واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا0%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا

مؤلف: لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
زمرہ جات:

صفحے: 438
مشاہدے: 186190
ڈاؤنلوڈ: 5080

تبصرے:

واقعۂ کربلا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 186190 / ڈاؤنلوڈ: 5080
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

عبداللہ بن عفیف کا جہاد

مسجد میں نماز جماعت کا اعلان ہوالوگ آہستہ آہستہ مسجد آعظم میں جمع ہونے لگے۔ ابن زیاد منبر پر گیا اور بولا :'' الحمد للّٰه الذ أظهرالحق و أهله و نصر أمیر المومنین یزید بن معاویه و حزبه و قتل الکذّاب ابن الکذّاب الحسین بن عل و شیعته''حمد و ثنا اس خدا کی جس نے حق اور اس کے اہل کو آشکار کیا اور امیر المومنین یزید بن معاویہ اور ان کے گروہ کی مدد و نصرت فرمائی اور کذاب بن کذاب حسین بن علی اور اس کے پیروؤں کو قتل کیا ۔

ابھی ابن زیاد اپنی بات تمام بھی نہ کرپایا تھا کہ عبداللہ بن عفیف ازدی غامدی اس کی طرف بڑھے۔ آپ علی کرم اللہ وجھہ کے پیرو ؤں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ رات تک مسجد سے جدا نہیں ہوتے تھے بلکہ وہیں عبادتوں میں مشغول رہتے تھے۔(١) جب آپ نے ابن زیاد کی بات سنی تو فرمایا :'' ان الکذّاب وابن الکذّاب أنت و أبوک ، والّذی ولّاک وابوه یابن مرجانة (٢) أتقتلون أبناء النبیین و تتکلمون بکلام الصدیقین ! ''جھوٹا اور جھوٹے کا بیٹا تو اور تیراباپ ہے اور وہ جس نے تجھ کو والی بنایااور اس کا باپ ہے، اے مرجانہ کے بیٹے ! کیا تم لوگ انبیاء کے فرزندوں کو قتل کرکے راست بازوں جیسی بات کرتے ہو !

یہ سن کر ابن زیاد پکارا : اسے میرے پاس لاؤ ! یہ سنتے ہی اس کے اوباش سپاہی آپ پر جھپٹ پڑے اور آپ کو پکڑلیا۔ یہ دیکھ کر آپ نے قبیلہ'' ازد ''کو آواز دی :'' یا مبرور'' اے نیکو کار!یہ سن کر قبیلہ

____________________

١۔ جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ نبرد آزمائی میں آپ کی بائی ں آنکھ جاتی رہی۔ جنگ صفین میں کسی نے آپ کے سر پر ایک وار کیا اورپھر دوسرا وارآپ کی ابرؤ ں پر کیا جس سے آپ کی دوسری آنکھ بھی جاتی رہی۔(طبری ،ج ٥، ص ٤٥٨، ارشاد ، ص ٢٤٤)اور سبط بن جوزی نے اس خبر کو بطور مختصر ذکرکیا ہے۔ (ص ٢٥٩)

٢۔ مرجانہ فارسی کے'' مہرگانہ'' سے معرب ہے۔ یہ ابن زیاد کی ما ں ہے۔ یہ ایک قسم کی گالی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایران کے شہر خوزستان کی رہنے والی تھی ۔

۴۰۱

''ازد'' کے جوان آگے بڑھے اور آپ کو ان لوگوں کے چنگل سے نکالا اور آپ کے گھر پہنچادیا ۔(١)

ماحول ٹھنڈا ہو گیا تو ابن زیاد نے پھر آپ کی گرفتاری کا حکم صادر کیا اور جب آپ کو گرفتار کر لیا تو قتل کرکے آپ کوکوفہ کے مقام سبخہ پر لٹکا نے کا حکم دیا لہٰذا آپ کی لاش وہیں پر لٹکی رہی۔(٢)

____________________

١۔اس وقت عبدالرحمن بن مخنف ازدی وہیں بیٹھا تھا۔ اس نے کہا : وائے ہو ! تو نے خود کو بھی ہلاکت میں ڈالا اور اپنی قوم کو بھی ہلاکت میں مبتلا کردیا۔(طبری، ج٥، ص ٤٥٩) یہ ابو مخنف کے باپ کے چچا ہیں کیونکہ ان کے بھائی سعید ابو مخنف کے دادا ہیں ۔ اس سے پہلے انھو ں نے صفین میں شرکت کی ہے اور معاویہ کی غارت گریو ں کا مقابلہ کیا ہے جیسا کہ طبری نے ج٥، ص١٣٣ پر ذکر کیا ہے ۔

٦٦ھ میں مختار کے قیام کے وقت یہ عبداللہ بن مطیع عدوی کے ہمراہ تھے جو ابن زبیر کی جانب سے کوفہ کاوالی تھا ۔عبداللہ بن مطیع نے ان کو ایک لشکر کے ساتھ جبانة الصائدین تک روانہ کیا ۔(طبری، ج٦،ص ٩١٨) یہ ان مشیرو ں میں سے ہیں جو اسے مشورہ دیا کرتے تھے کہ کوفہ سے حجاز چلاجائے۔ (ج ٦ ،ص ٣١) یہ مختار پر خروج کو ناپسند کر تے تھے لیکن جب اصرار ہوا توخروج کرنے والو ں کے ساتھ نکل پڑے(طبری، ج٦،ص٤٤)تو وہا ں فرات پر جنگ کی یہا ں تک کہ ناتوا ں ہوگئے تو لوگ انہیں اٹھالے گئے (طبری، ج٦،ص ٥١) پھر بصرہ میں یہ ان لوگو ں کے ہمراہ جو اشراف کوفہ میں سے نکلے تھے مصعب بن زبیر سے ملحق ہو گئے ۔ (ج ٦،ص ٥٩)مصعب نے انہیں کوفہ روانہ کردیا ۔یہ ٦٧ھ کی بات ہے۔ مقصد یہ تھا کہ لوگو ں کو ابن زبیر کی بیعت کے لئے مدعو کری ں اور لوگو ں کو مصعب کی طرف لے جائی ں ۔(ج٦،ص ٩٦) مختار سے جنگ میں یہ مصعب کے ساتھ تھے۔ (ج ٦،ص ١٠٤) ٧٤ھ میں عبدالملک بن مروان کے زمانے میں والی بصرہ بشر بن مروان کی طرف سے'' ازارقہ'' کے خوارج سے جنگ کی تھی (ج٦ ،ص ١٩٧) اور انھی ں کازرون تک بھگادیا تھا ۔ ان لوگو ں نے خوب مقابلہ کیا یہا ں تک کہ کچھ لوگو ں کے علاوہ ان کے سب ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے پس یہ لڑتے رہے یہا ں تک کہ ٧٥ھ میں قتل کردئے گئے۔ (ج ٦ ،ص ٢١٢)

٢۔یہ حمید بن مسلم کا بیان ہے۔(طبری ، ج٥،ص ٤٥٨)

۴۰۲

شہداء کے سر اور اسیروں کی شام کی طرف روانگی

ابن زیاد نے زخر بن قیس(١) کو آواز دی۔ اس کے ہمراہ'' ابو بردہ بن عوف ازدی'' اور '' طارق بن ظبیان ازدی'' بھی تھے۔اس نے ان لوگوں کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے سروں کویزید بن معاویہ کے پاس روانہ کردیا(٢) پھر امام حسین علیہ السلام کی خواتین اور بچوں کو چلنے کا حکم دیا اور علی بن حسین علیہ السلام کے لئے حکم دیا کہ ان کی گردن میں طوق و زنجیر ڈال دی جائے اوران سب کو ''محفز بن ثعلبہ عائذی قرشی''(٣) اور شمر بن ذی الجوشن کے ہمراہ روانہ کیا۔ یہ دونوں اہل حرم کو لے کر چلے یہاں تک کہ یزیدکے پاس پہنچ گئے۔(٤) جیسے ہی یہ سر یزید کے سامنے رکھے گئے اس نے کہا :

یفلّقن ها ماً من رجال أعزّة

علینا وهم کانوا أعق ّ و أظلما(٥) و(٦)

ان مردوں کے سر دو نیم کردئے جو ہمارے لئے تسلی و تشفی کا باعث ہے وہ لوگ عامل جنایت اور ظلم کے خو گر تھے ۔

____________________

١۔ زحر بن قیس جعفی کندی کاان لوگو ں میں شمار ہوتا ہے جنہو ں نے جناب حجر بن عدی کندی کے خلاف گواہی دی تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٢٧٠) ٦٦ھ میں یہ ابن مطیع کے ہمراہ مختار کے خلاف نبرد آزماتھا ۔ اس کی طرف سے یہ دشت کندہ کی طرف لشکر کا سر براہ بن کر گیاتھا ۔(ج٦، ص ١٨) اس نے خوب جنگ کی یہا ں تک کہ یہ اور اس کا بیٹا فرات کے پاس کمزور ہو کر گر گئے۔ (طبری ،ج٦ ، ص ٥١) ٦٧ھ میں یہ مصعب بن زبیر کے ہمراہ مختار سے جنگ میں شریک تھا ۔ مصعب نے فوج کا سردار بنا کر اسے دشت ''مراد'' روانہ کیا۔ (ج ٦،ص ١٠٥)

٧١ ھمیں عبدالملک نے عراق کے مروانیو ں میں سے جن لوگو ں کو خط لکھا تھا ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ان لوگو ں نے اس خط کا مثبت جواب دیا اور مصعب کو چھوڑ دیا۔(طبری، ج٦ ،ص ٦٥٦) ٧٤ھمیں خوارج سے جنگ میں یہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سر براہ تھا ۔ (طبری ،ج٦، ص ١٩٧) ٧٦ھ میں اس نے حجاج کی طرف رخ کیا اور اس کے ایک ہزار آٹھ سو کے رسالہ میں داخل ہو

۴۰۳

گیا جو شبیب خارجی سے لڑنے جارہا تھا ۔ اس نے شبیب سے خوب لڑائی لڑی لیکن آخر میں شبیب نے اسے مجروح کر کے گرادیا اور یہ اسی مجروح حالت میں حجاج کے پاس پلٹ آیا۔(طبری، ج٦،ص ٢٤٢) اس لعنة اللہ علیہ کے سلسلے میں یہ آخری خبر ہے اس کے بعد اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

٢۔ ہشام کا بیان ہے : مجھ سے عبداللہ بن یزید بن روح بن زنباغ جذامی نے اپنے باپ کے حوالے سے اور اس نے غاز بن ربیعة جرشی حمیری سے روایت کی ہے کہ وہ کہتا ہے : خدا کی قسم میں دمشق میں یزید بن معاویہ کے پاس موجود تھا کہ اسی اثنا ء میں زخر بن قیس آیا اور یزید بن معاویہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ یزید نے اس سے کہا :وائے ہو تجھ پر تیرے پیچھے کیا ہے ؟اور تیرے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا: اے امیر المومنین !آپ کے لئے خوشخبری ہے، اللہ نے آپ کو فتح دی اور آپ کی مدد کی۔ حسین بن علی(علیہما السلام)اپنے خاندان کے ١٨ اور اپنے چاہنے والے ٦٠ افراد کے ساتھ ہماری طرف آئے ۔ ہم ان کے پاس گئے اوران سے سوال کیا کہ وہ تسلیم محض ہوجائی ں اور امیر عبیداللہ بن زیاد کے حکم کو قبول کرلی ں نہیں تو جنگ کے لئے آمادہ ہوجائی ں ۔ ان لوگو ں نے تسلیم ہونے کے بجائے جنگ کو قبول کیا لہذا ہم نے طلوع خورشید سے ان پر حملہ شروع کیا اور انھی ں چارو ں طرف سے گھیر لیا۔ تلواری ں ان کے سرو ں پر چمکنے لگی ں اور وہ سب کے سب قتل کر دئے گئے۔ اب وہا ں ان کے بے سر جسم برہنہ پڑے ہیں ، ان کے کپڑے خون سے آ غشتہ ، رخسار غبارآلود اور آفتاب کی تپش میں ان کا جسم ہے ، ان پر ہوائی ں چل رہی ہیں اور ان کے زائرین عقاب ہیں اوروہ وہیں تپتی ریتی پر پڑے ہیں ۔(طبری ،ج ٥ ، ص ٤٦٠ ، ارشاد ،ص٢٥٤ ،تذکرہ ،ص ٢٦٠)

٣۔ ١٣ھ میں جنگ قادسیہ میں اور اس سے پہلے یہ موجود تھا اور اس سے ان اخبار کی روایت کی جاتی ہے۔(طبری، ج٣،ص ٤٦٥ ۔ ٤٧٧ ، ارشاد ، ص٢٥٤)

٤۔یہ ابو مخنف کی روایت ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٤٥٩)

٥۔ یہ حصین بن ھمام مری کے مفضلیات قصائد میں سے ایک قصیدہ کا شعر ہے جیسا کہ دیوان حماسہ میں موجودہے ۔

٦۔ابو مخنف نے کہا: مجھ سے صقعب بن زہیر نے یزید کے غلام قاسم بن عبدالرحمن سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٦٠ ، ارشاد ، ص٢٤٦ ،طبع نجف ، مروج الذہب ،ج٣ ،ص ٧٠ وتذکرة الخواص، ص ٢٦٢) سبط بن جوزی نے زہری سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : جب شہداء کے سرآئے تو یزید جیرون کی تماشاگاہ پر موجود تھا ، وہیں پر اس نے یہ اشعار کہے :

لما بدت تلک الحمول وأشرقت

تلک الشموس علی ربی جیرون

نعب ا لغراب فقلت نح اولا تنح

فلقد قضیت من الغریم دیو نی

جب وہ قافلے آشکار ہوئے اور وہ خورشید جیرون کی بلندی پر چمکنے لگے تو کوے نے چیخنا شروع کیا؛ میں نے کہا : اب چاہے تو فریاد کر یا نہ کر؛ میں نے تو اپنے قرض دارسے اپنا حساب چکتا کرلیا ہے۔سبط بن جوزی کا بیان ہے : تمام روایتو ں میں یزید

۴۰۴

سے یہ مشہور ہے کہ جب سر حسین اس کے سامنے آیا تو سارے اہل شام وہا ں جمع تھے اور وہ چوب خیزران سے آپ کے سرکے ساتھ بے ادبی کررہاتھا اور ابن زبعری کے اشعار پڑھ رہا تھا :

لیت أشیاخ ببدر شهدوا

جزع الخزرج من وقع الأسل

قد قتلنا القرن من ساداتهم

و عد لنا ه ببدر فا عتد ل

اے کاش! ہمارے وہ بزرگان ہوتے جو جنگ بدر میں مارے گئے تووہ شمشیر ونیزہ کے چلنے سے خزرج کی آہ زاری کو مشاہدہ کرتے، ہم نے ان کے بزرگو ں کو قتل کردیا اور بدر کا حساب بے باق کرلیا۔ سبط بن جوزی کا بیان ہے: شعبی نے اس کا اضافہ کیا ہے :

لعبت هاشم بالملک فلا

خبر جاء ولا وح نزل

لست من خندف ان لم انتقم

من بن أحمد ما کان فعل

بنی ہاشم نے تو حکومت کے لئے ایک کھیل کھیلا تھا ورنہ نہ تو کوئی خبر آئی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی تھی ؛فرزندان احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کام کیا اگرمیں اس کا بدلہ نہ لو ں تو خندف کی اولاد نہیں ، پھر قاضی بن ابی یعلی نے احمد بن حنبل کے حوالے سے حکایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا: اگر یہ خبر یزید کے سلسلے میں صحیح ہے تو وہ فاسق تھا اور مجاہد نے کہا: وہ منافق تھا ۔(تذکرہ ،ص ٢٦١)

۴۰۵

یہ سن کر یحٰی بن حکم ، مروان بن حکم(١) کے بھائی نے کہا :

لهام بجنب الطّفّ أدنی قرابة

من ابن زیادالعبد ذ الحسب الو غل

سمية أمسیٰ نسلها عدداالحصی

وبنت رسول اللّٰه لیس لها نسل

شہداء کی زیاد کے بے اصل ونسل بیٹے سے نزدیکی قرابت تھی، سمیہ کی نسل ریگزاروں کے برابرہو گئی اور رسو ل اللہ کی بیٹی کی کوئی نسل باقی نہ بچی۔

یہ سن کر یزید بن معاویہ نے یحٰی بن حکم کے سینے پر ایک ہاتھ مارا اور کہا : چپ رہ!(٢) پھر لوگوں

____________________

١۔یہ اپنے بھائی مروان بن حکم کے ہمراہ جنگ جمل میں بصرہ میں موجود تھا اور وہا ں مجروح ہوگیا تو شکست کھا کر بھاگا یہا ں تک کہ معاویہ سے ٣٧ھ میں ملحق ہوگیا۔ (طبری، ج٥،ص ٥٣٥) ٧٥ھ میں اپنے بھائی کے لڑکے عبد الملک بن مروان کے زمانے میں مدینہ کا والی بن گیا۔ (طبری، ج٦، ص ٢٠٢) ٧٨ھتک اسی عہدہ پر باقی رہا پھر عبد الملک نے اسے ایک جنگ میں رونہ کیا ۔(ج٦، ص ٣٢١) اس کے سلسلے میں آخری خبر یہی ہے۔ ہا ں اس نے اپنی بیٹی ام حکم کی شادی ہشام بن عبد الملک سے کردی تھی۔ (طبری ،ج٧،ص ٦٧١)

٢۔ابو مخنف نے کہا: مجھ سے ابو جعفر عبسی نے ابو عمارہ عبسی سے روایت کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٦٠) اغانی میں ابو الفرج نے بھی اس کی روایت کی ہے۔ (ج١٢،ص ٧٤ ، ارشاد ،ص٢٤٦،طبع نجف) سبط بن جوزی نے ص ٢٦٢ پر حسن بصری سے روایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا : یزید نے حسین کے سرپر اس جگہ ضرب لگائی جہا ں پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسہ لیا کرتے تھے اور پھر اس شعر سے تمثیل کی:

سمية أمسی نسلها عدد الحصی

وبنت رسول اللّٰه لیس لها نسل

اے سمیہ تیری نسل توعدد میں سنگریزو ں کے مانند ہوگئی لیکن بنت رسول اللہ کی نسل باقی نہ بچی ۔

۴۰۶

کو آنے کی اجازت دی گئی۔ لوگ دربار میں داخل ہو گئے ۔اس وقت حسین کا سر یزیدکے سامنے تھا اور یزید کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے وہ آپ کے گلوئے مبارک کو چھیڑ رہاتھا۔

یہ حال دیکھ کر ابو برزہ اسلمی(١) صحابی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا : کیا تو اپنی چھڑی سے حسین کے گلوئے مبارک سے بے ادبی کررہا ہے، خدا کی قسم تیری چھڑی اس گلوئے مبارک اور دہن مبارک سے متصل ہورہی ہے جہاں میں نے بارہا رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکو بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ اے یزید تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ تیرا شفیع ابن زیاد ہوگا اور یہ قیامت کے دن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے شفیع محمد صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم ہوں گے ۔

پھر ابو برزہ اٹھے اور دربار سے باہر آگئے ۔ ابو برزہ کی یہ گفتار ہند بنت عبد اللہ بن عامر بن کریز(٢) نے سن لی۔ یہ یزید کی بیوی تھی اس نے فوراًچادر اوڑھی اور باہردربار میں نکل آئی اور کہا : اے امیر المومنین !کیا یہ حسین ابن فاطمہ بنت رسول کا سر ہے ؟ یزید نے جواب دیا ہاں ! رسول اللہ کے نواسہ اور قریش کی بے نظیر وبرگزیدہ شخصیت پر نالہ وشیون اور سوگواری کرو ابن زیاد نے ان کے سلسلے میں عجلت سے کام لیا اور انھیں قتل کر دیا ، خدا اسے قتل کرے !

____________________

١۔ فتح مکہ میں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ عبداللہ بن خطل مرتد کے قتل میں شریک تھے جس کے خون کو رسول خدا نے مباح قرار دے دیا تھا ۔(طبری ،ج٣،ص ٦٠) ٢٠ھ میں مصر کی فتح میں یہ عمر وعاص کے ہمراہ تھے۔ (طبری، ج٤، ص ١١) آپ کے اعتراض کی خبر طبری نے ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالے سے بھی نقل کی ہے جس کے راوی عمار دہنی ہیں ۔ (طبری، ج٥،ص ٣٩٠) مسعودی نے مروج الذہب ج٣،ص ٧١ پر روایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا :یزید اپنی چھڑی کو اٹھا لے، خدا کی قسم میں نے بارہا دیکھا ہے کہ رسول خداان لبو ں کو بوسہ دیا کرتے تھے۔سبط بن جوزی نے بھی اس کی روایت کی ہے پھر بلا ذری کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ یزید کے سامنے جس نے یہ جملہ کہا وہ انس بن مالک تھے، پھر اس کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ یہ غلط ہے کیونکہ انس کوفہ میں ابن زیاد کے پاس تھے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔(ص ٢٦٢، طبع نجف)

٢۔ عثمان نے انہیں سجستان سے کابل روانہ کیا تھا تو اس نے ٢٤ھ میں اسے فتح کرلیا (طبری، ج٤،ص ٢٤٤) پھر وہا ں سے معزول کر کے ٢٩ھ میں ابو موسی اشعری کے بعد بصرہ کا والی بنایا ۔اس و قت اس کی عمر ٢٥ سال تھی۔ یہ عثمان بن عفان کے مامو ں زاد بھائی تھا۔(طبری ،ج٤،ص ٢٦٤) اس نے فارس کو فتح کیا ۔(طبری، ج٤،ص ٢٦٥) ٣١ھ میں خراسان کی طرف روانہ

۴۰۷

ہوا اور'' ابر شھو'' ،'' طوس'' ، ابیور داور نساکو فتح کیا۔یہا ں تک کہ سر خس پہنچ گیا اور اہل'' مرو''سے صلح کی۔ (ج٤،ص ٣٠٠) بصرہ میں زیاد بن سمیہ کو اپنا جانشین بنایا۔ (طبری، ج٤،ص ٣٠١) ٢٣ھمیں ابن عامر نے مرو ، طالقا ن، فاریاب ، گرگان اور طنحارستان کو فتح کیا ۔(طبری ،ج٤،ص ٣٠٩)اسی طرح ہراہ اور بادغس کو بھی فتح کیا ۔(طبری، ج٤،ص ٣١٤) ٣٤ ھ میں عثمان نے اس سے ان لوگو ں کے سلسلے میں مشورہ لیا جوعثمان سے انتقام لینا چاھتے تھے تو اس نے مشورہ دیا کہ ان لوگو ں کو جنگ میں بھیج دو۔(طبری، ج٤،ص ٣٣٣) ٣٥ھ میں عثمان نے اسے خط لکھا کہ وہ اہل بصرہ کو عثمان کے دفاع کے لئے آمادہ کر ے۔ ابن عامر نے عثمان کے خط کو لوگو ں کے سامنے پڑھا تو لوگ فوراً عثمان کی طرف چل پڑے یہا ں تک کہ ربذہ کے مقام پر پہنچے تو انھی ں خبر ملی کہ عثمان قتل کردئیے گئے پھر وہ لوگ پلٹ گئے۔ (طبری ،ج٤،ص٣٦٨) ٣٥ھ میں عثمان قتل کئے گئے، اس وقت ابن عامر بصرہ کا حاکم تھا (طبری ،ج٤،ص ٤٢١) اور وہا ں سے وہ حجاز آگیا اور طلحہ ، زبیر ، سعید بن عاص ، ولید بن عقبہ اور بقیہ بنی امیہ بھی وہیں تھے؛ ایک طویل گفتگو کے بعد ان کے بزرگو ں کی رائے یہ ہوئی کہ بصرہ چلی ں لیکن بعض کی رائے یہ تھی کہ شام چلی ں لیکن اسے ابن عامر نے رد کردیا اور کہا : شام سے تمہارے لئے وہ شخص کفایت کرے گا جو مستدام اسی کے علاقہ میں ہو۔ ان لوگو ں کو طلحہ کی تمنا تھی اور عایشہ وحفصہ کا مثبت جواب ان کاپشت پناہ تھا لیکن عبد اللہ بن عمر نے انھی ں منع کر دیا تھا اور اس نے کہا : میرے ساتھ فلا ں فلا ں ہیں تو سب اس کے ساتھ آمادہ ہوگئے۔ (طبری، ج٤،ص ٤٥١) جنگ جمل میں یہ زخمی ہو کر شام کی طرف بھاگ گیا۔ (طبری ،ج٤،ص٥٣٦) اسی کے ہمراہ معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کے پاس صلح کے لئے ایک وفد مدائن روانہ کیا تھا (طبری ،ج٥، ص ١٥٩) پھر معاویہ نے اسے دوبارہ بصرہ کا والی بنادیا (طبری، ج٥،ص ٢١٢) اور اپنی بیٹی ہند بنت معاویہ سے اس کی شادی کردی ۔ اس نے زیاد کے ساتھ معاویہ کی نسبت پر اعتراض کیا تو معاویہ اس پر ناراض ہوگیاپھر یزید نے اس کی سفارش کی۔ (طبری، ج٥،ص ٢١٤) طبری نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ یزید نے کب اس کی بیٹی ہند سے شادی کی لیکن ظاہر یہی ہے کہ جب ابن عامر نے یزید کی بہن ہند سے شادی کی ٹھیک اسی وقت یزید نے اس کی بیٹی سے شادی کی ۔ اس عورت سے یزید کو ایک لڑکا بنام عبد اللہ تھا ۔ اور اس عورت کی کنیت ام کلثوم تھی۔ (طبری ،ج٥،ص ٥٠) ٦٤ھ میں یزید کی ہلا کت اور بصرہ سے ابن زیاد کے فرار کے بعد اہل بصرہ کے ایک گروہ نے ابن زبیر کی ولایت سے ایک ماہ قبل اس کے بیٹے عبد الملک بن عبد اللہ بن عامر کو بصرہ کا حاکم بنادیا ۔(طبری، ج٥، ص٥٢٧)

۴۰۸

یحٰبن حکم نے کہا: تم نے اپنے اس فعل سے قیامت کے دن اپنے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان پردہ حائل کر دیااورتم لوگ ایک امرپرکبھی بھی یکجا نہیں ہو گے اور ان کی شفاعت سے دوررہو گے۔یہ کہہ کر وہ اٹھااور باہرچلاگیا۔(١) دربار کی سجاوٹ کے بعد یزید جب دربار میں بیٹھا تو اس نے اہل شام کے اشراف کو بلایا اور وہ سب کے سب اس کے اطراف میں ادھر ادھر بیٹھ گئے پھر حکم دیا کہ علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) اور امام حسین (علیہ السلام) کی خواتین اور بچوں کو دربار میں لایا جائے۔ حکم کی

____________________

١۔ابو مخنف نے کہا:مجھ سے ابو حمزہ ثمالی نے قاسم بن نجیب کے حوالے سے روایت کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٦٥)

تعمیل ہوئی اور خاندان رسالت کو دربار میں اس حال میں وارد کیا گیا کہ سب کے سب آپ لوگو ں کو غور سے دیکھ رہے تھے پھر آپ لوگو ں کو اس کے سامنے بیٹھا دیا گیا ۔ اس نے خاندان رسالت کو اس بری حالت میں دیکھا تو کہنے لگا ابن مرجانہ کا خدا برا کرے ! اگر تمہارے اور اس کے درمیان کوئی رشتہ داری اور قرابت داری ہوتی تو وہ تم لوگو ں کے ساتھ ایسا نہ کرتا اور اس حال میں نہ بھیجتا ۔

۴۰۹

پھر یزید نے علی بن الحسین زین ا لعابدین علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا :اے علی ! تمہارے باپ نے میرے ساتھ قطع رحم اور میرے حق کو پامال کیا اور حکومت پر مجھ سے جھگڑا کیا تو اللہ نے ان کے ساتھ وہی کیا جو تم نے دیکھا ۔

یہ سن کے آپ نے یزید کو جواب دیا :''مَا اَصَابَ مِنْ مّْصِيْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفْسِکْمْ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَبْرَاهَا ...''(١)

جتنی مصیبتیں روئے زمین پر اور خود تم لوگوں پر نازل ہوتی ہیں (وہ سب) قبل اس کے کہ ہم انھیں پیدا کریں کتاب (لوح محفوظ) میں لکھی ہوئی ہیں ۔

یہ سنکر یزید نے جواب دیا :''وَمَا اَصَابَکُمْ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَيْدِيْکُمْ وَ يَعْفُوْعَنْ کَثِيْرٍ'' (٢) و(٣)

____________________

١۔ سورہ حدید آیت ٢٢ ، ابو الفرج نے اس کے بعد ایک آیت کا اور اضافہ کیا ..''ان ذالک علی اللّه یسیر لکیلا تاسوا علی مافاتکم ولا تفرحوا بما آتاکم واللّه لا یحب کل مختال فخور'' (مقاتل الطا لبیین) سبط بن جوزی نے بھی اس کی روایت کی ہے اور پھر کہاہے : علی بن ا لحسین اور ان کی خواتین کورسیو ں میں جکڑا گیاتھا تو علی (امام زین العابدین علیہ السلام) نے آواز دے کر فرمایا: ''یا یزید ما ظنک برسول اللّٰہ لو رأنا موثقین فی الحبال عرا یا علیٰ أقتاب الجمال'' اے یزید رسول اللہ کے سلسلے میں تیرا کیا گمان ہے اگر وہ ہمیں رسیو ں میں جکڑا اونٹو ں کی برہنہ پشت پر دیکھی ں گے تو ان پر کیا گذرے گی؟ جب امام نے یہ جملہ فرمایا تو سب رونے لگے۔(تذکرہ ،ص ٢٦٢)

٢۔ سورہ شوریٰ آیت، ٣٠، ابوالفرج نے روایت کی ہے کہ یزید نے پہلے اس آیت کو پڑھا پھر امام علیہ السلام نے سورہ حدید کی آیہ ٢٢ سے اس کا جواب دیا اور یہی زیاد ہ مناسب ہے ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤٦١ و ارشاد ،ص ٢٤٦، طبع نجف)

۴۱۰

اور جو مصیبت تم پر پڑتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کا کرتوت ہے اور (اس پر بھی) وہ بہت کچھ معاف کر دیتا ہے۔

فاطمہ بنت علی (علیہ السلام)(١) سے مروی ہے کہ آپ فرماتی ہیں : جب ہم لوگو ں کو یزید بن معاویہ کے سامنے بیٹھایا گیا تو ایک سرخ پوست شامی جو یزید کے پاس کھڑا تھابولا: اے امیر المومنین ! اسے مجھے ہبہ کردیجئے۔ یہ کہہ کر اس نے میری طرف اشارہ کیا تو میں ڈر کر لرزنے لگی اور ذرا کنار ے ہٹ گئی اور میں نے یہ گمان کیا کہ یہ کام ان کے لئے ممکن ہے اور میں نے اپنی بہن زینب کے کپڑے کو پکڑ لیا جوعمر میں مجھ سے بڑی نیز مجھ سے زیادہ عاقل تھیں ۔ انھیں معلوم تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا لہٰذا اس سے کہا : ''کذبت واللّٰہ ولؤ مت ! ماذالک لک ولا لہ!'' خدا کی قسم تو جھوٹا اور قابل ملامت ہے، یہ حق نہ تو تجھے حاصل ہے نہ ہی یزید کو!یہ سن کر یزید غضبناک ہو گیا اور بولا : خدا کی قسم تو جھوٹ بولتی ہے؛ یہ حق مجھ کو حاصل ہے اور اگر میں اسے انجام دینا چاہوں تو انجام دے سکتا ہوں ۔

حضرت زینب سلا م اللہ علیہا :''کلاّ واللّه ، ما جعل اللّٰه ذالک لک الاّ ان تخرج من ملتنا وتدین بغیر دیننا'' نہیں خداکی قسم ہر گز نہیں ، خدا نے تجھے یہ اختیار نہیں دیا ہے مگر یہ کہ تو ہمارے دین سے خارج ہو کر کوئی دوسرا دین اختیار کرلے ۔

یہ سن کر یزید آگ بگو لا ہو گیا پھر بولا : تو مجھے دین کی تلقین کر تی ہے ! دین سے خارج تو تیرے باپ اور بھائی تھے ! حضرت زینب سلام اللہ علیہانے جواب دیا :'' بدین اللّٰہ ودین أب وأخ وجد اھتدیت أنت وأبوک وجدک! ''خدا کے دین نیز میرے آباء و اجداد اور بھائی کے دین سے تو نے اور تیرے باپ داد انے ہدایت پائی ہے ۔

یزید شدید غصہ کی حالت میں بولا: توجھوٹ بولتی ہے اے دشمن خدا!

____________________

١۔ طبری کی عبارت یہی ہے لیکن شیخ مفید نے ارشاد،ص ٢٤٦، اور سبط بن جوزی نے تذکرہ کے ،ص ٢٦٤، پر فاطمہ بنت الحسین ذکر کیا ہے۔اس کا مطلب ہوا حضرت زینب پھو پھی تھی ں ۔

۴۱۱

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے کہا :''أنت أمیر مسلّط تشتم ظالماً تقهر بسلطانک ! ''تجھ سے کیا کہہ سکتی ہوں تو ایک مسلط اورسر پھرابادشاہ ہے جو ظلم وستم کے ساتھ برا بھلا کہہ رہا ہے اور اپنی سلطنت وبادشاہت میں قہر وستم کررہا ہے۔ یہ سن کر ناچار یزید خاموش ہو گیا، پھر اس شامی نے اپنی بات کی تکرار کی : اے امیر المومنین یہ کنیز مجھے بخش دے ! تو غصہ کے عالم میں یزید نے کہا : میرے پاس سے دور ہو جا، خدا تجھے موت دے!(١) پھر حکم دیا کہ عورتوں کے لئے ایک علحٰد ہ گھرقرار دیاجائے اور ان کے ہمراہ علی بن الحسین بھی ہوں اور ان کے ہمراہ زندگی کی ضروریات موجود ہوں ۔ اس بنیاد پر سب کے سب اس گھر میں منتقل ہوگئے جوان کے لئے قرار دیا گیا تھا ۔ جب خاندان رسالت کے یہ افراد وہاں پہنچے تو شام کی عورتیں روتی ہوئی ان کے استقبال کو آئیں اور حسین علیہ السلام پر نوحہ وماتم کر نے لگیں اور اس نوحہ وماتم کا سلسلہ تین دنوں تک جاری رہا ۔

جب جناب زینب وزین العابدین علیہما السلام کا قافلہ مدینہ کی طرف جانے لگا تو یزید نے کہا :اے نعمان بن بشیر ! سفر کے تمام اسباب اور ضروریات ان کے ساتھ کردو ، ان کے ہمراہ اہل شام کی ایک امین و صالح شخصیت کو روانہ کرونیز ان کے ہمراہ سواروں اور مددگاروں کوبھی فراہم کرو تاکہ یہ انھیں مدینہ تک پہنچادیں ۔اس طرح خاندان رسالت کا قافلہ عزت و احترام کے ساتھ ان لوگوں کے ہمراہ نکلا۔یہ لوگ ان لوگوں کے ہمراہ رات میں ساتھ ساتھ چلتے اور قافلہ کے آگے آگے اس طرح ہوتے کہ کسی طرح سے کوئی کوتاہی اور غفلت نہ ہو نے پائے۔جہاں بھی یہ قافلہ اترتا تھا نعمان اوراس کے ساتھی ان کے اطراف سے جدا ہوجاتے تھے نیز ان کے نگہبان تمام راستہ میں ان کی ضرورتوں کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے جو ایک انسان کی روز مرہ کی حاجت ہوتی ہے مثلا ً قضا ئے حاجت اور وضو وغیرہ ۔ راستہ بھر یہی سلسلہ جاری رہا اور نعمان بن بشیر راستہ بھر قافلہ رسالت پر ملاطفت کرتا رہا اور ان سے ان کی ضرورتیں پوچھتا رہا ۔(٢)

____________________

١۔ اس خبر کو طبری نے عمار دہنی کے حوالے سے امام محمد باقر علیہ السلا م سے نقل کیا ہے۔(طبری، ج٥،ص ٣٩٠)

٢۔ حارث بن کعب نے فاطمہ سے نقل کیاہے۔(طبری ،ج٥، ص ٤٦١ ، مقاتل الطالبیین، ص ٨٠ ،تذکرہ ،ص ٦٤ ٢)

محترم قاری پر یہ بات واضح ہے کہ طبری کی نقل کے مطابق ابو مخنف نے نہ تو قید خانہ کا ذکر کیا ہے، نہ ہی قید خانہ میں مدت قیام کو ذکر کیا ہے اورنہ ہی اس میں امام حسین علیہ السلام کی ایک بچی کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے ۔ اسی طرح قید سے رہائی اور اس کے اسباب، امام زین العابدین سے یزید کی گفتگو اور پھر راستے میں کر بلا ہو کر مدینہ جانا اور کر بلا میں عزاداری وغیرہ کے واقعات اس تاریخ میں موجود نہیں ہیں لہٰذا ان تاریخی حقائق کی معلومات کے لئے قارئین کو لھوف ، نفس المہموم اور مقتل کی دوسری معتبر کتابو ں کے مطالعہ کی دعوت دی جاتی ہے ۔(متر جم)

۴۱۲

اہل بیت کی مدینہ واپسی

جب امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر اہل مدینہ کو ملی تو عقیل بن ابی طالب کی بیٹی ام لقمان(١) خاندان بنی ہاشم کی خواتین کے ہمراہ باہر نکل آئیں درحالیکہ وہ خود کو اپنے لباس میں لپیٹے ہوئے تھیں اور یہ دلسوز اشعار پڑھے جارہی تھیں :

ما ذاتقولون ان قال النب لکم

ماذا فعلتم وأنتم آخر الُا مم

بعترت وبا هل بعد مفتقد

منهم اُساری ومنهم ضرجّوابدم(٢)

____________________

١۔ شیخ مفید کا بیان ہے : ام لقمان بنت عقیل بن ابی طالب رحمة اللہ علیہم نے جب حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنی تو سرپیٹتے ہوئے باہر نکل آئی ں ۔ ان کے ہمراہ ان کی بہنی ں ام ہانی، اسماء ،رملہ اور زینب بھی تھی ں جو عقیل بن ابی طالب رحمةاللہ علیہم کی بیٹیا ں تھی ں ۔ یہ سب کے سب شہد اء کربلا پر نالہ وشیون کرنے لگی ں اور'' ام لقمان'' یہ شعر پڑھنے لگی ں ...۔(ارشاد، ص ٢٤٨) سبط بن جوزی نے اپنی کتاب تذکرہ میں واقدی سے ان اشعار کو زینب بنت عقیل سے نقل کیا ہے۔(تذکرہ ،ص ٢٦٧)

٢۔ طبری نے ان اشعار کو عمار دہنی کے حوالے سے امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : جب محملو ں کو جناب زینب اور زین العابدین علیہماالسلام کے قافلہ کے لئے تیار کردیا گیا اور قافلہ مدینہ تک پہنچ گیا تو جیسے ہی یہ قافلہ مدینہ پہنچا بنی عبد المطلب کی ایک خاتون اپنے بالو ں کو پر یشان کئے ، ہاتھو ں کو سر پر رکھے اس کوشش میں تھی کہ آ ستینو ں سے اپنے چہرہ کو چھپا لے قافلہ سے روتی ہوئی آکر ملی اور یہ اشعار پڑھنے لگی ۔

ماذاتقولون ان قال النبی لکم

ما ذا فعلتم و أنتم آخر الامم

بعترت واهل بعد مفتقد

منهم أساری و منهم ضرجوا بدم

ماکان هٰذا جزائ اذنصحت لکم

ان تخلفون بسو ء فی ذوی رحمی

اے لوگو ! اس وقت کیا جواب دوگے جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے کہیں گے کہ تم نے میرے اہل بیت اور میری عترت کے ساتھ کیا سلوک کیا جبکہ تم آخری امت تھے؛ان میں سے بعض کو اسیر بنا دیا اور بعض کو خون میں غلطا ں کردیا۔ اگر میں تم لوگو ں کو یہ نصیحت کر تا کہ تم لوگ میرے بعد میرے قرا بتدارو ں کے ساتھ بد سلوکی کرنا تب بھی ان کی پاداش یہ نہ ہوتی۔

۴۱۳

اے لوگو ! اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگوں نے میرے بعد میری عترت اور میرے گھر انے کے ساتھ کیاسلوک کیا تو تم کیا جواب دو گے؟جبکہ تم آخری امت تھے؛تم نے ان میں سے بعض کو اسیر تو بعض کو خون میں غلطاں کردیا ۔

جب عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب(١) کو اپنے دونوں فرزند محمد اور عون کی شہادت کی خبر ملی تو لوگ انھیں تعزیت پیش کرنے کے لئے آنے لگے۔ عبداللہ بن جعفر نے ان لوگوں کی طرف رخ کرکے کہا :''الحمد للّٰه عزَّ وجل علیٰ مصر ع الحسین (علیه السلا م) أن لا تکن آست حسینًا یدّ فقد آساه ولدّ ، واللّٰه لو شهد ته لأحببت أن لا أفا رقه حتی أقتل معه ! واللّٰه لما یسخّ بنفس عنهما و یهوّن علی المصاب بهما : انهما أصیبا مع أخ وابن عممواسین له، صابرین معه'' (٢) و(٣)

امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر خدائے عز وجل کی حمد و ثنا ہے، اگر میرے دونوں ہاتھ حسین کی مدد ویاری نہ کرسکے تو میرے دونوں بیٹوں نے انکی مدد و نصرت فرمائی ،خدا کی قسم! اگرمیں وہاں ہوتاتومجھے یہی پسند ہوتا کہ میں ان سے جدا نہ ہوں یہاں تک کہ انھیں کے ہمراہ قتل کردیا جاؤں ،خدا کی قسم جو چیز مجھے اپنے دونوں بیٹوں کے سوگ میں اطمینان بخشتی ہے اور ان کی مصیبتوں کو میرے لئے آسان کرتی ہے یہ ہے کہ میرے دونوں فرزند میرے بھائی اور میرے چچا زادبھائی کے ناصر اور ان کے یار و مد دگار تھے اور انکے ہمراہ صبر کرنے والوں میں تھے ۔

____________________

١۔ حلیمہ سعد یہ کی خبر کے راوی آپ ہی ہیں ۔ (طبری، ج٦، ص ١٥٨) جعفر طیار کی شہادت کے بعد جب بقیہ لشکر جنگ موتہ سے پلٹا تو رسو خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو بلا یا اور اپنے ہاتھو ں پر آپ کو اٹھا کر نوازش کی ۔(طبری ،ج٣ ،ص ٤٢) آپ ہی نے حضرت علی علیہ السلام کو مشورہ دیا تھا کہ قیس بن سعد کو مصر سے معزول کردی ں اور آپ کے مادری بھائی محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر بنادی ں ۔ (طبری، ج٤،ص ٣٦) آپ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ (طبری، ج٥،ص ٦١) آپ امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے ہمراہ حضرت علی علیہ السلام کے کفن و دفن میں شریک تھے پھر انھی ں لوگو ں کے ہمراہ مدینہ لوٹ آئے تھے۔ (طبری ،ج٥، ص ١٦٥) جب آپ مکہ سے امام حسین علیہ السلام کے پاس اپنے بیٹو ں کے ہمراہ اپنا خط لے کرآئے تھے تو وہا ں آپ کے بقیہ حالات گزر چکے ہیں ۔

٢۔ سلیمان بن ابی راشد نے عبدالرحمن بن عبید ابی کنود کے حوالے سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔(طبری ،ج٥،ص ٤٦٦)

٣۔ہشام کا بیان ہے : مجھ سے عوانہ بن حکم نے روایت کی ہے کہ وہ کہتا ہے : جب عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر حسین بن علی (علیہما السلام) قتل کر دئیے گئے تو ابن زیاد نے عبدالملک بن ابی حارث سلمی کو بلایا اور اس سے کہا: تم یہا ں سے عمرو بن سعید بن عاص کے پاس جاؤ (واضح رہے کہ عمرو بن سعید ان دنو ں مدینہ کا گورنر تھا) اور جا کر اسے حسین علیہ السلام کے قتل کی خوشخبری دے دو ۔ دیکھو تم سے پہلے کوئی دوسرا یہ خبر اس تک نہ پہنچائے۔ اس میں زیادہ دیرنہ لگانااور اگر راستے میں تمہارا اونٹ کسی وجہ سے رک جائے تودوسراخرید لینا ،اسکے دینار تم کو ہم دے دی ں گے۔عبدالملک کابیان ہے : میں مدینہ پہنچا اور عمرو بن سعید کے پاس حاضر ہوا تو اس نے پوچھا: تمہارے پیچھے کیا خبر ہے ؟ میں نے جواب دیا : ایسی خبر ہے جو امیر کو مسرور کردے گی، حسین بن علی قتل کر

۴۱۴

دئیے گئے تو اس نے کہا : حسین کے قتل کا اعلان کردو ! میں نے ان کے قتل کااعلان عام کردیا۔میں نے ایسی فریاد اور چیخ پکارکبھی نہ سنی تھی جیسی فریادوگریہ و زاری حسین کے قتل کی خبر پر بنی ہاشم کی عورتو ں کی سنی لیکن عمرو بن سعید ہنسنے لگا اور بولا :

عجّت نساء بنی زیاد عجة

کعجیج نسوتنا غدا ة الارنب(١)

بنی زیاد کی عورتی ں نالہ وشیو ن کررہی ہیں جیسے ہماری عورتی ں ارنب کی صبح میں گریہ وزاری کررہی تھی ں پھر اس نے کہا:یہ نالہ وفریاد عثمان بن عفان کے قتل پر نالہ وفریاد کے بدلہ میں ہے،اس کے بعد وہ منبر پر گیا اور لوگو ں کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی۔شیخ مفید نے ارشاد ص ٢٤٧ ، طبع نجف پر اس کی روایت کی ہے۔ہشام نے عوانہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : عبیداللہ بن زیاد نے عمربن سعد سے کہا: اے عمر ! وہ خط کہا ں ہے جس میں میں نے تم کو حسین کے قتل کا حکم دیا تھا ؟ عمربن سعد نے جواب دیا: میں نے تمہارے حکم پرعمل کیا اور خط ضائع ہوگیا ۔

عبیداللہ بن زیاد : تم کو وہ خط لانا پڑے گا ۔

____________________

(١) یہ شعر عمربن معدیکرب زبیدی کا ہے۔ ان لوگو ں نے بنی زبید کے بدلے میں بنی زیاد سے انتقام لیا تھا تو اس پر یہشعر کہا تھا۔ سبط بن جوزی نے اسے مختصر بیان کیاہے۔(ص٢٦٦) اور شعبی کے حوالے سے ذکرکیاہے کہ مروان بن حکم مدینہ میں تھا۔اس نے امام حسین علیہ السلام کے سر کو اپنے سامنے رکھااور آپ کی ناک کے اوپری حصہ سے بے ادبی کرنے لگا (اگر چہ اس روایت کی قوت ثابت نہیں ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کا سر مدینہ نہیں آیا ہے۔ ہا ں یہ ممکن ہے کہ مروان مبارک باد دینے کے لئے مدینہ سے شام گیاہواور وہا ں یہ واقعہ پیش آیاہو۔ مترجم بامشورہ محقق) اور بولا :

یا حبذابردک فی الیدین

ولو نک ا لأحمر فی الخدین

اے خوشا کہ تیرا سر د اور مردہ سر میرے دونو ں ہاتھ میں ہے اور تیرا سرخ رنگ تیرے رخسارو ں پر ہے، پھر بولا: خدا کی قسم گویا میں عثمان کا زمانہ دیکھ رہاہو ں ۔

ابن ابی الحدیدنے شرح نہج البلاغہ، ج ٤،ص ٧٢ پر حقیقت سے اس طرح پردہ ہٹا یا ہے: صحیح تو یہ ہے کہ عبیداللہ بن زیاد نے عمرو بن سعید بن عاص کو خط لکھا جس میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مژدہ سنایا گیا تھا۔ اس نے اس خط کو منبر سے پڑھا اور اس کے

۴۱۵

ساتھ مذکورہ شعر بھی پڑھے ۔

پھررسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا : ''یوم بیوم بدر'' یہ دن روز بدر کا بدلہ ہے ۔ یہ سن کر اصحاب کے ایک گروہ نے اس پر اعتراض کیا۔ اس مطلب کو ابو عبیدہ نے اپنی کتاب ''مثالب ''میں لکھا ہے ۔

عمر بن سعد : وہ ضائع ہوگیا ۔

عبیداللہ بن زیاد : خدا کی قسم تم کو اسے میرے پاس لانا ہوگا۔

عمربن سعد : معذرت کے ساتھ،خدا کی قسم ہم سے جو شقاوت ہوئی ہے اسے مدینہ میں قریش کی بوڑھی عورتی ں پڑھ رہی ہیں ۔خدا کی قسم میں نے حسین کے سلسلے میں اتنے اخلاص کے ساتھ تم سے گزارش کی تھی کہ اگر اتناا خلاص اپنے باپ سعدبن ابی وقاص کے ساتھ کرتا تو میں ان کا حق ادا کر چکا ہوتا۔

عبیداللہ کے بھائی عثمان بن زیاد نے کہا : خداکی قسم یہ سچ کہہ رہاہے ، میں تو یہ چاہتا تھا کہ خاندان زیاد کی کوئی فرد نہ بچے مگریہ کہ قیامت کے دن اس کے ناک میں ایک نکیل ہو لیکن اس نے حسین کوقتل نہ کیا ہو ۔

ہشام کا بیان ہے: مجھ سے عمرو بن حیزوم کلبی نے اپنے باپ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس نے سنا ایک منادی ندا دے رہا تھا :

أیها القاتلون جهلاً حسینا

أبشروا با لعذاب والتنکیل

کل أهل السماء یدعون علیکم

من نبی و ملائک و قبیل

قد لعُنتم علی لسان بن داو

د و موسی و حامل الا نجیل

اے نادان قاتلان حسین تم کو عذاب ورسوائی کی بشارت ہو ،تمام اہل آسمان انبیاء ،فرشتے اور سب کے سب تمہارے لئے بد دعا کر رہے ہیں ، داود ، موسی اور صاحب انجیل کی زبان سے تم لوگ موردلعنت ہو ۔ اس خبر کو شیخ مفید نے ارشاد ،ص ٢٤٨ ، اور سبط بن جوزی نے تذکرہ، ،ص ٢٧٠ ،طبع نجف پر لکھا ہے ۔

۴۱۶

اہل کوفہ میں سب سے پہلا حسینی زائر

واقعہ عاشورہ کے بعد عبیداللہ بن زیاد نے اہل کوفہ کے سربر آوردہ افراد کو بلایا اور ان کی دل جوئی کرنے لگالیکن حضرت حر کے فرزند عبیداللہ بن حر جعفی پر اس کی نگا ہ نہیں پڑی۔ کچھ دنوں کے بعد عبیداللہ بن حر آیا اور ابن زیاد کے پاس گیا۔ اس نے حر کے بیٹے کو دیکھ کرکہا : فرزند حر ! تم کہاں تھے ؟ اس نے جواب دیا : میں مریض تھا تو ابن زیاد کہنے لگا : روح کے مریض تھے یا بدن کے؟ بیشہء شجاعت کے شیر دل فرزند عبید اللہ بن حر نے جواب دیا :'' أما قلبی فلم یمرض وأما بدنی فقد مَنَّ اللّّٰه علیّ با لعافیه ''میری روح تو مریض نہیں ہوئی ہے، رہا سوا ل بدن کاتو خدا نے صحت دے کرمجھ پر احسان کیا ہے ۔

یہ سن کر ابن زیاد نے اس سے کہا: تو جھوٹ بولتا ہے تو ہمارے دشمنوں کے ساتھ تھا ۔

عبیداللہ بن حر نے جواب دیا: اگرمیں تمہارے دشمنوں میں ہوتا تو وہاں میرا حضور تم سے پوشیدہ نہیں رہتا ۔

اس گفتگو کے درمیان عبیداللہ بن زیاد کچھ دیر کے لئے فرزند حر کی طرف سے غافل ہوگیا تو وہ فوراً اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ابن زیاد متوجہ ہوا اورابن حر کو نہیں پایا تو پوچھنے لگا : فرزند حر کہاں ہے ؟ حاشیہ نشینوں نے جواب دیا : وہ تو ابھی تھوڑی دیر قبل نکلا ہے ۔

عبیداللہ بن زیادنے کہا: اسے میرے پاس لے آؤ۔

یہ سن کر اس کی پولس کے افراد فوراً باہرآئے اور ابن حر کے پاس پہنچ کر کہا : امیر نے تم کو بلایا ہے ان کے پاس چلولیکن حر کے فرزند نے آنے کے بجائے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور کہا : تم لوگ اس تک میرا پیغام پہنچادوکہ خدا کی قسم میں کبھی بھی فرمانبردار ہو کر اس کے پاس نہیں آؤں گا۔

پھر وہ وہاں سے نکل گیا اور اپنے گھوڑے کوسر پٹ دوڑاتا ہوا کربلا پہنچا اوروہاں یہ اشعار پڑھے :

یقول أمیر غادر وابن غادر

ألا کنت قاتلت الشهید ابن فاطمة

فیاندم أن لاأکون نصرته

ألا کل نفس لا تسدّد نادمة

وان لانّ لم اکن من حماته

لذو حسرة ماان تفارق لازمة

سق اللّٰه ارواح الذین تأزّروا

۴۱۷

علی نصره ، سُقیاً من الغیث دائمة

وقفتُ علی أجداثهم و مجالهم

فکا د الحشاینقضّ والعین ساجمة

لعمری لقد کانوا مصالیت فی الوغی

سراعاًالی الهیجا حماة ضراغمة

فان یقتلوا فکلُّ نفس تقية

علی الارض قد أضحت لذالک واجمة

وما ان رأی الرّاؤون أفضل منهم

لدی الموت سادات و زُهراً قماقمة

أتقتلهم ظلماًو ترجوا ودادنا

فدع خطة لیست لنا بملائمة

لعمری لقد راغمتمونا بقتلهم

فکم نا قم منّا علیکم و ناقمة

أهْم ّمرارًاان أسیر بجحفل

الی فئة زاغت عن الحق ظالمة

کفّوا والاذدتکم فی کتائب

اشد علیکم من زحوف الدیالمة(١) و(٢)

____________________

١۔ عبدالرحمن بن جندب ازدی نے مجھ سے روایت کی ہے۔(طبری، ج٥،ص ٤٦٩)

٢۔ ضرب المثل میں ''دیلمیو ں '' کا تذکرہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ'' ساسانیو ں ''کے سقوط کے بعد دفاعی جنگ میں انھو ں نے بڑا زبردست حملہ کیاتھا۔ واضح رہے کہ ابن حر عثمانی مذہب تھے اور جب عثمان قتل کر دئے گئے تو یہ کوفہ سے نکل کر معاویہ کے پاس گئے اور اسی کے پاس مقیم رہے یہا ں تک کہ حضرت علی علیہ السلام شھید ہوگئے (طبری، ج٥ ، ص ١٢٨) امام کی شہادت کے بعد یہ کوفہ پلٹ آئے۔یہ حجر بن عدی کی گرفتاری کے وقت آرزو مند تھے کہ اگر دس یا پانچ آدمی بھی میری مدد کرتے تو میں حجر اور ان کے ساتھیو ں کو نجات دلادیتا۔ (طبری، ج٥ ، ص ٢٧١) امام حسین علیہ السلام نے انھی ں اپنے ساتھ قیام کی دعوت دی تو بہانہ کرکے کہنے لگے کہ خدا کی قسم میں کوفہ سے نہیں چلاتھا مگر یہ کہ مجھے ناپسند تھا کہ میرا آپ سے سامنا ہو تو اما م حسین علیہ السلام نے فرمایا : اگرتم ہماری مدد نہیں کرنا چاہتے ہوتو نہ کرو لیکن اس دن خدا سے خوف کھاؤ جس دن کہیں ان میں سے نہ ہوجاؤ جوہم سے جنگ کری ں گے، خدا کی قسم کوئی ایسا نہیں ہے کہ جوہماری فریاد سنے اورہماری مددنہ کرے مگر یہ کہ وہ ہلاک ہوجائے گا ۔(طبری ،ج٥،ص ٤٠٧) جب یزید مر گیا

۴۱۸

اور ابن زیاد بھاگ گیا۔ ادھر مختار قیام کے لئے اٹھے تویہ سات سو سوارو ں کے ہمراہ مدائن کی طرف نکلے اور وہا ں لوگو ں سے مال لینے لگے تو مختار نے کوفہ میں ان کی بیوی کو قیدکر لیا اور کہا : میں اس کے ساتھیو ں کو ضرور قتل کرو ں گا تو یہ مصعب بن زبیر سے ملحق ہو گئے اور مختار سے جنگ شروع کر دی۔(طبری، ج٥،ص ١٠٥) یہی وہ شخص ہے جس نے مختار کے قتل کے بعد مصعب کو مشورہ دیاکہ مختار کے ساتھیو ں میں سے ان موالیو ں کو قتل کرد و جو غیر عرب ہیں اور عرب نسل لوگو ں کو چھوڑ دولہذا مصعب نے ایسا ہی کیا۔(طبری، ج٥،ص١١٦)اس وقت مصعب خود اپنی زندگی سے اس کے حوالے سے خوف زدہ ہوگیا اور اسے قید کردیا ۔ قبیلۂ مذحج کے ایک گروہ نے اس کی سفارش کی تومصعب نے اسے آزاد کردیاپھراس نے مصعب پر خروج کردیا (طبری، ج ٥،ص ١٣١)اور عبد الملک بن مروا ن سے ملحق ہوگیا۔ اس نے اسے کوفہ کا گورنر بناکر کوفہ لوٹایا۔ وہا ں ابن زبیر کا عامل موجود تھا ۔ عبیداللہ بن حر نے اس سے جنگ کی اورقتل کردیا۔یہ ٦٨ھ کا واقعہ ہے۔(طبری، ج٥ ، ص ١٣٥) راہ کربلامیں منزل قصر بنی مقاتل کے پاس امام حسین علیہ السلام سے اس کی ملاقات کے ذیل میں اس کے احوال گزر چکے ہیں ۔

پیما ن شکن امیر اور فریب کار بیٹا کہتا ہے کہ فاطمہ کے شہید لال سے جنگ کیو ں نہ کی؟! ہائے افسوس کہ میں ان کی نصرت و مدد نہ کرسکا ،حقیقت یہ ہے کہ جس کی فکر صحیح و سالم نہ ہو اسے ندامت ہی اٹھانی پڑتی ہے ، میں اس وجہ سے حسرت و اندوہ میں ہو ں کہ میں ان کی حمایت نہ کر سکا اور یہ حسرت و ندامت مجھ سے جدا نہیں ہوگی، خدا ان لوگو ں کی ا رواح کو اپنی بے پایان رحمتو ں کی بارش سے سیراب کرے جنہو ں نے ان کی نصرت و مدد کاپورا پورا حق ادا کیا، میں ان کے جسمو ں اور ان کی آرامگاہ پر اس حال میں کھڑا ہو ں کہ میری آنکھو ں سے سیل اشک جاری ہے، قریب ہے کہ دل پاش پاش ہوجائے اور میں گر پڑو ں ،میری جان کی قسم وہ لوگ میدان جنگ میں ایسے بیشہ ٔ شجاعت تھے کہ شیرسے زیادہ سرعت و تیزی کے ساتھ میدان فضل وشرف کی طرف گامزن تھے اور مدافع حق کی حمایت کر نے والے نیزشیر بیشہ ٔ حق تھے ، اگر وہ شہید کر دئے گئے تو اہل زمین کے تمام متقین ان کی شہادت پر اندوہناک ہیں حقیقت نگر اور تاریخ کا مطالعہ کرنے والے افراد جتنی تحقیق کرنا چاہیں کرلی ں لیکن موت کے مقابلہ میں ان کے جیسا بہادر و ساونت نہیں پائی ں گے، کیا تم ان کو ظلم وستم کے ساتھ قتل کرنے کے بعد ہم سے دوستی کی امید رکھتے ہو ؟ اپنی اس بری سازش کو کنارے رکھو یہ ہمارے افکار سے ساز گار نہیں ہے، میری جان کی قسم ان کو قتل کرنے کے بعد تم لوگو ں نے ہم سے دشمنی مول لی ہے، کتنے ہمارے مرد اور کتنی ہماری عورتی ں ہیں جنہیں تم لوگو ں نے اپنے خلاف بر انگیختہ کیاہے،

ہمیشہ میں اس فکر میں ہو ں کہ ایک لشکرجرار کے ہمراہ ان ظالمو ں کی طرف حرکت کرو ں جنہو ں نے حق سے منہ موڑ کر امام حسین علیہ السلام سے جنگ کی ہے ۔

اب بس کرو اور اپنے ظلم وستم سے ہاتھ کھینچ لو ورنہ تمہارے ظلم وستم کو دور کرنے کے لئے دیلمیو ں سے سر سخت اور بہادر سپاہیو ں کے ہمراہ تمہارے خلاف نبرد آزمائی کرو ں گا ۔

۴۱۹

خاتمہ

خدائے متعال کی رحمتوں کے صدقے میں امام حسین علیہ السلام کے واقعات سے متعلق روایتیں جو تاریخ طبری میں ہشام کلبی سے منقول ہیں جسے انھوں نے اپنے والد اور انھوں نے ابو مخنف سے اور انھوں نے اپنے راویوں اور محدثین سے نقل کیا ہے، تحقیقات و تعلیقات کے ساتھ تمام ہوئیں ۔ یہ توفیق شامل حال رہی کہ تعلیقات کے لئے بھی ہم نے تاریخ طبری ہی کو پہلا منبع قرار دیا مگر یہ کہ اگر ہمیں تاریخ طبری میں کچھ نہیں ملا تو دوسری کتابوں کی طرف رجوع کیا۔ والحمد للہ رب العالمین۔

سخن مترجم

خدا کا شکر کہ کتاب'' وقعة الطف'' کا ترجمہ محمد و آل محمد علیہم السلام کی مدد سے تمام ہوگیا۔ خدا وند عالم سے دست بہ دعا ہوں کہ اس کوشش کو قبول فرما لے اور ہمارا یہ فعل امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خوشنودی اور ان کے ظہور میں تعجیل کا سبب قرار پائے تاکہ وہ آکرتاریخی حقائق سے پردہ ہٹائیں اور ان کی موجودگی میں ہم مصائب محمد وآل محمد علیہم السلام سن کرمثاب ہوں ۔

آمین یا رب العالمین بحق محمد و آله الطاهرین

العبد

سید مراد رضا رضوی

٦ رجب المرجب ٢٦ ١٤ ہجری ۔

۴۲۰