تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26091
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26091 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیات ۵۱،۵۲،۵۳

۵۱۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَی اٴَوْلِیَاءَ بَعْضههُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَهَُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ۔

۵۲۔( فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهِم یَقُولُونَ نَخْشَی اٴَنْ تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَی اللهُ اٴَنْ یَاٴْتِیَ بِالْفَتْحِ اٴَوْ اٴَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَیُصْبِحُوا عَلَی مَا اٴَسَرُّوا فِی اٴَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ ) ۔

۵۳۔( وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا اٴَهَؤُلاَءِ الَّذِینَ اٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ اٴَیْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُهُمْ فَاٴَصْبَحُوا خَاسِرِینَ ) ۔

ترجمہ

۵۱۔اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا سہارا نہ بناو وہ تو ایک دوسرے کے لئے سہارا ہیں اور جو ان پر بھروسہ کرتے ہیں وہ انھی میں سے ہیں اور خدا ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔

۵۲۔ تم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہو جن کے دلوں میں بیماری ہے جو ( ایک دوسرے کی دوستی میں ) ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ڈرہے کہ کوئی حادثہ پیش نہ آئے( کہ جس میں ہمیں ان کی مدد کی ضرورت پڑے) شاید خدا کی طرف سے کوئی او رکامیابی یا واقعہ ( مسلمانوں کے فائدے میں ) رونما ہوجائے اور یہ لوگ اپنے دلوں میں جو کچھ چھپائے ہوئے ہیں اس پر پشمان ہیں ۔

۵۳۔ اور وہ جو ایما ن لائے ہیں کہتے ہیں کیا یہ وہی ( منافق) ہیں جو بڑی تاکید سے قسم کھاتے ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں ( ان کا معاملہ یہاں تک کیوں آپہنچا کہ) ان کے اعمال نابود ہو گئے اور وہ خسارے میں جا پڑے۔

شان نزول

بہت سے مفسرین نے نقل کیا ہے کہ جنگ ِ بدر کے بعد عبادہ بن صامت خزرجی پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یہودیوں میں کچھ میرے ہم پیمان ہیں جو تعداد میں بہت ہیں اور طاقت ور ہیں ، اب جبکہ وہ ہمیں جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں اور مسلمانوں کا معاملہ غیر مسلموں سے الگ ہو گیا ہے تو میں ان کی دوستی اور عہد و پیمان سے برات کا اظہار کرتا ہوں او رمیرا ہم پیمان صرف خدا اور اس کا رسول ہے ۔

عبداللہ بن ابی کہنے لگا : میں تو یہودیوں کی ہم پیمانی سے برات نہیں کرتا کیونکہ میں مشکل حوادث سے ڈرتا ہوں اور مجھے ان لوگوں کی ضرورت ہے ۔

اس پرپیغمبر اکرم نے فرمایا : یہودیوں کی دوستی کے سلسلہ میں مجھے جس بات کا ڈر عبادہ کے بارے میں تھا وہی تیرے متعلق بھی ہے ( اور اس دوستی اور ہم پیمانی کاخطرہ اس کی نسبت تیرے لئے بہت زیادہ ہے ) ۔

عبد اللہ کہنے لگا : اگر ایسی بات ہے تو میں بھی قبول کرتا ہوں اور ان سے رابطہ منقطع کرلیتا ہوں ۔

اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور مسلمانوں کو یہودو نصاریٰ سے دوستی کرنے سے ڈرا یاگیا ۔

تفسیر

مندر جہ بالا آیات مسلمانوں کو یہودو نصاریٰ کی دوستی اور ہم کاری سے شدت کے ساتھ ڈرائی ہیں ۔ پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا سہارا اور ہم پیمان نہ بناو(یعنی خدا پر ایمان کا تقاضا ہے کہ مادی مفاد کے لئے ان سے ہم کاری اور دوستی نہ کرو) یَا( اٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَی اٴَوْلِیَاءَ ) ۔

” اولیاء “ ”ولی “ کی جمع ہے اور” ولایت“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے دو چیزوں کے درمیان بہت زیادہ قرب ، نزدیکی اور دوستی ۔ نیز اس میں ہم پیمان ہونے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے لیکن آیت کی شان ِ نزول اور باقی موجودی قرائن کو مد نظر رکھا جائے تو پھر اس سے مراد یہاں معنی نہیں کہ مسلمان یہود و نصاریٰ سے کوئی تجارتی اور سماجی رابطہ نہ رکھیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ان سے عہد و پیمان نہ کریں ار دشمنوں کے مقابلے میں ان کی دوستی پر بھروسہ نہ کریں ۔

عہد و پیمان کا مسئلہ اس زمانے میں عربوں میں بہت رائج تھا اور اسے ” ولاء “ سے تعبیر کرتے تھے ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہاں ” اہل کتاب “ نہیں کہا گیا بلکہ یہود و نصاریٰ کہا گیا ہے ۔ شاید یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر وہ اپنی آسمانی کتاب پر عمل کرتے تو پھر تمہارے اچھے ہم پیمان ہوتے لیکن ایک دوسرے سے ان کا اتحاد آسمانی کتاب کی رو سے نہیں ہے بلکہ سیاسی اور نسلی اغراض پر مبنی ہے ۔

اس کے بعد ایک مختصر سے جملے سے اس نہی کی دلیل بیان فرمائی گئی ہے :

ان دونوں گروہوں میں سے ہر ایک اپنے ہم مسلک لوگوں کے دوست اور ہم پیمان ہیں( بَعْضههُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ) ۔یعنی جب تک ان کے اپنے اور ان کے دوستو ں کے مفادات بیچ میں ہیں وہ تمہاری طرف ہر گز متوجہ نہیں ہوں گے۔ لہٰذا تم میں سے جو کوئی بھی ان سے دوستی کرے اور عہد و پیمان باندھے وہ اجتماعی او رمذہبی تقسیم کے لحاظ سے انھی کا جزء شمار ہو گا( وَمَنْ یَتَوَهَُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ) ۔

اور اس میں شک نہیں کہ خدا ایسے ظالم افراد کو جو اپنے ساتھ اور اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ خیانت کریں اور دشمنوں پر بھروسہ کریں ، ہدایت نہیں کرے گا( إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ۔

بعد والی آیت میں ان بہانہ تراشیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو بیمار فکر اراد غیر سے اپنے غیر شرعی روابط کے لئے پیش کرتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے : جن جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ اصرار کرتے ہیں کہ انھیں اپنے لئے سہارا سمجھیں اور انھیں اپنا ہم پیمان بنائیں اور ان کا عذر یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم ڈرتے ہیں کہ قدرت طاقت ان کے ہاتھ میں آجائے اور پھر ہم مصیبت میں گرفتار ہو جائیں( فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهِم یَقُولُونَ نَخْشَی اٴَنْ تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ ) ۔(۱)

قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے : جیسے انھیں اس بات کا احتمال ہے کہ کسی دن طاقت یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاتھ آجائے گی اسی طرح انھیں یہ خیال بھی آنا چاہئیے کہ آخر کار ہو سکتا ہے کہ خدا مسلمانوں کو کامیاب کرے اور قدرت و طاقت ان کے ہاتھ آجائے او ریہ منافق اپنے دلوں میں جو کچھ چھپائے ہوئے ہیں اس پر پشمان ہیں( فَعَسَی اللهُ اٴَنْ یَاٴْتِیَ بِالْفَتْحِ اٴَوْ اٴَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَیُصْبِحُوا عَلَی مَا اٴَسَرُّوا فِی اٴَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ ) ۔

اس آیت میں در حقیقت انھیں دو طرح سے جواب دیا گیا ہے : پہلا یہ کہ ایسے خیالات بیماردلوں سے اٹھتے ہیں اور ان لوگوں کے دلوں سے کہ جن کا ایمان متزلزل ہے اور وہ خدا کے بارے میں بد گمانی رکھتے ہیں ورنہ کوئی صاحب ایمان ایسے خیالات کو اپنے دل میں راہ نہیں دیتا اور دوسرا یہ کہ فرض کریں کہ ان کی کامیابی کا احتمال ہو بھی تو کیا مسلمانوں کی کامیابی کا احتمال نہیں ہے ؟

جو کچھ بیان کیا گیا ہے ، اس کی بنا پر ” عسیٰ “ کا مفہوم ہے ” احتمال “ اور ” امید“ اس سے اس لفظ کا ہر جگہ استعمال ہونے والا اصلی معنی بر قرار رہتا ہے ۔ لیکن عام طور پر مفسرین نے یہاں خدا کی طرف سے مسلمانوں کے لئے قطعی وعدہ مراد لیا ہے جو کہ لفظ ”عسیٰ “ کے ظاہری مفہوم سے مناسبت نہیں رکھتا ۔

لفظ ” فتح“ کے بعد ” او امر من عندہ“کے جملے سے مراد یہ ہے کہ ممکن ہے مسلمان آئندہ زمانے میں اپنے دشمنوں پرجنگ اور اس میں کامیابی کی وجہ سے غالب آجائیں یاجنگ کے بغیر ان میں اتنی قدرت پیدا ہو جائے کہ دشمن جنگ کئے بغیر گھٹنے ٹیک دے دوسرے لفظوں میں لفظ ” فتح“ مسلمانوں کی فوجی کامیابیوں کی طرف اشارہ ہے اور” امر من عندہ “اجتماعی ، اقتصادی اور دیگر کامیابیوں کی طرف اشارہ ہے ۔ لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ خدا یہ احتمال بیان کررہا ہے اور وہ آئندہ کی وضع و کیفیت سے آگاہ ہے لہٰذا یہ آیت مسلمانوں کی فوجی ، اجتماعی اور اقتصادی کامیابیوں کی طرف اشارہ ہی سمجھی جائے گی ۔

آخری آیت میں منافقین کے انجام ِ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : جب سچے مسلمانوں کو فتح و کامرانی نصیب ہو جائےاور منافقین کا معاملہ الم نشرح ہو جائے تو ” مومنین تعجب سے کہیں گے کہ کیا یہ منافق لوگ وہی نہیں ہیں کہ دعویٰ کرتے تھے اور قَسمیں کھاتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں اب ان کا یہ انجام کیوں ہوا ہے “( وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا اٴَهَؤُلاَءِ الَّذِینَ اٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ اٴَیْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَکُمْ ) ۔(۲)

اور اسی نفاق کی وجہ سے ان کے تمام اعمال باطل اور نابود ہو گئے کیونکہ ان کا سر چشمہ پاک اور خالص نیک نہ تھی اور ” اسی بناپر وہ اس جہان میں بھی اور دوسرے جہ ان بھی خسارے میں ہیں “( حَبِطَتْ اٴَعْمَالُهُمْ فَاٴَصْبَحُوا خَاسِرِینَ ) ۔

در اصل آخری جملہ سوالِ مقدرکے جواب کی طرح ہے گویا کوئی پوچھتا ہے کہ ان کا انجام کار کیا ہو گیا تو ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ ان کے اعمال بالکل بر باد ہو گئے ہیں اور انھیں خسارا اٹھانا پڑا ہے ۔ یعنی انھوں نے نیک اعمال ِ خلوص سے بھی انجام دئے ہوں لیکن آخر کار انھوں نے چونکہ نفاق اور شرک اختیار کیا ہے لہٰذا ان کے اعمال بر باد ہو گئے ہیں جیساکہ تفسیر نمونہ جلد دوم ( ص ۶۶ اردو ترجمہ ) سورہ بقرہ آیہ ۲۱۷ کے ذیل میں بیان کیا جاچکا ہے ۔

غیروں پہ تکیہ

شانَ نزول میں تو عبادہ بن صامت اور عبد اللہ بن ابی کی گفتگو آئی ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ آیات صرف دوتاریخی شخصیتوں کے مابین ہونے والی گفتگو کے حوالے ہی سے نہیں دیکھی جاسکتیں بلکہ وہ دونوں دو معاشرتی مکاتب ِ فکر کی نمائندگی کررہے ہیں ۔ ایک مکتب کہتا ہے کہ دشمن سے الگ رہنا چاہئیے اور اپنی مہار اس کے ہاتھ میں نہیں دیا چاہئیے اور اس کی امداد پر اطمنان نہیں کرنا چاہئیے ۔ جبکہ دوسرا مکتبِ فکر کہتا ہے کہ اس ہنگامہ خیز دنیا میں ہر شخص اور ہر قوم کو ایک سہارے کی ضرورت ہے ۔ بعض اوقات مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے کہ غیروں میں سے کسی کو سہارا بنا لیا جائے اور غیروں کی دوستی بھی قدر وقیمت کی حامل ہے اور ایک دن وہ ثمر بخش ثابت ہوگی ۔

قرآن دوسرے مکتب کی شدت سے سر کوبی کرتا ہے او رمسلمانوں کو اس طرز فکر سے تاکید اً ڈراتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مسلمان یہ عظیم خدائی حکم بھلا چکے ہیں اور غیروں میں سے بعض پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی بہت سی بد بختیوں کا سر چشمہ یہی چیز ہے ۔

اُندلس اس کی زندہ نشانی ہے ۔ کل کے اندلس اور آج کے اسپانیہ میں مسلمانوں نے کیسے اپنی قوت و طاقت کے بل پر ایک درخشان تمدن کی بنیاد رکھی اور پھر غیروں پر بھروسہ کرکے اس سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اس کی دوسری دلیل عظیم عثمانی بادشاہت ہے جو تھوڑی ہی مدت میں گرمیوں میں پگھل جانے والی برف کی طرف بہہ گئی ۔

دور حاضر میں اس مکتب سے منحرف ہونے سے مسلمانوں نے جو کاری ضربیں کھائی ہیں وہ بھی کم نہیں ہیں لیکن تعجب ہے کہ ہم اب بھی کیوں بیدار نہیں ہوتے۔

غیر بہر حال غیرہی ہے ۔ مشترک مفادات کی خاطر اگر کوئی غیر چند قدم ہمارے ساتھ چلے بھی تو آخر کار حساس لمحاتمیں نہ صرف یہ کہ وہ ساتھ چھوڑدے گا بلکہ ہم پر کاری جربیں بھی لگائے گا ۔ چاہئیے یہ کہ آج کا مسلمان اس قرآنی صدا پر سب سے زیادہ کان دھرے اور اپنی طاقت کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہ کرے۔ پیغمبر اسلام اس بات کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جنگ ِ احد کے موقع پر جب بہت سے یہودی مشرکین کے خلاف جنگ کے لئے آپ سے آملے تو آپ نے دوران ِ راہ ہی انھیں واپس کردیا اور ان کی مدد قبول نہ فرمائی ۔ حالانکہ یہ تعداد جنگ احد میں ایک موثر کر دار ادا کرسکتی تھی آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لئے کہ کچھ بعید نہ تھا کہ وہ جنگ کے حساس لمحات میں دشمن سے مل جاتے اور بچے کھچے لشکر اسلام کو بھی ختم کردیتے۔

____________________

۱۔ ”دائرة“ کا مادہ ” دور“ ہے اس کا معنی ہے ایسی چیز جو گردش میں ہو اور چونکہ تاریخ میں حکومت و سلطنت ہمیشہ گردش میں رہی ہے ، اس لئے اسے دائرة کہتے ہیں ۔ اسی طرح مختلف حوادث زندگی میں جو افراد کے گرد جمع رہتے ہیں انھیں ”دائرة “ کہا جاتا ہے ۔

۲ ۔مندرجہ بالا آیت میں ” ھٰؤلاء“ مبتدا ہے اور ” الذین اقسمو ا باللہ “ ا سکی خبر ہے اور ” جھد ایمانھم“ مفعول مطلق ہے ۔

آیت ۵۴

۵۴۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِهِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۵۴۔اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا ( وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا ) خدا آئندہ ایک ایسا گروہ لے آئے گا جسے وہ دوست رکھتا ہے اور وہ لوگ ( بھی) اسے دوست رکھتے ہیں ۔ جو مومنین کے سامنے متواضع اور کفارے کے مقابلے میں طاقت ور ہیں وہ راہِ خدا میں جہاد کرہیں اور سر زنش کرنے والوں کی سر زنش سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل و کرم ہے ، وہ جسے چاہتا ہے ( اور اہل سمجھتا ہے ) عطا کرتا ہے اور ( خدا کا فضل) وسیع ہے ، اور خدا جاننے والا ہے ۔

وہی ذات ہے جس کا دائرہ فضل و کرم بہت وسیع ہے

منافقین کے بارے میں بحث کے بعد مرتدین کے سلسلے میں گفتگو ہے کہ قرآن کی پیشین گوئی کے مطابق اس دین سے خارج ہو جائیں گے لیکن خدا ، اس کے دین نیز مسلمانوں اور اسلامی معاشرے کی تیز رفتار پیش رفت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔ کیونکہ خدا آئندہ اس دین کی حمایت کے لئے ایک اور گروہ کو مبعوث کرے گا( یااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِهِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ ) ۔

اس کے بعد ان لوگوں کی جو یہ عظیم کار رسالت انجام دیں گے ، یہ صفات بیان فرمائی گئی ہیں :

پہلی ) یہ کہ وہ خدا کے عاشق ہوں گے اور اس کی خشنودی کے سوا انھیں کوئی فکر دامن گیر نہ ہوگی” خدا انھیں پسند کرتا ہے اور وہ خدا سے محبت کرتے ہیں “( یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ ) ۔

دوسری ۔ اور تیسری) صفت ان لوگوں کی یہ ہے کہ وہ مومنین کے لئے منکسر المزاج اور مہر بان ہیں جبکہ دشمنوں اور ستم گروں کے مقابلے میں مضبوط ، سخت اور طاقت ور ہیں( اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ ) ۔

چوتھی ) صفت ان کی یہ ہے کہ راہِ خدا میں جہاد کرنا ان کے مسلسل پروگرام میں شامل ہے( یُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ ) ۔

پانچویں ) خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ فرمانِ الہٰی کی انجام دفاع ِ حق کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے( وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ) ۔

در حقیقت وہ جسمانی طاقت کے علاوہ ایسا عزم رکھتے ہیں کہ غلط رسومات کو توڑنے اور انحراف کرنے والی اکثریت کو خاطر میں نہیں لاتے کثرت کے زعم میں دوسروں کا مذاق اڑانے والوں کی پرواہ نہیں کرتے۔

ہم ایسے بہت سے افراد کو جانتے ہیں کہ جو ممتاز صفات کے حامل ہیں لیکن معاشرے کی خلاف ، عوام کے افکار و نظر یات اور منحرف اکثریت کے سامنے بہت محتاط ہو جاتے ہیں اور ان کے سامنے بزدلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں بہت جلد میدان سے ہٹ جاتے ہیں حالانکہ ایک مصلح اور رہبر اور اس کے افکار کی تبلیغ وترویج کے لئے میدان میں اترنے والوں کے لئے ہر چیز سے پہلے شہامت و جرات کی ضرورت ہے ۔ عوام او رماحول سے ڈرجانے سے اصلاح نہیں ہو سکتی اور ان سے خوفزدہ ہو نا بلند روحانی امتیاز کے منافی ہے ۔

آخرمیں فرمایا گیا ہے : ان امتیازات و خصوصیات کا حصول( انسانی کوشش کے علاوہ ) خدا کے فضل وکرم کامرہونِ منت ہے وہ جسے چاہتا ہے اور اہل پاتا ہے عطا کرتا ہے( ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ ) ۔

وہی ذات ہے جس کا دائرہ فضل و کرم بہت وسیع ہے اور جو اس کی لیاقت او راہلیت رکھتے ہیں ، ان سے آگاہ ہے( وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ) ۔

اس سلسلے میں کہ مندرجہ بالاآیت کن یاورانِ اسلام کی طرف اشارہ کررہی ہے اور خدا تعالیٰ یہاں کن افراد کی خصوصیات بیان فرمارہا ہے روایات ِ اسلامی اور اقوال مفسرین میں اس سلسلے میں بڑی بحث کی گئی ہے ۔ تاہم شیعہ سنی طرق سے وارد ہونے والی بہت سی روایات میں ہے کہ آیت حضرت علی (علیه السلام) کے بارے میں فتح خیبر پر یا ناکثین ، قاصطین اور مارقین سے ان کی جنگ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے ۔(۱)

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ لشکر اسلام کے بعض کمانڈر جب خیبر کو فتح نہ کر سکے تو اس کے بعد ایک رات پیغمبر اسلام نے مرکز فوج میں ان کی طرف رخ کرکے فرمایا:

لاعطین الرایة غداً رجلا ً، یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله ، کراراً،غیر فرار، لایرجع حتی یفتح الله علی یده ۔

بخداکل عَلم ایسے مرد کو دوں گا جو خدا اور رسول سے محبت رکھتا ہے اور خدا اور رسول بھی اس سے محبت رکھتے ہیں وہ بڑھ بڑھ کر دشمنوں پر حملہ کرنے والا ہے اور کبھی پشت نہیں دکھاتا اور وہ اس میدان سے اس وقت تک پلٹ کر نہیں آئے گا، جب تک خدا اس کے ہاتھ سے مسلمانوں کو فتح نصیب نہیں کردےتا ۔(۲)

ایک اور روایت میں ہے کہ جب پیغمبر اکرم نے لوگوں نے اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے سلمان کے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا:

اس سے یہ ، اس کے یار و انصار اور ہم وطن لوگ مراد ہیں ۔

اس طرح آپنے اہل ایران کے اسلام لانے اور اسلام کی پیش رفت کے لئے ان کی ثمر بخش کاوشوں اور جستجو کی پیش گوئی فرمائی ہے ۔ اس کے بعد آپ نے مزید فرمایا:

” لوکان الذین معلقاً بالثریا لتنا وله رجال من ابناء الفارس“

اگر دین ثریا پر جا ٹھہرتا اور آسمانوں میں جاپہنچتا تو بھی فارس کے لوگ اسے دستیاب کرلیتے۔(۳)

لیکن ابن عبد البر نے استیعاب جلد ۲ ص ۵۷۷ میں یہ عبارت نقل کی ہے :”لو کان الدین عند الثریا لنا له سلیمان

ایک اور روایت میں ” دین “ کی جگہ ” علم “ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔

بعض اور روایات میں ہے کہ آیت حضرت مہدی علیہ السلام کے یارو انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنی پوری طاقت سے ان لوگوں کے مقابلے میں قیام کریں گے جو دین حق و عدالت سے مرتد ہو جائیں گے اور وہ دنیا کو ایمان و عدل سے معمور کردیں گے ۔

اس میں شک نہیں کہ یہ روایات جو اس آیت کی تفسیر کے بارے میں مروی ہیں باہم کوئی تضاد نہیں رکھتیں کیونکہ یہ قرآن کی سیرت کے مطابق ایک کلی اور جامع مفہوم بیان کرتی ہے اور اس کے اہم مصادیق میں حضرت علی علیہ السلام ، سلمان فارسی اور وہ لوگ شامل ہیں جو اس پرگرام کے مطابق چلیں گے چاہے روایات میں ان کا ذکر نہ بھی ہو۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس آیت کے بارے میں بھی قومی تعصبات کے باعث جو لوگ اہلیت نہیں رکھتے تھے اور آیت میں مذکورہ صفات میں سے کوئی بھی ان میں نہ تھی انھیں بھی آیت کا مصداق ٹھہرا یا گیا اور انھیں بھی شانِ نزول کا عنوان بنا لیا گیا یہاں تک کہ ابو موسیٰ اشعری کو بھی آیت کے مصادیق میں شمار کرلیا گیا جس نے اپنی بے مثال تاریخی حماقت سے اسلام کو ہلاکت کے گڑھے تک پہنچا دیا اور علمدارِ اسلام حضرت علیہ السلام کو ۴ ایک سخت تنگ موڑ پر پہنچا دیا ۔ اس جلد کے آخری حصے کی اصلاح کا کام میں نے مکہ مکرمہ میں جوار خانہ خدا میں انجام دیا جب کہ وہاں عمرہ کے پر شکوہ مراسم بھی انجام پارہے تھے ۔ اس وقت میرےہ ہاتھ میں درد تھا اور قلم تک پکڑنا بھی مشکل ہو رہا تھا ۔ ایسے میں مَیں نے محسوس کیا کہ وہی تعصبات جوعلمی کتب میں دکھائی دیتے ہیں آج بھی شدید پیمانے پر یہاں عوام میں بلکہ ان علماء میں دکھائی دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ہاتھ درمیان میں کام کررہا ہے تاکہ مسلمان کبھی متحد نہ ہوں ۔ یہاں تک کہ یہ تعصب تاریخ اسلام سے پہلے کے ایام تک بھی جاپہنچا ہے ۔ خانہ کعبہ کے نزدیک جس شاہراہ کانام اس وقت شارع ابو سفیان ہے وہ شارع ابراہیم الخلیل جو بانی مکہ کے نام پر ہے سے زیادہ شکوہ مند ہے ۔

آج یہا ں مسلمانوں کی طرف” شرک “ کی نسبت دینا ایک متعصب گروہ کے لئے پانی کا گلاس پینے کے برابر ہے ، ادھر آپ نے اپنے جسم کو حرکت دی ادھر ” مشرک “ کی صدا بلند ہو نے لگی ۔ گویا اسلام ان کے گھر کی باندی ہے او روہی قرآن کے متولی ہیں اور بس ۔ او ردوسروں کا اسلام و کفران کی پسند اور ناپسند پر منحصر ہے کہ ایک لفظ کے ساتھ جسے چاہیں مشرک اور جسے چاہیں مسلمان کہہ دیں ۔

حالانکہ مندرجہ بالا آیات کے ذیل میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ جب اسلام کی غربت کا درد ہو گا ۔ خدا تعالیٰ سلمان جیسے بزرگ عظمت ِ دین کے لئے بھیجے گا اور یہ پیغمبر کی دی ہوئی بشارت ہے ۔

تعجب کی بات ہے کہ مسئلہ توحید جسے وحدت مسلمین کی بنیاد ہو نا چاہئیے۔ آج مسلمانوں کی صفوں میں انتشار اور انھیں مشرک و کافر قرار دینے کے لئے دستاویز بن چکا ہے ۔ یہا ں تک کہ ایک آگاہ شخص نے ان کے بعض متعصبین سے کہا تھا:

ذرا دیکھو! ہمارا او ر تمہارا معاملہ کہا تک جا پہنچا ہے کہ اسرائیل ہم پر مسلط ہو جائے تو تم میں سے کچھ لوگ خوش ہوں گے اور اگر تمہاری سر کوبی کرے تو ہم میں سے بعض لوگ خوشی منائیں گے ۔ کیا یہی وہ ( اسرائیل اور ا س کے سر پرست) نہیں چاہتے؟

انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئیے ۔ ان کے بعض علماء سے جو میں نے متعدد بار ملاقات کی ہے اس سے یہ واضح ہوا ہے کہ اکثر بافہم اور سمجھدار حضرات اس کیفیت پر پریشان ہیں ۔ ایک مرتبہ ایک یمنی عالم حدود ِ شرک کے بارے میں بحث کے سلسلے میں بہت سے بزرگ مدرسین ِ حرم کے سامنے کہنے لگے:

اہل قبلہ کو شرک کی نسبت دینا بڑا گناہ ہے جسے گذشتہ لو گ زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ یہ کیا ہے کہ نافہم لوگ ہر وقت لوگوں پر شرک کی تہمت لگاتے رہتے ہیں کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ اس طرح اپنے اوپر کتنی بڑی ذمہ داری لے رہے ہیں ۔

____________________

۱۔ یاد رہے کہ ناکثین جنگ جمل کی آگ بھڑکانے والوں کو ، قاسطین معاویہ کی فوج کو ، اور مارقین خوارج کو کہا جاتا ہے ۔

۲ ۔ تفسیر برہان اور نور الثقلین میں آئمہ اہلبیت علیہم السلام سے اس بارے میں کئی ایک روایات نقل کی گئی ہیں ۔ اہل سنت کے علماء میں سے ثعلبی نے ان روایات کو نقل کیا ہے (کتاب احقاق الحق ج۳ ، ص ۲۰۰ کی طرف رجوع فرمائیں ) ۔

۳ ۔ مجمع البیان جلد ۳ ص ۲۰۸، نور الثقلین جلد ۱ ص ۶۴۲۔ ابو نعیم اصفہانی نے حلیة المتقین جلد ۶ ص ۶۴ میں حدیث کی یہ عبارت نقل کی ہے :”لوکان العلم منوطاًً بالثریا لتنا وله رجال من ابناء الفارس“

۴ ۔ تفسیر طبری جلد ششم صفحہ ۱۸۴۔ لیکن بعض روایات میں صرف ابو موسیٰ کی قوم کا نام آیا ہے جوکہ اہل یمن کی طرف اشارہ ہے ۔ جنہوں نے نہایت حساس موقع پر اسلام کی مدد کی اور ابو موسیٰ اس میں شامل نہیں ہے جبکہ حضرت سلمان کے بارے میں جو روایات ہیں ان کے مطابقوہ خود اور ان کی قوم اس آیت کی مصداق ہیں ۔