تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26105
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26105 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیات ۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

۲۰۔( وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ اٴَنْبِیَاءَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ اٴَحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ ) ۔

۲۱۔( یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الْاٴَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ اللهُ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی اٴَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِین ) ۔

۲۲۔( قَالُوا یَامُوسَی إِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ ) ۔

۲۳۔( قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی اللهِ فَتَوَکَّلُوا إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) ۔

۲۴۔( قَالُوا یَامُوسَی إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا اٴَبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ اٴَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَإِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ( ۲۴ ) قَالَ رَبِّ إِنِّی لاَاٴَمْلِکُ إِلاَّ نَفْسِی وَاٴَخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ) ۔

۲۵۔( قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اٴَرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الْاٴَرْضِ فَلاَتَاٴْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ) ۔

ترجمہ

۲۰۔وہ وقت یاد کرو ) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے قوم ! تم پر خدا نے جو نعمت کی ہے اسے یاد رکھو، جب اس نے تمہارے انبیاء مقرر کئے ( اور فرعونی استعمار کی زنجیر توڑدی) اور تمہیں خود اپنا مختا ر بنادیا او رتمہیں ایسی کئی چیزیں بخشیں جو عالمین میں سے کسی کو نہیں دیں ۔

۲۱۔ اے قوم ! سر زمین مقدس میں داخل ہو جاو جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے اور اپنے پچھلے پاوں نہ لوٹ جاو ( اور پیچھے نہ ہٹو ) کہ خسارے میں رہو گے ۔

۲۲۔ وہ کہنے لگے : اے موسیٰ ! اس سر زمین میں ظالم رہتے ہیں جب تک وہ نکل نہ جائیں ہم اس میں ہر گز داخل نہ ہوں گے ، وہ نکل جائیں تو ہم اس میں داخل ہوجائیں گے۔

۲۳۔ ان لوگوں میں سے دو شخص دو خدا سے ڈرتے تھے اور خدا نے ( عقل، ایمان اور شجاعت کی صورت میں ) انھیں اپنی نعمت سے نوازا تھا کہنے لگے: ان کے شہر کے دروازے میں داخل ہوجاو، جب تم داخل ہو گئے تو کامیاب ہو جاو گے اور خدا پر توکل کرو اگر ایمان رکھتے ہو ۔

۲۴۔ بنی اسرائیل کہنے لگے: اے موسیٰ ! جب تک وہ اس میں ہیں ہم ہر گز وہاں نہیں جائیں گے تو اور تیرا پر وردگار جائے اور ( ان سے ) جنگ کرے، ہم تو ییں بیٹھیں گے ۔

۲۵۔ موسیٰ نے کہا: پر وردگارا ! میرا تو بس اپنے پر اور اپنے بھائی پر بس چلتا ہے ، میرے اور اس کے گنہ گار جماعت کے درمیان جدائی ڈال دے۔

۲۶۔خدا نے موسیٰ سے فرمایا : یہ سر زمین چالیس سال تک ان کے لئے ممنوع ہے ( اور یہاس تک نہیں پہنچ سکیں گے ) اورہمیشہ زمیں میں سر گرداں رہیں گے اور اس گنہ گار جمیعت ( کے انجام ) کے بارے میں غمگین نہ ہو۔

بنی اسرائیل اور سر زمین ِ مقدس

ان آیات میں یہودیوں میں روحِ حق شناسی بیدار کرنے ،گذشتہ خطاوں کے بارے میں ان کے شعور کو دعوت دینے اور انھیں ان خطاوں تلافی پر ابھارا نے کے لئے فرمایا گیا ہے : وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے پیرو کاروں سے کہاکہ خدا نے تمہیں جو نعمتیں بخشی ہیں انھیں فراموش نہ کرو( وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُم ) ۔

واضح ہے کہ ” نعمةاللہ “ کا مفہوم پروردگار کی تمام نعمات پر محیط ہے ۔ لیکن یہاں ان کے تین کی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔

پہلی یہ کہ بہت سے انبیاء اور رہبران ان میں پیدا ہوئے یہ در اصل ان کے لئے سب سے بڑی نعمت تھی (إ( ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ اٴَنْبِیَاء ) یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ صرف حضرت موسیٰ بن عمران کے زمانے میں ستر سے زیادہ پیغمبر تھے ۔ وہ تمام ستر افراد جو حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے ہمراہ کوہ طور پر گئے تھے، انبیاء کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اسی نعمت کی برکت سے وہ شرک، بت پرستی اور گوسالہ پرستی جیسی ہولناک مصیبتوں سے رہا ہوئے اور انھوں نے طرح طرح کے خرافات موہومات، قباحتوں اور نجاستوں سے نجات حاصل کی ۔ یہ ان کے لئے عظیم ترین نعمت تھی ۔

ایک عظیم مادی نعمت تھی جو اپنے مقام پر روحانی نعمتوں کے لئے ایک مقدمہ بھی ہے ۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : تمہاری جان و مال اور زندگی کا اختیار خود تمہارے ہاتھ میں دے دیا( وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا ) یعنی خدا نے تم سب کو یہ مقام عطا کیا ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آیت سے مراد ہی کچھ ہے جو ہم نے سطور بالا میں کہا ہے ۔ علاوہ ازیں ” ملک“ ( بر وزن” الف“ ) لغت میں بادشاہ او رصاحب اقتدار کے معنی میں بھی آتا ہے ۔(۱)

در منثور میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے :

کانت بنو اسرائیل اذاکان لاحد هم کادم و دابة و امراٴة کتب ملکاً

بنی اسرائیل میں سے جس شخص کے پاس غلام ، گھوڑا اور بیوی ہوتی اسے ملک کہتے۔(۲)

آیت کے آخر میں کلی طور پر ان اہم نعمتوں کاذکر ہے جو اس زمانے میں کسی اور کو نہیں دی گئی تھی ، تمہیں ایسی چیزیں دی گئیں جو عالمین میں سے کسی کو نہیں دی گئی تھیں( وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ اٴَحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ ) ۔

ایسی طرح طرح کی بہت زیادہ نعمتیں تھیں ان میں سے یہ بھی تھیں کہ انھیں معجزانہ طور پر فرعون سے نجات ملی ، ان کے لئے دریا شق ہوا اور امَن و سلویٰ جیسی خاص غذا انھیں مسیر آئی ۔ اس کی تفصیل سورہ بقرہ آیت ۵۷ کے ذیل میں جلد اول ( ص ۲۱۴ ، اور دو ترجمہ ) میں گذر چکی ہے ۔

اس کے بعد سر زمین مقدس میں بنی اسرائیل کے حدود کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے : موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تم سر زمین مقدس میں جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے داخل ہو جاو، اس سلسلے میں مشکلات سے نہ ڈرو، دا کاری سے منہ نہ موڑو او راگر تم نے اس حکم سے پیٹھ پھیری تو خسارے میں رہو گے

( یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الْاٴَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ اللهُ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی اٴَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِین ) ۔

آیت میں ارض مقدسہ سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں مفسرین نے بہت کچھ کہا ہے ، بعض بیت المقدس کہتے ہیں کچھ اردن یا فلسطین کانام لیتے ہیں اور بعض سر زمین طور سمجھتے ہیں ، لیکن بعید نہیں کہ اس سے مراد منطقہ شامات ہو، جس میں تمام مذکورہ علاقے شامل ہیں کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ یہ سارا علاقہ انبیاء الہٰی کا گہوارہ، عظیم ادیان کے ظہور کی سر زمین اور طویل تاریخ میں توحید، خدا پرستی اور تعلیماتِ انبیاء کی نشر و اشاعت کا مرکز رہا ہے لہٰذا اسے سر زمین مقدس کہا گیا ہے اگر چہ بعض اوقات خاص بیت المقدس کو بھی ارض مقدس کہا جاتا ہے ۔

( کتب الله علیکم ) “ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ نبی اسرائیل سر زمین مقدس میں امن و سکون اور خوشحالی کی زندگی بسر کریں ( اس شرط کے ساتھ کہ اسے شرک اور بت پرستی سے پاک رکھیں اور خود بھی انبیاء کی تعلیم سے منحرف نہ ہوں ) لیکن وہ اگر اس حکم پر کار بند نہ رہے تو انھیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پرے گا ۔ لہٰذا اگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کی مخاطب نبی اسرائیل کی ایک نسل اس سر زمین میں داخل نہ ہوسکی اور چالیس سال تک بیا بان میں س رگرداں رہی اور ان کی اگلی نسل کو یہ توفیق ملی تو یہ بات ”( کتب الله لکم ) “ ( خدا نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے ) کے مفہوم کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہ بات چند شرائط سے مشروط تھی جنہیں انھوں نے پورا نہیں کیا ۔ جیسا کہ بعد والی آیت سے معلوم ہوتا ہے ۔

بنی اسرائیل نے اس حکم پر حضرت موسیٰ (علیه السلام) کو وہی جواب دیا جو ایسے موقع پر کمزور ، بزدل اور جاہل لوگ دیا کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ تمام کامیابیاں انھیں اتفاقاً اور معجزانہ طور پر ہی حاصل ہو جائیں یعنی لقمہ بھی کوئی اٹھاکر ان کے منہ میں ڈال دے ، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے: آپ جانتے ہیں کہ اس علاقے میں ایک جابر اور جنگجوگروہ رہتا ہے جب تک وہ اسے خالی کرکے باہر نہ چلاجائے ہم تو اس علاقے میں قدم تک نہیں رکھیں گے ۔ اسی صورت میں ہم آپ کی اطاعت کریں گے اور سر زمین ِ مقدس میں داخل ہو ں گے۔

( قَالُوا یَامُوسَی إِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِین َوَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ ) ۔(۳)

بنی اسرائیل کا یہ جواب اچھی طرح نشاندہی کرتا ہے کہ طویل فرعونی استعمار نے ان کی نسلوں پر کیسا منحوس اثر چھوڑا تھا ۔ لفظ” لن “ جو دائمی نفی پر دلالت کرتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ سر زمین مقدس کی آزادی کے لئے مقابلے سے کس قدر خوفزدہ تھے ۔

چاہیے تو یہ تھاکہ بنی اسرائیل سعی و کوشش کرتے، جہاد و قربانی کے جذبے سے کام لیتے اور سر زمینِ مقدس پر قبضہ کرلیتے اگر فرض کریں کہ سنت الہٰی کے بر خلاف بغیر کسی اقدام کے ان کے تمام دشمن معجزانہ طور پر نوبود ہو جاتے اور بغیر کوئی تکلیف اٹھائے وہ وسیع علاقے کے وارث بن جاتے تو اس کا نظام چلانے اور ا س کی حفاظت میں بھی ناکام رہتے ۔ بغیر زحمت سے حاصل کی ہوئیہ چیز کی حفاظت سے انھیں سرو کار ہو سکتا تھا نہ وہ اس کے لئے تیار ہوتے اور نہ اہل ۔جیساکہ تواریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیت میں قوم ِ جبار سے مراد قوم عمالقہ(۴)

ہے یہ لوگ سخت جان اور بلند قامت تھے ۔ یہاں تک کہ ان کی بلند قامت تھے ۔ یہاں تک کہ ان کی بلند قامت کے بارے میں بہت مبالغے ہوئے اور افسانے تراشے گئے۔ اس سلسلے میں مضحکہ خیز باتیں گھڑی گئیں جن کے لئے کوئی عملی دلیل نہیں ہے ۔

خصوصاً ” عوج“ کے بارے میں خرافات سے معمور ایسی کہانیاں تاریخوں میں ملتی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے افسانے جن میں سے بعض اسلامی کتب میں بھی آگئے ہیں ، در اصل نبی اسرائیل کے گھڑے ہوئے ہیں انھیں عام طور پر ” اسرائیلیات“ کہا جاتا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خود موجودہ تورات کے متن میں ایسے افسانے دکھائی دیتے ہیں ۔ سفر اعداد کی تیرہویں فصل کے آخر میں ہے ۔

اس زمین کے بارے میں جس کے تجسس میں (نبی اسرائیل کے جاسوس) لگے ہوئے تھے انھوں نے آکر ایک بری خبر دی ۔ وہ کہنے لگے کہ جس زمین کے بارے میں ہم تجسس کرنے گئے ہوئے تھے جب ہم اس کے نزدیک سے گزرے تو دیکھا کہ و ہ ایسی زمین ہے جو اپنے رہنے والوں کو تلف کردیتی ہے اور اس میں ہم نے جتنے لوگوں کو دیکھا سب بلند قامت تھے ۔ وہاں ہم نے بلند قد والوں یعنی اولاد عناق جو بلند قامت ہیں و دیکھا ہے ہمیں ایسا لگا جیسے ٹڈی دل ہیں اور خود ان کی نگاہوں میں بھی ہم ایسے ہیں تھے۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے : اس وقت اہل ایمان میں سے دو افراد ایسے تھے جن کے دل میں خوفِ خدا تھا اور اس بنا پر انھیں عظیم نعمتیں مسیر تھیں ان میں اتقامت و شجاعت بھی تھی، وہ دوراندیش بھی تھے اور اجتماعی اور فوجی نقطہ نظر سے بھی بصیرت رکھتے تھے انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دفاعی تجویز کی حمایت کی اور بنی اسرائیل سے کہنے لگے: تم شہر کے در وازےسے داخل ہو جاو اور اگر تم داخل ہو گئے تو کامیاب ہو جاو گے( قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ ) ۔

لیکن ہر صورت میں تمہیں روح ایمان سے مدد حاصل کرنا چاہئیے خدا پر بھروسہ کرو تاکہ اس مقصد کو پالو( وَعَلَی اللهِ فَتَوَکَّلُوا إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) ۔

اس بارے میں کہ یہ دوا آدمی کون تھے ؟ اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ یوشع بن نون اور کالب بن یوحنا ( یوفنہ بھی لکھتے ہیں ) تھے جو بنی اسرائیل کے نقیبوں میں سے تھے کہ جن کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے ۔(۵)

من الذین یخافونکی تفسیر میں بھی کئی احتمالات پیش کئے گئے ہیں لیکن واضح ہے کہ ظاہری مفہوم یہ ہے کہ وہ دونوں مرد ایسے تھے جو خدا سے ڈر تے تھے اسی لئے تو انھیں غیر خدا کا کوئی خوف نہ تھا ۔

انعم الله علیهما خدا نے ان پر فراوان نعمت کییہ جملہ مندرجہ بالا مفہوم کا شاہد ہے کیونکہ اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو گی کہ انسان صرف اللہ سے ڈرے نہ کہ اس کے غیر سے ۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ دو شخص کیسے جانتے تھے کہ اگر بنی اسرائیل اچانک حملہ کرکے شہر میں داخل ہو جائیں تو عمالقہ شکست کھاجائیں گے ۔

شاید یہ اس لئے ہو کہ وہ موسیٰ (علیه السلام) بن عمران کے وعدہ فتح و نصرت پر اعتمادرکھتے تھے اور اس کے علاوہ وہ ہ بھی جانتے تھے کہ تمام جنگوں کا ایک یہ اصول ہے کہ اگر حملہ آور فوج اپنے دشمن کے اصلی مرکز پرجاپہنچے یعنی اس کے گھر میں جاکر لڑے، تو عام طور پر کامیاب ہوجاتی ہے ۔ ۶

فوا لله ماغزی قوم فی عقر دار هم الاذلوا بخداجس قوم پر بھی اس کے گھر میں حملہ کیا گیا ،وہ ذلیل ہوئی ۔ (خطبہ۔ ۲۷)

علاوہ از ایں جیساکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ عمالقہ ایک تنومند اور قوی ہیکل قوم تھی ( البتہ ان کے بارے میں افسانوی پہلووں کا ہم نے انکار کیا ہے ) اور ایسی قوم بیابانی جنگ میں اپنی مہارت کا بہتر مظاہرہ کرسکتی ہے لیکن شہر کے گلی کوچوں میں ویسا نہیں لڑسکتی ۔ ان سب باتوں سے قطع نظر جیسا کہ کہا جاتا ہے وہ لوگ تنومند اور قوی ہیکل ہو نے کے باوجود ڈر پوک تھے اور اچانک حملے سے جلدی مرعوب ہو جاتے ۔ ان تمام امور کے باعث ان دو افراد نے بنی اسرائیل کی کامیابی کی ضمانت دی تھی ۔ مگر بنی اسرائیل نے یہ تجویز قبول نہ کی اور ضعف و کمزوری جو ان کی روح پر قبضہ کرچکی تھی، کے باعث انھوں نے صراحت سے حضرت موسیٰ (علیه السلام) سے کہا: جب تک وہ لوگ اس سر زمین میں ہیں ہم ہر گز داخل نہیں ہو ں گے ، تم اور تمہارا پر وردگار جس نے تم سے کامیابی کا وعدہ کیا ہے ، جاو اور عمالقہ سے جنگ کرو اور جب کامیاب ہو جاو تو ہمیں بنا دیان ہم یہیں بیٹھے ہیں( قَالُوا یَامُوسَی إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا اٴَبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ اٴَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَإِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ )

یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ نبی اسرائیل نے اپنے پیغمبرکے سامنے جسارت کی انتہا کردی تھی، کیونکہ پہلے تو انھوں نے لفظ ” لن“ اور ” ابدا“ استعمال کرکے اپنی صریح مخالفت کااظہار کیکا اور پھر یہ کہا کہ تم اور تمہارا پر ور دگارجاو اور جنگ کرو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں انھوں نے حضرت موسیٰ (علیه السلام) اور ان کے وعدوں کی تحقیر کی یہاں تک کہ خدا کے ان دو بندوں کی تجویز کی بھی پر واہ نہیں کی اور شاید انھیں تو کوئی مختصر سا جواب تک نہیں دیا ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ موجودہ تورات میں بھی اس داستان کے بعض اہم حصے موجود ہیں ۔ یہ واقعہ سر اعداد باب ۱۴ میں ہے ،جہاں مذکورہ ہے :

تمام بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون پر معترض ہو ئے اور سب انھیں کہنے لگے کہ کاش ہم سر زمین مصر ہیں میں مر گئے ہو تے یا پھر کسی جنگل بیابان میں مر جاتے۔ خدا اس زمین میں ہمیں کیوں لے آیا ہے کہ جہاں ہم تلوار زنی کاشکار ہو جائیں اور ہمار ی عورتیں اور بچے لوٹ کا مال بن جا ئیں پس موسیٰ اور ہارون بنی اسرائیل عوامل کے سامنے منہ کے بل گر پڑے اور یو شع بن نون اور کالیب بن یفتہ جو زمین کے متجسسین میں سے تھے انھوں نے اپنا گریبان چاک کرلیا ۔

اگلی آیت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں سے بالکل مایوس ہو گئے اور انھوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئے اور ان سے علیحدگی کے لئے یوں تقاضا کیا : پر ور دگاررا ! میرا صرف اپنے آپ پر اور اپنے بھائی پر بس چلتا ہے : خدا یا ! ہمارے اور اس فاسق و سر کش گروہ میں جدائی ڈال دے تاکہ وہ اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ لیں اور ان کی اصلاح ہو جائے( قَالَ رَبِّ إِنِّی لاَاٴَمْلِکُ إِلاَّ نَفْسِی وَاٴَخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ) ۔

البتہ نبی اسرائیل نے جو کام کیا تھا یعنی اپنے پیغمبر کے حکم صریح کی نافرمانی وہ کفر کی حد تک پہنچی ہو تھی اور اگر قرآن نے انھیں فاسق کا لقب دیا ہے تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ” فاسق“ ایک وسیع معنی رکھتاہے اور اس میں ہر طرح کی عبودیت اور خدا کی بندگی سے خارج ہونے کا مفہوم شامل ہے اسی لئے شیطان کے بارے میں ہے :( ففسق عن امر ربه )

وہ فرمان خدا کے مقابلے ،میں فاسق ہو گیا اور اس نے مخالفت کی ۔ (کہف ۵۰)

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ گذشتہ آیات میں ” من الذین یخافون“ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں اقلیت میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جو خدا سے ڈرتے تھے ۔ یوشع اور کالیب ایسے ہی افراد میں سے تھے لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) اپنا اور اپنے بھائی ہارون (علیه السلام) ہی کا نام لیتے ہیں اور ان دونوں کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ شاید یہ اس لئے ہو کہ حضرت ہارون (علیه السلام) ایک تو حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے جانشین تھے اور دوسرا یہ کہ حضرت مویسٰ (علیه السلام) کے بعد نبی اسرائیل میں سب سے زیادہ افضل تھے لہٰذا خصوصیت سے ان کا نام لیا گیا ہے ۔

آخر کار حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور بنی اسرائیل اپنے ان برے اعمال کے انجام سے دو چار ہو ئی ۔ خداکی طرف سے حضرت موسیٰ (علیه السلام) کو وحی ہوئی : یہ لوگ اس مقدس سر زمین سے چالیس سال تک محروم رہیں گے جو طرح طرح کی مادی اور روحانی نعمات سے مالا مال ہے( قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اٴَرْبَعِینَ سَنَةً ) ۔علاوہ ازیں ان چالس سالوں میں انھیں اس بیابان میں سر گرداں رہنا ہو گا( یَتِیهُونَ فِی الْاٴَرْض ) ۔(۷)

اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا ہے : اس قوم کے سر پر جو کچھ بھی آئے وہ صحیح ہے ، ان کے اس انجام پر کبھی غمگین نہ ہونا( فَلاَتَاٴْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ) ۔

آخری جملہ شاید اس لئے ہو کہ جب بنی اسرائیل کے لئے یہ فرمان صادر ہوا کہ وہ چالیس سال تک سزا کے طور پر بیابان میں سر گرداں رہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں جذبہ مہربانی پیدا ہوا اور شاید انھوں نے در گاہ خدا وندی میں ان کے لئے عفوو در گذر کی در خواست بھی کی ہو جیسا کہ موجودہ تورات میں بھی ہے لیکن انھیں فوراً جواب دیا گیا کہ وہ اس سزا کے مستحق ہیں نہ کہ عفو و در گذر کے ، کیونکہ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ وہ فاسق اور سر کش لوگ تھے اور جو ایسے ہوں ان کے لئے یہ انجام حتمی ہے ۔

توجہ رہے کہ ان کے لئے چالیس سال کی یہ محرومیت انتقامی جذبے سے نہ تھی( جیسا کہ خدا کی طرف سے کوئی سزابھی ایسی نہیں ہوتی بلکہ یا اصلاح کے لئے ہوتی ہے اور یا عمل کا نتیجہ)در حقیقت اس کا ایک فلسفہ تھا اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل ایک طویل عرصے تک فر عونی استعمار کی ضربیں جھیل چکے تھے ۔ اس عرصے میں حقارت آمیز رسومات، اپنے مقام کی عدم شناخت اور احساسات ِ ذلت کا شکار ہو چکے تھے اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم رہبر کی سر پرستی میں اس تھوڑے سے عر صے میں اپنی روح کو ان خامیوں سے پا ک نہیں کر سکتے تھے اور وہ ایک ہی جست میں افتخار، قدرت اور سر بلندی کی نئی زندگی کے لئے تیار نہیں ہو پاتے تھے ۔ حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے انھیں مقدس سر زمین کے حصول کے لئے جہاد آزادی کا جو حکم دیا تھا اس پر عمل نہ کرنے کے لئے انھوں نے جو کچھ کہا وہ اس حقیقت کی واضح دلیل ہے لہٰذا ضروری تھا کہ وہ ایک طویل مدت وسیع بیابانوں میں سر گرداں رہیں اور اس طرح ان کی ناتواں اور غلامانہ ذہنیت کی حامل موجودہ کمزور نسل آہستہ آہستہ ختم ہو جائے اور نئی نسل حریت و آزادی کے ماحول میں اور خدائی تعلیمات کی آغوش میں پر وان چڑھے تاکہ وہ اس قسم کے جہاد کے لئے اقدام کر سکے اور اس طرح سے اس سر زمین پر حق کی حکمرانی قائم ہو سکے۔

____________________

۱۔کتب لغت میں ہے : الملک من کان لہ الملک و الملک ھو مایملکہ الانسان و یتصرف بہ ۔ او ۔ العظمة و السلطة ۔مَلِک وہ شخص ہے جو مِلک رکھتا ہو اور مِلک ان سب چیزوں کو کہتے ہیں جس کا انسان مالک ہو اور ان میں تصرف کرے ۔

۲ ۔ المیزان جلد ۵ ص ۳۱۹ ، تفسیر طبرسی ج۶ ص ۱۰۸ میں بھی یہ روایت نقل ہے ۔

۳ توجہ رہے کہ لفظ ”جبار“ اصل میں مادہ ” جبر “ سے ہے اس کامعنی ہے کہ کسی چیز کی قوت سے اور زبر دستی اصلاح کرنا، اسی لئے ٹوٹی ہوئے ہڈی باندھنے کو ” جبر“ کہتے ہیں ۔ بعد ا زاں ایک طرف ہر طرح کی اصلاح اور دوسری طرف ہر طرح کے تسلط اور غلبہ کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا خدا کو بھی جبار اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ تمام چیزوں پر تلسط رکھتا ہے یا ہر محتاج کی اصلاح کرتا ہے ۔

۴ عمالقہ ، سام کی اولاد میں سے ایک قوم تھی یہ لوگ جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں صحرائے سینا کے نزدیک رہتے تھے وہ مصر پر حملہ آور ہوئے اور مدتوں اس پر قابض رہے ان کی حکومت کا عرصہ تقریباً ۵۰۰ سال تھا ( ۲۲۱۳ ق م سے لے کر ۱۷۰۳ ق م تک ) ۔ ( دائرة المعارف فرید وجدی ج۶ ص ۲۳۲ طبع سوم )

۵ ۔ موجودہ تورات کے سفر تثنیہ باب اول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان افراد کے نام یوشع اور کالب تھے ۔

۶ ۔ نہج البلاغہ میں بھی خطبہ جہاد میں اس جنگی حکمت ِ عملی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ امیر المومنین (علیه السلام) فرماتے ہیں ۔

۷ ۔”یتھون “ کا مادہ ” تیہ“ ہے جس کا معنی ہے سر گردانی ۔ بعد ازاں ” تیہ“ اس بیا بان کا نام ہو گیا جس میں بنی اسرائیل سر گر داں رہے۔ جیسا کہ ہم تفسیرنمونہ جلد اول ( ص ۲۱۳، ار دو ترجمہ)بیان کرچکے ہیں یہ صحرا، صحرائے سینا کا ایک حصہ ہے ۔

آیات ۲۷،۲۸،۲۹

۲۷۔( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاٴَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اٴَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنْ الْآخَرِ قَالَ لَاٴَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنْ الْمُتَّقِینَ ) ۔

۲۸۔( لَئِنْ بَسَطتَ إِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِی مَا اٴَنَا بِبَاسِطٍ یَدِی إِلَیْکَ لِاٴَقْتُلَکَ إِنِّی اٴَخَافُ اللهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ ) ۔

۲۹۔( إِنِّی اٴُرِیدُ اٴَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ فَتَکُونَ مِنْ اٴَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِکَ جَزَاءُ الظَّالِمِینَ ) ۔

ترجمہ

۲۷۔ آدم کے دو بیٹوں کا قصہ حق کے ساتھ ان کے سامنے پڑھیے جبکہ ان میں سے ہر ایک نے( پر وردگار کے) تقرب کے لئے کام کیا مگر وہ ایک کا ( عمل )تو قبول ہوگیا لیکن دوسرے سے قبول نہ کیا گیا ( وہ بھائی جس کا عمل قبول نہیں ہوا تھا دوسرے بھائی سے ) کہنے لگا : خدا کی قسم میں تجھے قتل کر دوں گا ۔ (دوسرے بھائی نے کہا: ( میں نے کونسا گناہ کیا ہے ، کیونکہ ) خدا تو صرف پر ہیز گاروں سے قبول کرتا ہے ۔

۲۸۔ اگر تو میرے قتل کے لئے ہاتھ بڑھائے تو میں تو تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاوں گا،کیونکہ میں عالمین کے پروردگارسے ڈرتا ہوں ۔

۲۹۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ( تو یہ عمل انجام دے کر ) میرا اور اپنا بوجھ اٹھائے ہو ئے لوٹے اور ( دونوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ) تو جہنمیوں میں سے ہو جائے اور ستمگر وں کی یہی سزا ہے ۔

روئے زمین پر پہلا قتل

ان آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کا ذکر ہے ان میں سے ایک کے ہاتھوں دوسرے کے قتل کے بارے میں داستان بیان کی گئی ہے ۔ ان آیات کا گذشتہ آیات سے شاید یہ ربط ہو کہ بنی اسرائیل کے بہت سے غلط اعمال کا سبب حسد تھا ان آیات کے ذریعے خدا تعالیٰ انھیں متوجہ کر رہا ہے کہ حسد کا انجام کتنا ناگوار ہولناک ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کہ وجہ سے ایک بھائی اپنے بھائی کے خون سے بھی ہاتھ رنگین کرلیتا ہے پہلے فرمایا: اے پیغمبر! انھیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنا دیجئے( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاٴَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ ) ۔

” بالحق“ ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ مذکورہ سر گذشت عہد قدیم ( تورات) میں بڑی خرافات کی آمیزش کے ساتھ بیان کیا گئی ہے لیکن قرآن میں اس حقیقت و واقعیت کو بیان کیا گیا ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ یہاں ” آدم “ سے مراد ہی مشہور آدم ہیں جو موجودہ نسل انسانی کے پہلے باپ ہیں اور یہ جو بعض نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ اس سے مراد آدم بنی اسرائیل میں سے ایک فرد تھا، بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ یہ لفظ قرآن مجید میں بار ہا اس معنی میں استعمال ہوا ہے کہ اور اگر یہاں کو ئی معنی مراد ہوتا تو ضروری تھا کہ ا س کے لئے کوئی قرینہ ہوتا باقی رہی آیت” من اجل ذٰلک“ کہ جس کی تفسیر عنقریب آئے گی جیسا کہ ہم وضاحت کریں گی ہر گز اس معنی کے لئے قرینہ قرار نہیں پا سکتی ۔اس کے بعد واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : جب ہر ایک نے تقربِ پر وردگار کے لئے ایک کام انجام دیا تو ایک کا عمل تو قبول کرلیا گیا لیکن دوسرے کا قبول نہ ہوا( إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اٴَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنْ الْآخَرِ ) ۔

اسی وجہ سے جس کا عمل قبول نہ ہوا تھا اس نے دوسرے بھائی کا قتل کی دھمکی دی اور قسم کھا کر کہا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا( قَالَ لَاٴَقْتُلَنَّک ) ۔لیکن دوسرے بھائی نے اسے نصیحت کی اور کہا کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تو اس میں میرا کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ اعتراض تو تجھ پر ہونا چاہئیے کیونکہ تیرے عمل میں تقویٰ شامل نہیں تھا اور خدا تو صرف پر ہیز گاروں کا عمل قبول کرتا ہے ( قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنْ الْمُتَّقِینَ) ۔مزید کہا کہ حتی اگر تم اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناو اور میرے قتل کے لئے ہاتھ بڑھاوتو میں ہر گز ایسا نہیں کروں گا اور تمہارے قتل کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاوں گا ۔

( لَئِنْ بَسَطتَ إِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِی مَا اٴَنَا بِبَاسِطٍ یَدِی إِلَیْکَ لِاٴَقْتُلَکَ ) ۔

کیونکہ میں تو خدا سے ڈرتا ہوں اور ایسے گناہ سے ہر گز اپنے ہاتھ آلودہ نہیں کروں گا ۔( إِنِّی اٴَخَافُ اللهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ ) ۔

علاوہ ازیں میں نہیں چاہتا کہ دوسرے کے گناہ کا بوجھ اپنے گردن پر لادلوں بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ تم ہی میرے اپنے گناہ کا بار اپنے کندھے پر اٹھا لو

( کیونکہ اگر واقعاً تم اپنے اس دھمکی کو عملی جامہ پہناو تو میرے گذشتہ گناہوں کا بوجھ بھی تمہارے کندھوں پر آپڑے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ تم مجھ سے حقِ حیات چھینو گے توتوان بھی تمہی کو دینا ہو گا اور چونکہ تمہارے پاس کوئی عمل صالح نہیں ہے لہٰذا میرے گناہ تمہیں اپنے کندھوں پر اٹھا نا ہوں گے ۔( إِنِّی اٴُرِیدُ اٴَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ ) ۔(۱)

اور مسلم ہے کہ یہ بوجھ اٹھا کر تم جہنمیوں میں سے ہو جاو گے اور ستمگروں کی یہی سزا ہے( فَتَکُونَ مِنْ اٴَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِکَ جَزَاءُ الظَّالِمِینَ ) ۔

____________________

۱” تبوء“ مادہ ” بواء“ سے ہے اور اس کا معنی ہے ” باز گشت“

چند اہم نکات

۱ آدم کے بیٹوں کے نام -:

قرآن مجید میں حضرت آدم (علیه السلام) کے بیٹوں کے نام نہیں لیا گیا ہے،نہ اس جگہ اور نہ کسی اور مقام پر لیکن اسلامی روایات کے مطابق ایک نام ہابیل ہے اور دوسرے کا قابیل ۔ موجودہ تورات کے سفر تکوین کے چوتھے باب میں ایک نام قائن مذکور ہے اور دوسرے کا ہابیل۔ جیسا کہ مشہور مفسر ابو الفتح رازی کہتے ہیں ہر ایک کے نام میں چند لغوی پہلو ہیں ۔

پہلے کانام ” ہابیل ، ” ہابل“ یا ” ہابن“ تھا اور دوسرے کا نام ” قابیل“ ، ”قابن“ یا ”قبن“ تھا ۔ بہر حال اسلامی روایات اورتورات کے متن میں قابیل کے نام کے بارے میں اختلاف لغت کی طرف بازگشت ہے اور یہ کوئی اہم بات نہیں ہے ۔

تعجب کی بات ہے کہ ایک عیسائی عالم نے اس امر کو قرآن پر اعتراض کی بنیاد بنا لیا ہے کہ قرآن نے ” قائن “ کو ” قابیل“ کیوں کہا ہے حالانکہ اول تو یہ اختلافِ لغت ہے اور لغت میں ناموں کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف ہے مثلاً تورات ” ابراہیم “ کو ” ابراہام “ لکھتی ہے اور قرآن اسے ” ابراہیم“ لکھتا ہے ۔ ثانیاً بنیادی طو ر پر ” ہابیل “ اور ” قابیل “ کے نام قرآن میں مذکور ہی نہیں یہ اسماء تو اسلامی روایات میں آئے ہیں ۔(۱)

۲۔ ” قربان “ کامفہوم:

ہم جانتے ہیں کہ ” قربان “ ایسی چیز کوکہتے ہیں جو تقرب الہٰی کا باعث بنے مگر جو کام ان دونوں بھائیوں نے انجام دیا اس کا قرآن میں تذکرہ موجود نہیں ہے۔ بعض اسلامی رویات اور تورات کے سفر تکوین باب چہارم میں جو کچھ مذکورہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہابیل کے پاس چونکہ پالتو جانور تھے اس نے ان میں سے ایک بہترین پلا ہوا مینڈھا منتخب کیا ۔ قابیل کسان تھا اس نے گندم کا گھٹیا حصہ یا گھٹیا آٹا اس کے منتخب کیا ۔

۳ ۔ قبولیت کی دلیل کیا تھی :

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرزندان آدم (علیه السلام) کو کیسے پتہ چلا کہ ایک کا عمل بار گاہ ایزدی میں قبول ہو گیا ہے ۔اور دوسرے کا رد کردیا گیا ہے ۔ قرآن میں اس کی بھی وضاحت نہیں ہے البتہ بعض اسلامی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دونوں اپنی مہار شدہ چیزیں پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے قبولیت کے اظہار کے طور پر بجلی نے ہابیل کی قربانی کھا لیا اور اسے جلا دیا لیکن دوسری اپنی جگہ پر باقی رہی اور یہ نشانی پہلے سے مروج تھی ۔

بعض دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ ایک عملی کی قبولیت دوسرے کا ردّ حضرت آدم (علیه السلام) کو وحی کے ذیعے بتا یا گیا اور اس کے وجہ سوائے اس کے کہ کچھ نہ تھی کہ ہابیل ایک باصفا، باکردار اور راہ خدا میں سب کچھ کر گزرنے والا شخص تھا جبکہ قابیل تاریک دل ، حاسد اور ہٹ دھرم تھا، قرآن نے دونوں بھائیوں کی جو گفتگو بیان کی ہے اس سے ان کی راحانی کیفیت اچھی طرح سے واضح ہوجاتی ہے۔

۴۔ ظلم کا پہلا سر چشمہ حسد ہے :

ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے جہانِ انسانیت میں اختلاف ، قتل تجاوز اور ظلم کا پہلا سر چزمہ حسد ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخلاقی رذالت کے حوالے سے حسد کا مقام کس قدر پست ہے ۔ بہت سے اجتماعی اور معاشرتی امور پر اس کے گہرے منفی اثرات بھی اس سے ظاہر ہوتے ہیں ۔

____________________

۱ ۔ علامہ شیخ محمد جواد بلاغی نے اس سلسلے میں ایک رسالہ ” الاکاذیب الاعاجیب“ ( تعجب انگیز جھوٹ) کے نام سے لکھا ہے جس میں مذکورہ جھوٹ کی طرح کے لئی جھوٹ بتائے گئے ہیں اس رسالے کا فارسی ترجمہ چھپ چکا ہے ۔مجمع البیان، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔