا تو اس پراس نے کسی تعجب کا اظہار نہیں کیا۔(طبری ،ج٣ ، ص ١٣٧) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بہن(قتیلہ) سے شادی کی لیکن ہمبستری سے قبل ہی آپ کی روح ملک جاودا ں کو کوچ کر گئی اور یہ عورت اپنے بھا ئی اشعث کے ہمراہ مرتد ہو گئی۔(طبری، ج ٣، ص ١٦٨) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اشعث اسلام کی طرف آکر دوبارہ مرتد ہو گیا اور جنگ شروع کردی لیکن ہز یمت کا سامنا کرنا پڑا تو امان مانگ لیا، اس پر مسلمانو ں نے امان دیدی (طبری ،ج٣،ص ٣٣٥۔٣٣٧) پھر اسے دوسرے اسیرو ں اور قیدیو ں کے ہمراہ ابو بکر کے پاس لے جایا گیا تو خلیفہ ء اول نے معاف کر کے اس کی بیٹی ام فروہ سے شادی کی درخواست کردی اور اس سے رشتہ ازدواج میں منسک ہو گئے لیکن مبا شرت نہیں کی۔ بعدہ اشعث پھر مرتد ہو گیا لیکن ابو بکر نے پھر اس کے اسلام کو قبول کر لیا ۔لغز شو ں کو معاف کر دیا اور اس کے گھر والو ں کو اسے لو ٹا دیا۔ (طبری، ج٣،ص ٣٣٩)اپنی وفات کے وقت ابو بکر نے کہا : جس دن اشعث بن قیس قیدی بنا کر لا یا گیا تھا اے کا ش اسی دن میں نے اس کی گردن ماردی ہو تی؛ کیونکہ کو ئی شراور برائی ایسی نہیں ہے جسکی اس نے مددنہ کی ہو۔(طبری ،ج٣،ص ٤٣) جنگ قادسیہ میں اہل یمن کے ١٧٠٠ افراد پر مشتمل لشکر کے ساتھ اشعث ملحق ہو گیا۔(طبری ،ج٣،ص ٣٨٧) سعد ابن ابی وقاص نے اسے ان لوگو ں میں پایا جو جسم و جسمانیت کے اعتبار سے بھی قابل دید تھے ، صاحب رعب و وہشت اور صاحب نظر بھی تھے لہذا سعد نے ان لوگو ں کو اہل فارس کے بادشاہ کو دعوت دینے کے لئے بھیجا۔ (طبری ،ج٣،ص ٤٩٦) یہ جنگ میں اہل فارس کے خلاف اس نعرہ کے ذریعہ اپنی قوم کا دل بڑھا رہا تھا کہ عرب نمونہ ہیں ، فارس کی زبان میں خدا نازل نہیں ہوا ہے۔ (طبری، ج٣،ص ٣٩و ٥٦٠) قبیلہ کندہ کے ٧٠٠ جوانو ں کے ہمراہ اس نے حملہ کیا اور اہل فارس کے سر براہ کو قتل کر ڈالا ۔(طبری ،ج٣، ص ٥٦٣) وہا ں سے جو غنائم

۱۷۹

اور انفال خالد بن ولید کو ملے تھے اس پر اس کو لا لچ آگئی اور اس نے اسی میں سے کچھ مانگ لیا تو ١٠ ہزار کی اجازت اسے دیدی۔ (طبری، ج٤،ص ٦٧) واقعۂ نہا وند میں بھی یہ موجود تھا۔ (طبری ،ج٤،ص١٢٩) ٣٠ ھ میں عراق کے ''طیرناباد ''کے علا قہ میں جو انفال کے اموال تھے اسے اس نے'' حضرموت''کے اپنے اموال کے بدلے میں عثمان سے خریدلیا۔ (طبری ،ج٤،ص ٢٨٠) ٣٤ھ میں سعید بن عاص نے کوفہ سے اسے آذربایجان کا والی بنا کر بھیجا۔ (طبری، ج٤،ص٥٦٩) پھر آذربایجان کی حکومت کے زمانے میں ہی عثمان اس دنیا سے چل بسے (طبری ،ج٤،ص ٤٢٢) اور حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے اسے اپنی بیعت کی طرف بلایا اور اپنی نصرت ومدد کے لئے اس جگہ کو چھوڑ دینے کے لئے کہا تو اس نے بیعت کرلی اور وہا ں سے چلا آیا۔ (طبری، ج٤،ص ٥٦١) جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر سے پانی لے کر آنے کی ذمہ داری بھی اسے سونپی گئی تھی۔(طبری ،ج٤،ص٥٦١)یہی وہ ہے جس نے حضرت علی علیہ السلام کی زبردست مخالفت کی تو حضرت تحکیم پر راضی ہو گئے لیکن اس نے حکمیت کے لئے ابو موسی اشعری پرزور ڈالا اور جن لوگو ں سے حضرت علی علیہ السلام راضی تھے جیسے ابن عباس اور مالک اشتر اس سے اس نے انکار کرتے ہوئے اشعری کی حکمیت پر اصرار کر تا رہا اورجنگ سے انکار کر تا رہا ۔(طبری ،ج٤، ص٥١) یہ وہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حکمیت کے کاغذ پر سب سے پہلے گواہی کے لئے دستخط کئے اور مالک اشتر کوبھی اس کے لئے بلا یا تو انھو ں نے انکار کیا ؛اس پر اس نے ان کی تو ہین کی ، ان کو گا لیا ں دی ں اور مکتوب پڑھ کرلوگو ں کو سنانے لگا۔ (طبری، ج٥،ص٥٥) نہروان کے بعد علی علیہ السلام سے ہٹ کر معاویہ کی طرف پلٹ گیا اور کوفہ کے حجة الاستعداد میں پلٹنے پر اصرار کیا۔ (طبری ،ج٥،ص ٨٩) عثمان نے اسے لالچ دلائی تھی کہ آذربایجان کا خراج ایک لاکھ ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ١٣٠) کو فہ میں اس نے ایک مسجد بھی بنوائی تھی۔

۱۸۰