تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26106
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26106 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

غُسل کا فلسفہ

بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ حالت جنب کے لیے اسلام غسل کا حکم کیوں دیتاہے جبکہ ایک خاص حصّہ آلودہ ہوتاہے۔ پیشاب کرنے اور مَنی خارج ہونے میں کیا فرق ہے؟ جب کہ ایک میں تو فقط اس جگہ کو دھونے کا حکم ہے اور دوسرے میں سارے بدن کو دھونے کا ۔

اس سوال کا ایک جواب اجمالی ہے اور دوسرا تفصیلی ۔

اجمالی جواب یہ ہے کہ اخراج منی پیشاب اور دیگر فضلات کی طرح کسی ایک حِصّے کا عمل نہیں ہے کیونکہ اس کا اثر سارے بدن پر ہوتاہے۔ بدن کے تمام فلیے اس کے اخراج کے بعد ایک خاص سُستی میں ڈوب جاتے ہیں جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ کام سارے بدن کے اعضاء پر اثر انداز ہوتاہے اس کی وضاحت کچھ یوں ہے:

سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں نباتی اعصاب کے دو سلسلے ہیں جو بدن کی تمام فعالیت کو کنٹرول کرتے ہیں ایک سمپاتھیک اور دوسرا پیرا سمپاتھیک سارے انسانی بدن میں اور اس کی مشینریوں میں یہ سلسلے پھیلے ہوئے ہیں ۔ سمپاتھےک ( sympathetic ) اعصاب کی ذمہ داری ہے ”تیز کرنا“ اور بدن مختلف مشینریوں کو فعالیت پرا بھار نا اور پیرا سمپاتھیک( parasympathetic )کا کام ہے ان کی فعالیت کو سست کرنا ۔ در حقیقت ان میں ایک گاڑی کے لیے گیس یا پٹرول کی حیثیت رکھتاہے اور دوسرا بر یک کا کام کرتا ہے ان دو طرح کے نباتی اعصاب کی فعالیت کے اعتدال سے جسم کا کارخانہ معتدل طور پر کام کرتا رہتاہے۔

بعض اوقات انسانی بدن میں اس طرح کے حوادث نمودار ہوتے ہیں جو اس اعتدال کو درہم برہم کردیتے ہیں ۔ جنسی لذّت کا عروج پر پہنچنا( climax ) بھی ایسے حوادث میں سے ہے جو عام طور پر منی کے اخراج کی صورت میں ظہور پذیر ہوتاہے اس موقع پر پیرا سمپاتھیک( parasympathetic ) کا سلسلہ سمپاتھیک ( sympathetic ) اعصاب پر سبقت حاصل کرلیتاہے اور اعتدال منفی شکل میں بدل جاتاہے۔

یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ سمپاتھیک( sympathetic ) اعصاب کو کام پر ا بھار نے اور بدن کے اعتدال کو واپس لانے کے لیے بدن سے پانی کا مَس کرنا بھی مؤثر ہے اور چونکہ جنسی لذت کا عروج ( climax )تمام اعضائے بدن پر حسی طور پر اثر انداز ہوتاہے اور اعصاب کے ان دونوں سلسلوں کا اعتدال سارے بدن میں ٹوٹ جاتاہے لہٰذا حکم دیا گیاہے کہ جنسی ملاپ یا اخراج منی کے بعد سارے بدن کو پانی سے دھویا جائے تا کہ اس کا حیات بخش اثر پورے جسم میں اعصاب کے اعتدال کے بحالی کی صورت میں ظاہر ہو۔

امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے منقول ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

ان الجنابةخارجة من کل جسد فلذٰلک وجب علیه تطهیر جسده کله

جنابت سارے بدن سے خارج ہوتی ہے لہٰذا پورے بدن کو دھویا جائے۔ (وسائل الشیعہ ج ۱ ص ۴۶۶)

یہ روایت بھی گویا اسی امر کی طرف اشارہ ہے۔

البتہ غسل کا بس یہی فائدہ نہیں بلکہ یہ غسل ایک طرح کی عبادت بھی ہے جس کے اخلاقی اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اسی لیے قصد قربت اور فرمانِ خدا کی اطاعت کی نیّت بغیر ایسا غسل صحیح نہیں ہے۔ در حقیقت جنسی ملاپ اور اخراج منی کے وقت روح بھی متاثر ہوتی ہے اور جسم بھی ۔ روح مادی شہوات کی طرف کھینچتی ہے اور جسم سستی کا شکار ہوتاہے۔ جسم کو چونکہ قصد قربت سے دھویا جاتاہے لہٰذا یہ ایک طرح سے غُسِل روح بھی ہے۔ اس طرح سے روح خدا اور معنویت کی طرف مائل ہوتی ہے اور جسم پاکیزگی، نشاط اور فعالیت کی طرف۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر، زندگی بھر غسلِ جنابت کا وجوب بدن کی نگہداشت اور صحت کی حفاظت کے لیے ایک لازمی اور ضروری اسلامی حکم ہے۔ کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنی نظافت اور سُترائی سے غافل رہتے ہیں لیکن یہ اسلامی حکم مختلف وقتی فاصلوں پر انھیں نہانے اور بدن کو پاک رکھنے پر ابھارتاہے۔ یہ امر گذشتہ زمانے کے لوگوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ خود ہمارے زمانے میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو جسم کی نظافت اور صفائی سے مختلف وجوہ کی بناپر غافل رہتے ہیں (البتہ یہ حکم کُلی اور عمومی ہے یہاں تک کہ اس شخص کے لیے بھی ہے جس نے ابھی تازہ غسل کیاہے)

مذکورہ بالا تینوں وجہ مجموعی طور پر واضح کرتی ہیں کہ نیند یا بیداری کی حالت میں اخراج منی اور جنسی ملاپ کی صورت میں اگرچہ منی خارج نہ ہو سارے بدن کو کیوں لازمی طور پر دھونا چاہیے۔

آیت کے آخر میں یہ بات واضح کرنے کے لیے کہ مذکورہ احکام میں کوئی سختی نہیں ہے بلکہ وہ سارے احکام مصلحتوں اور حکمتوں کی بناپر نافذ کیے گئے ہیں ، فرمایا گیاہے: خدا نہیں چاہتا کہ تمھیں مشقت اور زحمت میں ڈال دے بلکہ وہ چاہتاہے کہ تمھیں پاک و پاکیزہ رکھے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردے تا کہ تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو( ما یُریدُ اللَّهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَ لکِنْ یُریدُ لِیُطَهِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ) ۔

در اصل اس جملے میں اس حقیقت کی تاکید کی گئی ہے کہ تمام خدائی احکام اور اسلامی پروگرام لوگوں کی خاطر اور انہی کے فائدے میں ہیں اور ان سے کچھ اور مقصود نہیں ، خدا چاہتاہے کہ ان احکام کے ذریعے لوگوں کو روحانی اور جسمانی طور پر پاکیزہ رکھے۔

ضمناً اس طرف بھی توجہ رہے کہ خدا نہیں چاہتا کہ تمھارے دوش پر کوئی طاقت فرسا اور مشکل ذمہ داری ڈال دے یہ بات اگرچہ غسل، وضو اور تیمم سے مربوط احکام کے ضمن میں آئی ہے لیکن یہ ایک عمومی قانونی بھی بیان کررہی ہے کہ احکام الٰہی کسی موقع پر بھی طاقت فرسا اور قُوّت سے بڑھ کر نہیں ہیں ۔اس لیے جب کوئی حکم یا ذمہ داری کسی کے لیے سخت مشکل اور ناقابل برداشت ہوجائے تو اس کے پیشِ نظر وہ اس سے ساقط ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر کسی بوڑھے مرد یا بوڑھی عورت کے لیے روزہ رکھنا باعثِ مشقت ہوجائے تو اسی آیت کی بناپر ان پر واجب نہیں رہتا ۔یہ بات فراموش نہیں کی جانا چاہیے کہ بعض احکام ذاتی طور پر مشکل ہیں اور اہم مقاصد اور مصلحتوں کے پیش نظر ایسی مشکلات کو برداشت کرنا چاہیے۔ مثلاً دشمنانِ حق کے خلاف جہاد ۔اس آیت سے فِقہ اسلام میں ایک بنیادی اصول ”قاعده لاحرج --“ حاصل کیا گیاہے اور فقہاء بہت سے مواقع پر احکام کے استنباط میں اس سے استناد کرتے ہیں ۔

۱۔ لمبائی میں چہرے کی حد بالوں کے اگنے کی جگہ سے لے کر ٹھوڑی تک ہے اور چوڑائی میں وہ حِصِہ جو در میانی انگلی اور انگو ٹھے کے در میان آجائے۔

۲ -سیبویہ عربی لغت کا مشہول ماہر اور علم نحو کا عالم تھا وہ کہتاہے کہ جہاں کہیں لفظ ”الی“ کا مابعد اور ماقبل ایک جنس سے ہوں تو ما بعد قبل کے حکم میں ہوتاہے اور اگر وہ جنسوں سے ہوں تو پھر خارج ہوتاہے( مثلاً اگر کہا جائے کہ دن کی آخری گھڑی تک روزہ رکھو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آخری گھڑی میں بھی روزہ رکھو اور اگر کہاجائے کہ ابتدائے رات تک روزہ رکھو تو اس کا معنی یہ ہے کہ ابتدائے رات حکم میں داخل نہیں ہے) ۔ (المنارج۶ ص۲۲۳)

۳ اس میں شک نہیں کہ ”وجوہکم “اور”ارجلکم“ میں بہت فاصلہ ہے لہٰذا اس پر عطف کرنا بہت بعید نظر آتاہے۔ علاوہ ازیں بہت سے قاریوں نے ’ارجلکم“ کو امام کی زیر کے ساتھ پُرھاہے۔

آیت ۷

۷۔( وَ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَیْکُمْ وَ میثاقَهُ الَّذی واثَقَکُمْ بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنا وَ اٴَطَعْنا وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ عَلیمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ ) ۔

ترجمہ

۷۔ اپنے اور پر خدا کی نعمت کو یاد کرو اور اس عہد و پیمان کو (بھی یاد کرو) جو اس نے تم سے لیا ہے۔ اس وقت جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور خدا (کی نافرمانی) سے ڈرو، کیونکہ خدا سینوں کے اندر کے حالات سے آگاہ ہے۔

خدا سے باندھے گئے پیمان

گذشتہ آیت میں چند احکامِ اسلامی اور نعماتِ الٰہی کی تکمیل کا ذکر تھا ۔ اسی بحث کی مناسبت سے اس آیت میں مسلمانوں کو دوبارہ خدا کی لا متناہی نعمات کی اہمیّت کی طرف توجّہ دلائی گئی ہے ان نعمات میں سب سے اہم ایمان، اسلام اور ہدایت کی نعمت ہے، ارشاد فرمایا گیاہے: خدا کی نعمتوں کو یاد رکھو( وَ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَیْکُم ) یہاں لفظ ”نعمت“ مفرد صورت میں ہے لیکن یہ جنس کے معنی میں ہے اور جنس یہاں عمومیّت کا مفہوم رکھتی ہے لہٰذا اس سے مراد تمام تر نعمتیں ہیں ۔

البتہ یہ احتمال بھی ہے کہ خصوصیّت سے یہاں نعمتِ اسلام مراد ہو جس کی طرف گذشتہ آیت میں اشارہ کیا گیا ہے، جہاں فرمایا گیاہے: ولیتم نعمتہ علیکماور اس سے بڑھ کر کون سی نعمت ہوسکتی ہے۔ اسلام ہی کے زیر سایہ مسلمانوں کو تمام تر نعمتیں ، افتخارات اور وسائل نصیب ہوئے۔ وہ لوگ جو پہلے بالکل منتشر ، جاہل، گمراہ، خوں خوار، فاسد اور مفسد تھے۔ اسلام نے انھیں اتحاد اور دانائی عطا کی اور وہ مادی و روحانی نعمتوں سے ملامال ہوگئے۔

اس کے بعد وہ عہد و پیمان جوانھوں نے خدا سے باندھا ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیاہے: اور میثاقِ الٰہی کو فراموش نہ کرو جبکہ اس وقت تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی( وَ میثاقَهُ الَّذی واثَقَکُمْ بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنا وَ اٴَطَعْنا ) ۔

اس بارے میں کہ اس پیمان سے کون سا پیمان مراد ہے دو احتمالات پیش کیے گئے ہیں ۔

پہلا وہ پیمان کہ جو مسلمانوں نے آغازِ اسلام میں حدبیہ کے موقع پر باندھا تھا یا حجة الوداع یا عقبہ میں باندھا تھا یا پھر وہ پیمان جو ہر مسلمان نے اسلام قبول کرتے ہی بالواسطہ طور پر خدا سے باندھا تھا ۔

دوسرا: وہ پیمان جو فطری طور پر ہر شخص اپنے خدا سے باندھ چکا ہے اسی کو بعض اوقات ”عالم ذر“ کہتے ہیں ۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اس کی خِلقت کے وقت قابلِ نظر صلاحیتیں اور بے شمار نعمتیں عطاکیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کو اسرار آفرینش اور اس کے ذریعے پروردگار کی معرفت کی استعداد بخشتی ہے۔ اسی طرح اس نے عقل و شعور سے نوازا، جس کے ذریعے انسان پیغمبروں کو پہچانتاہے اور ان کے احکام پر عمل کرتاہے۔

یہ صلاحیتیں عطا فرما کر خدانے عملاً انسان سے یہ عہد لیا کہ وہ انھیں معطل اور باطل نہیں کر چھوڑے گا، بلکہ ان سے صحیح طور پر استفادہ کرے گا اور انسان بھی یہ صلاحیتیں حاصل کرکے بزبانِ حال پکار اٹہا کہ سمعنا و اطعنا ہم نے سنا اور اطاعت کی ۔

یہ عہد و پیمان زیادہ وسیع ، زیادہ پائیدار اور زیادہ عمومی ہے جو خدا نے اپنے بندوں سے لیاہے یہ وہی پیمان ہے جس کی طرف حضرت علی(علیه السلام) نے نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:لیستادوهم میثاق فطرته

انبیاء اس لیے بھیجے گئے کہ وہ لوگوں کو پیمانِ فطرت پورا کرنے کی دعوت دیں ۔

واضح ہے کہ یہ وسیع پیمان تمام دینی مسائل پر بھی محیط ہے۔(۱)

کوئی مانع نہیں کہ یہ آیت تمام تکوینی اور تشریعی عہد و پیمان (جو خدا نے بحکم فطرت لیے ہیں یا رسول اللہ نے مسلمانوں سے مختلف موقعوں پر لیے ہیں ) کی طرف اشارہ ہو۔

یہاں سے واضح ہوگیا کہ وہ حدیث جس میں ہے کہ میثاق سے مراد وہ عہد و پیمان ہے جو رسول اللہ نے حجة الوداع میں ولایت علی(علیه السلام) کے سلسلے میں لیا تھا وہ ہمارے مذکورہ بیان سے پورسی مناسبت رکھتاہے کیونکہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ مختلف آیات کے ذیل میں آنیوالی احادیث کسی ایک روشن اور واضح مصداق کی طرف اشارہ کرتی ہیں نہ یہ کہ مفہوم آیات ان میں منحصر ہے۔

ضمناً توجہ رہے کہ ”میثاق“ اصل میں ”وثاقہ“ کے مادہ سے ہے جو طناب و غیرہ سے کسی چیز کو باندھنے کے معنی میں ہے بعد ازاں ہر اس کام کو کہاجانے لگا جو اطمینانِ خاطر کا سبب بنے۔ عہد و پیمان چونکہ ایک گرہ کی مانند ہے جو دو افراد یا دو گروہوں کے در میان بندھ جاتاہے اور ان کے اطمینان کا باعث بنتاہے اس لیے اسے میثاق کہتے ہیں ۔

آیت کے آخر میں تاکید کے طور پر فرمایا گیاہے: پرہیزگاری اختیار کرو کہ خدا سینوں کے اندر کے اسرار سے آگاہ ہے( وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ عَلیمٌ بِذاتِ الصُّدُور ) ۔(۲)

”ذات الصدور “ مرکّب ہے۔ ”ذات“ عین اور حقیقت کے معنی میں ہے اور ”صدور“ ، ”صدر“ کی جمع ہے جس کا معنی ہے سینہ، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ خدا ان باریک ترین اسرار سے باخبر ہے جو انسان کی روح کی گہرائیوں میں چھپے ہوتے ہیں اور انھیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ عواطف، احساسات اور نیتوں کو دل اور اندرونِ سینہ سے کیوں نسبت دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جلد اوّل صفحہ ۱۰۰ ( اُردو ترجمہ ) میں تفصیل سے بحث کی جاچکی ہے۔

____________________

۱- اس بارے میں مزید تشریح اور یہ کہ اسے ”عالم ذر“ کیوں کہتے ہیں انشاء اللہ اعراف ۱۷۲کے ذیل میں ملاحظہ کیجیے گا ۔

۲ تفسیر برہان ج۱ صفحہ

آیات ۸،۹،۱۰

۸۔( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامینَ لِلَّهِ شُهَداء َ بِالْقِسْطِ وَ لا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلی اٴَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ اٴَقْرَبُ لِلتَّقْوی وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبیرٌ بِما تَعْمَلُونَ ) ۔

۹۔( وَعَدَ اللَّهُ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَ اٴَجْرٌ عَظیمٌ ) ۔

۱۰۔( وَ الَّذینَ کَفَرُوا وَ کَذَّبُوا بِآیاتِنا اٴُولئِکَ اٴَصْحابُ الْجَحیمِ ) ۔

ترجمہ

۸۔اے ایمان والو! ہمیشہ خُدا کے لیے قیام کرو اور عادلانہ گواہی دو اور کسی گر وہ کی دشمنی تمھیں ترکِ عدالت کی طرف نہ لے جائے۔ عدل کرو کہ وہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو کہ جو کچھ تم کرتے ہو خُدا اس سے آگاہ ہے۔

۹۔ خدا نے ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیاہے۔

۱۰۔ اور جو لوگ کافر ہوگئے ہیں اور ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ اہلِ جہنم ہیں ۔

قیامِ عدالت کا تاکیدی حکم

پہلی آیت قیامِ عدالت کی دعوت دیتی ہے۔ ایسی ہی دعوت کچھ فرق کے ساتھ سُورہ نسآء آیة ۱۳۵ میں گذر چکی ہے۔

پہلے تو صاحب ایمان افراد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیاہے : اے ایمان والو! ہمیشہ خدا کے لیے قیام کرو اور عادلانہ گواہی دو( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامینَ لِلَّهِ شُهَداء َ بِالْقِسْطِ ) ۔

اس کے بعد عدالت سے انحراف کے ایک عمومی سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ قومی عداوتیں اور شخصی معاملات کہیں تمہیں اجرائے عدالت سے روک نہ دیں اور کہیں دوسروں کے حقوق پر تجاوز کا سب نہ بن جائیں کیونکہ عدالت ان تمام چیزوں سے بالاتر ہے( وَ لا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلی اٴَلاَّ تَعْدِلُوا ) ۔

مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر دوبارہ عدالت ہی کا حکم دیا گیا ہے : عدالت اختیار کرو کہ وہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے( اعْدِلُوا هُوَ اٴَقْرَبُ لِلتَّقْوی ) ۔

عدالت چونکہ تقویٰ و پرہیزگاری کا بہترین رکن ہے لہٰذا تیسری مرتبہ بطور تاکید فرمایا گیاہے: خدا سے ڈرو کیونکہ خدا تمھارے تمام اعمال سے آگاہ ہے( وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبیرٌ بِما تَعْمَلُون ) ۔

اس آیت میں اور سُورہ نساء کی آیت ۱۳۵ میں چند پہلوؤں میں فرق ہے ، جو یہ ہیں :

۱۔ سورہ نسآء میں عدالت کے قیام اور خدا کے لیے گواہی دینے کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہاں خدا کے لیے قیام اور حق و عداوت کی گواہی دینے کی دعوت دی گئی ہے یہ فرق شاید اس لے ہو کہ سُورہ نسآء میں ہدف یہ تھا کہ گواہیاں خدا کے لیے دی جائیں نہ کہ اقرباء اعزا اور وابستگان کے لیے، لیکن یہاں چونکہ گفتگو دشمن کے متعلق ہے ۔ لہذا عدل و قسط پر مبنی گواہی کی بات کی گئی ہے یعنی ظلم و ستم پر مبنی گواہی نہ ہو۔

۲۔ سورہ نسآء میں عدالت سے انحراف کا ایک سبب بیان کیا گیاہے اور یہاں دوسرا سبب مذکور ہے دہاں بلا وجہ محبت میں افراد اور یہاں بلا وجہ بغض میں افراط کی طرف اشارہ ہے۔

لیکن سورہ نسآء کی اس بات میں دونوں جمع ہیں کہ( فلا تتبعوا الهویٰ ان تعدلوا ) یعنی ترک عدالت سے ہوا و ہوس کی پیروی نہ کروبلکہ ہوا و ہوس کی پیروی ظلم و ستم کا وسیع منبع ہے کیونکہ ظلم و ستم بعض اوقات ہواپرستی کی وجہ سے اور شخصی مفادات کے تحفظ کے لیے ہوتاہے نہ کہ دوستی اور دشمنی کی بناپر، لہٰذا عدالت سے انحراف کی اصل بنیاد ہوا و ہوس کی پیروی ہے جس کے بارے میں پیغمبر اکرم اور حضرت امیر المؤمنین(علیه السلام) نے فرمایاہے:

اما اتباع الهویٰ فیسد عن الحق

ہوا پرستی تمھیں حق سے باز رکھے گی ۔(۱)

اسلام میں بہت کم مسائل عدالت جیسی اہمیّت کے حامل ہیں کیونکہ مسئلہ عدل، مسئلہ توحید کی طرح اسلام کے تمام اصول و فروع کی بنیاد ہے، جیسے اعتقادی، عملی، انفرادی، اجتماعی، اخلاقی اور حقوق کے بارے میں کوئی بھی مسئلہ حقیقت توحید سے جدا نہیں اس طرح ان میں کوئی بھی روحِ عدل سے خالی نہیں ملے گا ۔

یہی وجہ ہے کہ تعجّب کا مقام نہیں کہ عدل اصول ِ دین میں سے ہوا ور مسلمانوں کی فکری عمارت کی ایک بنیاد کے طور پر پہچانا جائے۔ اگرچہ عدالت جو کہ اصول دین کا حِصّہ ہے صفات الہیہ میں سے ہے اور خدا شناسی جو کہ اصولِ دین میں سے ایک ہے میں عدالت بھی شامل ہے لیکن اسے ممتاز اور جدا رکھنا بہت معنی خیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اجتماعی مباحث میں عدالت سے بڑھ کر کسی اصل سے کام نہیں لیاگیا ۔ مندرجہ ذیل احادیث اس کی اہمیّت واضح کرنے کے لیے کافی ہیں ۔

۱۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں :ایاکم و الظلم فان الظلم عند الله هو الظلمات یوم القیٰمة

ظلم سے بچو کیونکہ ہر عمل روز قیامت اپنی مناسب شکل میں مجسم ہوگااور ظلم ظلمت و تاریکی کی صُورت میں مجسم ہوگا اور تاریکی کا پردہ ظالموں کو گھیرے ہوئے ہوگا ۔(۲)

اور ہم جانتے ہیں کہ ہر خیر و برکت نور میں ہے اور ظلمت ہر عدم اور فقدان کا سرچشمہ ہے۔

۲۔رسول اللہ سے منقول ہےبالعدل قامت السمٰوٰت و الارض

آسمان اور زمین عدل کی بنیاد پر قائم ہیں ۔(۳)

عدالت کے بارے یہ بات واضح ترین ممکن تعبیر ہے۔ یعنی نہ صرف یہ کہ نوعِ بشر کی یہ محدود زندگی اس کُرّہ خاکی میں عدالت کے بغیر برپا نہیں ہوسکتی بلکہ تمام جہانِ ہستی اور آسمان و زمین سب کا قیام عدالت کی وجہ سے ، توانائیوں کے اعتدال کے باعث اور ہر چیز کے اپنے مقام و محل پر ہونے کے سبب سے ہے اور اگر یہ لحظہ بھر کے لیے اور سوئی کی نوک کے برابر اس اصول سے منحرف ہوجائیں تو تباہ برباد ہوجائیں ۔ اس سے ملتی جُلتی ایک اور حدیث میں فرمایا گیاہے:

الملک یبقی مع الکفر و لا یبقی مع الظلم

حکومتیں کُفر سے تو ممکن ہے باقی رہ جائیں ، لیکن ظالم ہوں تو انھیں دوام حاصل نہیں ہوسکتا ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ظلم ایک ایسی چیز ہے جس کا اثر اس دنیا میں جلدی ظاہر ہوجاتاہے آج کی دنیا میں جنگیں ، اضطراب، بے اطمینانی سیاسی افراتفری، نیز اجتماعی، اخلاقی اور اقتصادی بحران اس حقیقت کو اچھے طریقے سے ثابت کررہے ہیں ۔

جس چیز کی طرف پوری توجّہ رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اسلام عدالت کی فقط نصیحت نہیں کرتا بلکہ اس کی نظر میں زیادہ اہم عدالت کا رائج ہونا ہے ان آیات و روایات کا فقط بر سرِ منبر پڑھنا، کتابوں میں لکھنا یا تقاریر میں سنانا معاشرے میں موجود نا انصافیوں ، برائیوں اور خرابیوں کا علاج نہیں بلکہ ان احکام کی عظمت اس دن واضح ہوگی جب یہ مسلمانوں کی زندگی میں جاری و ساری ہوجائیں گے۔

اگلی آیت میں خصوصی احکام کی تاکید اور تکمیل کے لیے سنت قرآن کے مطابق کلی قانون اور اصول کی نشاندہی کی گئی ہے ایمان لانے والوں سے خدا بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کرتاہے( وَعَدَ اللَّهُ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَ اٴَجْرٌ عَظیم ) اور جو اللہ اور اسکی نشانیو نکو جھٹلاتے ہیں وہ اہلِ دوزخ ہیں( وَ الَّذینَ کَفَرُوا وَ کَذَّبُوا بِآیاتِنا اٴُولئِکَ اٴَصْحابُ الْجَحیم )

یہ بات قابل توجہ ہے کہ بخشش اور اجر عظیم کا ذکر اس آیت میں خدا تعالیٰ کے وعدہ کے طور پر آیا ہے اور فرمایاگیاہے:

وعد اللہ یعنی اللہ کا وعدہ ہے لیکن دوزخ کی سزا کا ذکر عمل کے نتیجہ کی صورت میں ہے، فرمایا گیاہے: جن لوگوں کے ایسے اعمال ہوں گے ان کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا یہ در حقیقت دارِ آخرت کی جزا میں خدا کے فضل و رحمت کی طرف اشارہ ہے جو کسی طرح بھے انسان کے ناچیز اعمال کے برابر نہیں ہے جیسا کہ وہاں کی سزا بھی انتقامی پہلو نہیں رکھتی ۔ بلکہ خود آدمی کے اعمال کا نتیجہ ہے۔

ضمناً یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ”اٴَصْحابُ الْجَحیم “میں ”اصحاب“ کا معنی ہے یار و انصار جو ہمیشہ ساتھ دینے والے ہوتے ہیں ۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے دوزخ کے ساتھی ہیں لیکن تنہا یہ آیت دوزخ میں ہمیشہ رہنے کی دلیل نہیں بن سکتی جیسا کہ تفسیر تبیان ، مجمع البیان اور تفسیر فخر الدین رازی میں آیاہے کیونکہ اس میں قیام ہوسکتاہے دائمی ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ طویل مُدّت کے لیے ہو اور اس کے بعد نہ ہو جیسا کہ حضرت نوح(علیه السلام) کی کشتی میں سوار ہونے والوں کے لیے قرآن میں ”اٴَصْحابُ السفینه “(کشتی کے ساتھی) کہا گیاہے اور اس میں قیام بھی دائمی نہ تھا ۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ کفار دوزخ میں رہیں گے لیکن زیر نظر آیت میں اس کے بارے میں گفتگو نہیں ہے بلکہ یہ بات دیگر آیات سے معلوم ہوتی ہے۔

الْجَحیم“مادہ ”جحم“(بر وزن ”فہم“) سے ہے اس کا معنی ہے ”شدت سے آگ بھڑک“جہنم کو اسی وجہ سے ”جحیم“ کہا گیا ہے۔ دنیا کی جلانے والی وسیع آگ کو بھی کبھی ”جحیم“ کہتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم(علیه السلام) کے واقعہ میں ہے کہ نمرود نے یوں کہا:( فالقوه فی الجحیم )

پس اے بھڑکتی آگ میں ڈال دو (الصٰفٰت۔ ۹۷)

____________________

۱ یہ حدیث کتاب سفینة البحار میں مادہ ”ہویٰ“کے ذیل میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے اور نہج البلاغہ کے خطبہ ۴۲ میں حضرت علی(علیه السلام) سے نقل ہوئی ہے۔

عدالت ایک اہم اسلامی حُکم ہے ۲ سفینة البحارمادہ”ظلم“ ۳ -تفسیر صافی سورہ رحمن آیة ۸ کے ذیل میں ۔

آیت ۱۱

۱۱۔( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَیْکُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ اٴَنْ یَبْسُطُوا إِلَیْکُمْ اٴَیْدِیَهُمْ فَکَفَّ اٴَیْدِیَهُمْ عَنْکُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ وَ عَلَی اللَّهِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ )

ترجمہ

۱۱۔ اے ایمان والو! و ہ نعمت یاد رکو جو خدا نے تمھیں جبکہ (دشمن کی) ایک جماعت نے ارادہ کر رکھا تھا کہ تم پر ہاتھ اٹھائے ( اور تمھیں ختم کردے) لیکن خدا نے ان کا ہاتھ تم سے روک دیا، خدا سے ڈرو اور مومنین کو چاہیے کہ وہ صرف خدا پر ہی توکّل (اور بھروسہ) کریں ۔

تفسیر

گذشتہ چند آیات میں نعمات الٰہی کے ذکر کے بعد اس آیت میں پھر روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کچھ اور نعمتیں مسلمانوں کو یاد دلائی ہیں تا کہ ان کے شکر انے کے طور پر فرمانِ خدا کی اطاعت کرین اور عدالت کے قیام کی کوشش کریں ۔

فرمایا گیا ہے: اے ایمان لے آنے والو! خدا کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب ایک گروہ مصمم ارادہ کرچکا تھا کہ تمھاری طرف ہاتھ بڑھائے اور تمھیں ختم کردے لیکن خدا نے ان کا شر تم سے دُور کردیا( یا اٴَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَیْکُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ اٴَنْ یَبْسُطُوا إِلَیْکُمْ اٴَیْدِیَهُمْ فَکَفَّ اٴَیْدِیَهُمْ عَنْکُمْ ) ۔

خداوند عالم آیاتِ قرآنی میں مسلمانوں کو بار بار اپنی گوناگوں نعمات اور الطاف یاد دلاتاہے تا کہ ان میں روحِ ایمان کو محکم کرے، ان میں شکر گذاری کا احساس اجاگر کرے اور مشکلات کے مقابلے میں انھیں ثباتِ قدم پر ابھارے۔ ایسی آیات میں سے ایک زیر نظر آیت بھے ہے۔ رہا یہ سوال کہ یہ آیت کون سے واقعہ کی طرف اشارہ کررہی ہے، اسی سلسلے میں مفسرین میں ا ختلاف ہے بعض سمجھتے ہیں کہ یہ نبی نضیر کے یہودیوں کا خطرہ برطرف کرنے کی طرف اشارہ ہے، جنھوں نے مدینہ میں رسول(علیه السلام) خدا اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازش کی تھی ۔

بعض مفسرین اے”بطن نخل“ کے واقعہ کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جو حدیبیہ کے موقع پر ہجرت کے چھٹے برس واقع ہوا ۔ ہوا یہ کہ خالد بن ولید کی سرکردگی میں مشرکین مکہ کی ایک جماعت نے پروگرام بنایا کہ نمازِ عصر کے دوران میں مسلمان پر حملہ کردیں ۔ پیغمبر اکرم اس سازش سے آگاہ ہوگئے۔ آپ نے نماز کو مختصر کر کے نمازِ خوف میں تبدیل کردیا ۔ اس طرح ان کی سازش نقش بر آب ہوگئی ۔

بعض اسے رسول اللہ اور مسلمانوں کی حادثات سے معمور زندگی کے دیگر حوادث کی طرف اشارہ قرار دیتے ہیں ۔

بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ آیت ان تمام حوادث کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو پوری تاریخ اسلام میں وقوع پذیر ہوتے رہے۔ آیت میں لفظ ”قوم“ نکرہ ہے اور وحدت پر دلالت ہے، اگر اس سے صرف نظر کرلیں تویہ تفسیر دیگر تفاسیر سے بہتر ہے۔

بہر حال آیت مسلمانوں کی توجہ ان فطرات کی طرف دلارہی ہے جن میں ممکن تھا کہ ان کا نام ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ جاتاہے۔ آیت تنبیہ کررہی ہے کہ ان نعمتوں کی قدردانی کرتے ہوئے تقویٰ اختیار کرو،خدا پر بھروسہ رکھو اور جان لو کہ اگر تم پرہیزگار رہے تو زندگی میں اکیلے نہیں رہو گے اور وہ دستِ غیب جو ہمیشہ تمھارا محافظ رہاہے آئندہ بھے حمایت کرتارہے گا( وَ اتَّقُوا اللَّهَ وَ عَلَی اللَّهِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ) ۔

واضح ہے کہ توکّل کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے کام خدا پر چھوڑنے کے بہانے ذمّہ داریوں سے صرف نظر کرلے یا حوادث کے سامنے سر جُھکالے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اپنی پوری صلاحیّت اور توانائی کو بروئے کار لانے کے با وجود اس طرف متوجہ رہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ خود اس کی اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ کسی دوسری ذات کی طرف سے ہے۔ اس طرح غرور اور خود پرستی کا احساس اپنے دل سے نکال دے نیز اس بات سے نہ ڈرے کہ مشکلات و حوادث بہت زیادہ اور شدید ہیں ، مایوس نہ ہو اور جان لے کہ اس کے پاس ایک ایسا سہارا ہے جس کی قدرت تمام قدرتوں سے بالاتر ہے۔

ضمناً یہ امر بھی لائقِ توجہ ہے کہ آیت میں پہلے تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے پھر توکّل کی طرف اشارہ ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ خدا کی حمایت پرہیزگاروں کے شامل حال ہے۔

توجہ رہے کہ ”تقویٰ-“ ”وقایہ“کے مادہ سے ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ اپنا بچاؤ اور فساد اور برائی سے اجتناب کرنا ۔