تفسیر نمونہ جلد ۴

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26101
ڈاؤنلوڈ: 4128


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 148 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26101 / ڈاؤنلوڈ: 4128
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۱۱۵

۱۱۵۔( وَ مَنْ یُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبیلِ الْمُؤْمِنینَ نُوَلِّهِ ما تَوَلَّی وَ نُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَ ساء َتْ مَصیراً ) ۔

ترجمہ

۱۱۵۔ جو شخص حق واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے او رراہِ مومنین کے علاوہ کسی راستے کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی راہ پر لئے جاتے ہیں جس پر وہ جارہا ہے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے ۔

شانِ نزول

گذشتہ آیا ت کی شانِ نزول میں ہم کہہ چکے ہیں کہ بشیر بن ابیرق نے ایک مسلمان چوری کرنے کے بعد اس کا الزام ایک بے گناہ شخص پر دھر دیا اور حیلہ سازی سے پیغمبر اکرم کے سامنے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے دیا ۔ لیکن مذکورہ آیات کے نزول سے وہ رسوا ہوگیا۔ اس رسوائی کے بعد بجائے اس کے کہ توبہ کرتا اور راہِ حق پر لوٹ آتا ، اس نے کفر کا راستہ اختیار کرلیا اور واضح طور پر مسلمانوں سے الگ ہو گیا اس پ رمندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور اس سلسلے میں اسلام کا ایک عمومی حکم بیان کیا۔

تفسیر

جب انسان کسی غلطی کر مرتکب ہوتا ہے تو آگاہی کے بعد اس کے سامنے دوراستے ہوتے ہیں ۔ ایک ہے باز گشت اور توبہ کا راستہ ، جس کے ذریعے گناہ کے اثرات د’ھل جاتے ہیں اور اس تذکرہ گذشتہ چند آیات میں ہو چکا ہے ۔ دوسرا ہے ہٹ دھرمی اور عناد کا راستہ ، جس کے منحوس نتیجے کے بارے میں زیر بحث آیت میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :

جو شخص حق آشکار ہونے کے بعد رسول کے سامنے مخالفت اور عناد کا مظاہرہ کرے او رراہ مومنین کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرے تو ہم اسے اسی راستے کی طرف کھینچے لئے جائیں گے جس پر وہ جارہا ہے اور روز قیامت ہم اسے جہنم میں ڈالیں گے اور کیسی بری جگہ اس کے انتظار میں ہے

( وَ مَنْ یُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبیلِ الْمُؤْمِنینَ نُوَلِّهِ ما تَوَلَّی وَ نُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَ ساء َتْ مَصیراً ) ۔

توجہ رہے کہ ” یشاقق“ ” شقاق“ کے مادہ سے ہے ، اس کا معنی ہے ایسی سوچی سمجھی مخالفت جس میں عداوت و دشمنی ملی ہوئی ہو،

( وَ مَنْ یُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدی )

(یعنی .....ہدایت اور راہ راست واضح ہو جانے کے بعد )...... یہ جملہ بھی اسی معنی کی تاکید کرتا ہے ۔ درحقیقت اس سے بہتر انجام ایسے لوگوں کے بس میں ہی نہیں ۔ ان کا انجام اس دنیا میں بھی منحوس اور افسوس ناک ہے اور اس جہان میں بھی دردناک ہے ، اس جہان میں اس طرح جیسے قرآن کہتا ہے کہ وہ دن بدن اپنی غلط راہ میں زیادہ راسخ ہوجاتے ہیں وہ بے راہ روی میں جتنا آگے بڑھتے ہیں جادہ حق سے ان کا زاویہ انحراف اتنا ہی بڑھتا جا تا ہے ۔ اور یہ وہ انجام ہے جو انھوں نے اپنے لئے خود اختیار کیا ہے یہ ایسی تعمیر ہے جس کا سنگ بنیاد انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے رکھا ہے لہٰذا اس انجام کے سلسلے میں ان پر کوئی ظلم نہیں کیا گیا ۔ یہ جو ارشاد الہٰی ہے کہ” نولہ ماتولّی“ کے بارے میں ایک اور بے راہ روی میں پیش رفت کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔(۱)

نولہ ماتولّی ۔کے بارے میں ایک اور تفسیر بھی ہے اور وہ یہ کہ ” ہم ایسے لوگوں کو انہی جعلی معبودوں کی سر پرستی میں رہنے دیں گے جو انھوں نے اپنے لئے خو د منتخب کررکھے ہیں ”نیز“ نصلہ جھنم“ قیامت میں ان کے انجام کی طرف اشارہ ہے ۔

____________________

۱-اس سلسلے میں تفسیر نمونہ جلد ق ( ار دو ترجمہ ص۱۴۰) میں ” خدا کی طرف سے ہدایت و گمراہی “ کے زیر عنوان تفصیلی گفتگو کی جاچکی ہے ۔

اجماع کی حجیت

فقہ کی چار دلیلوں میں سے ایک اجماع ہے اس کا معنی ہے کہ کسی ایک مسئلے پر اسلامی علماء کا اتفاق رائے ۔

اصول فقہ میں اجماع کی جحیت ثابت کرنے کے لئے مختلف دلیلیں بیان کی گئی ہیں ۔ بعض کے نزدیک ان میں سے ایک زیر بحث آیت بھی ہے ۔ کیونکہ آیت کہتی ہے کہ جو دشمن مومنین کے طریق کے علاوہ کوئی راستہ انتخاب کرے تو وہ دنیا اور آخرت میں بدبخت انجام ہو گا ۔ اس لئے جب مومنین کسی مسئلے میں ایک راہ انتخاب کرلیں تو سب کو چاہئیے کہ اس کی پیروی کریں ۔

لیکن حق یہ ہے کہ زیر نظر آیت کا اجماع کی حجیت سے کوئی تعلق نہیں ( اگر چہ ہم اجماع کی حجیت کے قائل ہیں البتہ اس شرط کے ساتھ کہ زیر اثر بحث مسئلے میں قول معصوم بھی موجود ہے یا معصوم ذاتی طور پر اصحاب اجماع میں موجود ہو، اگر چہ ناشناس طور پر ہی موجود ہو، لیکن ایسے اجماع کی حجیت در اصل سنت اور قول ِ معصوم ہی کی حجیت ہے ۔نہ کہ درج بالا آیت حجیت ِاجماع پر دلیل ہے )

آیت کے حجیت اجماع پر دلیل نہ ہونے کے بارے میں عر ض ہے کہ :

۱۔ جو سزا ئیں آیت میں معین ہوئی ہیں وہ ان لوگوں کے لئے ہیں جو جانتے بوجھتے پیغمبرکی مخالفت کریں اور راہِ مومنین کے علاوہ کوئی راستہ منتخ کریں یعنی یہ دونوں امور جمع ہو ں تو اس کا نتیجہ وہ ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور یہ وہ مخالفت ہے جو علم و آگاہی سے کی جائے اس صورت ِ حال کا تو حجیت اجماع کے مسئلے سے کوئی ربط نہیں ۔ اور یہ امر انتہا اجماع کو حجت قرار ددیتا ۔

۲۔ دوسر ی بات یہ ہے کہ سبیل المومنین سے مراد راہِ توحید ، خدا پرستی اور اصل اسلام ہے نہ کہ فقہی فتاویٰ اور فروعی احکام جیسا کہ شانِ نزول کے علاوہ آیت کا ظاہر بھی اس حقیقت پر گواہ ہے اور حقیقت میں راہِ مومنین سے ہٹ کر کوئی راہ اپنے کامطلب مخالفت ِ پیغمبر کے علاوہ او رکچھ نہیں دونوں باتوں کی باز گشت ایک ہی مفہوم کی طرف ہے یہی وجہ ہے کہ امام باقر علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں ہے :

جس وقت حضرت امیر المومنین علی (علیه السلام) کوفہ میں تھے کچھ لوگ آپ (علیه السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے انھوں نے درخواست کی : آپ (علیه السلام) ہمارے لئے کسی پیش نماز کا انتخاب کریں ( تاکہ ماہِ رمضان کی مستحب نمازیں جو تراویح کے نام سے مشہور ہیں اور حضرت عمر کے زمانے میں جماعت سے پڑھا کرتے تھے اس پیش نماز کے ساتھ پڑھ سکیں ) امام علیہ السلام نے اس کام سے منع کیا اور ایسی جماعت سے روکا ( کیونکہ نفلی نماز کے لئے جماعت صحیح نہیں ہے ) اپنے امام و پیشوا کا قطعی حکم سننے کے باوجود یہ لوگ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے لگے انھوں نے دادو فریاد بلند کی : لوگو! آو اس ماہِ رمضان میں آنسو بہاو۔

دوستان ِ علی میں سے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے : کچھ لوگ آپ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے ۔

آپ نے فرمایا: انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو جسے چاہیں منتخب کرلیں اور ا س( غیر مشروع ) جماعت کو بجا لائیں ۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :(نور الثقلین جلد ۱ صفحہ ۵۵۱ ۔)

( وَ مَنْ یُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبیلِ الْمُؤْمِنینَ نُوَلِّهِ ما تَوَلَّی وَ نُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَ ساء َتْ مَصیراً ) ۔

ہم نے جو کچھ آیت کی تفسیر کے بارے میں کہا ہے یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔

آیت ۱۱۶

۱۱۶۔ا( ِٕنَّ اللَّهَ لا یَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِهِ وَ یَغْفِرُ ما دُونَ ذلِکَ لِمَنْ یَشاء ُ وَ مَنْ یُشْرِکْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً بَعیداً ) ۔

ترجمہ

۱۱۶۔ خدا اپنے ساتھ کئے جانے والے شرک کو نہیں بخشتا ( لیکن ) اس سے کم تر کو جسے چاہے ( مناسب سمجھے) بخش دیتا ہے او رجو شخص خدا کے لئے شریک کا قائل ہو، وہ دور کی گمراہی میں جاپڑا ہے ۔

تفسیر

شرک.... ناقابل معافی گناہ

منافقین اور مرتد ین یعنی اسلام قبول کرلینے کے بعد کفر پر پلٹ جانے والوں سے مربوط مباحث کے بعد ، یہاں دوبارہ گناہ شرک کی شدت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسا گناہ ہے جو عفو و بخشش کے قابل نہیں ہے اور اس سے بڑھ کر کسی گناہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

کچھ فرق کے ساتھ یہی مضمون اسی سورہ کی آیت ۴۸ میں گذرچکا ہے ۔

ایسی تکرار تربیتی مسائل میں لازمہ ِ بلاغت ہے کیونکہ بنیادی اور اہم مسائل کی فاصلے سے تکرار ہونا چاہئیے تاکہ وہ نفوس و افکار میں راسخ ہو جائیں ۔

در حقیقت گناہ بھی مختلف بیماریوں کی طرح ہیں جب تک بیماری بد ن کے اصلی مراکز پر حملہ آور ہو کر انھیں نے کار نہیں کردیتی بدن کی دفاعی قوت صحت و بہبود کے لئے کار آمد رہتی ہے لیکن اگر مثال کے طور پر بیماری بدن کے اصلی مرکز یعنی دفاع پر حملہ کردے اور اسے مفلوج کردے تو امید کے در وازے بند ہو جائیں گے اور موت یقین کی صورت میں آکھڑی ہوگی ۔

شرک ایک ایسی ہی بیماری ہے جو روح انسانی کا حساس مرکز بے کار کردیتی ہے اور انسانی جان پر تاریکی و ظلمت کا چھڑکاو کرتی ہے ۔ اس کے ہوتے ہوئے نجات کی کوئی امید نہیں ہے ۔ لیکن اگر حقیقت توحید اور یکتا پرستی جو ہر طرح کی فضیلت، جنبش اور تحریک کا سر چشمہ ہے زندہ ہو تو پھر دیگر گناہوں سے بخشش کی امید کی جا سکتی ہے (إ( ِنَّ اللَّهَ لا یَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِهِ وَ یَغْفِرُ ما دُونَ ذلِکَ لِمَنْ یَشاء ُ ) ۔

جیساکہ ہم کہ چکے ہیں یہ آیت اس سورہ میں کچھ فرق کے ساتھ دو مرتبہ آئی ہے تاکہ شرک و بت پرستی کے وہ آثار جو سال ہا سال سے لوگوں کے نفوس کی گہرائیوں میں گھر بناچکے تھے ۔ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں اور توحید کے معنوی و مادی آثار ان کے شجرِوجود پر آشکار ہو جائیں البتہ دونوں آیات میں تھوڑا سا فرق ہے یہاں فرمایا گیا ہے( وَ مَنْ یُشْرِکْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً بَعیداً ) ۔.....یعنی .جو شخص خدا کے لئے شریک کا قائل ہو وہ دورکی گمراہی میں گرفتار ہے لیکن گذشتہ آیت میں ارشاد ہوا ہے :

( و من یشرک بالله فقد افتری اثماً عظیم ) .......... یعنی جو شخص کسی کو خدا کا شریک بنادے اس نے بہت بڑا جھوٹ اور افتراء باندھا ہے ۔

درحقیقت وہاں جنبہ الہٰی او رخدا شناسی کے لحاظ سے شریک کے عظیم نقصان کی طرف اشارہ ہواہے اور یہاں لوگوں کے لئے اس کے ناقابل تلافی نقصانات بیان ہوئے ہیں وہاں مسئلے کا عملی پہلو مد نظر رکھا گیا ہے او ریہاں اس کے عملی پہلو او رخارجی نتائج کاذکر ہے واضح ہے کہ اصطلاح کے مطابق یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔(۱)

____________________

۱ - اس آیت کے سلسلے میں دیگر وضاحتیں تفسیر نمونہ جلد ۳ میں پیش کی جاچکی ہیں ( دیکھئے ار دو ترجمہ ص۲۹۴)

آیات ۱۱۷،۱۱۸،۱۱۹،۱۲۰،۱۲۱

۱۱۷۔ ا( ِٕنْ یَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلاَّ إِناثاً وَ إِنْ یَدْعُونَ إِلاَّ شَیْطاناً مَریداً ) ۔

۱۱۸۔( لَعَنَهُ اللَّهُ وَ قالَ لَاٴَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِکَ نَصیباً مَفْرُوضاً ) ۔

۱۱۹۔( وَ لَاٴُضِلَّنَّهُمْ وَ لَاٴُمَنِّیَنَّهُمْ وَ لَآمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ آذانَ الْاٴَنْعامِ وَ لَآمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَ مَنْ یَتَّخِذِ الشَّیْطانَ وَلِیًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْراناً مُبیناً ) ۔

۱۲۰۔( یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیهِمْ وَ ما یَعِدُهُمُ الشَّیْطانُ إِلاَّ غُرُوراً ) ۔

۱۲۱( اٴُولئِکَ مَاٴْواهُمْ جَهَنَّمُ وَ لا یَجِدُونَ عَنْها مَحیصاً ) ۔

ترجمہ

۱۱۷۔ وہ خدا کو چھوڑ کر صرف بتوں کو پکار تے ہیں جن کو ئی اثر نہیں اور ( یا ) وہ صرف سرکش او رتباہ کار شیطان کو پکارتے ہیں ۔

۱۱۸۔ خدا نے اسے اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ میں تیرے بندوں سے ایک معین مقدار لے کر رہوں گا۔

۱۱۹۔ اور میں انھیں گمراہ کروں گا اور آزووں اور تمناوں کے حصول میں سر گرم رکھوں گا اور انھیں حکم دو ں گا کہ وہ ( بت ہودہ اور فضول کام انجام دیں اور ) چوپایوں کے کان چیر دیں اور خدا کی ( پاک ) خلقت کو خراب کردیں ( فطرتِ توحید کو شرک آلودہ کردیں اور وہ لوگ جنھوں نے خدا کی بجائے شیطان کو اپنی ولی چنا ہے انھوں نے واضح نقصان کیا ہے ۔

۱۲۰۔ شیطان ان سے ( جھوٹے ) وعدے کرتا ہے اور انھیں آرزووں میں سر گرم رکھتا ہے اور مکر و فریب کے سوا انھیں کوئی وعدہ نہیں دیتا۔

۱۲۱۔ ( شیطان کے ) ان ( پیرو کاروں ) کے رہنے کی جگہ جہنم ہے اور ان کے لئے کوئی راہِ فرار نہیں ہے ۔

شیطانی سازشیں

پہلی آیت ان مشرکین کی حالت بیان کررہی ہے جن کے منحوس انجام کا تذکرہ گذشتہ آیت میں کیا گیا ہے ۔اس میں در حقیقت ان کی سخت گمراہی کا سبب بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے : وہ اس قدر کوتاہ فکر ہیں کہ انھوں نے وسیع عالم ہستی کے خالق کو چھوڑ کر ایسے موجودات کے در پر رجوع کرتے ہیں کہ جن کا کچھ مثبت اثر نہیں بلکہ بعض اوقات تو شیطان کی طرح تباہ کار اور گراہ کن بھی ہوتے ہیں ( ا( ِٕنْ یَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلاَّ إِناثاً وَ إِنْ یَدْعُونَ إِلاَّ شَیْطاناً مَریداً ) ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں مشرکین کے معبود دوچیزوں میں منحصر قرار دئے گئے ہیں اول ”اناث“اور دوم ......” شیطان مرید“

”اناث“ جمع ہے ” انثیٰ“ کی جو کہ ” انث“ ( بر وزن ” ادب“ ) مادہ سے ہے ” انثیٰ “ نرم اور قابل انعطاف موجود کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوہا جب آگ میں نرم ہو جائے تو عرب’ انث الحدید“ کہتے ہیں عورت کو بھی ” اناث“ یا ” مونث“ اسی لئے کہ جاتا ہے کہ وہ زیادہ نرم دل ، لطیف اور انعطاف پذیرصنف ہے ۔

بعض مفسرین کا نظر یہ ہے کہ یہاں قرآن کا اشارہ قبالئل عرب کے مشہور بتوں کی طرف ہے ہر عرب قبیلے نے اپنا ایک بت بنا رکھا تھا سجے نام دیاگیا تھا ” مثلاً اللات جس معنی ہے ” الھہ“ اور یہ ” اللہ “ کا مونث ہے ” عزی“ بھی مونث ہے “ اعز“ کا اسی طرح ” منات“ ” اساف“ اور ” نائلہ “ بھی مونث نام ہیں ۔

بعض دوسرے بزرگ مفسرین کا نظریہ ہے کہ یہاں اناث سے مراد مونث کا مشہور معنی نہیں ہے بلکہ یہ لفظ یہاں اصل لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اہ ایسے معبودوں کی پرستش کرتے تھے جن کی حیثیت ایک کمزورمخلوق سے زیادہ نہ تھی اور جو آسانی سے انسان کے ہاتھوں ہر شکل میں دُھل جاتے تھے ان کا پورا وجود دوسروں کے رحم و کرم پر جدھر چاہو ادھر مڑجانے والا اور حوادث کے سامنے جھک جانے والا تھا، زیادہ کھلے لفظوں میں وہ نے ارادہ او ربے اختیار معبود تھے جن سے کوئی نفع و نقصان نہ پہنچ سکتا تھا۔

باقی رہا لفظ” مرید“ تو اس کی تشریح کچھ یوں ہے : یہ لفظ لغت کے لحاظ سے ” مرد “ ( بر وزن ” زرد“)کے مادہ سے ہے ، جس کا معنی ہے درختوں کی شاخیں اور پتے جھڑ جانا۔ اسی لئے جس نوجوان کے چہرے پر ابھی بال نہ اگے ہوں اسے” امَرد“ کہا جاتاہے ۔ لہٰذا ” شیطان مرید“ سے مراد شیطان ہے جس کے شجر وجود کی تمام صفات فضیلت گر چکی ہوں اور بھلائی اور طاقت کی کوئی چیز باقی نہ رہی ہو یا پھر لفظ مادہ ” مرود“ ) سے ہے جس کامعنی ہے طغیان اور سر کشی.... یعنی ان کا وجود تباہ اور ویران لانے والا شیطان ہے ۔

درحقیقت قرآن نے ان کے معبودوں کو دو گروپوں میں بیان کیا ہے ایک گروپ وہ ہے جو بے اثر اور بے خاصیت ہے اور دوسرا تباہ کار اور ویران گر ہے اور جو شخص ایسے معبودوں کے سامنے سر جھکائے وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہے ۔

اس کے بعد کی آیا ت میں شیطان کی صفات ، اس کے مقاصد و اہداف اور بنی آدم سے اس کی مخصوص دشمنی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے نیز اس کے لائحہ عمل کے مختلف حصوں کی تشریح کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے : خدا نے اسے اپنے رحمت سے دور کردیا ہے ( لعنہ اللہ) اس کی تمام تباہ کاریوں اوربد بختیوں کی بنیاد در اصل یہی ہے کہ وہ رحمت الہٰی سے دور ہو چکا ہے ،اور یہ دوری اس کے غرور و تکبر کا نتیجہ ہے ، یہ بات واضح ہے کہ ایسا وجودرحمت خدا سے دور ہو کر ہر طرح کی خیر و خوبی سے محروم ہو چکا ہو، وہ دوسروں کی زندگی کے لئے مفیدنہیں ہو سکتا بلکہ نقصان دہ بھی ہوسکتا ہوگا۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ شیطان نے قسم کھارکھی ہے کہ وہ یہ کام سر انجام دے گا:

۱۔ تیرے بندوں سے ایک معین حصہ لوگوں گا( وقال لاتخذن من عبادک نصیباً مفروضا ً ) ۔

وہ جانتا ہے کہ وہ خدا کے سب بندوں کو گمراہ نہیں کرسکتا اور صرف ہوس پرست، ضعیف ایمان والے اور کمزور ارادے کے مالک ہی اس کے سامنے جھکیں گے ۔

۲۔ انھیں گمراہ کروں گا( ولاضلنهم ) ۔

۳۔ انھیں لمبی چوڑی امیدوں اور آرزووں کے سہارے مصروف رکھوں گا( ولامنینهم ) (۱)

۴۔ انھیں فضول اور بیہودہ کاموں کی دعوت دوں گا ان میں سے یہ بھی ہے کہ انھیں حکم دوں گا وہ چوپایوں کے کانوں میں سوراخ کریں یا انھیں کاٹ ڈالیں

( ولامر نهم فلیبتکن اذا ل الانعام ) ۔

یہ زمانہ جاہلیت کے ایک بد ترین عمل کی طرف اشارہ ہے ۔ بت پرستوں میں یہ کام مروج تھا کہ وہ بعض چوپایوں کے کان چیر دیتے یا انھیں قطع کردیتے پھر ان پر سواری کو ممنوع سمجھ لیتے اور ان سے کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ اٹھاتے ۔

۵۔ انھیں اس کام پر ابھاروں گا کہ خدا کی پاک خلقت کو بگاڑدیں( ولامرنهم فلیغرن خلق الله ) ۔

یہ جملہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ خد انے انسان کی فطرت اولیٰ میں توحید، یگانہ پرستی او رہر طرح کی پسندیدہ صفت رکھی ہے لیکن شیطانی وسوسے اور ہوا و ہوس اسے اس صحیح راستے سے منحرف کردیتے ہیں اور بے راہ روی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں اس بات کی شاہد سورہ روم کی آہ ۳۰ ہے ۔

( فا قم وجهک للذین حنیفا فطرة الله التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله ذلک الدین القیم ) ۔

اپنا چہرہ خالص توحیدی آئین کی طرف کولو یہ وہی فطرت ہے کہ جس پر خدا نے شروع سے لوگوں کورکھا ہے یہ آفرینش کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی یہی حقیقی اور مستقیم دین ہے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ یہاں تغیر سے مراد فطرت توحید اور فرمانِ خدا میں تغیر ہے(۲)

اور یہ ایسا ضرر ہے جو قابل تلافی نہیں شیطان یہ نقصان انسان کی سعادت کی بنیاد کو پہچانتا ہے کیونکہ وہ حقائق کو اوہام میں تبدیل کرکے رکھ دیتا ہے اور اس کے بعد سعدات شقاوت میں بدل جاتی ہے ۔

آخر میں ایک حکم عمومی بیان کیا گیا ہے : جو شخص خد اکی بجائے شیطان کو اپنا سرپرست بنا تا ہے وہ کھلے نقصان کا مرتکب ہواہے( وَ مَنْ یَتَّخِذِ الشَّیْطانَ وَلِیًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْراناً مُبیناً ) ۔

اگلی آیت میں گذشتہ گفتگو کی دلیل کے طور پر چند نکات بیان کئے ہیں :

شیطان ہمیشہ ان سے جھوٹے وعدے کرتا رہتا ہے اور انھیں لمبی چوڑی ارزووں میں محو رکھتا ہے لیکن مکرو فریب کے علاوہ کرتا ان کے لئے کچھ بھی نہیں ہے( یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیهِمْ وَ ما یَعِدُهُمُ الشَّیْطانُ إِلاَّ غُرُوراً ) ۔(۳)

محل بحث آیت میں سے آخری آیت میں شیطان کے پیرو کاروں کے آخری انجام کا تذکرہ ہے ۔ فرمایا گیا ہے ان کا ٹھکا نا جہنم میں ہے اور ان کے لئے بھاگ نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے( اٴُولئِکَ مَاٴْواهُمْ جَهَنَّمُ وَ لا یَجِدُونَ عَنْها مَحیصاً ) ۔(۴)

____________________

۱ اس لفظ کا مادہ ” منی“ ( بر وزن” منع“ ) ہے جو تقدیر اور حساب لگانے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے بعض اوقات خیالی اندازوں او رموہوم آوازوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ، نطفہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ زندہ موجودات کی ابتدا کا حساب اسی سے لگایا جاتا ہے ۔

۲ -

۳ ” غرور“ در اصل کسی چیز کے واضح اور آشکار ر اثر کو کہتے ہیں لیکن یہ لفظ زیادہ تر آثار کے لئے استعمال ہوتا ہے جن کا ظاہر پر فریب اور باطن ناپسند ہو اور ہرایسی چیز کو غرور کہتے ہیں جو انسان کو فریب دے اور راہ حق سے منحرف کردے چاہے وہ مال و ثروت ہو یا مقام و اقتدار۔

۴ ” محیص“ ” حیص“ کے مادہ سے ہے جس کا مطلب ہے عدول کرنا اور نگاہ پیر لینا۔ لہٰذا محیص کا منعی ہو گا عدول کا ذریعہ اور فرار کا وسیلہ۔

آیت ۱۲۲

۱۲۲۔( وَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهارُ خالِدینَ فیها اٴَبَداً وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا وَ مَنْ اٴَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قیلاً ) ۔

ترجمہ

۱۲۲۔ اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک کام سر انجام دئے ہم انھیں عنقریب ان باغات بہشت میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ہمیشہ کے لئے ان میں رہیں گے اللہ تم سے سچا وعدہ کرتا ہے او رکون ہے جو قول اور اپنے وعدوں میں اللہ سے زیادہ سچا ہو ۔

شانِ نزول

گذشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ جو لوگ شیطان کو اپنا ولی بناتے ہیں وہ واضح طور پر خسارے اور نقصان میں ہیں ، شیطان ان سے جھوٹے وعدے کرتا ہے انھیں آرزووں میں محو رکھتا ہے اور ا س کا وعدہ مکر و فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے مقابلے میں اس آیت میں اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے کہ : وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک اعمال انجام دئیے ہیں وہ بہت جلد فردوسِ بریں کے باغات میں جائیں گے، یہ وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں( وَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهارُ ) ۔

یہ نعمت دنیاوی نعمتوں کی طرح ناپائیدار نہیں ہے بلکہ ہمیشہ مومنین کو میسر رہے گی( خالِدینَ فیها اٴَبَداً ) ۔

یہ وعدہ شیطان کے جھوٹے وعدوں کی طرح نہیں ہے بلکہ سچا ہے اور خد اکا وعدہ ہے( وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا )

اور یہ واضح ہے کہ خداسے بڑھ کر اپنے قول و قرار کا سچا کوئی نہیں ہوسکتا( وَ مَنْ اٴَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قیلاً ) ۔

کیونکہ وعدہ خلافییا تو عجز و ناتوانی کی وجہ سے ہوتی ہے اور یا جہالت و امتیاج کی بنا پر جو کہ اللہ کی ساحت قدس سے بعید ہے ۔

آیات ۱۲۳،۱۲۴

۱۲۳۔( لَیْسَ بِاٴَمانِیِّکُمْ وَ لا اٴَمانِیِّ اٴَهْلِ الْکِتابِ مَنْ یَعْمَلْ سُوء اً یُجْزَ بِهِ وَ لا یَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِیًّا وَ لا نَصیراً ) ۔

۱۲۴۔( وَ مَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنْثی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُولئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَ لا یُظْلَمُونَ نَقیراً ) ۔

ترجمہ

۱۲۳۔ تمہاری اور اہل کتاب کی آرزوں سے ( فضیلت و بر تری) نہیں ہوتی ، جو شخص بر اعمل کرے گا اسے سزادی جائے گی اور وہ خدا کے علاوہ کسی کو اپنا ولی و یاور نہیں پائے گا۔

۱۲۴۔ اور جو شخص اعمالِ صالح میں سے کچھ انجام دے ، چاہے مرد یا عورت ، اگر وہ ایمان رکھتا ہے تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہو ں گے اور ان پر تھوڑا سا ظلم بھی ہو گا ۔

شانِ نزول

تفسیر مجمع البیان اور دیگر تفاسیر میں ہے کہ مسلمان او راہل کتاب ایک دوسرے پرفخر کرتے تھے اہل کتاب کہتے کہ ہمارا پیغمبر تمہارے پیغمبر سے پہلے آیا ہے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے مقدم ہے او رمسلمان کہتے کہ ہمارا پیغمبر تمام پیغمبروں کا خاتم ہے اور ا س کی کتاب آخری کتاب ہے اور دیگر آسمانیکتب سے زیادہ کامل و اکمل ہے لہٰذا ہم تم سے زیادہ افضل ہیں ۔

ایک اور روایت میں ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ ہم برگزیدہ قوم ہیں اور جنہم کی آگ چند دنوں کے سواہم تک نہیں پہنچے گی( و قالوا لن تمسنا النار الا ایا ماً معدوداة ) ۔( بقرہ ۔ ۸۰)

اور مسلمان کہتے کہ بہترین ہم امت ہیں کیونکہ خدا نے ہمارے بارے میں فرمایاہے :

( کنتم خیر امت اخرجت للناس ) آل عمران ۔ ۱۱۰ ۔

اسی ضمن میں مندر جہ بالا آیت نازل ہوئی او ران دعووں پر خط بطلان کھینچ دیا گیااو ریہ واضح کیا گیا کہ ہر انسان کی قدر و قیمت ان کے اعمال کے مطابق ہو گی ۔

سچے اور جھوٹے امتیازات

ان دو آیت میں اسلام کی ایک بہت ہی اہم اساس کو بیان کیا گیا ہے او ر وہ یہ کہ افراد کی وجودی قدر و قیمت اور جزاو سزا ان کے دعووں اور آرزوں سے مربوط نہیں ہے بلکہ صرف ایمان اور عمل سے وابستہ ہے اسلام کی یہ بنیاد ثابت اور سنت ہے اور غیر متبدل ہے ۔ یہ وہ قانون ہے جس کی نظر میں تمام امتیں یکساں ہیں لہٰذا پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: فضیلت و برتری کا انحصار تمہاری اور اہل کتاب کی آرزووں پر نہیں ہے( لَیْسَ بِاٴَمانِیِّکُمْ وَ لا اٴَمانِیِّ اٴَهْلِ الْکِتابِ ) ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے : جو شخص کوئی عمل بجا لائے گا وہ اس کے بدلے اپنی سزا پائے گا اور خدا کے علاوہ کسی کو اپناولی و یا ور نہ پائے گا

( مَنْ یَعْمَلْ سُوء اً یُجْزَ بِهِ وَ لا یَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِیًّا وَ لا نَصیراً ) ۔اور اسی طرح کے لوگ نیک عمل بجالائیں گے اور صاحبِ ایمان ہوں گے وہ مرد ہوں یا عورت جنت میں داخل ہوں گے اور ان پرکوئی ظلم نہیں ہو گا( وَ مَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنْثی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُولئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَ لا یُظْلَمُونَ نَقیراً ) ۔(۱)

اس طرح قرآن نے نہایت سادگی سے بقولے سب کے ہاتھ پر پاک پانی ڈالا ہے او رکسی مذہب سے دعوے کی حد تک خیالی ، اجتماعی یا نسلی وابستگی کو بے فائدہ قرار دیا ہے اور نجات کی بنیاد اس مکتب کے اصولوں پر ایمان لانے اور اس کے پروگراموں پر عمل کرنے ٹھہرایاہے ۔

پہلی آیت کے ذیل میں بنیادی شیعہ کتب میں ایک حدیث منقول ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد بعض مسلمان ایسی وحشت و پریشانی میں مبتلا ہو گئے کہ وہ ڈر کے مارے رونے لگے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انسان خطا ر ہے اور آخر اس سے گناہ سرزد ہونا ممکن ہی ہے اور اگر کسی قسم کی کوئی معافی اور بخشش نہیں اور تمام برے اعمال کی سزا ملے گی پھر یہ تو بڑا مشکل مرحلہ ہے ۔ لہٰذا انھوں نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں عرض کیا کہ اس آیت نے ہمارے لئے تو کوئی صورت نہیں چھوڑی، اس پر پیغمبر اکرم نے فرمایا:

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بات وہی ہے جو اس آیت میں نازل ہوئی ہے تاہم تمہیں ایسی بشارت دیتا ہوں جو تمہارے لئے قربِ خدا اورنیک اعمال بجا لانے کی تشویق کا سبب بنے گی اور وہ یہ کہ تمہیں جو مصیبتیں پہنچیں گی، تمہارے گناہوں کا کفارہ بنیں گی یہاں تک تمہارے پاوں میں چھبنے والاایک کانٹا بھی ۔(۲)

ایک سوال کاجواب

ارشاد الہٰی ہے :( وَ لا یَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِیًّا وَ لا نَصیراً ) ۔یعنی وہ اپنے گناہوں کے مقابلہ میں کسی کو اپناسر پرست و یا ور نہیں پائے گا) ممکن ہے بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہیں کہ اس جملے سے مسئلہ شفاعت وغیرہ کی بالکل نفی ہو جاتی ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے بھی ارشاد کیا جاچکا ہے کہ شفاعت کا معنی یہ نہیں ہے کہ شفاعت کرنے والے مثلاً انبیاء آئمہ اور صلحا خدا کے مقابلہ میں کوئی مستقل طاقت رکھتے ہیں بلکہ ان کی شفاعت بھی حکم خدا کے ماتحت ہے اور اس کی جازت او رجس کی شفاعت کی جانا ہے اس کی اہلیت کے بغیر کبھی شفاعت نہیں کریں گے ۔لہٰذا ایسی شفاعت کی بر گشت بالا ٓخر خد اکی طرف ہے اور خدا کی سر پرستی ، نصرت اور مدد کا ایک شعبہ شمار ہوتی ہے ۔

____________________

۱-نقیر کے مفہوم پر اسی سورہ کی آیت ۵۳ میں بحث کی جاچکی ہے ۔

۲- نو ر الثقلین جلد اول ۔ ص۵۵۳۔