تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26104
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26104 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

گوشت کے استعمال میں اعتدال

مندرجہ بالا تمام بحث سے اور دیگر اسلامی مصادر ے معلوم ہوتا ہے کہ گوشت سے استفادہ کے بارے میں اسلام کی روش اس کے دیگر احکام کی طرح اعتدال پرمبنی ہے۔ نہ زمانہ جاہلیت کی طرح ہے کہ وہ تو گوہ، مردار، خون و غیرہ سب کھاجاتے تھے، نہ آج کے بہت سے مغربی ممالک کی طرح ہے جہاں کے لوگ کیکڑآ اور کٹیرے مکوڑے تک کھانے سے نہیں کتراتے اور نہ ہی اسلام کا طریقہ ہندوؤں کا ساہے جنھوں نے گوشت کھانا مطلقاً ممنوع قرار دے رکھاہے بلکہ ان جانوروں کا گوشت کھانا حلال قراردیاہے جن کی غذا پاک ہے اور جو باعث تنفر نہیں ہیں اور افراط و تفریط کے راستے پر خط بطلان کھینچ دیاہے اور مختلف قسم کا گوشت کھانے کے لیے شرائط معین کردی ہیں جو اس طرح ہیں :

۱۔ جن جانوروں کا گوشت استعمال کیاجاسکتاہے انھیں گھاس خور ہونا چاہیے کیونکہ گوشت خور جانوروں کا گوشت مردار اور گندگی سے آلودہ گوشت کھانے کے نتیجے میں عموماً صحیح سالم نہیں رہتا اور طرح طرح کی بیماریوں کا سبب بن جاتاہے۔ اس کے برعکس گھاس کھانے والے چوپائے عام طور پر صحصح اور پاک چیزوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔

علاوہ ازیں جیسا کہ سورہ بقرہ آیہ ۷۲ کی تفسیر میں کہاجاچکاہے کہ ہر جانور کی صفات اس کے گوشت کے ذریعے اسے کھانے والے تک منتقل ہوجاتی ہیں ۔

اس لیے درندوں کا گوشت کھانے سے انسان میں قساوت اور درندگی کی صفت کو تقویت پہنچے گی اسی لیے اسلام نے نجاست خور جانوروں کو بھی حرام قرار دیاہے۔

۲۔ وہ جانور جن کے گوشت سے استفادہ کیا جائے وہ قابل نفرت نہ ہوں ۔

۳۔ ایسے جانور بھی نہ ہوں جو انسانی روح یا جسم کے لیے نقصان اور ضرر کا باعث ہوں ۔

۴۔ ایسے جانور جو شرک اور بت پرستی و غیرہ کی راہ میں قربان کیے جائیں چونکہ وہ روحانی اور معنوی لحاظ سے ناپاک ہیں اس لیے انھیں حرام قرار دیاگیاہے۔

۵۔ اسلام میں کچھ احکام جانوروں کو ذبح کرنے کے طریقے کے بارے میں بھی ہیں ۔ ان میں سے ہر حکم کے اپنے فوائد یا اخلاقی اثرات ہیں ۔

مندرجہ بالا احکام کے بعد زیر بحث آیت میں دو معنی خیز جُملے نظر آتے ہیں پہلے فرمایاگیاہے: آج کے دن کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہٰذا اب ان سے نہ ڈرو اور صرف میری مخالفت سے ڈرو( الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَرُوا مِنْ دینِکُمْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ ) ۔

اس کے بعد ارشاد ہوتاہے: آج کے دن میں نے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور اسلام کو تمھارے دین کے طور پر قبول کرلیا( الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ دیناً ) ۔

دین کس روز اپنے کمال کو پہنچا

یہاں ایک اہم بحث سامنے آتی ہے۔ وہ یہ کہ ”الیوم“ (یعنی آج کا دن) ،جس کا مندرجہ بالا آیت کے دو جملوں میں ذکر ہے، کو سا دن ہے؟ یعنی وہ کون سا دن ہے جس میں یہ چار پہلو جمع ہوگئے۔

۱۔ کفار اس روز مایوس ہوگئے

۲۔ دین اس دن مکمل ہوگیا ۔

۳۔ نعمت الٰہی تمام ہوگئی اور

۴۔ خداوند عالم نے دین اسلام کو پورے عالم کے لوگوں کے لیے آخری دین کے طور پر قبول کرلیا ۔

مفسرین میں اس سلسلے میں بہت اختلاف ہے لیکن جس بات میں کوئی اختلاف نہیں وہ یہ ہے کہ ایسا دن پیغمبر اسلام- کی زندگی میں بہت اہم ہونا چاہیے اور یہ کہ یہ کوئی عام سا اور معمولی دن نہیں ہوسکتا کیونکہ اتنی اہمیت کسی عام دن کو حاصل نہیں ہوسکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ایک روایات میں آیاہے کہ بعض یہودیوں اور عیسائیوں نے یہ آیت سن کر کہا کہ ایسی آیت اگر ہماری آسمانی کتب میں ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن قرار دیتے۔(۱)

ہمیں چاہیے کہ ہم قرائن، نشانیوں ، آیت اور سورة کے نزول کی تاریخ ، پیغمبر اسلام کی زندگی کی تاریخ اور مخالف اسلامی منابع کی روایات سے اس اہم دن کو تلاش کریں ۔ کیا اس سے مراد وہ دن کو تلاش کریں ۔ کیا اس سے مراد وہ دن ہے جس دن حلال و حرام گوشت کے بارے میں مندرجہ بالا احکام نازل ہوئے تھے۔ قطعاً ایسا نہیں ہے۔ ان احکام کا نزول اتنی اہمیت کا حامل نہیں ہے اور نہ ہی یہ تکمیل دین کا باعث ہے۔ یہ پیغمبر اسلام پرنازل ہونے والے آخری احکام بھی نہ تھے کیونکہ اس صورت کے آخر میں کچھ اور احکام بھی دکھائی دیتے ہیں اور پھر ان احکام کا نزول کفار کی ناامیدی کا سبب بھی نہیں ہوسکتا ۔ وہ بات جو کفّار کی مایوسی کا سبب بن سکتی ہے، وہ اسلام کے مستقبل کے لیے کوئی محکم بنیاد اور سہارا ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں ایسے احکام کا نزول کفّار کے جذبات پر اثر انداز نہیں ہوسکتا کہ ایک طرح کا گوشت حرام ہو اور دوسری طرح کا حلال۔اس سے ان میں کوئی خاص حسّاسیّت پیدا نہیں ہوسکتی ۔

کیا اس سے مراد پیغمبر اکرم کے حجة الوداع کے عرفہ کا دن ہے(جیسا کہ مفسّرین کے ایک گروہ نے احتمال بھی ظاہر کیاہے)؟

اس سؤال کا جواب بھے نفی میں ہے کیونکہ مذکورہ بالا نشانیاں اس دن پر بھی منطبق نہیں ہوسکتیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن کوئی واقعہ نمودار نہیں ہوا کہ جو کفار کی مایوسی کا باعث ہوسکے۔ اگر اس سے مراد مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہے تو وہ روز عرفہ سے پہلے بھی مکّہ میں خدمت پیغمبر میں تھا اور اگر اس دن مذکورہ بالا احکام کا نزول مراد ہے تو بھی جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ، کفّار کے لیے کوئی گھبرانے والی بات نہ تھی ۔

تو کیا اس سے فتح مکہ کا دن مراد ہے( جیسا کہ بعض کا خیال ہے)، جب کہ اس سورہ کے نزول کا زمانہ فتح مکّہ سے بہت ہی بعد کا ہے۔

یا کیا سورة بر ات کی آیات کے نزول کا دن ہے؟ تو وہ بھی اس سُورہ کے نزول سے کافی مُدّت پہلے تھا ۔

سب سے زیادہ عجیب احتمال یہ ہے جو بعض نے ظاہر کیا ہے کہ اس دن سے مراد ظہور اسلام یا بعثتِ پیغمبر کا دن ہے ، جبکہ ان دونوں کا اس آیہ کے نزول کے دن سے کوئی ربط نہیں ہے اور ان کے در میان ایک طویل مُدّت حائل ہے۔

لہٰذا مذکورہ بالا چھ احتمالات میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو آیت سے آہنگ اور مفہوم سے مناسبت رکھتاہو۔

(اس آیت کے سلسلے میں ایک اور احتمال بھی ہے جو تمام شیعہ مفسرّین نے اپنی کتب میں پیش کیاہے ، متعدد روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں ۔ نیز آیت کے مضامین اور آہنگ بھی اس سے مناسبت رکھتاہے اور وہ یہ کہ اس سے مراد غدیر خم کا دن ہے، جس روز پیغمبر اسلام نے امیر المؤمنین حضرت علی کو با قاعدہ اپنی جانشینی کے لیے مقرر کیاتھا ۔ یہی وہ روز تھا جب کفار مایوسیوں کے سمندر میں ڈوب گئے۔ کیونکہ انھیں توقع تھی کہ دین اسلام کا قیام بس ایک شخص سے مربوط ہے اور پیغمبر اسلام کے بعد صورتِ حال پھر پُرانی ڈگر پر لوٹ آئے گی لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ ایک ایسا شخص، پیغمبر کی جانشینی کے لیے منتخب ہواہے جو علم تقویٰ اور قدرت و عدالت کے لحاظ سے پیغمبر اسلام کے بعد بے نظیر ہے اور آنحضرت نے لوگوں سے اس کی بیعت لے لی ہے تو وہ اسلام کے بارے میں یاس و ناامیدی کا شکار ہوگئے وہ سمجھ گئے کہ اس دین کی جڑیں مضبوط اور پائیدار ہیں ۔ یہ وہ دن تھا جب دین اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ۔ کیونکہ جانشینِ پیغمبر کے تعیّن اور مسلمانوں کا مستقبل واضح ہوئے بغیر یہ آخری تکمیل کو نہیں پہنچ سکتاتھا ۔

یہ وہ دن تھا جب نعمتِ الٰہی علی(علیه السلام) جیسے لائق رہبر کے تعیّن کے ذریعے لوگوں کے مستقبل کے لیے تمام ہوگئی ۔ اسی دن اسلام اپنے پروگرام کی تکمیل کے ذریعے آخری دین کے طور پرخدا کی طرف سے پسندیدہ قرار پایا ۔

لہٰذا اس میں چاروں مذکورہ پہلو موجود تھے۔

علاوہ ازیں ذیل کے قرائن بھی اس تفسیر کی تائید کرتے ہیں ۔(۲)

اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ روایات اہلسنّت کے مطابق اور حتی کہ بعض شیعہ روایات کی بناء پر جیسا کہ کلینی نے اپنی مشہور کتاب کافی میں نقل کیاہے) رسول اکرم کی وفات بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی تھی ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ زیر نظر آیت کے نزول کا دن ٹھیک اٹھارہ ذی الحجہ ہے۔(۳)

ب۔ بہت سی روایات جو مشہور شیعہ سنی طرق سے منقول ہیں صریحاً یہ مطلب بر آمد ہوتا ہے کہ زیر بحث آیہ شریفہ غدیر خم کے روز اور ولایت علی (علیه السلام) کے اعلان کے بعد نازل ہوئی ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۔

۱۔ مشہور سنی عالم ابن جریر طبری کتاب ولایت میں معروف صحابی زید بن ارقم کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیر خم کے دن حضرت علی (علیه السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ۔

۲۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی اپنی کتاب ” مانزل من القرآن فی علی (علیه السلام) “ میں مشہور صحابی ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں :۔

پیغمبر خدا نے غدیر خم کے دن لوگوں سے حضرت علی(علیه السلام) کا تعارف ان کی ولایت کے حوالے سے کروایااور لوگ ابھی منتشر نہیں ہوئے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی :( الیوم اکملت لکم دینکم )

اس موقع پر رسول اللہ فر مایا:الله اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی وبالولایة لعلی ( ع ) من بعدی، ثم قال من کنت مولاه فعلی مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و انصر من نصره و اخذل من خذله ۔

یعنی اللہ اکبر دین کی تکمیل اور نعمت تمام ہونے پر اور پروردگار کے میری رسالت کے بعد آپ نے فرمایا:

جس شخص کا میں مولا ہوں ، اس کا علی(علیه السلام) مولا ہے ، خدا یا : اسے دوست رکھ ، جو علی کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو علی (علیه السلام) سے دشمنی کرے۔ جو اس کی مدد کر اور جو اسے چھوڑ دے تو بھی اسے چھوڑ دے ۔

۳۔ خطیب بغدادی اپنی تاریخ میں ابو ہریرہ سے نقل کرتے ہیں وہ پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں :

واقعہ غدیر خم ، ولایت ِ علی (علیه السلام) کے عہد و پیمان اور عمر کے ”بخٍ بخٍ یا بن ابی طالب اصبحت مولای و مولا کل مسلم “ (۴)

کہنے کے بعد آیة اکملت لکم دینکم نازل ہوئی(۵)

کتاب نفیس الغدیر میں مذکورہ تین روایات کے علاوہ اس سلسلے میں مزید تیرہ روایات نقل کی گئی ہیں ۔

کتاب احقاق الحق میں تفسیر ابن کثیر جلد ۲ صفحہ ۱۴ اور مقتل خوارزمی صفحہ ۴۷ کے حوالے سے پیغمبر اکرم سے منقول ہے کہ یہ آیت واقعہ غدیر کے بارے میں نازل ہوئی ۔

تفسیر بُرہان اور تفسیر نور الثقلین میں بھی مختلف طرق سے اس سلسلے میں دس روایات نقل ہوئی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ آیت حضرت علی(علیه السلام) کے بارے میں یا غدیر خم کے دن کے بارے میں نازل ہوئی ۔

ان سب روایات کو نقل کرنے کے لیے ایک علیحدہ کتاب کی ضرورت ہے۔(۶)

علامہ سیّد شرف الدین مرحوم کتاب المراجعات میں لکھتے ہیں :

امام صادق(علیه السلام) اور امام باقر سے منقول صحیح روایات میں مذکور ہے کہ یہ آیت غدیر کے دن نازل ہوئی اہل سنت نے بھی رسول اللہ سے اس سلسلے میں مختلف اسناد سے چھ روایات نقل کی ہیں جو اس بات کی صراحت کرتی ہیں کہ یہ آیت اس واقعہ کے ضمن میں نازل ہوئی ۔(۷)

جو کچھ ہم نے مندرجہ بالاسطور میں کہاہے اس سے واضح ہوجاتاہے کہ زیر منظر آیت کے واقعہ غدیر کے سلسلے میں نازل ہونے کے بارے میں موجود روایات ایسی نہیں ہیں کہ انھیں خبر واحد کہاجاسکے اور ان کی بعض اسناد کو ضعیف قرار دے کر ان سے آنکھیں بند کرلی جائیں ۔ اگر یہ روایات متواتر نہ ہوں تو کم از کم مستفیض ہیں اور مشہور اسلامی منابع اور کتب میں منقول ہیں ۔ اگرچہ بعض متعصب سنی حضرات چونکہ ان روایات کو اپنے ذوق کے خلاف پاتے ہیں لہٰذا انھیں مجہول اور غلط قرار دیتے ہیں ۔ مثلاً آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں صرف ایک سند کو ضعیف قرار دے کر کوشش کی ہے کہ باقی روایات کو بھی نظر انداز کردے یا مثلاً تفسیر المنار کے مؤلف آیت کی ایک عام تفسیر کرکے آگے بڑھ گئے ہیں ۔ یہاں تک کہ انھوں نے ان روایات کی طرف ذراسا اشارہ بھی نہیں کیا ۔ شاید وہ اس مخمصے میں تھے کہ اگر روایات کا ذکر کرکے انھیں ضعیف قرار دیں تو خلاف انصاف ہوگا اور اگر قبول کرلیں تو خلافِ ذوق ہوگا ۔

ایک جالبِ نظر نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہیے یہ ہے کہ قرآن حکیم سُورةِ نور آیہ ۵۵ میں کہتاہے۔

( وَعَدَ اللَّهُ الَّذینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاٴَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَهُمْ دینَهُمُ الَّذِی ارْتَضی لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اٴَمْناً ) ۔

تم میں سے وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں اور انھوں نے اعمال صالح انجام دیئے ہیں خدانے ان سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں روئے زمین پر خلیفہ بنادے گا ۔ جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو اس نے خلیفہ بنایا ہے (نیز یہ وعدہ بھی کیاہے کہ) جس دین کو ان کے لیے پسند کیاہے اسے محکم و مستقر کریگااور خوف کے بعد انھیں امن دے گا ۔

اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ جو دین ان کے لیے ”پسندّ کیاہے اسے روئے زمین پر مستقر اور محکم کرے گا ۔ یہ بات پیش نظر رکھتے ہوئے کہ سُورہ نور، سورہ مائدہ سے پہلے نازل ہوئی ہے اور”رضیت“”لکم الاسلام دیناً “ کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جو زیر بحث آیت میں ولایتِ علی کے بارے میں نازل ہواہے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسلام اس صُورت میں روئے زمین پر مستحکم ہوسکتاہے جب”ولایت“ کے ساتھ منسلک اور توام ہو۔ کیونکہ یہ وہی اسلام ہے جسے خدا نے ”پسند “ کیا ہے اور اس کے استقرار و استحکام کا وعدہ کیاہے۔ واضح تر الفاظ میں اسلام اسی صورت میں عالمگیر ہوسکتا ہے جب وہ ولایت اہل بیت(علیه السلام) کے مسئلے سے جدا نہ ہو۔

سورہ نور کی مذکورہ آیت اور زیر بحث آیت کو منضم کرنے سے جو دوسرا مطلب سامنے آتاہے یہ ہے کہ سُورہ نور کی آیت میں با ایمان افراد سے تین وعدے کیے گئے ہیں ۔

پہلا ۔ روئے زمین پر خلافت

دوسرا ۔ عبادت پروردگار کے لیے امن و امان اور

تیسرا ۔ اس دین کا استحکام کہ جو خدا کا پسندیدہ ہے۔

یہ تین وعدے غدیر خم کے روز آیہ الیوم اکملت لکم دینکمکے نزول کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچے، کیونکہ ایمان و عمل صالح کا کامل نمونہ یعنی علی(علیه السلام)، رسول اللہ کی جانشینی کے لیے منصوب اور مقرّر ہوئے اور ”الیوم بئس الذین کفروا من دینکم “ کے ذریعہ مسلمانوں کو نسبتاً امن نصیب ہوا نیز ”و رضیت لکم الاسلام دیناً “ کے ذریعے پروردگار کا پسندیدہ دین مسلمانوں میں مستحکم ہوا ۔

البتہ یہ تفسیر ان روایات کے منافی نہیں جن میں کہا گیاہے کہ سُورہ نور کی یہ آیت حضرت مہدی کی شان میں نازل ہوئی ہے کیونکہ”امنوا منکم“ کا ایک وسیع مفہوم ہے جس کا ایک نمونہ غدیر خم کے دن انجام پایا اور پھر ایک وسیع تر سطح پر حضرت مہدی(علیه السلام) کے قیام کے وقت انجام پائے گا ۔ اس بناپر ”الارض“ آیت میں تمام کرّہ زمین کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا بھی ایک عمومی مفہوم ہے۔ یعنی تمام زمین کے لیے بھے ہوسکتاہے اور اس کے ایک حصِّے کے لیے بھی ، جیسا کہ قرآن میں مختلف مواقع پر اس لفظ کے استعمال سے معلوم ہوتاہے کہ بعض اوقات یہ زمین کے ایک حصِّے کے لیے ہے اور بعض اوقات پورے کرّہ ارض کے لیے (غور کیجیئے گا)

____________________

۱- تفسیر المنار ج۶ ص۱۵۵

۲۔ تفسیر فخر الدین رازی، تفسیر روح المعانی اور تفسیر المنار میں اس آیت کے ذیل میں منقول ہے، کہ اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر اکرم اکیاسی دن سے زیادہ زندہ نہیں رہے۔

۳- البتہ یہ اس صُورت میں ہے جب خود روز وفات پیغمبر اور روز غدیر کو شمار نہ کیاجائے۔ نیز تین مہینوں میں یکے بعد دیگری ہر مہینہ ۲۹ دن کا ہو اور ایسا ہونا بالکل ممکن ہے نیز اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ روز غدیر سے پہلے اور بعد تاریخ اسلام میں کوئی ایسا اہم واقعہ رونما نہیں ہوا جس پر مندرجہ بالا تاریخ منطبق ہوسکے۔ اس لیے حتماً غدیر کے علاوہ اس سے کوئی اور دن مراد نہیں ۔

۴- حضرت عمر کی اس بات کا مطلب ہے : کیا کہنے اے فرزند ابو طا؛لب ! آپ میرے اور ہر مسلماکے مولا ہوگئے۔

۵-ان تین روایات کو علامہ امینی مرحوم نے تمام خصوصیات کے ساتھ”الغدیر“کی جلد اول میں ص۲۴۰تا ۲۳۲میں نقل کیاہے اور کتاب الحق ج۶ص۳۵۳ میں اس آیت کا واقعہ غدیر میں نازل ہونا ابوھریرہ سے دو طرق کے ساتھ اور ابو سعید خدری سے کٹی طرق سے نقل کیاگیاہے۔

۶- تفسیر بُرہان جلد اوّل اور تفسیر نور الثقلین جلد اوّل میں زیر بحث آیت کے ذیل میں رجوع کریں ۔

۷- المراجعات جلد چہارم صفحہ ۳۰

ایک اہم سوال اور اس کا جواب

آیت کے سلسلے میں صرف ایک سوال اب باقی رہ جاتاہے اور وہ یہ ہے کہ اوّل تو مذکورہ بالا اسناد اور آیہ ”( یا ایها الرّسول بلغ ما انزل الیک ) “ کے ذیل میں پیش کی جانے والی اسناد کے مطابق دونوں آیات واقعہ غدیر سے مربوط ہیں تو پھر ان دونوں کے در میان فاصلہ کیوں رکھا گیاہے۔ ایک سُورہ مائدہ کی تیسری آیت ہے اور دوسری آیت کا نمبر ۶۷ ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آیت کا یہ حِصّہ جو واقعہ غدیر سے مربوط ہے، ایسے مطالب سے منسلک کیا گیا ہے جو حلال و حرام گوشت کے بارے میں ہیں اور ان دونوں کے در میان کوئی مناسبت نظر نہیں آتی ۔(۱)

اس کا جواب یہ ہے:

اوّلا ۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآنی آیتیں اور اسی طرح سورتیں تاریخِ نزول کے مطابق جمع نہیں کی گئیں بلکہ مدینہ میں نازل ہونے والی بہت سی سورتیں میں مکّی آیات ہیں اور اس کے برعکس مکّی سُورتیں میں مدنی آیتیں موجود ہیں ۔

اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان دو آیات کا ایک دوسرے سے الگ ہوجانا کوئی تعجّب کی بات نہیں ہے (البتہ ہر صُورت کی آیات کو فرمان پیغمبر کے تحت رکھا گیاہے) ہاں البتہ آیات اگر تاریخِ نزول کے مطابق جمع کی گئی ہوتیں پھر یہ فاصلہ ہوتا تو اعتراض کیا جاسکتا تھا ۔

ثانیا ۔ ممکن ہے کہ غدیر سے مربوط آیت کو حلال و حرام غذاؤں سے متعلق آیت میں تحریف ، حذف اور تغیّر سے محفوظ رکھنے کے لیے ہو اکثر ایسا ہوتاہے کہ ایک نفیس چیز کو محفوظ رکھنے کیلیے عام سی چیزوں میں ملا دیا جاتاہے تا کہ اس کی طرف کم توجہ ہو (منور کیجیے گا) ۔

وہ حوادث جو رسول اللہ کی زندگی کے آخری لمحات میں رونما ہوئے اور بعض افراد نے آپ کی طرف سے وصیّت نامہ لکھے جانے کی صریح مخالفت کی ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ (نعوذ باللہ) حتّٰی کہ رسولِ خداکے بارے میں کہا گیا کہ انھیں ہذیان ہوگیاہے۔اور وہ یہ سب باتیں ہماری کے عالم میں کررہے ہیں ۔ رسول اللہ کو ایسی ایسی ناموزوں تہمتیں لگائی گئیں ۔ اس واقعے کی تفصیل اسلامی دنیا کی مشہور کتب میں موجود ہے اور سنی شیعہ دونوں کی اہم کتب میں یہ واقعہ مذکور۲ ہے۔

اسی طرح یہ روایات کتاب صحیح مسلم جز ۲ میں آخری وصیّوں کے زیر عنوان صفحہ ۱۴ پر موجود ہے۔

علاوہ ازیں دیگر کتب میں بھی یہ روایات موجود ہے۔ سیّد شرف الدین مرحوم نے المراجعات میں ”رزیہ یوم الخمیس“ کے زیر عنوان یہ روایات نقل کی ہیں ۔

یہ واقعہ اس سلسلے میں شاہد ناطق ہے کہ بعض لوگ مسئلہ خلافت اور رسول اللہ جانشینی کے معاملے میں بہت حسّاس تھے اور وہ اس کے انکار کے لیے ہر انتہائی قدم اٹھانے کو تیّار تھے۔

تو کیا ایسے حالات میں ضروری نہیں تھا کہ خلافت سے مربوط اسناد کی حفاظت کی جاتی اور انھیں آنے والے لوگوں تک بحفاظت پہنچانے کا احترام کیا جاتا اور اسے عام مطالب کے ساتھ ملاکر بیان کیا جاتا تا کہ زیادہ سخت مخالفین کی ان پر کم توجہ ہو۔

علاوہ ازیں جیسا کہ ہم جان چکے ہیں کہ اس بات سے متعلق کہ ”الیوم اکملت لکم دینکم“ کے غدیر اور پیغمبر اکرم کی جانشینی کے متعلق نزول سے مربُوط اسناد صرف شیعہ کتب میں موجود نہیں ہیں کہ ان پر کوئی اعتراض ہو بلکہ اہل سنّت کی بہت سی کتب میں بھی یہ روایات موجود ہیں ۔ ان میں یہ حدیث مختلف طرق سے تین مشہور صحابہ سے بھی منقول ہے۔

اضطراری کیفیّت میں حرام گوشت کا حُکم

آیت کے آخر میں پھر حرام گوشت سے مربوط مسائل کا ذکر ہے یہاں اضطراری صُورت کے لیے حکم بیان کیا گیا ہے: اور جو لوگ بھوک کی حالت میں حرام گوشت کھانے پر مجبور ہوجائیں جبکہ وہ گناہ کی طرف رغبت نہ رکھتے ہوں تو پھر یہ ان کے لیے حلال ہے کیونکہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے اور ضرورت کے وقت وہ اپنے بندوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا اور نہ انھیں اس پر سزا دیتاہے( فمن اضطر فی مخمصة غیر متجائف فان الله غفور رحیم ) ۔

”مخمصة“ کا مادہ ”خمص“ (بر وزن ”لمس“)ہے جس کا معنی ہے دھنں جانا ۔ یہ لفظ سخت بھوک کیلیے بھی استعمال ہوتاہے۔ جبکہ بھوک شکم کے دھنں جانے کا باعث ہوچاہے قحط کے زمانے میں ہویا کوئی انفرادی طور پر اس مشکل صورتِ حال سے دوچار ہوجائے۔

”غیر متجائف لا ثم“کا معنی ہے” گناہ کی طرف میلان یا رغبت نہ رکھتا ہو“ یہ اضطرار کے مفہوم کی تاکید کے طور پر آیاہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ ضرورت کے وقت حرام گوشت کھانے میں تیزی نہ دکھائے اور اسے حلال نہ سمجھنے لگے یا یہ کہ اضطرار کی بنیاد اس نے خود فراہم نہ کی ہو اور یا یہ کہ کسی ایسے سفر میں اس مشکل سے دوچار نہ ہوا ہو، جو اس نے فعل حرام انجام دینے کے لیے اختیار کیا ہو یہ بھی ممکن ہے کہ اس عبادت سے یہ تمام معانی مراد ہوں ۔

اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لیے تفسیر نمونہ جلد اول صفحہ ۴۱۳ و صفحہ ۴۱۴ ( اردو ترجمہ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔

____________________

۱ - یہ رسول تفسیر المنار میں اس آیت سے مربوط مباحث میں اشارتاً مذکور ہے (جلد ۶ ص۴۶۶)

۲ - یہ حدیث اہل سنت کی مشہور ترین کتاب صحیح بخاری میں کئی مقامات پر نازل ہوئی ہے ان میں سے کتاب المرضی جزء ۴ میں ، کتاب العلم جزء اول صفحہ ۲۲ پر۔ کتاب الجہاد، باب جوائز و قدس صفحہ ۱۱۸ جز ۲ میں بہی موجود ہے۔

آیت ۴

( یَسْئَلُونَکَ ما ذا اٴُحِلَّ لَهُمْ قُلْ اٴُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّباتُ وَ ما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُکَلِّبینَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللَّهُ فَکُلُوا مِمَّا اٴَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَ اذْکُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَیْهِ وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَریعُ الْحِسابِ ) (۴)

ترجمہ

۴۔ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال کی گئی ہیں ، کہہ دو کہ پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں ، نیز ان شکاری جانوروں کا شکار (بھی تمھارے لیے حلال ہے) جنھیں تم نے وہ کچھ سکھا یا جس کی خدا نے تھیں تعلیم دی تھی ۔ بس جو کچھ یہ جانور تمھارے لیے(شکار کرتے ہیں اور) روک رکھتے ہیں وہ کھا لو اور (جب جانور کو شکار کے لیے چھوڑو (تو) اس پر خدا کا نام لیا کرو اور خدا سے ڈرو کیونکہ خدا جلد حساب لینے والاہے۔

شان نزول

اس آیت کے بارے میں کئی ایک شانِ نزول ذکر کی گئی ہیں ان میں سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ زید الخیر اور عدی بن حاتم جو صحابی رسول تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہم کچھ لوگ ہیں جو شکاری کُتّوں اور بازوں کی مدد سے شکار کرتے ہیں ، اور ہمارے شکاری کُتے حلال جنگلی جانوروں کو پکڑ لیتے ہیں ان میں سے بعض تو زندہ ہمارے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور ہم انھیں ذبح کر لیتے ہیں لیکن ان میں سے بعض کُتّوں کی وجہ سے مارے جاتے ہیں اور ہمیں انھیں ذبح کرنے کا موقع نہیں ملتاہم جانتے ہیں کہ خدا نے مردار کا گوشت حرام قرار دیا ہے اب ہماری کیا ذمہ داری ہے؟

اسی سلسلے میں زیر نظر آیت نازل ہوئی اور انھیں جواب دیا گیا ۔(۱)

حلال شکار

گذشتہ دو آیات میں حرام و حلال گوشت کے بارے میں احکام بیان ہوچکے ہیں یہاں ان میں سے کچھ مزید احکام تذکرہ ہے اس سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا گیا ہے: تم سے کھانے والی چیزوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں( بسئلوئک ماذا احل لهم ) پھر پیغمبر اکرم سے فرمایا گیاہے: پہلے تو ان سے کہو کہ ہر پاکیزہ چیز تمھارے لیے حلال ہے( قُلْ اٴُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبات ) یعنی اسلام نے جو کچھ حرام قرار دیا ہے وہ ناپاک ہے اور جنائث کے زمرے میں آتاہے اور قوانین الٰہی کسی ایسی چیز کو کبھی حرام قرار نہیں دیتے جو پاکیزہ ہو اور فطری طور پر نوع بشر کے فائدے اور نفع کے لیے پیدا کی گئی ہو لہٰذا حقیقی شریعت قوانین تکوین سے ہمیشہ ہم آہنگ ہوتی ہے۔

پھر شکار کے بارے میں فرمایا گیاہے : تمہارے سدھا ئے ہوئے یعنی جنھیں تم نے وہ کچھ سکھا یا ہے جس کی خدا نے تعلیم دی ہے ان شکاری جانوروں کا شکار تمھارے لیے حلال ہے( وَ ما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُکَلِّبینَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللَّهُ ) ۔(۲)

”جوارح“ اصل میں ”جرح“ سے لیا گیا ہے جو کبھی ”کسب“ اور ”کام“ کے معنی میں آتاہے اور کبھی ”زخم“ کے معنی میں ۔ اسی لیے شکاری جانوروں کو چاہے وہ پرندے ہوں یا کوئی اور جانور”جارحہ“ کہتے ہیں ”جارحہ“ کی جمع”جوارح“ ہے۔ یعنی وہ جانور جو اپنے شکار کو زخم لگاتے ہیں یا وہ جانور جو اپنے مالک کے لیے کسب کرتے ہیں ۔

بدن کے اعضا کو بھی جوارح اسی لیے کہاجاتاہے کہ انسان ان کے ذریعے کسی کام کو انجام دیتاہے اور اکتساب کرتاہے۔

اس لیے”( وَ ما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِح ) “ ان تمام جانوروں کے لیے ہے جنھیں شکار کرنے کی تربیّت دی جاتی ہے۔لیکن ساتھ ”مکلبین“ بھے ہے جو ”کلب“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے”کتّا“۔ ”مکلبین“ شکاری کتوں کی تربیّت کرنے والوں کو کہتے ہےں ۔ اس طرح یہ تعبیر جملے کو شکاری کتّوں سے مخصوص کردیتی ہے۔ اس لیے یہ آیت شکاری کُتّوں کے علاوہ باز و غیرہ سے کیے گئے شکار کے بارے میں نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ شیعہ فقہ میں صرف شکاری کتوں کے علاوہ باز وغیرہ سے کئے گئے شکار کے بارے میں نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ فقہ میں صرف شکاری کتوں سے کیا جانیوالا شکار جائز ہے، اگر اہل سنت کے بعض مفسرین سب کو جائز سمجھتے ہیں اور ” مکلبین “ کا مفہوم وسیع قرار دیتے ہیں کہ جو کتوں سے شکار کرنے والوں کے لئے مخصوص نہیں ۔ لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ، اس لفظ کا اصلی مادہ اسے شکاری کتوں کی تر بیت سے مخصوص کردیتا ہے ۔ البتہ اگر دوسرے شکاری جانور کو بے بس کردیں لیکن اسے مرنے سے پہلے آدابِ شرعی کے مطابق ذبح کرلیا جائے تو وہ حلال ہے ۔

( تعلّمونهن مما علّمکم الله ) ۔ میں چند نکات

۱۔ ایسے جانوروں کی تعلیم و تربیّت اور مسلسل ہو، اگر وہ اپنی تعلیم بُھول جائیں اور آوارہ کتوں کی طرح کسی جانور کو چیر پھاڑ دیں تو اس شکار کا گوشت حلال نہیں ہوگا کیونکہ”( تعلمونهن ) “ فعل مضارع ہے اور مضارع استمرار پر دلالت کرتاہے۔

۲۔ کتے کی تعلیم و تربیت صحیح اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے یہ بات ”( مما علمکم الله ) “ کے مفہوم ہے مطابقت رکھتی ہے۔

۳۔ تمام علوم کا سرچشمہ خدا ہے چاہے وہ عالم اور چھوٹے چھوٹے امور کا علم ہو یا اہم ایسکی تعلیم کے بغیر ہم کوئی علم نہیں رکھتے۔

ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شکاری کتوں کی تعلیم سے مراد یہ ہے کہ ان کی تربیّت اس طرح سے ہونی چاہیے کہ وہ مالکوں کے حکم سے چل پُریں اور ان کے روکنے سے رُک جائیں ۔

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس جانور کو کُتے شکار کرتے ہیں اگر وہ زندہ ہاتھ آجائے تو اسے آداب اسلامی کے مطابق ذبح کیا جانا چاہیے، لیکن شکاری کے پہنچنے سے پہلے اس کی جان نکل جائے تو وہ حلال ہے اگرچہ اسے ذبح نہیں بھی کیا گیا ۔

اس کے بعد ایسے شکار کی حیلت کی شرائط میں سے دو کا ذکر کیا گیاہے: اس شکار کو جسے شکاری کُتے تمھارے لیے روکے رکھیں ، کھالو( فَکُلُوا مِمَّا اٴَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ ) اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اگر شکاری کُتے اس بات کے عادی ہوں کہ اپنے شکار کا کچھ حصّہ کھا لیتے ہیں اور کچھ چھوڑ دیتے ہوں تو ایسا شکار حلال نہیں ہے اور وہ ”و ما اکل السبع“ کے زُمرے میں داخل ہوجاتاہے جس کا گذشتہ آیت میں ذکر ہے۔ حقیقت میں ایسا کُتا نہ تو تعلیم یافتہ ہے اور نہ اس سے جو کچھ بچا رکھا ہے وہ ”علیکم“ (تمہارے لیے) کا مصداق ہے۔

بعض فقہا اس شرط کے قائل نہیں ہیں وہ اس سلسلے میں چند روایات سے استناد کرتے ہیں جو کُتب احادیث میں موجود ہیں بہر حال اس پر تفصیلی بحث فقہی کُتب میں موجود ہے۔

خلاصہ یہ کہ ان کی ایسے تربیّت ہونا چاہیے کہ وہ اپنا شکار کھائیں نہیں ۔

دوسری شرط یہ ہے کہ جب شکاری کُتے کو چھوڑا جائے تو خدا کا نام لیا جائے( وَ اذْکُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَیْهِ )

آخر میں ان تمام احکام کا احترام کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے: خدا سے ڈرو کیونکہ وہ سریع الحساب ہے( وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَریعُ الْحِساب ) ۔(۳)

____________________

۱- تفسیر قرطبی ج۳، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔۲- اس جملے کے ابتدائ میں حذف و تقدیر موجود ہے”فکلوا مما مسکن علیکم“ سے معلوم ہوتاہے کہ اصل میں ”وصید ما علمتم“ہے (غور کیجیئے گا) ۔۳ -سریع الحساب (جلدی حساب لینے والا) کی تشریح تفسیر نمونہ جلد دوم صفحہ ۴۵ (اُردو ترجمہ) پر گذر چکی ہے۔