تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26088
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26088 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیات ۱۵۰،۱۵۱،۱۵۲

۱۵۰۔( إ ِنَّ الَّذِینَ یَکْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَیُرِیدُونَ اٴَنْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ اللهِ وَرُسُلِهِ وَیَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیدُونَ اٴَن ْیَتَّخِذُوا بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا ) ۔

۱۵۱۔( اٴُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ حَقًّا وَاٴَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ عَذَابًا مُهِینًا ) ۔

۱۵۲ ۔( وَالَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ اٴَحَدٍ مِنْهُمْ اٴُوْلَئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیهِمْ اٴُجُورَهُمْ وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا ) ۔

ترجمہ

۱۵۰۔ جو لوگ خدا اور پیغمبر وں کا انکار کرتے ہیں اور ان میں تبعیض اور فرق روا رکھنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان دو کے درمیان کوئی راہ منتخب کریں ۔

۱۵۱۔ وہ پکے کافر ہیں اور کفار کے لئے ہم نے ذلت آمیز سزا فراہم کر رکھی ہے ۔

۱۵۲۔ (لیکن ) وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں اور ان سے کسی کے درمیان فرق روا نہیں رکھتے انھیں عنقریب جزا دیں گے ، خدا بخش نے والا اور مہر بان ہے ۔

انبیا ء میں فرق نہیں ہے

آیات میں کفار اور مومنین کی حالت بیان کی گئی ہے اور ان کے انجام کاتذکرہ ہے یہ آیات گذشتہ کی تکمیل کرتی ہیں جن میں منافقین کا ذکر تھا۔

پہلے تو ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو انبیاء الٰہی میں فرق روارکھتے ہیں ۔بعض کوحق پر سمجھتے ہیں اور بعض کو باطل پر ۔ارشاد ہوتاہے :وہ لوگ جو خدااور اس کے پیغمبر وں کے کافر اور منکر ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدااور اس کے پیغمبروں میں فرق روا رکھیں اور کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض پر تو ایمان رکھتے ہیں اگر چہ بعض کو قبو ل نہیں کرتے ۔اپنے گمان میں وہ چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کی کو ئی راہ نکالیں یہی حقیقی کا فرہیں

( إ ِنَّ الَّذِینَ یَکْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَیُرِیدُونَ اٴَنْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ اللهِ وَرُسُلِهِ وَیَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیدُونَ اٴَن یَتَّخِذُوا بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا اٴُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ حَقاًّ )

یہ جملہ در اصل یہودیوں اور عیسائیوں کی حالت بیان کرہا ہے یہودی حضرت عیسی کو نہیں مانتے اور یہودی اور عیسائی دونوں حضر ت پیغمبراسلام کو نہیں مانتے حالانکہ ان کی اپنی کتابوں کے مطابق ان پیغمبروں کی نبوت ثابت شدہ ہے ۔ حقائق کو قبول کرنے میں اس تبیض کا سر چشمہ ہواہوس اور جاہلانہ تعصبات ہیں اور بعض اوقات بے وجہ کاحسد اور تنگ نظری سد راہ ہوتی ہے یہ طرز عمل در اصل خدا پر اور انبیاء پر ایمان نہ لانے کی نشاندہی ہے کیونکہ ایمان یہ نہیں ہے کہ جو کھچہ اپنی طبیعت اور میلان کے مطابق ہو اسے تسلیم کرلیا جائے اور جو مزاج اور ہوس کے خلاف ہو اسے رد کردیا جائے یہ تو ایک طرح کی نفس پر ستی ہے نہ کہ خدا پرستی ۔حقیقی ایمان تو یہ ہے کہ انسان حقیقت کو قبول کرلے چاہے اس کے میلان طبع کے خلاف ہی کیوں نہ ہو لہذا قرآن ایسے افراد کو مندرجہ بالاآیت میں کافر قرار دیتاہے اگر چہ وہ خدا پر اور بعض انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں( إ ِنَّ الَّذِینَ یَکْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِه ) -

اس لیے جن چیزوں پر وہ اظہار ایمان کرتے ہیں اسے بھی بے وقعت قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس ایمان کا سر چشمہ جستجو ئے حق نہیں ہے ۔

آخر میں انھیں سرزنش کرتے ہوئے کہتا ہے : ہم نے کفار کے لیے ذلت آمیز اور رسواکن عذاب تیار کررکھا ہے( وَاٴَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ عَذَابًا مُهِینًا )

اس میں عذاب کو ---مہین (ذلت آمیز )قرار دیا گیا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ انھوں نے انبیا ء میں تبعیض اور فرق روا رکھ کے در اصل ان میں سے بعض کی تو ہین کی ہے لہٰذاان کی سزاان کے عمل کی مناسبت سے ہونا چاہیے ۔

گناہ اور سزامیں تناسب

سزا بعض اوقات ،عذاب الیم ، کی شکل میں ہوتی ہے مثلا کوڑے لگانا اور بدنی تکلیف پہنچانا ، بعض اوقات رسواکن ہوتی ہے ، مثلاکسی کے لباس پر کیچڑ ڈالنا وغیرہ ۔ کبھی شور وشین سے مملوعذاب عظیم کی صورت میں ،مثلا کچھ لوگوں کی موجودگی میں سزادینااور بعض ا وقات سزا کا اثر کاوجود انسانی پرگہرا ہوتا ہے اور ایک مدت تک باقی رہتا ہے جسے عذاب شدید کہتے ہیں ۔مثلا طویل المد ت قید بامشقت اور دیگر سزائیں ۔

واضح ہے کہ عذاب کی ان میں سے کوئی بھی نوعیت گناہ کی نوعیت کی مناسبت سے ہے اسی لیے بہت سی آیات قرآنی میں ظالموں کی سزا ،عذاب الیم ، قرار دی گئی ہے کیونکہ بندگان خداپر درناک ظلم کرنے سے یہی سزامناسبت رکھتی ہے جن کا گناہ توہین آمیز ہے ان کی سزا بھی ذلت آمیز ہے۔اس طرح جو لوگ بڑے اور شدید گناہ کرتے ہیں اس کی سزا بھی اسی قسم کی ہوتی ہے ۔

مندرجہ بالامثا لوں کا مقصد مطلب کو ذہن نشین کرانا ہے ورنہ اس جہان کی سزاؤں کاقیاس اس جہان کی سزاؤں پر نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے بعد مومنین کی کیفیت اور انجام کاذکر ہے ،فرمایا :وہ لوگ جو خدااور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور اس طرح کے سامنے اپنے جذبئہ تسلیم اور خلوص کا اظہار کرتے ہیں اور وہ ہر طرح کے نا رواتعصب کے مقابلے میں اپنے قیام کاثبوت دیتے ہیں خدا بہت جلد انھیں جزا دے گا( وَالَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ اٴَحَدٍ مِنْهُمْ اٴُوْلَئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیهِمْ اٴُجُورَهُمْ وَ ) البتہ پیغمبروں پر ایمان لانا اور عملاانھیں تسلیم کرلینا اس بات کے منافی نہیں کہ ان میں سے بعض سے افضل مانا جائے کیونکہ ان کی ماموریت اور ذمہ داریوں کے فرق کے لحاظ سے انکے مراتب میں فرق یقینی ہے ۔مقصد یہاں یہ ہے کہ انبیاء پر ایمان لانے اور انھیں تسلیم کرنے میں ہم کوئی فرق نہ کریں ۔آیت کے آخر میں اس مطلب کی طرف اشارہ ہے کہ اگر یہ مومنین پہلے ایسے تعصبات اور تفریق کے قائل رہے ہیں ، یا دوسرے گناہوں کے مرتکب رہے ہیں تو اب اگر وہ اپنے ایمان کو خالص کرکے خداکی طرف لوٹ آئیں تو خدا انھیں بخش دے گا اورخداہمیشہ بخشنے والا اور مہربان ہے( وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا ) ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ زیر نظر آیات میں انبیاء میں تبعیض و تفریق کے قائل لوگوں کو حقیقی کفار قرار دیاگیا ہے لیکن جو سب پر ایمان لائے ہیں انھیں حقیقی مومن نہیں کہا گیا بلکہ صرف مومن کہا گیا ہے شاید فرق اس بنا پر ہو کہ حقیقی مومن وہ ہیں جو ایمان کے علاوہ عمل کہ لحاظ سے بھی بالکل پاک اور صالح ہوں اس بات کی شاہد وہ آیات ہیں جو سورئہ انفال کی ابتداء میں آئی ہیں جن میں خدا پر ایمان لانے کے بعد مومنین کی صفات میں ایک مثبت اور زندہ سلسلہ اعمال بیان کیا گیا ہے اس میں اخلاقی اجتماعی اور ایما نی ر شد کے علاوہ نماز زکاةاور توکل بر خداکی صفات بھی شامل ہیں اور اس کے بعد فرماتا ہے :( اٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً )

یہ ہیں پکے اور حقیقی مومن ۔ (انفال۔۔۔۔۔ ۴)

آیات ۱۵۳،۱۵۴

۱۵۳۔( یَسْاٴَلُکَ اٴَهْلُ الْکِتَابِ اٴَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَاءِ فَقَدْ سَاٴَلُوا مُوسَی اٴَکْبَرَ مِنْ ذَلِکَ فَقَالُوا اٴَرِنَا اللهَ جَهْرَةً فَاٴَخَذَتْهُمْ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَتْهُمْ الْبَیِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِکَ وَآتَیْنَا مُوسَی سُلْطَانًا مُبِینًا ) ۔

۱۵۴۔( وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمْ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمْ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لاَتَعْدُوا فِی السَّبْتِ وَاٴَخَذْنَا مِنْهُمْمِیثَاقًا غَلِیظًا )

ترجمہ

۱۵۳۔ اہل کتاب تم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ایک ہی مرتبہ آسمان سے ایک کتاب ان پر نازل کردو حالانکہ یہ تو ایک بہانہ ہی ہے انہوں نے موسی سے اس بھی بہت بڑا سوال کیاتھااور کہاتھاکہ ہمیں ظاہر بظاہر خدا دکھادے اسی ظلم کی وجہ سے بجلی نے آ لیاتھا پھر ٓانہوں نے ان واضح دلائل کہ جو ان کے لیے آئے تھے( سامری کے ) گوسالہ کو خداکے طور پر )منتخب کرلیا فھر بھی ہم نے انھیں معاف کردیااور موسی کو ہم واضح برتری عطا کی ۔

۱۵۴۔اور ہم نے کوہ طور ان کے اوپر غلبہ کیا اور اسی حالت میں ان سے احد پیمان لیا اور ان سے کہا کہ توبہ کے طور پر بیت المقدس کے دروازہ سے خضوع کے ساتھ آؤ نیز ہم نے ان سے کہا کہ ہفتے کہ روز تجاوز نہ کرو (اور کاروبار سے ہاتھ کھینچ لو) ان تمام باتوں کے بارے میں ہم نے ان سے محکم احدوپیمان لی

شان نزول

تفسیر تبیان ،مجمع البیان اور روحالمعانی میں ان آیات کی شان نزول میں لکھا ہے کہ کچھ یہودی پیغمبر اسلام کی خدمت آئے اور کہنے لگے کہ اگر تم آللہ کہ پیغمبر ہو تو اپنی آسمانی کتاب ایک ہی دفعہ ہمارے سامنے پیش کرو جیسا کہ موسی تورات کو اکٹھا لے کر آئے تھے ۔

یہودیوں کی بہانہ سازی

آیات میں پہلے اہل کتاب (یہودیوں )کے تقاضہ کا تذکرہ ہے ۔فرمایا اہل کتاب تم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ یکجا ایک کتاب آسمان سے ان پر نازل کرو( یَسْاٴَلُکَ اٴَهْلُ الْکِتَابِ اٴَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَاءِ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ ان کی اس فرمایش میں حسن نیت شامل نہ تھی کیونکہ کتب آسمانی کہ نزول کامقصد ارشادہدایت اور تربیت ہے بعضاوقات یہ ہد ف آسمانی کتب کے یکجا نازل ہونے سے حاصل ہوتا ہے اور بعض اوقات اس کی تدریجی تنزیل اس مقصد کے لیے زیادہ مدگار ہوتی ہے لہذا انھیں چاہیے کہ وہ پیغمبر سے دلیل کا مطالبہ کریں اور اعلی وارفع تعلیم کی فرمایش کریں نہ یہ کہ آسمانی کتب کے نزول کی کیفیت معین کریں لہٰذا اس کے بعد خدانے ان کے عدم حسن نیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور اپنے پیغمبر کی تسلی کے لیے یہودیوں کی سابقہ ہٹ دھرمی ، عناد اور بہانہ جوئی کا تذکرہ کیاہے جووہ اپنے عظیم پیغمبر حضرت موسی بن عمران سے کرتے رہے تھے فرمایا :انھوں نے موسی سے اس بڑی اور زیادہ عجیب چیزوں کی خواہش کی تھی اور کہا تھاکہ ہمیں ظاہر بظاہر خدادکھا دے( فقد سالو ا موسی اکبر من ذالک فقالو ا ارناالله جهرة ) ۔

یہ عجیب و غریب اور غیرمنطقی فرمائش تھی جس سے بت پرستو ں کا عقیدہ ظاہر ہوتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ خدا کو جسم میں اور محدود دیکھنے کا تقاضہ کر ہے تھے اور بلاشبہ اس کی وجہ ہٹ دھرمی اورعناد تھی ان کے اسی ظلم کے باعث صاعقئہ آسمانی نے انھیں آلیا( فاخذتهم الصعقة بظلمهم ) ۔اس کے بعد ان کے ایک اور برے عمل کی طرف اشارہ کیا گیاہے اور وہ ہے -”گوسالہ پرستی “۔ فرمایا :انھوں نے ان معجزات اور واضح دلائل کو دیکھنے اور جاننے کے باجود بچھڑے کو اپنا معبو د قرار دے دیا( ثم اتخذو االمجل من بعد ما جاء تهم البینات ) ۔

ان تمام چیزوں کے باوجود اس لیے کہ صحیح راستے کی طرف لوٹ آئیں اور ہٹ دھرمی اور عناد کی سواری سے اتر پڑیں ارشاد فرمایا :پھر بھی ہم نے انھیں بخش دیا اور موسی کو برتری عطا کی اور وا ضح حکومت بخشی ۔نیز سامری اور بچھڑا پرستو ں کی بساط الٹ دی( فعفونا عن ذالک واتینا موسی سلطا نا مبینا ) ۔

وہ پھر بھی خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے اور مرکب غرور سے نیچے نہ اترے اسی لیے ہم نے کوہ طور کو ان کے سروں پر متحرک کردیااوراسی حالت میں ان سے پیمان لیا اور ان سے کہا کہ اپنے گناہوں کی توبہ کے طور پر بیت المقدس کے دروازے سے خضوع خشوع کے ساتھ داخل ہوجاؤ نیز انھیں تاکید کی کہ ہفتے کے روز کسب کار سے دست کش ہوجاؤ اور تجاوز کی راہ نہ لو نیز اس دن دریائی مچھلیو ں کاشکار نہ کرو کہ جو اس دن حرام ہے اور ان تمام چیزوں کے بارے میں ہم نے ان سے سخت عہدوپیمان لیا “ لیکن انھوں نے ان میں سے کسی بھی تاکید ی عہد کو پورا نہیں کیا-(۱)

( ورفعنافوقهم الطور بمیثا قهم وقلنا لهم ادخلو االبا ب سجدا وقلنا لهم لا تعد وا فی السبت واخذا نا منه میثاقا غلیظا ) ۔

تو کیا یہ لوگ اس تاریک ماضی کے ہوتے ہوئے تم سے اپنے اس تقاضے میں سچے ہو سکتے ہیں ؟ اگر یہ سچ کہتے ہیں تو پھر اپنی آسمانی کتب میں آخری پیغمبر کی صریح نشانیوں کے بارے میں عمل کیوں نہیں کرتے اور انھو ں نے تمھارے بارے میں ان کھلی نشانیوں سے چشم پو شی کیوں اختیار کر رکھی ہے

دواہم نکات

۱۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ اعمال تو پہلے یہودیوں سے مربوط تھے پیغمبر اسلام کے معاصر یہودیوں سے کیا واسط ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بھی اپنے بڑوں کے اعمال پر معترض نہیں تھے بلکہ موافق نظر یئے کا اظہار کرتے تھے اس لیے سب ایک ہی صفت میں قرار پاتے ہیں ۔

۲۔مندر جہ بالا آیات میں جو یہ آیا ہے یہودی مدعی تھے کہ تورات یکبارگی نازل ہوئی ہے تو یہ کوئی مسلم بات نہیں ہے شاید اس توہم کا سبب وہ دس فرامین جنھیں دس وصیتیں کہا جاتا ہے جو کہ اکٹھی تختیوں کی صورت میں حضرت موسی پر نازل ہوئے تھے جبکہ تورات کے دیگر احکام کے یکجا نازل ہونے کے بارے میں کوئی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے ۔

____________________

۱۔کوہ طور کے یہودیوں کے سروں پر مسلط ہونے کے بارے میں اور یہ کہ ایسا زلزلے کے زیر اثر تھا یا کسی اور عامل کی وجہ سے اور اسی طرح یہودیوں کے سابقہ برے اعمال کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اول میں بحث کی جاچکی ہے ۔(صفحہ ۲۳۴ اودو ترجمہ دیکھیے)

آیات ۱۵۵،۱۵۶،۱۵۷،۱۵۸

۱۵۵۔( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآیَاتِ اللهِ وَقَتْلِهِمْ الْاٴَنْبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللهُ عَلَیْهَا بِکُفْرِهِمْ فَلاَیُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِیلًا ) ۔

۱۵۶۔( وَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا ) ۔

۱۵۷۔( وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیحَ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ لَفِی شَکٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ یَقِینًا ) ۔

۱۵۸۔( بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَیْهِ وَکَانَ اللهُ عَزِیزًا حَکِیمًا ) ۔

تر جمہ

۱۵۵۔وہ اس بنا پر کہ انھوں نے اپنا عہد تو ڑدیا ، آایات الہی کاانکار ، انبیاء کا قتل کیا اور وہ (بطور تمسخر )کہتے تھے کہ ہمارے دلوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے

(اور ہم انبیا ء کی باتو ں کو سمجھ نہیں پاتے )،( لہٰذا وہ بارگاہ الہی سے دھتکار ے گئے) جی ہاں !خدا نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے لہٰذا تھو ڑے سے لوگوں کے علاوہ باقی ایمان نہیں لائیں گے (اور یہ وہ ہیں جو راہ حق پر چلتے ہیں اور ہٹ دھرمی نہیں کرتے )

۱۵۶۔نیز ان کے کفر کے باعث اور اس عظیم تہمت کی وجہ سے جو انھوں نے مریم پر لگائی ہے ۔

۱۵۷۔ اور ان کا کہنا کہ ہم نے عیسی بن مریم پیغمبر خدا کو قتل کردیا حالانکہ نہ انھوں نے اسے قتل کیا ہے اور نہ سولی پر لٹکایا ہے مگر یہ کہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا اور جنھوں نے اس کے قتل کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس کے متعلق شک میں ہیں اور اس کا علم نہیں رکھتے اورر صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور انھوں نے یقینا اسے قتل نہیں کیا ۔

۱۵۸۔ بلکہ خدا اسے اپنی طرف لے گیا اور خداتوانا و حکیم ہے ۔

یہودیوں کی کچھ اور کار ستانیاں

ان آیات میں بنی اسرا ئیل کی کچھ اور کارستانیو ں ، قانو ن شکنیوں ، عداوتوں اور انبیا ءِ الہٰی سے دشمنیوں کاذکر کیا گیا ہے ۔پہلی آیت میں ان میں سے ایک گروہ کی پیمان شکنی ، کفر اور قتل انبیا ء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرفایا گیا ہے :ہم نے انھیں پیمان شکنی کی وجہ سے اپنی رحمت سے دور کردیا یا اپنی بعض پاکیزہ نعمتوں کو ان پر حرام قرار دے دیا( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُم ) (۱)

اس عہد شکنی کے بعد انھوں نے آیات الہی کا انکار کیا اور مخالفت کا راستہ اختیار کیا( وکفرهم بایات الله ) اور انھوں نے اسی پر اکتفانہ کیا بلکہ ایک اور بڑے جرم کی طرف ہاتھ بڑھایا اور وہ یہ کہ راہ حق کے ہادیوں یعنی انبیاء کو بلا جواز قتل کیا( و قتلهم الاانبیا ء بغیر حق ) ۔

وہ خلاف حق اعمال میں اس قدر جسارت مند اور بے باک تھے کہ انبیا ء کی گفتگو کا مذاق اڑاتے تھے اور انھیں صراحت سے کہتے تھے : ہمارے دلوں پر تو پردہ ڈال دیا گیاہے جو تمہا ری دعوت کو سننے اور اسے قبول کرنے میں حائل ہے( و قو لهم قلو بنا غلف ) ۔یہاں قرآن مجید مزید کہتا ہے : جی ہا ں !ان کے دلوں پر واقعی مہر لگادی گئی ہے ، اب کو ئی حق بات ان میں جاگزیں نہیں ہو سکتی لیکن اس کا عامل ان کا اپنا کفر اور بے ایمانی ہے اس لیے تھوڑے سے افراد جو ایسی ہٹ دھرمیوں میں نہیں پڑے وہی ایمان لائیں گے با قی نہیں( بل طبع الله علیها بکفر هم فلا یو منون الا قلیلا ) ۔

ان کی قانون شکیناں صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں وہ کفر کی راہ میں اتنے تیز دو ڑتے ہیں کہ انھوں نے مریم جیسی پاک دامن خاتون اور خداکے ایک عظیم پیغمبر کی والدہ جو حکم خدا سے بغیر شوہر کے حاملہ ہوگئی تھی ، پر بہت بڑی تہمت لگائی( وبکفر هم و قلو لهم علی مریم بهتانا عظیما ) ۔ یہا ں تک وہ قتل انبیا ء پر فخر کرتے تھے اور کہتے تھے ہم نے مریم عیسی بن مریم اللہ کے رسو ل کو قتل کردیا( وقلولهم انا قتلنا المسیح عیسی بن مریم رسو ل الله ) ۔شاید مسیح کو رسول اللہ تمسخر اور استہزاء کے طور پر کہتے تھے ۔وہ قتل عیسی کے بارے میں اپنے دعوے میں جھوٹے تھے انھوں نے ہر گز مسیح کو قتل نہیں کیا اور نہ سولی پر لٹکایا ، بلکہ ایک اور شخص کو جو ان سے مشا بہت رکھتا تھا اشتباہ میں سولی پر لٹکادیا( وماقتلو ه وماصلبو ه الکن شبه لهم ) ۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے : مسیح کےء بارے میں اختلاف کرنے والے خود شک میں تھے اور اپنی کہی بات پر ایمان نہیں رکھتے تھے وہ صرف تخمینے اور انداز ے کی پیروی کرتے( وان الذین اختلفم فیه لفی شک منه مالهم به من علم الااتباع الظن ) ۔اس بارے میں انھوں نے کس بات میں اختلاف کیا مفسرین میں اختلاف ہے بعض نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ انھوں نے اختلاف حضرت مسیح کی اصل حیثیت اور مقام کے بارے میں کیا تھا ایک گروہ جناب مسیح کو خدا کا بیٹا کہتا تھا اور بعض یہودیوں کی طرح انھیں پیغمبرہی نہیں سمجھتے تھے اور یہ سب کے سب اشتباہ میں تھے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے قتل کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہو بعض کہتے ہیں کہ وہ قتل ہو گئے ہیں اور بعض کہتے کہ وہ قتل نہیں ہوئے اور ان میں سے کوئی بھی اپنی بات پر مطمئن نہیں تھا ۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسی کے قتل کے مدعی انھیں نہ پہچاننے کی وجہ سے شک میں ہوں اور وہ یہ ہے کہ جسے انھوں نے قتل کیا تھا وہ مسیح ہی تھے یاان کی جگہ کوئی اور شخص تھا ۔

اس پر قرآن تاکید ا کہتا ہے انھوں نے قطعا اسے قتل نہیں کیا بلکہ خدا اسے اپنی طرف اٹھالے گیا اور خداقادر و حکیم ہے( وما قتلو ه یقینا بل رفعه الله وکان الیه وکان لله عزیزا حکیما ) ۔مسیح قتل نہیں ہو ئے

زیر نظر آیت میں قرآن کہتا ہے : مسیح قتل نہیں ہے اور نہ سولی پر چڑھے بلکہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا اور انھوں نے خیال کیا کہ انھیں سو لی پر لٹکادیا ہے حالانکہ یقینا انھوں نے انھیں قتل نہیں کیا ۔

مو جو دہ چاروں اناجیل (متی ، لوقا ،مرقس اور یوحنا)میں حضرت مسیح کو سو لی پر لٹکائے جانے اور ان کے قتل کا ذکر ہے ۔یہ بات چاروں انجیلوں کے آخری حصوں میں تشریح و تفصیل سے بیان کی گئی ہے ۔ آج کے عام مسیحیوں کا بھی یہی عقیدا ہے بلکہ ایک لحاظ سے تو قتل مسیح اور انھیں مصلوب کیاجانا موجودہ مسیحیت کے اہم ترین بنیادی مسائل میں سے ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ عیسائی حضرت مسیح کو ایسا پیغمبر نہیں مانتے جو مخلوق کی ہدایت ،تربیت اور ارشاد کے لیے آیا ہو بلکہ وہ انھیں خدا کا بیٹااور تین خداؤں میں سے ایک کہتے ہیں جس کا اس دنیا میں آنے کا اصلی ہدف ہی خداہونا ہے اور اپنی قربانی کے عوض نوع بشر کے گناہو ں کاسوداکرنا ہے ۔ عیسا ئی کہتے ہیں کہ وہ ااس لیے آئے تاکہ ہمارے گناہوں کا فدیہ بن جائیں وہ سولی چڑھے اور قتل ہوئے تاکہ نوع بشر کے گناہوں کو دھوڈالیں اور عالمین کو سزا سے نجات دلائیں ۔اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ راہ نجات مسیح سے رشتہ جوڑنے اور ان کے مصلوب ہونے کاعقیدہ رکھنے میں منحصر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مسیحیت کو” مذہب ِ نجات “ یا ” مذہب خدا“ کہتے ہیں اور مسیح کو ” ناجی“ یا ”فادی“ کہتے ہیں یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی صلیب کا نشان بہت ذیادہ استعمال کرتے ہیں ، اور صلیب ان کا شعار ہے اسی کی وجہ ان کا یہی عقیدہ ہے ۔

یہ تھا حضرت مسیح کی سر نوشت کے بارے میں عیسائیوں کے عقیدے کا خلاصہ ، لیکن کوئی مسلمان بھی اس میں شک نہیں رکھتا کہ یہ عقیدہ باطل ہے اس کی وجوہات یہ ہیں ۔

۱۔حضرت مسیح دیگر انبیا کی طرح ایک پیغمبر تھے نہ وہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے ۔ خدا یکتا و یگانہ ہے اس کا کوئی شبیہ ونظیر مثل و مانند اور بیوی بیٹا نہیں ہے ۔

۲۔گناہوں کا فدیہ بننا بالکل غیر منطقی بات ہے ہر شخص اپنے اعمال کا جوابدہ اور راہ نجات خود انسان کااپنا ایمان اور عمل صالح ہے ۔

۳۔گناہوگار کے فدیہ کا عقیدہ فساد تباہی اور آلودگی کی ترغیب و تشو یق کرتا ہے یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآ ن خصوصیت سے مسیح کے مصلوب نہ ہونے کاذکر کرتا ہے حالانکہ ظاہراً ایک معمولی سی بات نظر آتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ فد یے اور امت کے گناہ خریدنے کے بے ہودہ اور فضول عقیدے کی سختی سے سر کوبی کی جائے اور عیسائیو ں کو اس خرافاتی عقیدے سے نکالا جائے تاکہ وہ نجات کے لیے اپنے اعمال کو دورست کریں نہ کہ عقیدئہ صلیب کا سہارا لیں ۔

۴۔بہت سے قرآ ئن ایسے موجود ہیں جو حضرت عیسی کو صلیب دئیے جانے کے عقیدے کی کمزوری پر دلالت کرتے ہیں ،مثلاً :۔

ا۔ہم جانتے ہیں کہ موجودہ چاروں انجیل جو حضرت عیسی کے مصلوب ہونے کا ذکر کرتی ہیں سب کی سب حضرت عیسی کے بعد ان کے شاگردوں یا شاگردوں کے شاگردوں کے ذریعے لکھی گئی ہیں اور اس بات کا مسیحی مورخ بھی اعتراف کرتے ہیں ۔

نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جناب مسیح کے شاگرد دشمنو ں کے حملے کے وقت بھاگ گئے تھے اور اناجیل بھی اس بات کی گواہ ہیں ۱” اس وقت تمام شاگرد انھیں چھوڑ کر بھاگ گئے “ انجیل متی باب ۲۶ جملہ ۵۷) لہٰذا انھوں نے مسیح کے مصلوب ہونے کے بارے میں عوام میں گردش کرتی ہوئی افواہ یا شہرت سنی اور وہیں سے یہ بات حاصل کی اور جیسا کہ بعد میں بیان کیا جائے گا کہ حالات ایسے پیش آئے کہ مسیح کی جگہ دوسرا شخص اشتباہ میں پکڑلیا گیا

ب۔دوسرا عامل جو یہ امکان ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عیسی کی بجائے اشتباہ میں دوسرا شخص پکڑا گیا ہویہ ہے کہ شہر کے باہر جستیمانی باغ میں جو لوگ جناب عیسی کو گرفتار کرنے کے لیے گئے وہ رومی لشکر کا ایک دستہ تھا یہ لوگ چھاؤنی میں اپنی فوجی ذمہ دایوں میں مشغول تھے یہ لوگ نہ یہودیوں کو پہچانتے تھے نہ وہاں کی زبان اور آداب ورسوم جانتے تھے اور نہ ہی یہ لوگ حضرت عیسی کو ان کے شاگرد وں میں سے پہچان سکتے تھے ۔

ج۔اناجیل کے مطابق حملہ رات کے قت حضرت عیسی کی رہائش گا ہ پر ہو ا اس صورت میں تو اور بھی آسان ہے کہ تاریکی میں اصل انسان نکل جائے اور کوئی دوسرا اس کی بجائے گرفتار ہوجائے ۔

د۔تمام انجیلوں کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ گرفتار شدہ شخص نے دی حاکم پیلاطس کے سامنے خاموشی اختیار کی اوراس کی گفتگو کے جواب میں اپنے دفاع کے لیے بہت کم ہی کچھ کہا ۔یہ بات بہت بعید ہے کہ حضرت عیسی اپنے آپ کو خطرے میں دیکھیں اور اپنے بیان ِ رسا قوت گویائی اور شجاعت و شہامت کے باوجود اپنا دفاع نہ کریں ۔

تو کیا اس سے یہ احتمال پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص ان کی جگہ پکڑا گیا ہو اور وحشت و اضطراب کا ایسا شکار ہوا ہوکہ اپنے دفاع میں کچھ کہہ بھی نہ سکا ہو ۔ قوی احتمال یہ ہے کہ وہ اسخر یوطی یہودی اس واقعے کے بعد دیکھا نہیں گیا اور اناجیل ہی کے مطابق اس نے خودکشی کرلی تھی(۲)

ر۔جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کے شاگرد انا جیل کی شہادت کے مطابق خطرہ محسوس کرتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ دوسرے دوست احباب بھی اس دن چھپ گئے ہوں گے اور دور سے حالات پر نظر رکھے ہوں گے ۔لہٰذا گرفتار شدہ شخص رومی فوجیوں کے محاصرے میں تھا اور اس کے دوستوں میں سے کوئی اس کے گرد موجود نہیں تھا ۔اس لیے کون سے تعجب کی بات ہے کہ اشتباہ ہوگیا ہو۔

س۔ اناجیل میں ہے کہ جس شخص کو تختہ دار پر لٹکانے کا حکم دیا گیا اس نے تختہ دار پر خدا سے شکایت کی ۔تونے مجھے کیوں تنہا چھوڑ دیا اور کیوں مجھے قتل ہونے کے لیے دشمن کے ہاتھ میں دے دیا(۳)

لہٰذا اگر حضرت مسیح دنیا میں اس لیے آئے تھے کہ وہ سولی پر لٹکائے جائیں اور نوع ِ انسانی کے گناہوں کا فدیہ ہوجائیں تو پھر ایسی ناروا باتیں انھیں نہیں کرانا چاہیے تھیں ۔ یہ جملہ واضح طور پر نشاندہی کرتا ہے کہ وہ شخص نہایت کمزور ، ڈرپوک اور عاجز و ناتواں تھا اسی لیے ایسی باتیں کرہا تھا اور نہ مسیح ہوتے ایسی باتیں ہرگز نہ کرتے ۔(۴)

س۔ مسیحوں کے نزدیک قابل ِ قبول چار انجیلوں کے علاوہ موجود ہ بعض اناجیل مثلاً انجیل بر نا با میں واضح طور پر حضرت عیسی کے مصلوب ہونے کی نفی کی گئی ہے(۵)

یہا ں تک کہ بعض محققین کا یہ نظریہ ہے کہ عیسی نام کے دو شخص تھے ایک عیسی کو سولی دی گئی تھی اور دوسرے کو نہیں دی گئی تھی اور دوسرے کو نہیں دی گئی تھی اور دونوں میں پانچ سو سال کا فاصلہ تھا ۔(۶)

جو کچھ بیا ن کیا گیا ہے ، یہ قرائن مجوعی طور پر حضرت مسیح کے قتل اور صلیب دیئے جانے کے بارے میں قرآن کے دعوی اشتبا ہ کو واضح کرتے ہیں ۔

____________________

۱”فبما نقضهم “ قواعد ادب کے اعتبار سے جار مجرور ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس کا کوئی عامل ہو ممکن ہے اس کا عامل ”لعناهم “(ہم نے ان پر نعمت کی )محذوف مقدر ہے یا ”حرمنا علیهم -“( ہم نے ان پر حرام کردیا)ہو جوآیة ۱۶۰میں ہے اس بنا پر جو کچھ درمیانی کلام میں آیا ہے وہ جملئہ معتر ضہ کی حیثیت رکھتا ہے جو ایسے مواقع پر کلام کی خوبی اور زیبائی کاباعث ہوتا ہے

۲ ۔انجیل متی باب ۲۷جملہ ۶۔

۳ ”-عیسی نے بلند آواز سے پکار کرکہا - ایلی ؛ ایلی ؛ لما سبقتنی یعنی -الہی؛ الہی ؛ تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا (متی باب ۲۷ ،جملہ ۴۶۔ ۴۷)

۴ ۔مند رجہ بالا چند قرآئن کے لیے کتاب ” قہرمان صلیب “ سے استفادہ کیاگیا ہے ۔

۵ ۔تفسیر المنا ر ج ۶ صفحہ ۳۴۔

۶ ۔المیزان ج ۳صفحہ ۲۴۵۔