تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26099
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26099 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۱۴۱

۱۴۱۔( الَّذینَ یَتَرَبَّصُونَ بِکُمْ فَإِنْ کانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِنَ اللَّهِ قالُوا اٴَ لَمْ نَکُنْ مَعَکُمْ وَ إِنْ کانَ لِلْکافِرینَ نَصیبٌ قالُوا اٴَ لَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَ نَمْنَعْکُمْ مِنَ الْمُؤْمِنینَ فَاللَّهُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ وَ لَنْ یَجْعَلَ اللَّهُ لِلْکافِرینَ عَلَی الْمُؤْمِنینَ سَبیلاً ) ۔

ترجمہ

منافقین وہ ہیں جو ہمیشہ منتظر رہتے ہیں اور تمہارے نگران رہتے ہیں اگر تو تمہیں فتح و کامیابی نصیب ہو سکے تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے (لہٰذاہم افتخار ، اعزاز او رمالِ غنیمت میں تمہارے شریک ہیں ) اور کفار کامیاب ہوجائیں تو انھیں کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ کامیابی میں شریک ہیں ) خدا تمہارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا اور اس نے ہر گز مومنین پر کافروں کے غلبے کی راہ نہیں بنائی ۔

تفسیر

منافقین کی صفات

زیر نظر آیت اور اس کے بعد کی کچھ آیت میں منافقین کی صفات اور ان کے افکار پریشان کا تذکرہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : منافق وہ ہیں جو ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ ہر پیش آنے والے واقعہ سے مفاد اٹھائیں اگر تو تمہیں کامیابی حاصل ہو جائے تو فوراً اہل ایمان کی صفوں میں آکھڑا ہوتے ہیں او ر کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے کیا بھاری امداد اس کامیابی میں تمہارے کام نہیں آئی لہٰذا ہم بھی ان تمام فوائد میں او رمادی و معنوی منافع میں تمہارے شریک اور حصہ دار ہیں( الَّذینَ یَتَرَبَّصُونَ بِکُمْ فَإِنْ کانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِنَ اللَّهِ قالُوا اٴَ لَمْ نَکُنْ مَعَکُمْ ) ۔لیکن اگر کامیابی اسلام کے دشمنوں کو ہوئی تو فوراً اپنے کو ان کے قریب کرلیتے ہیں اور اس پر اپنی خوشی کا اظہار کرے ہیں او رکہتے ہیں : یہ ہم ہی تھے جو تمہیں مسلمانوں سے جنگ کرنے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کی ترغیب دیتے تھے اس لئے ہم بھی تمہارے ان کامیابیوں میں حصہ دار ہیں( وَ إِنْ کانَ لِلْکافِرینَ نَصیبٌ قالُوا اٴَ لَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَ نَمْنَعْکُمْ مِنَ الْمُؤْمِنینَ ) ۔(۱) اس طرح یہ لوگ اپنے موقع پر ستی کے ذریعے چاہتے ہیں کہ مومنین کی کامیابی کی صورت میں افتخار و اعزاز پائیں یہاں تک کہ مال ِ غنیمت میں بھی حصہ دار بنیں اور ان پر احسان جتلائیں اور دوسری طرف کفار کی کامیابی پربھی خوش ہوتے ہیں انھیں کفر میں پختہ تر کرتے ہیں مسلمانوں کے خلاف ان کے حق میں جا سوسی کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کی راہ ہموارکرتے ہیں گویا وہ ” رفیق قافلہ “ بھی ہیں اور شریک راہزن “ بھی “ وہ اپنی زندگی اسی دوسرے کھیل میں گزار دیتے ہیں ۔ قرآن ایک مختصر سے جملے میں ایسے لوگوں کا انجام بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : آخر کار ایک دن آہی جائے گا جب پر دے اٹھ جائیں گے اور ان کے برے چہروں سے نقاب پلٹ دئیے جائیں گے ہاں ” قیامت کے دن تمہارے درمیان خدا فیصلہ کرے گا “( فَاللَّهُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ ) ۔لہٰذا حقیقی مومنین کو چاہئیے کہ ان سے مرعوب نہ ہوں ۔

آیت کے آخر میں مزید کہتا ہے : کبھی خدا مومنین پر کافروں کے تسلط کی را ہ نہیں بناتا( وَ لَنْ یَجْعَلَ اللَّهُ لِلْکافِرینَ عَلَی الْمُؤْمِنینَ سَبیلاً ) ۔کیا اس جملے سے مراد یہ ہے کہ منطق و استدلال کے لحاظ سے کفارکبھی مومنین پر غلبہ نہیں پائیں گے یااس سے فوجی کامیابی یا ایسی کوئی او رکامیابی مراد ہے اس سلسلے میں ہم بعض پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں ۔

لفظ ” سبیل “ اصطلاح کے مطابق ” نکرہ سیاق نفی میں “ کے قبیل سے ہے جو کہ عمومیت کے معنی دیتا ہے لہٰذا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف منطق و استدلال سے بلکہ سیاسی ، فوجی ثقافتی ، اقتصادی غرض کسی لحاظ سے بھی کفار اہل ایمان پر غالب نہیں آئیں گے آج مختلف میدانوں میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ کفارمسلمانوں پر غالب ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے بیشتر مسلمان حقیقی مومن نہیں ہیں ۔ آج مسلمان ایمان کے تقاضے، اپنی ذمہ داریاں ، اپنا حقیقی طرز عمل اور اسلامی افکار سب کچھ فراموش کرچکے ہیں نہ ان میں اتحاد اور اخوت اسلامی کی کوئی خبر ہے نہ حقیقی معنی میں جہاد کرتے ہیں اور نہ وہ علم و آگہی کے حامل ہیں ، حالانکہ اسلام نے ان سب پر حصولِ علم لمحہ دلادت سے لے کر لحظہ موت تک لازم قرار دے رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ ایسی زندگی بسر کررہے ہیں ۔

بعض فقہا نے حقوق اور حکم کے حوالے سے مختلف مسائل میں مومنین پر کفار کے عدم تسلط کے لئے اس آیت سے استدلال کیا ہے ۔ آیت کی عمومیت کے پیش نظر یہ بات زیادہ بعید نظر آتی ( غور کیجئے گا) ۔

یہ امر قابل غور ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کی کامیابی کے لئے ” فتح“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ کفار کی کامیابی کے لئے ” نصیب “ استعمال ہواہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر کفار کو کچھ کامیابیاں نصیب ہوں تو وہ محدود ، وقتی اورنا پائیدار ہوں گی آخری فتح تو اہل ایمان ہی کو حاصل ہو گی ۔

____________________

۱”استحوذ“کا مادہ ” حوذ“ ہے یہ رانوں کے پچھلے حصے کو کہتے ہیں ۔ سار بان جب اونٹ کو نیز چلانا چاہتا ہے تو اس کے پیچھے ہوکراس کی رانوں اور پشت پر مارتا ہے لہٰذا ”استحوذ“ چالانے اور متحرک کرنے کے حوالے سے تسلط و غلبہ کا مفہوم دیتا ہے ۔ مندرجہ بالاآیت بھی اسی معنی میں ہے ۔

آیات ۱۴۲،۱۴۳

۱۴۲۔إ( ِنَّ الْمُنافِقینَ یُخادِعُونَ اللَّهَ وَ هُوَ خادِعُهُمْ وَ إِذا قامُوا إِلَی الصَّلاةِ قامُوا کُسالی یُراؤُنَ النَّاسَ وَ لا یَذْکُرُونَ اللَّهَ إِلاَّ قَلیلاً ) ۔

۱۴۳۔( مُذَبْذَبینَ بَیْنَ ذلِکَ لا إِلی هؤُلاء ِ وَ لا إِلی هؤُلاء ِ وَ مَنْ یُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبیلاً ) ۔

ترجمہ

۱۴۲۔ منافقین اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ انھیں دھوکا دیتا ہے ( یعنی ان کا فریب باطل کردیتا ہے )اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ سستی او رکسالت کے ساتھ ، لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہیں اور خدا کو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑا سا۔

۱۴۳۔ وہ بے ہدف افراد ہیں نہ ان کی طرف مائل ہیں نہ ان کی طرف ( نہ اہل ایمان کی صف میں ہیں نہ کافروں کی قطار میں ) اور جسے خدا گمراہ کردے اس کے لئے تمہیں کوئی راہ نہ ملے گی ۔

تفسیر

منافقین کی پانچ صفات

۱۔ وہ اپنے منحوس مقا صد کی تکمیل کے لئے دھو کا او رفریب دہی کی راہ اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ چاہتے ہیں کہ خدا کو بھی دھوکا دے دیں ۔ حالانکہ جب وہ ایسا کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں خود فریب میں مبتلا ہوتے ہیں کیو نکہ وہ ناچیز اور حقیر سرمایے کے حصول کے لالچ میں اپنا وجود اور انسانیت کا عظیم سرمایہ اپنے ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں( إِنَّ الْمُنافِقینَ یُخادِعُونَ اللَّهَ وَ هُوَ خادِعُهُمْ ) ۔

مندرجہ بالا تفسیر”وهو خادعهم “ کی واو سے معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہاں واو حالیہ ہے ۔

بعض بزرگوں سے ایک قصّہ منقول ہے ، ایک بزرگ پیشہ وروں سے کہتے تھے : ”ڈرو، کہیں غریب مسافر تمہیں دھوکا نہ دے دیں “

کسی نے کہا: وہ انجان اور سادہ لوح ہوتے ہیں او ر ہم انھیں دھوکا دے سکتے ہیں ۔

بزرگ نے کہا: میرا مقصد بھی یہی ہے کہ اس طرح دھوکا دے کر تم ناچیز سرمایہ تو حاصل کربیٹھے ہو اور ایمان کا عظم س رمایہ گنوا بیٹھے ہو ۔

۲۔ وہ خدا سے دور ہیں ، اس سے راز و نیاز کی لذت سے محروم ہیں لہٰذا” جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سر تا پا کسالت، سستی او ربے حالی میں غرق ہوتے ہیں( وَ إِذا قامُوا إِلَی الصَّلاةِ قامُوا کُسالی ) ۔

۳۔ وہ چونکہ خدا اور اس کے عظیم وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا اگر کوئی عبادت یا کوئی نیک کام انجام بھی دیتے ہیں تو وہ بھی ریا کاری کے لئے نہ کہ خدا کے لئے( یُراؤُنَ النَّاسَ ) ۔

۴۔وہ اگر کوئی ذکر بھی کرتے ہیں یا خدا کو یاد کرتے ہیں تو صمیم قلب سے نہیں او رنہ آگاہی و بیداری سے اور اگر ہوبھی تو بہت کم( وَ لا یَذْکُرُونَ اللَّهَ إِلاَّ قَلیلاً )

۵۔ یہ لوگ سر گرداں اور بے ہدف جیتے ہیں ان کے پاس نہ زندگی کا کوئی پروگرام ہے نہ کوئی واضح راستہ ، نہ وہ مومنین میں سے ہیں او رنہ کفار میں سے( مُذَبْذَبینَ بَیْنَ ذلِکَ لا إِلی هؤُلاء ِ وَ لا إِلی هؤُلاء ) ِ ) ۔

توجہ رہے کہ ” مذبذب“ اسم مفعول ہے اس کا مادہ ” ذبذب“ ہے یہ ایک مخصوص صدا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

جب کوئی چیز آویزاں ہوں ہوا کی موجیں اسے حرکت دیں تو جو آواز اس ٹکراو سے پیدا ہوتی ہے اسے ” ذبذب“ کہتے ہیں ، بعد ازاں یہ لفظ متحرک اشیاء سر گرداں اور بے ہدف لوگوں کے لئے بھی استعمال ہونے والی یہ لطیف ترین تعبیر ہے ۔ ضمناً یہ تعبیر اس مطلب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے او روہ یہ ہے کہ ایسانہیں کہ منافقین کو پہچانا نہ جا سکے بلکہ ان یہ تذبذب ایک خاص آہنگسے ہم رنگ ہوتا ہے جس کی طررف توجہ کرنے سے وہ پہچانے جاتے ہیں ۔

اس تعبیر سے یہ حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ منافقین ایک معلق اور آویزاں جسم کی طرح ہیں اور ذاتی طور پر ان کے بس میں کچھ نہیں یہ تو مختلف ہوائیں چلتی ہیں جو انھیں ادھر آدھر کو ہوا کا رخ ہو ان کی حرکت بھی ادر کو ہوتی ہے ۔

آیت کے آخرمیں ان کا انجام اس طرح بیان کیا گیا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جن کے اعمال کے باعث اللہ نے اپنا دستِ حمایت ان سے اٹھا لیا او رانھیں بے راہ رویوں میں گمراہ چھوڑ دیا ہے اور ” جسے خدا گمراہ کردے اس کے لئے تمہیں کبھی راہ ِ نجات نہیں ملے گی “( وَ مَنْ یُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبیلاً ) ۔

خدا کے گمراہ کرنے سے متعلق او ریہ کہ اس سے اختیار اور ارادے کی نفی نہیں ہوتی...... تفسیر نمونہ جلد اول سورہ بقرہ آیت ۲۶ کے ذیل میں بحث کی جاچکی ہے ۔

آیات ۱۴۴،۱۴۵

۱۴۴۔( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْکافِرینَ اٴَوْلِیاء َ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنینَ اٴَ تُریدُونَ اٴَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَیْکُمْ سُلْطاناً مُبیناً ) ۔

۱۴۵۔( إِنَّ الْمُنافِقینَ فِی الدَّرْکِ الْاٴَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصیراً ) ۔

۱۴۶۔( إِلاَّ الَّذینَ تابُوا وَ اٴَصْلَحُوا وَ اعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَ اٴَخْلَصُوا دینَهُمْ لِلَّهِ فَاٴُولئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنینَ وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنینَ اٴَجْراً عَظیماً ) ۔

ترجمہ

۱۴۴۔اے ایمان والو! مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی او رسہارا نہ بناو کیا تم چاہتے ہو کہ ( ایسا کرکے ) اپنے خلاف بار گاہ الہٰی میں ایک واضح دلیل قائم کرلو ۔

۱۴۵۔ ( کیونکہ ) منافقین تو دوزخ کے سب سے نچلے در جے میں ہیں اور تمہیں ان کا ہر گز کوئی مدد گار نہیں ملے گا( لہٰذا دشمنان خدا کی دوستی سے پرہیز کرو کیونکہ یہ انفاق کی علامت ہے ) ۔

۴۶ٍ۔ مگر وہ جو تو بہ کرلیں اور اصلاح و تلافی کرلیں اور خدا( کے لطف کے دامن) سے وابستہ ہو جائیں او راپنے آپ کو خدا کے لئے خالص کرلیں وہ مومنین کے ساتھ ہو ں گے اور خدا اہل ِ ایمان کو اجر عظیم عطا کرے گا۔

مومنین کو تنبیہ

گذشتہ آیا ت میں منافقوں اورکافروں کی کچھ صفات کی نشاندہی کی گئی تھی ۔ ان آیات میں پہلے تو مومنین کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ مومنین کی بجائے کافروں ( اور منافقوں ) کو اپنا سہارا اور ولی نہ سمجھیں( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْکافِرینَ اٴَوْلِیاء َ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنینَ ) ۔کیونکہ یہ قانوں شکنی اور خدا سے شرک کے مترادف ہے اور عدالت ِ الہٰی کے قانون کے مطابق اس کی بہت سخت سزا ہے اسی لئے فرماتا ہے : کیا تم چاہتے ہو کہ بار گاہ الہٰی میں اپنے خلاف ایک دلیل قائم کرلو( اٴَ تُریدُونَ اٴَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَیْکُمْ سُلْطاناً مُبیناً ) ۔(۱) بعد والی آیت میں ان منا فقین کی حالت واضح کی گئی ہے جن کی دوستی کا طوق غافل مسلمانوں نے اپنے گردن میں ڈال رکھا ہے ۔ یاپھر انھی کی حالت بیان کی گئی ہے جو اظہار اسلام کے باوجود انفاق کی راہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ار شاد ہوتا ہے : منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور تمہیں ان کا کوئی مدد گار دکھائی نہ دے گا( إِنَّ الْمُنافِقینَ فِی الدَّرْکِ الْاٴَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصیراً ) ۔(۲)

اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہوتا جاتا ہے کہ اسلام کی نظر میں نفاق کفر کی بد ترین اقسام میں سے ہے او رمنافق خدا سے سب سے زیادہ دورہیں اسلئے ان کا ٹھکا نا جہنم کابد ترین اور پست ترین طبقہ ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئیے کیونکہ انسانی معاشرے کو منافقین سے جو خطرات لاحق ہوتے ہیں ان کا کسی اور خطرے سے موازنہ نہیں کیا جاسکے گا۔ اظہار ایمان کیوجہ سے جو مقام اور تحفظ انھیں حاصل ہوتا ہے وہ اسے بے دفاع افراد کے خلاف بزدالانہ طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور پشت کی جانب سے خنجر گھونپتے ہیں یہ بات مسلم ہے کہ جو بز دل اور خطر ناک دشمن دوستی کے روپ میں حلہ آور ہو وہ اس سے کہیں بد تر ہے جو کھلے بندوں دشمنی کا اعلان کرے اور اپنے آپ کو واضح طور پر پیش کرے ۔ در اصل نفاق کا راستہ گھٹیا ، پست ، بزدل ، بے وقعت اور ہر لحاظ سے آلودہ افراد ہی اختیار کر سکتے ہیں ۔

یہ بات واضح کرنے کے لئے کہ ایسے افراد بھی جو اس قدر آلودہ گناہ ہیں چاہیں تو خدا کی طرف لوٹ آئیں اور اپنی اصلاح کرلیں ، مزید فرمایا: مگر یہ کہ ایسے لوگ توبہ کریں ، اپنے اعمال کی اصلاح کریں ( گذشتہ اعمال کی تلافی کریں )، لطف الہٰی سے متمسک ہوں اور اپنا دین و ایمان اللہ کے لئے خالص کریں( إِلاَّ الَّذینَ تابُوا وَ اٴَصْلَحُوا وَ اعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَ اٴَخْلَصُوا دینَهُمْ لِلَّهِ ) ۔ایسے لوگ آخر کار نجات یافتہ ہوسکتے ہیں او رمومنین کے ساتھی بن سکتے ہیں( فَاٴُولئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنینَ ) اور خدا تمام صاحبان ِ ایمان کو اجر عظیم اور جزائے جزیل سے نوازے گا( وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنینَ اٴَجْراً عَظیماً ) ۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ مومنین کے ہمراہ ہوں گے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ثابت قدم مومنین کامقام ان سے بر تر ہو گا وہ اصل ہیں اور یہ فرع یہ تو سچے مومنین کے پر تو سے نور حاصل کریں گے ۔

دوسری بات جو قابل غور ہے یہ ہے کہ منافقین کا انجام بیان کرنے کے لئے انھیں دوزخ کا پست ترین طبقہ قرار دیا گیا ہے جب کہ مومنین کے بارے میں ” اجر عظیم “ کی بشارت دی گئی ہے جس کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے اور اس اجر کی عظمت لطفِ الہٰی سے وابستہ ہے ۔

____________________

۱” سلطان “ کا مادہ ” سلاطہ “ ( بر وزن ” مقالہ “) ہے جس کا معنی ہے دوسرے کو مقہور و مغلوب کرنے کی قدرت خود لفظ ” سلطان “ اسم مصدر کا معنی رکھتا ہے اور ہر قسم کے تسلط کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی بناپر ” دلیل “ کو بھی ” سلطان“ کہا جاتا ہے جوکہ ایک انسان کے دوسرے پر غلبہ کا باعث بنتی ہے بعض اوقات صاحبان ِ قدرت کو بھی” سلطان“دلیل و حجت“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

۲” درک“ ( بر وزن ”مرگ“) دریا کی گہرائی کے گہرے ترین مقام کو کہتے ہیں نیز رسیوں کو گرہ دے کر دریامیں ڈالا جائے تو آخری رسی جو گہرائی تک پہنچے اسے درک ( بر وزن ”فلک“) کہتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب الفاظ کسی چیزکو پہچاننے اور اس تک پہنچ جانے کا مفہوم دیتے ہیں بعض اوقات تہہ خانے کی سیڑھیوں کو بھی ”درک “ کہتے ہیں جب کہ چھت کی طرف جانے والی سیڑھ یوں کو”درجہ“ کہتے ہیں ۔

آیت ۱۴۷

۱۴۷۔( ما یَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَ آمَنْتُمْ وَ کانَ اللَّهُ شاکِراً عَلیماً ) ۔

ترجمہ

خداتمھیں عذاب دے کرکیا کرے گا اگر تم شکر ادا کرو(اور نعمتوں کو مناسب طریقے سے استعمال کرو) اور ایمان لے آو، خدا شکر گذار( قدر دان) اور آگاہ ہے ( ان کے اعمال او رنیتوں کو جانتا ہے او رجو اچھا ہے اسے اچھی جزا دے گا) ۔

خدا کی سزا انتقامی نہیں

گذشتہ آیات میں کافروں او رمنافقوں کے لئے سخت سزاوں کا ذکر تھا۔ اب اس آیت میں ایک اہم حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے او روہ یہ کہ خدا کی طرف سے دردناک سزائیں اس بنا پر نہیں ہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ گنہ گار بندوں سے انتقام لے یا اپنی قدرت کا مظاہرہ کرے یا ان کی نافرمانی اور عصیان سے اسے کوئی نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں تو کسی نقص او رکمی کا مظہر ہیں جبکہ خدا کی ذات ہر نقص او رکمی سے مبرا ہے بلکہ یہ سب سزائیں خو د انسانوں کے برے افکار و اعمال کا رد عمل اور نتیجہ ہیں ، اسی لئے فرماتا ہے : اگر تم شکر گذاری کرو اور ایمان لے آو تو خدا کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ تمہیں سزا دے( ما یفعل الله بعذابکم ان شکر تم و امنتم ) ۔

شکر کا مفہوم یہ ہے کہ ہرنعمت کو اس طریقے سے استعمال کیا جائے جس کے لئے وہ بنائی گئی ہے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مندرجہ بالاجملے سے مراد یہ ہے کہ اگر تم ایمان لے آو اور عمل ِ صالح کرو، نعمات ِ الہٰی کو مناسب طور پر استعمال کرو اور ان سے غلط فائدہ نہ ا ٹھاو تو بلا شبہ تھوڑیسی سزا بھی تمہارے دامن کو نہ چھوئے گی ۔

تاکید مزید کے لئے کہتا ہے : خدا تمہارے اعمال اور نیتوں سے آگاہ ہے اور تمہارے نیک اعمال کے بدلے میں وہ بھی شاکر اور جزا دینے والا ہے( وکان الله شاکرا ً علیماً ) ۔

زیر نظر آیت میں ” شکر “ کو ” ایمان“ پر مقدم رکھاگیا ہے یہ اس بناء پر ہے کہ انسان جب تک اس کی نعمتوں کو پہچان نہ لے اور شکر گذاری کے مقام تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک خود اسے نہیں پہچان سکتا ۔ کیونکہ اس کی نعمتیں اس کی معرفت کا ذریعہ ہیں ۔ اسلامی عقائد کی کتب میں بھی ” وجوب معفرت الہٰی“ کے لئے بعض لوگ ” وجوب شکر منعم“ کی دلیل پیش کرتے ہیں ، اور وہ کہتے ہیں کہ شکر گذاری انسانی فطرت ہے اور نعمتیں بخشنے والے کا شکر ادا کرنے واجب ہے لہٰذا اس نعتمیں عطا کرنے والے کی معرفت بھی واجب ہے ( گور کیجئے گا ) ۔

آیات ۱۴۸،۱۴۹

۱۴۸۔( لا یُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوء ِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَنْ ظُلِمَ وَ کانَ اللَّهُ سَمیعاً عَلیماً ) ۔

۱۴۹۔( إِنْ تُبْدُوا خَیْراً اٴَوْ تُخْفُوهُ اٴَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوء ٍ فَإِنَّ اللَّهَ کانَ عَفُوًّا قَدیراً ) ۔

ترجمہ

۱۴۸۔ خدا پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص بری باتیں کہے مگر یہ کہ جو ظلم و ستم سے مجبور ہو اور خدا سننے والا او رجاننے والا ہے ۔

۱۴۹۔ ( لیکن ) اگر نیکیوں کو آشکار کرو یا مخفی رکھو یا برائیوں سے صرف نظر رکھو( تو تمہیں اس کی جزا دی جائے گی ) خدا بخشنے والا اور قادر و توانا ہے (اورانتقام کی قدرت کے باوجود عفو و در گذر کرتا ہے ) ۔

اسلام کے چند اخلاقی احکام

ان دو آیتوں میں اسلام کے کچھ اخلاقی احکام بیان ہو ئے ہیں پہلے فرمایا گیا ہے : خدا پسند نہیں کرتا کہ بد گوئی کی جائے یا بعض لوگوں کے عیب اور برے کام بر ملا بیان کئے جائیں( لا یُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوء ِ مِنَ الْقَوْلِ ) ۔

کیونکہ خدا خود ستار العیوب ہے وہ پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کی پر دہ دری کی جائے اور لوگوں کے عیب فاش کئے جائیں اور ان کی عزت و آبروبر باد کی جائے ۔ علاوہ ازیں ہم جانتے ہیں کہ ہر انسان کے عام طور پر کچھ نہ کچھ کمزور اور مخفی پہلو ہوتے ہیں اگر یہ عیب ظاہر ہو جائیں تو پورے معاشرے میں بد اعتمادی کی ایک ایسی فضا پیدا ہ وجائے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا مشکل ہو جائے لہٰذا اجتماعی رشتوں کا استحکام اور بشری تقاجوں کو ملحوظ نظر رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ کسی صحیح مقصد کے بغیر کسی کے مخفی او رکمزور پہلو وں کا اظہار نہ ہو ۔

ضمناً توجہ رہے کہ ” سوء“ سے مراد ہ رطرح کی برائیاور قباحت ہے اور ” جہر“ ، ” من القول “ سے مراد ہر قسم کا لفظی اظہار ہے ، چاہے وہ شکایت کی صورت میں ہو یا چغلی کی ۔ یہی وجہ ہے کہ جن آیات سے غیبت کی حرمت کے بارے میں استدلال کیا گیا ہے ان میں زیر نظر آیت بھی شامل ہے لیکن آیت کا مفہوم غیبت میں منحصر نہیں بلکہ اس میں ہر طرح کی بد گوئی کی ممانعت کی گئی ہے ۔

اس کے بعد بد گوئی کی استثنائی صورت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : مگر وہ شخص جو ظلم و ستم کے ہاتھو مجبور ہو( إِلاَّ مَنْ ظُلِمَ ) ۔

ایسے لوگ حق رکھتے ہیں کہ اپنے دفاع کے لئے ظالم کے ظلم کی شکایت کریں یا واضح طور پر ظلم و ستم کی مذمت کریں اور ان پر تنقید کریں اور جب تک اپناحق نہ لے لیں ظلم و ستم کا زالہ نہ کریں اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں ۔

در حقیقت یہ استثناء اس لئے ہے کہ کہیں مندرجہ بالا حکم سے ظالم اور ستمگر غلط فائدہ اٹھائیں یا یہ کہ حکم ظلم و ستم کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کا بہانہ نہ بن جائے۔

واضح ہے کہ ایسے مواقع پر صف ظالم کے ظلم اور مظلوم کے دفاع سے مربوط باتوں پر ہی اکتفاء کیا جانا چاہئیے ۔

آیت کے آخر میں قرآن اپنی روش کے مطابق کہ کہیں کوئی مظلوم بن کر اس استثناء سے سوءِ استفادہ نہ کرے اور بلا وجہ لوگوں کے عیب بیان کرتا پھر ے، فرماتا ہے : باتوں کو سنتا او رنیتوں سے واقف ہے( وَ کانَ اللَّهُ سَمیعاً عَلیماً ) ۔

بعد والی آیت میں ا س حکم کے نقطہ کے مقابل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، فرمایا : اگرلوگوں کی نیکیوں کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو تو اس میں کوئی حرج نہیں ( جبکہ برائیاں استثنائی مواقع کے علاوہ مطلقاً چھپائی جانا چاہئیں )نیز اگر برائیوں کے مقابلے میں لوگوں سے عفو و بخشش کی راہ اپنا و تو بہتر ہے کیونکہ در حقیقت یہ الہٰی طرز عمل ہے کہ جو ہر قسم کے انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود اپنے اہل بندوں کے ابرے عفو و بخشش سے کام لیتا ہے

(إ( ِنْ تُبْدُوا خَیْراً اٴَوْ تُخْفُوهُ اٴَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوء ٍ فَإِنَّ اللَّهَ کانَ عَفُوًّا قَدیراً ) ۔

دوسری آیت در اصل دو پہلو ں سے پہلی آیت کا نقطہ مقابل قرار دی جاسکتی ہے پہلا یہ کہ برائیوں کے اظہار کے مقابلے نیکیوں کا اظہار اور دوسرا جن پر ظلم و ستم ہو ا ان کی طرف سے عفو و بخشش۔

ظالم سے در گذر اس کی تقویت کا سبب نہیں ؟

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ستم گر سے در گذر حقیقت میں اس کے ظلم کی تائید نہیں اور کیا یہ کام ایسے ظلم کے باری رہنے کے لئے تشویق و ترغیب کا باعث نہیں ہو گا او رکیا یہ عمل مظلوموں کے ذہنوں کو سلادینے والا نہیں ہے اور کیا منفی رد عمل پیدا نہیں کرے گا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عفو و در گذر کا اپنا محل و مقام ہے اور اظہار حق اور ظلم کے مقابلے کا موقع جدا ہے ۔ اسی لئے احکامِ اسلامی میں ایک طرف ہے :”( لاتظلمون ولاتظلمون ) “” نہ ظلم کرواور نہ ظلم گوارا کرو“ (بقرہ.... ۲۷۹) اور یہ بھی کہ :۔”کونا للظالم خصما وللمظلوم عونا “یعنی ظالم کے دشمن بنو، اور مظلوم کے ساتھی ۔(۱)

نیز یہ بھی کہ :۔( فقاتلوا التی تبعی حتی تفیء الیٰ امر الله )

یعنی ظالموں سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ حکم خدا کے سامنے سر نگوں ہو جائیں ۔ ( حجرات ۹)

اور دوسری طرف عفو و در گذر اور بخشش کا حکم دیا گیا :( و ان تعفوا قرب للتقوی )

اور اگر معاف کر دو تو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب تر ہے ۔ ( بقرہ ۲۳۷)

یہ بھی فرمایا کہ :( ولیعفوا ولیصفحوا الاتحبون ان یغفر الله لکم )

یعنی معاف کردو اور در گذر سے کام لو، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ خدا تمہیں بخش دے ۔

ہو سکتا ہے کہ بعض کوتاہ نظر لوگوں کو ابتداء میں ان احکام میں تفاوت اور تضاد نظر آئے لیکن اسلامی مصادر او رکتب میں موجودہ احادیث کی طرف توجہ کی جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عفو و در گذر کا اپنا مقام ہے اور ظلم کی سرکوبی کے لئے مقابلے کا ایک الگ موقع و محل ہے ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ عفو و در گذر اس موقع کے لئے ہے جہاں قدرت اور دشمن پر کامیابی حاصل ہو اور دشمن آخری شکست سے دو چار ہو جائے یعنی جہاں دشمن کی طرف سے کوئی نیاخطرہ محسوس نہ ہوتا ہو ۔ اس موقع پر عفو و در گذر ایک طرح سے اصلاحی اور تربیتی اقدام ہے اور یہ طرز عمل دشمن کو اپنے عمل پر نظر ثانی پر آمادہ کرے گا، تاریخ اسلام میں ایسے بہت سے مواقع کا تذکرہ موجود ہے حضرت امیر المومنین (علیه السلام) یہ فرمان اس نقطہ نظر پر شاہد ہے ، آپ نے فرمایا:”اذا قدرت علی عدوک فاجعل العفو عنه شکراً للقدرة علیه “جب دشمن پر کامیابی حاصل کرلو تو عفو و بخشش کو اس کا میابی کی زکوٰة اور شکر کا ذریعہ قرار دو ۔(۲)

دوسری طرف ایسے مواقع جہاں دشمن کا خطرہ ابھی باقی ہو اور احتمال ہو کہ در گذر کرنا اسے جرات دے گا اور اس کی حوصلہ افزائی کرے گا یا یہ کہ عفو و بخشش یہاں ظلم کی تائید شمار ہو گی تو اسلام ایسی بخشش او رمعافی کی کبھی اجازت نہیں دیتا اور ایسے مواقع پر رہبرانِ اسلام نے کبھی عفو وبخشش کی راہ نہیں اپنائی ۔

____________________

۱۔نہج البلاغہ، وصیت نامہ نمبر ۴۸۔۲۔ نہج البلاغة کلمات قصار، کلمہ ۱۰۔