واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا0%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا

مؤلف: لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
زمرہ جات:

صفحے: 438
مشاہدے: 186189
ڈاؤنلوڈ: 5080

تبصرے:

واقعۂ کربلا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 186189 / ڈاؤنلوڈ: 5080
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

امام حسین علیہ السلا م خو ن میں ڈوبے فرزند کے پاس یہ کہتے ہوئے آئے:'' قتل اللّٰه قوماً قتلوک یا بن'' اے میرے لال !خدا اس قوم کو قتل کرے جس نے تجھے قتل کیاہے،''ماأجرأهم علیٰ الرّحمٰن وعلی انتهاک حرمة الرسول ''یہ لوگ مہربان خدا پر اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہتک حرمت پر کتنے بے باک ہیں ،''علی الدنیا بعدک العفا'' . میرے لا ل تمہارے بعد اس دنیا کی زندگی پر خاک ہو. ناگاہ اس اثناء میں ایک بی بی شتاباں خیمے سے باہر نکلی وہ آوز دے رہی تھی :'' یاأخےّاہ ! و یابن أخیاہ '' اے میرے بھائی اے جان برادر!وہ آئیں اور خود کو علی اکبر پر گرادیا تو حسین علیہ السلام ان کے پاس آئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں خیمے میں لوٹا دیا اور خود ہاشمی جوانوں کی طرف رخ کر کے کہا :'' احملوا أخاکم الی الفسطاط'' اپنے بھائی کو اٹھاکر خیمے میں لے جاؤ''فحملوه من مصرعه حتی و ضعوه بین یدی الفسطاط الذی کانوا یقاتلون أمامه' '(١)

ان جوانوں نے لاشہ علی اکبر کو مقتل سے اٹھا کراس خیمے کے پاس رکھ دیا جس کے آگے وہ لوگ مشغول جہاد تھے ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٤٤٦) اور ابو الفرج نے بھی اسی سند کو ذکر کیا ہے ۔(مقاتل الطالبیین، ص ٧٦و٧٧)

۳۶۱

قاسم بن حسن کی شہادت

حمید بن مسلم کا بیان ہے : ہماری جانب ایک نو جوان نکل کر آیا ،اس کا چہرہ گویا چاند کا ٹکڑا تھا، اس کے ہاتھ میں تلوار تھی، جسم پر ایک کرتہ اور پائجامہ تھا،پیروں میں نعلین تھی جس میں سے ایک کا تسمہ ٹوٹا ہو ا تھا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ بائیں طرف والی نعلین تھی۔

عمر وبن سعد بن نفیل ازدی(١) نے مجھ سے کہا :خدا کی قسم میں اس بچہ پر ضرور حملہ کروں گا تو میں نے کہا : ''سبحان اللّٰہ'' تو اپنے اس کام سے کیاچاہتا ہے۔لشکر کا یہ انبوہ جو اس کو اپنے گھیرے میں لئے ہے تیری خواہش پوری کرنے کے لئے کافی ہے لیکن اس نے اپنی بات پھر دھرائی : خدا کی قسم میں اس پر ضرور حملہ کروں گا، یہ کہہ کر اس نے اس جوان پر زبردست حملہ کردیا اورتھوڑی دیرنہ گزری تھی کہ تلوار سے اس کے سر پر ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ منہ کے بھل زمین پرگر پڑا اور آواز دی :'' یا عماہ ! ''اے چچا مدد کو آیئے۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام شکاری پرندے کی طرح وہاں نمودار ہوئے اور غضب ناک و خشمگین شیر کی طرح دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور عمرو پر تلوار سے حملہ کیا۔ اس نے بچاؤ کے لئے ہاتھ اٹھا یا تو کہنیوں سے اس کے ہاتھ کٹ گئے یہ حال دیکھ کر لشکر ادھر ادھر ہونے لگا اور وہ شقی (عمر و بن سعد) پامال ہو کر مر گیا۔ جب غبار چھٹا تو امام حسین علیہ السلام قاسم کے بالین پر موجود تھے اور وہ ایڑیاں رگڑ رہے تھے ۔

اور حسین علیہ السلام یہ کہہ رہے تھے :بعداً لقوم قتلوک ومن خصمهم یوم القیامة فیک جدک ، عزّ واللّٰه علیٰ عمک أن تدعوه فلا یجیبک أو یجیبک ثم لا ینفعک صوت واللّٰه کثر واتره و قل ناصره'' برا ہو اُس قوم کا جس نے تجھے قتل کردیا اور قیامت کے دن تمہارے دادااس کے خلاف دعو یدار ہوں گے۔تمہارے چچا پر یہ بہت سخت ہے کہ تم انھیں بلاؤ اور وہ تمہاری مدد کو نہ آسکیں اور آئے بھی تو تجھے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔خدا کی قسم تمہاری مد د کی آواز آج ایسی ہے کہ جس کی غربت و تنہائی زیادہ اور اس پر مدد کرنے والے کم ہیں ۔

____________________

١۔ طبری، ج٥،ص ٤٦٨ ، اس شخص کا نام سعد بن عمرو بن نفیل ازدی لکھا ہے اور دونو ں خبر ابو مخنف ہی سے مروی ہے ۔

۳۶۲

پھر حسین نے اس نوجوان کو اٹھایا گویا میں دیکھ رہا تھا کہ اس نوجوان کے دونوں پیر زمین پر خط دے رہے ہیں جبکہ حسین نے اس کا سینہ اپنے سینے سے لگارکھا تھا پھر اس نوجوان کو لے کر آئے اور اپنے بیٹے علی بن الحسین کی لاش کے پاس رکھ دیا اور ان کے اردگرد آپ کے اہل بیت کے دوسرے شہید تھے، میں نے پوچھا یہ جوان کون تھا ؟ تو مجھے جواب ملا : یہ قاسم بن حسن بن علی بن ابیطالب (علیہم السلام) تھے۔(١)

____________________

١۔ ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٤٤٧ و ارشاد ، ص ٢٣٩)

۳۶۳

عباس بن علی اور ان کے بھائی

پھر عباس بن علی (علیہما السلام) نے اپنے بھایئوں : عبد اللہ ، جعفر اور عثمان سے کہا : یا بن أم ! تقد مواحتی أرثیکم فانہ لا ولد لکم ! اے مرے ماں جایو ! آگے بڑھو تاکہ میں تم پر مرثیہ پڑھ سکوں کیونکہ تمہاراکوئی بچہ نہیں ہے جو تم پر نوحہ کرے ۔

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور میدان جنگ میں آئے اور بڑا زبر دست جہاد کیا یہاں تک کہ سب کے سب شہید ہوگئے ۔(خدا ان سب پر رحمت نازل کرے)(٢)

____________________

٢۔ ابو مخنف نے حضرت عباس بن علی علیہما السلام کا مقتل اور ان کی شہادت کا تذکرہ نہیں کیاہے لہٰذا ہم اسے مختلف مقاتل کی زبانی ذکر کرتے ہیں ۔ارشاد میں شیخ مفید فرما تے ہیں : جب حسین علیہ السلام پر پیاس کا غلبہ ہوا تو آپ نے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کا ارادہ کیا، آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے بھائی عباس بھی تھے۔ ابن سعد لعنة اللّٰہ علیہ کا لشکرآپ کے لئے مانع ہوا اور اس لشکرمیں '' بنی دارم'' کا ایک شخص بھی تھا جس نے اپنی فوج سے کہا : وائے ہو تم پر ان کے اور فرات کے درمیان حائل ہو جاؤ اور انھی ں پانی تک نہ پہنچنے دو، اس پر حسین علیہ السلام نے بددعا کی''اللّٰهم أظمئه '' خدا یا! اسے پیاسا رکھ ! یہ سن کر''دارمی'' کو غصہ آگیا اور اس نے تیر چلادیا جو آپ کی ٹھڈی میں لگا ۔حسین علیہ السلام نے اس تیر کو نکالا اور ٹھڈی کے نیچے اپنا ہاتھ لگا یا تو خون سے آپ کی دونو ں ہتھیلیا ں بھر گئی ں ۔آپ نے اس خون کو زمین پر ڈال دیا اور فرمایا :''اللّٰهم انی أشکوا الیک ما یفعل بابن بنت نبیک'' خدا یا !میں تجھ سے شکوہ کرتا ہو ں کہ تیرے نبی کے نواسے کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے پھرآپ اپنی جگہ لوٹ آئے؛ لیکن پیاس میں اضافہ ہورہاتھا۔ ادھر دشمنو ں نے عباس کو اس طرح اپنے گھیرے میں لے لیا کہ آپ کا رابطہ امام حسین علیہ السلام سے منقطع ہو گیا۔ آپ تنہا دشمنو ں سے مقابلہ کرنے لگے یہا ں تک کہ آپ شھید ہوگئے ،آپ پر اللہ کی رحمت ہو۔ زید بن ورقاء حنفی(١) اور

۳۶۴

حکیم بن طفیل سنسبی نے آپ کو اس وقت شہید کیا جب آپ زخمو ں سے چور ہوچکے تھے اور حرکت کی طاقت نہ تھی۔ (ارشاد، ص ٢٤٠ ، طبع نجف اشرف) یہا ں سے ہم مقتل الحسین مقرم ، مقتل الحسین امین، ابصارالعین سماوی،فاجعةالطف علامہ قزوینی ، عمدة الطالب اورخصال صدوق، ج١،ص ٦٨، اور تاریخ طبری کی مدد سے حضرت ابو الفضل العباس کی شخصیت پر تھوڑی سی روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ؛ شاید بارگاہ ایزدی میں یہ کوشش آخرت کی رسوائی سے نجات دلائے اور سقائے سکینہ کی خدمت اقدس میں یہ سعی ناچیز تحفہ قرار پائے۔

____________________

(١) طبری نے زید بن رقاد جنبی لکھا ہے۔ (ج٥،ص ٤٦٨) اور جلد ٦ ،صفحہ ٦٤ پر لکھا ہے کہ یہ جَنَب کا ایک شخص تھا۔ یہ شخص عبد اللہ بن مسلم بن عقیل اور سویدبن عمرو خثعمی صحابی امام حسین علیہ السلام کا بھی قاتل ہے۔ اس کے احوال سوید کی شہادت کے ذیل میں گزر چکے ہیں ۔مختار نے اسے زندہ جلا دیا تھا۔ اسے حنفی کہنا واضح تحریف ہے ۔

۳۶۵

لشکر حسینی کے سردار

علمدار حسینی عباس(علیہ السلا م)آخر میں امام حسین علیہ السلام کی مدد و نصرت اورآ پ کے حقوق و بلند مقاصد کے دفاع میں تنہا رہ گئے تھے ؛کیوں کہ تمام یاور و انصار اور بھائی بھتیجے اور فرزند شہید ہو چکے تھے ۔آپ نا قابل توصیف شجاعت و شہامت کے ساتھ اپنے آقا حسین علیہ السلام کی حفاظت میں پہاڑ کی طرح مستحکم تھے۔ حوادث کی تند وتیز ہوائیں آپ کے وجود پر اثر انداز نہیں ہورہی تھیں ۔ آپ قابل افتخارشخصیت کے مالک تھے کیونکہ علم وعقل ، ایمان و عمل اور جہادو شہادت میں یکتائے تاز روزگار تھے۔ ان خصوصیات کو ہم آپ کے رجز ، آپ کے اعمال اور آ پ کے بیانات میں واضح طور پر مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔

آپ کے امتیازات و خصوصیات

حقیقت میں آپ فضیلتوں کے سر چشمہ اور انسانی قدروں کے سربراہ تھے۔ آپ کے امتیازو خصوصیات قابل قدر و تحسین اور انسان ساز ہیں ، وہ اوصاف و خصوصیات جو فردی و اجتماعی زندگی کو نیک بختی اور نجات کے معراجی مراحل تک پہنچاتے ہیں ۔ یہاں پر آپ کے بعض اوصاف کا تذکرہ منظور نظر ہے ۔

١۔ حسن ورشاد ت

آپ بلند قامت ، خوش سیما اور خوب رو تھے ۔ خاندان کے درمیان ایک خاص عظمت و شکوہ کے حامل تھے لہٰذا قمربنی ہاشم یعنی بنی ہاشم کے چاند کہلاتے تھے جب آ پ حق و عدالت سے دفاع کے لئے مرکب پر سوار ہوتے تھے تو آپ کی صولت و ہیبت سے شیر دل افراد خوف زدہ ہوجاتے تھے اور رزم آورو دلیرافرادترس و خوف میں مبتلا ہو کر لرزہ براندام ہوجاتے تھے ۔

حق و عدالت کی راہ میں جاں نثاری ، دلاوری اور شجاعت آپ کا طرۂ امتیاز تھا ۔یہ صفت آپ نے اپنے شہسوار باپ امیرا لمومنین علی علیہ السلام سے حاصل کی تھی۔ اگر چہ آپ کی مادر گرامی بھی علم ومعنویت کی پیکر اور عرب کی ایک شجاع خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔حضرت علی علیہ ا لسلام نے بڑے ہی اہتمام سے آپ کی مادر گرامی کا انتخاب کیا تھا اور جب اس اہتمام کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا :''لتلدلی فارساً شجاعاً'' میں چاہتا ہوں کہ وہ خاتون میرے لئے ایک شجاع بچہ دنیا میں لے کر آئے۔ یہ سبب تھا کہ افق علوی سے بنی ہاشم کا چاند خورشید فاطمی کی حفاظت کے لئے آسمان ام البنین پر طلوع ہوا ۔

۳۶۶

٢۔معنوی شوکت

دنیا میں ایک سے ایک بہادر ، پہلوان ، شجاع اور خوبصورت گزرے ہیں ۔ اگر ہم ابو الفضل عباس کو فقط اس نگاہ سے دیکھیں کہ آپ رشید قامت ، ہلالی ابرو ، ستواں ناک اور گلابی ہونٹوں والے تھے تو تاریخ کے پاس ایسے سینکڑوں نمونے ہیں جو خوبصورت بھی تھے اور بہادر بھی لیکن ابولفضل العباس علیہ السلام کی خصوصیت فقط یہ نہ تھی کہ آپ فقط خوبصورت اور بہادر تھے بلکہ آپ کی اہم خصوصیت جو آپ کو گوہر نایاب بناتی ہے وہ آپ کا باطنی جوہر اور باطنی حسن ہے یعنی آپ کا ایمان ، اخلاص ، مردانگی ، انسان دوستی ، سچائی ، امانت داری ، آزادی ، عدالت خواہی ، تقویٰ ، حلم ، جانثاری اور وہ پیروی محض ہے جو اپنے امام علیہ السلام کے سامنے پیش کی ہے ۔ تاریخ میں ایک بہادر ، دلیر اور شجاع کا اتنے سخت اور دل ہلادینے والے حوادث میں اس قدر تابع اور مطیع ہونا کہیں نہیں ملتا اور نہ ملے گا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپ کی بلند و بالا شخصیت کی اس طرح منظر کشی کی ہے:''کان عمنا العباس نافذ البصیرة ، صلب الایمان ، جاهد مع اخیه الحسین علیه السلام وأبلی بلاء حسناًو مضی شهیداً ''(عمدة الطالب، ٣٥٦) ہمارے چچا عباس عمیق بصیرت والے اور محکم صاحب ایمان تھے جس میں کوئی تزلزل نہ تھا، آپ نے اپنے بھائی حسین علیہ السلام کے ہمراہ جہاد کیا اور بلاؤں کی آماجگاہ میں بہتر ین امتیاز حاصل کیا اور شہید ہو گئے ۔امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :'' رحم اللّٰه العباس فلقد آثر وابلیٰ وفدا أخاه بنفسه حتی قطعت یداه فأبدله اللّٰه عزو جل بهما جناحین یطیر بهما مع الملائکة فی الجنة کما جعل لجعفر بن ابیطالب وان للعباس عنداللّٰه تبارک وتعالٰی منزلة یغبطه بها جمیع الشهداء یوم القیامة'' (خصال شیخ صدوق ج١؛ ص ٦٨)

خدا (ہمارے چچا) عباس پر رحمت نازل کرے، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ نے نا قابل وصف ایثار کا ثبوت دیا

۳۶۷

اور بزرگ ترین آزمائش میں کامیاب ہوکر سر بلند و سرفراز ہوگئے اور آخر کار اپنی جان کو اپنے بھائی پر نثار کردیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ کٹ گئے تو اللہ عز و جل نے اس کے بدلے آپ کو دو پر عطا کئے جس کی مدد سے آپ جنت میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں جس طرح خدا نے جعفر بن ابوطالب کو پر عطا کئے تھے ۔

اللہ تباک و تعالی کے نزدیک جناب عباس کی وہ قدر و منزلت ہے کہ قیامت کے دن تمام شہداء آپ پر رشک کریں گے ۔

٣۔ علمدار کربلا

آپ کی ایک اہم فضیلت یہ ہے کہ روز عاشوراآپ حسینی لشکر کے علمدار تھے اور یہ اتنا بلند و بالا مرتبہ ہے کہ آسانی سے کسی کو نہیں ملتا ۔

جنگ کے بدترین ماحول میں آپ اجازت لے کر میدان کارزار میں آئے لیکن سرکار سیدالشھداء کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ فقط فراق و جدائی کے تصور نے امام کی آنکھوں کے جام کو لبریز کردیا اور سیل اشک جاری ہوگئے؛ یہاں تک کہ آپ کی ریش مبارک آنسوؤ ں سے ترہوگئی پھر فرمایا :'' اخی أنت العلامة من عسکری''میرے بھائی تم تو میرے لشکر کے علمدار ہوتو حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا :''فداک روح أخیک لقد ضاق صدری من حیاة الدنیا وأرید آخذ الثار من هولاء المنافقین'' آپ کے بھائی کی جان آپ پر نثار ہو ، حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی سے میرا سینہ تنگ ہوچکا ہے میں چاہتا ہوں کہ ان منافقوں سے انتقام لوں ۔

۳۶۸

٤۔ سقائی

آپ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ سقا کے لقب سے نوازے گئے اور حسینی لشکر کی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی سبیل کی خاطر نہر فرات کی طرف دشمنوں کے نرغے میں چل پڑے ،۔بچوں کی تشنگی نے آپ کے دل کو برمادیا۔ امام حسین علیہ السلام سے میدان جنگ کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا :''فاطلب لهولاء الأطفال قلیلاً من المائ'' بھائی اگر میدان میں جانا چاہتے ہو تو ان بچوں کے لئے دشمنوں سے تھوڑا سا پانی طلب کرو ۔

٥۔سالار عشق و ایمان

عبا س غازی کی یہی وہ صفت ہے جو آپ کو دوسرے ساونت اوردلیروں سے جدا کرکے بہادری اور شجاعت کا حقیقی پیکر بناتی ہے۔ آپ کی جگہ پر کوئی بھی بہادر ہوتا تو وہ میدان جنگ میں آتے ہی تلوار سونت کر جنگ میں مشغول ہوجاتا لیکن یہ عباس پروردہ ٔآغوش تربیت علی مرتضیٰ ہیں جسمی توانائی کے علاوہ ان کا قلب تقویٰ ، اخلاق ، علم وحلم سے معمور ہے، اسی لئے

۳۶۹

جب میدان میں آئے تو پہلے سردار لشکر عمر بن سعد کو ہدایت کی، راہ دکھائی اور اس سے مخاطب ہو کر کہا :''یا عمر بن سعد ! هٰذا الحسین ابن بنت رسول اللّٰه قد قتلتم أصحابه و أخوته وبنی عمه وبقی فریداً مع أولاده و عیاله وهم عطاشا، قد أحرق الظماء قلوبهم فاسقوهم شربة من الماء لأن أولاده و أطفاله قد و صلوا الی الهلاک'' .اے عمر بن سعد ! یہ حسین نواسہ رسول ہیں جن کے اصحاب ، بھائیوں اور چچا زادگان کو تم لوگوں نے قتل کردیا ہے اور وہ اپنی اولاد اور عیال کے ہمراہ تنہارہ گئے ہیں اور بہت پیاسے ہیں پیاس سے ان کا کلیجہ بھنا جا رہا ہے لہٰذاانھیں تھوڑا ساپانی پلادو؛ کیوں کہ ان کی اولاد اور بچے پیاس سے جاں بہ لب ہیں ۔ آپ کے ان جملوں کا اثر یہ ہواکہ بعض بالکل خاموش ہوگئے ، بعض بے حد متاثر ہو کر رونے لگے لیکن شمر و شبث جیسے شقاوت پیکروں نے تعصب کی آگ میں جل کر کہا :'' یابن أبی تراب ! قل لأ خیک : لو کان کل وجہ الارض مائً وھوتحت أید ینا ما سقیناکم منہ قطرة حتی تدخلوا فی بیعة یزید'' اے ابو تراب کے فرزند ! اپنے بھائی سے کہہ دوکہ اگر ساری زمین پانی پانی ہوجائے اور وہ ہمارے دست قدرت میں ہو تب بھی ہم تم کو ایک قطرہ پانی نہیں پلائیں گے یہاں تک کہ تم لوگ یزید کی بیعت کرلو۔

۳۷۰

٦۔ اسلام کا غیرت مند سپاہی

حضرت عباس علیہ السلام اموی سپاہ کی غیر عاقلانہ اور جاہلانہ گفتگوپر افسوس کر کے اپنے آقا کے پاس لوٹ آئے اور سارے واقعات سے آگاہ کردیا ۔

امام حسین علیہ السلام قرآن اور خاندان رسالت کی تنہائی پر آنسو بہا نے لگے اور اتنا روئے کہ یہ آنسو آپ کے سینے اور لباس پر ٹپکنے لگے ۔دوسری طرف ننھے بچوں کی صدائے العطش بار بار حضرت عباس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب اسلام کا یہ غیر تمند سپاہی اپنے گھوڑے پرسوار ہوا اور خیمہ سے مشکیزہ لے کر دلیرانہ اور صفدرانہ انداز میں لشکر پر ٹوٹ پڑا۔عمر بن سعد نے خاندان رسالت پر پانی بند کرنے کے لئے چار (٤) ہزار کا رسالہ فرات کے کنارے تعینات کر رکھا تھا اور وہ کسی طرح اصحاب واولاد حسین علیہ السلام کو پانی تک پہنچنے نہیں دے رہے تھے ۔علمدار لشکر حسینی نے اسی رسالہ پر حملہ کیا۔ آپ جو امیر المو منین علیہ السلام کی ایک نشانی تھے اپنی ناقابل وصف شجاعت وشہامت کے ساتھ دشمن کی فوج کوتتر بتر کردیا ،فوج کے پہرے کو بالکل تو ڑدیا اور ان میں سے اسی (٨٠) لوگوں کو قتل کردیا جوان میں سب سے زیادہ شریر تھے ۔

آپ کی شجا عانہ آوازفضا میں گونج رہی تھی :

لا أرهب الموت اذاالموت رقا

حتی أواری فی المصالیت لقی

انّ أنا العباس أعدوا با لسقّا

ولا أخاف الشرّ یوم الملتقی

موت جب میری طرف رخ کرتی ہے تو میں اس سے نہیں ڈرتا یہاں تک کہ خدا کی مدد سے آتش افروز اور جنگجوؤں کے سروں کو خاک میں ملا دوں ،میں عباس ہوں جسے سقائیت کا رتبہ ملا ہے اور میں پانی ضرور پہنچاؤں گا ،میں حق وباطل سے مڈبھیڑ کے دن کبھی بھی باطل کی شرانگیز یوں سے نہیں ڈرتا ۔

۳۷۱

٧۔معراج وفا

حضرت ابو الفصل نے اپنی ناقابل وصف شجاعت سے دشمن کی صفوں کو تتر بتر کردیا اور خود فرات میں داخل ہوگئے ۔پیاس کی شدت کی وجہ سے چلو میں پانی لیاتا کہ تھوڑا ساپی لیں لیکن اسی پانی میں حسین علیہ السلام کی پیاس کا عکس جھلکنے لگا ؛پانی کو فرات کے منہ پر مار دیا اور اپنی روح کو مخاطب کرکے فرمایا:

یانفس من بعد الحسین هون

وبعد ه لا کنت ان تکون

هٰذا الحسین شارب المنون

وتشر بین بارد المعین

هیها ت ما هٰذ ا فعال دین

ولا فعال صادق الیقین

اے نفس تو حسین کے بعد ذلیل ورسوا ہے اور ان کے بعد زندگی کی تمنا نہیں ہے ،یہ حسین ہیں جو جام شہادت نوش فرما رہے ہیں اور تو صاف و خوش گوار پانی پیئے گا ، یہ ہم سے بہت دور ہے، یہ ہمارے دین کا کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ کام سچے یقین رکھنے والے کا ہو سکتا ہے ۔

اس کے بعد مشک کو پانی سے بھرکردوش پر رکھا اور خیام حسینی کا رخ کیا۔ وہ تتربتر فوج جس نے اتنی مدت میں خود کو آمادہ کرلیا تھا آپ پر راستہ کو بند کر دیا اور ہزاروں لوگوں نے آپ کو تیروں کی باڑہ پر لے لیا؛ جس کے نیتجے میں آپ کا پورا جسم تیروں کی آماجگاہ ہوگیا اور تیروں نے آپ کے سارے بدن کوچھلنی کرد یا لیکن آپ شجاعت وشہامت کے ساتھ ان پر وار کرتے رہے اور خیموں تک پہنچنے کا راستہ بناتے رہے کہ اسی درمیان ایک پلیدشخص'' زید بن ورقاء ''جو ایک خرمہ کے درخت کے پیچھے چھپا تھا ایک دوسرے ظالم حکیم بن طفیل کی مدد سے پیچھے سے آپ کے داہنے ہاتھ پر ایسا وار کیا کہ آپ کا ہاتھ کٹ گیا ۔ آپ نے پر چم کو بائیں ہاتھ میں لے لیا اور پر جوش انداز میں یہ رزمیہ اشعارپڑھنے لگے :

۳۷۲

واللّه ان قطعتم یمنی

انی أحامی أبد ً اعن دینی

وعن امام صادق الیقین

نجل النبی الطاهر الأ مین

خدا کی قسم اگر چہ تم نے میرا داہنا ہاتھ کاٹ دیا ہے لیکن میں ہمیشہ اپنے دین اور اپنے سچے یقین والے امام کی حمایت کرتا رہا ہوں گا جو طاہر وامین بنی کے نواسے ہیں ۔

اپنے اس شور انگیز اشعار کے ساتھ آپ نے خیمہ تک پہنچنے کی کوشش کو جاری رکھا یہاں تک کہ مسلسل خون بہنے سے آپ پر نقاہت طاری ہوگئی لیکن آپ اپنی طرف تو جہ کئے بغیر خیمہ کی طرف رواں دواں تھے کہ کسی نے آپ کا بایاں ہاتھ بھی کمین گاہ سے کاٹ دیا لیکن پھربھی آپ نے اپنے جہاد کو جاری رکھا اور یہ اشعار پڑھنے لگے :

یا نفس لا تخش من الکفار

وابشر برحمة الجبار

قد قطعواببغیهم یسار

فأ صلهم یا رب حرّ النار

اے نفس کفار سے نہ ڈر ؛تجھے رحمت جبار کی بشارت ہو ؛ انھوں نے دھوکہ سے میرا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا تو پروردگار اتو انھیں جہنم کی آگ کی گرمی میں واصل کردے ۔

آپ کے دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے لیکن آپ کی شجاعت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی آپ اس امید میں تھے کہ پانی خیمہ تک پہنچ جائے گا لیکن نا گہاں دشمنوں کی طرف سے ایک تیر آیا اور مشک پر لگا مشک کا سا راپانی زمین پربہہ گیا ۔ اب عباس علیہ السلا م کی فکر بدل گئی ،اب کیا کیا جائے ؟ نہ تو ہاتھ باقی ہیں کہ دوبارہ دشمن کی صفوں پر حملہ کیا جائے اور نہ ہی پانی بچا کہ خیمہ کی طرف جائیں ۔ابھی آپ اسی فکر میں تھے کہ ایک لعین نے ایک گرز آہنی آپ کے سر پر مارا ،عباس زمین پر آئے صدادی: ''یا أخاہ أدرک أخاک'' بھائی ، اپنے بھائی کی مدد کو پہونچئے ۔

۳۷۳

اب میری کمر ٹوٹ گئی : علمدار کی آواز سنتے ہی امام حسین علیہ السلام ایک غضباک شیر کی طرح دشمن کی فوج پرٹوٹ پڑے اور خود کو بھائی تک پہنچا دیا لیکن جب دیکھا کہ ہاتھ قلم ہو چکے ہیں پیشانی زخمی ہو چکی ہے اور تیر عباس کی آنکھوں میں پیوست ہے تو حسین علیہ السلام خمیدہ کمر لئے بھائی کہ پاس آئے اور خون میں غلطیدہ علمدار کے پاس بیٹھ گئے، سر زانو پر رکھا اسی اثنا میں عباس ہمیشہ کے لئے سوگئے اور حسین علیہ السلام نے مرثیہ شروع کیا:''أخی الأن انکسر ظھر و قلت حیلت و شمت ب عدوّ'' اے میرے بھائی اب میری کمر ٹوٹ گئی، راہ وچارہ تدبیر مسدود ہوگئی اور دشمن مجھ پر خندہ زن ہے ،پھر فرمایا :

الیوم نامت أعین بک لم تنم

وتسهدت أخری فعزمنامها

اب وہ انکھیں سوئیں گی جو تمہارے خوف سے نہیں سوتی تھیں اور وہ آنکھیں بیدار رہیں گی جو تمہارے وجود

سے آرام سے سوتی تھیں ۔ایک شاعر نے امام حسین علیہ السلام کی زبانی اہل حرم کے محافظ کو اس طرح یاد کیا ہے :

عباس تسمع زینبا تدعوک من

ل یا حما اذا العدی سلبون ؟

أولست تسمع ماتقول سکینة

عماه یوم الأ سر من یحمین؟

اے عبا س! تم سن رہے ہوزینب تم کو مخاطب کر کے کہہ رہی ہے کہ اے زینب کے محافظ و حامی تمہاری شہادت کے بعد دشمنوں کے حملہ کے مقا بلہ اب ہماری حفاظت کون کرے گا ؟

کیا تم نہیں سن رہے ہوکہ سکینہ کیا کہہ رہی ہے چچا جان آپ کی شہادت کے بعد اسیری کے دنوں میں ہماری حفاظت و حمایت کون کرے گا ؟

اس کے بعد غم و اندوہ کی ایک دنیا لے کر آپ خیمے کی طرف پلٹے، سکینہ نے جیسے ہی بابا کو آتے دیکھا دوڑتی ہوئی گئیں اور پوچھا :'' أبتاہ ھل لک علم بعم العباس ؟'' بابا ! آپ کو چچا کی کوئی خبر ہے ؟ یہ سن کر مولا رونے لگے اور فرمایا : ''یا بنتاہ أن عمک قد قتل'' بیٹی تیرے چچامارڈالے گئے ۔

۳۷۴

حسین علیہ السلام کا شیر خوار

اس کے بعد حسین علیہ السلام اپنے خیمے کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک چھوٹا سا بچہ جو ابھی شیر خوار تھا یا اس سے تھوڑا سا بڑا تھا جسے عبد اللہ بن حسین(١) کے نام سے یاد کیا جاتاہے آپ کو دیا گیااور آپ نے اس بچہ کو اپنی گود میں بیٹھایا ۔(٢)

ناگہاں قبیلہ بنی اسد کی ایک فرد حرملہ بن کاہل یا ہانی بن ثبیث حضرمی نے ایک تیر چلایااور وہ بچہ اس تیر سے ذبح ہو گیا ۔حسین علیہ السلام نے اس کے خون کواپنے ہاتھوں میں لیا اور جب آپ کی ہتھیلی خون سے بھر گئی تو اسے ز مین پرڈال دیا اور فرمایا :'' رب ان تک حبست عنا النصر من السماء فاجعل ذالک لما هو خیر ، وانتقم لنا من هٰؤ لا ء الظالمین'' خدا یا اگر اپنی حکمت کے پیش نظر تو نے آسمان سے اپنی مدد ونصرت کو ہم سے روک لیا ہے تو اس سے بہتر چیز ہمارے لئے قرار دے اور ان ظالموں سے ہمارا انتقام لے۔

____________________

١۔ ابو مخنف نے نقل کیا ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٤٨)

٢۔ طبری نے عماردہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک تیر آیا اور اس بچہ کو لگا جو آپ کی آغوش میں تھا تواور آپ اس کے خون کو ہاتھ میں لے کر فرمارہے تھے :''اللهم احکم بیننا و بین قو م دعونا لینصرونا فقتلونا' 'خدا یا تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں بلایا تاکہ ہماری مدد کرے اور پھر ہمیں قتل کردیا۔ (طبری، ج٥ ،ص ٣٨٩)

یعقو بی کا بیان ہے : آغاز جنگ کے بعد ایک کے بعد ایک جام شہادت نوش فرمانے لگے یہا ں تک کہ حسین علیہ السلام تنہا رہ گئے۔ آپ کے اصحاب ،فرزند اور رشتہ دارو ں میں کوئی باقی نہ رہا؛ آپ تنہا اپنے گھوڑ ے پر بیٹھے تھے کہ ایک بچہ نے اسی وقت دنیامیں آنکھ کھو لی۔ آپ نے اس کے کان میں اذان دی اور ابھی اسکی تحنیک (تالو اور زبان کے درمیان جدائی کرنے) میں ہی مشغول تھے کہ ایک تیر آیا اور بچہ کے حلق میں پیو ست ہو گیا اور اس نے اسے ذبح کردیا۔اما م حسین علیہ السلام نے اس کے حلق سے تیر نکا لا اور وہ خون میں لت پت ہو گیا۔ اس وقت آپ فر مارہے تھے''واللّٰه لأ نت أکرم علی اللّٰه من الناقة ولمحمد أکرم من الصالح'' خدا کی قسم تو خدا کے سامنے ناقہ (صالح) سے زیادہ ارزش مند ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صالح سے زیادہ باکر امت ہیں پھر اس کے بعد آکر اس نو نہال کو اپنے فرزند و ں اور بھتیجو ں کے پاس لٹا دیا۔ (تاریخ یعقوبی، ج٦،ص٢٣٢،طبع نجف)

۳۷۵

سبط بن جو زی کا بیان ہے کہ پھر حسین ملتفت ہو ئے کہ ایک بچہ پیاس کی شدت سے رورہا ہے تو آپ اسے اپنے ہاتھ پر لے کر دشمنو ں کے سامنے گئے اور فر مایا :''یا قوم ان لم تر حمو ن فارحمواهٰذا الطفل'' اے قوم ! اگر تم لوگو ں کو مجھ پر رحم نہیں آتاتو اس بچہ پر رحم کرولیکن اس کے جواب میں دشمن کی فوج میں سے ایک نے اس بچہ پر تیر چلادیا جس سے وہ ذبح ہوگیا ۔یہ صورت حال دیکھ کر حسین علیہ السلام رودیئے اور کہنے لگے :''اللّٰهم احکم بیننا وبین القوم دعونا لینصرونا فقتلونا' ' خدایا!تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر جس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم آپ کی نصرت و مدد کری ں گے لیکن اس نے ہمیں قتل کردیا۔ اسی درمیان فضامیں ایک آوازگونجی'' دعہ یا حسین! فان لہ مرضعاً فی الجنة'' اے حسین ! اس بچہ کو چھوڑ دو کیونکہ جنت میں اسے دودھ پلانے والی موجود ہے۔ (تذکرہ ،ص ٢٥٢، طبع نجف)

ان تینو ں روایتو ں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کربلا میں ایسے تین بچے شھید ہوئے ہیں جو شیر خوار یا اس سے کچھ بڑے تھے اور ابو مخنف نے فقط ایک شیر خوار کا تذکرہ کیا ہے جسے طبری نے ذکر کیا ہے۔اس روایت کی بنیاد پر جناب علی اصغر کی روایت اور امام حسین علیہ السلام کا انہیں میدان میں لے جانے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ واقعہ سبط بن جوزی کی زبانی ثابت ہے لہٰذا اگر کوئی آغوش میں شہید ہونے والے واقعہ کو پڑھتا ہے یا لکھتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ حضرت علی اصغر کی شہادت کا منکر ہے اور نہ ہی حضرت علی اصغر کی شہادت کا ذکر کرنے والو ں کو اس پر مصر ہونا چاہیے کہ شیر خوار بچے کے عنوان سے فقط یہی شہید ہوئے ہیں ۔ان کے علاوہ دو بچے اور بھی ہیں جو تیر ستم کا نشانہ بنے ہیں ۔ (مترجم)

۳۷۶

عبداللہ بن جعفر کے دو فرزندوں کی شہادت

پھر عبداللہ بن جعفر کے فرزند میدان نبرد میں آئے اور دشمن کی فوج نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ عبد اللہ بن قطبہ نبہانی طائی نے عون بن عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب پر حملہ کرکے انھیں شہید کردیا(١) اور عامر بن نہشل تیمی نے محمد بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب پر حملہ کرکے انھیں شھید کردیا ۔(٢)

آل عقیل کی شہادت

''عثمان بن خالد بن اسیر جہنی'' اور'' بشر بن حوط قابضی ھمدانی'' نے ایک زبردست حملہ میں عبدالرحمن بن عقیل بن ابیطالب کو شہیدکردیا۔(٣) اوردونوں نے مل کر ان کے لباس وغیرہ لوٹ لئے اور عبداللہ بن عزرہ خثعمی(٤) نے جعفر بن عقیل بن ابیطالب کو تیر مار کر شہید کردیا ،پھر عمروبن صبیح صدائی(٥)

____________________

١۔آپ کی مادر گرامی جمانة بنت مسیب بن نجبۂ غزاری تھی ں ۔ (طبری ،ج ٥، ص ٤٦٩) مسیب بن نجبہ کا شمار کوفہ کے شیعو ں میں توابین کے زعماء میں ہوتا ہے۔ ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ آپ کی مادر گرا می عقیلہ بنی ہاشم زینب بنت علی بن ابی طالب (علیہم السلام) تھی ں (ص٦٠ ،طبع نجف) ۔

٢۔ آپ کی مادر گرامی خوصاء بنت خصفہ بن ثقیف تیمی خاندان بکر بن وائل سے متعلق تھی ں ۔(طبری ،ج٥،ص ٤٦٩) ابوالفرج نے بھی یہی لکھا ہے (ص ٦٠ ،طبع نجف) لیکن سبط بن جوزی نے حوط بنت حفصہ التمیمی لکھاہے۔ (تذکرہ، ص ٢٥٥ ، ط نجف)

٣۔ مختار نے ان دونو ں کی طرف عبداللہ بن کامل کو روانہ کیا۔ ادھر یہ دونو ں جزیرہ یعنی موصل کی طرف نکلنے کا ارادہ کررہے تھے تو عبداللہ بن کامل اور دوسرے لوگ ان دونو ں کی تلاش میں نکلے اورمقام جبانہ میں انھی ں پالیا۔ وہا ں سے ان دونو ں کو لے کر آئے اور جعد کے کنوی ں کے پاس لے گئے اور وہیں ان دونو ں کی گردن ماردی اور آگ میں جلادیا ۔ اعشی ہمدان نے ان دونو ں پر مرثیہ کہا ہے (طبری، ج٦، ص ٥٩) لیکن طبری نے جلد ٥، ص ٤٦٩ پر لکھا ہے کہ عبدالرحمن بن عقیل کو فقط عثمان بن خالد جہنی نے قتل کیا ہے اوربشر بن حوط ہمدانی ان کے ہمراہ اس کے قتل میں شریک نہ تھا لیکن اسی سند سے ابوالفرج نے دونو ں کو ذکر کیا۔ (ص، ٦١،طبع نجف)

٤۔ طبری نے ج٥، ص ٤٦٩ پر لکھ اہے کہ آپ کو بشر بن حوط بن ہمدانی نے شہید کیا اور ج٦، ص ٦٦٥ پر عبداللہ بن عروہ خثعمی لکھا ہے۔ مختار نے اس شخص کو طلب کیا تو یہ آپ کے ہاتھ سے نکل کر مصعب سے ملحق ہوگیا۔ابولفرج نے بعینہ اسی سند کے حوالے سے عبداللہ بن عروہ خثعمی لکھا ہے۔ (ص ٦١طبع نجف)

٥۔ مختار نے اسے طلب کیا تو یہ رات میں اس وقت لایا گیا جب آنکھی ں نیند کا مزہ لے رہی تھی۔ اس وقت یہ چھت

۳۷۷

پر تھا تاکہ پہچانا نہ جا سکے۔ اسے پکڑا گیا درحالیکہ اس کی تلوار اسکے سر کے نیچے تھی ۔ پکڑنے والے نے اس سے کہا خدا تیری تلوار کا برا کرے جو تجھ سے کتنی دور ہے اور کتنی نزدیک ۔ وہ کہہ رہاتھا کہ میں نے ان لوگو ں پر نیزہ چلایا ہے مجروح کیا ہے لیکن کسی کو قتل نہیں کیا ہے۔ اسے مختار کے پاس لایا گیا، مختار نے اسے اسی قصر میں قید کر دیا جب صبح ہوئی تو لوگو ں کو دربارمیں آنے کی اجازت ملی اور لوگ دربار میں داخل ہونے لگے تو وہ قیدی بھی لایا گیا۔ اس نے کہا : اے گرو ہ کفار و فجار ! اگر میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ میں تلوار کی نوک سے لرزہ براندام نہیں ہوتا اورنہ ہی خوف زدہ ہوتا ہو ں ۔ میرے لئے کتنا باعث سرور ہے کہ میری موت قتل ہے۔ خلق خدا میں مجھے تم لوگو ں کے علاوہ کوئی اور قتل کرے گا ۔ میں جانتا ہو ں کہ تم لوگ بد ترین مخلوق خدا ہو مگر مجھے اس کی آرزو تھی کہ میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں اس سے تم لوگو ں کو کچھ دیر تک مارتا ،پھر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور ابن کامل جو اس کے پہلو میں تھے اس کی آنکھ پر طمانچہ لگایا،اس پرابن کامل ہنس پڑااور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک دیا پھر گویا ہوا : اس کا گمان یہ ہے کہ اس نے آل محمد کو زخمی کیا ہے اور نیزہ چلایا ہے لہٰذا اس کے فیصلہ کو ہم نے آپ پرچھوڑ دیا ہے۔ مختار نے کہا : میرا نیزہ لاؤ ! فوراً نیزہ لایا گیا، مختار بولے : اس پر نیزہ سے وار کرو یہا ں تک کہ یہ مرجائے پس اتنا وار ہوا کہ وہ مرگیا ۔(طبری ،ج٦، ص ٦٥)لیکن طبری نے ج٥،ص ٤٦٩ پر ابو مخنف سے روایت کی ہے کہ اس نے عبداللہ بن عقیل بن ابیطالب علیہم السلام کو قتل کیا ہے اور ج٦،ص ٦٤ پر روایت کی ہے کہ جس نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل کو قتل کیا وہ زید بن رقاد جنبی ہے اور وہ یہ کہا کرتا تھا کہ میں نے تمہارے ایک جوان پر تیر چلایا جب کہ وہ اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی پر رکھے ہوئے تھا اور میں نے اس کی ہتھیلی کو اس کی پیشانی سے چپکا دیا اس طرح سے کہ وہ اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی سے جدا نہ کرسکا جب اس کی پیشانی اس طرح ہتھیلی سے چپک گئی تو اس جوان نے کہا :''اللّٰهم انهم استقلونا واستذلونا اللهم فاقتلهم کماقتلونا و اذلهم کما استذلونا'' خدا یا !ان لوگو ں نے ہماری تعداد کم کردی اور ہمیں ذلیل کرنے کی کوشش کی خدا یا! توبھی ان لوگو ں کو اسی طرح قتل کرجیسے انھو ں نے ہمیں قتل کیا ہے اور انھی ں اسی طرح ذلیل و رسوا کر جیسے انھو ں نے ہمیں ذلیل و رسوا کر نے کی کوشش کی ہے؛ پھر اس جنبی نے ایک تیراورچلاکر آپ کو شہید کر دیا۔ وہ کہتاہے:جب میں اس جوان کے پاس آیاتووہ مرچکاتھا۔ میں نے اس تیر کو حرکت دیا تاکہ اسے باہر نکال دو ں لیکن اس کا پھل کچھ اس طریقے سے پیشانی میں پیوست ہوچکا تھا کہ میں اسے نکالنے سے عاجز ہوگیا۔ اپنے زمانے میں مختار نے عبداللہ بن کامل شاکری کو اس کے سراغ میں روانہ کیا،عبداللہ نے آکراس کے گھر کو گھیر لیا اور وہا ں لوگو ں کی ایک بھیڑ لگ گئی تو وہ شخص تلوار سونتے باہر نکلا۔ ابن کامل نے کہا : اس پر تیر چلاؤ اور اسے پتھر مارو،لوگو ں نے ایسا ہی کیا یہا ں تک کہ وہ زمین پر گر پڑا لیکن اس کے جسم میں ابھی جان باقی تھی۔اس کے بعد ابن کامل نے آگ منگوائی اوراسے زندہ جلادیا۔(طبری، ج٦،ص ٦٤)

۳۷۸

نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل(١) پرایک تیر چلایا ۔آپ اپنا ہاتھ پیشانی پر لے گئے تاکہ تیر نکال لیں لیکن پھر ہتھیلیوں کو حرکت دینے کی طاقت نہ رہی،اسی دوران ایک دوسرا تیرچلا جو آپ کے سینے میں پیوست ہو گیا(٢) اور بسیط بن یاسر جہنی نے محمد بن ابوسعید بن عقیل کو شہید کر دیا۔(٣)

حسن بن علی علیہما السلام کے فر زندوں کی شہادت

عبد اللہ بن عقبہ غنوی(٤) نے ابو بکر بن حسن بن علی علیہماالسلام(٥) پر تیر چلا کر انھیں شہید کر دیا(٦) اور عبداللہ بن حسن بن علی(علیہماالسلام) کوحرملہ بن کاہل اسدی(٧) نے تیر چلاکر شہید کردیا ۔(٨)

____________________

١۔ آپ کی مادر گرامی کانام رقیہ بنت علی بن ابیطالب علیہم السلام ہے۔(طبری، ج٥،ص٤٦٩،ابوالفرج ،ص٦٢ ،طبع نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے۔(طبری، ج٥،ص٤٦٩ ، ابو الفرج ،ص ٦٢، طبع نجف)

٣۔ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم ازدی سے یہ روایت نقل کی ہے۔(طبری، ج٥ ،ص٤٤٧)

٤۔ ٤٣ھ میں یہ مستوردبن عقبہ کے ہمراہ نکلنے والو ں میں شمار ہوتا ہے جو کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔یہ وہا ں کاتب تھا ۔'' مستورد ''نے حکم دیا کہ یہ اس کے لئے ایک خط لکھے پھر اس خط کو لے کر سماک بن عبید والی مدائن کے پاس لے جائے اور اس کو اپنی طرف بلائے تو اس نے ایسا ہی کیا۔(طبری ،ج٥ ،ص ١٩٠) جب مستورد کی حکومت مصیبت میں گرفتار ہوئی تو غنوی وہا ں سے بھاگ کر کوفہ روانہ ہوگیا اور وہا ں شریک بن نملہ کے گھر پہنچا اور اس سے پوچھا کہ مغیرہ سے کہا ں ملاقات ہوگی تاکہ یہ اس سے امان لے سکے(طبری، ج٥ ،ص ٩٠) اس نے مغیرہ سے امان طلب کی اور مغیرہ نے اسے امان دے دیا۔(طبری، ج٥،ص ٢٠٦) کربلا کے بعد یہ مختار کے خوف سے بھاگ کر مصعب بن زبیر سے ملحق ہو گیا پھر عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کے ہمراہ ہوگیا۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٠٥) مختار نے اس کی جستجو کرائی تو معلوم ہوا کہ فرار ہے تومختار نے اس کا گھر منہدم کردیا۔ (طبری ،ج٦،ص ٦٥) ْ

٥۔ طبری نے جلد ٥، ص ٤٦٨ پر یہی لکھا ہے مگر ص ٤٤٨ پر ابوبکر بن حسین بن علی لکھ دیا ہے جو غلط ہے ۔

٦۔ عقبہ بن بشیر اسدی کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو جعفر محمد بن علی بن حسین علیہم السلام نے بیان کیا ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٤٤٨) ابوالفرج نے مدائنی سے اس نے ابو مخنف سے اس نے سلیمان بن ابی راشد اور عمرو بن شمر سے اس نے جابرسے انھو ں نے ابو جعفر امام باقر علیہ السلام سے یہ روایت بیان کی ہے۔(مقاتل الطالبیین، ص ٥٧ ،طبع نجف)

٧۔ طبری نے ج٦،ص ٦٥ پر یہی لکھا ہے لیکن یہا ں ج٥ ،ص ٤٦٨ پر حرملہ بن کاہن لکھا ہے جو غلط ہے۔اس کے سلسلے میں مختار کی جستجو اور کیفیت قتل کو بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔ہشام کا بیان ہے کہ مجھ سے ابو ہذیل'' سکون '' کے رہنے والے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ وہ کہتا ہے :خالد بن عبداللہ کے زمانے میں حضرمیو ں کی نشست میں ،میں نے ہانی بن ثبیت حضرمی کو دیکھا جو

۳۷۹

بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔ میں نے سنا کہ وہ کہہ رہاتھا : میں ان لوگو ں میں سے ہو ں جو حسین کے قتل کے وقت وہا ں موجودتھے۔ خدا کی قسم میں ان دس (١٠) میں کا ایک تھا جو ہمیشہ گھوڑے پر تھے اور میں پورے لشکر میں گھوم رہا تھا اور ان کے روز گار کو بگاڑ رہاتھا اسی اثنا میں ان خیمو ں سے ایک نوجوان نکلا جس کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی اس کے جسم پر ایک کرتا اور پاجامہ تھا اور وہ بہت خوفزدہ تھا اور وہ ادھرادھر دیکھ رہا تھا گویا میں دیکھ رہا تھا کہ اس کے کان میں دو درتھے جب وہ ادھر ادھر دیکھ رہاتھا تو وہ در ہل رہے تھے ۔

ناگہا ں ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑا تاہوا سامنے آیا یہا ں تک کہ اس کے نزدیک ہوگیا پھر جب وہ اپنے گھوڑے سے مڑا تو اس نے اس نوجوان کو تلوار سے دو نیم کردیا۔ ابولفرج مدائنی نے اس کی روایت کی ہے۔(ص ٧٩ ،طبع نجف) ابو مخنف کا بیان ہے کہ حسن بن حسن اور عمر بن حسن چھوٹے تھے لہٰذا قتل نہ ہوئے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٤٩) حسین علیہ السلام کے غلامو ں میں سے دو غلام سلیمان اور منجح بھی جام شہادت نوش فرماکر راہی ملک جاودا ں ہوگئے ۔(طبری ،ج٥، ص ٤٦٩)

٨۔طبری نے ج٥، ص٤٦٨ پر یہی لکھاہے اور ابو الفرج نے ص ٥٨ ،طبع نجف پر مدائنی کے حوالے سے یہی لکھا ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ بچہ وہی ہے جو خیمہ سے نکل کر اپنے چچا کی شہادت گاہ کی طرف بھاگا تھا اور وہیں پر ان کے پاس شہید کردیا گیا جیسا کہ عنقریب اس کا بیان آئے گا ۔ ارشاد میں مفید نے اس روایت کو صراحت کے ساتھ لکھا ہے۔(ص ٢٤١ ،طبع نجف)

۳۸۰