تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26105
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26105 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۵۵

۵۵۔( إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ ) ۔

ترجمہ

۵۵۔ تمہارا سر پرست اور رہبر صرف خدا ، اس کا پیغمبر اور وہ ہیں جو ایمان لائے ہیں ، انھوں نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوٰة ادا کی ہے ۔

آیہ ولایت

تفسیر مجمع البیان اور دوسری کتب میں عبد اللہ ابن عباس سے منقول ہے :

ایک روز میں چاہِ زمزم کے پاس بیٹھا تھا اور لوگوں کو ارشادات ِ رسول سنا رہا تھا کہ اچانک ایک شخص قریب آیا ۔ اس کے سر پر عمامہ تھا ۔ اس نے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا ۔ جب پیغمبر اسلام سے کوئی حدیث نقل کرتا تو وہ بھی ” قال رسول اللہ “ کہہ کر دوسری حدیث ِ رسول بیان کردیتا ۔

ابن عباس نے اس شخص کو قسم دی کہ وہ تعارف کروائے تو اس نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی اور پکار کر کہا اے لوگو!

جو شخص مجھے نہں جانتا وہ جان لے کہ میں ابو ذر غفاری ہوں ۔ ان کا نوں سے میں نے خود رسول اللہ سے سنا ہے اور اگر میں جھوٹ بولوں تو میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں ، رسول اللہ نے فرمایا:

” علی قائد البررة و قاتل الکفرة منصور من نصر و مخذول من خذله“

یعنی علی نیک اور پاک لوگوں کے قائد ہیں اور کفار کے قاتل ہیں جو ان کی نصرت و مدد کرے خدا اس کی مدد کرے گا اور جو شخص ان کی نصرت و مدد سے ہاتھ کھینچ لے خدا بھی اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے گا ۔

اس کے بعد ابو ذر نے مزید کہا:

اے لوگو! ایک میں رسول خدا کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک سائل مسجد میں داخل ہوا اور لوگوں سے مدد طلب کی لیکن کسی نے اسے کچھ نہ دیا تو اس نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے کہا: خدا یا گواہ رہنا کہ میں نے تیرے رسول کی مسجد میں مدد طلب کی ہے، لیکن کسی نے مجھے جواب تک نہیں دیا ۔ ایسی حالت میں جبکہ حضرت علی (علیه السلام) رکوع میں تھے اپنے دائیں ہاتھ کی چھنگلی سے اشارہ کیا ۔ سائل قریب آیا اور انگوٹھی آپ کے ہاتھ سے اتار لی پیغمبر خدا نے جو حالت ِ نماز میں تھے اس واقعہ کو دیکھا ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سر آسمان کی طرف بلند کیا اور اس طرح کہا:

خدا یا ! میرے بھائی موسیٰ نے تجھ سے سوال کیا تھا کہ ان کی روح کو وسعت دے اور ان کے کام ان پر آسان کردے اور ان کی زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ ان گفتار کو سمجھ سکیں ۔ نیز موسیٰ نے سوال کیا کہ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر اور یار و مدد گار قرار دے اور ان کے ذریعے ان کی قوت میں اضافہ فرمااور انھبیں ان کے کاموں میں شریک کردے خدا وند ! میں محمد تیرا رسول اور بر گزیدہ ہوں میرے سینہ کو کھول دے ، میرے کام کو مجھ پر آسان کردے اور میرے خاندان میں سے علی کو میرا وزیر بنادے تاکہ اس کی وجہ سے میری کمر مضبوط اور قوی ہو جائے۔

ابو ذر کہتے ہیں :

ابھی پیغمبر خدا کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ جبرائیل نازل ہو ئے اور رسول اللہ سے کہا:

پڑھیے!

حضور نے فرمایا :

کیا پڑھوں ؟

تو جبرائیل نے کہا:

پڑھئیے( انما ولیکم الله و رسوله و الذین اٰمنو )

یہ شان نزول ( جیسا کہ بیان کیا جائے گا ) تفصیلات کے کچھ اختلافات کے ساتھ مختلف طرق سے نقل ہو ئی ہے البتہ اصل اور بنیاد سب روایات کی ایک ہی ہے ۔

آیت لفظ ” انما“ سے شروع ہوتی ہے

یہ آیت لفظ ” انما“ سے شروع ہوتی ہے ۔ یہ لفظ لغتِ عرب میں حصر و انحصار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : تمہارے ولی ، سر پرست اور تمہارے امور میں حق تصرف رکھنے والی تین ہستیاں ہیں ۔ خدا ، اس کا رسول اور وہ جو ایمان لائے ، نماز قائم کی او رحالت ِ رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں

( إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ لفظ” رکوع“اس آیت میں نماز کے رکوع کے معنی میں ہے نہ کہ خضوع و خشوع کے معنی میں کیونکہ عرفِ شریعت اور اصطلاح ِ قرآن میں جب رکوع کہا جائے تو اسی مشہور معنی میں یعنی نماز کے رکوع کے معنی میں ہوگا ۔

نیز آیت کے شان ِ نزول اور متعدد روایات جو حضرت علی (علیه السلام) کے حالت ِ رکوع میں انگوٹھی عطا فر مانے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ جھنیں ہم تفصیل سے ذکر کریں گے کے علاوہ ” یقیمون الصلٰوة “ بھی اس بات پر شاہد ہے ۔ قرآن میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ جس میں یہ ہو کہ زکوٰة خضوع سے ادا کرو بلکہ زکوٰة کو خلوص نیت سے اور احسان جتلائے بغیر ادا کرنا چاہئیے۔

اسی طرح اس میں بھی شک نہیں کہ لفظ ” ولی “ اس آیت میں دوست یا مدد گار کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ دوستی اور مدد کرنے کے معنی میں ولایت نماز پڑھنے والوں اور حالت ِ رکوع میں زکوٰة ادا کرنے والوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک عمومی حکم ہے جو تمام مسلمانوں پر محیط ہے ۔ تمام مسلمانو ں کو چاہئیے کہ وہ ایک دوسرے سے دوستی رکھیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں ۔ یہاں تک وہ بھی جن پر زکوٰة واجب نہیں ہے او رجن کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس پر زکوٰة ادا کریں چہ جائیکہ وہ حالت رکوع میں زکوٰة ادا کریں انھیں بھی چاہئیے کہ ایک دوسے کے دوست اور مدد گار ہوں ۔

یہاں اسے واضح ہو جاتا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں ” ولی“سے مراد ولایت بمعنی سر پرستی ، تصرف اور مادی و روحانی رہبری اور قیادت ہے خصوصاً جبکہ یہ ولایت ِ الہٰی اور ولایت پیغمبر کے ہم پلہ قرار پائی ہے اور تینوں کو ایک ہی لفظ کے تحت بیان کیا گیا ہے ۔

اس طرح سے یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو حضرت علی (علیه السلام) کی امامت و ولایت پر نص ِ قرآنی کی حیثیت سے دلالت کرتی ہیں ۔

اس موقع سے متعلق کچھ اہم بحثیں ہیں جن پرہم علیحدہ علیحدہ تحقیق کرتے ہیں ۔

احادیث ، مفسرین اور مورخین کی شہادت

جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ بہت سے اسلامی کتب او راہل سنت کے منابع میں اس ضمن میں متعدد رویات موجود ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ان میں سے بعض روایات میں حالتِ رکوع میں انگوٹھی دینے کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ جب کہ بعض میں اس کا تذکرہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس آیت کے حضرت علی (علیه السلام) کی شان میں نازل ہونے کا ہی مذکور ہے ۔

اس روایت کو ابن عباس ، عمار ابن یاسر ، عبد اللہ بن سلام ، سلمہ بن کہیل ، انس بن مالک ، عتبہ بن حکیم ، عبد اللہ ابی ، عبد اللہ بن غالب ، جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابو ذر غفاری نے بیان کیا ہے ۔(۱)

ان مذکورہ دس افراد کے علاوہ اہل سنت کی کتب میں یہ روایت خود حضرت علی (علیه السلام) سے بھی نقل ہو ئی ہے ۔(۲)

یہ امر قابل توجہ ہے کہ کتاب غایة المرام میں اس بارے میں ۲۴ احادیث کتب اہل سنت سے اور ۱۹/ احادیث طرق ِ شیعہ سے نقل کی گئی ہیں ۔(۳)

مشہور کتب جن میں یہ حدیث نقل ہو ئی ہے تیس سے متجاوز ہیں جو کہ سب اہل سنت کے منابع و مصاد میں سے ہیں ، ان میں سے یہ بھی ہیں :

۱۔ ذخائرہ العقبیٰ ص ۸۸ از محب الدین طبری ۔

۲۔ تفسیر فتح القدیر ج۲ ص ۵۰ از علامہ قاضی شوکانی ۔

۳۔ جامع الاصول ج ص ۴۷۸۔

۴۔ اسباب النزول ص ۱۴۸۔ از واحدی ۔

۵۔ لباب النقول ۹۰ از سیوطی

۶۔ تذکرة ص ۱۸ از سبط جوزی

۷۔ نور الابصار ص ۱۰۵ از شبلنجی

۸۔ تفسیر طبری ص ۱۶۵ ۔

۹۔ الکافی الشاف ص ۵۶ از ابن حجر عسقلانی ۔

۱۰۔مفاتیح الغیب ج۳ ص ۴۳۱ از رازی ۔

۱۱۔ در المنثور ج۲ ص ۳۹۳ از سیوطی ۔

۱۲۔ کنزالعمال ج۶ ص ۳۹۱۔

۱۳۔ مسند ابن مردویہ۔

۱۴۔ مسند ابن الشیخ۔

۱۵۔ صحیح نسائی ۔

۱۶۔ الجمع بین الصحاح الستہ۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی کتب میں اس ضمن میں احادیث موجود ہیں ۔(۴)

ان حالات میں کیسے ہو سکتا ہے کہ ان تمام احادیث کی پر واہ نہ کی جائے جب کہ دیگر آیات کی شانِ نزول کے لئے ایک یا دو روایاتپر قناعت کرلی جاتی ہے لیکن شاید تعصب اجازت نہیں دیتا کہ اس آیت کی شان نزول کے لئے ان سب روایات اور ان سب علمماء کی گواہیوں کی طرف توجہ دی جائے۔

اگر بنا یہ ہو کہ کسی آیت کے سلسلے میں اس قدر روایات کی بھی پر واہ نہ کی جائے تو پھر ہمیں قرآنی آیات کی تفسیر میں کسی بھی روایت کی طرف توجہ نہیں کرنا چاہئیے، کیونکہ بہت کم آیات ایسی ہیں جن کی شان ِ نزول میں اس قدر روایات وارد ہوئی ہوں ۔

یہ مسئلہ اس قدر واضح و آشکارتھا کہ زمانہ پیغمبر کے مشہور شاعر حسّان بن ثابت نے حضرت علی (علیه السلام) کی شان میں روایت کے مضمون کو اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے :

فانت الذی اعطیت اذکنت راکعاً زکاتاً فدتک النفس یا خیر راکع فانزل فیک اللہ خیر ولایة و بینھا فی محکمات الشرایع ۔

یعنی آپ وہ ہیں کہ جنھوں نے حالتِ رکوع میں زکوٰة دی ۔ آپ پر جان فدا ہو۔ اے بہترین رکوع کرنے والے ۔

اور اس کے بعد خدا نے بہترین ولایت آپ کے بارے میں نازل کی اور قرآنِ مجید میں اسے ثبت کردیا ۔ ۵

____________________

۱۔ احقاق الحق ج۲ ص ۳۹۹ تا ۴۱۰ سے رجوع کریں ۔

۲۔ المراجعات ص ۱۵۵۔

۳ ۔ منہاج البراعہ ج۲ ص ۳۵۰۔

۴ ۔مزید تفصیل کے لئے احقاق الحق ج۲ ، الغدیر ج۲اور المراجعات کی طرف رجوع کریں ۔

۵ ۔حسان بن ثابت کے اشعار ھتوڑے بہت فرق کے ساتھ بہت سی کتب میں نقل ہو ئے ہیں ۔ ان میں تفسیر روح المعانی از شہاب الدین محمود آلوسی اور کفایة الطالب از گنجی شافعی وغیرہ شامل ہیں ۔

اعتراضات کا جواب

بعض متعصب اہل سنت نے اس آیت کے حضرت علی (علیه السلام) کی شان میں نازل ہو نے سے انکار کیا ہے اور اسی طرح ” ولایت“ کی تفسیر سر پرستی، تصرف اور امامت کرنے پر بھی اعتراض کیا ہے ۔ ان میں سے اہم اعتراضات پر ہم یہاں تحقیق کرتے ہیں ۔

۱۔ ” الذین “ جمع کا صیغہ ہے :

ایک اعتراض یہ ہے کہ آیت میں ” الذین “ جمع کا صیغہ ہے لہٰذا اس آیت کو ایک شخص پر کیسے منطبق کیا جاسکتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آیت کہتی ہے کہ تمہارے ” ولی “ و ہ اشخاص ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ عربی ادبیات میں ایسا بارہا دکھائی دیتا ہے کہ مفرد کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ۔

مثالیں ملاحظہ ہوں :

آیہ مباہلہ میں لفظ” نسائنا “ جمع کی صورت میں ہے جب کہ اس سے مراد جناب فاطمہ زہرا(علیه السلام) ہیں جیسا کہ اس ضمن میں مروی متعدد شانِ نزول شان ِ گواہی دیتی ہیں ۔

آیہ مباہلہ ہی میں لفظ ” انفسنا“ جمع کی صورت میں ہے جبکہ مباہلہ کےلئے جانے والوں میں رسول اللہ کے علاوہ صرف حضرت علی (علیه السلام) تھے ۔

جنگ احد کے ایک واقعہ کے سلسلے میں سورہ آل ِ عمران آیہ ۱۷۲ میں ہے :

( الذین قال لهم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوهم فزادهم ایماناً )

تیسری جلد میں اس آیہ کی تفسیر میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ بعض مفسرین نے اس کی شانِ نزول کی نقل کی ہے ، جس میں ” الذین “ سے ایک ہی شخص نعیم بن مسعود مراد لیا گیا ہے ۔

سورہ مائدہ کی آیہ ۵۲ میں ہے”( یقولون نخشی ان تصیبنا دائرة )

اس میں بھی جمع کے صیغے ہیں ۔ حالانکہ یہ آیت عبد اللہ ابن ابی کے بارے میں وارد ہوئی ہے ۔ جس کی تفسرگزر چکی ہے ۔

علاوہ ازیں : ممتنحہ ۔ آیہ منافقون آیہ ۸ بقرہ آیہ ۲۱۵ ، ۲۷۴ ، وغیرہ

میں ایسی تعبیرات موجودہیں جو جمع کی شکل میں ہیں ، لیکن ان کی شانِ نزول کے مطابق ان سے ایک ہی شخص مراد تھا ۔

ایسی تعبیرات یا تو اس شخص کی حیثیت اور مقام کی اہمیت اور اس کے کام کے نقش ِ موثر واضح کرنے کے لئے ہوتی ہیں یا اس لئے کہ حکم کو کلی صورت میں پیش کیا جائے اگر چہ اس کامصداق ایک ہی فرد ہو۔

خدا کہ جو اکیلا ہے اس کے لئے قرآن مجید میں بہت سی آیات میں جمع کی ضمیر تعظیم کے طور پر ہی استعمال ہوئی ہے ۔

البتہ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کہ بغیر قرینہ کے خلاف ظاہر مفرد کے لئے جمع کا استعمال جائز نہیں ہے لیکن آیت کی شان ِ نزول میں وارد ہونے والی تمام روایات ہمارے پاس واضح قرینہ کے طور پر موجود ہیں جب کہ دوسرے مواقع پر اس سے کم قرینہ پر بھی قناعت کرلی جاتی ہے ۔

۲۔ حالت رکوع میں زکوٰة ؟

فخر الدین رازی اور بعض دوسرے متعصبین نے اعتراض کیا ہے کہ حضرت علی(علیه السلام) تو نماز میں مخصوص توجہ رکھتے تھے اور پر وردگار سے مناجات میں مستغرق رہتے تھے یہاں تک کہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ حالتِ نماز میں تیر کا پھل آپ کے پاوں سے نکالا گیا اور آپ متوجہ نہیں ہوئے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ آپ نے سائل کی آواز سن لی اور اس کی طرف متوجہ ہو گئے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے اس نکتہ سے غافل ہیں کہ سائل کی آواز سننا اور اس کی مدد کرنا اپنی طرف متوجہ ہونا نہیں ہے کہ بلکہ عین خدا کی طرف توجہ ہے ۔ حضرت علی (علیه السلام) حالت نمازمیں اپنے آپ سے غافل تھے نہ کہ خدا سے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ مخلوقِ خدا سے غفلت اور بیگانگی در اصل خدا سے غفلت اور بے گانگی ہے ۔ زیادہ واضح لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالت نماز میں زکوٰة دینا عبادت کے اندر عبادت ہے نہ کہ عبادت کے دورون ایک عمل مباح کی انجام دہی ۔ ایک اور عبارت میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ بات جو روح ِ عبادت سے مناسبت نہیں رکھتی یہ ہے کہ کو ئی شخص عبادت کے دوران مادی اور شخصی زندگی سے مربوط ہو جائے ۔ لیکن ان امور کی طرف متوجہ ہو نا جو رضائے الہٰی کا ذریعہ ہیں روح ِ عبادت کے لئے ساز گار ہیں عبادت کے لئے بلند مرتبے کا باعث ہیں ۔

اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ خدا کی طرف توجہ اور استغراق کا یہ مطلب نہیں کہ انسان بے اختیار ہو کر اپنا احساس کھو بیٹھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقصد و ارادہ سے اپنی توہ ایسی ہر چیز سے پھیر لیتا ہے جو راہ خدا میں اور خدا کے لئے نہیں ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ فخرالدین رازی کا تعصب یہاں تک آپہنچا ہے کہ اس نے سائل کو حضرت علی (علیه السلام) کے اشارہ کرنے کو کہ وہ خود آکر انگشتری اتار لے ” فعل کثیر“ قرار دیا ہے جو ان کی نظر میں نماز میں درست نہیں ۔ حالانکہ وہ نماز میں ایسے کام انجام دینا جائز سمجھتے ہیں جو اشارہ سے کئی درجہ زیادہ ہیں اور اس کے باوجود وہ نماز کے لئے نقصان وہ نہیں ہیں ۔ یہاں تک کہ حشرات الارض مثلاً سانپ یابچھوکو مارنا ، بچے کواٹھا نا اور بٹھانا یہاں تک کہ شیر خوار بچے کو دودھ پلانے کو تووہ نماز میں فعل کثیر نہیں سمجھتے پھر ایک اشارہ فعل کثیر کس طرح ہو گیا لیکن جب کسی کی دانش مندی طوفانِ تعصب میں پھنس جاتی ہے تو پھر ایسے تعصبات اس کے لئے باعث ِ تعجب نہیں رہتے۔

۳۔ لفظ ”ولی “ کا مفہوم :

آیت پر ایک اور اعتراض لفظ ” ولی “ کے معنی کے بارے میں کیا گیا ہے اور اس سے مراد” دوست اور مدد کرنے والا“ لیا گیا ہے نہ کہ ” متصرف ، سرپرست اور صاحب اختیار“۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ ہم آیت کی تفسیر کے بارے میں اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ لفظ ”ولی “ سے یہاں دوست اور مدد کرنے والا مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ صفت تو تمام مومنین کے لئے ثابت ہے نہ کہ ان مخصوص مومنین کے لئے جو آیت کے مطابق نماز قائم کریں اور حالت ِ رکوع میں زکوٰة دیں ۔ دوسرے لفظوں میں دوستی اور مدد کا ایک عام حکم ہے ، جب کہ آیت ایک خصوصی حکم بیان کررہی ہے اسی لئے تو ایمان کا ذکر کرنے کے بعد خا ص صفات بیان کی جارہی ہیں کہ جو ایک شخص کے ساتھ مخصوص ہیں ۔

۴۔ حضرت علی (علیه السلام) پرواجب زکوٰة :

کہاجاتا ہے کہ حضرت علی (علیه السلام) پر کو ن سی زکوٰة واجب تھی جب کہ وہ مالِ دنیا میں سے اپنے لئے کچھ فراہم ہی نہ کرتے تھے اور اگر اس سے مراد مستحب صدقہ ہے تو اسے زکوٰة نہیں کہا جاسکتا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ :

اول تو تواریخ گواہی دیتی ہیں کہ حضرت علی (علیه السلام) نے اپنے ہاتھ سے بہت سامال کمایا تھا اور اسے راہ خدا میں صرف کردیا تھا ۔ یہاں تک کہ مرقوم ہے کہ آپ نے ایک ہزار غلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے آزاد کرایا ۔ علاوہ ازیں آپ کو مختلف جنگو ں کے مال غنیمت میں سے بھی بہت کچھ ملا تھا ۔ لہٰذا کچھ ایسا مال یا کوئی چھوٹا سا کھجوروں کا باغ جس کی زکوٰة ادا کرنا آپ پر واجب ہو اس ہو نا کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے ۔ نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زکوٰة فوراً ادا کرنے کے وجوب کی فوریت ” عرفی فوریت “ ہے جو نماز پڑھتے ہوئے ادا کرنے کے منافی نہیں ہے ۔

دوم یہ کہ مستحب زکوٰة کو قرآن مجید میں بہت مرتبہ زکوٰة کہا گیا ہے بہت سی مکی سورتوں میں یہ لفظ زکوٰة آیا ہے جس سے مراد مستحب زکوٰة ہی ہے کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ واجب زکوٰة کا حکم پیغمبر اسلام کی ہجرت ِ مدینہ کے بعد نازل ہوا( نمل ۔ ۳ ، روم۔ ۲۹ ، لقمان۔ ۴ ، فصلت۔ ۶ وغیرہ) ۔

۵۔ آیت میں ”ولایت بالفعل “کا ذکر ہے :

اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر ہم حضرت علی (علیه السلام) کی خلافت ِ بلا فصل پر ایمان بھی آئیں تب بھی یہ بات قبول کرنا پڑے گی کہ اس تعلق زمانہ پیغمبر کے بعد سے ہے لہٰذا حضرت علی (علیه السلام) نزول آیت کے وقت ولی نہ تھے ۔ دوسرے لفظوں میں اس وقت ان کے لئے ” ولایت بالقوة “ تھی ” ولایت بالفعل“ نہ تھی جب کہ آیت ظاہراً ” ولایت بالفعل“کا ذکر کررہی ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ روز مرہ کی گفتگو میں ایسی والی تعبیرات بہت دکھائی دیتی ہیں ۔ لوگوں کے لئے ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں جو وہ ” بالقوة“ ہیں مثلاً انسان اپنی زندگی میں وصیت کرتا ہے او رکسی شخص کو اپنے بچوں کے لئے وصی اور قیم معین کرتا ہے اور اسی وقت سے ” وصی “ اور قیم “ کے الفاظ اس شخص کے لئے بولے جانے لگتے ہیں جب کہ وصیت کرنے والا ابھی زندہ ہوتا ہے ۔

شیعہ سنی طرق سے پیغمبر اکرم سے جو روایات حضرت علی (علیه السلام) کے بارے میں مروی ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے انہیں ” میرے وصی“ اور میرے خلیفہ “ کہہ کر خطاب کیا جب کہ ایسا زمانہ پیغمبر میں نہ تھا ۔

قرآن مجید میں بھی ایسی تعبیرات دکھائی دیتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت زکریا (علیه السلام) کے بارے میں ہے کہ انھوں نے خدا سے یہ در خواست کی

( هب لی من لدنک ولیاً یرثنی و یرث من اٰل یعقوب ) “ ( مریم ۔ ۵)

حالانکہ مسلم ہے کہ ”ولی “ سے یہاں مراد ” سرپرست “ ہے جو ان کی وفات کے بعد ہو گا ۔

بہت سے لوگ اپنے جانشین اپنی زندگی میں معین کرتے ہیں اور اسی وقت سے اسے جانشین کہنے لگتے ہیں حالانکہ وہ ” بالقوة “ ہی ہوتے ہیں ” بالفعل “ نہیں ۔

۶۔ حضرت علی (علیه السلام) نے اس آیت سے خود استدلال کیوں نہیں کیا؟

کہا جاتا ہے کہ حضرت علی (علیه السلام) نے اس واضح دلیل سے خود استدلال کیوں نہیں کیا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ جیساکہ آیت کے شان، نزول کے بارے میں وارد شدہ روایات کی بحث کے ضمن میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہ حدیث متعدد کتب میں خود حضرت علی (علیه السلام)سے بھی نقل ہوئی ہے جیسا کہ مسند ابن مردویہ ، مسند ابی شیخ اور کنز العمال میں سے یہ بات در حقیقت اس آیت سے آپ کااستدلا ل ہی ہے ۔

کتاب ِ نفیس ” الغدیر“ میں کتاب سلیم بن قیس ہلالی سے ایک مفصل حدیث نقل کی گئی ہے جس کے مطابق حضرت علی (علیه السلام) نے میدان صفین میں کچھ لوگوں کی موجودگی میں اپنی حقانیت پر دلائل پیش کئے ان میں سے ایک استدلال اسی آیت سے تھا ۔(۱)

غایة المرام مین ابو ذر سے منقول ہے :

حضرت علی (علیه السلام) نے شوریٰ کے دن بی اس آیت سے استدلال کیا تھا ۔(۲)

۷۔ قبل اور بعد کی آیات سے آیہ ولایت کا ربط :

یہ بھی کہاجاتا ہے کہ قبل اور بعد کی آیات سے ولایت و امامت والی تفسیر مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ ان میں ولایت دوستی کے معنی میں آئی ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ قرآنی آیات چونکہ تدریجا ً اور مختلف واقعات میں نازل ہوئی ہیں لہٰذا ان کا تعلق ان حوادث اور واقعات سے ہے جن کے سلسلے میں وہ نازل ہو ئی ہیں نہ یہ کہ ایک سورت کی آیات یا یکے بعد دیگرے آنے والی آیات ہمیشہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں یا مفہوم و معنی کے اعتبار سے ہمیشہ نزدیکی تعلق رکھتی ہے ۔ لہٰذا اکثر ایسا ہو تا ہے کہ دو آیات ایک دوسرے کے بعد نازل ہوئی ہیں ۔لیکن ان کا تعلق دو مختلف واقعات سے ہے ۔ مختلف واقعات سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دونوں معافی و مفہوم کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل جد اہیں ۔

جیسا کہ شان ِ نزول شاہد ہے کہ آیت”( انما ولیکم الله ) “ حضرت علی علیہ السلام کے حالت ِ رکوع میں زکوٰة دینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس سے قبل او ربعد کی آیات جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں او رپڑھیں گے دوسرے واقعات کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں لہٰذا ان کے ایک دوسرے سے تعلق کی بات کا زیادہ سہارا نہیں لیا جاسکتا ۔

علاوہ ازیں اتفاق کی بات ہے کہ زیر بحث آیت گذشتہ اور پیوستہ آیات سے مناسبت بھی رکھتی ہے کیونکہ دوسری آیات میں ولایت بمعنی دوستی او رمددکے گفتگو ہے جبکہ زیر بحث آیت میں ولایت رہبری اور سر پرستی کے مفہوم میں ہے اور اس میں شک نہیں کہ ولی ، سر پرست او رمتصرف اپنے پیروکاروں کا دوست اور یاور و مدد گار بھی ہوتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں دوست اور مدد گار ہونا ولایت مطلقہ کے کوائف اور اوصاف میں سے ہے ۔

۸۔ ایسی قیمتی انگوٹھی کہاں سے آئی تھی ؟ :

کہا جاتا ہے کہ ایسی گراں قیمت انگوٹھی جو تاریخ نے بیان کی ہے حضرت علی (علیه السلام) سے لائے تھے ؟ علاوہ ازیں ایسی غیر معمولی قیمت کی انگوٹھی پہنا اسراف بھی ہے ، تو کیا یہ بات اس کی دلیل نہیں کہ مذکورہ تفسیر صحیح نہیں ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس نگوٹھی کی قیمت کے بارے میں جو مبالغے کئے گئے ہیں وہ بالکل بے بنیاد ہیں اور اس کے بہت قیمتی ہونے کی ہمارے پاس کوئی قابل قبول دلیل ہیں ہے۔ یہ جو ایک ضعیف روایت(۳)

میں اس کی قیمت خراج شام کے برابر بیان کی گئی ہے ۔ حقیقت سے زیادہ ایک افسانے سے مشابہت رکھتی ہے اور شایداس اہم واقعے کی اہمیت ختم کرنے کے لئے اسے گھڑ اگیا ہے ۔ صحیح اور معتبر روایات جو آیت کی شان ِ نزول کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ۔ ان میں ایسے کسی افسانے کا کوئی ذکر نہیں لہٰذا ایسی باتوں سے ایک تاریخی واقعے اور حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا ۔

____________________

۱-الغدیر جلد ۱ ص ۱۹۶۔

۲۔ منقول از منہاج البراعة جلد ۲ ص ۳۶۳۔

۳۔ یہ ضعیف روایت بطور مرسل تفسیر برہان ج۱ ص ۴۸۵پر مذکورہے ۔

آیت ۵۶

۵۶۔( وَمَنْ یَتَوَلَّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمْ الْغَالِبُونَ )

ترجمہ

۵۶۔اور جو لوگ اللہ ، اس کے پیغمبر اور صاحبان ِ ایمان کی ولایت قبول کرلیں ( وہ کامیاب ہیں کیونکہ ) خدا کی حزب اور پارٹی ہیں کامیاب ہے ۔

تفسیر

یہ آیت گذشتہ آیت کے مضمون کی تکمیل کرتی ہے اور اسی کے ہدف کی تاکید و تعقیب کرتی ہے او رمسلمانوں کو بتاتی ہے کہ جنھوں نے خدا، اس کے رسول اور ان صاحبان ِ ایمان کی ولایت، سر پرستی او ررہبری کو قبول کرلیا ہے کہ جنکی طرف گذشتہ آیت میں اشارہ کیا جا چکا ہے وہ کامیاب ہوں گے کیونکہ وہ حزبِ خدا میں داخل ہو جائیں گے اور حزب ِ خداکامیاب و کامران ہے( وَمَنْ یَتَوَلَّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمْ الْغَالِبُونَ ) ۔

اس آیت میں ” ولایت “کے اس معنی پر ایک اور قرینہ موجود ہے جس کا ذکر گذشتہ آیت کے ذیل میں کیا گیا ہے یعنی ” ولایت “ بمعنی ” سر پرستی ، تصرف اور رہبری “ کیونکہ ” حزبب اللہ “ اور اس کا غلبہ حکومتِ اسلامی سے مربوط ہے نہ کہ ایک عام او رمعمول کی دوستی سے اور یہ خود اس بات پر دلیل ہے کہ آیت میں ” ولایت“ سر پرستی ، حکومت نیز اسلام اور مسلمانوں کی باھ دوڑ ہاتھ میں لینے کے معنی میں ہے کیونکہ ” حزب اللہ “ کے مفہوم میں ایک طرح کی تشکیل ، وابستگی اور مشترک اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک اجتماع کا تصور پوشیدہ ہے ۔

توجہ رہے کہ ” الذین اٰمنوا “ سے اس آیت میں تمام صاحب ِ ایمان مرادنہیں ہیں بلکہ اس سے مراد وہی شخص ہے جس کی طرف معین اوصاف کے ساتھ گذشتہ آیت میں اشارہ ہو چکا ہے ۔

یہاں ایک سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا آیت میں حزب اللہ کی کامیابی سے مراد صرف معنوی کامیابی ہے یا س میں ہر طرح کی معنوی و مادی کامیابی شامل ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ آیت کا اطلاق حز ب اللہ کی عام محاذوں پرمطلق کامیابی کی دلیل ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی جمیعت حزب اللہ میں شامل ہویعنی ایمان ِ محکم ، تقویٰ ، عمل صالح، اتحاد ، کامل باہمی اعتماد ، آگاہی اور علم رکھتا ہواور کافی تیاری کئے ہوئے ہو توبلا تردید وہ تمام معاملات میں کامیاب ہو گا ۔ آج اگر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایسی کامیابی میسر نہیں ہے تو اس کا سبب واضح ہے کیونکہ حز اللہ کی مذکورہ شرائط میں سے زیادہ تر آج مسلمانوں میں نہیں پائی جاتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جو توانائیں اور صلاحتیں دشمن کو شکست دینے کے لئے استعمال ہو نا چاہییں ، زیادہ تر ایک دوسرے کو کمزور کرنے پر صرف ہورہی ہیں ۔

سورہ مجادلہ آیہ ۲ میں بھی حزب اللہ کی کچھ صفات بیان ہوئی ہیں جس کی تعبیر انشاء اللہ متعلقہ مقام پر آئے گی ۔