واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا0%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا

مؤلف: لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
زمرہ جات:

صفحے: 438
مشاہدے: 186236
ڈاؤنلوڈ: 5080

تبصرے:

واقعۂ کربلا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 186236 / ڈاؤنلوڈ: 5080
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

امام حسین علیہ السلام نے اسے جواب دیا :''یاعبداللّٰہ ! انہ لیس یخفی علیّ ، الرأی ما رأیت ، ولکن اللّٰہ لا یغلب علی أمرہ ''(١) اے بندہ خدا !یہ بات مجھ پر پوشیدہ نہیں ہے ، تمہاری رائے وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو لیکن تمہارانظریہ خدا کے امر پر غالب نہیں آسکتااور خدا اپنے امرپرمغلوب نہیں ہوسکتا۔ یہ کہہ کر آپ نے وہاں سے کوچ کیا ۔(٢)

دسویں منزل : شراف(٣)

آپ کا قافلہ کوفہ کی سمت روانہ تھا کہ راستے میں ایک منزل پر جاکر پھر ٹھہرا جس کا نام شراف ہے۔ جب صبح نمودار ہوئی تو آپ نے اپنے جوانوں کو حکم دیا کہ پانی بھر لیں ! ان لوگوں نے کافی مقدار میں پانی بھرا اور صبح سویرے سفر شروع کردیا تاکہ دن کی گرمی سے محفوظ رہ سکیں ۔ چلتے چلتے دوپہرکاوقت آگیا ابھی قافلہ محو سفر ہی تھا کہ کسی نے کہا:اللّٰہ اکبر ! تو حسین نے بھی اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے پوچھا : کس لئے تم نے یکایک تکبیر کہی ؟ اس شخص نے کہا : عراق کے نخلستان دیکھ کر ہم نے خوشی سے تکبیر کہی تو قبیلہ بنی اسد کے ان دونوں لوگوں (عبداللہ بن سلیم اور مذری بن مشمعل) نے کہا : ہم نے اس مقام پر ابھی تک خرمہ اور کھجور کا ایک بھی درخت نہیں دیکھا۔ امام حسین علیہ السلام نے پوچھا : تم کیا سمجھتے ہو اس نے کیا دیکھا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا: ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس نے گھوڑ سواروں کے سرو گردن دیکھے ہیں ،اس پر اس مرد نے کہا : میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ آگے یہی ہوگا نہ کہ کھجوروں کے درخت ۔

____________________

١۔ ارشاد کے ص ٢٢٣ پر ہے کہ اس کے بعد آپ نے فرمایا :'' واللّٰہ لا یدعونی حتی یستخرجوا ھٰذہ العلقہ من جوفی فاذا فعلوا ذالک سلط اللہ علیھم من یذ لّھم حتی یکونوا أذل فرق الامم'' خدا کی قسم یہ مجھے نہیں چھوڑی ں گے یہا ں تک کہ میرے سرو تن میں جدائی کردی ں اور جب یہ ایسا کری ں گے تو اللہ ان پر ایسے لوگو ں کو مسلط کرے گا جو ان کو ذلیل و رسوا کری ں گے اور نوبت یہا ں تک پہنچے گی کہ یہ لوگ امت کے ذلیل ترین افراد ہوجائی ں گے ۔اعلام الوری میں بھی یہی موجود ہے، ص٢٣٢۔

٢۔ابو مخنف کابیان ہے کہ بنی عکرمہ کی ایک فرد'' لوذان'' نے مجھے خبر دی ہے کہ اس کے ایک چچا نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ (طبری، ج٥ ، ص ٣٩٩)

٣۔ اس جگہ اور'' واقصہ'' کے درمیان ٢ میل کا فا صلہ ہے اور یہ عراق سے پہلے ہے ۔قادسیہ سے پہلے سعدبن ابی وقاص یہیں ٹھہرے تھے۔یہ جگہ ایسے شخص سے منسوب ہے جسے شراف کہا جاتا ہے۔ اس جگہ سے پانی کا چشمہ پھوٹتا تھاپھر یہا ں بہت سارے بڑے بڑے میٹھے پانی کے کنوی ں کھودے گئے۔ معجم البلدان میں یہی مرقوم ہے ۔

۲۴۱

گیارہویں منزل : ذوحسم(١)

ان شرائط کو دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''أمالناملجأ نلجأ الیه نجعله فی ظهورنا و نستقبل من وجه واحد ؟''کیا کوئی ایسی پناہ گاہ نہیں ہے جس میں پناہ گزیں ہوکر ہم اس فوج کو اپنے پیچھے کردیں اور ان سے دفاع کے لئے فقط ایک ہی طرف سے آمنے سامنے ہوں ؟ ہم لوگوں (بنی اسد کے دونوں افرد) نے عرض کیا : کیوں نہیں ! ذوحسم کا علاقہ آپ کے اس طرف موجودہے، آپ اپنے بائیں جانب اس کی طرف مڑ جائیں ، اگر ہم لوگ جلدی سے ادھر مڑ گئے تو وہی ہوگا جو آپ چاہتے ہیں ۔یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے بائیں جانب کا رخ کیا تو ہم لوگ بھی ان کی طرف مڑ گئے اور ہم نے ذوحسم پہنچنے میں جلدی کی لہذا ان لوگوں سے قبل ہم لوگ ذوحسم میں موجود تھے۔ ان لوگوں نے جب دیکھا کہ ہم لوگوں نے اپناراستہ بدل دیا ہے تو وہ لوگ بھی ہماری جانب آنے لگے ۔

امام حسین علیہ السلام نے وہیں پر پڑاؤ ڈالا اور حکم دیا کہ خیمے نصب کئے جائیں ۔ جوانوں نے خیمہ لگانا شروع کردیا، ابھی تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ گھوڑ سواروں کے سر دکھائی دینے لگے،ان کے پرچم گویاپرندوں کے پروں کی طرح تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری فوج پہنچ گئی اور وہ ہزار گھوڑ سوار تھے جن کا سر براہ حر بن یزید تمیمی یربو عی تھا۔ دوپہر کی جھلسا دینے والی گرمی میں حر اپنے رسالے کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کے بالمقابل آکر کھڑا ہو گیا۔ ادھر حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب سروں پر عمامہ رکھے اپنی تلواروں کو نیام میں رکھے ہوئے تھے ۔

فوج کی تشنہ لبی دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے اپنے جوانوں سے فرمایا :'' اسقواالقوم وارووهم من الماء ورشّفوا الخیل ترشیفا'' اس فوج کو پانی پلاؤ اور انھیں سیراب کردو نیز ان کے

____________________

١۔ یہ ایک پہاڑی کا نام ہے۔ نعما ن یہیں آکر شکار کیا کر تا تھا جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔اس کے اور عذیب الہجانات کے درمیان کوفہ تک ٣٣ میل کا فاصلہ ہے جیسا کہ طبری میں بھی یہی ہے ۔سبط بن جوزی نے علما ء سیر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ (امام) حسین کو جناب مسلم علیہ السلام پر گزرنے والے واقعات کا کچھ بھی علم نہیں تھا یہا ں تک جب قادسیہ سے ٣ میل کے فاصلہ پر حر بن یزید ریاحی کے رسالہ سے سامنا ہوا تو اس نے مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کے قتل کی خبر امام حسین علیہ السلام کو دی اور مطلع کیا کہ ابن زیاد کوفہ میں آچکا ہے اور ان کوآمادہ کر رہا ہے اور ان سے کہاکہ واپس پلٹ جائی ں ۔(ملا حظہ ہو ص ٢٤٥طبع نجف)

۲۴۲

گھوڑوں کو بھی سیراب کردو۔حکم پاتے ہی حسینی جوا ن ہاتھوں میں مشکیں لئے اٹھے اور سب کو پانی پلانا شروع کر دیا یہاں تک کہ سب کو سیراب کرنے کے بعد بڑے بڑے پیالوں ، طشتوں اور پتھروں کے بڑے بڑے برتن پانی سے بھر کر گھوڑوں کے سامنے رکھ دئے گئے۔ جب وہ جانور تین چار، یاپانچ بار پانی میں منہ ڈال کرپھر اس سے اپنا منہ نکال لیتے تھے(١) تب یہ جوان پانی کے ان برتنوں کودوسرے جانوروں کے پاس لے جاتے تھے؛ ا س طرح سارے کے سارے گھوڑے سیراب ہوگئے ۔(٢) و(٣)

اسی اثنا میں نماز ظہر کا وقت آگیا(٤) تو حسین (علیہ السلام) نے حجاج بن مسروق جعفی کو اذان دینے کا حکم دیا۔ حجاج نے اذان دی، جب اذان ختم ہو گئی اور اقامت کا وقت آیا تو(امام حسین) جسم پر ایک لباس اور دوش پر عبا ڈالے اور پیروں میں نعلین پہنے باہر نکلے اور حمد وثنائے الہٰی کے بعد اس طرح گو یا ہوئے :

____________________

١۔ ترشیف کا حقیقی معنی یہی ہے ۔

٢۔ طبری کا بیان ہے کہ میں نے یہ واقعہ ہشام سے ابومخنف کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ابومخنف کہتے ہیں کہ ابوجناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم اورمذری سے یہ خبرنقل کی ہے ۔

٣۔طبری کا بیان ہے کہ ہشام نے کہا : مجھ سے لقیط نے علی بن طعان محاربی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ علی بن طعان بن محاربی کہتا ہے : میں حر کے رسالے میں موجود تھا لیکن میں اپنے لشکروالو ں میں سب سے آخر میں پہنچنے والو ں میں تھا ۔جب حسین نے پیاس کی شدت سے میری اور میرے گھوڑے کی حالت دیکھی تو فرمایا : أنخ الراویہ لیکن چونکہ '' راویہ '' ہم پانی پلانے کے معنی میں سمجھتے تھے لہٰذا ہم کچھ سمجھ نہ سکے تو آپ نے جملہ کو بدلتے ہوئے کہا : یابن أخ أنخ الجمل جان برادر اپنے اونٹ کو نیچے بیٹھاؤ تو میں نے اسے نیچے بیٹھادیا ؛ آپ نے فرمایا: : اشرب پانی پیو!لیکن میں جب بھی پانی پیناچاہتا تھا پانی مشک سے گر جاتا تھا، حسین (علیہ السلام) نے مجھ سے کہاأخنث السقاء چھاگل کو اپنی طرف موڑو! علی بن طعان محاربی کہتاہے کہ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا کہ میں کیا کرو ں تو خود حسین (علیہ السلام) کھڑے ہوئے اورچھاگل کو موڑ کرمیرے منہ سے لگایا ،میں نے پانی پیا، اس کے بعد اپنے گھوڑے کو پانی پلایا۔(طبری ،ج٥، ص ٤٠١ ؛ارشاد ، ص ٢٢٤ ؛خوارزمی ،ص٢٣٠)

٤۔ یہا ں پر ابو مخنف کے اخبار کا سلسلہ منقطع ہوجاتاہے لہذا چارو ناچار ہمیں اس مطلب کو مکمل کرنے کے لئے ہشام کلبی کی خبر سے مدد لینی پڑی جو اس نے لقیط سے اور اس نے علی بن طعان محاربی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٤٠١، ارشاد، ص ٢٢٤،خوارزمی، ص ٢٣٠١)

۲۴۳

''ایها الناس ! انها معذ رة الیٰ اللّٰه عزّوجل والیکم ، انّ لمء أتیکم حتی أتتنکتبکم وقدّ مت علّ رسلکم ، أن أقدم علینا فا نه لیس لنا امام ، لعلّ اللّٰه یجمعنابک علی الهدیٰ فان کنتم علیٰ ذالک فقد جئتکم ، فان تعطونما أطمئنّْ الیه من عهود کم و مواثیقکم أقدم مصرکم وان لم تفعلو أوکنتم لمقد می کا رهین انصرفت عنکم الیٰ المکان الذی أقبلت منه الیکم ! ''

اے لوگو ! خدا ئے عزوجل اور تم لوگوں کے سامنے میرا عذر یہ ہے کہ میں تمہا رے پاس خود سے نہیں آیا؛ بلکہ ایک کے بعد دوسرے خطوط مسلسل آتے رہے اور میرے پاس تمہارے نامہ بر آتے رہے کہ میں چلا آؤں کیونکہ ہمارے پاس کوئی رہبر موجود نہیں ہے، شاید آپ کی وجہ سے خدا ہمیں ہدایت پر یکجا کردے ۔اب اگر تم لوگ اپنے اس قول پر باقی ہو تو میں آگیا ہوں ۔ اگر تم کوئی قابل اطمینان عہد ومیثاق پیش کرو گے تو میں تمہارے شہر میں آؤں گا اور اگر تم ایسا نہیں کرتے ہو اور میرا آنا تمہیں نا پسند ہے تومیں اسی جگہ پلٹ جاتا ہوں جدھرسے تمہاری طرف آیا ہوں ۔

لیکن ان لوگوں نے امام علیہ السلام کی اس گفتار کا کوئی جواب نہ دیا اور موذن سے کہنے لگے : اقامت کہو تو موذن نے اقامت کہنا شروع کر دی ،حسین (علیہ السلام) نے حر سے کہا :''أتریدأن تصلّ بأ صحابک''کیا تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہو ؟ حر نے جواب دیا :نہیں ! آپ نماز پڑھائیں اور ہم لوگ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ (امام) حسین (علیہ السلام) نے اور ان لوگوں نے ساتھ ساتھ نماز اداکی۔ نماز کے بعدامام علیہ السلام اپنے خیمے میں چلے گئے۔ خیمے میں پہنچتے ہی آپ کے اصحاب پر وانے کی طرح شمع کے اردگرد آکر بیٹھ گئے ۔ادھر حربھی اپنے خیموں کی طرف روانہ ہو گیا اور وہاں پہنچ کر اس خیمہ میں داخل ہواجو اس کے لئے لگایاگیا تھا ۔جب وہ خیمہ میں آیا تو اس کی فوج کے بعض افراد اس کے پاس آکر بیٹھ گئے اور دیگر فوجی انہیں صفوں میں پلٹ گئے جہاں وہ موجودتھے پھر اس نے ان بقیہ فوجیوں کو بھی وہیں لوٹادیا ۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے جانور کی لگام سنبھالی اور گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے اسی کے سایہ میں بیٹھ گئے۔

۲۴۴

پھر جب عصر کا وقت آیا تو حسین (علیہ السلام) نے حکم دیاکہ کوچ کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔ اس حکم کے بعد اپنے مؤذن کو نماز عصر کے لئے اذان دینے کا حکم دیا ۔موذن نے اذان دی اور اقامت کہی،امام حسین (علیہ السلام) آگے بڑھے اور تمام لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز اداکی۔نماز ختم کرنے کے بعد آپ نے پھر حر کے لشکر کی طرف رخ کیا اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا :

''یاایهاالناس ! فانکم ان تتقواوتعرفوا الحق لاهله یکْن أرضیٰ للّه ، ونحن أهل البیت أولیٰ بولايةهٰذالامر علیکم من هٰؤلاء المدعین مالیس لهم ، والسائرین فیکم بالجور والعدوان ! ان أنتم کرهتمونا وجهلتم حقنا ، وکان رأیکم غیر ما آتتن کتبکم وقدمت به علی ّ رسلکم انصرفت عنکم ! ''

اے لوگو! اگر تم تقوی اختیار کرو اور حق کو صاحب حق کے لئے پہچانو توخدا کو یہ چیز سب سے زیادہ راضی کرنے والی ہے ۔ ہم اہل بیت اس نظام کی سربراہی اورولایت کے لئے ان لوگوں سے زیادہ سزاوارہیں جو فقط اس حکومت کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور تم میں ظلم و جور وستم کو روا رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود بھی اگر ہم تم لوگوں کو ناپسند ہیں اور تم لوگ ہمارے حق سے جاہل ہو اورتم لوگوں کا نظریہ ان لوگوں کے بر خلاف ہے جو اپنے خطوط کے ذریعہ مجھے یہاں تک لائے ہیں اور میرے لئے قاصد بھیجے ہیں تو میں ابھی تم لوگوں کی طرف سے منصرف ہوکر پلٹ جاتا ہوں ۔

حربن یزیدنے کہا : خداکی قسم! ان خطو ط کے بارے میں ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں ہے جن کاآ پ تذکرہ کررہے ہیں ۔امام حسین علیہ السلام نے کہا :یا''عقبة بن سِمعان ! أخرج الخْرجین'' (١)

____________________

١۔ یہ بات عنقریب بیان ہوگی کہ امام علیہ السلام جب دشمنو ں کی درمیان روز عاشورا خطبہ دے رہے تھے اور ان پرحجت تمام کررہے تھے کہ ان لوگو ں نے خود امام علیہ السلام علیہ السلا م کو خط لکھا ہے تو ان لوگو ں نے کہا : آپ کیاکہہ رہے ہیں ؟ ہم کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں تو اس وقت حر نے کہا تھا : کیو ں نہیں ! خدا کی قسم ہم لوگو ں نے آپ کو خط لکھا تھا اور ہم ہی لوگ آپ کو یہا ں لائے ہیں ، خدا باطل اور اہل باطل کا برا کرے، خدا کی قسم! میں دنیا کو آخرت پر اختیار نہیں کرسکتا یہ کہہ کر حر نے اپنے گھوڑے کو موڑ دیا اور امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں داخل ہوگیا۔(ص٢٥١)

۲۴۵

اے عقبہ بن سمعان ! ذراخورجین نکالو! عقبہ بن سمعان نے خورجین نکالی تو وہ خطوط سے بھری تھی۔ امام علیہ السلام نے ان تمام خطوط کو ان لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا ۔

حرنے کہا: ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے آپ کوخط لکھا تھا؛ ہم کو تو فقط یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب ہمارا آپ سے سامنا ہو تو ہم کسی طرح آپ سے جدا نہ ہو ں یہاں تک کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں پیش کردیں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:''الموت أدنی الیک من ذالک !'' تمہاری موت اس فکر سے زیادہ نزدیک ہے پھرآپ نے اپنے اصحاب سے کہا :''قوموا فارکبوا ! '' اٹھو اور سوار ہوجاؤ تو وہ سب سوار ہوگئے اور خواتین کے سوار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ سوار ہوکر جب یہ نورانی قافلہ چلنے لگا اورمدینہ کی طرف پلٹنے لگا تو حر کی فوج راستہ روک کر سامنے آکر کھڑی ہوگئی تو امام حسین علیہ السلام نے حرسے کہا :'' ثکلتک أُمک ! ماترید ؟'' تیری ماں تیرے غم میں عزادار ہو!تو کیا چاہتا ہے ؟

حرنے جواب دیا :''اماواللّه لو غیرک من العرب یقولها لی'' خداکی قسم! اگر آپ کے علاوہ عرب میں کسی اور نے یہ جملہ کہاہوتا جو آپ نے مجھ سے کہا ہے اور اس حال میں ہوتا جس میں ابھی آپ ہیں تو میں بھی اسے نہ چھوڑتا اور اس کی ماں کو اس کے غم میں بیٹھادیتا او ر اس سے وہی کہتا جو مجھے کہناچاہیے لیکن خدا کی قسم! میری قدرت نہیں ہے کہ میں آپ کی مادر گرامی کے سلسلہ میں کچھ کہوں مگر یہ کہ ان کا تذکرہ جس قدر اچھائی سے ہوسکتا ہے وہی کرسکتا ہوں ۔(١) اما م حسین علیہ السلام نے دوبارہ حر سے پوچھا : فما ترید ؟ پس تم کیا چاہتے ہو ؟

حرنے کہا: ''أرید واللّٰه ، أن أنطلق بک الیٰ عبیداللّٰه بن زیاد '' خدا کی قسم میرا ارادہ یہ ہے کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے چلوں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''اذن والله لا أتبعک'' ایسی صورت میں خدا کی قسم میں تمہاری ہمراہی نہیں کروں گا ۔

____________________

١۔ اس واقعہ کو ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین کے ص٧٤،طبع نجف پر ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔

۲۴۶

حرنے جواب دیا:'' اذن واللّٰه لا أدعک'' ایسی صورت میں خدا کی قسم! میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا ۔

جب بات زیادہ ہوگئی اوردونوں کے درمیان اسی طرح رد وبدل ہونے لگی تو حر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا :مجھے آپ سے جنگ کا حکم نہیں دیا گیا ہے، مجھ سے فقط یہ کہا گیا کہ آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں اور آپ کو کوفہ تک لے آوں ۔ اب اگر آپ انکار کررہے ہیں تو ایک ایسا راستہ انتخا ب کیجیے جس سے آپ نہ کوفہ جاسکیں اور نہ ہی مدینہ پلٹ سکیں ۔میرے خیال میں آپ کے اور ہمارے درمیان یہی منصفانہ رویہ ہوگا پھر میں عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھ کر حالات سے آگاہ کروں گا اور آپ کی مرضی ہو گی تو یزید بن معاویہ کو خط لکھئے گا یا پھر عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھئے شاید خداوند عالم کوئی ایسا راستہ نکال دے جس کی وجہ سے مجھ کو آپ سے درگیر ہونے سے نجات مل جائے۔

آپ یہاں سے عْذیب اور قادسیہ کے راستہ سے نکل جائیے (اس وقت آپ لوگ ذوحسم میں موجود تھے) ذوحسم اور عذیب کے درمیان ٣٨میل کا فاصلہ تھا۔امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب اس راستہ پرروانہ ہوگئے اور حر بھی اسی راستہ پر چل پڑا۔(١)

بارہویں منزل : البیضة(٢)

اب یہ نورانی قافلہ نہ تو مدینہ کے راستے پر گامزن تھا۔اورنہ ہی کوفہ کی طرف اپنے قدم بڑھارہا تھابلکہ ایک تیسری طرف رواں دواں تھا ۔چلتے چلتے ایک منزل آئی جسے ''بیضہ '' کہتے ہیں ۔یہاں پر حضرت نے اپنے اصحاب اور حرکے لشکر کو مخاطب کر کے ایک خطبہ دیا۔ حمد و ثنائے الہٰی کے بعد آپ نے فرمایا:

''ایهاالناس! ا نّ رسول اللّٰه صلی الله علیه(وآله) وسلّم قال :'' من رأی سلطاناًجائر اً مستحلاً لحرم اللّٰه،ناکثاً لعهد اللّٰه ، مخالفاًلسنّة رسول اللّٰه، یعمل فی عباداللّٰه با لاثم والعدوان فلم یغيّر علیه بفعل ولا قول ، کان حقاً علی اللّٰه أن یدخله

____________________

١۔ ہشام کے حوالے سے جوباتی ں ہم بیان کررہے ہیں وہ یہا ں پر ختم ہوجاتی ہیں ۔(ارشاد،ص٢٢٥،الخواص ،ص ٢٣٢)

٢۔ یہ جگہ'' واقصہ'' اور'' عذیب الھجانات ''کے درمیان ہے ۔

۲۴۷

مدخله''ألاوانّ هولاء قد لزموا طاعة الشیطان وترکو ا طاعة الرحمٰن و أظهروا الفساد و عطّلواالحدود ، واستأ ثروا بالف ئ، وأحلوا حرام اللّٰه و حرّموا حلال اللّٰه وأنا أحق من غیری''

قد أتتن کتبکم وقد مت علی رسلکم ببیعتکم أنکم لا تسلمونی ولا تخذلون ، فان تممتم علی بیعتکم تصیبوا رشدکم ، فأنا الحسین بن عل وابن فاطمه بنت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآ له) وسلم نفسمع أنفسکم وأهل مع أهلیکم ، فلکم فیّ أسوة ، وان لم تفعلوا و نقضتم عهدکم ، وخلعتم بیعتی من أعناقکم فلعمرما هی لکم بنکر ، لقدفعلتموها بأب و أخ وابن عم مسلم !والمغرور من ا غترّبکم ؛ فحظکم أخطاتم،ونصیبکم ضيّعتم( ''ومن نکث فانما ینکث علی نفسه'' ) (١) وسیغن اللّٰه عنکم والسلام علیکم ورحمةاللّٰه و برکاته''(٢)

اے لوگو! رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی ایسے ستم گر حاکم کو دیکھے جو حرام خدا کو حلال سمجھتا ہو، الہٰی عہد وپیمان کو توڑنے والاہو ، اللہ کے رسول کی سنتوں کا مخالف ہو ، گناہ و ستم کے ساتھ بندگان خداسے پیش آتاہواور وہ ایسے پیکر ظلم وجور کے خلاف اپنے قول و فعل کے ذریعہ کوئی تغیر احوال کا اظہار نہ کرے تو خدا وند عالم کو حق حاصل ہے کہ ایسے شخص کو جہنم میں اسی ظالم کے ہمراہ داخل کردے ؛ آگاہ ہوجاؤ کہ ان لوگوں نے شیطان کی پیروی کرلی ہے اور رحمن کی اطاعت کو ترک کردیا ہے ، فساد کو آشکار ، حدود الٰہی کو معطل، انفال اور عوام الناس کے اموال کو غصب ، حلال خدا کو حرام اور حرام خداکو حلال بنادیا ہے اور میں اس راہ و روش کو بدلنے کے لئے سب سے زیادہ سزاوار ہوں ۔

تم لوگوں نے ہمیں خط لکھ کر بلایا ہے اور تمہارے نامہ بر تمہاری بیعتوں کے ساتھ میرے پاس آئے اور کہا: تم لوگ مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑوگے اور کبھی بھی میری مددو نصرت سے دست بردار نہیں

____________________

١۔سورہ فتح ٨

٢۔ابومخنف نے عقبہ بن ابی عزار کے حوالے سے اس خبر کو نقل کیا ہے۔

۲۴۸

ہوگے۔ اگر تم لوگ اپنے عہد وپیمان پر وفاداری کا ثبوت دیتے ہو تو رشد و سعادت تمہیں نصیب ہوگی کیونکہ میں حسین علی کا لال اور فاطمہ، دختر پیغمبر اسلام کافرزندہوں جس کی جان ،حق کی راہ میں تمہاری جانوں کے ساتھ ہے اور میرا گھرانہ تمہارے گھرانے کے ہمراہ ہے کیونکہ میں تم لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہوں اور اگر تم نے اپنے عہد وپیمان کو توڑدیا اور اپنی گردنوں سے ہماری بیعت کے قلادہ کو اتاردیا تو قسم ہے میری جان کی کہ یہ تمہارے لئے کوئی عارکی بات نہیں ہے؛ کیونکہ تم میرے بابا امیر المومنین اور میرے بھائی حسن اور چچا زاد بھائی مسلم کے ساتھ کر چکے ہو۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ شخص سخت فریب خوردہ ہے جو ان سب باتوں کے بعد تم لوگوں پر بھروسہ کرے ؛ تم لوگوں نے اپنی زندگی کے حصہ کو کم اور اپنے حقوق کو ضائع کردیا ہے۔ '' جو عہد کو توڑے گا وہ خوداپنے نقصان کے لئے عہد شکن ہوگا '' اور خدا تم لوگوں کی مددو نصرت سے بے نیاز ہے ۔ والسلام علیکم و رحمة اللہ وبراکاتہ

امام حسین علیه السلام کي اس بصیرت افروز بیان کي بعد حر جو سفر میں آپ کي همراه تهاآپ کي پاس آیا اور کهني لگا :''یاحسین !انی أذکّرک اللّٰه فی نفسک فانی اشهد لئن قاتلت لتُقْتَلَنَّ ولئن قوتلت لتهلکن فیما أریٰ'' اي حسین ! آپ کو خدا کی یاد دلاتا هوں که آپ دوباره اپني باري میں فکر کریں !کیونکه میں گواه هوں که میري نظریه کي مطابق اگر آپ ني ان لوگوں سي جنگ کی تو وه لوگ آپ کو قتل کرالیں گي اور اگر آپ قتل کردئي گئي تو تباه و برباد هوجائیں گي ؛یه سن کر امام حسین ني فرمایا : ''أفبالموت تخوّفن ! وهل یعدوبکم الخطب ان تقتلون ! ماأدری ما أقول لک ! ولکن أقول کما قال أخو الا وس لابن عمه ولقیه وهو یرید نصرة رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم فقال له : این تذهب ؟ فانک مقتول! فقال:

سأمضی وما بالموت عار علی الفتٰی

اذا ما نوی حقاً وجاهدمسلماً

وآسی الرجال الصالحین بنفسه

وفارق مثبوراً یغش و یرغماً(١)

____________________

١۔ابن اثیر نے الکامل میں اور شیخ مفید نے ارشاد میں ص ٢٢٥پر ان اشعار کے علاوہ ایک شعر کا اور اضافہ کیا ہے ۔

فان عشت لم اندم وان مت لم الم

و کفی بک ذلاًان تعیش و ترغما

اگر میں زندہ رہا تو نادم نہیں ہو ں گا اور اگر دنیا سے گزر گیا تو ملامت نہیں کیا جاؤ ں گا اور ذلت کے لئے یہی کافی ہے کہ تو زندہ رہے اور ذلیل ہو ۔

۲۴۹

کیا تو مجھے موت سے ڈراتاہے ؟ کیا اس سے زیادہ کچھ ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں کے بلانے پر میراآنا اور ظلم وستم کے خلاف میرانبرد آزماہونا سبب بنے گا کہ تم لوگ مجھے قتل کردوگے۔میں نہیں سمجھتا کہ میں تم سے کیا کہوں ؛ لیکن میں وہی کہتا ہوں جو قبیلہ اوس کے ایک جوان نے اپنے چچازاد بھائی سے اس وقت کہا تھا جب وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مددونصرت کے لئے جارہا تھا۔ اس کے چچا زاد بھائی نے اس سے ملاقات کرتے ہوئے کہا : تم کہاں جارہے ہو ؟ مجھے یقین ہے کہ تم قتل ہوجاؤگے تو اس جوان مرد نے جواب دیا تھا :

میں تو پیغمبر خدا کی طرف جارہاہوں اور موت اس جوان کے لئے ننگ و عار نہیں ہے جس کی نیت حق اور جو ایک مسلمان کی حیثیت سے جہاد کے لئے جارہا ہو ،وہ نیک وصالح افراد کی مصیبت کا ہمراہی ہے اورا س سے جداہے جو ہلاک ہوچکا ہے اور اس کی زندگی ذلت و رسوائی کے ساتھ بسر ہورہی ہے ۔

جب حر نے یہ کلمات سنے تو کنارہ کش ہوگیا اور اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے ہمراہ ایک سمت میں چلنے لگے اور حر اپنے فوجیوں کے ساتھ دوسری طرف آگے بڑھنے لگا۔ چلتے چلتے یہ لوگ اس منزل تک پہنچ گئے جسے'' عذیب الھجانات'' کہتے ہیں ۔

تیرہویں منزل ؛'' عذیب الھجانات ''(١)

یہ قافلہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق ''ذوحسم'' کے بعد ''بیضہ ''سے ہوتے ہوئے'' عذیب الھجانات'' تک پہنچا ۔وہاں یہ قافلہ ان چار سواروں سے روبروہوا جو کوفہ سے آرہے تھے جن کے راہنما طرماح بن عدی تھے۔ جب یہ لوگ امام حسین علیہ السلام کے پاس پہونچے تو اپنے گھوڑے پر سوار یہ اشعار پڑھ رہے تھے :

____________________

١۔'' عذیب'' یہ بنی تمیم کی ایک گھاٹی ہے جو عراق کی سرحدہے۔ یہ جگہ ایرانیو ں کے اسلحہ خانہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس کے اور ''قادسیہ'' کے درمیان ٦میل کا فاصلہ ہے۔ علاقہ '' حیرہ '' کے سربراہ '' نعمان ''کے گھوڑے اسی جگہ پر چرائے جاتے تھے۔کہا جاتا ہے ھجانات ھجین کی جمع ہے جس کے معنی غیر اصل کے ہیں یعنی جو لوگ نجیب الطرفین نہ ہو ں ۔

۲۵۰

یا ناقتی لا تُذعری من زجری

و شمّری قبل طلوع الفجر

بخیر رکبان و خیر سفر

حتی تحلّی بکر یم النجر

الماجد الحرّ رحیب الصدر

اتنی به اللّه لخیر أ مر

ثمّة أبقاه بقاء الدهر

اے میرے ناقے! میرے جلدی جلدی چلنے پر خوف زدہ نہ ہو بلکہ تو تیز تیز چل تاکہ سپیدہ سحری تک تو بہترین سوار اور بہترین مسافر تک پہنچ جا؛ یہاں تک کہ اس ذات تک رسائی ہوجائے جس کا خاندان کریم ، بزرگ ، آزاد اور فراخ دل ہے؛جسے خداوندمتعال بہترین کام کے لئے یہاں لایا ہے، اسی لئے خدا اسے اس وقت تک باقی رکھے گا جب تک یہ دنیا اور زمانہ باقی ہے ۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''أما واللّٰه اِنّ لأ رجوأن یکون خیراً ما أراداللّٰه بنا قُتِلنا أو ظفرنا'' خدا کی قسم خدا وندعالم جو ہمارے لئے چاہتا ہے وہی ہما رے لئے خیر ہے؛ چاہے ہم قتل کر دیئے جائیں یا ظلم وستم کے خلاف ظفر یاب ہو جائیں ۔

یہ چار افراد چونکہ کوفہ سے آئے تھے اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مددو نصرت کا ارادہ رکھتے تھے لہٰذا حر بن یزیدسامنے آیا اور امام علیہ السلام سے کہا : یہ لوگ جو کوفہ سے آئے ہیں آپ کے ہمراہ نہیں تھے لہٰذا یا تو میں انھیں قید کرلوں یا کوفہ لو ٹا دوں ۔

تو امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :''لأمنّعنهّم مما أمنع منه نفس، انما هولا ء أنصار وا عوانی وقد کنت أعطیتن ان لا تعرض ل بشیء حتی یاتیک کتاب من ابن زیاد''

میں ان کی جانب سے اسی طرح دفاع اور مما نعت کروں گا جس طرح اپنا دفاع اور اپنے سلسلے میں مما نعت کررہا ہوں ؛ کیونکہ یہ میرے ناصر ومدد گار ہیں اور تم نے عہد وپیمان کیا ہے کہ جب تک تمہارے پاس ابن زیاد کا خط نہیں آجاتا اس وقت تک تم مجھ سے درگیر نہ ہو گے ۔

حرنے کہا: ٹھیک ہے لیکن یہ آپ کے ساتھ نہیں آئے ہیں ۔

۲۵۱

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا : ''ہم أصحابی وہم بمنزلة من جاء مع فان تممت علیّ ما کان بین وبینک والا نا جز تک '' یہ میرے اصحاب ہیں اورانہیں لوگوں کی طرح ہیں جو میرے ساتھ آئے ہیں ۔اگرتم نے اس عہد وپیمان کو بر قراررکھا جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہوا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم تمہارے سامنے میدان کا رزار میں اتر آئیں گے۔یہ سن کر حر ان لوگوں سے دست بردارہو گیا ۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام ان لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرما یا :''أخبر ونی خبرالناس وراء کم '' جن لوگوں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبر سناؤ ۔

تو مجمّع بن عبد اللہ عائذی(١) جو انہیں چار میں سے ایک تھے اور کوفہ سے یہاں آئے تھے، نے آپ سے عرض کیا :'' أما ا شراف الناس فقد اُعظمت رشوتهم ومُلِئَت غرائر هم ، یستمال ودّهم ویستخلص به نصیحتهم فهم ألب واحد علیک ! وأما سائرالناس بعد،فاِنَّ أفئد تهم تهو الیک وسیو فهم غداً مشهورة علیک'' اشراف اور سر برآوردہ افراد کو رشوت کی خطیر رقم دیدی گئی ہے، ان کے تھیلوں کو بھر دیا گیاہے، اس طرح سے ان کی خیر خواہی کواپنی طرف متوجہ کر لیا گیا ہے اور ان کو اپنا محبوب بنا لیا گیاہے۔ یہ گروہ وہ ہے جو آپ کے خلاف دشمن کے ہمراہ ہے اور بقیہ لوگ وہ ہیں جن کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلوار یں کل آپ کے خلاف کھنچی ہوں گی ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا :'' أخبرونی فهل لکم برسول الیکم ؟ '' کیا میرا کوئی پیغام رسان تم تک پہنچا ہے ؟ تو ان لوگوں نے پو چھا : کس پیغام رساں کی بات کررہے ہیں ؟ امام حسین نے فر مایا : قیس بن مسہر صیداوی ان لوگوں نے جواب دیا : ہاں !ان کو حصین بن تمیم نے گرفتار کر کے عبید اللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔جب وہ وہاں پہنچے تو عبیداللہ نے انھیں حکم دیا کہ وہ آپ اور آپ کے بابا پر لعنت بھیجیں ۔ انھوں نے آپ پر اور آپ کے بابا پر درود سلام بھیجا ، ابن زیاد اور اس کے باپ پر لعنت بھیجی، لوگوں کو آپ کی مدد و نصرت کے لئے بلایا اور انھیں خبر دی کہ آپ آرہے ہیں ۔اس حالت کو دیکھ کر ابن زیاد نے حکم دیا کہ انھیں چھت پر سے نیچے پھینک دیا جائے لہذا آپ کودار الامارہ کے چھت سے نیچے پھینک دیاگیا ۔

____________________

١ ۔شاید یہ چار لوگ ، جابر بن حارث سلمانی ، عمروبن خالد صید اوی اور سعد کا غلام ہو ں جنکے بارے میں ابو مخنف کا بیان ہے کہ ان لوگو ں نے جنگ کے پہلے ہی مرحلہ میں مقاتلہ کیا اور ایک ہی جگہ شہید ہوگئے ۔(طبری، ج٥ ،ص٤٤٦)

۲۵۲

یہ جملہ سننے کے بعد امام حسین علیہ السلام کی آنکھیں آنسؤں سے ڈبڈباگئیں اور آپ کسی طرح اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکے پھر آپ نے فرمایا :''مِنْهْمْ مَنْ قَضَیٰ نحبه وَ مِنْهْمْ مَنْ يَنْتَظِرْوَ مَا بَدَّلْوْا تَبْدِيْلَا ً '' (١) اللّهم اجعل لنا ولهم الجنةنزلاً واجمع بینناوبینهم فی مستقر رحمتک ورغائب مذخورثوابک ''ان میں سے بعض وہ ہیں جو (قربانی دے کر)اپنا عہد وفاکرگئے اور ان میں سے بعض (حکم خداکے) انتظار میں بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے (اپنا موقف) ذرا بھی نہیں تبدیل کیا ، خدایا ! بہشت کو ہمارے اور ان کے نزول کی جگہ قرار دے اور اپنی رحمتوں کی جایگاہ میں ہمیں اور انھیں یکجا کردے اوراپنے بہترین ثواب کے ذخیرہ سے بہرہ مند فرما!(٢) اس دعا کے بعد طرماح بن عدی امام حسین علیہ السلام کے قریب آئے اور عرض کی :'' أنّی واللّٰه لا نظر فماأری معک أحداً ولو لم یقاتلک الا هؤلاء الذین أراهم ملا زمیک لکان کفیٰ بهم وقد رأیت قبل خروج من الکوفة الیک بیوم ظهر الکوفة،و فیه من الناس مالم ترعینا فی صعید واحدجمعاًاکثرمنه ، فسألتْ عنهم ، فقیل : اجتمعوا لیعرضوا ثم یسرّحون الی الحسین ، فأنشدک ان قدرت علی أن لا تقدم علیهم شبراً الافعلت ! فان أردت أن تنزل بلداً یمنعک اللّٰه به حتی تری من رأیک و یستبین لک ماأنت صانع ، فسرحتی أنزلک مناع جبلنا الذی یدعی ''أ جا ئ'' (٣) فأسیر معک حتی أنزلک القُرَيّةَ'' (٤)

خدا کی قسم میں جو دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ آ پ کے سا تھ زیادہ یار و مدد گا ر نہیں ہیں اور اگر انہیں لوگوں کے علاوہ جنہیں میں ساتھ ساتھ دیکھ رہا ہوں کوئی اور نہ ہو ا تو یہی لوگ ان کے لئے کافی ہیں ۔ کوفہ

____________________

١۔سورہ احزاب٢٣

٢۔ ابو مخنف کابیان ہے کہ عقبہ بن ابی عیزار نے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤٠٣ ، ارشاد ، ص ٢٢٥ ، طبع نجف)

٣۔یہ ایک شخص کا نام ہے جس کے نام پرعلاقہ طئی کا پہاڑ موسوم ہے۔ یہ طئی کے مغربی علاقہ میں سمیرا ء پہاڑ کے بائی ں جانب ہے ۔

٤۔یہ قریہ کی اسم تصغیر ہے اور طی کے علاقہ میں ایک جگہ کا نام ہے ۔

۲۵۳

سے نکل کر آپ کی طرف آنے سے ایک دن قبل میں نے کوفہ کے پیچھے بہت سارے لوگوں کودیکھا جس سے پہلے ایک ہی جگہ پرمیں نے اتنا جم غفیر نہیں دیکھا تھا۔میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہ مجمع کیسا ہے ؟کسی نے کہا یہ لوگ اس لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ فوجی ٹریننگ لے سکیں اور پھر حسین سے جنگ کے لئے کوچ کریں لہٰذا میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ اگر آپ قادر ہیں تو ایک بالشت بھی ان لوگوں کی طرف نہ بڑھیں ۔ اگر چاہتے ہیں کہ کسی ایسے شہر میں جائیں جہاں خدا آپ کی جان کو ان ظالموں کے چنگل سے نجات دیدے اور پھر آپ دیکھیں کہ آپ کا منشاء کیا ہے اور آپ کے لئے موقعیت پوری طرح واضح ہوجائے تو آپ ہمارے ساتھ چلیں تاکہ ہم آپ کو اپنی طرف ایک پہاڑی علاقہ میں اتار دیں جہاں کوئی پر بھی نہیں مار سکتا، جسے ''آجائ'' کہتے ہیں ۔میں وہاں تک آپ کے ساتھ چلوں گا اور آپ کو وہاں کے ایک گاؤں میں جس کا نام ' ' قر یہّ'' ہے اتار دوں گا ۔

امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا :'' جزاک اللّه وقومک خیراً ! انه قد کان بیننا وبین هٰؤ لاء القوم قول لسنا نقدرمعه علی الا نصراف ولا ندری علام تنصرف بنا وبهم الاُمور فی عاقبة !'' خدا تمہیں اور تمہاری قوم کو جزائے خیر دے!حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان ایک قول وقرارہے جس کی وجہ سے ہم ان سے جدا نہیں ہو سکتے اور ہمیں یہ نہیں معلوم کہ عاقبت کار ہمارے اور ان کے امور کو کہاں لے جائے گی۔

طر ّماح کا بیان ہے کہ یہ سننے کے بعد میں نے ان کو الوداع کیا اور کہا: خدا آپ کو جن ّ وانس کے شر سے دور رکھے(١) اور حسین(علیہ ا لسلام) آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ قصر بنی مقاتل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ جمیل بن مرید نے طر مّاح کے حوالے سے مجھ کو یہ خبر دی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٤٠٦) اور پوری خبر یہ ہے کہ طرمّاح کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : میں نے کوفہ سے اپنے گھر والو ں کے لئے کچھ آذوقہ فراہم کیا ہے جن کا نفقہ مجھ پر واجب ہے لہذامیں وہا ں پہنچ کر اسے رکھ کر انشاء اللہ فوراً آپ کی طرف پلٹ رہا ہو ں ۔اگر میں آپ سے ملحق ہو گیا تو خدا کی قسم میں ضرور آپ کی مدد کرنے والا ہو ں گا ۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ایسا کرناچاہتے ہو تو جلدی کرو اللہ تم پر رحمت نازل فرمائے ! طر ماح کہتے ہیں : جب میں اپنے گھر والو ں کے پاس پہنچا تو آذوقہ ان کے پاس رکھا ، جو چیز ان کے لئے ضروری اور ان کی بہتری میں تھی اسے وہا ں فراہم کیا اور ان سے وصیت کی پھر اپنے ارادہ کو ان کے سامنے پیش کر کے فوراً لوٹ گیا یہا ں تک کہ جب میں '' عذیب الہجانات'' تک پہنچا تو سماعہ بن بدر نے امام علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنائی تو میں واپس پلٹ گیا۔ (طبری ،ج٥ ، ٤٠٦)

۲۵۴

چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل(١)

''عذیب الہجا نات ''سے چل کر حسین بن علی علیہ الصلوٰة والسلام قصر بنی مقاتل تک پہنچے۔ وہاں آپ نے پڑاؤ ڈالاتو دیکھاکہ وہاں ایک خیمہ لگا ہواہے،(٢) امام علیہ السلام نے فرمایا :''لمن هٰذا الفسطاط ''یہ خیمہ کس کا ہے ؟ تو کسی نے کہا : عبید اللہ بن حر جعفی(٣) کا خیمہ ہے ۔ امام علیہ السلا م نے فرمایا :''ادعو ه ل ی'' اسے میرے پاس بلاؤ، پھر ایک پیغام ر ساں کو اس کے پاس روانہ کیا ،جب وہ پیغام رساں وہاں پہنچا تو اس نے کہا : یہ حسین بن علی ہیں جو تم کو بلارہے ہیں ، عبیداللہ بن حر جعفی نے کہا :'' انّاللّٰہ واناالیہ راجعون '' خدا کی قسم میں کوفہ سے نکلا تو مجھے یہ گوارا نہیں تھا کہ کسی جگہ حسین سے ملاقات ہو ، واللہ میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھے دیکھیں یا میں ان کو دیکھوں ۔ پیغام رساں واپس پلٹا اور اس نے آکر امام کو اس کے بارے میں خبر دی۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام خود اٹھے، نعلین منگوائی،اسے پہن کر کھڑے ہوئے اوربنفس نفیس اس کے پاس گئے ،خیمہ میں داخل ہوکر اسے سلام کیا پھر اسے اپنے ساتھ قیام کی دعوت د ی تو ابن حرنے اپنی با توں کو پھردھرایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :'' فان لا تنصرنا فاتّق اللّٰه أن تکون ممن یقاتلنا فواللّٰه لا یسمع واعیتنا أحد ثم لا ینصرنا الا هلک'' اگر تم میری مدد نہیں کرناچاہتے ہوتو خدا سے خوف کھا ؤ کہ کہیں مجھ سے جنگ کرنے والوں میں نہ ہو جاؤ ؛کیو نکہ خدا کی قسم کو ئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو میری فریا دسن کر میری مدد نہ کرے مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو جائے گا ۔یہ کہہ کر آپ اس کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے۔(٤)

____________________

١۔ معجم میں ہے کہ یہ جگہ چند دیہا تو ں اور'' قطقطا نہ'' اور'' عین التمر'' کے درمیان واقع ہے۔

٢۔ ابو مخنف نے اس طرح بیان کیا ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٤٠٧)

٣۔اس شخص کے حالات کتاب کے آخری حصہ میں بیان کئے جائی ں گے۔

٤۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے مجالد بن سعید نے عامر شعبی سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص٤٠٧ ، ارشاد ص، ٢٢٦)

۲۵۵

عقبہ بن سمعان کا بیان ہے کہ رات کے آخری حصہ میں امام حسین (علیہ السلام) نے پا نی بھر نے کا حکم دیا اور جب چھاگلیں بھری جا چکیں تو آپ نے ہم لوگوں کو کوچ کر نے کا حکم دیا اور ہم نے وہی کیا۔ جب ہم لوگ'' قصر بنی مقاتل ''سے کوچ کررہے تھے اور ہمارا سفر جاری تھا تو کچھ دیر کے لئے حسین کی آنکھ لگ گئی ،جب آنکھ کھلی تو آپ یہ فر مارہے تھے:'' انا للّٰہ واناالیہ راجعون والحمد للّٰہ رب العا لمین'' اس جملہ کی آپ نے دو یا تین مرتبہ تکر ار فرما ئی ، یہ سن کر آپ کے فرزند علی بن حسین (علیہ السلام) آگے بڑھے جو اپنے گھوڑے پر سوارتھے اور آپ نے بھی اپنے بابا کے جملہ کی تکرار''اناللّٰه واناالیه راجعون والحمد للّه رب العالمین'' کرتے ہوئے فرمایا :''یا ابت جُعلت فداک ممّ حمد ت واستر جعت''ب ابا جان! آپ پر میری جان قربان ہو،کیا سبب ہو اکہ آپ نے یکبارگی حمد الہٰی کی اور زبان پر کلمۂ استرجاع جاری کیا ؟

امام علیہ السلام نے جواب دیا:''یا بُن ان خفقت برأس خفقة فعنّ ل فارس علی فرس فقال : القوم یسیرون والمنایا تسر الیهم ، فعلمت أنها أنفسنا نعیت الینا !'' اے میرے لال !تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگ گئی تھی تو میں نے خواب کے عالم میں دیکھا کہ ایک گھوڑ سوار میرے سامنے نمودارہوا اور اس نے کہا یہ قوم آگے بڑھ رہی ہے اور موت ان کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے ،اس سے مجھ کو معلوم ہوگیا یہ مجھے میری شہادت کی خبر دے رہاہے۔

علی بن حسین علیہ السلام :''یاأبت لا أراک اللّٰه سوئً السنا علی الحق؟ ''اے بابا ! میں نہیں سمجھتا کہ اللہ آپ کے لئے برا کرے گا کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟

امام حسین علیہ السلام :''بلیٰ والذی الیه مرجع العباد ! ''کیوں نہیں (ہم ہی حق پر ہیں ) قسم ہے اس ذات کی جس کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔

علی بن الحسین :''یاأبت اذاًلا نبالی ، نموت محقین' 'بابا جان ایسی صورت میں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کیوں کہ ہماری موت حق پر ہے ۔

امام حسین :جزاک اللّٰه من ولد خیر ماجزی ولداً عن والده ، خداوند متعال تمہیں وہ بہترین جزا دے جو باپ کی دعا سے بیٹے کو نصیب ہوتی ہے ۔

۲۵۶

اسی گفتگو کے درمیان کچھ دیر کے بعد سپیدہ سحری نمودار ہوئی ۔ آپ نے صبح کی نماز ادا کی اور دوبارہ جلدی سے سب اپنی اپنی سواریوں پر بیٹھ گئے اورآپ اپنے اصحاب کو اس سر زمین کے بائیں جانب چلنے کا اشارہ کیا تاکہ انہیں لشکر حر سے جدا اور متفرق کر سکیں لیکن حر بن یزید کی جستجو یہ تھی کہ آپ کوکسی طرح کوفہ سے نزدیک کردے لہٰذا وہ آپ لوگوں کو پراکندہ ہونے سے روک کر واپس پلٹانے لگا اور کوفہ کی طرف شدت سے نزدیک کرنے لگا،اصحاب حسینی نے اس سے ممانعت کی اوران لوگوں کو دور ہٹاتے رہے اور آپ اسی طرح اپنے چاہنے والوں کو بائیں طرف کرتے رہے اور اسی کشمکش میں نینوا آگیا ۔

قربان گاہ عشق :نینوا(١)

چودہ منزلیں ختم ہوچکی تھیں حسین بن علی (علیہما السلام) نینوامیں اترچکے تھے کہ یکایک ایک سوار اصیل و نجیب گھوڑے پر سوار ، اسلحوں سے لیث اور دوش پر کمان ڈالے کوفہ کی طرف سے نمودار ہوا سب کے سب کھڑے اس کاانتظار کرنے لگے؛ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے حر اور اس کے لشکر والوں کو سلام کیا لیکن حسین اور ان کے اصحاب کو سلام نہیں کیا پھر اس نے عبیداللہ بن زیا دکا خط حر کو پیش کردیا اس خط میں یہ عبارت موجود تھی ۔

اما بعد، فجعجع (٢) بالحسین حین یبلغک کتاب ویقدم علیک رسول ، فلا تنزله الا بالعراء فی غیر حصن وعلی غیر ما ء و قد امرت رسول أن یلزمک ولا یفارقک حتی یاتین بأنفاذک امر، والسلام ''

____________________

١۔ یہ کربلا کاایک علاقہ ہے جو اواخر قرن دوم تک آباد رہا۔

٢۔ ابن منظور نے لسان العرب میں اصمعی سے نقل کیا ہے :'' جعجع ای احبسہ'' جعجع کے معنی یہ ہیں کہ قید کرلو اور ابن فارس نے مقاییس اللغة، ج ١ ،ص ٤١٦ پر لکھا ہے : ''ای الجئہ الی مکان خشن'' یعنی انھی ں ایک بے آب و گیاہ علاقہ میں ٹھہراؤ ۔

۲۵۷

اما بعد، جیسے ہی نامہ برتمہارے پاس یہ خط لے کر میرا پہنچے حسین کو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں روک لو اور میں نے اپنے فرستادہ کو حکم دیا ہے کہ وہ تم سے جدا نہ ہو اور تمہاری مراقبت میں رہے یہاں تک کہ واپس لوٹ کر مجھے خبر دے کے تم نے میرے حکم کو نافذ کیا ہے۔ والسلام

جب حر نے خط پڑھا تو یہ خط لے کر وہ اس نورانی قافلہ کے پاس آیا اور کہنے لگا : یہ امیر عبیداللہ بن زیاد کا خط ہے جس میں اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو وہیں پر قید رکھوں جہاں پر اس کا خط مجھے ملا ہے اور یہ اس کا قاصداور فرستادہ ہے جسے اس نے حکم دیا ہے کہ وہ مجھ سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ میں اس کے منشاء اور حکم کو نافذ کردوں ۔

یہ سن کر یزید بن زیاد مہاصر کندی بہدلی(١) معروف بہ شعثاء نے عبیداللہ بن زیاد کے پیغام رساں کو غورسے دیکھااور اس کے سا منے خود کونمایاں کر کے کہا : کیا تو مالک بنُ نسیر بدّی(٢) ہے !(جس کاتعلق قبیلۂ کندہ سے ہے) ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہاں ! اس پر یزید بن زیا د معروف بہ شعثاء نے اس سے کہا : تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے ! یہ تو کیا لے کر آیا ہے ؟

____________________

١۔ آپ کا شمار امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے تیر اندزو ں میں ہوتا ہے اورآپ حملۂ اولی میں شہید ہونے والو ں میں سے ہیں ۔ آپ نے سو تیر چلائے اور اس کے بعد کھڑے ہوکر کہنے لگے : ان تیرو ں میں سے ابھی فقط پانچ ہی تیر ہدف پر لگے ہیں اور میرے لئے واضح یہی ہے کہ میں نے پانچ لوگو ں کوقتل کیا ہے۔ ابو مخنف ہی نے فضیل بن خدیج کندی سے روایت نقل کی ہے کہ یزید بن زیاد عمر بن سعد کے ہمراہ نکلا تھا لیکن جب حسین علیہ السلام کے ساتھ صلح کی پیش کش ان لوگو ں نے ٹھکرادی تو یہ امام علیہ السلام کی طرف چلے آئے اور دشمنو ں سے خوب خوب دادشجاعت لی یہا ں تک کہ شہید ہوگئے لیکن یہ خبر اوپروالی خبر سے موافقت نہیں رکھتی ۔

٢۔ مالک بن نسیر قبیلہء بنی بْداَء سے متعلق تھا۔ یہ کربلا میں موجود تھا ۔ اس نے امام علیہ السلام کے سر پر تلوار سے ضربت لگائی جس سے آپ کی برنس کٹ گئی اور تلوار آپ کے سر تک پہنچ گئی جس نے آپ کو خون میں غلطا ں کردیا ۔اس حالت میں امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا :''لا أکلت بها ولا شربت بها وحشرک الله مع الظالمیں '' تو اس کی وجہ سے نہ کھا پائے اورنہ پی پائے اور خدا تجھے ظالمو ں کے ساتھ محشور کرے ۔

شہادت کے بعد مالک بن نسیر آپ کی برنس لے کر چلا گیا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ ساری زندگی فقیر رہا یہاں تک کہ مرگیا ۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٤٨) یہ واقعہ ابی مخنف سے مروی ہے۔ '' برنس '' عربی کا ایک غیر مانوس کلمہ ہے۔ یہ ایک لمبی ٹوپی ہے جو روئی سے بنتی ہے اسے نصاریٰ کے عبادت گزار افراد پہنا کرتے تھے۔ صد ر اسلام میں مسلمان عبادت گزار افراد بھی اسے پہنا کرتے تھے جیسا کہ مجمع البحرین میں ہے نیز ابو مخنف نے روایت کی ہے کہ عبد اللہ بن دبّا س نے مختار کو ان لوگوں کا پتہ بتا یا جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا تھا۔انھیں میں سے ایک مالک بن نسیر َبدّی بھی تھا۔ مختار نے فوراً ان قاتلوں کی سمت مالک بن عمرو نہدی کو بھیجا ۔جب مالک بن عمر ووہاں آئے اور وہ سب کے سب قادسیہ میں موجود تھے مالک بن عمرونے ان سب کو گرفتار کرلیا اور ان کو لے کر مختار کے پاس آئے۔ جب یہ قاتلین وہاں پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ مختار نے اس بدّی سے پوچھا : تو ہی وہ ہے جو امام کی برنس لے گیا تھا ؟ تو عبد اللہ بن کامل نے کہا : ہاں یہ وہی ہے یہ سن کر مختار نے کہا : اس کے دونوں ہاتھ پیر کاٹ دو اور چھوڑ دو تاکہ یہ تڑپے اور مضطرب ہو یہاں تک کہ مرجائے۔ اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا اور اسے چھوڑ دیا گیا تو اس کا خون مسلسل بہتا رہا یہاں تک کہ وہ مرگیا ۔یہ ٦٦ھ کا زمانہ تھا۔ (طبری، ج٦، ص ٥٧)

۲۵۸

مالک بن نسیرنے کہا : میں کچھ بھی لے کر نہیں آیا،میں نے توفقط اپنے امام کی اطاعت اور اپنی بیعت پر وفاداری کا ثبوت پیش کیا ہے ۔

شعثاء نے اس کا جواب دیا : تو نے اپنے رب کی معصیت اور اپنے نفس کی ہلا کت میں اپنے رہبر کی اطاعت کی ہے اور یہ فعل انجام دے کر تو نے ذلت ورسوائی اور جہنم کی آگ کو حاصل کیا ہے کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:( '' وَ جَعَلْنَاهْمْ اَ ئِمَّةً يَدْعْوْنَ اِلیَ النَّارِ وَيَوْمَ القِيَامَةِ لَايْنْصَرْوْنَ'' ) (١)

ہم نے ان کو گمراہوں کا پیشوا بنایاجو لوگو ں کو جہنم کی طرف بلا تے ہیں اور قیامت کے دن (ایسے بے کس ہوں گے کہ) ان کو (کسی طرح) کی مدد نہ دی جائے گی۔ اور وہ تیرا پیشوا ہے ۔

اس کے بعد حر بن یزید ریاحی حسینی قافلہ کو ایسی ہی جگہ پرا تارنے کی کوشش کرنے لگاجہاں نہ پانی تھا اور نہ ہی کوئی قریہ و دیہات(٢) لہذا ان لوگوں نے فرمایا کہ ہمیں چھوڑ دو تاکہ ہم اس قریہ میں چلے

____________________

١۔ سورہ قصص آیت ٤١

٢۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کر بلا کسی ایک دیہات اور قریہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ایک علاقہ تھا جس کے تحت چند قریہ اور دیہات آتے تھے جیسا کہ کتاب '' الدلا ئل والمسائل ''(سید ہبة الدین شہر ستانی) میں موجود ہے۔سبط بن جوزی نے کہا : پھر (امام) حسین (علیہ السلام) نے فرمایا :'' ما یقول ھٰذہ الارض'' اس زمین کو کیا کہتے ہیں تو لوگو ں نے کہا : اسے کربلا کہتے ہیں اوراسے نینوی بھی کہا جاتا ہے جو اسی کا ایک قریہ ہے۔ یہ سن کر آپ رو نے لگے اور فرمایا:'' کرب وبلا ''یہ کرب وبلا ہے پھر فرمایا : ''اخبرتن ِام سلمة قالت'' مجھ کو ام سلمیٰ نے خبر دی ہے وہ کہتی ہیں کہ'' کان جبرئیل عند رسول اللّہ وانت مع''جبرئیل رسول اللہ کے پاس تھے اور تم میرے ہمراہ تھے'' فبکیت فقال رسول اللّہ : دع ابن فترکتک فاخذک ومنعک فی حجر ہ ''تو تم رونے لگے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میرے فرزند کو چھوڑ دو۔ میں نے تم کو چھوڑ دیا تونبی اللہ نے تم کو پکڑا اور اپنی گودی میں بیٹھا لیا۔'' فقال جبرئیل : أتحبہ ؟ قال : نعم ! قال : فان أ متک ستقتلہ'' جبرئیل نے پوچھا : کیا آپ اس بچے سے محبت کرتے ہیں تو خدا کے نبی نے جواب دیا : ہا ں ! جبرئیل نے کہا : آپ کی امت اس بچے کو شہید کردے گی ۔'' وان شئت أن اْریک تربة أرضہ الت یقتل فیھا ؟ قال : نعم'' اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمیں کی مٹی دکھا دو ں جس میں یہ قتل کئے جائی ں گے توخدا کے نبی نے فرمایا : ہا ں ! ام سلمیٰ کہتی ہیں :'' فبسط جبرئیل جنا حہ علی أرض کربلا ء فأراہ ایاہ ثم شمھا وقال: ھٰذہ واللّٰہ ھی الارض التی أخبر بھا جبرئیل رسول اللّٰہ وانن اقتل فیھا''جبرئیل نے زمین کربلا پر اپنے پر پھیلا ئے اور وہ زمین نبی خدا کو دکھا دی ؛. پھر امام حسین علیہ السلام نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا : خدا کی قسم یہی وہ زمین ہے جس

۲۵۹

کی خبر جبرئیل نے رسول اللہ کو دی تھی اور میں یہیں قتل کیا جاؤ ں گا۔سبط بن جوزی کہتے ہیں : ابن سعد نے طبقات میں واقدی کے حوالے سے اسی معنی کو ذکر کیا ہے پھرسبط بن جوزی نے کہا : ابن سعدنے شعبی کے حوالے سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس نے کہا : جب صفین کے راستے میں علی علیہ السلام کا کربلا سے گزر ہوا اور آ پ نینوا(فرات کے نزدیک قریہ ہے) کے قریب پہنچے تو وہا ں رکے اور اپنے پانی لانے والے اور طہارت کے امور انجام دینے والے فرد کو آواز دی اور فرمایا : اے ابو عبداللہ مجھے خبر دو کہ اس زمین کوکیا کہتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا : اسے کربلاکہتے ہیں ، یہ سن کر آپ کی آنکھو ں سے آنسو نکل پڑے اور آپ اتنا روئے کہ وہا ں کی زمین آپ کے آنسوؤ ں سے تر ہوگئی پھر فرمایا :'' دخلت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وھو یبک فقلت لہ : ما یبکیک؟'' میں ایک دن رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حا ضر ہواتو دیکھا رورہے ہیں ؛ میں نے فوراً آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا : آپ کو کس چیز نے رلادیا ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا : ''کان عندی جبرئیل آنفاً و اخبر نی ؛ ان ولدی الحسین علیہ السلام یقتل بشط الفرات بموضع یقال لہ کربلا ئ'' ابھی ابھی جبرئیل میرے پاس موجود تھے، انھو ں نے مجھے خبر دی کہ میرافرزند حسین فرات کے کنارے اس جگہ پر قتل کیا جائے گا جسے کربلاکہتے ہیں ۔'' ثم قبض جبرئیل قبضة من تراب فشمنی ایاھا فلم أملک عینی ان فا ضتا ''پھر جبرئیل نے وہا ں کی ایک مٹھی خاک اٹھائی جس کو میں نے سونگھا اس کا اثر یہ ہوا کہ میں اپنی آنکھو ں پر قابو نہ پا سکا اور سیل اشک جاری ہوگئے ، پھر کہتے ہیں :'' حسن بن کثیر'' اور'' عبد خیر'' نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے: جب علی علیہ السلام کربلا پہنچے تو وہا ں رکے اور گریہ کیا اور فرمایا : ''بابی اغلیمة یقتلون ھاھنا،ھٰذا مناخ رکابھم ، ھٰذا موضع رحالھم ، ھٰذا مصرع الرجال ثم ازداد بکاء ہ'' میرے باپ ان جوانو ں پر قربان ہوجائی ں جو یہا ں قتل کئے جائی ں گے ۔یہیں پر ان کی قیام گاہ ہوگی اور وہ اپنی رکابو ں سے نیچے آئی ں گے، یہی ان کے ٹھہرنے کی جگہ ہے، یہی ان کے مردو ں کی قتل گاہ ہے، یہ کہتے کہتے آپ کی آنکھو ں سے آنسوابل پڑے اور آپ شدت سے رونے لگے۔(تذکرة الخواص ،ص ٢٥٠ ،طبع نجف) نصربن مزاحم نے اس خبر کو چار طریقو ں سے بیان کیا ہے۔ (صفین ،ص٢٤٠ ، ١٤٢ ،طبع ہارون)

۲۶۰