استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 42557
ڈاؤنلوڈ: 4835

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42557 / ڈاؤنلوڈ: 4835
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس ۱۹

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏. انَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطانٌ عَلَى الَّذینَ آمَنُوا وَ عَلى‏ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون ) .

رنج وراحت اللہ کی طرف سے ہے:

توکل کالازمہ یہ ہے کہ انسان سمجھ لے کہ( لَهُ مُلْكُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ اور وَ تَبارَكَ الَّذِی لَهُ مُلْک‏ ) کہ ہرچیزپر اس کی بادشہای ہےاور کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیزکلی اور جزئی طور پر اس کی ملکیت ہے اور اس کے مشئیت واردہ کے زیر اثر ہے جیساکہ سورہ نجم میں بعض جزی افعال کو اپنی طرف نسبت دیتے ہوئے فرماتاہے:( وَ أَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَ أَبْکى‏ ) اور وہی ہے جس ہنساتابھی ہے اور رلاتا بھی.مطلب یہ ہے کہ تمام اسباب خندہ وگریہ کوبھی وہی فراہم فرماتاہے اور:( وَ أَنَّهُ هُوَ أَغْنى‏ وَ أَقْنى‏ ) وہی مال و دولت عطا کرتاہے اور صاحب ثروت بناتاہے.

جس زمین پر آپ چلتے ہیں وہ بھی اس کی ہے جس گھر میں آپ رہتے ہیں وہ بھی اور ہر وہ چیز جوآپ کی ملکیت میں ہے آپ کی دولت وغیرہ وہ بھی اسی کی ہے .آپ کو اس کے علی الاطلاق مالک ہونے پر پختہ ایمان ہونا چاہئے.

علم کے بغیر عقیدہ توحید افعالی نہیں:

تاوقیتکہ آپ ان حقائق پر یقین نہ کریں ناممکن ہے کہ“لاحول ولاقوة الابالله ” کے حقیقی مفہوم کو سمجھ سکیں.انسان کو چاہئیے کہ تمام وسائل واسباب کو کلی اورجزی طور پر اللہ تعاليٰ کی طرف سے سمجھے اس حقیقت پر یقین کامل ہونے سے اسے صحیح مفہوم میں معلوم ہوگا کہ“لاحول ولاقوة الابالله ”کا مطلب غیر اللہ کی قدرت وطاقت کی مطلقا نفی ہے.لفظ لا“نفی جنس”کا معنی دیتاہے کہ ہرگز ہرگز کوئی بھی قوت اللہ کے سواکسی کو حاصل نہیں سب قوتوں کامنبع وسرچشمہ اور خالق ومالک وہی ہے.

مراتب وجود میں سے کوئی مرتبہ بھی اپنی ذات میں مستقل نہیں ہے.انسان کا زبان کو خیش دینا اور اس سے لفظ اداکرنا بھی صرف اسی کی مشیئت سے ممکن ہے.

منہ کھل کے بند نہیں ہوا:

چنددن ہوئے ایک خاتوں کوعلاج کے لئے لایاگیا.ان کے منہ کاجبڑالٹکا ہواتھا ان کا کہنا تھا کہ جمائی کے لئے منہ کھولاتھا لیکن پھربندنہ ہوسکا.

سچ ہے کہ دونوں جبڑوں کو باہم ملانا بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے خلاصہ بحث یہ ہے کہ امور میں اسباب کے صرف مستقل بالذات ہونے کی نفی کریں.لیکن انہیں بالکل ہی نظر انداز نہ کردیں.

اسباب غیب کے زیر اثر ہیں جوکچة غیب میں اللہ کی مشئیت میں ہوگا وہی ظہور میں آئے گا.اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے بہت تفکر وتدبر کی ضرورت ہے.

سورۀ توحید کی اہمیت:

قرآن مجید کا تقریباًایک تہائی توحید کے بارے میں ہے اور سورۀ توحید کی اتنی اہمیت ہے کہ معتبر روایات کے‌مطابق اس کی تلاوت کاثواب ایک تہائی قرآن کی تلاوت کے برابر ہے یعنی اگر کوئی شخص قرآن مجید کے ایک تہائی کا جمال چاہئے تو سورۀتوحید ہے جس کی تفصیل ایک تہائی قرآن کی حامل ہے.

یہ ثواب کس کے لئے ہے صرف اس کے لئے ہے جواہل توحید ہو.سورۀتوحید کو ایک بارپڑھ کر ثلث قرآن اور اسے تین مرتبہ تلاوت کرکے پورے قرآن مجید کی تلاوت کے ثواب کامالک بن جاتاہے.

جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ حوقلہ“لاحول ولاقوة الابالله ”بہشت کے دروازے کی چابی ہے لیکن صرف اس کے لئے جوتوحید کی عملی حقیقت کوجان چکاہو ورنہ ایک جاہل انسان جس کی عقل درست نہ ہو جاہلانہ طورپر لاحول ولاکا ورد کرکےجنت کی چابی کیسے حاصل کرسکتاہے.

ابراہیم خلیل اللہ متوکلین کے لئے سرمایہ افتخار ہیں:

توکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعاليٰ کو کسی دنیا وی وکیل سے کم تر نہ جانے دوسرا درجہ اس کا یہ ہے کہ اللہ تعاليٰ پرکم از کم اتنا انحصار کرے جتنا ایک بچے کااپنی ماں پرہوتاہے.اس کا تیسرا درجہ خاصان خداسے مخصوص ہے جن کی ملکیت اور اوڑھنا بچھونا صرف رضائے الہيٰ ہے وہ صرف وہی کچھ کرتے ہیں جواللہ تعاليٰ کی مشیئت ہوتی ہے.

توکل کے اس مقام پر حضرت ابراہیم خلیل اللہعليه‌السلام فائز تھے کہ جس وقت نمرود یوں نے آپ کو آگ میں پھنکنا چاہا تو جبرئیل نازل ہوئے اور انہوںت نے آپ سے کہا کہ اگر آپ کی کوئی حاجت ہو تو فرمائیں .فرمایا ہے تو سہی لیکن تم سےنہیں جبرئیل نے کہا پھر کس سے ہے؟آپ نے جواب دیا “(حسبى عن سؤالى‏علمه بحالى ”اس کو میرے حال کی خبر ہے ،سوال کی ضرورت نہیں وہ خود دانا وبینا ہے جوکچھ وہ چاہتاہے میں بھی وہی چاہتاہوں.

کیاہم نے کبھی سچ بولا؟:

ہم نے زندگی میں ہزاروں با حسبی اللہ ونعم الوکیل کہا ہوگا میرے لئے اللہ تعاليٰ کافی ہے اوروہ بہترین وکیل ہے.لیکن کیا عملی طور پر کبھی ہم نے اسے اپنے دنیاوی یا خروی امور میں کلی ای جزئی طور پر اپنا وکیل سمجھا؟.

کیا ہم نے قرآن مجید کے فرمان( فَاتَّخِذْهُ وَكِیلا ) کہ اللہ تعاليٰ کو اپنا وکیل بناؤ.پر کبھی عمل کیا ؟اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اغراض واضطراب اور ترددوتذبذب کیسا؟یقین جانیے کہ اس سب کچھ کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ عقیدہ ویقین کی کمی اور ضعف ایمان ہے.

متوکل لالچی نہیں ہوتا:

لیکن مقام عمل میں اگر کسی کو توکل نصیب ہوجائے تو اپنے لوازمات امور میں بھی وہ حرص اورلالچی سے باز رہتاہے.

عدة الداعی میںہے،حجة اولوداع کے موقعہ پر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خانہ کعبہ کی چوکھٹ کو پکڑا او رصحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:روح الامین نے میرے دل میں الہام کیا ہے کہ کوئی شخص نہیں مرےگا تاوقتیکہ اس کا اس دنیاسے رزق ختم نہ ہو یعنی کوئی شخص اپنے مقدر رزق کا آخری لقمہ کھانے سے پہلے نہیں مریگا.لہذا خدا سے ڈرو اور حرص نہ کرو مبادا احرامخوری میں مبتلا ہوجاؤ“أَلَا وَ إِنَّ الرُّوحَ الْأَمِینَ نَفَثَ فِی رُوعِی أَنَّهُ لَنْ تَمُوتَ نَفْسٌ حَتَّى تَسْتَكْمِلَ رِزْقَهَا فَاتَّقُوا اللَّهَ وَ أَجْمِلُوا فِی الطَّلَب ‏”لیکن اگر کسی شخص کا تکیہ اسباب دنیا پر ہو تو اسے جتنا بھی ملے سرنہ ہوگا گویا اسے کچھ ملا ہی نہیں.

میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ اپ روزگار کی تلاش میں نہ نکلیں ضرور جائیں لیکن اللہ تعاليٰ کے توکل پر جائیں،صرف سبب کے آسرے پر نہ جائیں.

وکیل کی اطاعت ضروری ہے:

توکل اور سبب کو جمع کرنے کے بارے میں اس مثال پر غور کیجئے آپ کسی سخت قانونی الجھن سے دوچار ہیں جس سے نمٹنا آپ کے اپنے بس کا روگ نہیں ہم نے آپ کو مشورہ دیا کہ کوئی دانا ہوشیار اور ہمدرد وکیل تلاش کیجئے اور اس کے مشورے پر عمل کیجئے تو آپ کا یہ عمل نہ صرف یہ کہ توکل کے منافی نہیں ہوگا ،بلکہ آپ کے لئے اس کے مشورے پر عمل بھی ضروری ہوگا کیونکہ وکیل خودایسا چاہتاہے اور آپ کا عمل اس کے حکم کے مطابق ہے نہ کہ اس کی مخالفت میں اور اس تدبیر سے وکیل آپ کے کام کودرست کرنا چاہتاہے.

اس مثال سے ثابت ہوگیا کہ وکیل کے حکم کی تعمیل میں اسباب کی پیروی توکل کے منافی نہیں اوریہی اللہ تعاليٰ کی بہمی سنت ہم کہ وہ اسباب کے ذریعے اپنے بندوں کے امور کی اصلاح فرماتاہے.“ ابى اللَّہ ان یجرى الامور الّا باسبابہا”بیماری سے شفاء اللہ تعاليٰ دیتاہے لیکن طبیب کے پاس جانے اور دوالینے کی ہدایت بھی فرماتاہے اور اس امر میں اس نے غفلت کی مذمت بھی فرمائی ہے.اسی طرح امرآخرت کے بارے میں فرمااہے کہ بہشت میں جانے کے لئے انسان کا توکل اللہ تعاليٰ پر ہے سچ تویہ ہے کہ آپ کا وکیل خود فرمارہاہے کہ آپ کا جنت میں جانا آپ کے اعمال پر موقوف ہے.

( أَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى‏ ) لیکن آپ اپنی نجات کا انحصار صرف عبادت پر نہ رکھیں بلکہ اس میں بھی بھروسہ اس کے لطف وکرم پرکریں انپے عمل کو نہ دیکھیں کہ اس سے غرور وعجب پیدا ہوگا جو ہلاکت کا سبب بن سکتاہے لہذا جو اس کا حکم ہو بسر وچشم اس کی تعمیل کریں.

خالی دوکان میں اللہ کے سہارے:

یہی وجہ ہے کہ مزدور لوگ جب کسب معاش کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو کہتے ہیں اسے پروردگار رزق کے لئے حرکت و کوشش ہم کرتم ہیں اس میں برکت توعطافرما یہ الفاظ تو حیدی ہیں.ان کی تکرار وتعمیل سے انسان موحدبن سکتاہے.

روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک شخص نے حضرت امام جعفرصادقعليه‌السلام سے تندگدستی کی شکایت کی آپ نے فرمایا:جب تو کوفہ واپس پہنچے تو ایک دوکان کرایہ پر لے اور اس میں بیٹھ .اس نے عرض کیا میرے پاس سرمایہ نہیں آپعليه‌السلام نے فرمایا تجھے اس سے کیا؟جوکچھ تجھ سے کہا گیا ہے اس کی تعمیل کر.اس نے ایساہی کیا اور ایک دکان میں بیٹھ گیا ایک شخص کوئی جنس لے کر اس کے پاس آیا اور اس نے اس سے کہا .اسے خرید وگے وہ بولا میرے پاس پیسے نہیں ہیں صاحب جنس نے کہا:پیسےبیچنے کے بعددے دینا اور اپنا حق عمل بھی وصول کرلینا.

ایک دوسرا شخص کوئی اور جنس لے کر آگیا پھر تیسرا پھر چوتھا .دوسری طرف سے خریدار بھی آگئے اور تھوڑی ہی مدت اس کے پاس کافی سرمایہ ہوگیااور اس کے حالات سنور گئے.

بے کار جوان خدا کادشمن ہے:

بعض لوگ ایسے ہیں کہ کہیں سےسن لیا کہہ اللہ پر توکل ضروری ہے اورمغالطہ میں مبتلا ہوکرہاتھ پرہاتھ دھر کربیٹھ گئے کہ خدادے گا لیکن توکل کیا معنی نہیں ہے .ہم کہتے ہیں کہ کام ضرور کرنا چاہئے لیکن اللہ تعاليٰ کے حکم کی تعمیل میں نہ کم کویا مثلا فیکڑی یا کراگاہ کو رازق سمجھ کر.

سچا مسلمان جوکام بھی کرتاہے محض اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں کرتا ہے اسے معلوم ہے کہ بمطابق فرمان نبوی:“ إِنَّ اللَّهَ يُبْغِض‏الشَّابُّ الْفَارِغَ ”بےکار نوجوان خدا کا دشمن ہے اس لئےت وہ کسب معاش کے لئے کام تلاش کرتاہے اور اس کے لئے ضروری اسباب اختیار کرتاہے.

اہل علم کی روزی غیب سے!:

کوئی شخص یہ اعتراض نہ کرے کہ پھر اہل علم کیوں دوسروں کی طرح کسب معاش نہیں کرتے؟کیونکہت حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں طالب علمی کاکام کسب معاش کے تمام کاموں سے منافات رکھتاہے یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص مختلف کام بھی کرے اور صحیح معنوں میں فقیہ بھی بن سکے.

بلکہ اسم‌ساراوقت حقائق دینی کی تحصیل میں خرچ کرنا چاہئے.اللہ تعاليٰ ان کے رزق کو( مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِب‏ ) وہاں سے جہاں کا سان گمان نہ ہو،مہیا فرماتاہے .چنانچہ روایا میں ہے“طالبعلم کے سواا ہرشخص کارزق اللہ تعاليٰ نم اسبا دنیامیں منحصر فرمایا ہے”.کیونکہ اس کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں کہ اپنا ساراوقت دینی امور کے لئے وقف کرے.

توکل اسباب پر منحصر نہیں:

توکل کی علامات میں سے ایک علامت عدم حرص ہے.دوسری علامت یہ ہے کہ ملنے سے اس کی کیفیت میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا.بعض اوقات انسان خود کو اہل توکل سمجھتا اور اپنا تمام ترتیکہ ذات الہيٰ پر جانتاہے لیکن عملاً جب وہ کسی کی پیروی کرکے حصور مقصود میں ناکام ہوتاہے تو رنجیدہ ہوجاتاہے یہ علامت اس حقیقت کی ہے کہ اس کا تکیہ سب پر تھانہ کہ اللہ تعاليٰ پر اگر توکل محض خدا ئے تعاليٰ پر ہو تو سبب کی ناکامی کومشیئت ایزدی سمجھ کر زبان شکایت درازنہ کرے کیونکہ عین ممکن ہے اس بب میں مصلحت نہ ہو نے کی وجہ سے اللہ تعاليٰ نے کسی دوسرے سبب سے اس کےمقصد کا حصول مقدر فرمایا ہو.دوسری طرف ارگ اسے اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی ہوئی لیکن اسے اس نے صرف سبب کا مرہوں منت سمجھا اور شکرخدا سے قطع نظر کرکے سبب ہی کی مدح وثنا کی تویہ علامت اس حقیقت کی ہے کہ سارم کا سارتکیہ سب پر تھانہ کہ مسبب الاسباب پر.

ضعف ایمان کی باتیں:

اسبا ب کی تعریف یا مذمت میں مبالغہ بھی عدم توکل کی علامت ہے اور توحید پر عدم ایمان یا ضعف ایمان کی دلیل ہے .کیونکہ اگر توحید پر ایمان ہوتو توکل بخی درست ہے اور اگر توکل درست ہوجائے تو انسان کے کردار و گفتار میں جھلکنے لگتاہے اور اس کی پندوناپسند میں منعکس ہوتاہے.

اگر کسی کو کسی سبب سے کوئی فائدہ حاصل ہولیکن وہ مشیئت ایزدی کاشکرگذارہونے کی بجائے سب کا احسان مند ہو اور صرف اسی کی تعریف میں رطب السان ہو تو وہ مشکر ہے اور اگر سب سےمایوس ہوکر اس کی مذمت کرنے لگے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ اپنا مشکل کشااللہ تعاليٰ کو نہیں بلکہ اس کو سمجھا ہواتھا اور جب اس سے مایوس ہوا تو اس کی مذمت کرنے لگا یہ خصلت انسانوں میں عموماً پائی جاتی ہے.

لیکن جس کی امید صرف اللہ تعاليٰ سے ہو اور وہ حصول مقصد کے لئے کسی سبب کاسہار لے کر اس میں ناکام ہوتو سمجھ لیتا ہے کہ اللہ تعاليٰ کی مشئیت نہیں تھی اور اگر اس مین کامیاب ہو تو بھی اللہ تعاليٰ ہی کا شکرگذا ہوتاہے اور اسباب کو اللہ تعاليٰ کی رضا سے جدا سمجھ کر انہیں مورد مدح وذم نہیں سمجھتا.

توکل کا حصول واجب ہے:

توکل واجبات میں سے ہے اور اس سے بے اعتنائی برتنے ولا ترک واجب کامرتکب ہے جس طرح توحیدپر ایمان لازم ہے اسی طرح توکل بھی ضروری ہے .اور حقیقت یہ ہے جو انسان صحیح معنوں میں موحد ہوجائے ،اسے توکل کا مقام بھی حاصل ہوجاتاہے .اور ایمان کے تمام لوازم سے بھی آراستہ ہوجاتاہے .ایمان بالتوحید کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان جملہ امور کو مشئیت ایزدی سےوابستہ سمجھے اسی سے امید وار ہو،اسی سے خائف رہے اور اسی پر توکل رکھے.

محقق اردبیلی زبدھ البیان میں فرماتے ہیں کہ توکل کے بارے میں اللہ تعاليٰ کا جوحکم وارد ہواہے وہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخصوص نہیں ہے کیونکہ آیۀ شریفہ( فَاتَّخِذْهُ وَكِیلا ) سب کے لئے ہے اور اس کی شاہد دوسری آیات کریمۀ ہیں جن میں عوام النسا سے ایسا خطاب کیاگیا ہے مثلاً( فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ‏ ) یعنی تم سب اللہ تعاليٰ پر توکل کرو اگر مومن ہو لہذا یہ حکم عمومی ہے.

یہاں ممکن ہے کہ یہ کہاا جائے کہ اس طرح کے یہ قرآنی احکام اخلاقی دستور کی حیثیت رکھتے ہیں.لیکن اس صورت میں پھر “لا الہ الا اللہ” کوبھی یہی کچھ ماننا پڑے گا.“ لا الہ الا اللہ”کامطلب یہ ہے کہ رب،معبود،مدبر مدیر لائق پرستش اورقادر مطلق ہے صرف اللہ تعاليٰ ہے کوئی دوسرا نہیں ہم یہی توحید افعالی ہے تو کیا اس پر بھی ایمان نہ لانے والے کے لئے مواخذہ نہیں ہےت پس ہر امر میں توحید پر ایمان لازمی ہے.

مشورہ اور توکل:

محقق اردبیلی فرماتے ہیں کہ آیہ شریفہ:( وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّه‏ ) کی روسے ضروری ہے کہمومن ہر امر میں دوسروں سے مشورہ کرے لیکن یہ بھی سمجھے کہ اس کے امر کا صحیح ترین اور مناسب ترین حل صرف اس مشورے ہی میں ہے بلکہ حقیقت میں اس کا تکیہ خدائے تعاليٰ پر ہونا چاہئے جو مشورہ دینے والوں کی زبانوں پر اس حل کو جاری فرماتاہے.

اگر مشورے کی وجہ سے اس امر میں آپ کاکیابی ہوئی تو یہ نہ کہئے کہ مشورے ہی وجہ سے ہے بلکہ یوں سمجھے کہ اللہ تعاليٰ کے الہام کی برکت سےمشورہ دینے والوں نے درست رائے دی اور اگر کامیابی نہ ہوئی تو جان لیجئے کہ اللہ تعاليٰ کی مشیئت نہیں تھی.

غرضیکہ رائے آپ کی اپنی ہو یا کسی دوسرے کی،صرف مشورے پر انحصار نہ کیجئے بلکہ اللہ تعاليٰت سے بہتری کی امید رکھ کر اپنے معتمدین سے مشورہ کیجئے کہ اللہ تعاليٰ مشیئت کے مطابق صحیح رائے دیں.

توکل نہیں تو ایمان نہیں:

بلکہ فرماتے ہیں کہ جسے توکل حاصل نہیں وہ ایمان سے محروم ہے کیونکہ اللہ تعاليٰ کا ارشادہے:( وَ عَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِین‏ ) اگر مومن ہو تو اللہ تعاليٰ پر توکل کرو.

لہذا اگر توکل نہیں تو ایمان بھی نہیں .اس کا مطلب یہی ہے کہ ایمان کی حقیقت اللہ تعاليٰ کو مسبب الاسباب ماننا ہے اور اس کا اولین اوربینادی تقاضا تکیہ برخاہے پس اگر آپ نے اپنی یا کسی دوسرے کی رائے کو مشیئت الہيٰ سے صرف نظر کرکے صرف فہم وفراست کی نظر سے دیکھا تو جان لیجئے کہ آپ نے اللہ تعاليٰ سے جدائی اختیار کی او ر اس صورت میں جب آپ مومن ہی نہیں تو کل آپ کو کیسے نصیب ہوجائے گا.

ادّعابازرسواہوتا ہے:

ایک ساٹھ سالہ شخص جسے ہر علم میں استاد ہونے کا دعويٰ تھا اور خاص طور پر طب میں خود کو ارسطوئے زماں سمجھتا تھا اور عام طور پر کہتا تھا کہ قواعد طب کے مطابق اپنے جسم کے بارے میں اتنا محتاط ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ چالیس سال اور جیوں گا.

دوسرے روز ظہرکم وقت اس نے دہی اور کھیراکھایا(دانتوں سے یہ حضرت محروم ہی تھے)اس کے دل میں درد اٹھا بجائے اس کے یہ سمجھے کہ یہ دردسردی سے ہے،اس نے درد کی تشخیص یوں کی کہ چونکہ وہی صفراء کا تریاق ہے اور مجھے صفراء کا غلبہ ہے لہذا ممکن ہے کہ دہی پورے طور پر اسے درست نہ کر سکا ہو لہذا اس نے اوپر سے لیموں کارس پی لیا تاکہ اپنے خیال کے مطابق اعتدال مزاج قائم ہوجائے لیکن اسی روز عصر کے وقت اس کا نتقال ہو گیا.

پس محض اپنے فہم پربھروسہ نہ کریں:

جوشخص صرف اپنے فہم پر تکیہ کرتاہے باالفاظ دیگر یہ سمجھتا ہے کہ کوئی بالائی طاقت موجود نہیں جو کائنات کے امور کے مدبر ہو اور اس کے فہم یا ارادے پر غالب آسکے ایسی کیفیت میں مبتلا انسان ایمان سے بے نصیب ہے.

آپ کو چاہئے کہ جب بھی کوئی ارادہ کریں تو اپنے عقل و فہم یا دوسروں کے مشورے کی مددسے اللہ تعاليٰ پر توکل کریں صرف سبب کو مستقل نہ سمجھیں کیونکہ نہ جانے اللہ تعاليٰ کی مصلحت اور اس کی مشئیت کیا ہے.

خلاصہ یہ کہ توکل نہ ہو تو ایمان بھی ممکن نہیں تو کل کامعنی دوسرے پر اعتماد ہے جوشخص اللہ تعاليٰ پر توکل کرتاہے وہ اپنے دوسروں کے‌اور ہر چز کے عجز کو خوب سمجھ کراپنا کام اللہ کے سپر کرتاہے اور اگر متوکل نہ ہو تو خدا کے سواسب کو کراکشاسمجھتاہے.

اعاذنا الله من ذلک والاسلام

مجلس ۲۰

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏. انَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطانٌ عَلَى الَّذینَ آمَنُوا وَ عَلى‏ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون ) .

یہ پچھلی بحث میں توکل کےوجوب کے بارے میں محقق اردبیلی کے فرمودات پیش کئےگئے( ْ وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّه‏ ) اپنے کام کے بارم میں دوسرون سے مشورہ کرو، پھر جب ارادہ کرنو تو اللہ تعاليٰ کے ضمن میں انہوں نے کہا تھا کہ خواہ آپ کے ارادے کی بیناد آپ کی اپنی رائے ہو یادوسروں کا مشورہ ہو اللہ تعاليٰ پر آپ کا توکل لازمی ہے اور جوبھی کامیابی اپنی کوشش میں‌آپ کو حاصل ہوا سےاپنی اصابت رائے یادوسروں کے مشوروں کے مشورہ کانتیجہ نہ سمجھیں بلکہ توکل علی اللہ کا ایک کرشمہ جانیں کہ اسکی مشئیت نے آپ کے حق میں مناسب ترین فیصلہ فرمایا.

اسباب کی حقیقت:

آپ کوئی بھی کام کرنا چاہیں خواہ وہ طلب خیر کے لئے ہو یادفع ضرر کے لئے اس کے‌لئے اللہ تعاليٰ پر توکل کریں اور صرف اپنی ذاتی رائے یا دوسروں کے مشورہ پر تکیہ نہ کریں کیونکہ وہ بھی آپ کی ہی طرح ایک عاجز مخلوق ہیں.( إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُم‏ ) تم لوگ جن لوگوں کو اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو سب تم ہی جیسے بندے ہیں.

اس لئے ضروری ہے کہ اپ کے دل کی قوت کا سرچشمہ ذات الہيٰ کے سوا کوئی اور نہ ہو کیونکہ ہر شخص کی عقل و نظر محدودہے اور اصل واقعہ کی پور خبر نہیں رکھتا.

ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ مشورہ نہ کریں اور اپنی یا اپنے یہی خواہوں کی صواب دید پر عمل نہ کریں .بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے صر اپنی یادو سروں کی مصلحت اندیشی پر تکیہ نہ کریں بلکہ اپنی ساری کی ساری امیدخدائے تعاليٰ پر رکھیں اور اسی سے دعا کریں کہ آپ کی بہتری کو آپ کےمشیروں کی زبان پر جاری فرمائیں ارشاد ہوتاہے کہ:“ ما حار من استخار”اللہ تعاليٰ سےاستخارہ (طلب خیر) کرنے والاپریشان نہیں ہوتا،.کیونکہ اپنے غیب کے امور کے بارے میں وہ اس سے رہنمائی مانگتا ہے جو علام الغیوب اور قادر مطلق ہے اور اس کے ورد زبان یہ دعا ہوتی ہے:“اللَّهُم‏خِرْ لِی فِی أَمْرِی ‏”پروردگار میرے امر میں‌خیر فرما.

استخارہ اور توکل:

حضرت امام سجادعليه‌السلام کے متعلق روایا میں وارد ہے کہ آپعليه‌السلام کو جب بھی کوئی ضروری کام از قسم خرید مکان ، ازدواج یا صفر وغیرہ درپیش ہوتا تو دو سوبار،“ استخیر اللہ برحمتہ فی عافیة”کاورد فرماتے اور اس کے بعد اللہ تعاليٰ پر توکل کرکے اپنی صوابدید کےمطابق عمل فرماتے.

محقق فرماتے ہیں کہ توکل کی وجہ سے مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنے کام اللہ تعاليٰ پر چھوڑیں اور اپنے جملہ اموراس کے سپر د کریں اور پھر اس کے حسن مشئیت کے امید وار ہیں مثلاً کسان اللہ تعاليٰ پر تکیہ کرکے کھیت میں تخم ریزی کرتاہے تاکہ اس کی فصل اچھی ہو اور محنت اس کی کامیاب ہو آپ جب اپنے کسی مقصد میں کامیاب ہوں تو اسے اللہ تعاليٰ کی مشئیت سمجھیں اور خالصتاً اپنی کوششوں کا نتیجہ نہ جانیں ورنہ شرک کے مرتکب ہوگے.

انسان کو ئی بھی کام کرے،ایمان اس کا یہی ہونا چاہئے کہ توفیق اورحسن عاقبت اللہ تعاليٰ کے دست قدرت میں ہے.

علماء کرام کا فرمان ہم ااور علامہ طبرسی نے بھی تفسیر مجمع البیان میں تحریر فرمایا ہے کہ اپنے امور کو اس طرح اللہ تعاليٰ کے سپر د کرنا چاہئے کہ اپنی ذات کا تصو رمٹ جائے“جعل النفس کالمعدوم”اپنے نفس کو معدوم سمجھے.

کسان کی مانند جو تخم ریزی اور آبپاشی کے بعد اپنی ذات کودرمیان سے ہٹالیتاہے اور فصل کے بارے میں تمام امیدیں اللہ سے وابستہ کرکے اس کی مشئیت ورحمت کا منتظر ہوجاتاہے کہ:“ إن اللہ ہو الرازق‏”.کہ رازق صرف اسی کی ذات ہے.

سب انسانوں کو اپنے امور میں اللہ تعاليٰ پر ایسا ہی ایمان ہونا چاہئے.

سب کچھ مشئیت ایزدی سے ہے:

جس طرح کسان جانتاہے‌کہ فصل صرف اسی کی محنت ہی کانتیجہ نہیں ہے کیونکہ بہت سی کھیتیاں بے حاصل بھی رہتی ہیں اور کئی آسمانی آفات کاشکار ہوکر اجڑجاتی ہیں.اسی طرح تاجر کو بھی خوب معلومت ہونا چاہئے کہ تجارت میں منافع صرف اس کی سرمایہ کاری کی تدبیر یا محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ در حقیقت کسان کی عرق ریزی اور تاجر کی سرمایہ کاری کو نتیجہ خیزبنانے والا صرف اللہ تعاليٰ ہے جو سب انسانوں اور کائنات کی ہر چیز کا مالک و خالق ہے.مدبر ومدیربھی وہی ہے اور عطا فرمانے والا اور واپس لینے والا بھی وہی .اگر اس کی مشئیت نہ ہوتی تو کسان اور تاجر کو سوائے محنت و جان فشانی کے کچھ حاصل نہ ہوتا .لہذا انسان کو چاہئے کہ صرف اللہ تعالی ٰ پر توکل کرم ورنہ اسے رنج ومحنت اور ضیاع عمر کے سواکچھ نہیں ملے گا.

خطرے میں توکل:

ضررسے نجات بھی وہی دیتاہم دشمن سے مقابلے کے لئے اسلحہ کی تیاری اور طاقت کی فراہمی ضروری ہے لیکن دفاع کی کوشش میں کامیابی اس کے لطف وکرم پرمنحصر ہے لہذا اپنے جان ومال،اپنے ناموس اور بالخصوص اپنے دین کی حفاظت کے لئے آپ کا سارابھروسہ اللہ تعاليٰ پرہونا چاہئے.

توکل کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان حصول منفعت اور دفع ضرر کے لئم خود کچھ نہ کرے او رسب کچھ اللہ پر چھوڑدے .اس مطلب کی ہم بارہاتکرار کرچکے ہیں کہ جب وکیل خود کہتاہے کہ اسباب آپ اختیار کریں کام آپ کا میں درست کروں گا تو آپ کو چاہئے کہ سبب کی پیروی بھی ضرورکریں دشمن کے مقابلے میں اسلحہ ضرور مہاکریں یہ نہ سوچیں کہ اسلحہ کی موجودگی آپ کو عمل سے بے نیاز کردے گی دفاع آپ کو خود کرنا ہوگا لیکن اپنے دل کی طاقت کامنبع وسرچشمہ اس کی تائید کو قراردینا ہوگا اور فتح ونصرت کے لئے اس کے لطف وکرم کاامید رہنا ہوگا.

جاہلانہ توکل:

کافی سال ہوئے سامرہ بچھوؤں نے یلغار کردی اور ہردرودیوارسے ہرسوراخ سے نکلنے لگے سب طالب علم مدرسوں کو چھوڑکر بھاگ گئے ایک طالب علم نے مدرسے ہی میں رہنے کے بارے میں استخارہ کیا جو اتفاق سے اثبات میں آیا چنانچہ وہ مدرسے ہی میں رہا اور رات کوبھی وہیں سوگیا .صبح وہاں سے اس کا جنازہ برآمدہوا.

یہ ایک جاہلانہ مذاق ہے کہ اللہ تعاليٰ پرتوکل کرکے اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کردیا جائے بلکہ چاہئے تویہ کہ اس کے توکل پر دشمن سے فرار یاجائے نہ یہ کہ اللہ کی امید پر بیٹھ رہئے اور کچھ نہ کیجئے.

جس طرح توکل واجب ہے اسی طرح کسب رزق بھی واجب ہے اور اسی طرح اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالنا بھی حرام ہے اللہ تعاليٰ اپنے امور کو اسباب کے ذریعے جاری فرماتاہے.ہر چند کہ وہ بعض اوقات اسباب سے قطع نظر بھی کرتاہے اور سب کے بغیربھی اپنے امور سرانجام دیتاہے تاکہ اپنے قادر مطلق ہونے کا ثبوت مہیا فرمائے.

صادق آل محمدعليه‌السلام اور شیر:

حضرت امام صادقعليه‌السلام کوفے سے ایک قافلے کے ساتھ حج کے لئے تشریف لے جارہے تھے کہ ایک شیرنے راستہ روک لیا.قافلہ والوں کو جرات نہ ہوئی کہ آگےبڑھیں آپعليه‌السلام نے خود آگے بڑھ کر شیر کو اشارہ کیا اور وہ ہٹ‌گیا اور وہاں سے دور ہوگیا.پھرآپ نے حیرت زدہ اہل قافلہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:“ اگر تم بھی گناہوں سے محفوظ ہوئے تو یہ کچھ کرسکتے ”یعنی درندے بھی تمہاری اطاعت کرتے.

محقق اردبیلی فرماتے ہیں:ایسے قضیئے میں امام وقت خداوندی سے جانتاہے کہ اس مقام پر اللہ تعالی ٰبغیر کسی سبب کے نجات دے گا اور اپنے علم سے یہ ھی جانتاہے کہ یہ امر استثنائی ہے. لہذا اسے کلیہ سمجھ کر ہرجگہ منطبق نہ کیا جائے.

توکل کے دیگر مفہوم:

ہم کہہ چکے ہیں کہ توکل واجب اسباب کی پیروی اور اللہ تعاليٰ پرتکیہ سے عبارت ہے اس مقام پر ممکن ہے کہ زہن میں اشکال پیدا ہو کہ بعض کتابوں میں توکل اللہ تعاليٰ پر اعتما کے علاوہ دوسرے معنوں میں‌آیا ہے مثلاً مومن خداسے نہیں ڈرتا اب کیا توکل واجب یہ ہے کہ بھیڑئیے یاصاحب قدرت دشمن سے بھی نہ ڈراجائے اور فقر وبیماری سم بھی خوف نہ کیا جائے.

دوسری روایت میں توکل کا معنی یہ لکھاہے:جانا چاہئے کہ نفع وضرر کا مالک خدا کے سوا کوئی نہیں.اور ایک روایت میں ہے کہ غیر خداسے کوئی طمع نہ کرے اور نہ کسی سے کسی چیزکاطالب ہو.ان روایات کے صرف متن سے توکل کا صحیح مفہوم حاصل نہیں ہوتا.

سبب کاوجود مستقل نہیں ہے:

محقق اردبیلی فرماتے ہیں کہ ایسی رویات کی توجیہ ضروری ہے کہ کسی سے کچھ طلب نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسی کو عطا کنند ہ سمجھے مثلاً اگر روٹی کی خواہش ہے تونا نبائی کو رازقی نہ سمجھے وہ سوال جوصرف اور مطلقا اللہ تعاليٰ سے کیا جاسکتاہے مخلوق سے نہ کرے ورنہ شرک کا مرتکب ہوگا.

ان دنوں یہ بات زبان زدعوام ہے کہ تہران میں کچھ لوگ وہابی مسلک کی تبلیغ کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ“یامحمد”“یا علی”کہنا شرک ہے اور دلیل میں( إِنَّ الَّذینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُم‏ ) تم لوگ جن لوگوں کو اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو سب تم ہی جیسے بندے ہیں.یا( فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدا ) اللہ تعاليٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو نہ پکارو.جیساآیات شریفہ پیش کرتے ہیں.

معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ جاہل اوراندخے ہیں کہ ابھی تک دعاکامعنی بھی نہیں سمجھ سکے ہیں.

غیرخداکو پکار نا:

دعا کا معنی بلانا یا پکار نا ہے.صرف بلانا یا پکار ناممنوع نہیں ہے ہاں اس اندازمیں جیسے کہ خداکو پکار اجاتاہے مخلوق کو نہیں پکارنا چاہئے وہ پکار جو اللہ کے استھ مخصوص ہے“دعا”ہے کہ اگر اس اندازسے مخلوق کو پکارجائے تو شرک ہوگا.یعنی شفاء اللہ تعاليٰ سے مانگنی چاہئے لیکن اگر اس کودوایاطبیب سے مانگا جائےتو شرک ہوگا لیکن اگرتکیہ خدا پرہو او طبیب سے صرف تشخیص مرض یا دوا طلب کی جائے تو کوئی مضایقہ نہیں.اہل بیت اطہارعلیہم السلام سے توسل کی بھی یہی کیفیت ہے.اگر کوئی ان ذوات قدسیہ سے مثلاً حضرت ابوالفضل العباسعليه‌السلام سے اس طرح سے مانگے جیسےخداسے مانگاجاتاہے تو شرک ہے.

لیکن ایسا کوئی نہیں کرتا.سب ان حضرات کو واسطہ و وسیلہ یا شفاعت کنندہ سمجھتے ہیں.

پس توکل کایہ معنی کہ غیر خدا سے کچھ بھی نہ طلب کیا جائے یہ ہے کہ اللہ تعاليٰ کے سواکسی کو عطاکنندہ نہ سمجھا جائے سب کو اس کی مشیئت کاتابع اور پابند سمجھاجائے اور تکیہ صرف ذات خداوندی پر کیاجائے کیا“یامحمد او ریا علی پر اعتراض کرنے والے خودہر روز کئی مرتبہ غیرخدا کو نہیں پکارتے؟.