استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 42552
ڈاؤنلوڈ: 4835

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42552 / ڈاؤنلوڈ: 4835
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس ۲۱

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏. انَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطانٌ عَلَى الَّذینَ آمَنُوا وَ عَلى‏ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون ) .

توکل علم توحید کا لازمہ :

توکل کی اہمیت بہت ہے کہ یہ تو حید کے قطعی لوازم میں سے ہے انبیاء کی اولین دعوت توحیدتھی .قرآنت سارےکا سار توحید کے موضوع پر ہے وہ علم جس کا حصول سب پر واجب ہے علم توحید ہے “اول العلم معرفة الجبار وآخر تفویض الامرالیه ”علم کی ابتداء اللہ تعاليٰ کی معرفت ہے اور اس کی انتہاء اپنے امور کو اللہ تعاليٰ کی مشئیت کے سپر دکردیناہے.

جوشخص حقیقتا عالم بننا چاہئے اس کا اولین فرض یہ ہے کہ اپنی توحید کو درست کرے اور اس کی تکمیل کرم یہ نہ کہئے کہ کیا ہم سب مسلمان نہیں ہیں اور کیا ہمار اتوحید پر ایمان نہیں ہے؟کیونکہت توحید کی کسوٹی قلبی یقین اور“ لا الہ الاللہ” کاحقیقی فہم ہے اور توحیدافعالی پر(کہ عالم ہستی میں جوکچھ بھی واقع ہوتاہے اللہ تعاليٰ کی مشئیت او راس کے ارادے سے ہوتاہے) بھی یقین ضروری ہے.نیز “فما بکم من نعمة فمن اللّه ‏”ہر نعمت کا عطا کنندہ اللہ تعاليٰ ہے.پربھی تہ دلی سے ایمان ہونا چاہئے صرف زبان سے اس کا اقرار کافی نہیں.

الفاظ اور حقیقت میں بڑافرق ہے:

دن رات میں ہم پانچ مرتبہ نماز پڑھتے ہیں اور کم از کم دس بار( رب العالمین ) کے الفاظ زبان سے ادا کرتے ہیں لیکن صرف یہ الفاظ ادا کردینے سے پروردگار کائنات پر ایمان مکمل نہیں ہوجاتا بلکہ دل سے یہ یقین ہونا چاہئے کہ سب انسانوں اور ربوبیت کے دعویداروں کاخالق وہی ہے پس الفاظ مقصود بالذات نہیں ہیں کیونکہ وہ صرف زبان پر جاری ہوکربدن کو پاک کردیتے ہیں تاکہ اس پراسلامی احکام لاگوہوسکیں،بلکہ اصل مقصود وہ حقیقت واقعی ہے جس پر ہر انسان کا ایمان ہے کہ وہ عالمین کا پروردگار ہے اور ذرہ خودسے لے کر ہاتھی اور انسان تک اور زمین وآسمان اور سب فلکی ستارگانی اور کہکشانی نظاموں سے لیکر جن وملک تک کاخالق اور ان کے امور کامدبر ومدیر ہے.تمام ذرات وجودابتدائے تحلیق سے لیکر کمال خلقت تک اسی کے دست تربیت کے پروردہ ہیں،وہ انسان کابھی رب ہے اور تمام مظاہر وجودکابھی .اورجب تک ایمان کی رسائی اس منزل تک متحقق نہ ہو توحید مکمل نہیں ہوسکتی.اگرچہ ہر ایک انسان کی بصیرت کے لئے خالق کائنات کا مشاہدہ ممکن نہیں لیکن کم از کم قرآن مجید پرایمان کی وجہ سے یقین قلب کا پختہ ہونا ضروری ہے تاکہ حقیقی اسلام حاصل ہوسکے.

امورکی تفویض:

کیاقرآن مجید کلام الہيٰ نہیں؟

اگرہے تو پھر دیکھ لیجئے شروع سے آخرتک اس میں توحید ہی کاذکر ہے.مبعود ،رب،مالک اورمدبر امور جزيٰ اوربھی کلی صرف اللہ تعاليٰ ہے جوکائنات کے ذرے ذرے کا خالق ومالک اور مختار مطلق ہے.یہ سب جان لینے کے بعد جب اس کی الوہیت مطلقہ پر ایمان مکملہوجائے تو اپنے جملہ امور اس کے سپرد کردینے چاہئیں.

توکل کے بارے میں بزرگان دین نے فرمایاہے:“التوکل کله الامرکله الی مالکه ”توکل یہ ہے کہ اپنے سب امورکلی اورجزئ طور پرمالک مطلق کے سپرد کردئے جائیں.اگر آپ خود کو اس کابندہ سمجھتے ہیں توآپ کو اس کے سامنے لاف وجود نہیں مارنی چاہئے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میں ایسا چاہتاہوں یا میں یہ نہیں چاہتابلکہ جوکچھ و ہ کرے اور جیسابھی وہ چاہے اور جس حال میں بھی وہ رکھے اس کی رضا پرشاکر رہئے.

اسباب سے تمسک بہر حال توکل سے کوئی منافات نہیں رکھتا او رجیساکہ ہم کئی بار یاددلاچکے ہیں کہ( : أَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى‏ ) انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے اس نے کوشش کی ہوتی ہے.لیکن اس کیا یہ معنی بھی نہیں کہ سارے کاسارا تکیہ اسباب پر ہو کیونکہ آپ کے وکیل ،آپ کے مالک نے فرمایاہے کہ میں رزق اسباب کے ذریعے دوں گا لیکن اسباب میری مشئیت کے بغیر کچھ نہیں دے سکتے.

آیات توحید میں غوروفکر:

توحید کو ہر چیز سم زیادہ اہمیت دیجئے قرآن مجید میں توحید سے متعلق آیات میں خوب تدبر کیجئے تاکہ آپ کے اس ایمان کوتقویت ملے کہ اسباب کی کوئی مستقل حیثیت نہیں کیونکہ بعض اوقات اسباب اپنی تاثیر کھوبیٹھے ہیں اور ان سمجوفوائد مربوط ومتوقع ہوں وہ ان سے حاصل نہیں ہوتے.

اسباب کال بے اثر ہوجانا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اسباب سے بالاترکوئی کارفرماطاقت موجودہے جوقادر مطلق ہے اور اس کی مشئیت اسباب سے بے نیاز ہے افلاطونکے متعلق مشہور ہے کہ ایک دفعہ وہ سخت قسم کے اسہال میں مبتلا ہوا ہرچندعلاج کیا لیکن افاقہ نہ ہوا.

شاگردوں نے اس سے کہا آپ طب کے استاد ہیں اور اس قسم کے امراض کے علاج میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں کیا وجہ ہے کہ اس مرض پر قابو نہیں پاسکے افلاطون نے ان سے کہافلاں سفوف لاڈاس نےو ہ سفوف پانی کے ساتھ نگل لیا.اسہال فوراً بندہوگئے .وہ پھر شاگردوں کی طرف متوجہ ہوا اور بولا میں نے پہلے بھی یہ سفوف استعمال کیا تھا لیکن جب تک مشئیت الہيٰ نہ ہو کچھ بھی نہیںت ہوسکتا.

بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی امر بلاسبب واقع ہوگیا یا کسی ایسی وجہ سے ظہور پذیر ہوگیا جس سے بظاہر اس کا امکان نہ تھا.

چند سال ہوئے صدر الحکماء مرحوم نے جوایک متدین اور شریف النفس تھے مجھ سے ایک واقعہ بیان کیا کہنے لگے ایک دفعہ میرے پاس ایک مریض لایاگیا جوبے حد کمزر اور لاغر تھا. جب میں نے اس کا معائینہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ہر طرح سے ختم ہو چکا ہے اور ا س کا دل اس کے گردے اور جگر وغیرہ بے کار ہوچکے ہیں اور وہ صرف چند روز کامہمان ہے میں نے اسے دوادینے سے انکار کردیا.اس کے متعلقین نے مجھ پرزبان طعن درازکی اورکہنے لگے معلوم ہوتاہے کہ نیم حکیم ہو کچھ بھی نہیں جانتے .میں دل میں ناراض تو ہوا لیکن ضبط کرے ان کے اہانت آمیز الفاظ کے جواب میں ازراہ مذاق کہا اسے برسیم کا جوشاندہ پلاؤ.

چنددنوں کے بعدوہی مریض جواب بالکل تندرست تھا میرے پاس آیا اس کے ساتھ اس کے عزیز بھی تھے اور وہ لوگ میرے لئے ایک دنیا اور بہت ساپنیر اور گھی تحفتاً لائے تھے مجھ سے کہنے لگے جب آپ ایسی اچھی دواجانتے تھے تو ہمیں مایوس کرکے واپس کیوں بھیج رہے تھے؟!

وہ قادر مطلق ہے بعض اوقات قوی سبب کوبے اثر کردیتاہے اور کبھی بلاسبب کسی امر کو ظاہر فرمادیتاہے مسبب لااسباب جوہواوہ خود اسبا ب کاخالق ہے ،بے اثر چیزوں میں اثر آفرینی اور قوی موثرات کااثر کھودینا اس کے دست قدرت کے ایک ادنيٰ سے اشارے کا کرشمہ ہے حصول نفع اور دفع ضرر کے اسباب کے پیچھے بھاگنے والے کو معلوم ہونا چاہئے کہ محض اسباب کی کوئی حقیقت و حیثیت نہیں کیونکہ امور کامدبر اورمدیر صرف وہ ہے ،چاہئے تو بلاکسی ادنی سبب کے کوئی عظیم الشان امر ظاہر فرمادے اور چاہئے توہزاروں یقینی اسباب منہ دیکھتے رہ جائیں اور ان کا کوئی نتیجہ ظاہر نہ ہو.

جناب موسيٰعليه‌السلام کو ارشاد ہوتاہے کہ اپنی غذا کے لئے نمک بھی مجھ سے مانگو.اس کا بھی دینے والامیں ہوں اس کا معنيٰ یہ نہیں ہے آپ اپنی جگہ پربیٹھے رہیں اور اللہ تعاليٰ سے کہیں کہ تو میرے کھانے میں نمک ڈال دے بلکہ یہ مطلب ہے کہ اسی کے توکل پرنمک کے حصول کی کوشش کرو کیونکہ اگر اس کی مشئیت میں نہیں تو ساری دنیا نمک سے پر ہوجائے آپ کو نمک نصیب نہ ہوگا.

فقہ اور توحید:

جب تک توحید میں یقین کامل حاصل نہ ہو ،انسان عالم اور فقیہ نہیں ہوسکتا اور اس دینی بصیرت نصیب نہیں ہوسکتی کسبی علوم نوریقین کے حصول کامقدمہ ہیں اس کےلئے انسان کاعلم درست ہونا اور احکام شرعی سے اسے پوری پوری واقفیت ہونی چاہئے.

عوام عموماً شرک میں مبتلا کہ اسباب کو حاجت روامانتے ہیں جس طرف دیکھومادہ پرستی ہے،اسباب کی پوجا ہے اورجاہ ومال کی محبت ہے.

بعض لوگ محراب ومنبر کوبھی معبود سمجھتے لگتے ہیں.لیکن یہ یادرکھنا چاہئے کہ سبب کو مسبب سمجھ لینا شرک ہے.

تقويٰ اور توحید:

علم کے اس مقام تک رسائی کی کوشش ہمارا فرض ہے کہ جہاں ہمارا فرض ہے کہ جہاں ہماری توحید یقینی ہوجائے“فاعلم انه لااله الاالله ”خوب سمجھ لے کہ اللہ کے سوا ہرگز کوئی مبعود نہیں.

اور وہاں تک پہنچنے کا راستہ تقويٰ ہے کیونکہ( فَاتَّقُوا اللَّه‏ َوَ يُعَلِّمُكُمُ اللَّه‏ ) جب آپ کا تقويٰ مضبوط ہوجائے تو اللہ تعاليٰ کے فضل سے‌آپ عالم بن جائیں گے .وہ آپ کو علم کی دولت نصیب فرمائے گا جس سے“لااله الاالله ”و“لاحول ولاقوة الابالله ”میں آپ کا یقین مکمل ہوجائے گا آپ کی دنیا بھی سدھر جائے گی اور جب آپ یہاں سے منزل عقبيٰ کی طرف روانہ ہوں گے توعلم وایمان ویقین کانورآپ کار ہنما ہوگا.آخرت کے درجات عالیہ بھی اسی روشنی میں آپ کو نظر آئیں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ عمل بھی بہت ضروری ہے لیکن اگر آپ جانتے ہیں کہ مقربین سابقین کے مقام تک رسائی حاصل کریں تو یہ صرف یقین کامل کے ذریعے سے ممکن ہے( وَ السَّابِقُونَ السَّابِقُونَ. أُولئِكَ الْمُقَرَّبُون‏ )

ایمان حقیقی :

حضرت امام محمدباقرعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملاقات چند اشخاص سے ہوئی انہوں نے آپ کو سلام کیا .آپ نے پوچھا تم کون لوگ ہو.انہوں نے جواب دیا مومن ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دریافت فرمایا تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟یعنی محض ادعا ہے یا اس کی کوئی علامت بھی تمہارے پاس ہے.کہنے لگے جوکچھ ہمارے لئے اللہ تعاليٰ کی مشئیت ہے،اس پر اضی ہیں،اپنے امور کو ہم نے اس کے سپر دکردیا ہے اور اس کے امر پرہمارا سرتسلیم خم ہے.آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا دانا وحکیم ہو اور قریب ہے کہ حکمت کی بدولت انبیاء کے درجے تک پہنچو.

مطلب یہ کہ تم واقعی عالم اور اہل حکمت ہو، اس حکمت کے مالک ہو کہ جو کسی کونصیب ہوجائے تو خیر کثیر کامالک ہوجاتاہے.( وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِیراً ) .جس کو حکمت ملی گئی اسے خیر کثیر نصیب ہوگئی.تم راز ہستی کو جانتے ہو اور حقیقت غیب سے واقف ہو مادہ اور مادیت سے بلند ہوچکے ہو،ساری دینا محسوسات کی پجاری ہے لیکن تم مقام نبوت سے قریب پہنچ چکے ہو.

لہذا انسان کو چاہئے کہ ایسے اعمال بجالائے کہ علم ویقین کی دولت حاصل ہوجائے اور مقام توکل پر فائز ہو کر اپنے جملہ امور اللہ تعاليٰ کم سپرد کردے اور آخر کار“آخر العلم تفویض الا مر الیه ”کامصداق بن جائے.

حرص سم بچو:

پھر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا: اگرتم سچے ہو تووہ مکان تعمیر مت کرو جس میں تمہیں رہنا نہیں اور وہ رزق جمع نہ کرو جسے تمہیں کھانا نہیں اور اللہ تعاليٰ سے ڈرو کہ تمہاری بازگشت اسی کی طرف ہے.

اگر تم واقعی صاحب تسلیم ورضا ہو اور اہل توکل ہو تو حرص سے بچو جوشخص جائداد بنانے کی فکر میں رہے اور ہروقت اس میں اضافے کی سکیمیں سوچتاہو وہ اس اندیشے میں مبتلا رہتا ہے کہ اس کی دولت کم ہوجائے گی وہ آنے والے وقت سے خوفزدہ رہتاہے.اگر اللہ تعاليٰ پر توکل ہو تو آنی کافکر اور جانی کاغم نہ ہو اور فقر وفاقہ کااندیشہ نہ ہو یہ اس بات کی علامت ہے کہ دعوی توکل جھوٹا اور بے بیناد ہے. جوشخص قناعت اختیار نہیں کرتا اور ہمیشہ حرص میں مبتلا رہتاہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ مبب الاسباب پر اس کا ایمان نہیں اور وہ صرف سبب ہی کوحاجت روااور مشکل کشا سمجھتا ہے ورنہ جس مکان میں اسے کبھی سکونت ہی نہیں رکھنی وہ نہ بنائے اور وہ رزق جو اس کی اور اس کے خاندان کی ضرورت سے وافر ہو وہ نہ جمع کرے .ایک عروت کہہ رہی تھی کہ میرے پاس کچھ پیسے ہین جنہیں میں نے اپنے کفن دفن کے لئے محفوظ کیا ہواہے.میں نے کہا ازراہ بخل وحرص توانہیں خرچ نہیں کرنا چاہتی ورنہ کون ہے جومرا اور بے گوروکفن رہا جب تک انسان سبب کاپجاری بنارہے گا مال دنیا اس کا معبود رہے گا اسے چاہئے کہ موت کو یاد رکھے جگہ گرم کرنے سے پہلے ہی کوچ کانقارنہ بچ جائے.

بے نیاز کی طرف بازگشت:

ارشاد خداوند ہے:( اتّقوا اللَّه الذی الیه ترجعون‏ ) اللہ سے ڈرو کہ تمہاری بازگشت اسی کی طرف ہے.

آپ کا جو یہ عقیدہ ہے کہ ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے.( إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون‏ ) توآپ پر کتنی احتیاط لازم ہے کہ آپ سے اس کی شان میں کوئی گستاخی سرزد نہ ہوجائے کہ اس کو کیا منہ دکھائیں گے غیر خداسے امید اللہ کے حضور تنی بڑی بڑی گستاخی ہے آدمی اس کے پاس جاتاہوا کتنا برالگتا ہے جس کی شان میں وہ اسری عمر گستاخیاں کرتارہاہو.

جناب امام حسن مجتبيٰعليه‌السلام جب موت اور قبر اوربعث کو یاد فرماتے تو فرط گریہ سے آپعليه‌السلام کی حالت غیر ہوجاتی اور جب بھی روز حشر اس سے روبرو ہونے کا تصور فرماتے غش کرجاتے کیونکہ علم ویقین کے بلند مقام پر فائز تھے اللہ تعاليٰ کی قوت وعظمت کی پوری معرفت رکھتے تھے او راس کے حضور پیش ہونے کی ہیبت سے واقف تھے.

حبیب ابن مظاہر فقیہ تھے:

آل محمد اہل علم وحکمت ہیں جس کسی کو بھی ان کے نور معرفت سے کوئی کرن نصیب ہوئی،عالم باعمل ہوگیا اس بات کو معمولی نہ جانیے ان حقائق کو سمجھنا بہت ضروری ہے ہمیں چاہئے کہ ان علماء میں شمار ہوں جنہیں آل محمد عالم سمجھیں نہ کہ جنہیں عوام عالم سمجھیں.

جناب امام حسینعليه‌السلام نے کربلا کے سفر کے دوران ایک قاصد کے ہاتھ ایک خط جناب حبیب ابن مظاہر کو کوفہ بھیجا اس کاعنوان آپ نے“ایها الرجل الفقیه ” اے فقیہ مرد،تحریر فرمایا حبیب واقعی فقیہ تھے کہ خداشناس اور اما م شناس تھے اورمبداء کی بنیاد توحید کی معرفت ہے.علم دنیا سے توحید نہیں ملتی .رستہ گم نہ کیجئے اور اس جہل مرکب میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ اہل علم میں سے یہ غرور آپ کو ہلاک کردے گا.

مجلس ۲۲

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏. انَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطانٌ عَلَى الَّذینَ آمَنُوا وَ عَلى‏ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون ) .

توکل ایمان کالازمہ ہے:

آیات جلیہ قرآنی اور عقل و وجدان کی شہادت کے مطابق توکل ایمان کی شرائط اور اس کے لوازم میں سے ہے چنانچہ قرآن مجید میں پوری صراحت سے یہ ارشاد خداوند ہے( وَ عَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنین‏ ) اور اللہ پرتوکل کرو اگر تم صاحبانِ ایمان ہو.

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جیسا کہ حکم ایمان کے لئے ہے ویسا ہی توکل کے لئے بھی ہے خداپر ایمان لانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو معلوم ہو کہ ایک خدا ہے بلکہ ایمان کا تقاضایہ ہے کہ آپ کا دل اس بات کا یقین ہو کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جو بڑی قوت وقدرت ولا ہے اور( آمَنُواباللّه‏ ) اللہ پر ایمانت لاؤ.کا حکم اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ اسے خدائے بزرگ وبرتر جان کر پورے کاپورا بھروسہ اس کی رضا پر کریں اسباب کو اپنی تاثیر میں اس کی مشئیت سے بے نیاز نہ سمجھیں اور ہر قسم کی امید اس سے رکھیں پس اسباب کو شئیت ایزدی کا پابند زمانتاہو اس کا ایمان اللہ تعاليٰ پر نہیں .جو انسان مال و دولت ،طبیب یا دوا کو اپنے امور زندگی میں رضائے الہيٰ سے وابستہ نہیں سمجھتا وہ کفر کامرتکب ہے.

اسباب بمقابلہ مشئیت:

کفر کا معنيٰ“چھپانا”ہے نور حقیقت کو پوشیدہ کردیتاہے جب انسان اسباب ظاہری کے ذریعے سے کسی امر میں کامیاب ہوتاہے تو مسبب الاسباب تک اس کی نظر نہیں جاتی .وہ یہ سمجھ کر شفا صرف طبیب کی تشخیص اور اس کے علاج نے دی ہے،طبیب پر تو ایمان لے آتاہے لیکن طبیب کا خالق کہ جس کی مشئیت طبیب کی صحیح تشخیص اور اس کے کامیاب علاج میں کار علاج میں کار فرمارہی، اسی کی نظروں سے اوجھل رہتاہے.

لیکن توحید پر یقین رکھنے ولاانسان ان سب باتوں کو سمجھتا ہے .لہذا اس کا ایمان کبھی متزلزل نہیں ہوتا اور اگروہ کبھی کسی مقصد کے لئے اسباب دینوی کو اختیار بھی کرتاہے تو تکیہ اس کامکمل طور پر مسبب الاسباب پرہی ہوتاہے.

پس جوشخص صرف اسباب کی تاثیر کاقائل ہو وہ کافر ہے یہاں کفر سے میری مراد کفر حقیقی نے نہ وہ کفر جوظاہری اسلام کی ضدہے اور جو شہادتیں کے اقرار و اعلان سے برطرف ہوجاتاہے اور جس کے بعد انسان پر اسلامی شرعی احکام لااگو ہوجاتے ہیں ایسا نسان مسلمان تو ہوتاہے لیکن اس کا ایمان اتناکمز ور ہوتاہے کہ اسے سعادت و نجات کی منزل تک نہیں پہچاسکتا.

کیونکہ ابھی تک اس کی سمجھ میں نہیں آسکا کہ اسباب کی کوئی سمتقل حیثیت نہیں اور وہ مشئیت ایزدی کے زیر اثر ہیں.

قر آن مجید میں کئی ایسے امور کا ذکر ہے جوباعث عبرت ہیں ذرادریائے نیل کے شگافتہ ہونے پر غور کیجئے پانی کاخاصہ بہنا اور سیلان کی حالت میں رہنا ہے.اس کی اس خاصیت کو اس سے جدا کرنا قطعا محال ہے لیکن اللہ کےحکم سے اس میں براہ رستے پیدا ہوجاتے ہیں.پانی اکھٹا ہوکر دیوار کی صورت اختیار کرلیتاہے دریاکی تہ ایسی خشک ہوجاتی ہے کہ لوگوں اور ان کی سواریوں کے‌گزرنے سے اس میں سے گرد بلند ہوتی ہے .کیا یہ اس چیزکی علامت نہیں ہے کہ سبب نے اپنی تاثیر کھودی ہے.کیا اس سے یہ حقیقت ثابت نہیں ہوتی کہ سبب ارادہ غیب کے تابع ہے.

اگروہت راہ ارادہ فرمائے تو سخت پیاس پانی پیئے بغیر دور ہوجائے لیکن اس کی مشئیت میں نہ ہو تو جتنا بھی پی لو پیاس کی شدت میں کوئی کمی واقعی نہ ہو اور بعض بیماریوں کی صورت میں ایک گھونٹ بھی جان لیواثابت ہو جیسا کہ مرض استقاء میں عموماًواقع ہوتاہے.

عبد الملک اور مرض استقاء:

لکھاہے کہ عبدالملک مروان اموی مرض استقاء میں مبتلاہوا.اس کے طبیب خاص کا حکم تھا کہ ایک دوروزپانی اس کے حلق سے نیچے نہ اترنے ورنہ اس کی ہلاکت یقینی ہے.

لیکن بدبخت پر پیاس غالب ہوئی اور اس نے تاکیدی حکم دیا کہ اسے پانی پلایا جائے اور کہنے لگا “اسقونی ریا وان کا فی حیواتی” مجھے پانی دو خواہ اس سے میری جان جاتی ہو.اور آخرکار اس یقین کے باوجود کہ پانی اس کی موت کاپیاسی ہے،اس نے پانی پی لیا اور ہلاک ہوگیا.

جی ہاں وہی پانی زندگی کے لئے اتنالازمی اور ضروری ہے جب اللہ تعاليٰ کی مشئیت کے خلاف پیا جائے تو نہ صرف یہ کہ زندگی کاسبب نہیں رہتابلکہ ہلاکت کی یقینی وجہ بن جاتاہے.

امیر معاویہ کے متعلق لکھاہے کہ بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بددعاسے جوع البقر کی بیمای میں مبتلا ہوگیا اور جوکچھ بھی اورجتنا کچھ بھی کھالے سیر نہیں ہوتاتھا.

اصحاب فیل:

سورۀ فیل میں کیسے محیرالعقول واقعہ کا ذکر ہے کہ جب ابرہہ اور اس کا لشکر ہاتھیوںت پر سوار ہوکر کعبہ شریف کو ڈھانے کے لئے آرہے تھے تو آسمان میں اچانک ابابیلیں نمودار ہوگئیں جن میں سے ہر ایک کے منہ میں تین تین اور پاؤں میں دو دو ریت کے دانے کے برابر پتھریلی مٹی کے ڈھیلے تھے وہ ننھے ننھے ڈھیلے انہوں نے ابرہہ کے فیل سوا رلشکریوں پرپھینکے وہ ان کے جسموں میں گھس جاتے اور سواروں اور ہاتھیوں کے بدنوں کو چھید کر جسم کے پار ہوجاتے اس طرح سے وہ ہاتھی سواروں کا سارا لشکر تلف ہوگیا یہ خدائی مشئیت ہے کہ ہاتھیوں کی فوج کی تباہی کا کام مٹی کے ذذرات سے لےلے.

تاریخ جزیرہ عرب کے مطابق نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت مبارک اسی ہاتھیوں کے حملے والے سال میں ہوئی اسے عالم الفیل یعنی ہاتھیوں کاسال کہاگیا ہے.اور علیعليه‌السلام کی ولات تیس عام الفیل میں ہوئی جبکہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت شریف چالیس عام الفیل میں ہوئی جب تک اسلامی سن ہجیری کا اجراء نہیں ہواتاریخ عرب میں عام الفیل والاکیلنڈر استعمال ہوتاتھا.

پھر آپ نے حلق اسماعیلعليه‌السلام پر چھری کابیکارہوجانابھی سنا ہوگا کہ حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے ستربار تیزدھار والی چھری کوپوری طاقت سے فرزند کے نازک گلے پر چلایا لیکن اس پر کاٹ کا ہلکا سا بھی اثر نہ ہوا.کیونکہ جوچیزی اس کی مشئیت میں نہیں اس کا واقع ہونا ممکن نہیں .اگر اس کی مشئیت نہ ہوتو ساری دینا کا اسلحہ خانہ ایک ناچیز مخلوق کو بھی کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا اس کو سمجھنا از حد ضروی ہے کہ آپ کایقین راسخ ہوجائے کہ ایمان کا قطعی لازمہ توکل ہے.

یقین کی حدتوکل ہے:

روایت ہے کہ جناب امیرالمؤمنینعليه‌السلام سے کسی نے پوچھا کہ“ماحد الایمان قال الیقین،قالوا احد الیقین؟قال عليه‌السلام التوکل علی الله ”ایمان کی کیا حد ہے؟آپ نے فرمایا: انہوں نے پوچھا :یقین کی حد کیا ہے؟آپعليه‌السلام نے فرمایا: اللہ تعاليٰ پرتوکل .یہ سبب کچھ اور مسبب اور ان کے باہمی تعلق کی معرفت کانتیجہ ہے.اگر کسی کو یقین ہوکہ اسباب کی تاثیر اس کی مشئیت پرمنحصر ہے تو اس یقین کی علامت توکل ہے یعنی اسباب کی بجائے اس کا اعتماد مسبب پر ہوتا ہے،اس کا مکمل تکیہ اس کی ذات قدیر پر ہوتاہے اور اپنے تمام امور کو اس نے اس کی مشئیت کے حوالے کیا ہوتاہے اور جب وہ ایک دفعہ اسباب کی قیدسے آزاد ہوگیا تو سبب آزاد ہوگیا تو سبب کا وجود وعدم اس کے لئے برابر ہوجاتاہے سبب موجود ہو یا نہ ہو اس کوئی فرق نہیں پڑتا.

روایت ہے کہ جناب امیرعليه‌السلام نے فرمایا:“لَا يُصَدَّقُ إِیمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَكُونَ بِمَا فِی يَدِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ أَوْثَقَ مِنْهُ بِمَا فِی يَدِهِ ”بندے کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک اللہ کی مشئیت اس کے نزدیک اپنے خواہش واردادہ سے زیادہت قابل اعتماد نہ ہوجائے.

یعنی جب اس کا ایمان اس بات پر استوار ہوگیا کہ حصول مقصد کے لئے اللہ تعاليٰ اور اس کی مشئیت پر تکیہ اس کم اپنے اسباب وذرایع سے زیادہت مفید اور یقینی ہے تو پھر اسے اگر کوئی حادثہ بھی پیش آجائے توبھی اس کا اعتماد اپنے مال و دولت یا مقام و مرتبہ یا اپنے متعلقین کی بجائے اللہ تعاليٰ اور اس کی مشئیت پر رہے گا لیکن اگر صرف اسباب پرہی اسے اعتماد ہوا تو پھر طبیب اور دواہی شفاء دہندہ ہوں گے اور طبیب کو صحیح علاج کی ہدایت دینے والی ہستی اسباب کی گرد میں چھپ جائے گی.

کیا ایسا بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے اور دوسروں کے امور میں اکیلے اسباب پر تکیہ کرنے کے نتائج بدسے عبرت پکڑیں.

شاہیں اور اسیر:

سیدجزائری نے انوار نعمانیہ میں لکھا ہے کہ ایک حاکم کو اس طریقے سے عبرت نصیب ہوئی کہ ایک دن وہ شکار کے لئے جنگل میں گیا.شکار کم دوران ظہر ہوگئی.اس کے غلاموں اور سپاہیوں نے دو پہرکا کھانا تیار کیا اور مرغ بھون کر اس کے دسترخوان پر رکھا اچانک ایک شاہین آسمان کی بلندیوں سے چھپٹا اور چشم زدن میں مرغ کو اچک کرلے گیا.حاکم نے غضبناک ہوکر سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کا پیچھا کریں.اور خودبھی ان کے ساتھ اس کے تعاقب میں روانہ ہوا. کچھ دور جاکر شاہین ایک پہاڑ کو کعبور کرکے دوسری طرف چلاگیا سب نے بھی پیادہ ہوکر پہاڑ عبور کیا اور دوسری طرف اتر گئے دیکھتے کیا ہیں کہ ایک انسان جس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں زمین پر پڑا ہے او رشاہین اپنی چونچ سے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کر اس کے منہ میں ڈال رہاہے گوشت ختم ہوجانے کے بعد شاہین نے اپنی چونچ میں پانی بھرا اور اسے پلادیا.

وہ لوگ اس قیدی کے نزدیک آئے اور اس سے اس کا حال دریافت کیا اس نے بتایا.میں ایک تاجرہوں سواد گی کے لئے جارہا تھا کہ یہاں چورں کے ہتھے چڑھ گیا.انہوں نے میر اسارا مال لوٹ لیا اور پھر مجھے بھی مارنا چاہا میں نے ان سے جان بخشی کی التجاء کی انہوں نے کہا ہمیں اندیشہ ہے کہ تم شہرمیں جاکر ہمارے خلاف مخبری کروگے اور پھر میرے ہاتھ پاؤن باندھ کر مجھے یہاں چھوڑکر چلے گئے .دوسرے دن یہ پرندہ میرے لئے روٹی لے آیا اور آج کہیں سے بھنا ہو امرغ لے آیا روزانہ دو مرتبہ میری خبرگیری کرتاہے.حاکم کاذہن اسی مقام پر بدل گیا کہنے لگا وائے ہو ہم پر کہ ہم ایسے خدا سے‌غافل ہوں جواپنے بندوں کی اس طرح خبر گیری کرتاہے.آخر کارتخت وتاج کو چھوڑکر اللہ کے عبادت گذار بندوں میں شامل ہوگیا غرضیکہ کہ عبرت کے اسباب ہر جگہ بکثرت ہیں لیکن ان سے عبرت حاصل کرنے والے بہت ہی کم ہیں.امیر المؤمیننعليه‌السلام فرماتے ہیں:“ مَا أَكْثَرَ الْعِبَرَ وَ مَا أَقَلَّ الْمُعْتَبِرِینَ ”.

امام صادقعليه‌السلام سورہ یوسف کی آیۀ شریفہ:( وَ ما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلاَّ وَ هُمْ مُشْرِكُون‏ ) اور ان میں اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ.

کی تفسیر میں ایک سائل کے سوال پر کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایمان بھی لے آئے اورپھر بھی وہ مشرک ہو آپعليه‌السلام نے مفصل جواب بیان فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک سے مراد شرک خفی ہے جس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلان نہ ہوتا تو میں یقیناً ہلاک ہوجاتا یا گر فلان نہ ہوتا میں اہل وعیال سے محروم ہوجاتا.من ذان قول الرجل لولا فلان لهلکت ،لولا فلان لضاع عیالی ،روای نے عرض کیا پھر کیا کہے آپعليه‌السلام نے فرمایا یوں کہے کہ اگر اللہ تعاليٰ نے اپنے فضل و کرم سے فلان کو نہ بھیجاہوتا تو میں ہلاک ہوجاتا.لولاان من لله علی بفلان لهلکت ،.

خلاصہ یہ ہے کہ توکل اسباب سے قطعا دست بردار ہوجانا نہیں بلکہ دل سے یہ یقین ہونا ہے کہ سبب کا موثر ہونا اللہ تعاليٰ کی مشئیت پر منحصر ہے قوت وقدرت ساری کی ساری اس کے ہاتھ ہے اور بلا استثناء ذرے سے لیکر پہاڑتک،جرثومے سے لے کر ہاتھی تک اور تمام موجودات ،زمین وآسمان وستارگانی اور کہکشانی نظاموں کا ادارہ اس کے دست قدرت میں ہے.( فَسُبْحانَ الَّذِی بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْ‏ء ) .

اس حقیقت پر مکمل ایمان ضروری تاکہ مقام عمل میں رسوائی نہ ہو.اگریہ یقین وایمان موجود ہو تو قضا رسوا کن عمل و قدر پر اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی .اگر واقعاتی طور پر وہ کچھ ظہور میں نہ آئے جس کی طبیعت کو خواہش ہو تو ایسے مقام پر چون وچرایا اعتراض ایمان کے دعوے کے جھوٹاہونے کی علامت ہے.

غرض کہ انسان بعض اوقات سمجھتاہے کہ ایمان اس کا پختہ ہے.اہل توکل ہے اور صاحب تسلیم و رضا ہےت لیکن ایک ہی آزمائش میں اس کی ساری حقیقت کھل جاتی ہے اور اسے خود اپنی ذات پر شبہ ہوجاتاہے اللہ تعاليٰ سے دعاہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ہمیں دنیا وآخرت کی رسوائی سم‌محفوظ رکھے.

اللهم لاتفضحق بخفی مااطلعت لعیه من سری ”.اور ہمیں صفت توکل سے نواز ے تاکہ ہمارا مکمل توکل اس کی ذات اقدس پرہو.