تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26157
ڈاؤنلوڈ: 4130


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26157 / ڈاؤنلوڈ: 4130
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۲

۲۔( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ وَ لاَ الشَّهْرَ الْحَرامَ وَ لاَ الْهَدْیَ وَ لاَ الْقَلائِدَ وَ لاَ آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرامَ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنْ رَبِّهِمْ وَ رِضْواناً وَ إِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا وَ لا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ اٴَنْ صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ اٴَنْ تَعْتَدُوا وَ تَعاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوی وَ لا تَعاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَ الْعُدْوانِ وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدیدُ الْعِقابِ ) ۔

ترجمہ

۲۔ اے ایمان والو! شعائر خدا وندی ( او رمراسم حج کو محترم سمجھو اور ان کی مخالفت) کو حلال قرار نہ دو اور نہ ہی حرام مہینہ کو او رنہ بغیر نشانی والی قربانیوں کو اورنہ نشانیوں والی کو اور نہ وہ جنھیں خانہ خدا کے قصد سے پر وردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے لاتے ہو اور تم حالت ِ احرام سے نکل جاو تو پھر شکار کرنا تمہارے لئے کوئی منع نہیں ہے او روہ گروہ جو مسجد الحرام کی طرف ( حدیبیہ کے سال ) تمہارے آنے میں حائل ہوا تھا ۔

اس کی دشمنی تمہیں تجاوز پر نہ ابھارے اور( ہمیشہ)نیکی اور پرہیز گاری کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور( ہر گز) گناہ اور تجاوزکی راہ ساتھ نہ دو اور خدا سے ڈرو جس کی سزا سخت ہے ۔

ایک آیت میں آٹھ احکام

اس آیت میں چند اہم اسلامی احکام بیان ہوئے ہیں یہ پیغمبراکرم پر نازل ہونے والے آخری احکامات میں سے ہیں یہ سب کے سب یا ان میں سے زیادہ تر حج اور خانہ خدا کی زیارت سے مربوط ہیں احکام یہ ہیں :

۱۔ سب سے پہلے ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ شعائر خدا وندی کو نہ تو ڑو او ران کی حرمت کا خیال رکھو (۔( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ ) ۔

اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے کہ شعائراللہ سے کیا مراد ہے لیکن آیت کے دوسرے حصوں سے اس کی مناسبت اور اس کے سالِ نزول

( دس ہجری ) جو پیغمبر اکرم کے حجة الوداع کا سال تھا ، کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شعائراللہ سے کیا مراد مناسک حج اور حج کا پر گرام ہے، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سب کا احترام کریں اس تفسیر کا شاہد یہ ہے کہ قرآن میں لفظ شعائر عام طور پر مراسم حض کے بارے میں استعمال ہوا ہے ۔(۱)

۲۔ حرام مہینوں کا احترام کرو اور ان مہینوں میں جنگ و جدال سے احتراز کرو( وَ لاَ الشَّهْرَ الْحَرامَ ) ۔

۳۔ وہ قربانیان جو حج کے لئے لاتے ہو چاہے وہ نشانی کے( هَدْی ) (۲)

ہوں یا نشانی والی( قلائد ) (۳)

جاتے ہیں اور ان ہ رکوئی علامت اور نشانی لگادی جاتی ہے ۔

ہوں ، انھیں حلال نہ سمجھو او رانھیں رہنے دو کہ وہ قربان گاہ تک پہنچ جائیں اوروہاں قربان ہوں( وَلا الهدی وَ لاَ الْقَلائِدَ ) ۔

۴۔ خانہ خدا کے تمام زائرین کو ان کو ان عظیم اسلامی مراسم کے لئے پوری آزادی ہونا چاہئیے اور اس سلسلے میں افراد، قبائل ،خاندانوں کا کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئیے اس لئے جو لوگ خدا کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں ، حتی کہ جو تجارتی فائدے کے لئے زیارتِ بیت اللہ کے قصد سےآتے ہیں ان سے بھی کوئی مزاحمت نہ کی جائے چاہے وہ تمہارے دوست ہوں یا دشمن ، بس اتنا کافی ہے کہ وہ مسلمان ہیں خانہ خدا کے زائر ہیں ۔یہی ان کے مامون و محفوظ ہونے کے کافی ہے( وَ لاَ آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرامَ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنْ رَبِّهِمْ وَ رِضْواناً ) ۔

بعض مفسرین اور فقہا کا نظریہ ہے کہ جملہ عام ہے یہاں تک غیر مسلموں پر بھی محیط ہے یعنی اگر مشرکین بھی خانہ خدا کی زیارت کے قصد سے آئیں تو ان کی بھی مزاحمت نہ کی جائے۔ لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ سورہ توبہ جس کے متعلق مشہورہے کہ نوہجری میں نازل ہو ئی اس کی آیة ۲۸ میں مشرکین کے مسجد الحرام کی طرف آنے سے منع کیا گیا ہے اور سورہ مائدہ پیغمبر اکرم کی آخری عمر دس ہجری میں نازل ہوئی اور شیعہ سنی روایات کے مطابق ا س کا کوئی بھی حکم منسوخ نہیں ہوالہٰذا یہ تفسیر صحیح نہیں ہے اور حق یہی ہے کہ یہ حکم مسلمانوں سے مخصوص ہے ۔

۵۔ ششکار کی حرمت زمانہ احرام کے لئے ہے اس لئے فرمایاگیا ہے : جب حج یا عمرہ کے احرام سے نکل جاو تو پھر شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے( وَ إِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا ) ۔

۶۔ زمانہ جاہلیت کے بت پرست ( حدیبیہ کے موقع پر ) خانہ خدا کی زیارت میں تم سے مزاحم ہو ئے اور انھوں نے تمہیں خانہ خدا کی زیارت کے مناسک انجام نہیں دینے دئیے۔ اس واقعہ کو اس بات کا سبب نہیں بنا چاہئیے کہ ان کے اسلام لے آنے کے بعد پرانی دشمنی کو زندہ کرو اور خانہ خدا کی زیارت میں ان کے لئے رکاوٹ بنو( وَ لا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ اٴَنْ صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ اٴَنْ تَعْتَدُوا ) ۔(۴)

یہ حکم اگر چہ خدا کی زیارت کے بارے میں نازل ہوا ہے لیکن حقیقت میں اس سے ایک عمومی قانون معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کو کینہ پرور نہیں ہونا چاہئیے اور جو حوادث گذشتہ دور میں گزر چکے ہوں انھیں اپنے ذہن پر سوار نہیں کرلینا چاہئیے اور ان کے انتقام کے در پے نہیں ہونا چاہیئے۔

دیکھا جائے تو ہ رمعاشرے کے نفاق اور تفرقہ بازی کے علل و اسباب میں سے ایک یہی وجہ ہے کہ اسلامی حکم جو کہ اس وقت نازل ہوا جبکہ پیغمبر اسلام کی حیات کا آفتاب آستانہ غروب پر تھا، مسلمانوں کے درمیان نفاق کی آگ بھڑکنے سے روکنے کے لئے نازل ہوا ۔ اس سے اس کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ۔

۷۔ اس کے بعد بحث کی تکمیل کے لئے فرمایا گیا ہے : بجائے اس کے کہ تم اپنے پرانے دشمن اور موجود ہ دوستوں سے انتقام کے لئے ایک ہو جاو۔ تمہیں چاہئیے کہ نیکی اور تقویٰ کی راہ میں ایک دوسرے سے دستِ تعاون بڑھاو۔ نہ یہ کہ گناہ اور تجاوز میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے لگو( وَ تَعاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوی وَ لا تَعاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَ الْعُدْوانِ ) ۔

۸۔ آیت کے آخر میں گذشتہ احکام کو محکم کرنے کے لئے اور ان کی تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے : پر ہیز گاری اختیار کرو اور حکم ِ خدا کی نافرمانی سے بچو ۔ کیونکہ خدا کا عذاب اور اس کی سزائیں بڑی سخت ہیں( وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدیدُ الْعِقابِ ) ۔

نیکی میں ساتھ دینا ضروری ہے

زیر نظر آیت میں تعاون کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ اسلامی احکام کی ایک عمومی بنیاد ہے جو تمام اجتماعی اور سیاسی مسائل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔ اس کے مطابق تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نیک اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں لیکن باطل مقاصد، غلط، اعمال اور ظلم و ستم میں میں تعاون اورہم کاری بالکل ممنوع ہے ، چاہے ان کا مرتکب قریبی دوست یا سگا بھائی کیوں نہ ہو۔

یہ اسلامی قانون بالکل اس قانون کے برعکس ہے جو زمانہ جاہلیت کے عرب میں بلکہ آج کے دور جاہلیت میں بھی رائج و حاکم ہے جاہلیت کا قانون یہ ہے کہ( انصر اخاک ظالما او مظلوماً ) یعنی اپنے بھائی ( یا دوست اور ہم پیمان ) کی حمایت او رمدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔

اس زمانے میں اگر ایک قبیلے کے کچھ لوگ کسی دوسرے قبیلے کے بعض افراد پر حملہ کرتے تھے تو قبیلہ کے باقی افراد ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے اور اس تحقیق کی زحمت نہ کرتے کہ حملہ عادلانہ تھا یا ظالمانہ۔ یہ قانون بین الاقوامی سطح پر آج بھی حکم فرما ہے اور اکثر ایک معاہدے میں منسلک ممالک یا جن کے مفادات مشترک ہیں اہم عالمی معاملات میں ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور قانون عدالت کا بالکل پاس نہیں کرتے اور ظالم و مظلوم کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھتے۔ اسلام نے اس قانون ِ جاہلیت پر خطِ تنسیخ کھنیچ دیا ہے اسلام کا حکم ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے تعاون اور ہمکاری صرف نیک ، اچھے کاموں میں کرنا چاہئیے نہ کہ گناہ ، تعّد ی اور ظلم میں ۔

یہ بات جالبِ نظر ہے کہ ”بر “ اور تقویٰ “ دونوں الفاظ مندرجہ بالا آیت میں ایک ساتھ آئے ہیں ان میں سے ایک لفظ اثباتی پہلو رکھتا ہے جو کہ مفید افعال و اعمال کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا لفظ نفی کا پہلو رکھتا ہے جو کہ غلط کاموں سے رک جانے کی طرف اشارہ ہے ۔ گو یا تعاون و ہم کاری نیکیوں کی طرف دعوت دینے میں بھی ہونا چاہئے او ربرائیوں کا مقابلہ کرنے میں بھی ۔

فقہ اسلامی میں اس قانون سے حقوق سے متعلق مسائل معلوم کئے جاتے ہیں ۔ اسی کی مدد سے چند ایک ایسے معاملات اور تجارتی معاہدوں کو حرام قرار دیا گیا ہے کہ جو گناہ کی کمک او رمدد کا پہلو رکھتے ہیں ۔ مثلاً شراب ساز ی کے کار خانے کے لئے انگور بیچنا یا حق و عدالت کے دشمنوں کے ہاتھ ہتھیار بیچنا یا کام کی کسی جگہ کو غیر شر عی اور خلافِ شریعت معاملات او رکا رو بار کے کرائے پر دینا( البتہ ان احکام کے بارے میں کچھ شرائط ہیں جو فقہی کتب میں بیان کی گئی ہیں ) ۔

اگر اسلامی بنیاد تمام معاشروں میں فراہم ہو جائے اور لوگ شخصی ، نسلی اور قرابتی تعلق کو پیش نظر رکھے بغیر ان لوگوں کو ساتھ دیں جو مثبت اور اصلاحی کاموں کے لئے قدم بڑھاتے ہیں اور ظالم اور تجاوز کرنے والے لوگ چاہے کسی طبقے سے ہوں ان کا ساتھ نہ دیں تو بہت سی اجتماعی خرابیاں اور مشکلیں دور ہا جائیں ۔ اسی طرح اگر دنیا کی حکومتیں بین الاقوامی سطح پر ظالم اور تجاوز کرنے والے شخص یا حکومت سے تعاون نہ کریں تو تعدی، تجاوز، زیادتی ، استعمار اور استشمار دنیا سے ختم ہو جائیں ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے بعض حکومتیں تجاوز کرنے والوں اور ستم گروں کی حمایت کرنے لگتی ہیں اور ان سے مفادات رکھنے والے کھلے بندوں انھیں حمایت کا یقین دلاتے ہیں لہٰذا موجودہ حالات میں بہتری کی توقع نہیں کی جانا چاہئیے۔

اسلامی روایات میں اس سلسلے میں بہت تاکید کی گئی ہے ۔ نمونے کے طور پر ہم چند ایک روایات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

۱۔ پیغمبر اکرم سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا :

اذا کان یوم القیامة نادی مناد این الظلمة ؟ و اعوان الظلمة ؟ و اشباه الظلمة ؟ حتیٰ من برء لهم قلما و لاق لهم دواتاً، قال ، فیجتمعون فی تابوت من حدید ثم یرمی بهم فی جهنم ۔(۵)

جب قیامت بپا ہوگی تو منادی ندا کرے گا :

کہاں ہیں ظالم ؟

کہاں ہیں ظالموں کے مدد گار؟

کہاں ہیں وہ لوگ جنھوں نے اپنے آپ کو ظالموں سے مشابہ بنایا تھا؟

حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی پکارا جائے گا جنھوں نے ان ظالموں کے لئے قلم تراشایاں ان کی دوات میں صوف ڈالا ان سب کولوہے کے ایک صندوق میں ڈا ل کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔(۶)

۲۔ صفوان جمال ، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔ وہ کہتے ہیں : میں آپ (علیه السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا: تمہارے تمام کام اچھے ہیں سوائے ایک کام کے ۔

میں نے عرض کیا : آپ پر قربان جاوں وہ کونساکام ہے ؟

امام (علیه السلام) نے فرمایا: تو اپنے اونٹ اس شخص ( یعنی ہارون )کو کرایہ پر دیتا ہے ۔

میں نے عرض کیا : بخدا عیاشی، ہوس بازی اور حرام شکار کے لئے تو کرایہ پر نہیں دیتا، صرف اس ( مکہ کے ) سفر کے لئے دیتا ہوں ۔ پھر میں خود بھی اونٹوں کے ساتھ نہیں جاتا اپنے کسی بیٹے یا کسی اور شخص کو ان کے ساتھ بھیجتا ہوں ۔

امام (علیه السلام) نے فرمایا: صفوان : کیا ان سے کرایہ لیتے ہو؟

میں نے عرض کیا: جی ہاں ۔

آپ (علیه السلام) نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہوں کہ وہ اس وقت تک زندہ رہیں اور اپنے منصب پر باقی رہیں جبتک تمہارا کرایہ ادا نہ کریں ۔

میں نے کہا: جی ہاں ۔

آپ نے فرمایا: جو ان کی بقاء کی خواہش رکھے وہ انہی میں سے ہے اور جوان میں سے ہو وہ جہنم کی آگ میں جائے گا ۔

صفوان کہتے ہیں : میں فوراً گیا اوراپنے تمام اونٹ بیچ ڈالے ہیں ۔

یہ خبر ہاروں کو ہوئی تو اس نے مجھے بلوابھیجا اور مجھ سے کہنے لگا: صفوان! میں نے سنا ہے کہ تم نے اپنے اونٹ بیچ ڈالے ہیں ۔

میں نے کہا : میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، میرے بیٹے اور دوسرے لوگ ان کی صحیح دیکھا بھال نہیں کرسکتے۔

ہاروں بولا: یہ بات نہیں ، میں جانتا ہوں تمہیں کسی شخص نے اس کاحکم دیا ہے ، ہاں موسیٰ بن جعفر (علیه السلام) نے تمہیں یہ حکم دیا ہے ۔

میں نے کہا: میرا موسیٰ (علیه السلام) بن جعفر (علیه السلام) سے کیا واسطہ؟

ہارون بولا : چھوڑو اس بات کو ، واللہ تمہاری گذشتہ نیکیاں نہ ہوتیں تو میں تمہاری گردن اڑانے کا حکم دیتا ۔(۷)

یاعلی کفر بالله علی العظیم من هذٰه الامة عشرة وبایع السلاح من اهل الحرب ۔

اے علی ! اس امت کے دس گروہ خدا کے منکر ہو گئے ہیں اور ایک وہ ہے جو اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ ہتھیار بیچتا ہے جبکہ وہ مسلمانوں سے حالتِ جنگ میں ہوں ۔(۸)

____________________

۱- بقرہ ۱۵۸ اور حج ۳۲، ۳۶۔

۲ ” ھدی “ جو ” ہدیة“ کی جمع ہے ،اس کا مطلب ہے وہ چاپائے جو قربانی کے طور پر خانہ خدا کے لئے ” اھداء“ کئے جاتے ہیں ۔

۳ ”قلائد “ جو ” قلادہ “ کی جمع ہے ، اس کا معنی ہے وہ چیز جو انسان یا کسی جانور کے گلے میں ڈالی جائے یہاں اس سے مراد وہ چوپائے ہیں کو مراسم حج میں قربانی کے لئے لائے

۴ ۔ اہل لغت اور مفسرین کے کلمات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ ” جَرم“ ( بروزن ”گرم“) اصل میں درخت سے غیر مناسب پھل توڑنے کے معنی میں ہے بعد ازاں یہ لفظ ہر اس کام کے لئے استعمال ہونے لگا جو ناخوش آیندہ ہو نیز ناپسند یدہ کام کے لئے کسی کو اکسانے کے مفہوم میں بھی بولا جانے لگا ۔ اس لئے یہاں” لایجرمنکم “ ” لا یحسلنکم ، ‘ کے معنی میں ہے یعنی ” تمہیں غلط کام پر نہ اکسائے “۔

۵ ۔“ لیقہ“ عربی زبان میں کپڑے کے اس ٹکڑے یاریشم کی روٹی کو کہتے ہیں ، جودوات میں ڈالی جاتی ہے ، تاکہ وہ اپنے اندر سیاہی کو جذب کرلے اور اسے بہہ جانے سے روکے۔ ۶ - وسائل الشیعہ، جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۱۔

۷ - و سائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۲۔ ۸ - وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۷۱۔

آیت ۳

۳۔( حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزیرِ وَ ما اٴُهِلَّ لِغَیْرِ اللَّهِ بِهِ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطیحَةُ وَ ما اٴَکَلَ السَّبُعُ إِلاَّ ما ذَکَّیْتُمْ وَ ما ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اٴَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْاٴَزْلامِ ذلِکُمْ فِسْقٌ الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَرُوا مِنْ دینِکُمْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ دیناً فَمَنِ اضْطُرَّ فی مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحیمٌ ) ۔

ترجمہ

۳۔ مردار کا گوشت ، خون ، سورکا گوشت، وہ جانور جو غیر خدا کے نام پر ذبح ہوں ، وہ جانور جن کا گلا گھونٹ دیاجائے اور تشدد کر کے انھیں مار دیا جائے ۔ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائےں ، وہ جانور جو دوسرے جانور کے سنیگ مارنے سے مر جائیں اور درندہ جانور کے شکار کا باقی ماندہ مگر یہ کہ ( بر موقع اس جانور کے پاس جاپہنچیں اور ) اسے ذبح کرلیں او روہ جانور جو کسی بت کے اوپر ( یا اس کے سامنے ) ذبح کیے جائیں ( سب کے سب ) تم پر حرام ہیں اور (اسی طرح ) قسمت آزمائی کے لئے مخصوص تیر کی لکڑیوں سے جانور کا گوشت تقسیم کرنا ۔ یہ تمام اعمال فسق او رگناہ ہیں ۔ آج کے دن کفار تمہارے دین ( کے زوال ) سے مایوس ہو گئے ہیں لہٰذا ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ( میری مخالفت سے ) ڈرو۔ آج کے روز میں تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا او راپنی نعمت تم پر تمام کردی اور اسلام کو تمہارے لئے ( ہمیشہ رہنے والے ) دین کی طور پر قبول کرلیا لیکن وہ لوگ کہ بھوک کی حالت میں جن کا ہاتھ کسی اور کھانے تک نہ پہنچے اور وہ گناہ کی طرف مائل بھی نہ ہوں ( تو ان کے لئے کوئی حرج نہیں کہ وہ ممنوع گوشت میں سے کھالیں ) خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے ۔

تفسیر

اس سورہ کی ابتداء میں چوپایوں کا گوشت حلال ہونے کا تذکرہ ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا گیا تھا کہ اس سلسلے میں جن کے بارے میں استثناء ہے ان کا ذکر بعد میں آئے گا ۔

زیر بحث آیت میں در اصل وہی استثنائی حکم ہے جس کے بارے میں وعدہ کیا گیا تھا ۔ اس میں گیارہ چیزوں کے حرام ہونے کا ذکر ہے ان میں سے بعض کے حرام ہونے کا حکم قرآن کی بعض دیگر آیات میں بھی آیا ہے یہاں ان کا تکرار تاکید کے طور پر ہے ۔

۱۔ پہلے فرماتا ہے : مردار تم پر حرام کیا گیا ہے( حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةُ ) ۔

۲۔ اسی طرح خون بھی حرام ہے( وَ الدَّمُ ) ۔

۳۔سور کا گوشت بھی حرام ہے( وَ لَحْمُ الْخِنْزیرِ ) ۔

۴۔ اور وہ جانور جو زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق بتوں کے نام پر اور اصولی طور پر غیر خدا کے نام پر ذبح کئے جائیں ، ان کا گوشت بھی حرام ہے( وَ ما اٴُهِلَّ لِغَیْرِ اللَّهِ بِهِ ) ۔

ان چاروں چیزوں کی تحریم اور اس کے فلسفہ کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اوّل میں ہم کافی بحث کرچکے ہیں ( اردو ترجمہ ص ۴۱۴) ۔

۵۔ نیز جانور بھی کہ جن کا گلا گھونٹ دیا جائے ، حرام ہیں ، چاہے خود بخود ایسا ہو یا پھندے کے سبب ہو یا کوئی انسان ایسا کام انجام دے ( جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ بعض اوقات کسی جانور کو دو لکڑیوں یا درخت کی دو شاخوں میں سختی سے دبا تے تھے یہاں تک کہ وہ مر جاتا تھا اورپھر اس کا گوشت استعمال کرتے تھے )( وَ الْمُنْخَنِقَةُ ) ۔

بعض روایات میں ہے کہ خاص طور پر مجوسی ایسا کرتے تھے کہ جانور کا گلا گھونٹ کر مارتے اس کے بعد اس کا گوشت کھاتے لہٰذا ممکن ہے کہ آیت کا ان کے اس طریقے کی طرف بھی اشارہ ہو۔(۱)

۶۔ اور وہ جانور بھی حرام ہیں جو تشدد اور مار پیٹ سے مر جائیں یا بیماری کی وجہ سے مر جائیں( وَ الْمَوْقُوذَةُ ) ۔(۲)

تفسیر قرطبی میں ہے کہ عربوں میں رواج تھا کہ وہ بعض جانوروں کو بتوں کی خاطر اس قدر مارتے کہ وہ مر جاتے ، اور وہ اسے ایک طرح کی عبادت سمجھتے تھے۔(۳)

۷۔ اور وہ جانور بھی حرام ہیں جو بلندی سے گر مر جائیں( وَ الْمُتَرَدِّیَةُ ) ۔

۸۔ نیزوہ جانور جو سینگ مارنے سے مر جائیں ان کا گوشت بھی حرام ہے( وَ النَّطیحَةُ ) ۔

۹۔ اور وہ جانور بھی حرام ہیں جو درندوں کے حملے کی وجہ سے مرجائیں( وَ ما اٴَکَلَ السَّبُعُ ) ۔

ان آخر والے پانچ قسم کے جانوروں کے گوشت کی حرمت کا ایک فلسفہ ممکن ہے یہ ہو کہ ان سے کافی مقدار میں خون نہیں نکلتا ۔ کیونکہ جب تک گردن کی اصلی رگیں نہ کاٹی جائیں اس وقت تک خون کی کافی مقدار نہیں نکلتی اورہم جانتے ہیں کہ خون طرح طرح کے جراثیم کا مرکز ہوتا ہے اور جانور کے مرتے ہی سب سے پہلے خون میں بد بو پیدا ہوتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ایسے گوشت میں ایک طرح کا زہر یلا پن زیادہ ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں ذبح کرنے میں خدا کا نام لیا جاتا ہے اور قبلہ رو ہو کر ذبح کیا جاتا ہے اس طرح سے جو معنوی پہلو پیدا ہوتا ہے وہ مذکورہ بالا صورتوں میں نہیں ہے ۔

لیکن جانور کے مرنے سے پہلے ان تک پہنچ جائیں اور آداب اسلامی کے مطابق اسے ذبح کرلیں اور اس کا خون کافی مقدار میں نکل آئے تو وہ حلال ہو جائے گا ۔ اسی لئے مندرجہ بالا مواقع کی حرمت کے بعد فرمایا گیا ہے :( إِلاَّ ما ذَکَّیْتُمْ ) ۔

بعض مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ استثناء صرف آخری قسم یعنی ”وما اکل السبع “کے بارے میں ، لیکن اکثر مفسرین کا نظر یہ یہ ہے کہ تمام قسموں کے بارے میں ہے اور یہی بات زیادہ قرین ِ حقیقت ہے ۔

ممکن ہے سوال کیا جائے کہ جب تک آیت کی ابتداء میں ” میتة“کہہ دیا گیا ہے تو پھر ان مواقع کا ذکر کیوں کیا گیا ہے اور کیا یہ سب ” میتہ“ کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فقہی اور شرعی لحاظ سے ” میتة “ کا ایک وسیع مفہوم ہے اس لحاظ سے جوبھی حیوان شرعی طریقے سے ذبح نہ ہووہ اس کے مفہوم میں داخل ہے لیکن لغت میں عموماً ” میتة “ اس جانور کو کہتے ہیں جو خود بخود مر جائے اس لئے مندرجہ بالا مواقع ” میتة “ کے لغوی معنی میں داخل نہیں ہیں اور نہیں تو کم از کم اس کا احتمال ہے کہ واخل نہ ہوں ۔لہٰذا ان کی صراحت کی ضرورت تھی ۔

۱۰۔ زمانہ جاہلیت میں بت پرستوں نے کچھ پتھر خانہ کعبہ کے گرد نصب کررکھے تھے ان کی کوئی خاص شکل و صورت نہ تھی ۔ انھیں ” نصب “ کہتے تھے ۔ ان کے سامنے قربانی کرتے تھے اور قربانی کاخون ان پر مَل دیتے تھے ان کے اور دیگر بتوں کے درمیان فرق یہ تھا کہ دیگر بتوں کی کوئی مخصوص شکل ہوتی تھی لیکن ” نصب “ کو کوئی صورت نہ ہوتی تھی ۔ اسلام نے زیر نظر آیت میں ایسی قربانی کے گوشت کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے( وَ ما ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ ) ۔واضح ہے کہ ایسے گوشت کی حرمت اخلاقی اور معنوی پہلو رکھتی ہے نہ کہ مادی اور جسمانی ۔ در حقیت یہ ”وما اھل لغیر اللہ بہ “ کی اقسام میں سے ہے۔

۱۱۔ جانوروں کی ایک اور طرح کی حرمت بھی زیر نظر آیت میں آئی ہے اور وہ ہے قسمت آزمائی کے طور پر ذبح ہونے والے جانور۔ ہوتا یہ تھا کہ دس آدمی آپس میں شرط لگاتے تھے اور ایک جانور خرید کر اسے ذبح کر دیتے تھے پھر تیر کی دس لکڑیاں جن میں سے سات پر ” کامیاب “ او رتین پر ” ناکام “ لکھا ہوتا تھا ایک مخصوص تھیلے میں رکھ دیتے تھے پھر قرعہ اندازی کی صورت میں ان دس آدمیوں میں سے ایک ایک کے نام پر تیر باہر نکالتے جن سات لکڑیوں پر ” کامیاب لکھا ہوتا وہ جس جس کے نام نکلتیں اسے دے دیتے اور وہ گوشت کا ایک حصہ اٹھا لیتا اور اسے اس کے بدلے کچھ نہ دیتا پڑتا ۔ دوسری طرف وہ تین افراد جن کے نام ” ناکام “ والی لکڑیاں نکلتیں ان میں سے ہر ایک کے لئے لازمی ہوتا کہ وہ اس جانور کی ایک تہائی قیمت ادا کرے ، جبکہ گوشت کا بھی اسے کوئی حصہ نہ ملتا ۔ان لکڑیوں کو ” ازلام “ کہتے ہیں ۔ ” ازلام “ ” زلم “ ( بر وزن ” قلم “ ) کی جمع ہے اسلام نے ایسے گوشت کا کھانا حرام قرار دے دیا ہے ۔ یہ حرمت اس بناپر نہیں کہ اصل گوشت حرام ہے بلکہ اس لئے کہ قمار بازی اور قسمت آز مائی ( لاٹری وغیرہ ) کاپہلو لئے ہو ہے قرآن فرماتا ہے :( وَ اٴَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْاٴَزْلامِ ) ۔

واضح ہے کہ قمار بازی وغیرہ کی حرمت جانوروں کے گوشت سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ہرجگہ اور ہر صورت میں قمار بازی ممنوع ہے اور اس کے مفہوم میں تمام نقصان دہ امور، بے مقصد کام او ربیہودہ پرگرام شامل ہیں آخر میں ان احکام ِ حرمت کی تاکید کے لئے فرمایاگیا ہے : یہ تمام احکام فسق ہیں اور طاعت پر وردگار کی حدود سے خارج ہیں( ذلِکُمْ فِسْقٌ ) ۔(۴)

____________________

۱۔ وسائل الشیعہ، جلد ۱۶ صفحہ ۲۷۳۔

۲ ” موقوذة “ کا مادہ ہے ” وقذ“ ( بر وزن ” نقص“) یہ ایسی سخت مار پیٹ کے معنی میں ہے کہ جو موت تک پہنچادے یا سخت بیماری جو جانور کو موت کے کنارے لے جائے بعض اوقات ایسا تشدد اور ایسی بیماری کو بھی ” وقذ“ کہتے ہیں جو موت تک نہ پہچائے بہر حال اس آیت میں پہلا معنی ہی مراد ہے ۔

۳ تفسیر قرطبی، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۴ ”’ ذٰلکم “اگر چہ اسم اشارہ مفرد ہے کہ جس میں خطاب جمع کے صیغے سے کیا گیا ہے اور قاعدةً اسے مفرد کی طرف لوٹنا چاہئیے لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفرد اشارہ اس مجموعے کے لئے جو مفرد فرض کیا گیا ہو، کوئی اشکال نہیں رکھتا ۔