تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26096
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26096 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۱۲

۱۲۔( وَ لَقَدْ اٴَخَذَ اللَّهُ میثاقَ بَنی إِسْرائیلَ وَ بَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقیباً وَ قالَ اللَّهُ إِنِّی مَعَکُمْ لَئِنْ اٴَقَمْتُمُ الصَّلاةَ وَ آتَیْتُمُ الزَّکاةَ وَ آمَنْتُمْ بِرُسُلی وَ عَزَّرْتُمُوهُمْ وَ اٴَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً لَاٴُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ وَ لَاٴُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهارُ فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذلِکَ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَواء َ السَّبیل ) -

ترجمہ

۱۲۔خدا نے بنی اسرائیل سے پیمان لیا اور ان میں سے بارہ رہبر اور سرپرست ہم نے مبعوث کیے اور خُدا نے (انھیں ) کہا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرو، زکٰوة ادا کرو، میرے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور ان کی مدد کرو اور خدا کو قرض حسنہ دو(اس کی راہ میں ضرورت مندوں کی مدد کرو) تو تمھارے گناہوں کو چھپادوں گا (بخش دوں گا) اور تمھیں باغات جنت میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں داخل کروں گا لیکن جو شخص اس کے بعد بھی کافر ہوجائے تو وہ راہ ِ راست سے منحرف ہوگیاہے۔

پیمان شکنی کے باعث انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا

اس سُورہ کی ابتداء میں ایفائے عہد کے مسئلہ کی طرف اشارہ ہوچکاہے۔ مختلف طریقوں سے اس کی تکرار بھی کی گئی ہے۔

مندرجہ بالا آیت بھی اسی مناسبت سے ہے شاید یہ پَے در پَے سب تاکیدیں جو ایفائے عہد کے بارے میں اور پیمان شکنی کی مذمّت کے لیے ہیں ، پیمان ِ غدیر کی اہمیّت واضح کرنے کے لیے ہوں جن کا ذکر آیہ ۶۷ میں آئے گا ۔

زیر بحث آیت کی ابتداء میں ہے: ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ وہ ہمارے احکام پر عمل کریں اور اس پیمان کے بعد ہم نے ان کے لیے بارہ رہبر اور سرپرست بھیجے تا کہ ان میں سے ہر ایک بنی اسرائسل کے بارہ گروہوں میں سے ایک ایک کی سرپرستی کرے( وَ لَقَدْ اٴَخَذَ اللَّهُ میثاقَ بَنی إِسْرائیلَ وَ بَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقیباً ) ۔

”نقیب“ کا مادہ ہے ”نقب“ (بر وزن ”نقد“)جو بڑے سوراخوں اور خصوصاً زیر زمین راستوں کا معنی دیتاہے۔ کسی گروہ کے سر براہ اور رہبر کو اس لیے نقیب کہتے ہیں کہ وہ اس گروہ کے اسرار سے آگاہ ہوتاہے گویا اس نے بیچ میں ایک نقب لگائی ہے جس کی وجہ سے وہ اس گروہ کی وضع اور حالات سے آگاہ ہوگیاہے بعض اوقات ”نقیب“ ایسے شخص کو کہا جاتاہے جو کسی گروہ کا سردار نہیں ہوتا اور صرف ان کی پہچان کا ذریعہ ہوتاہے ۔ فضائل کو بھی مناقب اسی لیے کہتے ہیں کہ ان سے آگاہی بھی جستجو اور تحقیق کرکے ہی حاصل کی جاتی ہے۔

بعض مفسرین نے زیر بحث آیت میں ”نقیب“ کا معنی آگاہ اور اسرار سے مطلع ہی کیا ہے لیکن یہ بہت بعید نظر آتاہے کیونکہ تاریخ و حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نقبائے بنی اسرائیل میں سے ہر ایک اپنے گروہ اور قبیلے کا سرپرست تھا تفسیر روح المعانی میں ابن عباس سے منقول ہے:انهم کانوا وزراء و صاروا انبیاء بعد ذلک

یعنی نقبائے بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وزیر تھے جو بعد میں منصب نبوّت پر فائز ہوئے۔(۱)

پیغمبر اسلام کے حالات میں مرقوم ہے کہ آپ نے شب عقبہ کو حکم دیا کہ نقبائے بنی اسرائیل کی تعداد کے مطابق اپنے میں سے بارہ نقیب منتخب کرو۔ مسلماً ان کی ذمہ داری بھی یہ تھی کہ اس گر وہ کی رہبری کریں ۔(۲)

یہ امر جاذبِ نظر ہے کہ طُرق اہل سنت سے بہت سی روایات ایسی وارد ہوئی ہیں جن میں پیغمبر اسلام کے بارہ خلفاء اور جانشینوں کی طرف اشارہ کیا گیاہے اور ان کی تعداد کا تعارف نقبائے بنی اسرائیل کے تعداد کے حوالے سے کروایا گیاہے۔ ان میں سے بعض روایات ذیل میں درج کی جاتی ہیں ۔

۱۔ اہل سنت کے مشہور امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں مسروق سے نقل کرتے ہیں وہ کہتاہے: میں نے عبد اللہ بن مسعود سے سوال کیا کہ اس اُمّت پرکتنے افراد حکومت کریں گے تو ابن مسعود نے جواب دیا:

لقد سئلنا رسول الله فقال اثنی عشر کعدة نقباء بنی اسرائیل

ہم نے پیغمبر خدا سے یہی مسئلہ پوچھا تھا، انھوں نے جواب میں فرمایا کہ بارہ افراد نقبائے بنی اسرائیل کی تعداد کے مطابق۔(۳)

۲۔ تاریخ ابن عساکر میں ابن مسعود سے منقول ہے وہ کہتے ہیں : میں نے پیغمبر اسلام سے سوال کیا کہ اس اُمّت پر کتنے خلفاء حکومت کریں گے، تو آپ نے فرمایا:ان عدة الخلفاء بعدی عدة نقباء موسیٰ میرے بعد کے خلفاء کی تعداد نقبائے موسیٰ کی تعداد کے برابر ہے۔(۴)

۳۔ منتخب کنز الاعمال میں جابر بن سمرہ سے منقول ہے: نقبائے بنی اسرائیل کی تعداد کے برابر بارہ خلفاء اس امت پر حکومت کریں گے۔(۵) ایسی حدیث ینابیع المودة صفحہ ۴۴۵ اور البدایہ و النہایہ جلد ۶ صفحہ ۲۴۷ پر بھی منقول ہے۔

اس کے بعد بنی اسرائیل سے خدا کے وعدہ کی یوں وضاحت کرتاہے: خدا نے ان سے کہا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں گا اور تمھاری حمایت کروں گا (و قال اللہ انی معکم) لیکن اس کے لیے چند شرائط ہیں :

۱۔ بشرطیکہ تم نماز قائم کرو( لَئِنْ اٴَقَمْتُمُ الصَّلاةَ ) ،

۲۔ اور اپنی زکٰوة ادا کرو( وَ آتَیْتُمُ الزَّکاةَ ) ، )

۳۔ میرے پیغمبروں پر ایمان لے آؤ اور ان کی مدد کرو( وَ آمَنْتُمْ بِرُسُلی وَ عَزَّرْتُمُوهُمْ ) (۶)

۴۔ اور اس کے علاوہ مستحب مصارف اور انفاق جو خدا کو قرضِ حسنہ دینے کے مترادف ہیں سے احتراز نہ کرو( وَ اٴَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً ) اگر اس عہد و پیمان پر عمل کرو تو میں تمھارے گذشتہ گناہ بخش دوں گا( لَاٴُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ ) اور تمھیں ان باغاتِ بہشت میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں( وَ لَاٴُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهارُ ) لیکن جو لوگ کفر، انکار اور عصیان کی راہ اپنائیں ، مسلم ہے کہ وہ صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں( فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذلِکَ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَواء َ السَّبیل ) ۔اس بارے میں کہ قرآن مجید میں انفاق کے لیے خدا کو قرض دینے کی تعبیر کیوں استعمال کی گئی ہے، ضروری وضاحت تفسیر نمونہ ج ۲ ص ۱۲۹ پر (اُردو ترجمہ میں ) کی جاچکی ہے۔

ایک سوال یہاں باقی رہ گیاہے اور وہ یہ کہ یہاں نماز اور زکٰوة کا ذکر حضرت موسٰی(علیه السلام) پر ایمان لانے کے ذکرسے کیوں مقدم کیا گیاہے جبکہ ان پر ایمان لانا عمل سے پہلے ضروری تھا ۔بعض مفسرین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ”رسل“ سے مراد یہاں پر وہ انبیاء ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے تھے نہ کہ خود حضرت موسٰی(علیه السلام) ۔ لہذا یہ حکم آئندہ سے متعلق تھا اس لیے نماز و زکٰوة کے عبد ہوسکتاہے۔

یہ احتمال بھی ہے کہ ”رسل“ سے مراد نقبائے بنی اسرائیل ہی ہوں جن کے متعلق بنی اسرائیل سے عہد وفا لیا جا چُکاتھا (تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ بعض قدیم مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ نقبائے بنی اسرائیل خدا کے رسول تھے اور یہ احتمال ہماری مندرجہ بالا آیت کی تائید کرتاہے) ۔

____________________

۱ تفسیر روح المعانی جلد ۶ صفحہ ۴۸۲ سفینة البحار (نقب) ۳ مسند احمد ج۱ ص۳۹۸ طبع مصر ۱۳۱۳۔ ۴ فیض القدیر شرح جامع الصغیر ج۲ ص۴۵۹۔

۵ منتخب کنز العمال در حاشیہ مسند احمد ج۵ ص۳۱۲۔

۶ ”عزرتموہم“کا مادہ”تعزیر“ ہے جو منع کرنے اور مدد دینے کے معنی میں ہے بعض اسلامی سزاؤں کو اسی لیے تعزیر کہتے ہیں کہ حقیقت میں وہ گنہ گار کی مدد ہے اور اسے گناہ سے باز رکھنے کی تدبیر ہے یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ اسلامی سزائیں انتقامی پہلو نہیں رکھتیں بکلہ تربیتی پہلو رکھتی ہیں اسی لیے ان کا نام تعزیر رکھا گیاہے۔

آیت ۱۳

۱۳۔( فَبِما نَقْضِهِمْ میثاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَ جَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِیَةً یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ وَ نَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِهِ وَ لا تَزالُ تَطَّلِعُ عَلی خائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلاَّ قَلیلاً مِنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنین ) -

ترجمہ

۱۲۔ پس ہم نے ان کی پیمان شکنی کے باعث انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا اور ان کے دلوں کو سخت کردیا (یہاں تک کہ) وہ (خدا کے) کلام میں تحریف کرتے تھے اور اس کے کچھ حِصّے کی جو ہم نے انھیں تعلیم دی تھی، اسے انھوں نے فراموش کردیا اور تمھیں ہر وقت ان کی کسی (نئی) خیانت کی خبر ملے گی مگر ان میں سے ایک چھوٹا سا گروہ (ایسا نہیں ہے) پھر بھی ان سے در گذر کرو اور صرف نظر کرو کیونکہ خدا نیک لوگوں کو پسند کرتاہے۔

گذشتہ آیت میں بنی اسرائیل سے خدا تعالیٰ کے پیمان لینے کا ذکر ہے ۔ اب اس آیت میں ان کی پیمان شکنی اور اس کے انجام کا تذکرہ ہے، فرمایا گیا ہے: انھوں نے چونکہ اپنا عہد توڑ ڈالا لہٰذا ہم نے انھیں دھکیل کر اپنی رحمت سے دور کردیا اور ان کے دلوں کو سخت کردیا( فَبِما نَقْضِهِمْ میثاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ ) (۱)

( وَ جَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِیَةً ) (۲) ۔

در حقیقت انھیں یہ دو سزائیں عہد شکنی کے جرم میں دی گئی ہیں وہ رحمت الٰہی سے بھی دورہوگئے ہوں گے اور ان کے افکار و قلوب بھی پتھر ہو گئے ہیں اور میلان و انعطاف کے قابل نہیں رہے ۔

اس کے بعد آثار قساوت کی اس طرح تشریح کی گئی ہے : وہ کلمات کی تحریف کرتے ہیں اور انھیں ان کے اصلی مقام سے بدل دیتے ہیں( یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ ) ۔

اور جو کچھ ان سے کہا گیا تھا اس کا ایک حصہ فراموش کر دیتے ہیں( وَ نَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِهِ ) ۔

بعید نہیں کہ جو حصہ انھوں نے بھلا دیا وہ پیغمبر اسلام کی نشانیاں اور آثار ہوں جن کی طرف قرآن کی دیگر آیات میں اشارہ ہوا ہے ۔

ممکن ہے یہ اس طرف اشارہ ہو جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک طویل عرصے تک تورات مفقود رہی پھر چند یہودی علماء نے اسے لکھا ، فطری امر ہے کہ اس کا بہت ساحصہ تو نابود ہو گیا اور کچھ میں تحریف کردی گئی یا فراموش ہو گیا ۔ لہٰذا یہودیوں کے ہاتھ جو کچھ لگا وہ کتاب موسیٰ کا کچھ تھا جس میں بہت سے خرافات ملادئے گئے تھے اور انھوں نے یہ حصہ بھی بھلا ڈالا ۔

اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے : ہمیں ہر روز ان کی ایک نئی خیانت کا پتہ چلتا ہے ہاں البتہ ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو ان جرائم سے کنارہ کش ہے لیکن وہ اقلیت میں ہے( وَ لا تَزالُ تَطَّلِعُ عَلی خائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلاَّ قَلیلاً مِنْهُمْ ) (۳) ۔

آخر میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ ان سے صرف نظر کرلیں اور چشم پوشی کریں کیونکہ خدا نیک لوگوں کو پسند کرتا ہے( فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنین ) ۔ آیت کے اس حصے سے کیا مراد ہے کہ اس صالح اور نیک اقلیت کے گذشتہ گناہوں سے صرف نظر کریں یا غیر صالح اکثریت کے گناہوں سے ۔ آیت کا ظاہر دوسرے مفہوم کو تقویت دیتا ہے کیونکہ صالح اقلیت نے تو کوئی خیانت نہیں کی کہ جس سے عفو وبخشش کی جائے ۔ مسلم ہے کہ یہاں در گذر اور عفو ان کا تکالیف سے متعلق ہے جو انھوں نے ذات پیغمبر کو پہنچا ئی تھیں اور یہ معافی اسلام کے ہدف اور اصول سے متعلق نہیں ہے کیونکہ ان میں تو معافی کوئی معنی نہیں ۔

____________________

۱ ”لعن “ لغت میں دھنکار نے اور دور کرنے کے معنی میں ہے اور جب یہ لفظ خدا کے حوالے سے ہو تو اس کا معنی ہے”رحمت سے محروم کرنا“

۲ لفظ ”قاسیة--“ ”قساوت“ کے مادہ سے ہے، اور سخت پتھروں کے لیے استعمال ہوتاہے اسی مناسبت سے جو لوگ حقائق سے رغبت اور میلان کا کوئی اظہار نہ کریں ، ان کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔

۳” خائنة “ اگر چہ اسم فاعل ہے لیکن یہاں مصدری معنی میں استعمال ہوا ہے اور” خیانت“ کا معنی دیتا ہے ، عربی ادب میں اسم فاعل مصدری معنی میں آتا رہتا ہے ۔ مثلاً عافیة و خاطیة اور یہ احتمال بھی ہے کہ ” خائنة“ گروہ کی صفت ہو جو مقدر ہے ۔

یہودیوں کی تحریف

وہ تمام آیات جو قرآن مجید میں یہودیوں کی تحریفات کے بارے میں آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی آسمانی کتاب میں کیسا کیسا تغیر و تبدل کرتے تھے ۔

بعض اوقات وہ تحریف معنوی کا ارتکاب کرتے تھے یعنی اپنی آسمانی کتاب کی آیات کی حقیقی معافی کے خلاف تفسیر کرتے تھے الفاظ نہں بدلتے تھے معافی بدل دیتے تھے ۔

کبھی تحریف لفظی کا ارتکاب کرتے تھے ۔ استہزاء و مسخرہ پن کرتے ہوئے” سمعا و اطعنا“ ( ہم نے سنا اور اطاعت کی )کہنے کے بجائے ”سمعنَا و عصینا “ ( ہم نے سنا اور مخالفت کی ) کہتے تھے ۔

بعض اوقات وہ آیات کا کچھ حصہ چھپادیتے ۔ جو کچھ ان کے مزاح کے مطابق ہوتا اسے ظاہر کرتے اور جو مخالف ہوتا اسے مخفی رکھتے ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات آسمانی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی اس کے ایک حصے پر ہاتھ رکھ دیتے تھے تاکہ دوسری طرف والا غافل رہے اور اسے پڑھ نہ سکے۔ جیسا کہ سورہ مائدہ کی آیہ ۴۱ کے ذیل میں ابن صوریا کے ذکر میں آئے گا ۔

کیا خدا کسی کو سنگدل بنا تا ہے

زیر بحث آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک گروہ کی سندگدلی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے ہم جانتے ہیں کہ سنگدلی اور عدم انعطاف حق سے انحراف اورگناہوں کا سر چشمہ بن جاتا ہے یہاں سوال ابھرتا ہے کہ جب اس کام کا فاعل خدا ہے تو ایسے اشخاص اپنے اعمال کے جواب وہ کیسے ہو سکتے ہیں اور کیا یہ ایک طرح سے جبر و اکراہ نہیں ؟

قرآن کی مختلف آیات، یہاں تک کہ زیر نظر آیت میں بھی غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بہت سے مواقع پر لوگ اپنے برے اعمال کے باعث خدا تعالیٰ کے لطف اور ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں در حقیقت ان کا عمل ہی ان کے فکری و اخلاقی انحراف کی بنیاد بنتا ہے اور وہ اپنے ان اعمال کے نتائج سے کسی طور بھی کنارہ کش نہیں ہوسکتے لیکن ہر سبب کا اثر چونکہ خدا کی طرف سے ہے لہٰذا قرآن میں ایسے آثار کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے ، جیسے زیر نظر آیت میں ہے : انھوں نے چونکہ پیمان شکنی کی لہٰذا ہم نے ان کے دلوں کو سخت او رناقابلِ انعطاف بنادیا ۔ سورہ ابراہیم آیت ۲۷ میں ہے( ویُضل الله الظالمینَ ) ۔

اور خدا ظالموں کو گمراہ کرتا ہے ۔

اسی طرح سورہ توبہ آیت ۷۷ میں بعض عہد شکنی کرنے والوں کے بارے میں ہے :

( فاعقبتم نفاقا فی قلوبهم الیٰ یوم یلقونه بما اختلفوا الله ما وعدوه بما کانوں یکذبون ) ۔

ان کی پیمان شکنی اور جھوٹ کی وجہ سے خدا نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا ۔

اس طرح کی تعبیرات قرآن میں بہت ہیں ۔

واضح ہے کہ یہ برے آثار جن کا سرچشمہ خود انسان کا عمل ہے انسان کے اختیار اور ارادہ کی آزادی کے منافی ہر گز نہیں ہیں کیونکہ اس کی بنیادخود اسن نے فراہم کی ہے اور اس نے جان بوجھ کر اس وادی میں قدم رکھا ہے اور یہ اس کے اعمال کا قہری نتیجہ ہے ۔

اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص جان بوجھ کر شراب پئے اور جب وہ مست ہو جائے اورجرائم کرنے لگے تو یہ ٹھیک ہے کہ نشے کی حالت میں وہ خود اختیار نہیں رکھتا لیکن چونکہ اس نے اس کے اسباب خود پیدا کیے ہیں اور وہ جانتا ہے کہ نشے کی حالت میں اس سے ایسے افعال سر زد ہو سکتے ہیں کہ لہٰذا وہ اپنے افعال کا جواب وہ ہے اس طرح ایسے مواقع پر اگر کہا جائے کہ چونکہ انھوں نے شراب پی ہے اور ہم نے ان کی عقل ختم کردی ہے اور ان کے اعمال کی وجہ سے ہم نے جرائم میں مبتلا کردیا ہے کیا اس بات میں کو ئی اشکال اور جبر کا پہلو ہے ؟

خلاصہ یہ ہے کہ تمام ہدایتیں اور گمراہیاں جنہیں قرآن میں خدا کی طرف منسوب کیا گیا ہے یقینا یہ خود انسان کے خود وہ افعال کی وجہ سے ہے اور انہی کے باعث وہ ہدایت کرے اور دوسرے کو گمراہ کردے ۔(۱)

____________________

۱ -تفسیر نمونہ جلد اوّل ص ۱۴۰( اردو ترجمہ ) میں اس بارے میں مزید توضیح کی جاچکی ہے ۔

آیت ۱۴

۱۴۔( وَمِنْ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَی اٴَخَذْنَا مِیثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِهِ فَاٴَغْرَیْنَا بَیْنَهُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَسَوْفَ یُنَبِّئُهُمْ اللهُ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۴۔اور لوگ ( مسیح کی دوستی اور ) نصرانیت کا دعویٰ رکھتے ہیں ، ان سے ( بھی ) ہم نے عہد و پیمان لیا ، لیکن ان لوگوں نے بھی اس چیز کا ایک حصہ فراموش کردیا جو انھیں دی گئی تھی لہٰذا ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لئے عداوت ڈال دی اور جو کچھ انھوں نے انجام دیا عنقریب خدا انھیں اس کے ( نتائج کے ) بارے میں آگاہ کرے گا ۔

دائمی دشمن

گذشتہ آیت میں بنی اسرائیل کی عہد شکنی سے متعلق گفتگو تھی اب اس آیت میں نصاریٰ کی پیمان شکنی کا تذکرہ ہے ۔ ار شاد فرمایا گیا ہے : دعوائے نصرانیت کرنے والوں کی ایک جماعت جس سے ہم نے عہد و فا لیا تھا پیمان شکنی کی مرتکب ہوئی انھیں جو احکام دئے گئے تھے ان کا ایک حصہ انھوں نے فراموش کردیا( وَمِنْ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَی اٴَخَذْنَا مِیثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِهِ ) ۔

ہاں انھوں نے بھی خد اسے پیمان باندھا تھا کہ وہ حقیقت توحید سے منحرف نہیں ہوں گے اور احکام الہٰی کو فراموش نہیں کریں گے اور آخری پیغمبر کی نشانیاں نہیں چھپائیں گے لیکن انھوں نے بھی یہودیوں کا سا طرز عمل اختیار کرلیا ۔ فرق یہ ہے کہ قرآن یہودیوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ان کی قلیل تعداد پاک اور حق شناس تھی لیکن نصاریٰ کے بارے میں کہتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ منحرف ہوگیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ عیسائیوں کی نسبت یہودیوں کی نسبت میں سے منحرف ہونے والے زیادہ تھے۔

موجودہ اناجیل کی تاریخ کہتی ہے کہ یہ ساری انجیلیں حضرت مسیح (علیه السلام) کے کئی سال بعد بعض عیسائیوں نے لکھی تھیں یہی وجہ ہے کہ ان میں واضح تناقضات موجود ہیں ۔ یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ انجیل کی آیات کا ایک اہم حصہ بھول چکے تھے موجودہ اناجیل میں واضح طور پر خرافات موجود ہیں مثلاً حضرت مسیح (علیه السلام) کی شراب خوری(۱)

کا ذکر ہے جو کہ عقل کے بھی خلاف ہے اور خود موجودہ تورات و انجیل کی بعض آیات کے بھی خلاف ہے ۔ اسی طرح مریم مجدلیہ کا قصہ بھی ہے ۔(۲)

ضمناً توجہ رہے کہ ” نصاریٰ“ ”نصرانی“کی جمع ہے ، عیسائیوں کو اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا ہے اس سلسلے میں مختلف احتمالات پیش کئے جاتے ہیں :

پہلا یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے بچپن ناصرہ شہر میں گزارا ۔

دوسرا یہ کہ لفظ نصران سے لیا گیا ہو ۔ یہ ایک بستی کا نام ہے جس سے نصاریٰ خاص لگاو رکھتے تھے ۔

تیسرا ی ہکہ جب حضرت مسیح (علیه السلام) نے لوگوں میں سے یاروانصار طلب کیے تو انھوں نے آپ کی دعوت قبول کرلی جیسا کہ قرآن میں ہے:

( کماقال عیسیٰ ابن مریم للحواریین من انصاری الیٰ الله قال الحواریون نحن انصار الله ) ۔

جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا کہ کون اللہ کے لئے میری نصرت کرنے والا ہوگا، تو حواریوں نے کہا کہ ہم انصار ِ خدا ہیں ۔ (صف ۱۴)

چونکہ ان سے بعض ایسے بھی تھے جو اپنے کہنے کے مطابق عمل نہ کرتے تھے اور صرف دعویٰ کی حد تک حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے یارو انصار تھے لہٰذا قرآن زیر بحث آیت میں کہتا ہے( ومن الذین قالوا انا نصاریٰ ) (ان لوگوں میں سے جو موجود کہتے تھے کہ ہم عیسیٰ کے مدد گار ہیں لیکن وہ اس دعویٰ میں سچے نہ تھے) ۔

اس کے بعد قرآن عیسائیوں کے اعمال کے بارے میں کہتا ہے کہ ان کے اعمال کے نتیجے میں ہم قیامت تک کے لئے ان میں دشمنی ڈال دی

( فَاٴَغْرَیْنَا بَیْنَهُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ ) ۔

ان کے لئے دوسری سزا کہ جس کی طرف آیت کے آخری حصے میں اشارہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ : عنقریب خدا انھیں ان کے اعمال کے نتائج کی خبر دے گا اور وہ عملی طور پر اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ( وَسَوْفَ یُنَبِّئُہُمْ اللهُ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ ) ۔

____________________

۱۔انجیل یو حنا، باب ۲، جملہ ۲ تا ۱۲۔

۲۔ انجیل لوقا، باب ۷، جملہ ۳۶ تا ۴۷۔

چند اہم نکات

۱۔ ” اغوینا“ کا مفہوم :

یہ لفظ ” اغراء“ کے مادہ سے ہے اس کا معنی ہے کسی چیز سے چمٹا دینا اور جو ڑ دینا ۔ بعد ازاں کسی کام کا شوق دلانے اور اس پر اکسا نے کے مفہوم میں استعمال ہو نے لگا کیونکہ یہ بات لوگوں کے معین اسباب سے مربوط ہونے کا سبب بنتی ہے ۔ لہٰذا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ نصاریٰ کی عہد شکنی اور غلط کاریاں اس بات کا سبب بنیں کہ ان میں عداوت و دشمنی اور نفاق و اختلاف پیدا کر دیا جائے ( کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اسبابِ تکوینی کے آثار کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے ) آج بھی عیسائی حکومتوں کے درمیان بے شمار کشمکش موجود ہیں جن کی بنا پر اب تک دو عالمی جنگیں ہوچکی ہیں ان میں گروہ بند یاں اور عداوت و دشمنی آج بھی جاری و ساری ہے ۔ علاوہ ازیں عیسائیوں کے مختلف مذاہب میں اختلافات اور عداوتیں اس قدرہیں کہ آج بھی وہ ایک دوسرے کا کشت و خون جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہاں مراد یہود و نصاریٰ کے درمیان دشمنی ہے جو رہتی دنیا تک جاری رہے گی لیکن آیت کا ظاہری مفہوم عیسائیوں کے مابین عداوت ہی کی تائید کرتا ہے ۔(۱)

شاید اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو کہ دردناک انجام عیسائیوں ہی میں منحصر نہیں اگر مسلمان ان کا طریقہ اپنا ئیں گے تو وہ بھی اس نتیجے سے دو چار ہو ں گے۔

۲۔ ”عداوت “اور” بغضاء“کا مفہوم :

”عداوت“ ” عدو“ کے مادہ سے تجاوز کرنے کے معنی میں ہے ، اور ” بغضاء“ بعض “ کے مادہ سے کسی چیز سے نفرت کرنے کے معنی میں ہے ان دونوں الفاظ میں یہ فرق ہو کہ ” بغض“ زیادہ تر قلبی پہلو رکھتا ہے جب کہ ” عداوت“ عملی پہلو رکھتی ہے یا کم از کم عملی اور قلبی دونوں پہلو رکھتی ہے ۔

۳۔ کیا یہودیت اور عیسائیت ہمیشہ موجود رہیں گی ؟ :

زیر بحث آیت میں یوں لگتا ہے جیسے نصاریٰ ایک مذہب کے پیرو کار ہونے کے حوالے سے زیادہ یہودو نصاریٰ دونوں )رہتی دنیا تک موجود رہیں گے۔ یہاں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی روایات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی (علیه السلام) کے ظہور کے بعد پورے عالم میں ایک سے زیادہدین نہی ہو گا اور وہ دین اسلام ہے تو ان دو باتوں کو کیسے جمع کیا جاسکتا ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ عیسائیت ( عیسا ئیت اور یہودیت) ایک بہت ہی کمزور اقلیت کے طور حضرت مہدی (علیه السلام) کے دور میں بھی باقی رہ جائے کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ اس دور میں بھی انسانوں سے ارادہ کی آزادی نہیں چھینی جائے گی اگر چہ دنیا کی قطعی اکثریت دین حق کو پالے گی اور اسے قبول کرلے گی ۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ پوری دنیاپر ایک اسلامی حکومت ہی ہو گی ۔

____________________

۱ ۔ اس بنا پر ” بینھم “ کی ضمیر نصاریٰ کی طرف ہی لوٹے گی کہ جن کا ذکر آیت کی ابتداء میں ہوچکا ہے ۔

آیات ۱۵،۱۶

۱۵۔( یَااٴَهْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَائَکُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیرًا مِمَّا کُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنْ الْکِتَابِ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ قَدْ جَائَکُمْ مِنْ اللهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِینٌ ) ۔

۱۶۔( یَهْدِی بِهِ اللهُ مَنْ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُهُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِهِ وَیَهْدِیهِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) ۔

ترجمہ

۱۵۔ اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آیاہے جو آسمانی کتاب کے ان بہت سے حقائق کو واضح کرے گا جنہیں تم چھپاتے تھے او ربہت سی چیزوں سے ( جن کی عملاً ضرورت نہیں ) صرفِ نظر کرلے گا ۔ خدا کی طرف سے تمہارے پاس نور اور واضح کتاب آئی ہے ۔

۱۶۔ جو لوگ اس کی خوشنودی کی پیروی کرتے ہیں خدا انھیں سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرے گا اور اپنے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر انہیں روشنی میں لیجائے گا انہیں راہِ راست کی ہدایت کرے گا ۔

تفسیر

گذشتہ آیات میں یہودو نصاریٰ اور ان کی عہد شکنیوں کے بارے میں گفتگو تھی ۔ اب ان آیات میں ان سے بلا واسطہ خطاب کے ذریعے انھیں اسلام کی طرف دعوت دی گئی ہے جس نے ان کے آسمانی دین کو خرافات سے پاک کیا اور انھیں اس راہِ راست کی ہدایت کی جارہی ہے جو پر قسم کے انحراف اور کجروی سے دور ہے ۔

پہلے فرمایاگیا ہے : اے کتاب ! ہمارا بھیجا ہوا تمہاری طرف آیاہے تاکہ آسمانی کتب کے وہ بہت سے حقائق آشکارکرے جنہیں تم نے چھپا رکھا تھا جب کہ بہت سی ایسی چیزیں جنھیں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اور جو گذشتہ ادوار سے مربوط ہیں ان سے صرف نظر کرے۔

( یَااٴَهْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَائَکُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیرًا مِمَّا کُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنْ الْکِتَابِ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ ) ۔

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے بہت سے حقائق چھپارکھے تھے لیکن پیغمبراسلام نے صرف وہ باتیں بیان کیں جن کی اس وقت لوگوں کو احتیاج تھی ۔ مثلاً حقیقت ِ توحید، انبیاء کی طرف نارواء نسبتیں جو کتب عہدین میں ان کی طرف دی گئی تھیں ، سود اور شراب کی حرمت اور اس طرح کے دیگر امور لیکن ان امور سے صرف نظر کرلیا جن کا تعلق گذشتہ امتوں اور زمانوں سے تھا اور موجودہ اقوام کے لئے ان کے بیان کا کوئی فائدہ نہ تھا ۔

اس کے بعد قرآن مجیدکی نصیحت و عظمت اور نوع بشرکی ہدایت و تربیت کے لئے اس کے گہرے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ خدا کی جانب سے تمہارے پاس نور اور واضح کتا ب آئی ہے( قَدْ جَائَکُمْ مِنْ اللهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِینٌ ) ۔ وہ نور آیا ہے کہ جس کے ذریعے خدا ان لوگوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے جو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے در پے ہیں( یَهْدِی بِهِ اللهُ مَنْ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ ) ۔

علاوہ ازیں انھیں طرح طرح کی ظلمتوں یعنی شرک، جہالت، پراکندی اور نفاق جیسی تاریکیوں سے توحید، علم اور اتحاد کے نور کی طرف رہبری کرتا ہے( وَیُخْرِجُهُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِهِ وَیَهْدِیهِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) ۔

پہلی آیت میں نور سے کیا مراد ہے ؟ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات ہے اور بعض کے نزدیک قرآن مجید ۔ قرآن مجید مختلف آٰات میں قرآن کو نور سے تشبیہ دی گئی ہے یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ زیر نظر آیت میں نور سے مراد قرآن حکیم ہی ہے ۔ اس بناء پر ” کتاب مبین“ اس پر لطف ِ تو ضیحی ہے ۔ سورہ اعراف آیت ۱۵۷ میں ہے :( فالذین اٰمنوا به و عزروه نصروه و اتبعوا النور الذی انزل معه اولئک هم المفلحون ) ۔

وہ لوگ جو پیغمبر پر ایمان لے آئے ہیں اور انھوں نے اس کی عظمت کو تسلیم کرلیا ہے اور ان کی مدد کی ہے اور اس نور کی پیروی کی ہے جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے ، اہل نجات اور کامیاب ہیں ۔

سورہ تغابن آیہ ۸ میں ہے( فامنوا بالله و رسله و النور الذی انزلنا )

خدا ، اس کے پیغمبر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے، ایمان لے آو۔

اسی طرح متعدد دیگر آیات بھی ہیں لیکن لفظ نور کا اطلاق پیغمبر اسلام، کی ذات پر قرآن میں نظر نہیں آتا ۔

علاوہ ازیں بعد والی آیت میں ” بہ “ کی ضمیر مفرد ہے اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ نور او رکتاب مبین ایک ہی حقیقت ہیں ۔

البتہ متعدد روایات میں نور سے امیر المومنین (علیه السلام) یا تمام آئمہ اہل بیت (علیه السلام) مراد لئے گئے ہیں لیکن واضح ہے کہ یہ آیات کے مختلف بطون کے حوالے سے ایک بطن کی تفسیر کی طرح ہے ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کے ظاہری معانی کے علاوہ کچھ باطنی مفاہیم بھی ہیں جنھیں ” بطون ِ قرآن“ کہا جاتا ہے یہ جو ہم نے کہا ہے کہ واضح ہے کہ یہ تفسیربطون قرآن سے مربوط ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت آئمہ موجود نہیں تھے کہ اہل کتاب کو ان پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دوسری آیت رضائے الہٰی کے حصول کے لئے قدم بڑھا نے والوں کو نوید سناتی ہے کہ قرآن کے سائے میں انھیں تین عظیم نعمتیں دی جائیں گی ۔

پہلی نعمت سلامتی کی شاہراہ کی ہدایت ہے یہ سلامتی در حقیقت ، فرد، معاشرے ، روح ،خاندان اور اخلاق کی سلامتی ہے ( اور یہ سلامتی عملی پہلو رکھتی ہے ) ۔

دوسری نعمت کفر اور بے دینی کی ظلمتوں سے نکال کر نور ایمان کی طرف لے جانا ہے ( یہ اعتقادی پہلو رکھتی ہے ) ۔

تیسری نعمت ان تمام چیزوں کو مختصر ترین اور نزدیک ترین راستے سے انجام دینا ہے ، جسے ” صراط مستقیم “ کہتے ہیں ۔

لیکن یہ سب نعمتیں ان لوگوں کو نصیب ہوں گی جو تسلیم اور حق گوئی کے در وازے سے داخل ہوں گے اور ” من اتبع رضوانہ“ کے مصداق ہوں گے۔ منافقین اور ہٹ دھرم افراد جو حق سے دشمنی رکھتے ہیں انھیں اس سے کوئی فائدہ نصیب نہیں ہوگا، جیسا کہ قرآن کی دیگر آیات گواہی دیتی ہیں ۔

نیز ان سب آثار کا سر چشمہ خدا کا حتمی ارادہ ہے جس کی طرف لفظ” باذنہ“ سے اشارہ کیا گیا ہے ۔