واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا0%

واقعۂ کربلا مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 438

واقعۂ کربلا

مؤلف: لوط بن یحییٰ بن سعید ( ابومخنف)
زمرہ جات:

صفحے: 438
مشاہدے: 186125
ڈاؤنلوڈ: 5080

تبصرے:

واقعۂ کربلا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 438 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 186125 / ڈاؤنلوڈ: 5080
سائز سائز سائز
واقعۂ کربلا

واقعۂ کربلا

مؤلف:
اردو

٢٦۔ علی بن حنظلہ بن اسعد شبامی ہمدانی :

زہیر بن قین کے خطبہ کی روایت کو انھوں نے کثیر بن عبداللہ شعبی ہمدانی کے حوالے سے نقل کیاہے۔حنظلہ بن اسعد شبامی اصحاب امام حسین علیہ السلام میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے کربلا میں جام شہادت نوش فرمایا ہے۔ علی ان کے فرزند ہیں ؛ایسا لگتا ہے کہ یا تو علی اس وقت کربلا میں موجود نہ تھے یا کمسن ہونے کی وجہ سے قتل نہ ہو پائے ۔یہ بلا واسطہ کوئی خبر نقل نہیں کرتے ہیں ۔ مذکورہ روایت انھوں نے کثیر بن عبداللہ شعبی قاتل زہیر بن قین کے حوالے سے نقل کی ہے ۔

٢٧۔ حسین بن عقبہ مرادی :

یہ عمر و بن حجاج کے حملے کا تذکرہ زبیدی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ۔

٢٨۔ ابو حمزہ ثابت بن دینار ثمالی :

اہل حرم کی شام میں اسیری کی روایت کو یہ قاسم بن بخیت کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ۔ آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے بلکہ تعریف و تمجید سے بالا تر ہے ۔

٢٩۔ ابو جعفر عبسی :

یحٰبن حکم کے اشعار کو یہ ابو عمارہ عبسی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ۔

یہ وہ ٢٩افراد ہیں جو ابو مخنف اور عینی گواہوں کے درمیان واسطہ ہیں ۔

۸۱

چھٹی فہرست

اس فہرست میں ائمہ علیہم السلام ، ان کے اصحا ب اور مورخین موجود ہیں جو ١٤ افراد پر مشتمل ہیں ۔

١۔ امام زین العابدین علیہ السلام:

اپنے دونوں فرزند عون اور محمد کے ہمراہ عبداللہ بن جعفر کا امام حسین علیہ السلام کے نام خط اورمکہ سے نکلتے وقت امام علیہ السلام کے پاس سعید بن عاص اشدق کا اپنے بھائی یحٰی بن سعید بن عا ص کے ہمراہ خط لانا اور امام علیہ السلام کا اس خط کا جواب دیناحارث بن کعب والبی ازدی کے واسطے سے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے ۔(١)

اسی طرح حارث بن کعب والبی عبداللہ بن شریک عامری نہدی کے حوالے سے امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے٩ محرم کو ایک شب کی مہلت لی اور اپنے اصحاب کے درمیا ن خطبہ دیا۔(٢) اسی طرح حارث بن کعب والبی ازدی اور ابو ضحاک

____________________

١۔طبری ،ج٥ ،ص ٣٨٧ ۔ ٣٨٨

٢۔طبری، ٥ ،ص٤١٨

۸۲

کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام کے شب عاشور کے اشعار ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی امام علیہ السلام سے گفتگو، اس پر امام حسین علیہ السلام کا جواب آپ سے منقول ہے۔(١)

٢۔ اما م محمد باقر علیہ السلام :

عقبہ بن بشیر اسدی کے حوالے سے شیر خوار کی شہادت کا واقعہ امام علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔(٢)

٣۔ امام جعفر صادق علیہ السلام :

ایک مرسل روایت میں امام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک پر شمشیر و تیر و تبر کے زخموں کی تعداد آپ ہی سے مروی ہے ۔

٤۔ زید بن علی بن حسین علیہماالسلام :

زید بن علی اور داود بن عبید اللہ بن عباس کے حوالے سے فرزندان عقیل کی حماسہ آفرین تقریر منقول ہے۔ ان دونوں حضرات سے روایت کرنے والے شخص کا نام عمر و بن خالد واسطی ہے جو بنی ہاشم کے چاہنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ پہلے کوفہ میں رہتاتھا پھر ''واسط '' منتقل ہوگیا وہ زید اورامام جعفر صادق سے روایتیں نقل کرتا ہے ۔

نجاشی نے ان کا تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے : ''ان کی ایک بہت بڑی کتاب ہے جس سے نصر بن مزاحم منقری وغیرہ روایتیں نقل کرتے ہیں ۔(٣)

شیخ طوسی نے ان کو امام با قرعلیہ السلا م کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔(٤) اس کے علاوہ مامقانی نے تنقیح المقال میں ان کا ذکر کیا۔ ) اسی طرح عسقلانی نے بھی'' تہذیب التہذیب'' میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔(٦)

٥۔ فاطمہ بنت علی :

آپ کا تذکرہ طبری نے کیا ہے۔ حارث بن کعب والبی ازدی کے واسطے سے دربار یزید کا واقعہ انہی مخدرہ سے منقول ہے۔(٧) واضح رہے کہ ان بی بی اور امام سجاد علیہ السلام سے روایت کرنے والا راوی ایک ہی ہے ۔

____________________

١۔طبری ،ج٥ ، ص ٤٢٠ ۔ ٤٢١ ---٢۔ طبری، ج ٥ ،ص ٤٤٨

٣۔ رجال نجاشی، ص ٢٠٥ ،ط ھند ---٤۔ رجال شیخ ،ص ١٢٨ ،ط نجف

٥ ۔تنقیح المقال ،ج ٢، ص ٣٣٠ ---٦۔ تہذیب التہذیب، ج ٨ ، ص ٣٦

٧۔طبری ،ج ٥ ، ص ٤٦١ ۔ ٤٦٢

۸۳

٦۔ ابو سعید عقیصا:

مسجد الحرام میں امام حسین علیہ السلام سے ابن زبیر کے رو برو ہونے کی روایت اپنے بعض اصحاب کے واسطے سے انھوں نے نقل کی ہے۔(١) علاّمہ حلی نے اپنی کتاب'' الخلاصہ'' کی قسم اول میں آپ کو امیر المومنین کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔(٢)

'' میزان الاعتدال ''میں ذہبی نے بھی ان کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے : یہ علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں : شعبہ نے کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔ ان کا نام دینار ہے اور اہل بیت کے پیرو ہیں ۔ ان کی وفات ١٢٥ ھ میں ہوئی ۔(٣) ان کے حالات پہلے گزر چکے ہیں ۔

٧۔محمد بن قیس :

قیس بن مصھرصیداوی کو خط دے کر امام حسین علیہ السلام کا ان کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کرنا ، جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کی خبر ، عبد اللہ بن مطیع کی امام حسین علیہ السلام سے گفتگو، نیزحضرت (ع)کا جواب(٤) اور جناب حبیب بن مظاہر کی شہادت کی روایت انھوں نے نقل کی ہے۔(٥) واضح رہے کہ عبداللہ بن مطیع والی روایت اور جناب حبیب بن مظاہر کی شہادت کی خبر ان سے بطور مرسل نقل ہوئی ہے یعنی درمیان سے راوی حذف ہے۔

کشی نے ذکر کیا ہے : ''یہ امام باقر علیہ السلام سے بڑی شدید محبت رکھتے تھے لہذاآپ نے ان کو فلاں اور فلاں کی باتیں سننے سے منع کیاتھا۔(٦) اس کے بعد کشی نے ذکر کیا ہے کہ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کے مدافع تھے۔(٧) نجاشی نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے : یہ ثقہ ، سر شناس اور کوفی ہیں ۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔(٨)

شیخ طوسی نے اپنی فہرست کے رقم ٥٩١و٦٤٤(٩) اور رجال میں آپ کو امام جعفر صادق کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔اور آپ کو اس نا م سے چار بار یاد کیا ہے۔(١٠) اسی طرح علامہ حلی نے الخلاصہ میں آپ کا تذکرہ کیا ہے۔(١١)

____________________

١۔طبری ،ج ٥، ص ٣٨٥ ---٢۔ الخلاصہ ،ص ١٩٣، ط نجف

٣۔ میزان الاعتدال، ج ٢، ص ١٣٩ ---٤۔طبری، ج٥، ص ٣٩٤ ۔ ٣٩٦

٥۔ طبری، ج٥ ، ص ٤٤٠ ---٦۔ص ٣٤٠ حدیث، رقم ٦٣٠

٧۔ص٢٣٧ حد یث ٤٣٠ ---٨۔رجال نجاشی، ص ٢٢٦،ط ھند ٩۔فہرست، ص ١٥٧و١٧٦

١٠۔ رجال شیخ ،ص ٢٩٨رقم ٢٩٤ ،طبع نجف ---١١۔ الخلاصہ، ص ١٥٠رقم ٦٠اور اس کے بعد ،ط نجف

۸۴

٨۔ عبداللہ بن شریک عامری نہدی :

امام حسین علیہ السلام کا شب عاشور مہلت مانگنا، شب عاشورآپ کے خطبے اور اشعار، حضرت زینب سلام اللہ علیہاکی گفتگو اور امام حسین علیہ السلام کے جواب کو یہ راوی امام زین العابدین علیہ السلام کے حوالے سے نقل کرتا ہے۔اسی طرح ایک مرسل روایت میں یہ راوی شمر کا حضرت عباس کے لئے شب عاشور امان نامہ لانا اور ٩ محرم کو غروب کے نزدیک پسر سعد ملعون کا امام علیہ السلام کے لشکر پر حملہ آور ہونے کا واقعہ نقل کرتا ہے۔(١)

کشی نے ذکر کیا ہے : ''یہ امام باقر اور صادق علیہما السلام کے خاص اصحاب میں شمار ہوتے ہیں ''۔(٢)

ایک روایت میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن شریک امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی سپاہ میں بڑھ بڑھ کے حملہ کرنے والوں میں ہوں گے۔(٣) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اس زمانہ میں یہ علمدار لشکر ہوں گے۔(٤)

تاریخ طبری سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جناب مختار کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔(٥) اس کے بعد مصعب بن زبیر کے اصحاب میں شمار ہونے لگے۔(٦) پھر ٧٢ ہجری میں عبدالملک بن مروان کے امان نامہ کی وجہ سے مصعب سے جدا ہوگئے۔ اس کے بعدشاید انھوں نے توبہ کرلی اور پھر ائمہ علیہم السلام کے اصحاب میں شمار ہونے لگے ۔

٩۔ ابو خالد کابلی :

انھوں نے ایک مرسل روایت میں صبح عاشورامام حسین علیہ السلا م کی دعا کو نقل کیا ہے۔ طبری نے ان کا نام ابو خالد کاہلی لکھا ہے لیکن کتب رجالی میں اس نا م کا کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ مشہور وہی ہے جوہم نے ذکر کیا ہے اور یہی صحیح ہے ۔

کشی نے ذکر کیا کہ وہ حجاج کے خوف سے مکہ بھاگ نکلے اور وہاں خود کو چھپائے رکھا؛ اس طرح خود کو حجا ج کے شر سے نجات دلائی اور جناب محمد بن حنفیہ کے خدمت گذار ہوگئے یہاں تک کہ ان کی

____________________

١۔طبری، ج٥ ، ص ٤١٥ ۔ ٤١٦

٢۔رجال کشی ،ص١٠ ، حدیث ٢٠

٣۔ص ٣١٧، حدیث ٣٩٠

٤۔ص ٢١٧ ، ٣٩١

٥۔طبری ،ج ٦ ص ٤٩، ٥١و١٠٤

٦۔ج٦، ص ١٦١

۸۵

امامت کے قائل ہوگئے لیکن بعد میں اس باطل عقیدہ سے منھ موڑ کرامام سجاد علیہ السلام کی امامت کے معتقد ہوگئے۔اس کے بعد ان کاعقیدہ اتنا راسخ ہوا کہ آپ کے خاص اصحاب میں شمار ہونے لگے اور ایک عمر تک امام علیہ السلام کی خدمت گذاری کے شرف سے شرفیاب ہوتے رہے، پھر اپنے شہر کی طرف چلے گئے ۔(١) شیخ طوسی نے رجال میں ان کو امام سجاد علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے ۔

ظاہراً یہ ان لوگوں سے محبت کرتے تھے جو جناب مختار کے ساتھ تھے، اسی لئے جناب محمدبن حنفیہ کی امامت کے قائل ہوگئے اور اسی وجہ سے وہ حجاج کے چنگل سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگ نکلے، ورنہ مکہ کی طرف بھاگنے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا سبب نہیں ہوسکتا۔

١٠۔ عقبہ بن بشیر اسدی :

شیر خوار کی شہادت کا واقعہ انھوں نے امام صادق علیہ السلام کے حوالے سے نقل کیا ہے۔کشّی نے ان کا اس طرح ذکر کیا ہے:''عقبہ نے امام با قرعلیہ السلا م سے اجازت طلب کی کہ وہ حکومت وقت کی طرف سے اپنی قوم میں اپنے قبیلہ کے کارگزار بن جائیں ۔امام علیہ السلام نے انھیں اجازت نہیں دی۔ انھوں نے شیر خوار کی شہادت کو نقل کیا ہے۔(٢)

شیخ طوسی نے رجال میں ان کو امام زین العابدین(٣) اور امام محمد باقرعلیہ ا لسلام(٤) کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔ تاریخ طبری میں جناب مختار کے ساتھیوں کی مصیبت اور غم میں ان کے مر ثیے موجو د ہیں جسے پڑھاکرتے تھے۔(٥)

١١۔ قدامہ بن سعید :

قدامہ بن سعید بن زائدہ بن قدامہ ثقفی اپنے دادا سے روایتیں نقل کرتے ہیں جناب مسلم بن عقیل کے مقابلہ کیلئے محمد بن اشعث بن قیس کندی کے میدان نبرد میں آنے کی خبر، جناب مسلم کا قید کیاجانا ،(٦) آپ کاقصر دار الامارہ کے دروازہ پر پانی مانگنا اور آپ کو پانی پلائے جانے کی خبر(٧) قدامہ نے اپنے دادا زائد سے نقل کی ہے ۔شیخ طوسی نے ان کو امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔(٨)

____________________

١۔رجال کشی ،ص ١٢١ ،حدیث ١٩٣ ؛ رجال شیخ، ص١٠٠ رقم ٢ ---٢۔ رجال کشی، ص ٢٠٣ ،حدیث ٣٥٨

٣۔ رجال شیخ ،ص ٣٢ ---٤۔ص١٢٩ ،رقم ٢٩ ،ط نجف

٥۔طبری ،ج٦ ،ص ١١٦ ---٦۔ج٥ ، ص ٣٧٣

٧۔ج ٥ ، ص ٣٧٥ ---٨۔رجال شیخ، ص ٢٧٥،ط نجف

۸۶

١٢۔ حارث بن کعب والبی ازدی :

حارث بن کعب نے عقبہ بن سمعان ، امام زین العابدین علیہ السلام اور فاطمہ بنت علی علیہما السلام کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔

یہ جناب مختار کے ساتھیوں میں تھے، پھرکوفہ سے مدینہ منتقل ہوگئے اور وہاں پر امام علیہ السلام سے حدیثیں سنیں ۔شیخ طوسی نے ان کو اپنے رجال میں امام زین العابدین علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔(١)

١٣۔ حارث بن حصیرہ ازدی :

یہ عبداللہ بن شریک عامری نہدی اور وہ امام علی بن الحسین علیہما السلام کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔ ان کے بارے میں تفصیلات گذرچکی ہے۔ شیخ طوسی نے ان کو امام زین العابدین اور امام محمد باقر علیھما السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔(٢)

١٤۔ ابو حمزہ ثمالی :

ابوحمزہ ثابت بن دینار ثمالی ازدی عبداللہ ثمالی ازدی اور قاسم بن بخیت کے حوالے سے روایتیں نقل کرتے ہیں ۔ ان کی روایت شام میں اہل حرم کی اسیری کے سلسلے میں ہے۔ کشی نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ''ابوحمزة الثمالی فی زمانہ ،کلقمان فی زمانہ ، و ذالک انہ خدم ار بعةمنّا علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و بر ھة من عصر موسی بن جعفر ''(٣)

ابو حمزہ، لقمان زمانہ تھے اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے ہم میں سے چار(اماموں) کو درک کیا ہے ؛ علی بن الحسین،محمد بن علی، جعفر بن محمد اور موسی بن جعفر کے تھوڑے سے زمانے کو درک کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ۔

عامر بن عبداللہ بن جذاعہ ازدی نے امام جعفر صادق علیہ ا لسلام سے نشہ آور چیزوں کے بارے میں سوال کیاآپ نے فرمایا : ''کل مسکر حرام'' ہر مست کرنے والی چیز حرام ہے۔ عامر بن عبداللہ نے کہا: لیکن ابو حمزہ تو بعض مسکرات کو استعمال کرتے ہیں ! جب یہ خبر ابو حمزہ کو ملی تو انھوں نے تہہ دل سے

____________________

١۔رجال طوسی، ص ٨٧، ط نجف

٢۔ ص٣٩ ۔ ١١٨ ،ط نجف

٣۔ طبری ،ج٥، ص ٤٦٥

۸۷

توبہ کی اور کہا :''استغفر اللّه منه الان و اتوب الیه '' میں ابھی خدا سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔

ابو بصیر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تو امام علیہ السلام نے ابو حمزہ ثمالی کے بارے میں سوال کیا۔ انھوں نے عرض کیا :میں جب ان کو چھوڑ کے آیا تو وہ مریض تھے۔ امام علیہ السلام نے فرما یا : جب پلٹنا تو ان کو میرا سلام کہنا اور ان کو بتا دینا کہ وہ فلاں مہینے او رفلاں روزوفات پائیں گے ۔

علی بن حسن بن فضال کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے تقریباً ایک سال بعدابو حمزہ ، زرارہ اور محمد بن مسلم کی وفات ایک ہی سال میں واقع ہوئی ہے۔

نجاشی نے آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے: یہ کوفہ کے رہنے والے اور ثقہ تھے۔ محمد بن عمر جعابی تمیمی کا بیان ہے کہ آپ مہلب بن ابو صفرہ کے آزاد کردہ تھے۔آپ کے بیٹے منصور اور نوح سب کے سب زید بن علی بن حسین علیھما السلام کے ہمراہ شہیدکئے گئے ۔

آپ نے امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق اور امام موسی کاظم علیہ السلام کا زمانہ دیکھا ہے اور ان تما م ائمہ علیہم السلام سے روایتیں نقل کیں ہیں آپ کا شمار ہمارے نیکو کار بزرگوں اور روایت و حدیث میں معتمد و ثقہ لوگوں میں ہوتا ہے۔(١)

شیخ طوسی نے فہرست(٢) اور رجال میں آپ کو امام سجاد(٣) امام محمد باقر(٤) امام جعفر صادق(٥) اور امام موسی کاظم علیہم السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ذہبی نے'' میزان الاعتدال''(٦) اور عسقلانی نے ''تہذیب ''(٧) میں آپ کا تذکرہ کیا ہے۔

____________________

١۔رجال نجاشی، ص ٨٣، ط ہند ---٢۔فہرست شیخ، ص٦٦، ط نجف

٣۔رجال شیخ، ص ٨٤، ط نجف --٤۔ص ٠ ١١

٥۔ ١٦٠،ط نجف

٦۔میزان الاعتدال، ج١، ص ٣٦٣

٧۔تہذیب التہذیب ،ج ٢،ص ٧

۸۸

یہ ہیں وہ چودہ ١٤ افراد جو ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے اصحاب پر مشتمل ہیں اور اس کتاب کی سند میں واقع ہوئے ہیں ۔ ان کے علاوہ ابو مخنف نے عون بن ابی جحیفہ سوائی کوفی متوفیٰ ١١٦ھ سے یعنی اس کتاب میں تاریخ کے حوالے سے روایتیں نقل کی ہیں لیکن ان سے عینی شاہدین کے عنوان سے نہیں بلکہ بعنوان مورخ روایت نقل کی ہے ۔جیسا کہ'' تقریب التہذیب'' میں یہی مذکورہے۔ اس مورخ نے صقعب بن زھیر کے حوالے سے مدینہ سے مکہ کی طرف امام علیہ السلام کی روانگی ، مکہ میں آپ کی مدت اقامت اور پھر وہاں سے کوچ ...کا تذکرہ کیا ہے ۔

اب ہم اسی مقام پر اپنے مقدمہ کو اس امید کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ خداوند متعال ہمیں توفیق عطافر مائے کہ ہم سید الشہداء امام حسین بن علی علیہما السلام کی صحیح خدمت نیزان کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرسکیں ۔

۸۹

امام حسین علیہ السلام مدینہ میں

* معاویہ کی وصیت

* معاویہ کی ہلاکت

* یزید کا خط ولید کے نام

* مروان سے مشورت

* قاصد بیعت

* امام حسین علیہ السلام مدینہ میں

* ا بن زبیر کا موقف

* امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر

۹۰

امام حسین علیہ السلام مد ینہ میں

معاویہ کی وصیت(١)

طبری نے اپنی تاریخ میں جلد ٥،ص ٣٢٢پراس طرح ذکر کیا ہے : پھر ٦٠ ھ کا زمانہ آگیا ...اور اس سال معاویہ نے ان تمام لوگوں کو بلایا جو عبید اللہ کی ہمراہی میں وفد کی شکل میں یزید کی بیعت کے لئے لوگوں کودعوت دے رہے تھے ...ان تمام لوگوں کو بلا کر اس نے عہدو پیمان باندھے جسے ہشام بن محمد نے ابو مخنف کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ابو مخنف کہتے ہیں کہ ہم سے عبد الملک بن نوفل بن مساحق بن عبداللہ بن مخرمہ نے بیا ن کیا ہے کہ معاویہ جس مرض الموت میں ہلاک ہوا اسی مرض کی حالت میں اس نے اپنے

____________________

١۔معاویہ بن صخربن حرب بن امیہ بن عبدالشمس،ہجرت سے ٢٥سال پہلے متولد ہوا۔(طبری، ج٥، ص ٣٢٥)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف جنگو ں میں اس کے باپ ابو سفیان سے جنگ کی ہے۔ آخر کار ٨ھ میں فتح مکہ کے موقع پراپنے باپ ابو سفیان کے ساتھ دامن اسلام میں پناہ لی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاویہ اور اس کے باپ کو مولفة القلوب میں شمار کیا۔ (طبری ،ج٣ ، ص ٩٠) عمر نے اپنے دور حکومت میں اس کو شا م کا گورنر بنادیا ۔(طبری ،ج٣، ص ٦٠٤)عثمان کے قتل تک اسی طرح یہ گورنری پر باقی رہا ۔ عثمان کے قتل کے بعد امیر المومنین علی علیہ السلام سے عثمان کے خون کا بدلہ لینے پر آمادہ ہوا اور جنگ صفین میں حضرت کے خلاف میدان جنگ میں آگیا۔ اس جنگ و جدال اور مخالفت کا سلسلہ جاری رہایہا ں تک کہ حضرت علی علیہ السلام شھید ہوگئے تو اس نے امام حسن علیہ السلام سے جنگ شروع کردی ؛بالآخر جمادی الاولیٰ٤١ ھ میں صلح ہوگئی اور اس سال کانام''عام الجماعة''رکھا گیا۔اس کے بعد ١٩سال ٣مہینہ یا٣مہینہ سے کچھ کم امیر شام نے حکو مت کی یہا ں تک کہ ٦٠ھ ماہ رجب میں اس کی موت ہوگئی۔ اس وقت معاویہ کا سن ٨٥ سال تھا ۔ اس واقعہ کوطبری نے کلبی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کلبی نے اپنے والد سے نقل کیا ہے (تاریخ طبری،ج٥، ص ٣٢٥)

۹۱

بیٹے یزید(١) کو بلایا اور کہا :اے میرے بیٹے!میں نے رنج سفر سے تجھے آسودہ ، تمام چیزوں کو تیرے لئے مہیا ، تیرے لئے دشمنوں کو سرنگوں ، ذلیل و رسوا ، سارے عرب کی گردن کو تیرے آگے جھکادیااور تمام چیزوں کو تیرے لئے جمع کردیا ہے۔(٢)

اس کے بعد معاویہ نے ایک خط زیاد بن سمیہ کو اس عنوان سے لکھا (اس زمانے میں زیاد معاویہ کی طرف سے بصرہ کا گورنر تھا جس کی ابتدا ء ٤٥ھ سے ہوئی) کہ وہ اس امر میں مشورہ چاہتاہے۔ زیاد نے عبید بن کعب نمیری ازدی کو معاویہ کے پاس روانہ کیا اور اس تک یہ پیغام پہنچایا کہ زیاد یہ سمجھتا ہے کہ یزید کچھ دنوں کے لئے اپنی ایسی رنگینیوں سے دست بردارہوجائے جو لوگوں کو انتقام لینے پر مجبور کردیتی ہیں تاکہ گورنروں کو یزید کی ولی عہدی کی بیعت لینے میں آسانی ہو ...پھر ٣ ٥ھماہ مبارک رمضان میں زیاد بن سمیہ فی النار ہوا۔

____________________

١۔ ٢٨ھ میں یزید نے دنیا میں جنم لیا۔ اس کی ما ں کا نام میسون بنت بجدل کلبی ہے۔معاویہ نے لوگو ں کو اپنے بعدیزید کی ولی عہدی کی بیعت کے سلسلہ میں بلایا ۔بیعت یزید کی دعوت کا سلسلہ ٥٦ھ میں شروع ہوا ۔اور ٥٩ھ میں معاویہ نے وفد بھیج کر بیعت لینا شروع کیا ۔ یزید کی ولی عہدی کا سلسلہ ماہ رجب ٦٠ھ سے شروع ہوا ۔اس وقت وہ ٣٢سال کچھ مہینہ کا تھا اور ربیع الاول کی ١٤تاریخ کو ٦٤ھمیں مقام حوارین میں فی النار ہوا ۔(طبری ،ج٥ ،ص ٤٩٩) اس طرح اس کی مدت حکومت ٣سال ٨ مہینہ ١٤ دن ہوئی اور کل حیات ٣٦سال ہوئی ۔

آئندہ گفتگو میں یہ بات آ ئے گی کہ باپ کی موت کے وقت یزید وہا ں موجود تھا۔ اس کے وجود کی موافقت سبط بن جوزی نے'' تذکرة خواص الامة ''،ص٢٣٥پر کی ہے لیکن شیخ صدوق نے اپنی'' امالی'' میں امام زین العابدین علیہ السلام کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اسی کو خوارزمی نے اپنے مقتل کے ص١٧٧پر ''اعثم کوفی'' متوفیٰ٣١٤ھکے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ موجود تھا لیکن پھر شکار کے لئے چلا گیا اورتین دنو ں کے بعد واپس آیا تو محل میں داخل ہوگیا اور پھر ٣دن کے بعد باہرنکلا ۔ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ معاویہ نے دووصیتی ں کی ہو ں ، پہلی یزید کی موجودگی میں اوردوسری یزید کی غیر موجودگی میں اور یہ وصیتی ں دو لوگو ں کے واسطے سے ہیں جن کا ذکر بعد میں آئے گا ،یہی وجہ ہے کہ دونو ں وصیتو ں میں اختلاف ہے ۔

٢۔ یہ کام معاویہ نے ١٠ سال میں کیا ہے، جس کی ابتدائ٥٠ ھسے ہوئی اور اس کے مرگ پر تمام ہوئی ہے ۔طبری نے اس کے سبب کو ج٥، ص ٣٠١ پر ذکر کیا ہے :مغیرہ بن شعبہ ٤٩ ھ میں طاعون کے خوف سے بھاگ کر کوفہ سے معاویہ کے پاس پہنچا (٤١ہجری یعنی عام الجماعةہی کے زمانے سے مغیرہ کوفہ کا گورنر تھا) اور معاویہ سے اپنی ناتوانی کا تذکرہ کرتے ہوئے چاہا کہ اسے دوبارہ کوفہ جانے سے معاف رکھا جائے معاویہ نے اسکے عذر کو قبول کرلیااور سعیدبن عاص کو اس کی جگہ پر کوفہ کاگورنر بنا کر بھیجنے کا ارادہ کرلیا ۔ اس واقعہ نے مغیرہ کی حسد کی چنگاری کو آتش فشا ں میں تبدیل کردیا لہٰذا وہ فوراً یزید کے پاس آیا اور ولی عہدی کے عنوان سے یزید کی بیعت کا سلسلہ چھیڑا ۔اس بات کو یزید نے اپنے باپ تک پہنچایا تو اس پر معاویہ نے مغیرہ کو کوفہ لوٹا دیااور حکم دیا کہ لوگو ں سے یزید کے لئے بیعت لے۔ اس طرح مغیرہ کوفہ لوٹا اور یزید کی بیعت کے سلسلہ میں کام کرنے لگا اور وفد کی شکل میں گروہ گروہ بنا کرلوگو ں کو معاویہ کے پاس بھیجنے لگا ۔

۹۲

اس وقت وہ کوفہ اور بصرہ دونوں کا گورنر تھا۔٥٦ھ ماہ رجب میں معاویہ نے عمرہ کا پروگرام بنایا اوروہاں پہنچ کر اس نے یزید کی ولی عہدی کا اعلان کرتے ہوئے لوگوں کو اس کی بیعت کی دعوت دینے لگا ۔ اس پرسعید بن عثمان سامنے آیا اور اس نے اس کی بڑی مخالفت کی تو یزید کی سفارش پرمعاویہ نے اسے خراسان کا گورنر بنادیا۔ اس کے بعد ٥٤ھ سے معاویہ کا نمک خوار مروان جو اس وقت سے لیکر آج تک مدینہ کا گورنرتھا معاویہ کے سامنے آیا اوربہت مخالفت کی تو معاویہ نے اسے خوب پھٹکارااور ٥٧ھ میں اسے گورنری سے معزول کردیا۔ طبری نے اس واقعہ کو اسی طرح لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو ج٥، ص٣٠٩ ۔ مسعودی نے اپنی کتاب کی تیسری جلد کے٣٨ویں صفحہ پر مروان کی مخالفت کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔عبیداللہ بن زیادجو ٥٥ھسے بصرہ کا گورنر تھا اس نے ٦٠ ھ میں ایک وفد شام کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ معاویہ کے سامنے یزید کی بیعت کرے۔ (طبری ،ج ٥، ص ٣٢٢)

مجھکو اس حکومت کے سلسلے میں جو میں نے تیرے لئے استوار کی ہے قریش کے چار افرادسے خوف ہے :

١۔حسین بن علی(١) ٢۔ عبد اللہ بن عمر(٢)

____________________

١۔ امام حسین علیہ السلام نے ماہ شعبان ٤ھ میں اس دار فانی میں آنکھی ں کھولی ں ۔(طبری، ج٣ ، ص٥٥٥) اس طرح آپ نے ٦سال اپنے جد رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زندگی بسر کی۔ اس کے بعد ٣٠ سال اپنے والد امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ زندگی گزاری ۔ ٣٠ سال کے سن میں عثمان کی خلافت کے زمانے میں اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام، حذیفہ بن یمانی ، عبداللہ بن عباس اور اصحاب کے ایک گروہ کے ہمراہ سعید بن عاص کی سربراہی میں خراسان کی جنگ میں شرکت فرمائی۔ (طبری ،جلد٤ ،ص ٢٦٩) امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ١٠ سال اپنے بھائی امام حسن کے ہمراہ ان کی خوشی و غم میں شریک رہے ۔یہی ١٠سال امام حسن علیہ السلا م کی امامت کی مدت ہے جو معاویہ کا بھی زمانہ ہے، یہا ں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا اور آپ١٠ محرم ٦١ھبروزجمعہ شہید کردئے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر ٥٦سال ٦مہینے تھی۔

٢۔عثمان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت نہ کرنے والو ں میں سے ایک یہ بھی ہیں ۔ بیعت نہ کرنے پرحضرت علی علیہ السلام نے ابن عمر سے کہا :''انک لَسَیی ء الخلق صغیراً و کبیراً''(طبری ،ج ٤ ،ص ٤٢٨) تمہاری خلقت ہی خراب ہے چھوٹے رہو یا بڑے ہوجائو ۔دوسری جگہ ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا :'' لولامااعرف من سوء خلقک صغیراً و کبیراً لأنکرتنی'' (طبری ،ج ٤، ص٤٣٦) اگر مجھے تمہار ی بری خلقت کی معرفت نہ ہوتی تو بھی تم میری مخالفت کرتے ؛لیکن حفصہ نے اپنے بھائی عبداللہ کوعائشہ کی ہمراہی سے روک دیا ۔(طبری، ج ٤، ص ٤٥١) اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے خلاف طلحہ و زبیر کے قیام کی درخواست کا جواب دینے سے بھی حفصہ نے عبداللہ بن عمر کو روک دیا۔ (طبری، ج ٤ ،ص ٤٦٠) عبد اللہ بن عمرابو موسی اشعری کا داماد تھا ، جب جنگ صفین میں ابو موسی کو حَکَم کے لئے منتخب کیا گیا تو ابو موسی نے اس کو (عبد اللہ بن عمر) بلایا اور اس کے ساتھ ایک جماعت کو دعوت دی ۔ عمروعاص نے اسے خلافت کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہیں کیا۔جب مرحلہ معاویہ تک پہنچ گیاتو یہ معاویہ کے پاس چلا گیا (طبری ،ج٥، ص ٥٨) اس نے اگر چہ یزید کی بیعت نہیں کی تھی لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعدا س نے اپنے داماد مختارکی آزادی کے لئے یزید کو ایک خط لکھا اور یزید نے بھی اس کی درخواست کو رد نہیں کیا۔ شاید اس کے بعد اس نے یزید کی بیعت کی ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٥٧١) مسعودی کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس نے ولید کے ہاتھو ں پر یزید کے لئے اور حجاج کے ہاتھو ں پر مروان کے لئے بیعت کی ہے۔ (مروج الذہب، ج ٢،ص٣١٦)

۹۳

٣۔ عبداللہ بن زبیر(١) ٤۔عبد الرحمن بن ابی بکر(٢)

ان میں سے عبد اللہ بن عمر وہ ہے جسے عبادت نے تھکا دیا ہے؛ اگر وہ تنہا رہ جا ئے گا تو بیعت کر لے گا ،لیکن حسین بن علی وہ ہیں کہ اگر اہل عراق ان کو دعوت دیں گے تو وہ قیام کر یں گے؛(٣) اگر وہ

____________________

١۔عبد اللہ بن زبیرپہلی یا دوسری ہجری میں متولد ہوا۔جب عثمان کا گھر اؤ ہوا تھا تو اسی نے عثمان کی مدد کی یہا ں تک کہ خود مجروح ہوگیا ۔ (طبری، ج ٤،ص ٣٨٢) یہ کا م اس نے اپنے باپ زبیر کے حکم پر انجام دیا تھا ۔(طبری ،ج٤،ص٣٨٥) اور عثمان نے زبیر سے اس کے سلسلہ میں ایک وصیت کی تھی۔ (طبری ،ج٤،ص٤٥١) یہ اپنے باپ کے ساتھ جنگ جمل میں شریک تھا۔اور اس کو حق کی طرف پلٹنے اور تو بہ کر نے سے روکا تھا۔ (طبری ،ج٤،ص ٥٠٢) عائشہ نے اسے بصرہ کے بیت المال کا امیر بنا یا تھاکیو نکہ یہ عائشہ کا مادری بھا ئی تھا جس کا نام''ام رومان'' تھا (ج٤،ص ٣٧٥)پھر یہ زخمی ہوا اور وہا ں سے بھاگ نکلا پھرٹھیک ہوگیا ۔(ج٤،ص٥٠٩) حضرت علی علیہ السلام نے اسے'' برائیو ں کے فرزند'' کے نام سے یاد کیا ہے۔ (ج٤،ص٥٠٩) یہ معاویہ کے ساتھ تھا تو معاویہ نے عمر وعاص کے ہمراہ اسے محمدبن ابی بکر سے جنگ کے لئے بھیجا ۔جب عمروعاص نے محمد کو قتل کر نے کا ارادہ کیا تو اس نے محمد کے سلسلے میں سفارش کی لیکن معاویہ نے اس کی سفارش قبول نہیں کی (طبری، ج ٥،ص ١٠٤) امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ مکہ نکل گیا (طبری ،ج٥،ص ٤٧٤) اور ١٢ سال تک وہا ں ان لو گو ں سے لڑتا رہا یہا ں تک کہ عبد الملک بن مروان کے زمانے میں جمادی الاولی ٧٣ ھمیں حجاج نے اس کو قتل کر دیا۔(ج٦ ،ص ١٨٧) اس کے ایک سال قبل اس کا بھا ئی مصعب'' انبار'' نامی جگہ پر قتل ہوا جس کی طرف خود عبدالملک نے اقدام کیا تھا۔

٢۔ اسد ا لغابہ میں ہے کہ عبدالرحمن بن ابی بکر یزید کی بیعت کے مطالبہ سے پہلے ہی مدینہ سے نکل گئے تھے اور حبشی نامی جگہ پر وفات ہو چکی تھی جو مکہ سے ١٠ میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہ واقعہ ٥٥ ھ کا ہے لہٰذا یہ بات معاویہ کی وصیت سے یہ موا فقت نہیں رکھتی ہے، واللہ اعلم ۔

٣۔ اس کا اندازہ اس سے ہو تا ہے جیسا کہ یعقوبی نے روایت کی ہے کہ اہل عراق نے امام علیہ السلام کو اس وقت خط لکھا جب آپ مدینہ میں تھے اور امام حسن علیہ السلام شہید ہو چکے تھے۔ اس خط میں تحریر تھا کہ وہ لوگ امام علیہ السلام کے حق کے لئے قیام کے منتظر ہیں ۔ جب معاویہ نے یہ سنا تو اس پر اس نے امام علیہ السلام کی مذمت کرنے کی کو شش کی ۔ امام علیہ السلام نے اس کی تکذیب کی اور اس کو خاموش کردیا ۔

۹۴

خروج کریں تو ان سے جنگ کر کے ان پر فتح حاصل کر نا لیکن ان کے قتل سے درگذر کرنا اور گزشتہ سیاست پر عمل کرنا( ١) کیونکہ ان سے رشتہ داری بھی ہے اور ان کا حق بھی بزرگ ہے ۔اور جہاں تک ابوبکر کے بیٹے کی بات ہے تو اس کی رائے وہی ہو گی جو اس کے حاشیہ نشینوں کا مطمح نظر ہو گا۔ اس کا ہم وغم فقط عورتیں اور لہوو لعب ہے؛ لیکن جوشیر کی طرح تمہاری گھات میں لگا ہے اور لو مڑی کی طرح تجھ کو موقع ملتے ہی فریب دینا چاہتاہے اور اگر فر صت مل جائے تو تجھ پر حملہ کردے وہ ابن زبیر ہے ؛ اگر اس نے تیرے ساتھ ایسا کیا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا ۔(٢)

معاویہ کی ہلا کت

٦٠ ھ میں معاویہ واصل جہنم ہوا(٣) معاویہ کی موت کے بعد ضحاک بن قیس فہری(٤) اپنے ہاتھوں میں معاویہ کا کفن لپیٹے باہر نکلا اور منبر پر گیا۔ خدا کی حمد و ثنا کی اور اس طرح کہنے لگا : بیشک معاویہ قوم عرب کی تکیہ گا ہ تھے۔ ان کی شمشیر براں کے ذریعہ خدا نے فتنوں کو ٹالا،بندوں پر حکومت عطا کی اور ملکوں پر فتح و ظفر عنایت فرمائی۔ اب وہ مر چکے ہیں اور یہ ان کا کفن ہے ہم اس میں ان کو لپیٹ کر قبر میں لٹادیں

____________________

١۔یہ بات پو شیدہ نہیں رہنی چا ہئے کہ امیر شام نے یہ کہا تھا کہ'' فان خرج علیک فظفرت ''، یعنی اگر وہ خروج کری ں تو ان کے ساتھ فتح وظفر تک لڑتے رہنا لیکن قتل نہ کر نا۔ اس طرح وہ دو خوبیو ں کو جمع کر نا چاہتا تھا؛ ایک فتح وظفر دوسرے انتقام نہ لینا ۔اس مطلب پر معاویہ کا وہ خط دلالت کر تا ہے جو اس نے امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے سلسلے میں لکھا تھا اور اپنے غلام سر جون رومی کے پاس امانت کے طور پر رکھو ایا تھا؛ جس میں اس نے یہ لکھا تھا کہ اگر عراق میں حالات خراب ہونے لگی ں تو فوراًابن زیاد کو وہا ں بھیج دینا؛ جیسا کہ آئندہ اس کی روداد بیان ہو گی ۔

٢۔اس کی روایت خوارزمی نے اپنی کتاب کے ص١٧٥ پر کچھ اضافے کے ساتھ کی ہے ۔

٣۔ طبری ،ج ٥،ص ٣٢٤پر ہشام بن محمد کا بیان ہے اور ص ٣٣٨۔ پر ہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کرتے ہیں کہ ماہ رجب ٦٠ ھ میں یزید نے حکو مت کی باگ ڈور سنبھالی ۔

٤۔ ضحاک بن قیس فہری جنگ صفین میں معاویہ کے ہمرا ہ تھا۔ وہا ں معاویہ نے اسے پیادہ یا قلب لشکر کا سر برا ہ بنا یا تھا۔ اس کے بعد اپنی حکومت میں جزیرہ'' حران'' کا والی بنایا ۔وہا ں پر عثمان کے چاہنے والے کوفہ وبصرہ سے اس کے ارد گرد جمع ہونے لگے۔ اس پر علی علیہ السلام نے اس کی طرف مالک اشتر نخعی کو روانہ کیا اور ٣٦ھ میں جناب مالک اشتر نے اس سے جنگ کی ،پھر

۹۵

معاویہ نے دمشق میں اسے اپنی پولس کی سربراہی پر مقرر کردیایہا ں تک کہ ٥٥ھمیں جب یزید کی ولی عہدی کی بیعت لینے کا ارادہ کیا تو اسے کوفہ بھیج دیا ۔پھر ٥٨ھ میں اسے کوفہ سے واپس بلا کر دوبارہ پولس کا سربراہ بنا دیا٦٠ ھتک وہ اس عہدے پرمقرر رہا یہا ں تک کہ بصرہ سے عبیداللہ بن زیاد کا ایک گروہ وفد کی شکل میں وہا ں پہنچا اور معاویہ نے ان لوگو ں سے اپنے بیٹے یزید کی بیعت لی ۔(مسعودی ،ج٢،ص٣٢٨)

ان واقعات کی طبیعی مسیر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملعون اس وقت تک اپنے منصب پر باقی تھا جب آل محمد کا قافلہ شام پہنچا ہے۔ ٦٤ھ میں معاویہ بن یزید مر گیا توپہلے ضحاک نے لوگو ں کو اپنی طرف بلایا پھر لوگو ں کو ابن زبیر کی طرف دعوت دی یہا ں تک کہ جب مروان مدینے سے اور عبید اللہ بن زیاد عراق سے شام پہونچے تو ابن زیاد نے مروان کو خلافت کی لالچ دلائی لہٰذا مروان نے لوگو ں کو اپنی طرف بلایا اور لوگو ں نے مروان کی بیعت کر لی ،اس پر ضحاک دمشق میں متحصن ہوگیا پھر وہا ں سے نکل کر مقام ''مرج راھط''(دمشق سے چند میل کے فاصلہ) پر مروان سے جنگ پر آمادہ ہوگیا۔ ٢٠ دنو ں تک یہ جنگ چلتی رہی۔ آخر کار ضحاک کے ساتھی بھاگ کھڑے ہوے اوروہ خود ماراگیا۔ اس کا سرماہ محرم ٦٤ھیا ٦٥ھمیں مروان کے پاس لایا گیا۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥٣٥،٥٤٤)یہ شخص اتنا ملعون تھا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام ہر نماز کے قنوت میں اس پر لعنت بھیجا کرتے تھے۔(طبری ،ج ٥،ص ٧١ووقعةصفےّن، ص ٦٢)

۹۶

گے اوران کو ان کے عمل کے ساتھ وہاں چھوڑ دیں گے۔ تم میں سے جو ان کی تشییع جنازہ میں شرکت کرناچاہتا ہے وہ ظہر کے وقت آجائے ، اس کے بعداس نے نامہ برکے ذریعہ یزید کے پاس معاویہ کی بیماری کی خبر بھجوائی۔(١)

____________________

١۔طبری نے وصیت کو اسی طرح نامہ بر کے حوالے سے لکھا ہے کہ نامہ بر یزید تک پہنچا لیکن یزید نے کب سفر کیا اور کہا ں غائب تھا اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ طبری نے ہشام سے اور اس نے عوانہ بن حکم (متوفیٰ١٥٧ ھ)سے اس طرح روایت نقل کی ہے کہ یزید غائب تھا تو معاویہ نے ضحاک بن قیس جو اس وقت اس کی پولس کا سربراہ تھا اور مسلم بن عقبہ مری جس نے مدینہ میں واقعہ حرہ کے موقع پر یزید کے لشکر کی سربراہی کی تھی ، کو بلایا اور ان دونو ں سے وصیت کی اور کہا : تم دونو ں یزید تک میری یہ وصیت پہنچادینا۔

وصیت کی یہ روایت ابومخنف کی روایت سے کچھ مختلف ہے۔ بطور نمونہ (الف) ابو مخنف کی روایت میں چار افراد کا تذکرہ ہے جن سے معاویہ کو خوف تھا کہ وہ یزید کی مخالفت کری ں گے جن میں سے ایک عبدالرحمن بن ابی بکر ہے لیکن اس روایت میں مذکورہ شخص کا کو ئی تذکرہ نہیں ہے۔ (ب)ابومخنف کی روایت میں ہے کہ معاویہ نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام سے عفو وگذشت سے کام لینا لیکن اس روایت میں ہے کہ امید ہے کہ خدا ان کو کوفیو ں کے لشکر سے بچائے جنہو ں نے ان کے باپ کو قتل کیا اور بھائی کوتنہا چھوڑ دیا۔ (ج) ابومخنف کی روایت میں ہے کہ ابن زبیر کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا لیکن اس روایت میں صلح کی وصیت ہے اور قریش کے خون سے آ غشتہ نہ ہونے کا تذکرہ ہے۔یزید کا ولید کو خط لکھ کر لوگو ں کا نام پیش کرنا اور اس میں ابن ابی بکر کا تذ کرہ نہ کرنا اس روایت کی تائید کرتاہے۔ اسی طرح سر جون رومی کے پاس محفوظ خط میں معاویہ کا ابن زیاد کو عراق کے حاکم بنانے کی وصیت کرنا بھی اس روایت کی تائید کرتی ہے ۔

۹۷

اب رہا سوال کہ یزید کہاں غائب تھا تو طبری نے علی بن محمد سے (ج٥،ص١٠) پر روایت کی ہے کہ یزید مقام ''حوارین''پر تھا ۔ خوارزمی نے(ص١٧٧)پر ابن اعثم کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ یزید اس دن وصیت کے بعد شکار کے لئے نکل گیا تھا۔ اس طرح وصیت کے وقت حاضر ہونے اور موت کے وقت غائب رہنے کا فلسفہ سمجھ میں آتاہے ۔

خط کو پڑھ کر یزید نے یہ کہا :

جاء البرید بقرطاس یخب به

فاوجس القلب من قرطاسه فزعا

قلنا لک الویل ما ذافی کتابکم؟

کأنّ اغبرمن ا ر کانها ا نقطعا

من لا تزل نفسه توفی علی شرف

توشک مقالید تلک النفس ان تقعا

لماانتهیناوباب الدارمنصفق

وصوت رمله ریع القلب فانصدعا(١)

نامہ بر شتاباں خط لے کر آیا، جس کی وجہ سے دل بیتاب اور ہراساں ہوگیا ،میں نے اس سے کہا وائے ہو تجھ پر تیرے اس خط میں کیا پیغام ہے، گویا زمین اپنے ارکان سے جدا ہو گئی ہے ،اس نے کہا حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ بستر علالت پر ہیں ، یہ سن کر میں نے کہا:جس کی حیات شرافت و درستی سے عجین ہے قریب ہے کہ اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے، جب پہنچاتو گھر کا دروازہ بند تھا اور دل رملہ کے نالہ و شیوان سے پھٹنے لگا ۔

یزید کا خط ولید کے نام

یزید نے ماہ رجب میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس وقت مدینہ کا حاکم ولید بن عتبہ بن ابو سفیان،(٢) مکہ کا حاکم عمر بن سعید بن عاص ،(٣) کوفہ(٤) کا حاکم نعمان بن بشیر انصاری ،(٥) اور بصرہ کا گورنر عبید اللہ بن زیاد(٦) تھا۔

____________________

١۔طبری ،ج٥،ص٣٢٧ ۔یہ روایت ہشام بن محمد سے ابی مخنف کے حوالے سے نقل ہوئی ہے کہ ابو مخنف نے کہا کہ مجھ سے عبد الملک بن نوفل بن مساحق بن عبداللہ بن مخرمہ نے روایت کی ہے کہ اسی نے کہا :'' لما مات معاویہ خرج ...''جب معاویہ کو موت آئی تو وہ نکلا

۹۸

٢۔ ٥٨ھ میں یہ معاویہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم مقرر ہوا ۔(طبری، ج ٥ ،ص ٣٠٩) جب اس نے امام حسین علیہ السلام کے سلسلے میں سستی کا مظاہرہ کیا تو یزید نے اس سال اسے معزول کر کے عمر وبن سعید اشدق کو مدینہ کا حاکم بنا دیا۔(طبری، ج ٥،ص ٣٤٣) اس کا باپ عتبہ صفین میں معاویہ کے لشکر کے ساتھ تھا اور اس کے دادا کو حضر ت علی علیہ السلام نے فی النار کیا تھا ۔(وقعہ صفین، ص ١٧) آخری موضوع جو تاریخ طبری میں اس شخص کے سلسلے میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ہلا کت کے بعد ضحاک نے لوگو ں کو ابن زبیر کی بیعت کے لئے بلا یا تو ولید نے اسے گا لیا ں دی ں جس پر ضحاک نے اس کو قید کردیا۔ (طبری ،ج٥،ص٥٣٣) تتمتہ المنتھی کے ص٤٩ پر محدث قمی فرماتے ہیں کہ معاویہ بن یزید بن معاویہ کے جنازہ پر نماز پڑھتے وقت ولید پر حملہ کیا گیا اور اسی حملہ میں وہ مرگیا ۔

٣۔ماہ رمضان ٦٠ھ میں یزید نے اسے مدینہ کا گورنر بنا یا پھر مو سم حج کی سر براہی بھی اسی کے سپرد کی۔ اس نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا ۔یہ مطلب اس روایت کی تا یید کرتا ہے جس میں اس طرح بیان ہو اہے : '' ان یزید اوصاہ بالفتک بالحسین اینما وجد ولو کان متعلقا با ستا ر الکعبہ'' یزید نے اپنے اس پلید عنصر کو حکم دیا کہ حسین کو جہا ں پاؤ قتل کر دو چاہے وہ خانہ کعبہ کے پر دہ سے کیو ں نہ لپٹے ہو ں ۔

خالد بن معاویہ بن یزید (جو مروان بن حکم کے بعد حاکم بناتھا) کے بعد عمروبن سعید اموی۔ حکمرانی کے لئے نا مزد ہوا ۔. بیعت کے مراسم مقام ''جو لان''میں اداکئے گئے جو دمشق اوراردن کے درمیان ہے۔بیعت کا یہ جشن ٤یا ٥ ذی قعدہ ٦٤ ھ چہار شنبہ یا پنجشنبہ کے دن منایا گیا۔ یہ واقعہ معاویہ بن یزید کی ہلا کت کے بعد ہوا اور اسی دن سے دمشق کی حکو مت عمروبن سعید کے ہا تھو ں میں آگئی ۔

پھر جب ضحاک بن قیس فہری دمشق سے ان لوگو ں کی طرف نکلا تا کہ لوگو ں کو اپنی طرف یا ابن زبیر کی طرف دعوت دے اور مروان نے ارادہ کیا کہ اس سے نبرد آزمائی کرے تو عمروبن سعید میمنہ پر تھا (طبری، ج٥،ص ٢٢٧) پھر اس نے مروان کے لئے مصر کو فتح کیا اور مصعب بن زبیر سے فلسطین میں جنگ کی یہا ں تک کہ اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔(طبری ،ج٥،ص٥٤٠) وہا ں سے لوٹ کر جب یہ مروان کے پاس آیا تو مروان کو معلوم ہوا کہ حسان بن بجدل کلبی جو یزید بن معاویہ کا مامو ں اور قبیلۂ بنی کلاب کا بزرگ تھا(یہ وہی شخص ہے جس نے لوگو ں کو مروان کی بیعت کے لئے برا نگیختہ کیا تو لوگو ں نے اس کی بیعت کی) اس نے خود جا کر لوگو ں سے عمروبن سعید کے لئے بیعت لی ۔یہ خبر سنتے ہی مروان نے حسان کو بلا یا اور جو بایت ں اس تک پہنچی تھی ں اس سے با خبر کرایا تو حسان نے انکار کر تے ہوئے کہا :'' انا اکفیک عمرواً ''میں عمرو کے لئے تنہا ہی کا فی ہو ں پھر جب رات کے وقت لوگ جمع ہوئے تو وہ تقریر کے لئے اٹھا اور لوگو ں کو مروان کے بعد عبد الملک کی بیعت کے لئے دعوت دی۔ اس پر لوگو ں نے اس کی بیعت کی۔ ٦٩ھ یا ٧٠ ھیا ٧١ھ میں عبدالملک بن مروان زفر بن حارث کلابی سے جنگ کے ارادہ سے باہر نکلا یا دیرجا ثلیق کی طرف گیا تاکہ مصعب بن زبیر سے جنگ کرے اور دمشق میں اپنا جانشین عبد الرحمن ثقفی کو بنا یا تو اشدق نے عبدالملک سے کہا :'' انک خارج الی العراق فاجعل لی ہذا الا مرمن بعدک '' آپ عراق جا رہے ہیں لہٰذا اپنی جگہ پر مجھے جا نشین بنادیجئے ۔اس کے بعد اشدق دمشق پہنچا تو ثقفی وہا ں سے بھاگ گیا ،پھر جب عبدالملک دمشق پہنچا تو اس نے صلح کرائی اس کے بعد وہ دمشق میں داخل ہوا پھر اسی نے راتو ں رات اپنے ہی محل میں اسے اپنے ہاتھو ں سے قتل کردیا ۔ (طبری ،ج٥،ص ١٤٠۔ ١٤٨) اس کا باپ سعید بن عاص وہی ہے جو عثمان کے دور حکومت میں کوفہ کا گورنر تھا اور شراب پیتا تا ، اہل کوفہ نے اس کی عثمان سے شکایت کی لیکن اسکے باوجودبھی وہ شراب نوشی کی عادت سے باز نہیں آیا لہٰذا امیر المومنین علی علیہ السلام نے اس پر حد جاری کی ۔

مجمع الزواید، ج ٥، ص ٦٤٠ پر ابن حجر ہیثمی نے اور تطہیر الجنان میں لکھا ہے کہ ابو ہر یرہ نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو کہتے سنا ہے :'' لیر فعن علی منبری جبارمن جبا برة بنی امیہ فیسیل رعافة'' بنی امیہ کے ظالم وجابر حکمرانو ں

۹۹

میں سے ایک جبار کی نکسیر میرے منبر پر پھو ٹے گی اور اس کا خون جاری ہوگا ۔. پیغمبر اسلام کی یہ پیشین گوئی عمروبن سعید کے سلسلے میں سچی ثابت ہوئی کیو نکہ اس کی نکسیر اس وقت پھو ٹی جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ کے منبر پر بیٹھا تھا یہا ں تک کہ اس کا خون جاری ہونے لگا ۔

٤۔ ''جلو لا ئ'' میں مسلمانو ں کو کا میابی ملنے کے بعد سپہ سالا ر لشکر سعد بن ابی وقاص نے عمر کو خط لکھا جس کا. عمر نے اس طرح جواب دیا : '' ابھی وہیں رہو اور لوگو ں کی بات نہ سنو اوراسے مسلمانو ں کے لئے دار ہجرت اور منزل جہاد قرار دو! '' توسعد نے مقام ''انبار'' پر پڑائو ڈالا لیکن وہا ں فوج شدید بخار میں گر فتارہو گئی تو سعد نے خط لکھ کر عمر کو با خبر کیا؛عمر نے سعد کو یہ جواب دیا : عرب کے لئے وہی زمین مناسب ہے جہا ں اونٹ اور بکریا ں آرام سے رہ سکی ں لہٰذا ایسی جگہ دیکھو جو دریا کے کنا رے ہو اور وہیں پڑائوڈال دو ۔سعد وہا ں سے چل کر کوفہ پہنچے، (طبری ،ج٣،ص ٥٧٩) کوفہ کے معنی ریتیلی اور پتھر یلی زمین ہے (طبری ،ج٣،ص ٦١٩) جہا ں فقط سرخ ریت ہوتی ہے اسے ''سہلہ '' کہتے ہیں اور جہا ں یہ دونو ں چیز ی ں ملی ہو ں اسے ''کوفہ '' کہتے ہیں ۔ (طبری، ج ٤،ص ٤١) کوفہ میں ٣ دیر تھے : دیر حرقہ ، دیر ام عمرو اور دیر سلسلہ۔(طبری ،ج٤،ص ٤١)ان مسلمانو ں نے محرم ١٧ ھ میں نرکل اور بانس سے مکان تیار کیا لیکن کچھ دنو ں کے بعد شوال کے مہینہ میں ایک بھیانک آگ نے سارے کوفہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جسکی وجہ سے ٨٠ سائبان نذر آتش ہو گئے اور تمام نرکل اور بانس کے بنے ہوئے مکان جل گئے۔ اس حالت کو دیکھ کر سعد نے ایک آدمی کو عمر کے پاس بھیجا تا کہ وہ اس بات کی اجازت لے کر آئے کہ یہا ں اینٹ کے مکانات تعمیر ہو سکی ں ۔ عمر نے کہا : اسے انجام دو لیکن خیال رہے کہ ہر گھر میں ٣ کمرو ں سے زیادہ نہ ہو ں اور اس سلسلے میں کو ئی زیادہ روی نہ ہو ۔اس وقت گھرو ں کی تعمیر کا ذمہ دار ابوالھیاج تھا، لہٰذا سعد نے عمر کے بتائے ہوئے نقشہ کو اس کے سامنے پیش کیا اور درخواست کی کہ اس روش کے مکا نات تعمیر کرائے۔ اس طرح اس شہر کی تعمیر نو کا آغاز ہوا جس کا نام کو فہ ہے ۔ عمر نے اپنے نقشہ میں لکھا تھا کہ اصلی شاہراہ ٤٠ ذراع ہو اور اس کے اطراف کی سڑ کی ں اہمیت کے اعتبار سے ٢٠ اور ٣٠ ذراع ہو ں ۔ اسی طرح گلیا ں ٧ میٹر ہو ں ، لہٰذ ا انجینیر و ں کی ایک کمیٹی نے بیٹھ کر مشورہ کر نے کے بعد کام شروع کیا ۔ ابو الہیاج نے سب کے ذمہ کا م تقسم کر دیا سب سے پہلے جو چیز کو فہ میں بنائی گئی وہ مسجد ہے۔مسجد کے اطراف میں بازار بنایا گیا جس میں کھجور اور صابون بیچنے والے رہنے لگے اس کے بعد ایک بہترین تیر انداز درمیان سے اٹھا اور اس نے داہنی طرف ، آگے اور پیچھے تیر پھینکا اور حکم دیا کہ جو چاہے تیر کے گرنے کی جگہ کے آگے سے اپنے اپنے گھر بنالے اور مسجد کے آگے ایک سائبان بنایا گیا جو سنگ مرمر کا تھا اور کسریٰ سے لایا گیا تھا۔ اس کی چھت رومیو ں کے کنیسہ جیسی تھی۔ بیچ میں ایک خندق کھودی گئی تا کہ مکان بنانے میں آگے پیچھے نہ کر سکی ں ۔ سعد کے لئے ایک ایسا گھر بنایا گیا جس کا ایک راستہ دوسوذراع کا بنایا گیا جو نقیبو ں کے لئے تھا جس میں بیت المال بنائے گئے۔ یہی قصر کوفہ کہا جا تا ہے جسے ''روز بہ ''نے مقام ''حیرة'' سے اینٹی ں لا کر کسری جیسی عمارت بنائی تھی۔ (طبری، ج٤ ،ص ٤٤۔٤٥) سعد نے اس محل میں سکونت اختیار کی؛ جو محراب مسجد سے متصل تھا اور اسی میں بیت المال رکھا اور اس پر ایک نقیب (نگرا ں) کو معین کیا جو لوگو ں سے اموال لیتا تھا۔ ان تمام مطالب کی روداد سعد نے عمر تک پہنچائی ۔اس کے بعد مسجد کو منتقل کیا گیا اور

۱۰۰