واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا0%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا

مؤلف: لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
زمرہ جات:

صفحے: 438
مشاہدے: 186472
ڈاؤنلوڈ: 5080

تبصرے:

واقعۂ کربلا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 186472 / ڈاؤنلوڈ: 5080
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

* سوید خثعمی و بشر حضرمی

* الحملة الثالثہ (تیسرا حملہ)

* اصحاب حسین کے حملے اور نبرد آزمائی

* الحملة الرابعہ (چوتھا حملہ)

* نماز *ہر کی آمادگی

* حبیب بن م*اہر کی شہادت

* حر بن یزید ریاحی کی شہادت

* نماز *ہر

* زہیر بن قین کی شہادت

۳۲۱

آغاز جنگ

پہلا تیر

جب بات یہاں تک پہنچی توعمر بن سعد حسینی سپاہ کی طرف حملہ آورہوا اور آواز دی : اے زوید١(١) پرچم کو اور نزدیک لاؤ تو وہ پرچم کو بالکل قریب لے کر آیا اس وقت عمر بن سعد نے چلہ کمان میں تیر کو جوڑا اور حسینی لشکر کی طرف پھینکتے ہوئے بولا :'' أشھدوا أن أؤّل من رمیٰ ''(٢) تم سب گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر جس نے پھینکا ہے وہ میں ہوں ۔

جب نزدیک ہوکر پہلاتیر عمر سعد نے پھینکا تو سارے اموی لشکر نے تیر وں کی بارش کردی۔ اس کے بعد زیاد بن ابو سفیان کا غلام یسار اور عبیداللہ بن زیاد کا غلام سالم دونوں میدان جنگ میں آئے اور مبارز طلبی کرتے ہوئے بولے : کوئی ہم رزم ہے جو تم میں سے ہمارے سامنے آئے ؟ یہ سن کر حبیب بن مظاہر اور بریر بن حضیر اٹھے تاکہ اس کا جواب دیں لیکن دونوں سے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ''اجلسا'' تم دونوں بیٹھ جاؤ ! اس کے بعد عبداللہ بن عمیرکلبی(٣) اٹھے اور عرض کیا : اے ابو عبداللہ !خدا

____________________

١۔ شیخ مفید نے ارشاد میں '' درید '' لکھاہے، ص٢٣٣و ٢٣٦ ،طبع نجف

٢۔ صقعب بن زہیر اور سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٢٩ ، ارشاد ، ص ٢٣٦)

٣۔ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے۔ قبیلہ ہمدان کے چاہ جعد (جعد کا کنوا ں) میں ان کا گھر تھا۔ ایک دن آپ نے دیکھا کہ عبیداللہ کی طرف سے فوج نخیلہ میں جمع ہے اور حسین علیہ السلام کی طرف روانہ ہورہی ہے۔آپ نے ان لوگو ں سے سوال کیا توجواب دیا گیا کہ یہ لوگ دختر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ کے فرزند حسین سے جنگ کے لئے جارہے ہیں ۔اس پر عبداللہ بن عمیر کلبی نے کہا میں تو اہل شرک سے جہاد پر حریص تھا لیکن اب میں یہ امید کرتا ہو ں کہ ان لوگو ں سے جہاد کرنا جو اپنے نبی کے نواسے سے جنگ کررہے ہیں خدا کے نزدیک مشرکین سے جہاد کرنے سے کم نہ ہوگا۔ آپ کی زوجہ ام وھب بھی آپ کے ہمراہ تھی ں ۔ آپ ان کے پاس گئے اورساری روداد سنادی اور اپنے ارادہ سے بھی انھی ں آگاہ کردیا ۔سب کچھ سن کر اس نیک سرشت خاتون نے کہا: تمہاری فکر صحیح ہے، خدا تمہاری فکر کو سالم رکھے اور تمہارے امور کو رشد عطا کرے؛ یہ کام ضرور انجام دو اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ عبدا للہ راتو ں رات اپنی بیوی کے ہمراہ نکل گئے اور امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہوگئے ۔

۳۲۲

آپ پر رحمت نازل کرے ! کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ان دونوں کے مقابلہ پر جاؤں ؟ تو امام حسین نے اس جوان کی طرف دیکھا ،وہ ایک طویل القامت ، قوی کلائیوں اور مضبوط بازؤں والا جوان تھا۔ آپ نے فرمایا :''ان لا حسبه للأ قران قتالا! اخرج ان شئت ' 'میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں کے مقابلہ میں برابر کا جنگجو ثابت ہوگا، اگر تم چاہتے ہو تو جاؤ! یہ سن کر وہ جوان ان دونوں کے سامنے آیا تو ان دونوں نے کہا : تو کون ہے ؟ تو اس جوان مرد نے اپنا حسب و نسب بتادیا۔ اس پر وہ دونوں غلام بولے : ہم تم کو نہیں پہچانتے ہیں ۔ہمارے مقابلے میں تو زہیر بن قین یا حبیب بن مظاہر یا بریر بن حضیر کو آنا چاہیے ۔

زیاد کا غلام یسار ، عبیداللہ بن زیاد کے غلام سالم کے آگے آمادہ جنگ تھا ۔ کلبی نے یسار کو مخاطب کر کے کہا : اے زنا کار عورت کے بچے ، تیری خواہش ہے کہ کوئی اور تیرے مقابلہ پر آئے۔ تیرے مقابلہ پر کوئی نہیں آئے گا مگر جو بھی آئے گا وہ تجھ سے بہتر ہو گا۔ اس کے بعداس پر سخت حملہ کیا اور تلوار کا ایک وار کر کے اسے زمین پر گرا دیا ۔ابھی آپ اپنی تلوار سے اس پر حملہ میں مشغول تھے کہ عبیداللہ کا غلام سالم آپ پر ٹوٹ پڑا ۔ ادھر سے اصحاب امام حسین علیہ السلام نے آواز دی : وہ غلام تم پر حملہ کررہا ہے لیکن عبداللہ نے اس کے حملہ کو اہمیت نہ دی یہاں تک کہ اس نے آپ پر تلوار سے حملہ کردیا؛ کلبی نے اپنے بائیں ہاتھ کو سپر بنایا جس سے آپ کے بائیں ہاتھ کی انگلیاں کٹ گئیں لیکن کلبی زخم کی پرواہ کئے بغیر اس کی طرف مڑے اور اس پر ایسی ضرب لگائی کہ اسے قتل کردیا ۔ ان دونوں کو قتل کرنے کے بعد کلبی رجز خوانی کرتے ہوئے مبارزہ طلبی کر رہے تھے ۔

ان تنکرون فأ نا بن کلب

حسب بیت فی علیم حسبی

ان امرؤ ذومرة وعصب

و لست با لخوّار عند النکب

انزعیم لک أم وهب

با لطعن فیهم مقدماً والضرب

اگر تم مجھے نہیں پہچانتے ہو تو پہچان لو کہ قبیلہ کلب کا فرزند ہوں ، میرا آگاہ اور بیناخاندان میرے لئے کافی ہے، میں بڑا طاقتور اور سخت جاں مرد ہوں ، میدان کارزار میں ناگوار واقعات مجھے متزلزل نہیں کرسکتے، اے ام وھب میں تمہیں وعدہ دیتا ہوں کہ میں ان پر بڑھ بڑ ھ کر حملہ کروں گااور ان کوماروں گا وہ بھی ایسی ضرب لگاؤں گا جو ایک یکتا پرست اور موحد کی ضرب میں اثر ہوتا ہے۔

۳۲۳

یہ سن کر عبداللہ کی زوجہ ام وھب نے عمود خیمہ اٹھایا اور اپنے شوہر کا رخ کرکے آگے بڑھی اور یہ کہے جارہی تھی'' فداک أبی وأمی'' میرے ماں باپ تم پر قربان ہو ں ، تم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پاک و پاکیزہ ذریت کی طرف سے دفاع میں خوب جنگ کرو ،اس کے بعد عبد اللہ اپنی زوجہ کو مخدرات کی طرف پلٹا نے لگے ،تو اس نے عبداللہ کے کپڑے پکڑ لئے اورکھینچتے ہوئے بولی : میں جب تک کہ تمہارے ساتھ مرنہ جاؤں تمہیں نہیں چھوڑوں گی ،یہ صورت حال دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے اسے پکارا اور فرمایا :''جزیتم من أهل بیت خیراً، ارجع رحمک اللّٰه الی النساء فاجلس معهن فانه لیس علی النساء قتال '' خدا تم لوگوں کو جزائے خیر دے ،اللہ تم پر رحمتوں کی بارش کرے، خواتین کی طرف پلٹ آؤ اور انھیں کے ہمراہ بیٹھو کیونکہ خواتین پر جہاد نہیں ہے ۔

الحملة الا ولی (پہلا حملہ)

اس کے بعداموی لشکر کے میمنہ کے سردار عمروبن حجاج نے لشکر حسینی کے داہنے محاذپر حملہ شروع کر دیا ۔جب یہ لشکر امام حسین علیہ السلام کے سپاہیوں کے نزدیک آیا تو وہ سب کے سب اپنے زانو پر بیٹھ کر دفاع میں مشغول ہو گئے اور نیزوں کو ان کی طرف سیدھا کر کے انھیں نشانہ پر لے لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لشکر نیزوں کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور واپس لوٹنے لگا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر حسینی سپاہ نے ان پر تیر چلانا شروع کیا، جس کے نتیجے میں ان میں سے بعض ہلاک ہوئے تو بعض دیگر زخمی۔(١)

کرامت وہدایت

اسی اثنا ء میں قبیلہء بنی تمیم کا ایک شخص جسے عبد اللہ بن حوزہ کہا جاتا ہے سامنے آیا اور امام حسین علیہ السلام کے بالمقابل کھڑا ہو کر بولا : اے حسین ! اے حسین ! تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ''ماتشاء ؟'' تو کیا چاہتا ہے ؟

____________________

١۔ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ ابو جناب نے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے(طبری، ج٥ ، ص٤٢٩ ،الارشاد ، ص ٢٣٦ ،نجف)

۳۲۴

عبد اللہ بن حوزہ نے کہا : ''أبشر بالنار'' تمہیں جہنم کی بشارت ہو، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : '' کلا ّ ، ان أقدم علی ربّ رحیم وشفیع مطاع، من ھٰذا؟'' نہیں ایسا نہیں ہے، میں اپنے مہربان ورحیم رب کی طرف گا مزن ہوں ، وہی شفیع اور قابل اطاعت ہے پھر امام نے سوال کیا:یہ کون ہے ؟

آپ کے اصحاب نے جواب دیا : یہ ابن حوزہ ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''ربّ حزه الی النار ! ''خدا یا! اسے جہنم کی آگ میں ڈال دے ۔

امام علیہ السلام کی بد دعا کا اثر یہ ہو اکہ ناگا ہ اس کا گھوڑا ایک گڑھے کے پاس بدکا اور وہ گڑھے میں جا گر الیکن اس کا پیر رکاب میں پھنسا رہ گیا اور اس کا سر زمین پر آگیا۔اسی حالت میں گھوڑے نے دوڑنا شروع کیا اور وہ جدھر سے گزرتا تھا زمین کے ہر پتھر اور درخت سے اس کا سر ٹکراتا تھا۔یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا ۔(١)

اس سلسلے میں مسروق بن وائل کا بیان ہے : میں اس لشکر کے آگے آگے تھا جو حملہ کے لئے حسین کی طرف آگے بڑھا تھا۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں لشکر کے بالکل آگے رہوں گا تا کہ جب حسین قتل کر دیئے جا ئیں تو ان کا سر میرے ہاتھ لگے اور وہ سر میں عبید اللہ بن زیاد کی خدمت میں لے جا کر کسی خاص مقام و منزلت پر فائز ہو جاؤں ۔ جب ہم لوگ حسین تک پہنچے تو ہما ری فوج کا ایک شخص جسے ابن حوزہ کہتے ہیں وہ سامنے آیا اور بولا : کیا حسین تمہا رے درمیان موجود ہیں ؟ تو حسین(علیہ السلام) خاموش رہے ۔ اس نے اپنی بات کو دھرایا یہاں تک جب تیسری بار اس نے تکرار کی تو حسین (علیہ السلام) نے فرمایا :''قولوا له : نعم هٰذا الحسین فما حاجتک '' اس سے کہو : ہاں یہ حسین ہیں ، تم کیا چاہتے ہو؟

ابن حوزہ نے کہا : اے حسین !تم کو جہنم کی بشارت ہو!

امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :''کذبت،بل أقدم علی ربّ غفور وشفیع مطاع، فمن أنت ؟'' تو جھوٹ بولتا ہے، میں تو اپنے پالنے والے اور بخشنے والے، شفیع اور قابل اطاعت مالک کی طرف گا مزن ہوں ، تو کون ہے ؟

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو جعفر حسین نے یہ روایت نقل کی ہے(طبری ،ج٥ ،ص ٤٣٠)

۳۲۵

اس نے کہا : میں ابن حوزہ ہوں ۔

یہ سن کر حسین نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اتنے بلند کئے کہ کپڑے کے اوپر سے ہم نے بغل کی سفیدی دیکھ لی پھر کہا : اللّٰھم حزہ الیٰ النار ! خدا یا! اسے جہنم کی آگ میں ڈال دے ،یہ سن کر وہ غصہ میں آگیا اور وہ نہر جو اس کے اور حسین کے درمیان تھی اسے پار کرکے ان پر حملہ کر نا چاہا تو گھوڑے کے چھلا نگ لگا تے ہی وہ نیچے گر پڑالیکن اس کا پیر رکاب میں پھنس گیا اور گھوڑے نے تیز دوڑنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے وہ نیچے گر گیا اور اس کے قدم ، پنڈلی تک کٹ کر گر گئے اور پیر کا بقیہ حصہ اسی رکاب میں پھنسا رہ گیا ۔

عبد الجباربن وائل حضر می کا بیان ہے : یہ صورت حال دیکھ کر مسروق لوٹ گیا اور لشکر کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا تو میں نے اس سے اس کا سبب پوچھا تو وہ بولا :''لقد رأیتُ من أهل هٰذا البیت شیئاًلا أقا تلهم أبداً ''(١) میں نے اس گھر انے سے ایسی چیز دیکھی ہے جس کے بعد میں ان سے کبھی بھی جنگ نہیں کر سکتا ۔

بر یر کا مباہلہ اور ان کی شہادت

یزید بن معقل ، عمر بن سعد کے لشکر سے نکلا اور بولا : اے بریر بن حضیر !(٢) تم نے دیکھا کہ اللہ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ تو بریر نے جواب دیا :خدا نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ؛ ہاں تیرا نصیب بہت برا ہے۔

یزید بن معقل:تو جھوٹ بول رہاہے حالانکہ اس کے پہلے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ کیا تجھے وہ موقع یاد ہے جب میں قبیلہ لوذان کے علاقے میں تیرے ساتھ چل رہاتھااور تو کہہ رہا تھا کہ عثمان بن عفان نے اپنی جان کو گنوادیا اور معاویہ بن ابو سفیان گمراہ اور دوسروں کوگمراہ کرنے والا ہے۔ امام ہدایت و حق تو فقط علی بن ابیطالب ہیں ؟

____________________

١۔عطا بن سامت نے عبد الجبار بن وائل حضر می سے اور اس نے اپنے بھائی مسروق بن وائل سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٢١)

٢۔ آپ کے شرح احوال شب نو محرم کے واقعات میں گزرچکے ہیں ۔

۳۲۶

بریرنے جواب دیا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں ، میری رائے اور میرا قول یہی ہے ۔

یزید بن معقل نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا شمار گمراہوں میں ہے ۔

بریر بن حضیرنے اس کے جواب میں فرمایا: کیا تم اس پر تیار ہوکہ پہلے میں تم سے مباہلہ(١) کروں اور ہم اللہ سے دعاکریں کہ جھوٹے پر اس کی لعنت ہو اور باطل پرست کو موت کے گھاٹ اتار دے؛ اس کے بعد میں میدا ن کارزار میں آکر تم سے نبرد آزمائی کروں ۔

یزیدبن معقل ا س پر راضی ہوگیا دونوں نے میدان میں آکر اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے کہ خدایا !کاذب پر لعنت کر اور صاحب حق کے ہاتھ سے باطل پرست کو قتل کرادے۔ اس بد دعا کے بعد دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے۔ تلواروں کا آپس میں ٹکراؤ ہوااور یزید بن معقل نے بریر بن حضیر پر ایک ہلکی سی ضرب لگائی جس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچالیکن ادھر بریر بن حضیر نے ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کے ''خود ''کو کاٹتی ہوئی تلوار اس کے سر تک پہنچی اور اسے کاٹتی ہوئی اس کے مغز اور دماغ تک پہنچ گئی وہ زمین پراس طرح گرا جیسے کوئی چیزبلندی سے گررہی ہو؛ ادھر فرزند حضیر کی تلوار اس کے سر میں جاکر رک گئی تھی، گویا میں دیکھ رہا تھا کہ وہ تلوار کو اپنے سرسے باہر نکالنے کے لئے حرکت دے رہا تھا۔اسی دوران عمر بن سعد کے لشکر کے ایک سپاہی رضی بن منقذ عبدی نے جناب بریر پر حملہ کردیا۔ دونوں میں گتھم گتھاہوگئی اوروہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ بڑی گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی۔ آ خر کار بریراسے گراکر اس کے سینے پر بیٹھ گئے تو رضی چلایا کہاں ہیں اہل رزم اور کہاں ہیں دفاع کرنے والے؟ ! یہ سن کر کعب بن جابر ازدی نے نیزہ سے بریر پر حملہ کردیا اور وہ نیزہ آپ کی پیٹھ میں داخل ہوگیا جب بریر نے نیزہ کی نوک کو محسوس کیا تو رضی بن منقذ عبدی کے چہرے کو دانتوں سے دبالیا اور اس کی ناک کا ایک حصہ کاٹ ڈالا؛ لیکن کعب بن جابرنے مسلسل نیزہ کا وار کرکے'' عبدی ''کو بریر کے چنگل سے نکال دیا اور

____________________

١۔مباہلہ یعنی ملاعنہ جسمیں دونو ں افراد دعا کری ں کہ خدا باطل اور ظالم پر لعنت کرے ۔

۳۲۷

نیزہ کی انی کو بریر کی پشت میں پیوست کردیا پھر اس کے بعد بریر پر تلوار سے حملہ کرکے انھیں شہید کردیا۔ (ان پر خدا کی رحمت ہو)(١) و(٢)

____________________

١۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے یوسف بن یزیدنے عفیف بن زہیر بن ابو اخنس کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے اور وہ حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت وہا ں حاضر تھا ۔(طبری، ج٥، ص ٤٣١) باقیماندہ خبر حاشیہ شمارہ ٢ میں ملاحظہ ہو ۔

٢۔جب کعب بن جابر ازدی لوٹا تو اس کی زوجہ یا بہن نوار بنت جابر نے کہا : تو نے فرزند فاطمہ کے خلاف جنگ کی ہے اور سیدا لقراء (تلاوت و قراء ت قرآن کے سید و سردار) بریرکو قتل کیا ہے، تو نے بہت بڑی خیانت انجام دی ہے۔ خداکی قسم میں اب کبھی بھی تجھ سے بات نہیں کرو ں گی۔ کعب بن جابر نے کہا :

سلی تخبر عنی و أنت ذمیمة

غداة حسین والرماح شوارع

الم آت أقصیٰ ماکرهت ولم يْخل

علیّ غداة الروع ما أنا صانع

مع یز نی لم تخنه کعو به

وأبیض مخشوب الغرارین قاطع

فجر دته فی عصبة لیس دینهم

بدین وان بابن حرب لقانع

ولم تر عین مثلهم فی زما نهم

ولا قبلهم ف الناس اذ أنا یافع

أشدّ قراعاً با لسیوف لدی الوغی

ألا کل من یحمی الذمار مقارع

وقد صبروا للطعن والضرب حُسّرا

وقد نازلوا لوأن ذالک نافع

۳۲۸

فا بلغ (عبید الله) أما لقیته

بأ نی مطیع للخلیفة سا مع

قتلت بر یر اً ثم حملت نعمة

أبا منقذ لما دعی : من یماصع

تو مورد مذمت قرار پاچکی ہے تو مجھ سے حسین کی سپیدہ سحری اور نیزو ں کے سیدھے ہونے کے سلسلے میں سوال کر اور مجھ سے خبر لے ۔ کیا میں اس چیز کی انتہا تجھے نہ بتاؤ ں جو تجھے ناپسند ہے اور جس میدان کارزار کی صبح نے مجھ پر اس امر پرکوئی خلل وارد نہیں کیا جسے میں نے انجام دیا ۔ میرے پاس سیف بن ذی یزن یمنی کا نیزہ تھا جو کبھی ٹیڑھا نہیں ہوا اورجس کی سفید لکڑی کا غلاف دونو ں طرف سے برا ں تھا۔ میں نے اسے اس گروہ کے سامنے بر ہنہ کیا جن کا دین میرا دین نہ تھا اور میں ابو سفیان کے خاندان سے قانع ہو ں ۔میری آنکھو ں نے اپنے زمانے میں ان کے مانندنہیں دیکھااور اس سے قبل کسی نے نہیں دیکھا؛ کیونکہ میں جوان ہو ں ۔ جنگ کے وقت ان کی تلوار میں بڑی کاٹ تھی،آگاہ ہوجاؤکہ جو بھی ذمہ داری سے حمایت کرتا ہے وہ سخت کوش ہوتا ہے ۔ واقعا ان لوگو ں نے نیزو ں اور تلوارو ں کے زخم پر بڑا صبر کیا اور وہ گھوڑے سے نیچے اتر آئے اگریہ ان کے لئے مفید ہوتا ۔اگر عبیداللہ سے ملاقات کرے تو اس کو یہ خبر پہنچادے کہ میں خلیفہ کامطیع اور ان کی باتو ں کا سننے والا ہو ں ۔ میں نے بریر کو قتل کیااور ابو منقذ کو اپنا احسان مند بنا لیا، جب اس نے پکارا کہ میرا مدد گا کون ہے ؟

ابو مخنف کا بیان ہے : رضی بن منقذ عبدی نے اس کے جواب میں یہ کہا :

ولو شاء رب ما شهدت قتالهم

ولا جعل النعماء عند ابن جابر

لقد کان ذاک الیوم عارا وسبّةً

یعیر ه الأ بناء بعد ا لمعا شر

فیالیت ان کنت من قبل قتله

ویوم حسین کنت فی رمس قابر

اگر میرا پروردگار چاہتاتو میں کربلا کی جنگ میں حاضر نہ ہوتا اورنہ جابر کے لڑکے کا مجھ پر احسا ن ہوتا۔ در حقیقت وہ دن تو ننگ وعار کا دن تھا جو نسلو ں تک طعن و تشنیع کا باعث رہے گا ۔ اے کاش بریر کے قتل سے قبل میں مرگیا ہوتا اور حسین کے مقابلہ کے دن سے پہلے میں قبر میں مٹی کے نیچے ہوتا۔

۳۲۹

عمر وبن قرظہ انصاری کی شہادت

جناب بریر کی شہادت کے بعد عمر و بن قرظہ انصاری امام حسین علیہ السلام کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے نکلے اور مشغول جہاد ہوگئے ۔آپ وقت قتال ان اشعار کو پڑھ رہے تھے۔

قد علمت کتیبة الأ نصا ر

ان سأحمی حوزة الذمار

ضرب غلا م غیر نکس شار

دون حسین مهجتی ودار(۱)

سپاہ انصار کو معلوم ہے کہ میں اس خاندان کی ایسی حمایت ونصرت کروں گا جو ایک ذمہ دار محافظ کا انداز ہوتا ہے ،میں ایک سر بلند اور سرفراز جوان کی طرح وار کروں گا اور کبھی منہ نہیں موڑوں گا کیونکہ میرا خون اور میرا خاندان حسین پرفدا ہے ۔

اسی حال میں آپ درجۂ شہادت پر فیضیاب ہوگئے۔ آپ پر خدا کی رحمت ہو۔آپ کا بھائی علی بن قرظہ ، عمر بن سعد کی فوج میں تھا ۔یہ منظر دیکھ کر وہ پکارا اے کذاب بن کذاب! (اے جھوٹے باپ کے جھوٹے بیٹے) تو نے میرے بھائی کوگمراہ کیا ، اسے دھوکہ دیا یہاں تک کہ اسے قتل کردیا ! یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :

''ان اللّٰه لم یضل أخاک ولکنه هدیٰ أخاک وأضلک'' خدا نے تیرے بھائی کو گمراہ نہیں کیا بلکہ تیرے بھائی کو ہدایت بخش دی، ہاں تجھے گمراہ کردیا ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے یہ روایت نقل کی ہے(طبری ،ج٥، ص ٤٣٣)

۳۳۰

علی بن قرظہ نے کہا خدا مجھے نابود کرے اگر میں تجھے قتل نہ کروں ، یہ کہہ کر امام علیہ السلام پر حملہ کیا۔ نافع بن ہلال مرادی نے آگے بڑھ کے مزاحمت کرتے ہوئے نیزہ لگا کر اسے زمین پر گرا دیا تو اس کے ساتھیوں نے حملہ کیا اور اسے کسی طرح بچاکر لے گئے۔(١) جنگ کا بازار گرم تھا، گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی، سپاہ اموی نے چاروں طرف گھوم کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا۔اس دوران حر بن یزید ریاحی اس فوج پر حملہ آور تھے اور اس شعر سے تمثیل کئے جارہے تھے ۔

مازلت أر میهم بثغر ة نحره

ولبانه حتی تسر بل بالدم

میں ان کی گردن اور سینے پر مسلسل تیر بارانی کرتا رہوں گا یہاں تک کہ وہ لوگ خون کا لباس پہن لیں ۔اس وقت حالت یہ تھی کہ ان کے گھوڑے کے کان اور ابرؤں سے نیزوں کی بارش کی وجہ سے خون جاری تھا۔ یزید بن سفیان تمیمی مسلسل یہ کہہ رہا تھاکہ خدا کی قسم اگر میں '' حر'' کو اس وقت دیکھتا جب وہ ہماری فوج سے نکلا تھا تو اس نیزہ کی نوک سے اس کا پیچھا کرتا۔ یہ سن کر حصین بن تمیم(٢) نے کہا : یہی ہے حر بن یزید جس کی تم تمنا کررہے تھے۔یزید بن سفیان نے کہا : ہاں ! اور حر کی طرف نکل گیا اور آپ سے بولا:کیا تم نبرد آزمائی کے لئے آمادہ ہو ؟ حر نے جواب دیا : ہاں میں ہم رزم ہونا چاہتا ہوں ۔ یہ کہہ کر اس کے مد مقابل آئے ،گویا جان ہتھیلی پر لئے تھے۔ یزید بن سفیان اپنی تمام شرارتوں کے ساتھ سامنے آیا لیکن ابھی حر کو سامنے آئے کچھ دیر بھی نہ ہوئی تھی کہ آپ نے اسے قتل کردیا ۔(٣)

____________________

١۔ ثابت بن ہبیرہ سے یہ روایت مروی ہے۔ (طبری، ج ٥، ص ٤٣٤)

٢۔ یہ شخص عبید اللہ بن زیاد کی پولس کا سر براہ تھا اور عبید اللہ نے اسے عمر بن سعد کے ہمراہ حسین علیہ السلام کی طرف جنگ کے لئے بھیج دیا ۔کربلا میں عمر بن سعد نے اسے مجففہّ فوج کا سر براہ بنا دیا تھا۔ تجفاف زرہ کی قسم کا ایک رزمی لباس ہے ۔

٣۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو زہیر نضر بن صالح عبسی نے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری،ج٥،ص ٤٣٤)

۳۳۱

نافع بن ہلال

اسی ہنگا مہ خیز ماحول میں نافع بن ہلال مرادی جملی مصروف جنگ تھے اور کہے جارہے تھے :

'' أنا الجملی أنا علیٰ دین علی (علیہ السلام) ''میں ہلال بن نافع جملی ہوں ، میں دین علی علیہ السلام پر قائم ہوں ۔یہ سن کر فوج اموی کی ایک فرد جسے مزاحم بن حریث کہتے ہیں سامنے آیا اور بولا : میں عثمان کے دین پر قائم ہوں ۔ نافع بن ہلال نے اس سے کہا : تو شیطان کے دین پر بر قرار ہے پھر اس پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا ۔

یہ صورت حال دیکھ کر عمر وبن حجاج زبیدی چلایا کہ اے احمق اور بے شعور لوگو !تم کو کچھ معلوم ہے کہ تم کس سے لڑ رہے ہو ؟ یہ شہر کے بہادر ،شجاع ، فداکارا ور جانباز ہیں ، تم میں سے کو ئی بھی ان کے مقابلہ میں نہ آئے ۔ یہ دیکھنے میں کم ہیں اور بہت ممکن ہے کہ باقی رہ جائیں ۔ خدا کی قسم اگر تم لوگ(١) ان پر فقط پتھر پھینکو تو ان کو قتل کر دو گے۔یہ سن کر عمر بن سعد بولا تمہارا نظریہ بالکل صحیح ہے اور میری رائے بھی یہی ہے اس وقت اس نے اعلان کیا کہ فوج کہ سب سپاہی اس پر آمادہ ہو جائیں کہ ان لوگوں سے اس طرح جنگ نہ کریں کہ ایک ان کی طرف سے اور ایک تمہاری طرف سے ہو۔(٢)

الحملة الثانےة (دوسرا حملہ)

پھر عمرو بن حجاج زبیدی لشکر امام حسین علیہ السلام سے نزدیک ہوتا ہوا بولا: اے اہل کوفہ ! اپنی اطاعت اور اپنی جماعت کے اتحاد واتفاق پر پا بند رہو اور اس کے قتل میں کوئی شک وشبہ نہ کرو جو دین سے منحرف ہوگیا اور ہمارے پیشوا اور امام کا مخالف ہے۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا :'' یا عمروبن حجاج !أعلّ تحّرض الناس ؟ أنحن مرقنا وأ نتم ثبتُّم علیه ! أما واللّه لتعلمنّ لو قد قُبضت أروا حکم ومُتم علی أعما لکم أيّنا مرق من الدین ومن هو أولی بصل النار''

اے عمروبن حجاج ! کیا تو لوگوں کو میرے خلاف اکسا رہا ہے؟ کیا ہم دین سے منحرف ہیں اور تم

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو زہیر نضربن صالح عبسی نے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤٣٤)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ یحٰی بن ہانی بن عروہ مراوی نے مجھ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٣٥)

۳۳۲

لوگ اس پر قائم ہو ! خدا کی قسم اگر تمہاری روحیں قبض کرلی جائیں اور تم لوگوں کو انھیں اعمال پر موت آجائے تو تمہیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ منحرف کون اور جہنم میں جلنے کا سزاوار کون ہے ۔

پھر عمروبن حجاج نے عمربن سعد کے داہنے محاذفرات کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کے لشکر پر حملہ کر دیا ۔کچھ دیر تک جنگ کا بازار گرم رہا اور اس حملہ میں امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی ایک جماعت شہید ہو گئی جس میں سے ایک مسلم بن عوسجہ ہیں ۔

مسلم بن عوسجہ(١)

عمروبن حجاج کے سپاہیوں میں سے عبد الر حمن بجلی اور مسلم بن عبد اللہ ضبّا بی نے آپ کو شہید کیا۔ آپ کی شہادت پر خوشی سے جھومتے ہوئے عمروبن حجاج کے سپاہیوں نے آواز لگائی :

ہم نے مسلم بن عوسجہ اسدی کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد عمروبن حجاج اور اس کے سپا ہی لوٹ گئے اور غبار کا ایک بادل اٹھا۔جب وہ بادل چھٹ گیا تو اصحاب حسین نے مسلم بن عوسجہ کو جانکنی کے عالم میں

____________________

١۔ اس خبر میں آیا ہے کہ اصحاب حسین میں سب سے پہلے مسلم بن عوسجہ اسدی شہید ہوئے جبکہ اس سے پہلے بریر اور عمروبن قرظہ کی شہادت کا تذکرہ گزرچکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس حملہ کے بعد کچھ دیر کے لئے جنگ بند ہو گئی تھی اس کے بعد جب جنگ شروع ہوئی تو دوسرے حملہ میں سب سے پہلے شہید ہونے والو ں میں آپ کا شمار ہو تا ہے۔ آپ کوفہ میں امام حسین علیہ السلام کے لئے بیعت لے رہے تھے۔ ابن زیاد کا جاسوس معقل آپ ہی کے توسط سے مسلم تک پہنچ سکا تھا۔(طبری، ج٥، ص ٣٦٢) مسلم بن عقیل نے کوفہ میں آپ کو قبیلہء مذحج اور اسد کا سالا ر بنا یا تھا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٣٦٩) آپ ہی وہ ہیں جو کر بلا میں شب عاشور امام حسین علیہ السلام کے خطبہ کے بعد اٹھے اور فرمایا : اگر ہم آپ کو چھوڑ دی ں تو اللہ کی بارگاہ میں آپ کے حق کی ادائیگی میں ہمارا عذر کیا ہوگا؟! خدا کی قسم یہا ں تک کہ میں اپنے نیزہ کو ان کے سینو ں میں تو ڑنہ لو ں اور اپنی تلوار سے جب تک اس کا دستہ میرے ہاتھ میں ہے ان کو مارنہ لو ں میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا اور اگر میرے پاس ان کو قتل کرنے کے لئے کوئی اسلحہ نہ ہو ا تو میں ان کو آپ کے پاس رہ کرپتھر مارو ں گا یہا ں تک کہ آپ کے ہمراہ مجھے موت آجائے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤١٩) آپ ہی وہ ہیں جنہو ں نے شمر پر تیر چلا نے کی اجازت اس طرح طلب کی تھی : فرزند رسول خدا میری جان آپ پر نثار ہو، کیا میں اس پر ایک تیر نہ چلا دو ں ؟ یہ آدمی بڑا فاسق وفاجر ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرما یا تھا : میں جنگ میں ابتدا کرنا نہیں چاہتا ۔(طبری، ج٥، ص ٤٢٤) لیکن آپ کوفہ سے کس طرح امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے کچھ پتہ نہیں ، تاریخ اس سلسلہ میں بالکل خاموش ہے ۔

۳۳۳

دیکھا ۔ امام حسین علیہ السلام چل کر آپ کے پاس آئے۔ اس وقت آپ کے جسم میں رمق حیات موجود تھی۔امام علیہ السلام نے مسلم بن عوسجہ کو مخاطب کر کے فرمایا :''رحمک ربک یامسلم بن عوسجه، فمنهم من قضی نحبه و منهم من ینتظر ومابدّلواتبدیلاً '' (١)

اے مسلم بن عوسجہ خدا تم پر رحمت نازل کرے ، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنا وقت پوراکرگئے اوربعض منتظر ہیں اوران لوگوں نے اپنی بات ذرابھی نہیں بدلی۔ اس کے بعد حبیب بن مظاہر مسلم کے قریب آئے اور فر مایا : ''عزعلّ مصرعک یامسلم ، أبشر بالجنة '' اے مسلم تمہاری شہادت مجھ پر بہت سنگین ہے، جاؤ جنت کی تمہیں بشارت ہو ،یہ سن کر بڑی نحیف آوازمیں مسلم نے حبیب سے کہا : ''بشرک ا للّٰہ بخیر''اللہ تمہیں نیکی و خیر کی بشارت دے، یہ سن کر حبیب نے مسلم بن عوسجہ سے کہا :''لولا ان أعلم أن فی اثرک لاحق بک من ساعت هٰذه لأحببت أن توصین بکل ما أ همک حتی أحفظک فی کل ذالک بما أنت أهل له فی القرا بة والدین'' اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میں تمہارے پیچھے پیچھے ابھی آرہاہوں تو میرے لئے یہ بات بڑی محبوب تھی کہ تم مجھ سے ہر اس چیز کی وصیت کرو جو تمہارے لئے اہم ہو تاکہ میں ان میں سے ہرایک کو پورا کرسکوں جو تمہارے قرابت داروں اور دین کے سلسلے میں اہمیت رکھتے ہیں ۔

مسلم بن عوسجہ نے کہا''بل انا اوصیک بهذا رحمک اللّه أن تموت دونه ''میری وصیت تو صرف ان کے سلسلے میں ہے ،خدا تم پر رحمت نازل کرے یہ کہہ کرا پنے ہاتھ سے حسین کی طرف اشارہ کیا کہ تم ان پر قربان ہو جانا ، انھیں کے سامنے موت کو گلے لگا لینا۔حبیب نے کہا : رب کعبہ کی قسم میں ایسا ہی کروں گا؛ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت جلد مسلم بن عوسجہ نے ان لوگوں کے ہاتھوں پر دم توڑ دیا (خدا ان پر رحمت نازل کر ے) آپ کی موت کا منظر دیکھ کر آپ کی کنیزآہ و فریاد کرنے لگی :''یا بن عوسجتاه یا سیداه'' (٢)

____________________

١۔سورہ احزاب ٢٣

٢۔عمرو بن حجاج کے سپاہیو ں نے جب آوازلگائی کہ ہم نے مسلم بن عوسجہ اسدی کو قتل کردیا تو شبث بن ربعی تمیمی نے اپنے بعض ان

ساتھیو ں سے کہا جو اس کے ہمراہ تھے : تمہاری مائی ں تمہارے غم میں بیٹھی ں ، تم نے اپنے ہاتھو ں سے خود کو قتل کیا ہے اور دوسرو ں کی خاطر خود کوذلیل کیا ہے۔تم اس پر خوش ہورہے ہو کہ مسلم بن عوسجہ کو قتل کردیا۔ قسم اس کی جس پر میں اسلام لایا بارہا میں نے مسلمانو ں کے د رمیان ان کی شخصیت کو بزرگ دیکھا ہے۔ آذر بایجان کے علاقۂ سلقظ میں خود میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے ٦ مشرکو ں کو مسلمین کے لشکر کے پہنچنے سے قبل قتل کیا تھا۔ ایسی ذات کو قتل کرکے تم لوگ خوش ہو رہے ہو ۔

۳۳۴

الحملةالثالثة (تیسرا حملہ)

بائیں محاذ سے شمر بن ذی الجوشن نے حسینی سپاہ کے بائیں محاذپر حملہ کیا تو اصحاب حسینی نے دلیرانہ دفاع کیا اور نیزوں سے اس پر اور اس کے سپاہیوں پر حملہ کیا ۔ اسی گیرودار میں ہانی بن ثبیت حضرمی اور بکیر بن حی تمیمی نے عبداللہ بن عمیر کلبی پر حملہ کیا اور ان دونوں نے مل کر آپ کوشہید کر دیا ۔(آپ پر خداکی رحمت ہو)(١)

اصحاب حسین کے حملے اور نبرد آزمائی

اپنے دفاع میں اصحاب امام حسین علیہ السلام نے بڑا سخت جہاد کیا، ان کے سواروں نے جن کی تعداد٣٢ تھی(٢) حملہ شروع کیا ،وہ اہل کوفہ کے جس سوار پر حملہ کررہے تھے اسے رسوا کردے رہے تھے ۔

جب عزرہ بن قیس تمیمی (جو اہل کوفہ کی فوج کا سربراہ تھا) نے دیکھا کہ اس کے لشکر کو ہر طرف سے رسوا ہونا پڑہا ہے تو اس نے عبدالرحمن بن حصین کو عمر بن سعد کے پاس یہ کہہ کر بھیجاکہ کیا تم نہیں دیکھ

____________________

١۔اس خبر میں آیا ہے کہ یہ اصحاب حسین کے دوسرے شھید ہیں لیکن یہ ایک وہم ہے ۔

٢۔ شاید باقیماندہ سوارو ں کا تذکرہ ہو ورنہ مسعودی کا بیان تو یہ ہے کہ آنحضرت جب کربلا وارد ہوئے تو آپ کے اہل بیت اور انصار پانچ سو اسپ سوار تھے اور سو (١٠٠) پیدل ، پھر وہ کہتے ہیں : امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ ان میں سے شہید ہونے والے ٨٧ افراد ہیں ۔(مروج الذہب ،ج٣ ،ص ٨٨) سید بن طاوؤس نے لھوف میں امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ٤٥ اسپ سوار تھے اور سو (١٠٠) پیدل ۔یہی تعداد سبط بن جوزی نے بھی ذکر کی ہے۔(ص ٢٤٦و ٢٥١) تعجب کی بات یہ ہے کہ سبط بن جوزی نے مسعودی سے نقل کیا ہے کہ ایک ہزار پیدل تھے جب کہ مروج الذھب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔

*آذر بایجان کے حدود میں شمال عراق او ر ایران کے مغربی علاقہ میں ایک پہاڑ ہے جیسا کہ قمقام ،ص ٤٩٢میں موجود ہے ۔

۳۳۵

رہے ہو کہ ان چند لوگوں کے ہاتھوں ابھی سے ہمارے سواروں پر کیا گزررہی ہے، جلد از جلد پیدلوں اور تیر اندازوں کو روانہ کروکہ روزگار ہم پر سخت ہوچکا ہے۔عمر بن سعد نے شبث بن ربعی سے کہا : کیا تم ان کی طرف پیش قدمی نہیں کروگے ۔

شبث بن ربعی نے کہا؛ سبحان اللہ ! کیا جان بوجھ کر قبیلہ مضر کے بزرگوں اور سارے شہر کے بوڑھوں کو تیر اندازوں میں بھیجنا چاہتے ہو۔ کیا اس کام کے لئے میرے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ؟ تو عمر بن سعد نے حصین بن تمیم کو پکارا اور اس کے ہمراہ زرہ پوشوں اور پانچ سو (٥٠٠) تیراندازوں کو روانہ کیا ۔وہ سب کے سب سپاہ حسینی کے مد مقابل آئے لیکن ابھی وہ سب کے سب حسین اور اصحاب حسین کے نزدیک بھی نہ آئے تھے کہ ان لوگوں نے تیر بارانی شروع کردی ابھی تھوڑی دیر بھی نہ گذری تھی کہ اصحاب حسینی نے گھوڑوں کو پے کردیا اور وہ سب کے سب پیدل ہوگئے۔

اسی گیر ودار میں حر بن یزید ریاحی کاگھوڑا بھی زخمی کر دیا گیا۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ گھوڑا لرزنے لگا اور تڑپتے ہوئے زمین پر گر پڑا'' حر'' بڑی پھرتی سے اس گھوڑے سے نیچے آئے گویا شیر بیشۂ شجاعت کی طرح گھوڑے سے نیچے کو د پڑے درحالیکہ انکے ہاتھوں میں تلوار تھی اور وہ کہے جا رہے تھے :

ان تعقروا بی فانا ابن الحر

اشجع من ذ لبد هزبر(١)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اصحاب حسینی نے بڑا سخت جہاد کیا یہاں تک کہ سورج نصف النھارپر آگیا اور گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی اور اس طرح ان لوگوں سے نبرد آزمارہے کہ دشمن ایک طرف کے علاوہ دوسری طرف سے ان پر حملہ آور نہ ہوسکے ؛کیونکہ ان کے خیمے ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور نزدیک نزدیک تھے ۔

____________________

١۔ ہزبر فارسی کا لفظ ہے جس کا فارسی تلفظ ہزبر ہے جو شیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی اگر تم نے میرا گھوڑا پے کردیا تو کیا ہوا میں فرزند حر ہو ں ۔ میں شیر بیشہء شجاعت سے بھی زیادہ شجاع ہو ں ۔محترم قاری پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس شعر میں '' انا ابن حر'' کہا جارہا ہے جب کہ خود حر اس شعر کے پڑھنے والے ہیں ۔اس مطلب پر نہ تو ابو مخنف نے ،نہ ہی کلبی نے ،نہ ہی طبری نے اور نہ ہی کسی دوسرے نے کوئی بھی حاشیہ لگایا ۔ ممکن ہے کہ جس وقت کہاہو اس وقت ابن حروہا ں موجود ہو ،یعنی توبہ کے وقت اور امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہادت کے وقت اور ممکن ہے کہ حر کے دادا یا خاندان کے بزرگ کا نام حر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ نام کے بجائے معنی اور صفت کاارادہ کیا ہو۔ شیخ مفید نے بھی اس رجز کا ذکر کیا ہے لیکن کوئی حاشیہ نہیں لگایا ہے۔ (ارشاد ،ص ٢٣٧)

۳۳۶

جب عمر سعد نے یہ صورت حال دیکھی تو اس نے اپنے پیدل سپاہیوں کو بھیجا تاکہ ہرچہار جانب سے خیموں کی طنابوں کو اکھاڑ کر ویران کردیں تاکہ حسینی سپاہ کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا جائے لیکن ادھر اصحاب حسینی تین تین چار چارکرکے گروہ میں تقسیم ہوگئے اور خیموں کی طرف بڑھنے والوں پر حملہ کرکے ان کی صفوں کو پراکندہ کرنے لگے، اس کے بعد انھیں قتل کرنے لگے ، تیر چلانے لگے اور ان کے گھو ڑوں کو پے کرنے لگے ۔

اس صورت حال کو دیکھ کر عمر بن سعد نے کہا : انھیں آگ لگا کر جلادو ! تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : انھیں چھوڑدو انھیں جلالینے دو ؛کیونکہ اگر یہ خیموں کو جلا بھی لیتے ہیں تب بھی ادھر سے تم پر حملہ نہیں کر پائیں گے اور ویسا ہی ہوا سپاہ اموی ایک طرف کے علاوہ دوسری طرف سے جنگ نہ کر پائی ۔

الحملة الرابعہ (چوتھا حملہ)

اس نا برابر جنگ میں ایک بار پھر بائیں محاذسے شمر بن ذی الجوشن نے امام حسین علیہ السلام کے خیمے پر ایک نیزہ پھینکا اور پکارا میرے پاس آگ لاؤ تا کہ میں اس گھرکو گھر والوں کے ساتھ آگ لگا دوں ، یہ سن کر مخدرات آہ و فریاد کرنے لگیں اور خیمہ سے باہر نکلنے لگیں ۔

ادھر امام حسین علیہ السلام نے آواز دی :''یا بن ذ الجوشن ! أنت تدعوبالنار لتحرق بیت علیٰ أهل ؟ حرقک اللّٰه بالنار ''اے ذی الجوشن کے بیٹے ! تو آگ منگوارہاہے تاکہ میرے گھر کو میرے گھر والوں کے ساتھ جلادے ؟ خدا تجھ کو جہنم کی آگ میں جلائے۔(١) حمید بن مسلم ازدی کا بیان ہے کہ میں نے شمر سے کہا : سبحان اللّٰہ! اس میں صلاح وخیر نہیں ہے کہ تم اپنے لئے دونوں صفتوں کو یکجا کرلو : عذاب خدا کے بھی مستحق ہو اور بچوں اور خواتین کو بھی قتل کر دو، خدا کی قسم ان کے مردوں کو قتل کرنا ہی تمہارے امیر کوخوش کردے گا ۔(٢) اسی اثناء میں شبث بن ربعی تمیمی ،شمر کے پاس آیا

____________________

١۔ طبری ،ج ٥ ، ص ٢٤٧ ، ابو مخنف کابیان ہے : مجھ سے'' نمیر بن وعلة'' نے بیان کیا ہے کہ ایوب مشرخ خیوانی اس روایت کو بیان کرتا تھا۔

٢۔حمید کہتا ہے کہ شمر نے پوچھا :تو کون ہے؟ تو میں ڈر گیا کہ اگر اس نے مجھے پہچان لیا توبادشاہ کے پاس مجھے نقصان پہنچائے گا لہٰذا میں نے کہہ دیا : میں نہیں بتاؤ ں گا کہ میں کون ہو ں ۔

۳۳۷

اور بولا : میں نے گفتگو میں تجھ جیسا بد زبان انسان نہیں دیکھااور تیرے موقف سے قبیح ترین کسی کا موقف نہیں پایا ۔ ان تمام شور و غل کے بعد کیا تو عورتوں کو ڈرانے والابن گیا ہے ۔

عین اسی موقع پر زہیر بن قین اپنے دس(١٠) ساتھیوں کے ہمراہ شمر اوراسکے لشکر پرٹوٹ پڑے اور بڑا سخت حملہ کرکے انھیں خیموں سے دور کر دیا یہاں تک کہ وہ لوگ عقب نشینی پر مجبور ہوگئے ۔

پھر کیاتھا ٹڈی دل لشکر نے حسینی لشکر پر زبردست حملہ کردیا جس کانتیجہ یہ ہواکہ اصحاب حسینی برگ خزاں کی طرح یکے بعد دیگرے جام شہا دت نوش فرمانے لگے۔ اس سپاہ کے ایک یادو سپاہی بھی شہید ہوتے تو واضح ہوجاتا تھالیکن وہ لوگ چونکہ کثیر تعداد میں تھے اس لئے پتہ نہیں چل پاتا تھا کہ ان میں سے کتنے قتل ہوئے ۔

نماز ظہر کی آمادگی

جب ابو ثمامہ عمر و بن عبداللہ صائدی(١) نے یہ منظر دیکھا توامام حسین علیہ السلام سے کہا:'' یا أبا عبدالله !نفس لک الفدا ء انّ أری هٰؤلاء قد اقتربوا منک، ولا واللّٰه لا تقتل حتی أقتل دونک انشاء اللّٰه ،واحب أن ألقی رب وقد صلیت هٰذه الصلاةالتی دنا وقتها'' اے ابوعبداللہ! میری جان آپ پر نثار ہو ! میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ یہ دشمن آپ سے قریب ترہوتے جارہے ہیں ، نہیں خدا کی قسم، آپ اس وقت تک قتل نہیں کئے جاسکتے جب تک انشاء اللہ میں آپ کے قدموں میں قربان نہ ہوجاؤں ، بس میں یہ چاہتا ہوں کہ میں خدا سے اس حا ل میں ملاقات کروں کہ یہ نماز جس کا وقت نزدیک آچکا ہے آپ کے ہمراہ ادا کر لوں ۔

____________________

١۔آپ کا تعلق قبیلہ ہمدان سے ہے۔ آپ کوفہ میں ان اموال کی جمع آوری کررہے تھے جو شیعہ حضرات جناب مسلم کو مدد کے طور پردے رہے تھے اور جناب مسلم ہی کے حکم سے اس سے اسلحے خرید رہے تھے۔(طبری ،ج٥ ،ص ٣٦٤) اپنے قیام کے وقت جناب مسلم نے آپ کو تمیم اور ہمدان کا سربراہ قرار دیا تھا۔(طبری، ج ٥، ص٣٦٩) آپ ہی وہ ہیں جس نے کربلا میں عمر بن سعد کے پیغام رسا ں کو امام حسین علیہ السلام کو پہچنوایا تھا کہ یہ عزرہ بن احمسی ہے اور عرض کیا تھا کہ آپ کے پاس اہل زمین کابد ترین انسان آرہاہے جو خون بہانے میں اور دھوکہ سے قتل کرنے میں بڑا جری ہے اور آپ ہی نے اسے امام حسین علیہ السلام تک آنے سے اس خوف میں روکا تھا کہ کہیں وہ امام علیہ ا لسلام پر حملہ نہ کردے۔(طبری، ج٥ ،ص٤١٠)

۳۳۸

یہ سن کر امام علیہ السلام نے اپنا سر اٹھایا اور پھر فرمایا :'' ذکرت الصلاة ، جعلک اللّٰه من المصلین الذاکرین ! نعم هذا أوّل وقتها'' تم نے نماز کو یاد کیا ، خدا تم کوصاحبان ذکراور نمازگزاروں میں قرار دے !ہاں یہ نماز کا اوّل وقت ہے ۔

پھر فرمایا: ''سلوھم أن یکفوا عنا حتی نصل ''ان سے سوال کرو کہ ہم سے دست بردار ہوجائیں تا کہ ہم نماز ادا کرلیں ۔ یہ سن کر حصین بن تمیم نے کہا : ''انھا لا تقبل! ''تمہاری نماز قبول نہیں ہے !یہ سنکر حبیب بن مظاہر نے فوراً جواب دیا :''زعمت ان الصلاة من آل رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآله وسلم) لا تقبل وتقبل منک یا حمار؟'' اے گدھے توگمان کرتا ہے کہ آل رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز قبول نہیں ہوگی اور تیری نماز قبول ہوجائے گی ؟

۳۳۹

حبیب بن مظاہر کی شہادت(١)

اسی گیرودار میں حصین بن تمیم تمیمی نے حسینی سپاہیوں پر حملہ کردیا۔ادھر سے حبیب بن مظاہر اس کے سامنے آئے اور اس کے گھوڑے کے چہرے پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ اچھل پڑا اور وہ گھوڑے سے نیچے گر پڑا تو اس کے ساتھیوں نے حملہ کرکے اسے نجات دلائی ۔

____________________

١۔ آپ کا شمار کوفہ کے ان زعمائے شیعہ میں ہوتا ہے جنہو ں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھاتھا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٣٥٢) آپ نے مسلم بن عقیل کو امام علیہ السلام کے لئے یہ کہہ کر جواب دیا تھا : قسم ہے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں میں بھی وہی کہتا ہو ں جو انھو ں نے کہا اور عابس بن شبیب شاکری کی کی طرف اشارہ کیاتھا (طبری ،ج٥، ص ٣٥٥) کربلا میں عمر بن سعد کے پیغام رسا ں قرہ بن قیس حنظلی تمیمی سے آپ نے کہا تھا : واے ہو تجھ پر اے قرہ بن قیس ! تو ظالمو ں کی طرف کیو ں کر پلٹ رہاہے، تو اس ذات کی مدد کر جس کے آباء واجداد کی وجہ سے اللہ نے تجھے اور ہمیں دونو ں کو کرامت عطا کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤١١) جب نو محرم کو شام میں سپاہ اموی عمر بن سعد کی سالاری میں امام حسین علیہ السلام پر حملہ آور ہوئی تھی تو عباس بن علی علیھماالسلام بیس (٢٠)سوارو ں کے ہمراہ ان لوگو ں کے پاس گئے جن بیس میں جناب حبیب بھی تھے۔ حبیب نے اس وقت فرمایاتھا : خدا کی قسم کل قیامت میں وہ قوم بہت بری ہوگی جس نے یہ قدم اٹھایا ہے کہ ذریت و عترت واہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کردیا جو اس شہر ود یار کے بہت عبادت گزار ، سحر خیزی میں کوشا ں اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے ہیں ۔(طبری، ج ٥، ص ٤٢٢) جب آپ مسلم بن عوسجہ کے زخمی جسم پر آئے اور مسلم نے امام علیہ السلام کی نصرت کی وصیت کی تو آپ نے فرمایا : رب کعبہ کی قسم میں اسے انجام دو ں گا ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٣٦) امام حسین علیہ السلام نے آپ کو بائی ں محاذ کا سالار بنایا تھا ۔(طبری، ج٥،ص ٤٢٢) حصین بن تمیم آپ کے قتل پر فخر و مباہات کررہا تھا اور آپ کے سر کو گھوڑے کے سینے سے لٹکا دیا تھا۔ آپ کے بیٹے قاسم بن حبیب نے قصاص کے طور پر آپ کے قاتل بدیل بن صریم تمیمی کو قتل کردیا ،یہ دونو ں با جمیرا کی جنگ میں مصعب بن زبیر کی فوج میں تھے ۔

۳۴۰