تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26098
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26098 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۵

( الْیَوْمَ اٴُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّباتُ وَ طَعامُ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ حِلٌّ لَکُمْ وَ طَعامُکُمْ حِلٌّ لَهُمْ وَ الْمُحْصَناتُ مِنَ الْمُؤْمِناتِ وَ الْمُحْصَناتُ مِنَ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلِکُمْ إِذا آتَیْتُمُوهُنَّ اٴُجُورَهُنَّ مُحْصِنینَ غَیْرَ مُسافِحینَ وَ لا مُتَّخِذی اٴَخْدانٍ وَ مَنْ یَکْفُرْ بِالْإیمانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَ هُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینَ ) (۵)

ترجمہ

۵۔ آج کے دن پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال ہوگئی ہیں اور (اسی طرح) اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے ہیں جبکہ ان کا حق مہر ادا کر دو اور پاک دامن رہو نیز پوشیدہ طور پر اور غیر شرعی طریقے سے یاری نہ لگاؤ ، اور جو شخص اس چیز سے کفر اختیار کرے کہ جس پر ایمان لانا چاہیے، اس کے اعمال باطل اور بے اثر ہوجاتے ہی اور آخرت میں وہ زیان کاروں میں سے ہوگا ۔

اہل کتاب کا کھانا کھانا اور ان میں شادی بیاہ کرنا

یہ آیت گذشتہ آیات کے مباحث کی تکمیل کرتی ہے، پہلے فرمایا: آج کے دن سے پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال ہوگئی ہیں اور اہل کتاب کے کھانے تمھارے لیے اور تمھارے کھانے ان کے لیے حلال ہیں( الْیَوْمَ اٴُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّباتُ وَ طَعامُ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ حِلٌّ لَکُمْ وَ طَعامُکُمْ حِلٌّ لَهُمْ ) ۔

یہاں چند مطالب توجّہ طلب ہیں ۔

۱۔ ”( الْیَوْمَ ) “ (آج کا دن) سے مراد بعض مفسّرین کے مطابق عرفہ کا دن ہے اور بعض اسے فتح خیبر کا دن کہتے ہیں لیکن بعید نہیں کہ یہ یوم غدیر ہو کہ جب اسلام کو کفار پر مکمل کامیابی حاصل ہوئی تھی( اس بات کی وضاحت ہم عنقریب کریں گے) ۔

۲۔ طیبات تو اس دن سے پہلے بھی حلال تھے یہاں ان کی حلّت کا ذکر اہلِ کتاب کے کھانے کے بارے میں آنیوالے حکم کی تمہید کے طور پر ہے۔

۳۔ اہل ِ کتاب کا طعام جسے آیت میں حلال قرار دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں زیادہ تر مفسرین اور علماءِ اہلِ سنت کا نظریہ یہ ہے کہ اس میں ہر طرح کا کھانا شامل ہے، چاہے ان جانوروں کا گوشت ہو جو ان کے ہاتھ سے ذبح ہوئے ہوں ۔

یا اس کے علاوہ کچھ ہو۔ لیکن شیعہ فقہاء اور مفسرین کی قطعی اکثریت کا یہ نظریہ ہے کہ اس سے مراد ان کے ہاتھوں ذبح شدہ جانوروں کے گوشت کے علاوہ ہے۔ چند شیعہ علماء پہلے نظریہ کے پیرو ہیں ۔

ائمہ اہل بیت(علیه السلام) سے منقول متعدد روایات بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہیں کہ آیت میں طعام سے مراد اہلِ کتاب کے ذبیحہ کے علاوہ ہے۔

تفسیر علی بن ابراہیم میں امام صادق علیہ السلام سے زیر نظر آیت کے بارے میں منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:”عنی بطعامهم هٰهنا الحبوب و الفاکهة غیر الذبائح التی یذبحون فانهم لا یذکرون اسم الله علیها

اہل کتاب کے طعام سے مراد دانے اور میوے ہیں نہ کہ ان کے ذبح کیے ہوئے جانور، کیونکہ وہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتے۔(۱)

دوسری متعدد روایات جو وسائل الشیعہ جلد ۱۶ ابواب اطعمہ و اشربہ کے باب ۵۱ صفحہ ۱،۲ پر مذکور ہیں نیز گذشتہ آیات میں وقت نظر سے معلوم ہوتاہے کہ اہلِ کتاب کے ذبح شدہ جانوروں کے علاوہ ان سے کھانا پینا حقیقت کے زیادہ نزدیک ہے، کیونکہ جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے مذکورہ روایت میں نشاندہی فرمائی ہے کہ اہل کتاب ذبح کرنے میں زیادہ تر اسلامی شرائط کو ملحوظ نہیں رکھتے نہ وہ خدا کا نام لیتے ہیں اور نہ جانور کو رو بقبلہ ذبح کرتے ہیں ، اسی لیے باقی شرائط بھی پوری نہیں کرتے تو کیسے ممکن ہے کہ گذشتہ آیات میں تو ایسا جانور صریحاً حرام قرار دیا گیا ہو اور اس آیت میں اسے حلال شمار کرلیاگیاہو۔

یہاں چند سوالات سامنے آتے ہیں :

پہلا سوال: اگر طعام سے مراد گوشت کے علاوہ دوسرے کھانے ہیں تو وہ تو پہلے بھی حلال تھے کیا اس آیت کے نزول سے قبل گندم اور ایسی دیگر اجناس اہلِ کتاب سے خرید نا ممنوع تھا، حالانکہ مسلمانوں اور ان کے در میان ہمیشہ کار و بار رہتا تھا ۔

آیت کی تفسیر میں ایک بنیادی نقطے کی طرف توجّہ کرنے سے اس سوال کا جواب مل جاتاہے اور وہ یہ کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب اسلام پورے جزیرہ عرب پر غالب آچکاتھا ۔ اور پورے جزیرةِ عرب میں اس کا وجود مسلّم ہوچکا تھا اب دشمنان اسلام مسلمانوں کو شکست دینے سے مایوس ہوچکے تھے اس موقع پر ان حد بندیوں کو برطرف کیا جانا چاہیے تھا جو پہلے کفار سے مسلمانوں کی معاشرت کے بارے میں تھیں ، پہلے ان کے ہاں آنا جانا، انھیں مہمان بلانا، ان کے ہاں بطور مہمان جانا ممنوع تھا ۔ لہٰذا اس آیت نے بتایا کہ اب کے بعد جبکہ تم اپنی حیثیت اور مقام منوا چکے ہو اور ان سے تمھیں کوئی خطرہ نہیں رہا ان سے معاشرتی حد بندیوں میں کمی کر دی گئی ہے لہٰذا اب تم ان کے مہمان بن سکتے ہو اور انھیں بھے اپنے ہاں دعوت دے سکتے ہو اسی طرح ان میں شادی بھی کرسکتے ہو (لیکن ان سب امور کی اپنی اپنی شرائط ہیں جن کی طرف اشارہ کیا جائے گا) ۔

یہ بات بغیر کہے نہ رہ جائے کہ جو لوگ اہل کتاب کو پاک نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کھانا اس صورت میں کھایا جا سکتاہے جب غذا و غیرہ مرطوب نہ ہو یا مرطوب ہو تو ان کا ہاتھ اسے نہ لگاہو، لیکن ایسے محققین جو اہلِ کتاب کی طہارت کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ اگر ان کا کھانا ان کے ذبیحہ سے تیار نہ کیا گیا ہو اور نجاست عرضی کا یقین بھی نہ ہو ( مثلاً شراب یا آب جو و غیرہ سے نجس نہ ہوا ہو) تو پھر ان کے ساتھ کھانا کھایا جاسکتاہے۔

خلاصہ یہ کہ زیر بحث آیت کا مقصد در اصل اہلِ کتاب سے معاشرت کے سلسلے میں گذشتہ حد بندیوں کو برطرف کرناہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ فرمایا گیا ہے کہ تمھارا کھانا بھی ان کے لیے حلال ہے یعنی انھیں اپنے ہاں مہمان بلانے میں بھی کوئی حرج نہیں نیز اس کے فوراً بعد اہل کتاب کی عورتوں سی شادی کرنے کے بارے میں بھی حکم بیان کیا گیاہے۔

یہ امر واضح ہے کہ ایک حکومت اپنے پیروکاروں کو ایسا حکم دے سکتی ہے جب وہ اپنے ماحول پر پوری طرح سے کنٹرول حاصل کرلے اور اسے دشمن کا کوئی خوف نہ رہے ایسی صُورتِ حال در اصل یوم غدیر پر پیدا ہوچکی تھی ۔ بعض کے نزدیک یہ حجة الوداع کا روزِ عرفہ تھا یا فتح خیبر کے بعد کا موقع تھا اگرچہ غدیر خم کا دن اس بات کیلیے ہر لحاظ سے زیادہ سازگار معلوم ہوتاہے۔

دوسرا سوال: جو تفسیر المنار میں زیر بحث آیت کی تفسیر کے ضمن میں آیاہے یہ ہے کہ صاحب تفسیر کے مطابق لفظ”طعام“ بہت سی قرآنی آیات میں ہر قسم کی غذا کے لیے آیاہے یہاں تک کہ گوشت بھی اس میں شامل ہے اب کیسے ممکن ہے کہ زیر بحث آیت میں اسے غلّات اور میوہ جات و غیرہ میں محدود کردیاجائے۔ موصوف اس کے بعد لکھتے ہیں کہ میں نے یہ اعتراض ایک ایسی مجلس میں پیش کیا جس میں کچھ شیعہ علماء بھی موجود تھے( اور کسی کے پاس اس کا جواب نہیں تھا) ۔

ہمارے نقطہ نظر کے مطابق اس اعتراض کا جواب بھی واضح ہے ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ لفظ”طعام“ کا ایک وسیع مفہوم ہے لیکن گذشتہ آیات جن میں مخلف طرح کے گوشت کے بارے میں بحث ہے اور خصوصاً ان جانوروں کو حرام قراردیا گیا ہے جنھیں ذبح کرتے وقت خدا کا نام نہیں لیا گیا، وہ اسم وسیع مفہوم کی تخصیص کرتی ہیں اور اسے ایسے گوشت کے علاوہ میں محدود کردیتی ہیں ۔

ہم جانتے ہیں کہ ہر عام اور مطلق قابِل تخصیص ہے اور اسے بعض شرائط کا پابند کیا جاسکتاہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اہل کتاب ذبیچہ پر نامِ خدا لینے کے پابند نہیں ہیں اور اس کے علاوہ وہ دیگر شرائط کا بھی لحاظ نہیں رکھتے جو سنت سے ثابت ہیں ۔

تیسرا سوال: کتاب کنز العرفان میں اس آیت کی تفسیر میں ایک اور اشکال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ”طیبات“ کا ایک وسیع مفہوم ہے اور اصطلاح کے مطابق عام ہے لیکن ”( طَعامُ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ ) “ خاص ہے اور عموماً عام کے بعد خاص کے ذکر میں کوئی نکتہ ہونا چاہیے مگر یہاں کوئی واضح نکتہ نہیں ہے اسکے بعد مصنّف اس اُمیّد کا اظہار کرتا ہے کہ خدا اس کی اس علمی مشکل کو حل کردے۔(۲)

مندرجہ بالاسطور میں اس سلسلے میں جو کچھ بیان کیا جاچکاہے اسے پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب بھی معلوم ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ طیّبات کے حلال ہونے کا ذکر اہلِ کتاب سے میل جوں پر عائد پابندی ختم کرنے کے لیے مقدمہ و تمہید کے طور پر آیا ہے حقیقت میں آیت کہتی ہے کہ ہر پاکیزہ چیز تمھارے لیے حلال ہے اسی وجہ سے اہلِ کتاب کا (پاکیزہ) کھانا بھی تمھارے لیے حلال ہے اور ان سے معاشرت کے بارے میں جو پابندیاں پہلے عائد تھیں آج تمہیں میسر کا میابیوں کے باعث کم کردی گئی ہیں (غور کیجیے گا) ۔

غیر مُسلم عورتوں سے شادی

اہل کتاب کے کھانے کی حلیت کا حکم دینے کے بعد آیت میں پاکدامن مسلمان اور پاکدامن اہلِ کتاب عورتوں سے شادی بیاہ کے بارے میں فرمایا گیاہے: تمھارے لیے مسلمان اور اہلِ کتاب پاکدامن عورتیں حلال ہیں اور تم ان سے شادی کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کا حق مہر انھیں ادا کردو( وَ الْمُحْصَناتُ مِنَ الْمُؤْمِناتِ وَ الْمُحْصَناتُ مِنَ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلِکُمْ إِذا آتَیْتُمُوهُنَّ اٴُجُورَهُنَّ ) اور یہ بھی شرط ہے کہ شادی مشروع اور جائز طریقے سے ہونہ کہ کُھلے بندوں زنا ہو یا مخفی طور پر یاری لگاتے پھرو( مُحْصِنینَ غَیْرَ مُسافِحینَ وَ لا مُتَّخِذی اٴَخْدانٍ ) ۔(۳)

در حقیقت آیت کا یہ حصّہ بھی غیر مسلم عورتوں سے مسلمانوں کی شادی بیاہ کے سلسلے میں پابندیوں میں کمی کے لیے ہے۔ اس میں اہلِ کتاب عورتوں سے مسلمان مردوں کی شادی کو مشروط طور پر جائز قرار دیا گیاہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا اہلِ کتاب عورتوں سے ہر طرح کی دائمی و موقت شادی جائز ہے یا صرف ازدواج موقت یعنی متعہ جائز ہے فقہائے اسلام میں اس سلسلے میں اختلاف ہے علمائے اہل سنت ان دو طرح کی تزویج میں فرق کی قائل نہیں ان کا نظریہ ہے کہ مندرجہ بالا آتی عمومیّت کی حامل ہے لیکن بعض شیعہ فقہاء کے نزدیک یہ آیت صرف موقت ازدواج کی اجازت دیتی ہے۔ آئمہ اہلِ بیت علیہم السلام سے منقول بعض روایات بھے اس نظرئیے کی تائید کرتی ہیں اور آیت میں بھی بعض ایسے قرائن موجود ہیں جنھیں اس نظریئے پر شاد ہد قرار دیا جاسکتاہے۔

پہلا قرینہ یہ ہے کہ فرمایا گیاہے: ا( ِٕذا آتَیْتُمُوهُنَّ اٴُجُورَهُنّ ) بشرطیکہ ان کی اُجرت انھیں ادا کرو یہ درست ہے کہ ”اجر“ عقد دائمی اور عقد موقت دونوں کے حق مِہر کے لیے استعمال ہوتاہے لیکن زیادہ تر ازدواج موقت کیلیے استعمال ہوتاہے یعنی زیادہ تر اسی سے مناسبت رکھتاہے۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ فرمایا گیاہے :( غَیْرَ مُسافِحینَ وَ لا مُتَّخِذی اٴَخْدان ) ۔زنا اور پوشیدہ طور پر غیر شرعی یاری دوستی کے طور پر نہ ہو-یہ تعبیر بھے موقت ازدواج سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے کیونکہ دائمی شادی زنا اور پوشیدہ دوستی سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی کہ اس سے منع کیا جاتا لیکن بعض اوقات نادان اور بے خبر لوگ ازدواجِ موقت کو زنا یا پوشیدہ دوستی سے تشبیہ دیتے ہیں ۔اس سب باتوں سے قطع نظریہ تعبیرات سورةِ نساء کی آیت ۲۵ میں دکھائی دیتی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ آیت ازدواجِ موقت کے بارے میں ہے۔ان تمام امور کے با وجود بعض فقہا اہلِ کتب سے مطلق ازدواج کو جائز سمجھتے ہیں اور مذکورہ قرآئن کو آیت کی تخصیص کے لیے کافی نہیں سمجھتے اور اس سلسلے میں بعض روایات سے بھی استدلال کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں زیادہ تفصیل فقہی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔یہ بات بنا کہے نہ رہ جائے کہ آج جبکہ زمانہ جاہلیّت کی بہت سی رسمیں زندہ ہوچکی ہیں یہ نظریہ بھی وجود میں آچکاہے کہ غیر شادی شدہ افراد کیلیے عورت یا مرد سے دوستانہ تعلّقات میں نہ صرف مخفی صورت میں بلکہ کُھلے بندوں بھی کوئی حرج نہیں ۔در حقیقت آج کی دنیا نے گناہ اور جنسی بے راہ روی میں زمانہ جاہلیّت سے بھی قدم آگے بڑھالیا ہے کیونکہ اس دور میں تو مخفی تعلقات کو جائز سمجھا جاتا تھا لیکن آج علی الاعلان ایسی دوستی کو جائز قرار دیا جاتاہے یہاں تک کہ انتہائی بے شرمی سے اس پر فخر بھی کیاجاتاہے یہ رسوا کن رسم جو واضح اور شرمناک بدکاری ہے مغرب کی طرف سے مشرق کے لینے منحوس سوغات ہے ہی بہت سی بدبختیوں اور جرائم کا سرچشمہ ہے۔

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اہل کتاب کے طعام کے بارے میں (مذکورہ شرائط کے ساتھ) اجازت دی گئی ہے کہ ان سے کھانا کھایا بھی جاسکتاہےاور انھیں کھلایا بھی جاسکتاہے، لیکن شادی بیاہ کے سلسلے میں صرف ان سے رشتہ لینا جائز ہے، مسلمان عورتوں کے لیے کسی طرح کوئی اجازت نہیں کہ وہ اہلِ کتاب کے مردوں سے شادی کریں ۔ اس کا فلسفہ کہے بغیر واضح ہے کہ عورتیں نسبتاً نرم دل ہوتی ہیں اور ممکن ہے کہ برخلاف مرد کے عورت بہت جلد اپنے شوہر کا عقیدہ قبول کرلے۔

مندرجہ بالا سہولتیں جو کہ اہلِ کتاب سے معاشرت اور ان کی عورتوں سے ازدواج کرنے۔ کے بارے میں ہیں جن سے ممکن ہے کہ بعض لوگ غلط فائدہ اٹھائیں اور شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کی طرف کھنچے چلے جائیں ، لہٰذا آیت کے آخر میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جو شخص ان چیزوں سے کفر اختیار کرے کہ جن پر ایمان لانا چاہیے اور مؤمنین کا راستہ چھوڑ کر کفّار کی راہ اختیار کرلے اس کے اعمال برباد ہوجائیں گے اور آخرت میں وہ زیاں کاروں میں سے ہوگا( وَ مَنْ یَکْفُرْ بِالْإیمانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَ هُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرین ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مذکورہ سہولتیں تمام تمھارے زندگی کی کشائش و آرام کے علاوہ اس چیز کا باعث بننا چاہیں کہ تم ان بے گانوں میں اثر و نفوذ پیدا کر و نہ یہ کہ تم ان کے زیر اثر ہوجاؤ اور اپنے دین سے دستبردار ہوجاؤ، کیونکہ اس صُورت میں تمھارے سزا بہت سخت ہوگی ۔(۴) آیت کے اس حِصّے کی تفسیر کے سلسلے میں چند روایات اور مذکورہ شانِ نزول کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ احتمال بھی ہے کہ اس آیت کے نزول اور اہلِ کتاب کے ساتھ کھانے اور ان کی عورتوں کی حلیّت کے بعد بھی بعض مسلمان اسے ناپسند کرتے تھے لہٰذا قرآن نے انھیں تنبیہ کی کہ اگر انھیں خدا کے نازل کردہ احکام پر اعتراض ہے اور وہ اس کا انکار کرتے ہیں تو ان کے اعمال برباد ہوجائیں گے اور وہ خسارے میں رہیں گے۔

____________________

۱- وسائل الشیعہ ، جلد ۱۶ صفحہ ۲۹۱ ۲ - کنز العرفان، جلد۲ صفحہ ۳۱۲

۳ - جیسا کہ اس تفسیر کی جلد ۳ میں سورہ نساء کی آیت ۲۵ کے ذیل میں وضاحت کی جاچکی ہے کہ ”اخذان“، ”الخذن“ (بر وزن ”اذن“) سے دوست اور رفیق کے معنی میں ہے لیکن عام طور پر جنس مخالف سے غیر شرعی طور پر پوشیدہ دوستی کے لیے استعمال ہوتاہے۔

۴ - حبط اور احباط کے لیے تفسیر نمونہ جلد دوم سورہ قرہ آیة ۲۱۷ کے ذیل میں ص۶۶(اردو ترجمہ) کی طرف رجوع کریں ) ۔

آیت ۶

( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَ اٴَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ اٴَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ وَ إِنْ کُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا وَ إِنْ کُنْتُمْ مَرْضی اٴَوْ عَلی سَفَرٍ اٴَوْ جاء َ اٴَحَدٌ مِنْکُمْ مِنَ الْغائِطِ اٴَوْ لامَسْتُمُ النِّساء َ فَلَمْ تَجِدُوا ماء ً فَتَیَمَّمُوا صَعیداً طَیِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِکُمْ وَ اٴَیْدیکُمْ مِنْهُ ما یُریدُ اللَّهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَ لکِنْ یُریدُ لِیُطَهِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ) (۶)

ترجمہ

۶۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو تو اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو اور سراور پاؤں کا مفصّل (یا ابھری ہوئی جگہ تک) مسح کرو اور اگر حالتِ جنب میں ہو تو غسل کرو اور اگر بیمار ہو یا مسافر ہو یا تم میں سے کوئی (قضائے حاجت کی) پست جگہ سے آیاہے یا عورتوں سے (مباشرت کیلیے)لمس کیا ہو اور (غسل یا وضو کیلیے) پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو اور اس (مٹی) سے چہرے کے اوپر (پیشانی بہ) اور ہاتھوں پر مسح کرو۔ خدا نہیں چاہتا کہ تمھارے لیے مشکل پیدا کرے بلکہ وہ چاہتاہے کہ تمھیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کرے شاید تم اس کا شکر ادا کرو۔

جسم اور رُوح کی پاکیزگی

گذشتہ آیات میں جسمانی پاکیزگی اور مادی نعمات کے بارے میں بحثیں تھیں ۔ زیر نظر آیت میں روحانی پاکیزگی سے متعلق گفتگو ہے اس میں ان امور کا تذکرہ ہے جو روحانی طہارت کا باعث ہیں ۔ اس میں وضو، غسل اور تیمم کے احکام ہیں اور روح کی صفائی کا باعث ہیں پہلے تو اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے احکامِ وضو بیان کیے گئے ہیں : اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ،(۱)

تو اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوؤ اور سرکے ایک ایک حِصّے کا اور اسی طرح پاؤں کا مفصل (یا ابھری ہوئی جگہ تک) مسح کرو( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَ اٴَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ اٴَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ ) ۔

آیت میں وضو میں دھونے کے لیے چہرے کی حُدود کا ذکر نہیں ، لیکن روایات ِ اہلِ بیت(علیه السلام) میں رسول اللہ کے وضو کرنیکا طریقہ تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔

در اصل یہ ”وجہ“ (چہرے) کے اس معنی کی وضاحت ہے جو عرف عام میں اس سے سمجھا جاتا ہے کیونکہ وجہ (چہرہ) وہی حِصّہ ہے جس کا انسان سے ملتے ہی”مواجہ“ (سامنا) ہوتاہے۔

۲۔ ہاتھ کی حد جو وضو میں دھوئی جانی چاہیے کہنی تک بیان ہوئی ہے کیونکہ ”مرفق“ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ”کہنی“۔ جب کہا جائے کہ ہاتھ دھولو تو ممکن ہے ذہن میں یہ آئے کہ انھیں کلائی تک دھونا ہے کیونکہ عام طور پر یہی مقدار دھوئی جاتی ہے اس وہم کو دور کرنے کے لیے فرمایا گیاہے: کہنیوں تک دھوؤ (الی المرافق) اس سے واضح ہوجاتاہے کہ ”الٰی“ اس آیت میں فقط دھونے کی حد بیان کرنے کے لیے ہے نہ کہ کیفیت بیان کرنے کے لیے جیسا کہ بعض کو اس سے یہی گمان ہوا ہے ان کا خیال ہے کہ آیت کہتی ہے کہ ہاتھ کو انگلیوں کے سروں سے لے کر کہنی تک دھونا چاہیے (جیسا کہ اہل سنت کے ایک طبقے میں رائج ہے) ۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ یہ بالکل اس طرح ہے کہ انسان کسی کا دیگر سے کہے کہ کمرے کی دیوار کو نیچے سے لے کر ایک میڑ اوپر تک رنگ کردو تو واضح ہے کہ مقصد یہ نہیں کہ دیوار کو نیچے سے اوپر کی طرف رنگ کرو بلکہ مراد یہ ہے کہ اتنی مقدار کو رنگ کرو اس سے زیادہ یا کم نہ ہو، اس لیے یہاں آیت میں بھی صرف ہاتھ کی وہ مقدار مقصود ہے جسے دھوناچاہیے۔ رہی ایسی کیفیت تو وہ سنتِ پیغمبر میں ہے جو ان کے اہل بیت(علیه السلام) کے وسیلے سے ہم تک پہنچی ہے اس کے مطابق کہنیوں سے لے کرانگلیوں کے سروں تک دھونا چاہیے۔

توجہ رہے کہ کہنی کو بھی وضو میں ساتھ دھونا چاہیے کیونکہ ایسے مواقع پر اصطلاح کے مطابق”غایت مغیا میں داخل ہے“ یعنی حد بھی حکم محدود میں شامل ہے۔(۲)

۴۔ ”ارجلکم“”برء وسکم“کے ہم پہلو آیاہے یہ اس بات پر شاہد ہے کہ پاؤں کا بھی مسح کیاجائے نہ کہ اسے دھو یا جائے۔ ”ارجلکم“کی لام پر زبر اس وجہ سے ہے کہ اس کا عطف ”برء وسکم“کے ساتھ ہے نہ کہ یہ ”وجوہکم “ پر عطف ہے۔(۳)

۵۔ ”کعب“ نعت میں پاؤں کے اوپر کی ابھری ہوئی جگہ اور مفصل کے معنی میں آیاہے یعنی وہ مقام جہاں پاؤں کی بڈی سے پنڈلی کہ ہڈی مل جاتی ہے۔(۴)

____________________

۱ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول متعدد روایات میں ہے کہ قمتم (تم کھڑے ہو) سے مراد ہے نیند سے اٹھنا ۔ آیت کے مشتملات اور تمام حصوں پر غور کرنے سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ بعد میں تیمم کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے؛اوجاء احد منکم من الغائط (یا کوئی تم میں سے قضائے حاجت سے لوٹے) ۔اگر آیت کا خطاب اصطلاحاً بے وضو افراد سے ہوتا تو اس جُملے کا عطف اور وہ بھی ”او“ کے ذریعے آیت کے ظاہری مفہوم سے مناسبت نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ بھی بے وضو کے عنوان میں داخل ہے لیکن اگر آےت کے آغاز میں خطاب نیند سے اٹھنے والے لوگوں سے ہے اور اصطلاح کے مطابق صرف نیند کا حدث بیان کیاگیاہے تو پھر اس جملے کا مفہوم بھی مکمل ہوگا (غور کیجیے گا) ۔

۲۔ کلمہ ”ب“ جو ”برء وسکم“میں ہے بعض روایات کے مطابق اور بعض اہلِ لغت کی تصریح کے مطابق تبعیض کے لیے ہے یعنی کچھ حِصّے کے مفہوم میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکے کچھ حِصّے کا مسح کرو جسے ہماری اصطلاح میں سرکے اگلے حِصّے سے محدود کیا گیا ہے اور اس کے لیے سرکے چوتھائی یا کچھ کم حِصّے پر ہاتھ سے مسح کیاجاتاہے اس لیے جو اہل سنت کے بعض گروہوں میں مروّج ہے کہ وہ پورے سرکا یہاں تک کہ کانوں کا بھی مسح کرتے ہیں وہ آیت کے مفہوم سے مناسبت نہیں رکھتا ۔

۴ قاموس میں ”کعب“ کے تین معنی مذکور ہیں ۔ ۱۔ پشت پاکی ابھری ہوئی جگہ، ۲۔ مفصل اور ۳۔ ٹخنے جو پاؤں کے دو طرف ہیں لیکن صفت میں جو وضاحت کی گئی ہے اس میں یہ بات مسلّم ہے کہ اس سے ٹخنے مراد نہیں ، لیکن اس بات میں فقہا میں اتفاق نہیں کہ آیا یہ پاؤں پر کی ابھری ہوئی جگہ ہے یا پاؤں اور پنڈلی کا جوڑ (مفصل) بہرحال احتیاط یہی ہے کہ جوڑتک ہی مسح کیاجائے۔

اس کے بعد غسل کے بارے میں حکم ہے ، فرمایا گیاہے: اگر مجنب ہو تو غسل کرو( و ان کنتم جنباً فاطهروا ) واضح ہے کہ ”فاطہروا“سے مراد پورے جسم کا دھونا ہے کیونکہ اگر کسی مخصوص حصِّے کا دھونا مطلوب ہوتا تو اس کا نام لیا جانا ضروری تھا اس لیے جب یہ فرماتاہے کہ اپنے آپ کو دھولو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ سارے بدن کو دھولو۔ اس کی نظیر سُورةِ نساء آیة ۴۳ میں بھی موجود ہے، جہاں فرمایاگیاہے:( حتی تغتسلوا )

جیسا کہ تفسیر نمونہ جلد ۲ میں سُورةِ نسآء آیة ۴۳ کے ضمن میں نشاندہی کی جاچکی ہے کہ لفظ ”جنب“ مصدر ہے جو اسم فاعل کے معنی میں آیاہے در اصل اس کا مطلب ہے”دور ہونے والا“ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجنب کو اس حالت میں نماز کی ادائیگی، مسجد میں توقف اور اس طرح کے دیگر کاموں سے دوری اختیار کرنا چاہیے۔ اور لفظ ”جنب“ مفرد، جمع، مذکر اور مونث سب کے لیے بولاجاتاہے”جار جنب“ کا اطلاق دور کے ہمسایوں پر بھی اسی مناسبت سے ہے۔

قرآن مندرجہ بالا آیت میں کہتاہے: نماز کے وقت مجنب ہوجاؤ تو غسل کرو، ممکن ہے اس سے یہ بھی اخذ کیاجاسکے کہ غسلِ جنابت، وضو کا بھی جانشین ہے۔

اس کے بعد تیمم کا حکم بیان کیاگیاہے: اگر نیندسے اُٹھے ہو اور نماز کا ارادہ رکھتے ہو اور بیمار یا مسافر ہو یا قضائے حاجت سے لوٹے ہو یا عورتوں سے جنبی ملاپ کرچکے ہو اور پانی تک تمھارے رسائی نہیں ہے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو( وَ إِنْ کُنْتُمْ مَرْضی اٴَوْ عَلی سَفَرٍ اٴَوْ جاء َ اٴَحَدٌ مِنْکُمْ مِنَ الْغائِطِ اٴَوْ لامَسْتُمُ النِّساء َ فَلَمْ تَجِدُوا ماء ً فَتَیَمَّمُوا صَعیداً طَیِّباً ) ۔

یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ ”( اٴَوْ جاء َ اٴَحَدٌ مِنْکُمْ مِنَ الْغائِطِ ) “ اور ”( اٴَوْ لامَسْتُمُ النِّساء َ ) “کا عطف جیسا کہ اشارہ کیاجاچکا ہے آیت کی ابتداء یعنی ”( إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاةِ ) “پر ہے ۔ حقیقت میں آیت کی ابتداء میں نیند کے مسئلے کی طرف اشارہ ہے اور آیت کے ذیل میں دو مزید چیزوں کی طرف اشارہ ہواہے کہ جو وضو یا غسل کا سبب بنیتی ہیں اگر ان دونوں جملوں کا عطف ”علی سفر“پر کریں تو آیت میں کئی ایک اشکالات پیدا ہوں گے مثلاً قضائے حاجت سے لوٹنا ، بیماری اور مسافرت کے مقابل پر نہیں ہوسکتا لہٰذا ہم مجبور ہیں کہ ”اور“ کو ”واو“ کے معنی میں لیں (جیسا کہ بہت سے مفسرین نہ کہا ہے) اور یہ ظاہر کے بالکل خلاف ہے علاوہ ازیں یہ اشکال بھی ہے کہ وضو واجب کرنے والے امور میں سے صرف قضائے حاجت کا ذکر کرنا اس صورت میں بلا وجہ ہوگا، اگر اس طرح سے ہو جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں تو ان دونوں میں سے کوئی اعتراض لاحق نہ ہوگا(غور کیجیے گا) ۔

(بہت سے مفسرین کی طرح اگر چہ ہم بھی جلد ۳ میں نساء ۴۳ میں ”اور“ کو واو کے معنی میں ذکر کرچکے ہیں لیکن جو کچھ بیان کیاگیا ہے وہ زیادہ قرینِ نظر ہے) ۔

دوسری قابلِ توجہ یہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں مسئلہ جنابت کا دو مرتبہ ذکر آیاہے ممکن ہے یہ تاکید کے لیے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ”جنب“ جنابت اور نیند میں احتلام کے معنی میں ہو اور ”او لٰمستم النساء“ سے جنبی ملاپ والی جنابت سے کنایہ ہو نیز اگر ”قیام“ سے مراد ”نیند سے اٹھنا“ لیا جائے جیسا کہ روایات اہل بیت(علیه السلام) میں ہے اور محود آیت میں اس کا قرینہ موجود ہے تو یہ خود مسئلہ جنابت کے بارے میں کی گئی تفسیر پر شاہد ہوگا(غور کیجیے گا) ۔

اس کے بعد تیمم کا طریقہ بیان کیاگیاہے: اس کے ذریعے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو( فَامْسَحُوا بِوُجُوهِکُمْ وَ اٴَیْدیکُمْ مِنْه ) ۔

واضح ہے کہ یہاں یہ مراد نہیں کہ کچھ مٹی اٹھا لیں اور اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیں بلکہ مراد یہ ہے کہ پاک مٹی پر ہاتھ مارنے کے بعد چہرے اور ہاتھوں کا مسح کریں ، لیکن بعض فقہاء نے لفظ ”منہ“ کی وجہ سے کہاہے کہ چاہے تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو غبار ہاتھ پر لگا ہونا چاہیے۔(۱)

اب ”صَعیداً طَیِّباً“ کی تفسیر باقی رہ گئی ہے بہت سے علما ء ِ لغت نے ”صَعید“کے دو معانی ذکر کیے ہیں ایک مٹی اور دوسرا وہ چیزیں جنھوں نے کرةِارض کی سطح کو ڈھانپ رکھاہے چاہے وہ مٹی ہو، ریت ہو یا پتھر و غیرہ۔ یہی بات فقہاء مین اس اختلاف نظر کا باعث بن گئی ہے کہ تیمم کس چیز پر جائز ہے، کیا صرف مٹی پر تیمم جائز ہے یا پتھر اور سنگریزوں پر بھی ہوجاتاہے لیکن ”صَعید“کے اصل لغوی معنی کی طرف توجہ کرتے ہوئے یعنی ”صعود اور اوپر ہونا“ دوسرا مفہوم ہی زیادہ قرین ذہن ہے۔

”طیب“ ایسی چیزوں کو کہا جاتاہے جو انسان کی طبیعت اور مزاج کے موافق ہوں ، قرآن میں یہ لفظ بہت سی چیزوں کے ساتھ استعمال ہواہے، مثلاً : البلد الطیب، مساکن طیبة، ریح طیب، حیاة طیبة، و غیرہ۔ ہر پاکیزہ چیز کو بھی طیّب کہتے ہیں کیونکہ انسان کی طبیعت ذاتی طور پر ناپاک چیزوں سے نفرت کرتی ہے یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ تیمم کی مٹی پاک پاکیزہ ہونا چاہیے۔

ہادیانِ اسلام سے منقول روایات میں خصوصاً اس بات کا تذکرہ ہے، ایک روایت میں ہے:

نهی امیر المؤمنین ان تیمم الرجل بتراب من اثر الطریق ۔

یعنی حضرت امیر المؤمنین (علیه السلام) نے گندی مٹی سے جو سُرکوں پر پڑی ہوتی ہے، تیمم کرنے سے منع فرمایاہے۔(۲)

توجہ رہے کہ قرآن و حدیث میں توتیمم اسی مخصوص اسلامی ذمّہ داری کے مفہوم میں آیاہے جس کی وضاحت کی جاچکی ہے لیکن لغت میں اس کا معنی ہے”قصد کرنا“ در حقیقت قرآن کہتاہے کہ جب تیمم کرنا چاہو تو زمین کے کسی پاک حِصّے کا قصد کرو یعنی تیمم کے لیے زمین میں سے مختلف حصوں میں سے ایسا حِصّہ منتخب کرو جو ”صعید“ کے مفہوم سے ہم آہنگ ہو جو ”صعود“ کے مادہ سے ہے زمین کے اوپر والا حصّہ جہاں بارش پڑتی ہو، سورج کی روشنی پڑتی ہو اور جس سے ہوائیں ٹکراتی ہوں ایسی مٹی جو ہاتھوں اور پاؤں سے روندی نہیں جاتی، ایسی مٹی سے استفادہ نہ صرف صحّت کے لیے مضر نہیں بلکہ جیسا کہ ہم تیسری جلد میں سورہ ِ نساء کی آیت ۴۳ کے ضمن میں بیان کرچکے ہیں ، سائنس وانوں کی گواہی کے مطابق جراثیم کش اثرات کا بھی حامل ہے۔

____________________

۱ - احکام تیمم اور اس اسلامی حکم کا فلسفہ، اور یہ کہ ایسا کرنا نہ صرف صحت کے منافی نہیں بلکہ صحّت مندی کا پہلو مندی کا پہلو رکھتا ہے، اسی طرح لفظ ”غائط“ کا مفہوم اور اس طرح کے دیگر مسائل کی تفصیل کے لیے تفسیر نمونہ جلد ۳ سورہ نسآء کی آیت ۴۳ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

۲ وسائل الشیعہ ج۲ صفحہ ۹۶۹۔

وضو اور تیمم کا فلسفہ

تیمم کے فلسفے کے بارے میں تو تیسری جلد میں کافی بحث ہوچکی ہے۔ باقی رہا وضو کا فلسفہ تو اس میں شک نہیں کہ وضو میں دو واضح فائدے ہیں :

ایک فائدہ صحت کے حوالے سے ہے اور دوسرا فائدہ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے ہے۔

صحت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک دن میں پانچ مرتبہ یا کم از کم تین مرتبہ چہرے اور ہاتھوں کے دھونا، بدن کی نظافت اور پاکیزگی میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ سراور پاؤں کے مسح کی شرط کہ جس میں ضروری ہے کہ پانی ہالوں یا بدن کے چمڑے کو مَس کرے بھی اس چیز کا سبب بنتاہے کہ یہ اعضاء بھی پاک صاف رکھے جائیں اور جیسا کہ نسل کے فلسفہ میں ہم وواضح کریں گے، پانی کا بدن کے چمڑے کو مس کرنا سمپاتھیک ( sympathetic )اور پیرا سمپاتھیک( parasympathetic )اعصاب معتدل رکھنے میں بہت مؤثر ہے۔

اخلاقی و روحانی حوالے سے دیکھا جائے تو چونکہ یہ کام قصد قربت سے اور خدا کے لیے کیا جاتاہے لہٰذا تربیتی اثرات کا حامل ہے خصوصاً جب کہ کنایةً اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں سر سے لے کر پاؤں تک تیری اطاعت کے لیے حاضر ہوں ۔ اس اخلاقی اور معنوی پہلو کی موید وہ روایت ہے جو امام علی بن موسٰی رضا علیہما السلام سے منقول ہے، آپ (علیه السلام) نے فرمایا:

انما امر الوضوء و بدء به لان یکون العبد طاهراً اذا قام بین یدی الجبار، عند مناجاته ایاه، مطیعاً له فیما امره، تقیًا من الادناس و النجاسة، مع ما فیه من ذهاب الکسل، و طرد النعاس و تزکیة الفؤاد للقیام بین یدی الجبار ۔

و ضو کا حکم اس لیے دیا گیا ہے اور عبادت کی ابتداء اس سے اس لیے کی گئی ہے تا کہ بندے جب بارگاہ الٰہی میں کھڑے ہوں اور مناجات کریں تو پاک و پاکیزہ ہوں ، اس کے احکام پر کار بند رہیں اور آلودگیوں اور نجاستوں سے دور رہیں ۔ اس کے علاوہ وضو کے سبب سے نیند اور سُستی کے اثرات انسان سے دور ہوجاتے ہیں نیز یہ اس لیے ہے تا کہ دل درگاہِ خداوندی میں کھڑے ہونے کے لیے روشنی اور پاکیزگی حاصل کرلے۔(۱)

____________________

۱ - وسائل الشیعہ جلد ۱ صفحہ