واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا0%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا

مؤلف: لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
زمرہ جات:

صفحے: 438
مشاہدے: 186113
ڈاؤنلوڈ: 5080

تبصرے:

واقعۂ کربلا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 186113 / ڈاؤنلوڈ: 5080
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

تواشعث نے اسے آزاد کر دیا ۔ اس نے اسید حضرمی(١) سے شادی کرلی ۔اسی شادی کے نتیجہ میں بلال نامی لڑکا پیدا ہواتھاجو ان دنوں دوسرے لوگوں کے ہمراہ گھر سے باہر تھا اور ابھی تک لوٹا نہیں تھا۔ اس کی ماں دروازے پر کھڑی اس کا انتظار کررہی تھی۔جناب مسلم نے اس خاتون کو دیکھتے ہی اسے سلام کیا تو اس نے فوراًجواب دیا ۔

اس پر جناب مسلم نے اس سے کہا :''یاأمة اللّٰه اسقینی مائ' 'اے کنیز خدا !میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلادے۔ وہ خاتون اندر گئی، ظرف لے کر لوٹی اور جناب مسلم کو پانی دیا پانی پی کر جناب مسلم وہیں بیٹھ گئے۔ وہ جب برتن رکھ کر آئی تو دیکھا مسلم وہیں بیٹھے ہیں تو اس نے کہا : یاعبداللّٰہ ألم تشرب؟اے بندہ خدا کیا تو نے پانی نہیں پیا ؟

____________________

١۔ یہ اسید بن مالک حضرمی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کربلامیں اسی نے جناب مسلم کے فرزند عبداللہ کو شہید کیا اور اس کا بیٹاوہ ہے جس نے حاکم کو یہ اطلاع دی کہ مسلم میرے گھر میں ہیں اوریہی خبر رسانی جناب مسلم کی شہادت پر تمام ہوئی ۔

۱۸۱

جناب مسلم نے کہا:کیوں نہیں ،طوعہ نے کہا:تو اب اپنے گھر والوں کے پاس چلے جااس پر جناب مسلم خاموش ہوگئے اور وہ نیک خاتون اندر چلی گئی۔ کچھ دیر کے بعد جب پھر لوٹ کر آئی تو دیکھا جناب مسلم وہیں بیٹھے ہیں ۔ اس نے اپنے جملے پھر دھرائے ۔اس پر وہ سفیر حسینی پھر خاموش رہا تو اس عورت نے حضرت مسلم سے کہا : سبحان اللہ ! اے بندہ خدا میرے سلسلہ میں اللہ سے خوف کھا ۔جا اپنے گھر والوں کی طرف چلاجااللہ تجھے عافیت میں رکھے ؛تیرے لئے میرے گھر کے دروازے پر بیٹھنا مناسب نہیں ہے اور میں تیرے اس بیٹھنے کو تیرے لئے حلال نہیں کروں گی، اتنا سنناتھا کہ جناب مسلم کھڑے ہوگئے اور فرمایا :

'' یا أمةاللّٰہ ، مالی فی المصر منزل ولا عشیرہ فھل لک اِلی أجر و معروف ولعلی مکافِئُکِ بہ بعد الیوم؟''اے کنیز خدا ! کہاں جاؤں ؟ اس شہر میں نہ تو میرا کوئی گھر ہے نہ ہی میرے گھر والے ہیں ، کیا تم ایک اچھا کام انجام دینا چاہتی ہو جس کا اجر اللہ سے پاؤ اور شاید آج کے بعد میں بھی کچھ اس کا بدلہ دے سکوں ؟

طوعہ : اے بندہ خدا ! تو کون ہے ؟ اور وہ نیک کام کیا ہے ؟

مسلم : میں مسلم بن عقیل ہوں ۔اس قوم نے مجھے جھٹلایا اور دھوکہ دیا ۔

طوعہ : تم سچ مچ مسلم ہو!

مسلم : ہاں !میں مسلم ہوں ۔

طوعہ : تو بس اب اندر آجاؤ !یہ کہہ کر وہ نیک سرشت خاتون آپ کو اندرون خانہ ایک ایسے کمرے میں لے گئی جس میں وہ خود نہیں رہا کرتی تھی۔ اس کے بعد اس کمرے میں بستر بچھایااور جناب مسلم کو اس پر بٹھا کر رات کا کھانا پیش کیا لیکن آپ نے کچھ نہ کھایا ۔

ادھر طوعہ اپنے بیٹے کے انتظار میں لحظہ شماری کررہی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں اس کا بیٹا آگیا ۔ اس نے غور کیا کہ کمرے میں ماں کا آناجانا بہت زیادہ ہے لہذا اس نے کہا : ماں کمرے میں تمہارا آناجانا مجھے شک میں ڈال رہا ہے۔کیا اس میں کوئی بات ہے ؟ طوعہ نے کہا بیٹا اس بات کو رہنے دو اورصرف نظر کرو۔ بیٹے نے ماں سے کہا : خدا کی قسم تم کو مجھے بتا نا ہی ہوگا ۔

۱۸۲

طوعہ : ہاں بات تو ہے لیکن تم اس کے بارے میں کچھ نہ پوچھو ۔اس پر بیٹے نے بہت اصرار کیا تو ماں نے کہا : اے بیٹا ! میں بتائے تو دیتی ہو ں لیکن دیکھو کسی سے بھی اسے نہ بتانا ۔اسکے بعد طوعہ نے بیٹے سے قسم کھلوائی تو اس نے قسم کھالی کہ کسی سے نہیں بتائے گا اس کے بعد ماں نے اسے سارے ماجرے سے آگاہ کردیا۔ یہ سن کر وہ لیٹ گیا اور خاموش ہوگیا ۔(١)

ابن زیاد کا موقف

جب رات کااچھا خاصہ وقت گذر گیا اور کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ابن زیاد نے دیکھا کہ مسلم بن عقیل کے مدد کرنے والوں اور نصرت کرنے والوں کی اس طرح کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے جیسے اس سے قبل سنائی دے رہی تھی تو اس نے اپنے گرگوں سے کہا:ذرادیکھو!ا ن میں سے کوئی تمہیں دکھائی دے رہاہے ؟ وہ لوگ گئے لیکن کوئی دکھائی نہیں دیا تو ابن زیاد نے کہا: ذرا غور سے دیکھو !شاید وہ لوگ کسی سایہ میں چھپے کمین میں بیٹھے ہوں ،لہٰذا ان لوگوں نے مسجد کے اندر باہراور اطراف میں دیکھا، اس کے بعد مشعلیں روشن کرکے دیکھنے لگے کہ کہیں کوئی چھپاہو اتو نہیں ہے۔ کچھ دیر کے لئے مشعلوں کو روشن رکھا پھر بجھادیا، اس کے بعد قندیلوں کو رسےّوں میں محکم باندھ دیا اور اس میں آگ روشن کرکے اوپر سے

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجا لد بن سعید نے مجھ سے اس روایت کو بیان کی ہے۔(طبری، ج٥،ص٣٧١، ارشاد ،ص ٢١٢، خوارزمی ،ص ٢٠٨) طبری نے عماردہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :جب مسلم نے یہ دیکھا کہ وہ سڑک پر تنہا رہ گئے ہیں تو ایک گھر کے دروازہ پر آکر بیٹھ گئے۔ وہا ں سے ایک عورت نکلی تو مسلم نے اس سے کہا : ''اسقینی'' مجھ کو پانی پلا ؤ تو اس خاتون نے پا نی لا کر پلا یا پھر وہ اندر چلی گئی اور مسلم وہیں مشیت الہٰی کے سہارے بیٹھے رہے پھر وہ نکلی تو دیکھا مسلم وہیں بیٹھے ہیں تو اس نے کہا : ائے بند ہ خدا ! تیر ایہا ں بیٹھنا شک وشبہ سے خالی نہیں ہے، تو اٹھ جا ! اس پر جناب مسلم نے کہا : میں مسلم بن عقیل ہو ں کیا تو مجھ کو پناہ دے سکتی ہے ؟ اس خاتون نے جواب دیا: ہا ں !اس خاتون کا بیٹامحمد بن اشعث کے موالی میں شمار ہوتا تھا جب بیٹے کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے جاکر محمد کو خبر دے دی اور محمد نے جا کر عبیداللہ کو خبر پہنچادی توعبیداللہ نے وہا ں اپنی پولس کے سربراہ عمروبن حریث مخزومی کو بھیجااوراس کے ہمراہ عبدالرحمن بن محمدبن ا شعث بھی تھا۔مسلم کو خبر بھی نہ ہوئی اور سارا گھر گھیر لیاگیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٣٥٠) اس کے پیچھے اس کی فوج کا سربراہ حصین بن تمیم بھی آگیا۔

۱۸۳

نیچے کی طرف رکھ دیا اور ہر گو شہ و کنارکو قندیلوں سے روشن کردیا یہاں تک کہ منبر کے اطراف کو بھی روشن کردیا ۔جب ہر طرح سے انھیں یقین ہوگیا کہ کوئی نہیں ہے تو ابن زیاد کو خبر دی کہ کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ابن زیاد نے فوراً اپنے کاتب عمر وبن نافع(١) کو حکم دیا کہ فوراً جا کر یہ اعلان کرے کہ حاکم ہر اس شخص کی حرمت سے دست بردار ہے جو نماز عشاء مسجد کے علاوہ کہیں اور پڑھے ،خواہ وہ پولس ہو یا عرفاء ،صاحبان شرف ہوں یا جنگجو۔ اس خطر ناک اور تہدید آمیز اعلان کا اثر یہ ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے مسجد لوگوں سے چھلکنے لگی۔ ایسے موقع پر حصین بن تمیم تمیمی(٢) جو اس کے نگہبانوں کا سردار تھا اس نے ابن زیاد سے کہا : اگر آپ چاہیں تو خود نماز پڑھائیں یا کسی دوسرے کو بھیج دیں جو نماز پڑھادے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ آپ کے بعض دشمن آپ پر حملہ نہ کردیں ! اس پر ابن زیاد نے کہا : میرے محافظین و نگہبانوں سے کہوکہ جس طرح وہ میری حفاظت کے لئے صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اس طرح نماز کی پہلی صف میں کھڑے ہوں اور تم ان سب پر نگاہ رکھو۔ اس کے بعد حکم دیا کہ باب سدّہ جو مسجد میں کھلتا تھا اور اب تک بند تھا اسے کھولا جائے پھر ابن زیاد اپنے گرگوں کے ہمراہ وہاں سے نکلا اور لوگوں کونمازپڑھائی۔

____________________

١۔ یہ وہی کاتب ہے جس نے یزید کو جناب مسلم کے قتل کے لئے خط لکھا تھا۔ اس نے خط لکھنے میں دیر لگا ئی تو ابن زیاد کو ناگوار لگا۔(طبری ،ج٥،ص ٣٨)

٢۔ابن زیاد نے اسے قادسیہ کی طرف اس فوج کو منظم کرنے کے لئے بھیجا تھا جو'' خفان''،'' قطقطانہ'' اور''لعلع''کے درمیا ن تھی۔ (طبری ،ج٥،ص ٣٩٤) یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے ایلچی جناب قیس بن مسہر کو ابن زیاد کے پاس بھیجا اور اس نے انہیں قتل کردیا ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٥) اسی طرح عبداللہ بن بقطر کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٣٩٨) یہی شخص حر کے ساتھ بنی تمیم کے ایک ہزار لوگو ں کے ہمراہ قادسیہ سے آگے آگے تھا تاکہ امام حسین علیہ السلام کو گھیرے یہ کربلا میں پولس کا سربراہ تھا اور جناب حر کو قتل کرنے کے لئے اپنی فوج کو شعلہ ور کررہا تھا۔ (طبری، ج ٥ ،ص ٤٣٤)پسر سعد نے اس کے ہمراہ ٥٠٠ پانچ سو تیر انداز بھیجے تھے اوراس نے ان لوگو ں کو امام حسین علیہ السلام کے اصحاب پر تیرو ں کی بارش کرنے کے لئے بھیجا۔ ان تیر اندازو ں نے نزدیک سے تیرو ں کا مینہ برسادیا اور ان کے گھوڑو ں کو پئے کردیا۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٣٧)جب امام حسین علیہ السلام کے اصحاب ہنگام ظہر نماز کے لئے آمادہ ہورہے تھے تو اس نے حملہ کردیا ۔جناب حبیب بن مظاہر اس کے سامنے آئے اور اس کے گھوڑے پر تلوار سے حملہ کیا تو وہ اچھل کر زمین پر گر گیا۔ اس پر بدیل بن صریم عقفانی نے جناب حبیب کے سر پر اپنی تلوار سے ضرب لگائی اور بنی تمیم کے دوسرے سپاہی نے آپ پر نیزہ سے حملہ کیا پھر حصین بن تمیم پلٹ کر آیا اوراس نے تلوار سے آپ کے سر پر حملہ کیا اس کے اثر سے آپ زمین پر گر پڑے، وہا ں ایک تمیمی آیا اور اس نے آپ کا سر کاٹ کر حصین کے ہاتھ میں دیا ۔ اس نے سر کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکا لیا اور لشکر پر حملہ کیا پھر قاتل کو لوٹادیا (طبری ،ج ٥،ص ٤٤٠) آخر کار جب امام حسین نہر فرات کے قریب آرہے تھے تو اس نے تیر چلایا جو آپ کے منہ پر لگا جس پر آپ نے اس کوبد دعا کی۔(طبری ،ج٥،ص ٤٤٩)

۱۸۴

مسلم کی تنہائی کے بعد ابن زیاد کا خطبہ

نماز کے بعد ابن زیاد منبر پر گیا اور حمد و ثناے الہٰی بجالانے کے بعد بولا : امابعدجا ہل اور بیو قوف ابن عقیل کو تم لوگو ں نے دیکھا کہ اختلاف اور جدائی لے کر یہاں آیا۔میں ہر اس شخص کی حرمت سے بری الذ مہ ہوں ۔جس کے گھر میں ہم نے مسلم کو پا لیا اور جو بھی مسلم کو لے کرآئے گا اس کا خون بہا اسے دیدیا جا ئے گا ! اے بندگا ن خدا تقویٰ اختیار کرو ، اپنی طاعت وبیعت پر برقرار رہواور اپنی حرمت شکنی کے راستے نہ کھولو ۔

اس کے بعدسپاہیوں کے سربراہ حصین بن تمیم کی طرف رخ کیا اور کہا : اے حصین بن تمیم ! ہشیار ہو جا اگر شہر کو فہ کا کو ئی دروازہ بھی کھلا یا یہ مرد اس شہر سے نکل گیا اور تو اسے نہ پکڑ سکا تو یہ دن تیری ماں کے لئے عزاکا دن ہو گا ! ہم نے تجھے کو فیوں کے سارے گھر کو سونپ دیا ہے، تو آزاد ہے، جس گھر میں چاہے جا کر تلا ش کر لہٰذا تو فوراً شہر کوفہ کے دروازوں پر نگہبانوں کو لگا دے اور کل صبح سے دقت کے ساتھ گھروں کی تلا شی لے اورٹوہ میں لگ جا یہا ں تک کہ اس مرد کو میرے سامنے پیش کرے۔

ابن زیاد مسلم کی تلا ش میں

اس آتشیں تقریر کے بعد ابن زیاد منبر سے نیچے آگیا اور محل کے اندر چلا گیا اس کے بعدعمرو بن حریث مخزومی(١) کے ہا تھ میں ایک پر چم دے کر اسے اپنے اطرافیوں اور کار کنوں کا سر براہ بنا دیا(٢) اور اپنی

____________________

١۔ یہ وہی شخص ہے جس نے نہاوند کی فتح کے بعد مسلمانو ں کے غنا ئم جولو لو و مرجان اور یاقوت و زمّردسے بڑے بڑے ٹوکرو ں پر مشتمل تھے غنائم کے منشی سائب بن اقرع ثقفی کو دھوکہ دے کر دو ہزار درہم میں خرید لیا۔ اس کے بعد اسے لیکر سر زمین کفر میں پہنچا اور اسے چالیس لاکھ میں بیچا۔ اس طرح ٢١ھ میں یہ عرب کے سرمایہ دارو ں میں شمار ہونے لگا ، یہ کوفہ میں سعید بن عاص کا جانشین تھااور ٣٤ھ میں یہ لوگو ں کو عثمان کے سلسلہ میں تحرک سے روکتا تھا۔(طبری، ج٤ ،ص ٣٣٢) ٥١ ھمیں یہ کوفہ میں زیاد بن سمیہ کاجانشین تھا ۔ اس نے جناب حجربن عدی اور ان کے ساتھیو ں کے خلاف گواہی دی تو ان کے ساتھیو ں نے ان پر پتھراو کردیا۔(طبری، ج٥، ص ٢٥٦ ، ٢٦٨) یہ ایک مدت اہل مدینہ کا سربراہ تھا۔ ٦٤ھمیں یہ کوفہ میں ابن زیاد کا جانشین تھا ۔جب یزید ہلاک ہوگیا اور ابن زیاد نے لوگو ں کو اپنی بیعت کی طرف بلایا تواس نے ابن زیاد کی پیروی کی اور لوگو ں کو ابن زیاد کی طرف دعوت دینے لگا۔اس وقت کوفیو ں نے اس پر پتھراؤ

کردیا،(طبری، ج٥ ،ص ٥٢٤) اس کو محل سے نکال دیا(طبری ،ج٥،ص ٥٦٠) اور اسے معزول کردیا۔ ٦٦ھ میں یہ مختار کے انقلاب میں شر یک ہو گیا۔ (طبری ،ج ٥، ص ٣٠) کوفہ میں اس کا ایک حمام بھی تھا۔(طبری، ج٦، ص ٤٨) عبد الملک نے اسے ٧١ھ میں اپنے مقر بین میں شامل کرلیا۔(طبری ،ج٦، ٣٧٦) اس نے مسلم بن عقیل کے لئے پانی لانے سے انکار کر دیااور ابن زیاد کے سامنے جناب زینب کی سفارش نہیں کی۔ (طبری، ج٥،ص ٤٥٧) مگر یہ قریش کی غیرت تھی جس نے ایسا کر نے پر مجبور کیا ۔٨٥ھمیں اسے موت آگئی۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت ''ذیل المذیل'' ص ٥٢٧، طبع سویڈن کے مطابق اس کی عمر ١٢سال تھی۔

۱۸۵

نیا بت میں اسے حکم دیا کہ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کے امور کو حل وفصل کرے۔

عبیدا للہ کے خلاف جناب مسلم کے قیام کی خبر پورے کو فہ میں پھیل چکی تھی۔ جناب مختار کوبھی جو کو فہ کے نزدیک ایک گاؤں میں زندگی بسر کر رہے تھے جسے '' لقفا'' کہتے ہیں اور آپ جناب مسلم کے ہا تھوں پر بیعت کر نے کے بعد اس گاؤں میں لوگوں سے جناب مسلم کے لئے بیعت لے رہے تھے،انہیں نصیحتیں کر رہے تھے اور لوگوں کو آپ کی فر ما نبرداری کی دعوت دے رہے تھے ،جیسے جناب مسلم کی غر بت و تنہا ئی کی خبر ملی اپنے دوستوں ، غلاموں اور ہم فکروں کے ہمراہ ان کی مدد کے لئے روانہ ہوگئے۔ غروب آفتاب کا وقت تھا کہ مختا ر مسجد کو فہ کے باب الفیل کے پاس آکر رکے ۔اپنے راستے میں عمرو بن حریث کے پاس وہ پر چم امان دیکھا جسے عبید اللہ نے جناب مسلم کے ساتھیوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس کے ہا تھوں سونپا تھا ۔

جب مختار باب الفیل کے پاس تھے کہ وہاں سے ہا نی بن ابی حیہ وداعی کا گذرہوا۔(١) اس نے مختار سے کہا : تم یہاں کس لئے کھڑے ہو؟ ! نہ تو لوگوں کے ساتھ ہو نہ ہی اپنے راستہ پر ہو ؟ اس پر مختار نے کہا : تم لوگوں کی عظیم غلطی اور خطا پر میرے افکار متز لزل ہیں ۔

ہا نی بن ابی حیہ نے کہا : میں سمجھتا ہو ں کہ خود کو قتل کر وانا چاہتے ہو ۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے آگے بڑھ کر عمروبن حریث کے پاس گیا اور اسے اس واقعہ سے خبر دار کردیا ۔(٢)

____________________

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے مجالد بن سعید نے یہ روایت کی ہے۔(طبری ،ج ٥، ص٣٧١ ، ٣٧٣)

١۔اس کا شمار انہیں لوگو ں میں ہوتا ہے جنھو ں نے جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیو ں کے خلاف گواہی دی تھی(طبری ،ج٥،ص ٢٧٠) نیز یہ ان لوگو ں میں سے ایک ہے جو جناب مسلم اور جناب ہانی کے سر کو لے کر یزید کے پاس گئے تھے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨) ٦٤ ھ میں یہ شخص ابن زبیر کے عہد حکومت میں مکہ میں مختار سے ملا اور اسے مختار سے معلوم ہوا کہ وہ کوفہ پلٹنے والے ہیں اور وہا ں سے حملہ کرنے والے ہیں تو اس نے مختار کو گمراہ کن فتنے سے ڈرایا۔(طبری، ج ٥، ص ٥٧٨) ٢۔طبری، ج٥ ص، ٥٦٩، ابو مخنف نے نضر بن صالح سے نقل کیا ہے۔

۱۸۶

مختار کا نظریہ

عبد الرحمن بن ا بی عمیر ثقفی(١) کا بیان ہے کہ میں عمرو بن حریث کے پاس بیٹھا تھا کہ ہا نی بن ابی حیہ مختار کی سنانی لیکر پہنچا ۔ابن حریث نے مجھ سے کہا : اٹھو اور اپنے چچا سے کہو کہ مسلم بن عقیل کو نہیں معلوم ہے کہ تم کہاں ہو اور اپنی حرمت شکنی کے لئے راستہ نہ کھو لو۔ میں اٹھا کہ انہیں جا کر لاؤں اس پر زائدہ بن قدامہ بن مسعود(٢) اٹھا اور اس نے کہا کہ وہ مختار کو لا ئے گا لیکن اس شرط پر کہ وہ امان میں ہوں ۔ عمروبن حریث نے کہا :

میری جانب سے وہ امن میں ہیں اور اگر بات امیر عبیداللہ بن زیاد تک پہنچی تو میں اس کے سامنے کھڑے ہو کر مختار کے حق میں گواہی دوں گا اور بہتر ین طریقہ سے سفارش کروں گا ۔

اس پر زائدہ بن قدامہ نے کہا : ایسی صورت میں انشا ء اللہ خیر کے علا وہ کچھ بھی نہیں ہے ۔

عبد الر حمن کا بیان ہے کہ میں نکلا اورمیرے ہمراہ زائدہ بھی مختار کی طرف نکلا ۔ہم دونوں نے مختار کو خبر دی اور انہیں قسم دی کہ اپنے لئے مشکل کھڑی نہ کریں اور حرمت شکنی کا راستہ نہ کھو لیں ۔اس پر وہ ابن حریث کے پاس آئے، سلام کیا اور اس کے پر چم تلے رات بھر بیٹھے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔(٣)

____________________

١۔٦٧ھ میں یہ مختار کے قیام میں شریک تھے۔ (طبری، ج٦، ص ٩٨) ظاہر یہ ہے کہ یہ عبد الرحمن بن عبداللہ بن عثمان ثقفی ہے جو معاویہ کی بہن ام حکم کا بیٹا ہے، جسے معاویہ نے ٥٨ھ میں کوفہ کا عامل بنا یا تھا ۔یہ عہدہ معاویہ نے ضحاک بن قیس کے بعداسے دیا تھا۔ اس کی پولس کا سر براہ زائدہ بن قدامہ ثقفی تھا(طبری ،ج٥، ص ٣١٠)اور اس سے پہلے ٥١ھ میں یہ موصل میں معاویہ کا عامل تھا ۔اسی نے یہ گمان کرتے ہوئے کہ عثمان کے قتل کاقصاص لے رہا ہے جناب عمروبن حمق خزاعی کو مرض کے عالم میں قتل کر دیاتھا۔(طبری، ج٥، ص ٢٦٥)اس کی بری سیرت کی وجہ سے اہل کو فہ نے اس کو مطرود کر دیا تو یہ اپنے مامو ں معاویہ سے ملحق ہو گیا۔ اس نے اس کو مصر کا والی بنا دیا۔وہا ں سے بھی اس کو نکال بھگایاگیاتو وہ معاویہ کے پاس لوٹ گیا (ج٥، ص ٣١٢) اور اگر اس کی یزید سے رشتہ داری نہ ہوتی تو ابن حریث اس کو کوئی فائدہ نہ پہونچاتا ۔

٢۔مقدمہ میں اس کی پوری تفصیل گذرچکی ہے، رجوع کری ں ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے: نضر بن صالح نے عبد الرحمن بن ابی عمیر ثقفی کے حوالے سے مجھے یہ خبردی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٥٧٠)

۱۸۷

ابو جناب کلبی کا بیان ہے کہ کثیر بن شہاب حارثی کی ملاقات ایک جوان سے ہوئی جو اسلحو ں سے لیس تھا؛ جسے عبد الاعلی بن یزید کلبی کہتے ہیں ۔ابن شہاب نے اسے گر فتار کرکے ابن زیاد کے پاس پہنچا دیا اور اس جواں مرد کی ساری داستان کہہ سنائی تو کلبی نے ابن زیاد سے کہا : میں نے تمہاری ہی طرف آنے کا ارادہ کیاتھالیکن ابن زیاد نے اس کی بات نہ مانی اور کہا کہ یہ تم نے اپنا ارادہ بتایا ہے ؛یہ کہنے کے بعداس نے اسے قید کرنے کا حکم صادر کردیا اور لوگوں نے اسے قید کردیا۔(١)

دوسری صبح

دوسرے دن کا سورج افق پر طلوع ہوا اور اپنے ساتھ داستانوں کا لشکر لے کر آیا ۔صبح ہوتے ہی ابن زیاد اپنے دربار میں آکر بیٹھا اور لوگوں کو آنے کی اجازت دی تو لوگ دربار میں داخل ہو نے لگے۔ انہیں داخل ہونے والوں میں محمد بن اشعث بھی تھا۔ابن زیاد بولا : آفرین اور مرحبا! اس شخص پر جواپنے امیر سے نہ تو خیانت کرتا ہے اور نہ ہی مورد تہمت واقع ہوتا ہے ۔یہ کہہ کر اسے اپنے پہلو میں جگہ دی ۔

ادھر دوسرے دن صبح نیک شرست جناب مسلم کو پناہ دینے والی ضعیفہ کا لڑکا بلال بن اُسید عبدالر حمن بن محمد بن اشعث کے پاس آیا اور ساری روداد سنادی کہ مسلم بن عقیل اس کے گھر میں اس کی ماں کی پناہ میں ہیں ۔ عبدالرحمن وہاں سے فوراً اپنے باپ کے پاس آیا جوابن زیاد کے پاس موجود تھا اور آہستہ آہستہ سب کچھ سنا دیا۔ اس سر گوشی کو جب ابن زیاد نے دیکھا تو اس نے کہا : یہ تم سے کیا کہہ رہا تھا؟ محمد بن اشعث بولا : اس نے مجھ کو ابھی ابھی خبر دی ہے کہ مسلم ابن عقیل ہمارے ہی قبیلہ کے ایک گھر میں پناہ لئے ہوئے ہیں ۔ابن زیاد نے اپنی چھڑی کی نوک اس کے پہلو میں چبھائی اور بولا : اٹھو اور ابھی اسے لے کر یہاں آؤ!(٢)

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابوجناب کلبی نے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٦٩)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یہ روایت مجالد بن سعید نے مجھ سے بیان کی ہے۔(طبری، ج٥، ص٣٧١، الاشاد، ص ٢١٣، تذکرةالخواص،ص ٢٠٨)

۱۸۸

محمد بن اشعث جناب مسلم کے مقابلے میں

ابن زیاد نے عمروبن حریث کے پاس ایک آدمی کو بھیجا جو اس وقت مسجد میں اس کا جانشین تھا کہ فوراً قبیلہ قیس کے ساٹھ یا ستر آدمیوں کو ابن اشعث کے ساتھ روانہ کرے ۔ابن زیاد کو یہ ناپسند تھا کہ ابن اشعث کے قبیلہ کے لوگ اس کے ہمراہ جائیں(١) کیونکہ اسے معلوم تھا کہ تمام قبیلوں کو یہ ناپسند ہے کہ وہ مسلم ابن عقیل جیسی شخصیت کے مد مقابل آئیں ۔ عمر و بن حریث نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فوراًعمرو بن عبیداللہ بن عباس سلمی کی سربراہی میں قبیلہ قیس کے ساٹھ یاستر آدمیوں کوابن اشعث کے ہمراہ روانہ کیا۔ ان سب نے اس گھرکو محاصرہ میں لے لیا جس میں جناب مسلم موجود تھے ۔

جناب مسلم کا ابن اشعث سے جہاد

جب گھوڑوں کی ٹاپوں کی صدا ور سپاہیوں کی آواز جناب مسلم کے کانوں میں پہنچی توآپ سمجھ گئے کہ لشکر آ گیا ہے لہٰذا نیام سے شمشیر کو باہر نکا لا اور فوراً مقابلہ کے لئے باہر آگئے۔ ان لوگوں نے گھر پرحملہ کر دیا لیکن جناب مسلم نے اس گھر کا دفاع کرتے ہوئے ان پر ایسا زبر دست حملہ کیا کہ وہ تاب نہ لا کر پیچھے ہٹ گئے۔ جب وہ پھر آگے بڑھے تو جناب مسلم نے پھر ویسا ہی حملہ کیا۔ اسی اثنا میں بکیر بن حمران احمری شامی نے آپ کے رخسار پر ضرب لگائی جس سے آپ کے اوپر والے ہونٹ کٹ گئے اور تلوار نچلے ہونٹ کو زخمی کر گئی جس سے آپ کے آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ ادھر جناب مسلم نے بھی مرگبار تلوار اس کے سر پر چلائی اور ایک دوسری تلوار اس کے شانے کے نیچے ماری کہ قریب تھا کہ اس کے شکم میں چلی جائے۔

____________________

١۔لیکن خود ابن اشعث کو بھیجنے کا سبب شاید یہ ہو کہ اس کے جانے کی وجہ سے مسلم خود اسی کے خاندان کی کنیز(طوعہ جس کا بیٹا بلال ہے) کے گھر سے نکلی ں گے۔یہا ں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن زیاد کس طرح عشائر اور بادیہ نشین لوگو ں کے امور سے آگاہ تھا اور کسی طرح ان سے اپنے مقاصد کو حل کرتا تھا ۔

۱۸۹

آگ اور پتھر کی بارش

جب ان لوگوں نے یہ دیکھا کہ مسلم کی حالت یہ ہے توگھروں کی چھتوں سے پتھر پھینکنا شروع کردیا اور اس یکّہ و تنہا سفیر حسینی پرآگ کے شعلہ برسا نے لگے ۔جناب مسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو تلوار کھینچ کر مقابلے میں آگئے اور ان سے نبرد آزما ہوگئے۔ اسی وقت محمد بن اشعث آیا اور کہنے لگا : اے جوان ! تیرے لئے امان ہے لہٰذا تو خود کو قتل کرنے کا سامان فراہم نہ کر!جناب مسلم اپنے جہاد کو جاری رکھتے ہوئے رزمیہ اشعار پڑھ رہے تھے۔

اقسمت لااُقتل الاحرّا

وان رایت الموت شیئاًنکرا

میں نے قسم کھائی ہے کہ میں آزادی کے ساتھ قتل کیا جاؤں گا ۔ اگر چہ موت کو میں بری چیز سمجھتا ہوں ۔

کل امریء یوماً ملاق شرا

و یخلط البارد سخناًمرّاً

ہر انسان ایک دن شر میں گرفتار ہوتا ہے اور زندگی کی سختی و گرمی آرام و آسائش سے آمیختہ ہے ۔

ردّ شعاع النفس فاستقر (١)

أخاف أن أکذب أوأ غرّا

خوف و ہراس کو اپنے سے دور کرو تاکہ ہمیشہ زندہ و پائندہ رہو ۔ مجھے تو اس کا خوف ہے کہ یہ قوم مجھے جھوٹا وعدہ دے کر دھوکہ دینے کے در پے ہے۔

____________________

١۔ہمارے پاس طبری اور غیر طبری کا جو نسخہ موجود ہے اس میں شعاع النفس کی جگہ شعاع الشمس موجود ہے ۔ شیخ سماوی نے ابصار العین ص ٤٩پر ذکر کیا ہے کہ یہ رد و بدل اس کی جانب سے ہے جو شعاع النفس کے معنی نہیں جانتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ شعاع الشمس زیادہ بہتر ہے جب کہ شعاع النفس سے مراد جان کا خوف ہے۔ عرب یہ کہا کرتے ہیں :'' مارت نفسہ شعاعا '' یعنی اس کی جان سورج کی کرنو ں کی طرح جدا ہوگئی۔یہ جملہ اس وقت کہاجاتا ہے جب خوف بہت شدید ہو؛ کیونکہ شعاع کے معنی ہی یہ ہیں کہ کوئی چیز کسی سے دقت کے ساتھ جدا ہوجائے۔ یہی معنی شعر میں بھی استعمال ہوا ہے''أقول لھا و قد طارت شعاعا من الأ بطال ویحک لا تراعی''اس شعر میں شعاع کا مطلب یہ ہے کہ خوف کے بعد دل ٹھہر گیا ۔

۱۹۰

فریب امان اور گرفتاری

محمد بن اشعث نے حضرت مسلم سے کہا : تم سے جھو ٹ نہیں بولا جارہا ہے نہ ہی تم کوفریب اور دھوکہ دیاجارہاہے، یہ لوگ تو تمہارے چچا ہی کی اولاد ہیں نہ کہ تمہارے قاتل اور تم سے لڑائی کرنے والے۔دوسری طرف سنگ باری نے جناب مسلم کو بے حد زخمی کر دیا تھااورآپ لڑتے لڑتے تھک چکے تھے۔لہٰذا اسی گھر کی دیوار پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔ محمد بن اشعث نے آپ کے پاس آکر کہا: آ پ کے لئے امان ہے۔ جناب مسلم نے اس سے پوچھا : آمن انا ؟ کیا واقعاً میں امان میں ہوں ؟محمد بن اشعث نے جواب دیا : ہاں ،اور ابن اشعث کے ہمراہ پوری فوج نے کہا : ہاں ہاں تم امان میں ہو تو جناب مسلم نے کہا :'' أما لولم تؤمّنونی ما وضعت یدی فی أیدیکم''اگرتم لوگوں نے مجھے امان نہیں دیا ہوتا تو میں کبھی بھی تمہارے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ نہ دیتا۔ (اس جملہ سے ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ مسلم امان پر راضی ہوچکے ہیں ) اس کے بعد وہ لوگ ایک خچر لے کر آئے اور جناب مسلم کو اس پر سوار کیا اورسب ان کے اطراف جمع ہوگئے اور ان کی گردن سے تلوار نکالی۔یہ دیکھ کر گویا جناب مسلم خود سے مایوس ہوگئے، ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور آپ نے فرمایا : ''ھذا اول الغدر'' یہ سب سے پہلا دھوکہ ہے ۔

محمد بن اشعث بولا:ا مید ہے کہ آپ کو کوئی مشکل نہ ہوگی۔ جناب مسلم نے کہا:امید کے سوا کچھ نہیں ہے، تم لوگوں کا امان نامہ کہاں ہے !''اناللّہ و انّا الیہ راجعون!''اور یہ کہہ کر رو پڑے۔ اس موقع پر عمرو بن عبیداللہ سلمی جو ایک دوسرے گروہ کا سربراہ تھا آپ سے مخاطب ہوکر بولا :بے شک اگر ایک شخص وہ چیزطلب کرے جس کے تم طلبگار تھے اور اس راہ میں اسے وہ مشکلات پیش آئیں جو تمہیں پیش آئی ہیں تو اسے رونا نہیں چاہیے۔

جناب مسلم نے فرمایا : ''انی واللّٰہ ما لنفسی ابکی ''خداکی قسم میں اپنے لئے نہیں رورہا ہوں '' ولا لھا من القتل أرثی'' اور نہ ہی قتل ہونے کے خوف سے میں مرثیہ کناں ہوں ؛ اگر چہ میں پلک جھپکتے تلف ہونا پسند نہیں کرتا تھا ''ولکن أبکی لأھلی المقبلین الیّ'' میں تو ان لوگوں پر آنسو بہارہاہوں جو میرے پیچھے آرہے ہیں ۔ ''ابکی لحسین و آل حسین (علیھم السلام) '' میں تو حسین اور اولاد حسین پر آنسو بہا رہاہوں ۔

۱۹۱

حضرت مسلم کی محمد بن اشعث سے وصیت

پھر حضرت مسلم علیہ السلام نے محمد بن اشعث کی طرف رخ کر کے فرمایا :''یاعبداللّٰه انّی أراک واللّٰه ، ستعجز عن أمانی، فهل عندک خیرتستطیع أن تبعث من عندک رجلاً علی لسانی يُبلغ حسیناً ، فا نی لا أراه الا قد خرج الیکم مُقبلاً أو هو خارج غداًهو وأهل بیته ، وان ما تری من جزع لذالک فیقول (الرسول) انّ ابن عقیل بعثن الیک وهو فی أید القوم أسیرلا یری أن یمش حتی یقتل وهو یقول : ارجع بأهل بیتک ، ولا یغرّک أهل الکوفة ! فانهم أصحاب ابیک الذی کان یتمنّی فراقهم بالموت أو القتل ! ان أهل الکوفه کذبوک و کذبون ! ولیس لمُکذَّب رأی !'' (١)

اے بندہ خدا !میں تو خدا کی قسم یہ دیکھ ر ہا ہوں کہ توعنقریب مجھے امان دلانے سے عاجز ہو جائے گا ؛ کیا تجھ سے نیکی کی امید کی جاسکتی ہے ؟کیا تم کسی ایسے شخص کو اپنی طرف سے بھیجنے کی قدرت رکھتے ہو جو میری زبانی حسین علیہ السلام کو پیغام پہنچادے ، کیو نکہ میں یہ سمجھتاہوں کہ وہ تم لوگوں کی طرف آنے کے لئے آج نکل چکے ہو نگے یا کل نکل جائیں گے جبکہ ان کے ہمر اہ ان کا پورا خاندان ہوگا۔تم جو ان آنسو ؤں کو دیکھ رہے تھے اس کا سبب یہی ہے ۔ وہ پیغام رساں جاکرامام حسین علیہ السلام یہ کہہ دے کہ ابن عقیل نے مجھے آپ کے پاس اس حال میں بھیجاہے کہ وہ گرفتار ہوچکے ہیں اور قدم بقدم شہادت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔وہ اس عالم میں یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنے اہل بیت کے ساتھ پلٹ جایئے! کہیں اہل کوفہ آپ کو دھوکہ نہ دے دیں کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جوآپ کے باباکے ساتھی تھے لیکن حضرت آرزو کرتے تھے کہ موت یا قتل کے ذریعہ ان سے جداہوجائیں ۔اہل کوفہ نے آپ کو جھٹلایااور مجھے بھی جھٹلایا اور جھوٹے شخص کی کوئی رائے اور کوئی نظر نہیں ہوتی ۔

اس پر محمد بن اشعث بولا:میں تمہارا پیغام ضرور پہنچاؤں گااور ابن زیاد کو ضروربتاؤں گاکہ میں نے تم کو امان دی ۔

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی نے اسے اپنے جد زائدہ سے ہمارے لئے روایت کی ہے۔ (طبری،ج٥،ص٣٧٢) شرح حال، مقدمہ میں ملا حظہ ہو۔

۱۹۲

مسلم قصر کے دروازے پر

محمدبن اشعث، ابن عقیل کوقصرکے دروازے تک لے کر آیا۔ اس وقت آپ بہت پیاسے تھے۔ ادھر محل کے دروازے پر لوگ بیٹھے اجازت کے منتظر تھے جن میں عمارة بن عقبہ ابی معیط ، عمرو بن حریث ، مسلم بن عمر و اور کثیر بن شہاب(١) قابل ذکر ہیں ۔ وہیں پر ٹھنڈے پانی کا کوزہ رکھا ہوا تھا۔ جناب مسلم نے کہا :''اسقونی من هذا المائ '' مجھے تھوڑا سا پانی پلادو! تومسلم بن عمر و باہلی بولا : تم دیکھ رہے ہو کہ یہ پانی کتنا ٹھنڈا ہے ! خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں پلایا جائے گایہاں تک کہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں کھولتا ہوا پانی تمہارے نصیب ہو ۔

جناب مسلم نے کہا :''ویحک من انت ؟ '' واے ہو تجھ پر تو کون ہے؟

اس نے کہا : میں اس کا فرزند ہوں(٢) کہ جب تم نے حق ے انکار کیا تواس نے اس کو پہچان لیا اور جب تم نے اپنے امام حاکم سے ناسازگاری کا مظاہرہ کیا تو اس نے خیر خواہی کی اور جب تم نے اس کی نافرمانی اور مخالفت کی تو اس نے اس کی فرمانبر داری اور اطاعت کی ! میں مسلم بن عمرو باہلی ہوں ۔ جناب مسلم :'' لأمّک الثکل! ما أجفاک و ماأفظّک و أقسیٰ قلبک و أغلظک ! أنت یابن باهله أولیٰٰ با لحمیم والخلود فی نار جهنم منّی ''

تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے! تو کتنا جفاکار ، خشن ، سخت دل اور بے رحم ہے ۔ اے فرزند باہلہ! جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اور اس میں ہمیشگی تجھ پر زیب دیتی ہے نہ کہ ہم پر۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ جعفر بن حذیفہ طائی نے اس روایت کو بیان کیا ہے اور سعید بن شیبان نے حدیث کی تعریف کی ہے۔(طبری ،ج ٥، ص ٣٧٥)

٢۔کتابو ں میں یہی جملہ موجود ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ میں وہ ہو ں کیونکہ مسلم بن عمرو باھلی نے اپنے باپ کی تعریف نہیں کی ہے بلکہ اپنی تعریف و تمجید کی ہے ۔

۱۹۳

پھر آپ محل کی دیوار پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ یہ حال دیکھ کر عمروبن حریث مخزومی نے اپنے غلام سلیمان کو بھیجا اور وہ کوزہ میں پانی لے کر آیا۔(١)

اس کے اوپرایک رومال اور ساتھ میں ایک پیالہ بھی تھا۔اس نے پیالہ میں پانی ڈال کرجناب مسلم کو پینے کے لئے دیا لیکن جب بھی آپ پانی کو منھ سے لگاتے پیالہ خون سے بھر جاتا۔جب تیسری بار پیالہ خون سے بھر گیا اور پیتے وقت اس میں آگے کے دو دانت گر گئے تو حضرت مسلم نے فرمایا : '' الحمد للّہ ! لو کان لی من الرزق المقسوم شربتہ''(٢) اگر یہ پانی میرے رزق میں ہوتا تو میں اسے پی لیتا۔

اس کے بعد ابن اشعث نے اجازت چاہی تو اسے دربارمیں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔ اپنے ہمراہ وہ حضرت مسلم کو بھی ابن زیاد کی خدمت میں لیکر حاضر ہوا لیکن حضرت مسلم نے اسے امیر کے عنوان سے سلام نہیں کیا۔ نگہبان نے کہا : تم امیر کو سلام کیوں نہیں کرتے ۔

____________________

١۔ ابو مخنف نے یہا ں سے قدامہ بن سعید کی روایت کو کاٹ دیا ہے تاکہ سعید بن مدرک بن عمارہ بن عقبہ ابن ابی معیط سے حدیث بیان کری ں کہ اس نے اپنے غلام قیس کو پانی لانے کے لئے روانہ کیا تھا اورو ہ کوزہ آب لے کر آیا جبکہ روایت ظاہر میں قدامہ کی روایت کی طرف پلٹتی ہے اور ہم نے قدامہ بن سعید کی روایت کو جو اس نے اپنے جد زائدہ بن قدامہ ثقفی سے بیان کی ہے ترجیح دی ہے کیونکہ سعید بن مدرک جعل حدیث کے جرم میں متہم ہے، مثال کے طور پر اس نے اپنے جد عمارہ کی فضیلت میں حدیث گڑھی ہے جبکہ قدامہ کی روایت میں اس قسم کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اس نے اسی روایت میں پانی لانے کے ذکرکو اپنے جدقدامہ سے منسوب نہیں کیاہے جبکہ وہ وہا ں موجودتھابلکہ اس کی نسبت عمرو بن حریث کی طرف دی ہے اور عمروبن حریث کی دو خصوصیت ہے؛ ایک تو ا س نے مختار کے سلسلہ میں نرمی سے کام لیاکیونکہ ابن زیاد کے سامنے ایسی گواہی دی کہ مختارکو قتل سے نجات مل گئی۔ دوسرے موقع پراس نے اس وقت ابن زیاد کے سامنے حضرت زینب کی سفارش کی جب وہ آپ کو مارنے کے لئے کمر ہمت باندھ چکاتھا۔ اگر چہ اس کا یہ عمل قریشی غیرت و حمیت کی بنیاد پر تھا لیکن عمارہ بن عقبةبن ابی معیط اموی تو اہل بیت علیہم السلام کاسخت دشمن ہے۔مقدمہ میں اس کے حالات گذرچکے ہیں ، وہا ں ملاحظہ کیجئے۔ شیخ مفید ارشاد ،ص ٢١٥،اور خوارزمی نے ص٢١٠پر اسی نظر کو اختیار کیاہے لیکن سماوی نے ص٤٥ پر دونو ں خبرو ں کو جمع کر کے یہ کہا ہے کہ دونو ں نے پانی لانے کو بھیجا تھا جب کہ یہ غلط ہے۔

٢۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے قدامہ بن سعید نے یہ روایت بیان کی ہے۔(طبری، ج٥،ص٣٧٥)

۱۹۴

جناب مسلم نے کہا :''ان کان یرید قتلی فما سلامی علیه وان کان لا یرید قتلی فلعمری لیکثرن سلامی علیه' 'اگر یہ مجھے قتل کرنا چا ہتا ہے تو پھر سلام کس لئے !اور اگرقتل نہیں کرنا چاہتا تو میری جان کی قسم میرا اس پربہت بہت سلام ہو ۔

ابن زیاد نے کہا : مجھے اپنی جان کی قسم ہے کہ تم ضرور بالضرور قتل کئے جاؤگے ۔

مسلم : ایسا ہی ہوگا ؟

ابن زیاد : ہاں ایساہی ہوگا

مسلم : تو پھر مجھے اتنی مہلت دے کہ میں کسی آشنا سے وصیت کر سکوں ۔

عمر بن سعد سے مسلم کی وصیت

یہ کہہ کر جناب مسلم علیہ السلام عبیداللہ کے درباریوں کی طرف نگاہ دوڑانے لگے تو سعد کے بیٹے عمر پر نظر پڑی۔ اس سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا : '' یا عمر ! انّ بینی و بینک قرابة(١) ولی الیک حاجة وقد یجب لی علیک نجح حاجتی وھو سرّ ''اے عمر !میرے اور تمہارے درمیان رشتہ داری ہے اور تم سے مجھے ایک کام ہے جو راز ہے لہذا تم پر لازم ہے کہ میرے اس کام کو انجام دو۔

عمر سعد نے اس درخواست سے انکار کرنا چا ہاتو عبیداللہ نے کہا : اپنے چچا زادبھائی کی درخواست مت ٹھکراؤ ۔یہ سن کر عمر سعد اٹھا اور وہاں جا کر مسلم کے ہمراہ بیٹھا جہاں ابن زیاد بخوبی دیکھ رہاتھا۔ حضرت مسلم نے اس سے کہا : جب سے میں کوفہ میں آیاہوں اس وقت سے لے کر اب تک سات سو (٧٠٠) درہم کا مقروض ہو چکا ہوں اس کو تم میری طرف سے ادا کردینا۔

دوسری وصیت یہ کہ ہمارے جسد خاکی کو ان سے لے کر دفن کر دینااور تیسری وصیت یہ ہے کہ حسین علیہ السلام کی طرف کسی کو روانہ کر کے انہیں کوفہ آنے سے روک دینا کیونکہ لوگوں کی مسلسل

۱۹۵

١۔ جناب مسلم اور عمر سعد کے درمیان ایک قرابت تو قریش ہونے کی بنیاد پر تھی اور ماں کی طرف سے آپ بنی زہرہ جو بنی سعد کا قبیلہ ہے، سے متعلق تھے ۔

درخواست اور مسلسل بیعت کے بعد میں نے ا ن کو لکھ دیا تھا کہ لوگ آپ کے ساتھ ہیں لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ وہ راستہ میں ہوں گے ۔(١)

____________________

١۔ اشعث کے لڑکے سے وصیت کرنے کے بعد دوبارہ پسر سعد سے وصیت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ شاید ان میں سے کوئی یک خبر پہنچادے۔

۱۹۶

مسلم علیہ السلام ابن زیاد کے رو برو

وصیت کے بعد ابن زیاد جناب مسلم سے مخاطب ہوا اور بولا : اے عقیل کے فرزند ! لوگوں کے کام اچھے سے چل رہے تھے اور سب ہمدل اور متحد تھے، تم نے ان کے شہر میں داخل ہوکر انھیں پراکندہ کردیا ، اختلاف اورکشمکش کا بیج ان کے درمیان ڈال دیا اور انھیں ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑاکیا ؛ سچ بتاؤ ! یہ عمل تم سے کیوں سرزد ہوا ؟

حضرت مسلم نے جواب دیا :'' کلا لست آ تیت و لکن أہل المصر زعموا أن أباک قتل خیار ھم و سفک دماء ھم و عمل فیھم أعمال کسری و قیصر فأ تینا ھم لنأ مر با لعدل و ندعوا لی حکم الکتاب'' ہر گز ایسا نہیں ہے، میں خود سے نہیں آیا ہوں بلکہ اس شہر کے لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ تیرے باپ نے ان کے نیک بزرگوں کو قتل کیا ، ان کا خون بہایا ہے اوران کے درمیان قیصر و کسری کے بادشاہوں جیسا سلوک کیا ہے لہذا ان لوگوں نے ہم کو دعوت دی تاکہ ہم یہاں آکر عدل و انصاف قائم کریں اور حکم خدا کی طرف دعوت دیں ۔

عبیداللہ : اے خدا کے نا فر مان بندے !تجھے ان سب چیزوں سے کیا مطلب جب تو مدینہ میں بیٹھا شراب پی رہا تھا تو ہم ان کے درمیان عدالت اور کتاب خدا کے حکم کی بنیاد پر حکومت کررہے تھے۔

مسلم :'' أنا أشرب الخمر ! واللّٰه ان اللّٰه لیعلم أنک غیر صادق وأنک قلت بغیر علم وأنلست کما ذکرت وانّ أحق بشرب الخمر منّی و أولیٰ بها من یلغ فی دماء المسلمین و لغاً فیقتل النفس الت حرّم اللّٰه قتلهاو یقتل النفس بغیر النفس و یسفک الدم الحرام و یقتل علی الغضب والعداوة و سوء الظن ویلهو و یلعب کأنّ لم یصنع شیئاً''

۱۹۷

میں شراب پی رہا تھا ! خدا کی قسم خدا جانتا ہے کہ تو سچانہیں ہے اور تو نے علم ودانش کے بغیریہ جملہ کہا ہے؛ میں ویسا نہیں ہوں جیساتونے ذکر کیا ہے ،شراب خوار اور مست تووہ ہے جو مسلمین کے خون سے آ غشتہ ہے،جو ایسے نفوس کو قتل کرتاہے جنہیں قتل کرنے سے اللہ نے روکاہے اور جوبے گناہ لوگوں کو قتل کیاکرتاہے ، حرام خو ن کے سیلاب بہاتاہے اور غصہ ، دشمنی اور بد گمانی کی بنیاد پر لو گو ں کو قتل کیاکرتاہے، لھو ولعب وعیش و نوش میں مشغول رہتا ہے اور اس طرح زندگی گذارتا ہے جیسے کوئی خیانت اور بیہودگی انجام ہی نہ دی ہو ؛ایسے شخص پر شراب خواری زیب دیتی ہے نہ کہ ہم پر ۔

ابن زیاد : اے فاسق !یہ تیری ہوی و ہوس ہے جسے خدانے تیرے لئے قرار نہیں دیا؛بلکہ تیری اس آرزوکے درمیان حائل ہوگیا اور تجھے اس کا اہل نہیں سمجھا ۔

مسلم :''فمن أهله ؟ یابن زیاد ! ''اے ابن زیاد ! تو پھر اس کا اہل کون ہے ؟

ابن زیاد : امیر المومنین یزید اس کے اہل ہیں ۔

مسلم :''الحمد للّه علی کل حال ، رضینا با للّٰه حکماً بیننا و بینکم'' خدا کا ہر حال میں شکر گذار ہوں اور اس پر راضی ہوں کہ وہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے ۔

ابن زیاد : ایسی باتیں کررہے ہو کہ گویا قوم و ملت کی پیشوائی اور ان پرحکومت تمہارا حق ہے ۔

مسلم :''واللّه ما هو با لظن ولکنه الیقین ''خدا کی قسم اس میں ذرہ برابر گمان نہیں بلکہ یقیناً یہ ہماراہی حق ہے۔

ابن زیاد :اللہ مجھکو قتل کر دے اگر میں تم کو اس طرح قتل نہ کروں جس طرح پورے اسلام کی تاریخ میں اب تک کسی کو قتل نہیں کیا گیا ہے۔

۱۹۸

مسلم :''أما انک لاتدع سوء القتلة و قبح المثله و خبث السیرة و لؤم الغلبة ولا أحد من الناس أحق بها منک'' ہاں !بے دردی سے قتل کر نے ،بری طرح جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے ، خبیث اور پلید سرشت اور ملامت آمیزعادت کی کثرت کو تم کبھی نہ ترک کرنا تیرے علاوہ ایسا برا کام کوئی انجام بھی نہیں دے سکتا ہے۔ اوباشوں کا ہتھیار گالی ہے لہذا حضرت مسلم علیہ السلام کی عقل آفرین گفتگو اور اپنی قلعی کھلنے کے بعد سمیہ(١) کے فرزند کوجب کوئی جواب نہیں ملا تو اس نے امام حسین ، حضرت علی اور جناب عقیل کو گالیاں دینا شروع کر دیا ۔

حضرت مسلم علیہ السلام کی شہادت

پھر ابن زیاد بولا : اسے محل کی چھت پر لے جاؤاور اس کی گردن مار دو ،اس کے بعد اس کے جسد کو زمین پر پھینک دو ۔یہ وہ موقع تھاجب جناب مسلم نے اشعث کے لڑکے کو مخاطب کر کے فرمایا :'' یابن الاشعث اماواللّٰه لولاانک آمنتنی ما استسلمت ، قم بسیفک دونی فقد أخفرت ذمتک'' (٢) اے اشعث کے فرزند! خدا کی قسم اگر تو نے امان دینے کا وعدہ نہ کیا ہوتا تو میں جنگ سے کبھی بھی دست بردار نہ ہوتالہذا اب اٹھ اور جسے وعدۂ امان دیا ہے اس کاجواں مردی کے ساتھ دفاع کرکیونکہ تیری حرمت اور تیرے حقوق پامال کئے جارہے ہیں ۔

یہ سنتے ہی محمد بن اشعث آگے بڑھا اور ابن زیاد کے پاس آکر جناب مسلم کے زخمی ہونے ، بکیر بن حمران پر حملہ کرنے اور اپنے امان دینے کا سارا واقعہ ابن زیاد سے کہہ سنایا اور اس بات کی بھی صراحت کی کہ میں نے انہیں امان دی ہے؛ لیکن عبید اللہ بن زیاد بولا : تمہارے امان دینے سے کیاہوتا ہے،کیا ہم نے تمہیں امان دینے کے لئے بھیجا تھا ؟ہم نے تو تم کو فقط اس لئے بھیجا تھاکہ تم اسے لے آؤ ۔یہ سن کر محمد بن اشعث خاموش ہوگیا ۔(٣)

____________________

١۔'' سمیہ ''زیاد کی ما ں زمانہ جاہلیت میں برے کامو ں کی پرچم دار تھی۔ ابو سفیان اور دوسرے مردو ں نے اس سے زنا کیا جسکے نتیجہ میں زیاد کا وجود دنیا میں آیا ۔باپ کے سلسلہ میں اختلاف شروع ہوایہا ں تک کہ نوبت قرعہ پر آئی۔ تیرو ں کو پھینک کر قرعہ کیا گیاتوقرعہ ابو سفیان کے نام نکلا لیکن ہمیشہ اسے بن زیادبن سمیّہ ہی کے نام سے یاد کیا گیا یہا ں تک کہ معاویہ نے اسے اپنے باپ سے نسبت دیتے ہوئے اسے اپنا بھائی قرار دیا جو دین اور عرف کی نظر میں معاویہ کا ایک بد ترین عمل تھا ۔

٢۔ابو مخنف کابیان ہے کہ مجھ سے سعید بن مدرک بن عمارہ نے اپنے جد عمارہ بن عقبة بن ابی معیط کے حوالے سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے ۔(طبری ،ج٥،ص ٣٧٦)

٣۔ابومخنف کابیان ہے کہ جعفر بن حذیفہ طائی نے مجھ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔(طبری ،ج٥،ص ٣٧٥)

۱۹۹

پھرا بن زیادبولا: کہاں ہے وہ شخص جس کے سر اور شانے پر ابن عقیل نے ضرب لگائی تھی؟ یہ کہہ کر اسے بلایا او ر اس سے یو ں مخاطب ہوا : اسے لے کر اوپر جاؤ اور اس کا سر قلم کر کے اپنا انتقام لے لو !یہ سنتے ہی بکیرا حمری ''حضرت مسلم'' کو لے کر محل کی چھت پر اس حالت میں آیا کہ آ پ کی زبان پر تکبیر (اللّہ اکبر) واستغفار (استغفراللّہ ...) تھا اور آپ ملائکہ الہٰی اور خدا وندعالم کے رسولوں پر درود و سلام بھیج رہے تھے اور باربارزبان پر یہ فقرے جاری ہو رہے تھے:''اللهم احکم بیننا و بین قوم غرّونا و کذّبونا و أذلّونا' ' خدا یا !ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں دھوکہ دیا ، ہمیں جھٹلایا اور ذلیل کیا !

بکیر بن حمران احمری آپ کو چھت کے اس حصہ کی طرف لے گیا جو اس وقت قصابوں کی جگہ تھی(١) اور وہیں پر آپ کا سر قلم کر کے آپ کو شھید کر دیا۔ سر کاٹنے کے بعداسے نیچے پھینک دیا اوراس کے فوراً ہی بعد جسم کو بھی نیچے ڈال دیا۔

قتل کر نے کے بعد بکیر بن حمران احمری جس نے ابھی ابھی جناب مسلم کو شہیدکیا تھا نیچے اترا تو ابن زیاد نے اس سے پو چھا : اسے قتل کردیا ؟ بکیرنے کہا: ہاں ۔

ابن زیاد نے سوال کیا : جب تم اسے اوپر لے جارہے تھے تو وہ کیا کہہ رہا تھا ؟

بکیر: وہ تکبیر، تسبیح اور استغفار کررہا تھا اور جب میں نے اس کو قتل کرنے کے لئے اپنے سے قریب کیا تو اس نے کہا :''اللهم احکم بیننا وبین قوم کذّبو نا وغرّوناوخذ لونا وقتلونا'' خدا! تو ہی ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں جھٹلا یا ، دھوکہ دیا ، تنہاچھوڑ دیا اور قتل کردیاپھر ہم نے اس سے کہا : میرے نزدیک آ !جب وہ نزدیک آیا تو میں نے ایسی ضربت لگا ئی کہ وہ سنبھل نہ سکا پھر ہم نے دوسری ضربت میں اسے قتل کردیا۔

____________________

١۔ارشادمیں ص ٢١٦پر شیخ مفید نے الحذا ئیین لکھا ہے یعنی جوتے والو ں کی جگہ اور خوارزمی نے ص٢١٥پر سوق القصابین لکھا ہے یعنی قصا بو ں کا بازاراورص٢١٤ پرلکھاہے کہ وہ جگہ جہا ں بکریا ں بیچی جاتی تھی ں ۔ طبری کی عبارت سے مذکورہ مطلب زیا دہ قابل ترجیح ہے''الیوم''سے مرادابومخنف کا زمانہ ہے کیونکہ اس زما نے میں بالا خانہ کے اس حصہ سے وہ علاقہ دکھائی دیتا تھا ۔

۲۰۰