تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26100
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26100 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۱۵۹

۱۵۹۔( وَإِنْ مِنْ اٴَهْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکُونُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا ) ۔

ترجمہ

۱۵۹۔کوئی اہل کتاب ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا ۔

تفسیر

مند رجہ بالاآیت کی تفسیر کے بارے میں دواحتمال ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک قابل ِ ملا حظہ ہے :۔

۱۔آیت کہتی :کوئی اہل کتاب نہیں مگر یہ کہ وہ مسیح پر ” اپنی موت “ سے ایمان لے آئے گا( وَإِنْ مِنْ اٴَهْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ) ۔

اور یہ وقت وہ ہوگا جب انسان موت کے دہانے پر کھڑا ہوتا ہے ۔ اس وقت اس کا رابطہ اس جہان سے کمزور پڑجاتا ہے اور بعد والے جہان سے قوی ہوجاتا ہے ، پردے اس کی آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جاتے ہیں ، بہت سے حقائق اسے نظر آنے لگتے ہیں اور وہ ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرلیتا ہے ۔ اس موقع پر اس کی حقیقت میں آنکھیں مقام ِ مسیح کو دیکھتی ہیں اس کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتی ہیں ۔ جو اس کے منکر تھے اب مومن ہوجاتے ہیں اور اسے خدا سمجھتے تھے اب اپنے اشتباہ کوجان لیتے ہیں ۔یہ ایما ن فرعو ن اور دیگر ایسے لوگوں کا سا ایمان ہے جو عذاب میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور اپنی بربادی کاسامان اپنی آنکھوں سے د یکھ لیتے ہیں ۔ پھر اظہار ایمان کرتے ہیں ایسا ایمان انھیں کوئی فائدہ نہیں دیتا لہذا کس قدر اچھا ہے ک بجائے اس کے کہ وہ ایسے حساس لمحے پر ایمان انھیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا ابھی ایمان لے آئیں اور مومن بن جائیں جب ایمان ان کے لیے فائدہ مند بھی ہے ۔

اس تفسیر کے مطابق ” قبل موتہ “ کی ضمیر اہل ِ کتاب کے بارے میں ہے ۔

۲۔ دوسر ی تفسیر کے مطابق تمام اہل کتاب حضرت مسیح پر ”ان کی موت “ سے پہلے ایمان لے آئیں گے ۔ یہودی ان کی نبوت قبول کر لیں گے اور عیسائی ان کی الو ہیت کے عقیدے سے دور کش ہوجائیں گے یہ اس وقت ہو گا جب اسلامی روایات کے مطابق حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے موقع پر حضرت عیسی آسمان سے اتریں گے اور ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے یہودو نصاریٰ بھی انھیں دیکھیں گے اور ان پر اور حضرت مہدی علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے ۔

واضح رہے کہ حضرت مسیح کا دین گذشتہ زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور اب ان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ دین ِاسلام کی پیروی کریں جس کے جاری اور نافذ کرنے والے حضرت مہدی علیہ اسلا م ہوں گے ۔

اس تفسیر کے مطابق ” قبل موتہ “ کی ضمیر کا تعلق حضرت مسیح سے ہے نہ کہ اہل کتاب سے بہت سی اسلامی کتب میں یہ حدیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ سلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم واما مکم منکم ۔اس وقت تمہا را کیا حال ہوگا جب فرزند ِ مریم تم میں نازل ہوگا اور تمہارا امام وپیشواخود تم میں سے ہوگا ۔(۱)

علی بن ابرا ہیم کی تفسیر میں شہربن حوشب سے منقول ہے :۔

ایک دن حجاج نے کہا : قرآن میں ایک اایت ہے جس نے مجھے تھکا دیا ہے اور میں اس کے معنی میں ڈوبا رہتا ہوں ۔

شہر نے کہا : کون سی آیت ہے ، اے امیر !؟

حجاج نے کہا : وان من اھل الکتاب --کیونکہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کو قتل کرتا ہوں لیکن ایسے ایمان کی کوئی نشانی ان میں نہیں دیکھتا ۔

شہر نے کہا :” تم آیت کی یہ تفسیر صحیح نہیں کرتے ہو “

حجاج بولا : کیسے ؟ آیت کی صحیح تفسیر کیا ہے ؟

شہر نے جواب دیا : مراد یہ ہے کہ حضرت عیسی اس دنیا کے ختم ہونے سے پہلے اتریں گے اور کو ئی یہودی یا غیر یہودی ایسا باقی نہیں رہے گا جوحضرت عیسی کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے عیسی ٰ ، حضرت مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔

حجاج نے یہ بات سنی تو کہنے لگا : ”وائے ہو تم پر ، یہ تفسیر کہاں سے لائے ہو ؟“

شہر نے کہا : محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام سے میں نے یہ تفسیر سنی ہے ۔

حجاج کہنے لگا :۔والله جئت بها من عین صافیه (یعنی ۔۔۔بخدا صا ف وشفاف سر چشمہ سے لایا ہے )۔(۲)

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : قیامت کے دن حضرت مسیح ان پر گواہ ہوں گے( وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکُونُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا ) ۔حضرت مسیح کی ان کے خلاف گواہی سے مراد یہ ہے کہ وہ گواہی دیں گے کہ میں نے تبلیغ رسالت کی اور انھیں کبھی اپنی الوہیت کی دعوت نہیں دی بلکہ پروردگار کی ربوبیت کی دعوت دی ۔

ایک سوال اور اس کا جواب

یہاں پر سوال سامنے آتا ہے کہ سورة ِ مائدہ کی آیت ۱۱۷ کے مطابق حضرت مسیح قیامت کے دن اپنی گواہی اپنی اس زندگی کے دوران کے بارے میں دیں گے جب وہ اپنی امت میں موجود تھے لیکن اس کے بعد کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے ۱ تفسیر برہا ن جلد ۱ صفحہ ۴۲۶ ،جیسا کہ ارشاد الہی ہے :۔

( وکنت علیهم شهید اما دمت فیهم فلما توفیتنی کنت الرقیب علیهم وانت علی کل شئی شهید ) ۔

یعنی ۔۔۔۔۔۔(حضرت عیسی کہیں گے ) جب تک میں ان کے درمیان تھا تو ان پر شا ہد اور ناظر تھا لیکن جب تونے ان میں سے مجھے اٹھا لیا تو تو ان پر نگران ہے اور تو ہر چیز پر شاہد گواہ ہے ۔

لیکن زیر بحث آیت میں ہے کہ حضرت مسیح قیامت کے دن ان سب کے بارے میں گواہی دیں گے چاہے وہ ان کے زمانے میں تھے یا نہیں تھے ۔

دونو ں آیات پر غور و خوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زیر بحث آیت حضرت مسیح کی طرف سے تبلیغ رسالت اور الو ہیت کی نفی کے بارے میں گوا ہی سے متعلق ہے جبکہ سورہ ِ مائدہ کی آیت ۱۱۷ ن کے عمل کے بارے میں گواہی سے مربوط ہے ۔س کی وضاحت یہ ہے کہ زیر بحث آیت کہتی ہے کہ حضرت عیسی ان تمام لوگوں کے خلاف گواہی دیں گے جنھوں نے ان کی الوہیت کا عیقدہ رکھا ، چاہے وہ آپ کے زمانے میں تھے یا اس کے بعد اور کہیں گے کہ میں نے ہرگز ایسی کسی چیز کی دعوت نہیں دی تھی ۔لیکن سورہ مائدہ کی آیت ۱۱۷ کہتی ہے کہ وہ کہیں گے کہ میں نے انھیں صحیح اور کافی ووافی تبلیغ ِ رسالت کی جب تک میں ان کے درمیان موجود تھا تو عملاًان کے انحراف کو روکتا رہا لیکن میرے بعد یہ ہوا کہ وہ میری الوہیت کے قائل ہوگئے اور انھوں نے انحراف کا راستہ اختیا ر کیا ان دونوں میں ان کے درمیان نہ تھا کہ ان کے اعمال کا گواہ بنوں اور یہ کہ انھیں اس روکتا -

____________________

۱۔تفسیر المیزان کے مطابق یہ حدیث مسند احمد ، صیح بخاری ، صیح مسلم اور سنن بہقی میں موجو د ہے ۔ ۲ ۔تفسیر برہان جلد ۱ صفحہ ۴۲۶۔

آیات ۱۶۰،۱۶۱،۱۶۲،

۱۶۰۔( فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ اٴُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ اللهِ کَثِیرًا )

۱۶۱۔( وَاٴَخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَاٴَکْلِهِمْ اٴَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَاٴَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ مِنهُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا ) ۔

۱۶۲( لَکِنْ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ یُؤْمِنُونَ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ وَمَا اٴُنزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَالْمُقِیمِینَ الصَّلاَةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اٴُوْلَئِکَ سَنُؤْتِیهِمْ اٴَجْرًا عَظِیمً )

ترجمہ

۱۶۰۔اس ظلم کی وجہ سے جو یہودیوں نے کیا نیز راہ سے خدا سے بہت زیادہ روکنے کی بناپر کچھ پاکیزہ چیزیں جو ان پر حلال تھیں ہم نے حرام قرار دے دیں ۔

۱۶۱۔ اور( اسی طرح ) ان کی سودخوری (بھی ) ، جبکہ ابھیں اس سے منع کردیاگیا اور باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانے کی وجہ سے اور ان میں سے کافروں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے

۱۶۲۔لیکن ان میں وہ لوگ جو علم میں راسخ ہیں اور وہ جو ایمان لائے ہیں ، ان تمام چیزوں پر جو تم پر نازل ہوئی ہیں ان پر جو تم سے پہلے نازل ہوچکی ہیں ایمان لاچکے ہیں اور وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوة ادا کرتے ہیں اور وہ جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے ہیں ہم جلد ہی ان سب کو اجر عظیم دیں گے ۔

یہودیوں میں سے صالح اور غیر صالح افراد کا انجام

گذشتہ آیت میں یہودیوں کی قانون شکنی کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔مند رجہ بالا آیات میں ان کے کچھ اور ناشائتہ اعمال کا ذکر کرنے کے بعد ان سزاؤں کاتذکرہ ہے جو ان کے اعمال کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں ان کے دامن گیر ہوئیں اور ہوں گی ۔

پہلے ارشاد فرمایا : اس ظلم وستم کی وجہ سے جو یہودیو ں نے کیا اور لوگوں کو راہ ِ خدا سے باز رکھنے کی وجہ سے کچھ پاک وپاکیزہ چیزیں ہم نے ان پر حرام کردیں اور انھیں ان سے استفادہ سے محروم کردیا( فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ اٴُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ اللهِ کَثِیرًا )

نیز اس بنا پر کہ وہ سودکھاتے تھے حالانکہ انھیں اس سے منع کیا گیا تھا اوراسی طرح لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے ان کے یہی کام ان کی اس محرومیت کا سبب بنے (واخذھم الربوا و قد نھو ا عنہ واکلھم اموال النا س بالباطل )۔

اس دنیا وی سزا کے علاوہ ہم انھیں اخروی سزاؤ ں میں بتلا کریں گے اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے دردناک عذاب تیار ہے( وَاٴَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ مِنْهُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا ) ۔

چند اہم نکا ت

۱۔ یہودیوں کے لیے طیّبا ت کی حرمت :

طیبا ت کی حرمت سے مراد وہی ہے جس کی طرف سورہ انعام آیة ۱۴۶ میں اشارہ ہوا ہے ، جہاں فرمایا گیا ہے :

ہم نے یہودیو ں کے ظلم وستم کی وجہ سے ہر جانور جس کا سم پھٹا ہوا نہ ہو ان پر حر ام قرار دے دیا ۔ نیز گائے اور بھیڑ بکری کی چربی بھی کہ جس سے انھیں لگاؤتھا ان پر حرام کردی مگر اس کا وہ حصّہ جو جانور کی پشت یا آنتوں کے اطراف میں ہو یا ہڈی کے ساتھ ملا ہوا ہو ۔

لہٰذ ا مذکورہ حرمت تحریم تشر یعی وقانونی تھی ، تحریم تکوینی نہ تھی ۔ یعنی یہ نعمتیں طبعی اور فطری طور پر تو ان کے پاس تھیں ، لیکن شرعاً انھیں ان کے کھانے سے روک دیا گیا تھا ۔

موجو دہ تورات کے سفر لا دیا ن کی گیارہویں فصل میں ان میں سے کچھ چیز وں کی حرمت کا ذکر موجود ہے لیکن یہ بات اس میں نہیں کہ حرمت سزا کے طور پر تھی ۔(۱)

۲۔ کیا یہ حرمت عمومی تھی ؟

یہ حرمت ظالم لوگو ں کے لیے ہی تھی سب کے لیے ۔۔۔۔۔اس سلسلے میں مند رجہ بالا آیت اور سورہ انعام کی آیت ۱۴۶ کے ظاہری مفہوم ظالموں کے لیے تو یہ حرمت سزا کے طور پر تھی جبکہ نیک لوگ جو کم تعدا د میں تھے ان کے لیے آزمائش اور انضبا ط کے پہلوسے تھی ۔

بعض مفسیرین کا خیال ہے کہ یہ تحریم فقط ستمگروں کے لیے تھی اور بعض روایات میں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا ہے تفسیر برہان میں سورئہ ِ انعا م کی آیت ۱۴۶ کے ذیل میں امام صادق سے منقو ل ہے ، آپ نے فرمایا :

بنی اسرائیل کے حکام اور رؤ سا فقیرا ور نادار لوگوں کو پر ندوں کے گوشت اور جانور کی چربی کھانے سے روکتے تھے ۔ خدا نے ان کے اس ظلم وستم کی وجہ سے ان چیز وں کو خود ان پر حرام قرا ر دے دیا ۔

۳۔ سود کی حرمت قبل از اسلام سے ہے :

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سود کی حرمت اسلام ہی سے امخصو ص نہیں ہے ۔ بلکہ یہ گذشتہ قو موں میں بھی حرام تھا اگر چہ موجودہ تحریف شدہ تورات میں اس کی حرمت برادان دینی میں حرا م شمار کی گئی ہے ۔(۲)

یہودیو ں میں سے اہل ایمان

زیر نظر آیات میں سے آخری آیت میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے جس کا قرآن نے بارہا اظہا ر کیا ہے اور وہ یہ کہ قرآن اگر یہودیوں کی مذمت کرتا ہے تو نسلی اور گروہی جھگڑے کے حوالے سے نہیں ہے ۔ اسلام کسی قوم وقبیلے کی مذمت قوم اور قبیلے کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ اس مذمت کا ہدف صرف آلودئہ گنا ہ اور منحرف لوگ ہوتے ہیں اسی لیے اس آیت میں یہودیوں میں سے صاحب ِ ایمان اور پاک دامن افراد کو مستثنی قرار دیا گیا ہے اور ان کی تعریف کی گئی ہے اور انھیں اجر عظیم کی بشا رت دی گئی ہے قرآن کہتا ہے لیکن یہودیوں میں سے وہ لگ جو علم ودانش میں راسخ ہیں خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ تم سے پہلے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لے ائیں ہیں ہم بہت جلد انھیں اجر عظیم سے نوا زیں گے( لَکِنْ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ یُؤْمِنُونَ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ وَمَا اٴُنزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَالْمُقِیمِینَ الصَّلاَةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اٴُوْلَئِکَ سَنُؤْتِیهِمْ اٴَجْرًا عَظِیمًا ) ۔(۳)

۳۔”راسخون فی علم “ کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد دوم ص ۲۵۵ (اردو ترجمہ ) میں تفصیلی وضاحت کی جاچکی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کے بڑے لوگوں میں ایک جماعت اسلام کے ظہور اور اس کی حقا نیت کو دیکھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی اور دل وجان سے اس کی حمایت کی یہ لوگ پیغمبر اسلام اور باقی مسلمانوں کے لیے قابل احترا م قرار پائے

____________________

۱۔تفسیر نمو نہ جلد سوم کی طرف رجوع کیجیے (دیکھیے ۲۹ اردو ترجمہ )

۲ ۔تفسیر برہان ج ۱ ص ۵۵۹۔

۳ ۔تو را ت ، سفر تثنیہ فصل ۲۳ جملہ ۲۰۰۱۹ برادارانِ دینی سے ظاہر اً اولاد حضرت اسماعیل مراد ہے (متر جم )

آیات ۱۶۳،۱۶۴،۱۶۵،۱۶۶

۱۶۳۔ إ( ِنَّا اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ کَمَا اٴَوْحَیْنَا إِلَی نُوحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِنْ بَعْدِهِ وَاٴَوْحَیْنَا إِلَی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاٴَسْبَاطِ وَعِیسَی وَاٴَیُّوبَ وَیُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَیْمَانَ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا )

۱۶۴۔( وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْکَ وَکَلَّمَ اللهُ مُوسَی تَکْلِیمًا )

۱۶۵۔( رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ لِاٴَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَانَ اللهُ عَزِیزًا حَکِیمًا )

۱۶۶۔( لَکِنْ اللهُ یَشْهَدُ بِمَا اٴَنزَلَ إِلَیْکَ اٴَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلاَئِکَةُ یَشْهَدُونَ وَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا )

تر جمہ

۱۶۳۔ہم نے تم پر وحی کی جس طرح کہ نوح اور اس کے بعد والے انبیا ء پر وحی کی تھی نیز ابراہیم ، اسما عیل ، اسحاق ،یعقو ب ، (بنی اسرا ئیل میں سے ) اسباط ، عیسیٰ ، ایوب ، یونس ، ہارون اور سلیما ن پر وحی اور (جیسے ) داؤد کو ہم نے زبوردی ۔

۱۶۴۔اور وہ پیغمبر جن کی سر گذشت ہم تھیں پہلے بیان کر چکے ہیں اور وہ پیغمبر کہ جن کا قصّہ ہم نے بیان نہیں کیا اور خدا نے مو سیٰ سے کلام کیا ۔

۱۶۵۔وہ پیغمبر کہ جو خو شخبری دینے والے اور ڈارنے والے تھے تاکہ لوگوں کے لیے ان پیغمبر وں کے بعد خدا پر کوئی حجت باقی نہ رہے ( اور سب پر اتمام ِ حجت ہوجائے ) اور خدا توانا و حکیم ہے ۔

۱۶۶۔ لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ تجھ پر نازل ہوا ہے وہ اس نے اپنے علم کی رو سے نازل کیا ہے اور فرشتے (بھی ) گواہی دیتے ہیں اگر چہ خدا کی گواہی کافی ہے ۔

تفسیر

گذشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہودی انبیا ء میں فرق کرتے تھے بعض کی تصدیق کرتے تھے اور بعض کی تر دید کرتے تھے ۔ زیر نظر آیات میں دوبارہ انھیں جواب دیا گیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : ہم نے تجھ پر وحی نازل کی جس طرح نوح اور اس کے بعد والے انبیا ء پر وحی بھیجی اور جیسے ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، وہ پیغمبر جو اولاد یعقوب میں سے تھے ، عیسی ، ایوب ، یونس ، ہارون اور سلیما ن پر وحی نازل کی تھی اور داؤد کو زبور دی تھی

( إِنَّا اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ کَمَا اٴَوْحَیْنَا إِلَی نُوحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِنْ بَعْدِهِ وَاٴَوْحَیْنَا إِلَی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاٴَسْبَاطِ وَعِیسَی وَاٴَیُّوبَ وَیُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَیْمَانَ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ) لہٰذا ان بزرگ انبیا ء میں کیوں تفریق کرتے ہو جب کہ سب کے سب ایک ہی راستے کے مسافر ہیں ۔

یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت کے مخاطب عرب کے مشرکین اور بت پرست ہوں جو پیغمبر اسلام پر نزول ِ وحی پر تعجب کرتے تھے ، آیت کہتی ہے کہ اس میں کون سی تعجب کی بات ہے ، کیا پہلے پیغمبروں پر وحی نازل نہیں ہوئی ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : وہ انبیاء جن پر وحی نازل ہوئی وہ یہی نہیں تھے بلکہ دوسرے پیغمبر کہ جن کاذکر تم سے پہلے کیا جاچکا ہے اور وہ پیغمبر کہ جن کا قصہ ابھی تک بیان نہیں ہوا ۔ سب کی یہی ماموریت تھی اور ان پر بھی وحی نازل ہو تی رہی( ورسلا قد قصصنا هم علیک من قبل و رسلا لم نقصصهم علیک ) اور اس سے بالا تر یہ کہ خدا نے موسی ٰ سے کلام کیا( وکلمه الله موسیٰ تکلیماً ) ۔

لہٰذا رشتہ وحی تو ہمیشہ سے نوع ِ بشر میں تھا اور کیسے ممکن ہے کہ ہم نوعِ انسانی کو بغیر را ہبر ورا ہنما کے چھو ڑ دیں ، اور پھر ان کے لیے جو ابدہی اور ذمہ داری کے قائل ہوں ؟ لہٰذا ہم نے ” ان پیغمبروں کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا قرار دیا تاکہ خدا کی رحمت اور ثواب کا لوگوں کو امید وار بنائیں اور اس کی سزاؤں سے ڈارائیں تاکہ اس طرح ان پر اتمام حجت ہو جائے اور ان کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے “( رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ لِاٴَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ )

خدانے ان رہبرو ں کو بھیجنے کا پروگرام نہایت باریک بینی سے منظم اور جاری کیا ہے ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ” وہ تمام چیزوں پر توانائی رکھتا ہے اور حکیم (بھی ) ہے “( وکا ن الله عزیزاً حکیما ) اس کی حکمت سبب بنتی ہے کہ یہ کام عملی صورت اختیار کرے او راس کی قد رت راہ ہموار کرتی ہے کیونکہ ایک صیح پر وگرام اگر انجام پذیر نہ ہوتو اس کی وجہ یا عدم حکمت ہوگی یاعدم قدرت ۔۔۔۔حالانکہ ان میں سے کوئی بھی نقص خدا کی ذات پاک میں نہیں ہے ۔

آیت کے آخر میں پیغمبر اکرم کی دلجوئی اور تسلی کے لیے کہتا ہے( لکن الله بشهد بما انزل الیک )

البتہ اس مقصد کے لیے تمہارا انتخاب بلا وجہ نہیں تھا بلکہ تمہاری اصلیت کو جانتے ہوئے اس نے یہ آیات تم پر نازل کی ہیں( انزله بعلمه ) ۔

ممکن ہے یہ جملہ ایک اور مفہوم کا بھی حامل ہوا ور وہ یہ کہ جو کچھ تم پر نازل ہواہے اس کاسر چشمہ علم الہی کا دریائے بے کنار ہے اور اس کے مضامین شاہد ہیں کہ ان کاسرچشمہ علم الہی ہے اس لیے تمھارے دعوی کی صداقت کی گواہی خود متن ِ آیات میں ثبت ہے اور کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیسے ممکن ہے جس شخص نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا وہ علم الہٰی کے بغیر ایک ایسی کتا ب لے کر آئے جو اعلی ٰ ترین تعلیمات ، فلسفوف، قوانین ، اخلاقی احکام اور اجتماعی پروگرام پر مشتمل ہو ۔

آخر میں مزید فرماتا ہے : نہ صرف خدا تمھاری حقانیت کی گواہی دیتا ہے بلکہ فرشتگا ن الہی بھی گواہی دیتے ہیں ، اگر چہ خدا کی گواہی کافی ہے( والملٰئکة یشهدون وکفٰی بالله شهیداً )

چند اہم نکات

۱۔اسلام تمام ادیان کی خوبیوں کا امتزاج ہے :

بعض مفسّرین ” انا اوحینا الیک کما اوحینا -الخ“ کے جملے سے استفا دہ کرتے ہیں کہ قرآن چاہتا ہے کہ پیغمبر سے یہ نکتہ کہے کہ تمھا رے دین میں تمام خصوصیات اور امتیا زات جمع ہیں جو گذشتہ ادیان میں تھے ۔۔۔۔۔۔۔گو یا

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری

یعنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو خوبیا ں ان سب میں الگ الگ ہیں وہ تجھ اکیلے میں ہیں

بعض روا یات اہل بیت میں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا ہے اور مفسیرین نے بھی در اصل انھیں روایات سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے ۔(۱)

۲ -آسمانی کتب کی اقسام :

مند جہ بالا آیت میں ہے کہ زبور آسمانی کتب میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤ د کو دی تھی ۔ یہ بات اس امر کے منافی نہیں جو مسلم اور مشہور ہے کہ نئی شریعت کے حامل اور صا حب کتاب الو العزم پیغمبر پا نچ سے زیادہ نہیں ہیں ۔ کیونکہ جیسا کہ آیات قرآنی اور روایات ِ اسلام سے معلوم ہوتا ہے ۔ پیغمبر انِ الہی پر نازل ہونے والی

آسمانی کتب دو طرح کی ہیں

پہلی قسم

۔ ان کتب کی ہے جن میں احکام ِ تشریعی تھے اور جو نئی شریعت کا اعلان کرتی تھیں اور وہ پانچ سے زیادہ نہیں ہیں جو کہ پا نچ اولو العزم پیغمبروں پر نازل ہو ئیں ۔

دو سر ی قسم

۔ان کتب کی ہے جن میں کوئی نئے احکام نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں پند و نصائح ، رہنمائی ، و صّیتیں اور دعائیں ہوتی تھیں ۔ زبور بھی اسی طرح کی کتاب ہے ۔” مزا میر داؤد “ یا ” زبور داؤد “ جو کہ عہد قدیم کی کتب میں شمار ہوتی ہے اس حقیقت پر شاہد ہے اگر چہ یہ کتاب بھی عہد قدیم وجدید کی دیگر کتب کی طرح تحریف و تغّیر سے محفوظ نہیں رہی لیکن پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی حد تک وہ اپنی شکل وصورت میں باقی ہے یہ کتاب ایک سو پچاس فصلوں پر مشتمل ہے جن میں ہر ایک کو مزمور کہتے ہیں اس کی تمام فصلیں پند و نصائح اور دعا ومنا جات پر مشتمل ہیں ۔

حضرت ابوزر سے ایک روایت میں منقو ل ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ انبیا ء کی تعداد کتنی ہے ؟ تو آپ نے فرفایا :

ایک لاکھ چوبیس ہزار ۔

میں نے عرض کیا : ان میں سے رسو ل کتنے تھے ؟

آپ نے فرمایا : تین سوتیر ہ ، اور باقی صرف نبی تھے ۔

ابوزر کہتے ہیں میں نے پوچھا : آسمانی کتابیں جو ان پر نازل ہوئیں وہ کتنی تھیں

آپ نے فرمایا : وہ ایک سو چار کتابیں ہیں جن میں سے دس کتابیں آدم پر ، پچاس کتابیں شیث پر ، تیس کتابیں ادریس پر اور دس کتابیں ابرا ہیم پر

(جوکل ۱۰۰ سو ہوئیں ) اور تورات ، انجیل ، زبور اور قرآن مجید ۔(مجمع البیان ج ۱۰ صفحہ ۴۷۶)

۳۔ اسباط سے کیا مرا د ہے :

اسباط جمع ہے سبط (بروزن سَبَد ) کی جس کا مطلب ہے ، بنی اسرائیل کے قبائل ، لیکن یہاں مقصود وہ پیغمبر ہیں جو ان قبائل میں مبعو ث ہوئے تھے۔(۲)

۴۔ انبیا ء پر نزول وحی کی کیفیّت :

۔ انبیاء پر نزول ِ وحی کی کیفیّت مختلف تھی ۔کبھی نزول وحی کے فرشتے کے ذریعے وحی آتی ، کبھی دل میں الہام کے ذریعے سے اور کبھی آواز سنائی دیتی ۔ اس طرح کہ خدا تعالیٰ فضا میں یا اجسام میں صوتی لہریں پیدا کر دیتا اور اس طرح سے اپنے پیغمبر سے گفتگوکرتا ، ان میں سے کہ جنھیں واضح طور پر یہ امتیاز حاصل ہو ا ایک حضرت موسیٰ بن عمران تھے جو کبھی شجرہ وادی ِ ایمن سے صوتی لہریں سنتے اور کبھی کوہ طو ر سے انھیں آواز سنائی دیتی ۔ اس لیے حضرت موسی ٰ کو کلیم اللہ کا لقب دیا گیا ہے ۔ مندر جہ بالا آیات میں حضرت موسیٰ کا جدا گانہ تذکرہ شاید ان کے اسی امتیاز کی وجہ سے ہو ۔

____________________

۱۔تفسیر صافی ص ۱۳۹، تفسیر برہان ج ۱ ص ، ۴۲ اور تفسیر نور الثقیلن ج ۱ص۵۷۳کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۲ ۔” اسباط “ کے بارے میں تفصیلی وضاحت ، تفسیر نمونہ جلد اوّل میں کی جاچکی ہے ( دیکھیے اردو ترجمہ۲۴۴

آیات ۱۶۷،۱۶۸،۱۶۹

۱۶۷۔( إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلاَلًا بَعِیدًا )

۱۶۸۔( إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَظَلَمُوا لَمْ یَکُنْ اللهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَلِیَهْدِیَهُمْ طَرِیقًا )

۱۶۹۔( إِلاَّ طَرِیقَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا اٴَبَدًا وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللهِ یَسِیرا )

ترجمہ

۱۶۷۔ جو لوگ کا فر ہوگئے ہیں اور انھوں نے لوگوں کو راہ خدا سے روکاہے وہ دور درازکی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔

۱۶۸۔ جن لوگو ں نے کفر اختیار کیا اور( اپنے اوپر اور دوسرں پر ) ظلم کیا خدا انھیں ہرگز نہیں بخشے گا اورانھیں کسی راستے کی ہدایت نہیں کرے گا ۔

۱۶۹۔ مگر جہنم کے راستے کی کہ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ کلام خدا کے لیے آسان ہے۔

تفسیر

گذشتہ آیات میں بے ایمان افراد اوراہل ایمان کے بارے میں متعد مباحث گزرچکے ہیں ۔ ان آیات میں ایک اور گروہ کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے بدترین قسم کا کفر انتخا ب کررکھا ہے ۔ انھوں نے اپنی گمرا ہی پر ہی اکتفا کیا بلکہ دوسروں کوبھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اوپر ظلم وستم روا سمجھتے ہیں اور دوسروں پر بھی کیونکر نہ وہ خود راہِ ہدایت پر چلتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی راہ ِ ہدایت پر نہ چلیں

لہذا پہلی آیت میں فرمایا گیا : جو لوگ کافر ہوگئے ہیں اور لوگوں کے راہِ خدا میں قدم اٹھانے میں حائل ہوتے ہیں وہ بہت دور کی گمراہی کا شکار ہیں( إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلاَلًا بَعِیدًا )

یہ لوگ جادئہ ِحق سے اس لیے دورترین ہیں ، کیونکہ یہ ضلالت وگمراہی کے مبلّغ ہیں اور بہت بعید نظر آتا ہے کہ ایسے لوگ اس راہ سے دست بردار ہوجائیں کہ جس کی طرف وہ خود دعوت دیتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے کفر کے ساتھ ہٹ دھرمی اور عناد کو بھی ملا لیا ہے اور بے راہ روی کی طرف قدم اٹھایا ہے کہ جو راہِ حق سے بہت دور ہے ۔

اگلی آیت میں مزید کہتا ہے : جو لوگ کافر ہوگئے ہیں اور انھوں نے ظلم کیا ہے ( انھوں نے حق پر ظلم کیا ہے کہ جو چیز اس کے شایان ِ شان تھی اسے انجام نہیں دیا اور اپنے اوپر بھی ظلم کیا ہے کہ خود کوسعادت سے محروم کردیا ہے اور گمراہی میں جاپڑے ہیں ۔ نیزدوسروں پر بھی ظلم کیا ہے انھیں راہِ حق سے روکا ہے ) ایسے ا فراد کو پروردگار کی مغفر ت میسّر نہیں آئے گی اور خدا انھیں راہِ جہنم کے علاوہ کسی اور راستے کی راہنمائی نہیں کرے گا

( إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَظَلَمُوا لَمْ یَکُنْ اللهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَلِیَهْدِیَهُمْ طَرِیقًا إِلاَّ طَرِیقَ جَهَنَّمَ ) اور همیشه کے لیے جهنم میں رهیں گے( ( خا لدین فیها ابدا ً ) انھیں جاننا چاہیے کہ خدا تہد ید اور دھمکی عمل پذیر ہو کے رہے گی کیونکہ خدا کے لیے یہ کام آسان ہے اور وہ اس پر قدرت رکھتا ہے( وکان ذلک علی الله یسیراً )

جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مند رجہ بالا آیات ایسے کفاراور ان کی سزا کے بارے میں خاص تاکید کرتی ہیں ایک طرف ان کی گمرا ہی کو ضلال بعید کہاگیا ہے اور دوسری طرف ” لم یکن اللہ “ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں بخش دینا مقامِ خدا وندی کے لائق نہیں ہے اور تیسری طرف خلو د اور ” ابد ا“ سے اس پر مزید تاکید کی گئی ہے یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ وہ خود گمراہ ہونے کے علاوہ دوسروں کوگمراہ کرنے میں کوشاں رہتے تھے اور اس پر ان کی جوابدہی بہت عظیم ہو گئی تھی ۔

آیت ۱۷۰

۱۷۰۔( یَااٴَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَائَکُمْ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّکُمْ فَآمِنُوا خَیْرًا لَکُمْ وَإِنْ تَکْ ُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَکَانَ اللهُ عَلِیمًا حَکِیمًا )

ترجمہ

۱۷۰۔ اے لوگو ! (جس ) پیغمبر (کے انتظار میں تم تھے وہ ) پروردگار کی طرف سے حق کے (پروگرام کے ساتھ ) تمھارے پاس آگیا ہے اس پر ایمان لے آؤ کہ اس میں تمھارا فائدہ ہے اور اگر کافر ہوجاؤ (تو خدا کا کوئی نقصان نہیں کیو نکہ ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خدا کے لیے ہے اور اللہ دانا اور حکیم ہے ۔

اے اہل کتاب : اپنے دین میں غلو (اور زیادہ روی ) نہ کرو

گذشتہ آیات میں غیر مومن افراد کا انجام بیان کیاگیا ہے ۔ اب اس آیت میں ایمان کی طرف دعوت دی گئی اور اس کے نتیجے کا ذکر کیاگیا ہے اور مختلف تعبیرات جو انسان میں اشتیاق پیدا کریں اس میں سب موجود ہیں تمام لوگوں کو اس بلند مقصد کی تر غیب دی گئی ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : اے لوگو ! وہی پیغمبر کہ جس کے تم منتظر تھے اورجس کے بارے میں گذشتہ آسمانی کتب میں نشاندہی کی جاچکی ہے وہ دین حق لے کر تمھاری طرف آچکا ہے( یَااٴَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَائَکُمْ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ ) (۱) (۲)

اس کے بعد فرمایا : اگر پیغمبر اس ذات کی طرف سے آیا ہے جس نے تمھاری پرورش وتربیت اپنے ذمہ لے رکھی ہے( من ربکمه ) ۔ پھر مزید فرمایا : اگر ایمان لے آؤ تو تمہارے فائدے میں ہے اس سے تم دوسرے کی خدمت نہیں کروگے بلکہ یہ خود تمھاری اپنی خدمت ہوگی( فا منوا خیرا ً لکم ) اور آخرمیں فرمایا : یہ خیال نہ کرو کہ اگر تم نے راہِ کفر اختیار کی تو اس سے خدا کو کوئی نقصان ہوگا ، ایسا نہیں ہے کیونکہ خدا ان تمام چیزوں کا مالک ہے جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں( وَإِنْ تَکْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) علا وہ از یں چونکہ خدا عالم اور حکیم ہے اس نے جو احکام تمھیں دیئے ہیں ، اور جو پروگرام تر تیب دیئے ہیں سب میں حکمت اور مصلحتیں پو شدہ ہیں اور تمھارے فائدے میں ہیں( وکان الله علیماً حکیما ً ) لہٰذا اگر اس نے انبیا ء اورپروگرام بھیجے ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ اسے ضرورت تھی بلکہ اس کے علم وحکمت کا تقاضا ہے ۔ اس لیے ان تمام پہلوؤ ں کی طرف توجہ رکھتے ہوئے کیا یہ مناسب ہے کہ تم راہِ ایمان کو چھوڑ کر راہِ کفر پر گامز ن ہو جا ؤ –

____________________

۱۔ظا ہراً ”الرسول“ کی الف لام عہد کی اور اس پیغمبر کی طرف اشارہ ہے جس کے وہ انتظا ر میں تھے نہ صرف یہود ونصاریٰ بلکہ مشرکین بھی کیو نکہ وہ اہل کتاب سے اس ضمن میں کچھ مطالب سن چکے تھے اور وہ بھی منتظر تھے ۔

۲۔طرق اہل بیت سے منقو ل بعض روایات میں حق کی تفسیر ” ولایت حضرت علی “ سے کی گئی ہے اور جیسا کہ بارہا کہا جا چکا ہے ایسی تفسیر میں واضح مصدا ق کو بیا ن کیا جاتا ہے ، ورنہ آیت اس معنی میں منحصر نہیں ہوتی ۔