استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 42565
ڈاؤنلوڈ: 4835

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42565 / ڈاؤنلوڈ: 4835
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس ۲۵

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ قالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ. إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِین‏

عمل نیت سے ہے:

دین کی بنیاد اخلااص نیت پرہے .اگر اخلاص نہ ہو تو عمل لغومحض ہے.آپ کے اعمال پہاڑوں جیسے بڑے ہوں لیکن اگروہ اخلاص سے‌انجام نہیں دئے گئے تو روزحشران کا وزن تنکے جتنا بھی نہیں ہوگا بے‌اخلاص عبادات بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کافرمان ہے:( وَ ما أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّین‏ ) انہیں یہی حکم دیاگیا ہے کہ اللہ تعالٰی کی عبادت اخلاص نیت سے کریں.

شیعہ سنی کے نزدیک اصول کافی کی یہ حدیث متواتر میں سے ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:“لاعمل الابالنیة”عمل کانحصار نیت پرہے.

اور دوسری جگہ حدیث پاک کے الفاظ یہ ہیں“انما الاعمال بالنیات ”نیت صادق کے بغیر اور صرف نمائشی طور پر انجام دئے گئے عمل کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ جو بھی اثرہے نیت کا نتیجہ ہے.اگر خالصتاً اللہ تعاليٰ کی خوشنودی کے لئے کوئی عمل کیا جائے تو سودمند ہے ورنہ لغو اور بے سود بلکہ اس کی رضا کے منافی عمل گناہوں کی فہرست میں درج ہوتاہے.

عبادت میں قصد قربت:

آپ خوب جانتے ہیں کہ عبادت نیت کے بغیر بےمعنی ہے ہر واجب عبادت میں قصد قربت ضروری ہے لیکن نیت صرف یہی نہیں کہ نماز ،روزہ،حج،خمس وغیرہ کے لئے چند الفاظ ادا کردئے یادل میں کہہ لئے جائیں جب آپ وضو کے ارادے سے وضوگاہ کی طرف جاتے ہیں تو یہ ارادہ ہی آپ کی نیت ہوتاہے خواہ زبان سے‌ادا کریں یانہ کریں ،دل میں کہیں یا نہ کہیں.

اب آپ کو کسی نے اس کام پرآمادہ کیا؟اس کا محرک در اصل اللہ تعالٰی کا حکم ہے جوقربت جوئی کے وقت آپ کی نیت میں شامل ہوگیا نیت کے الفاظ زبان سے اداکردینے میں بھی قطعا کوئی حرج نہیں ہے لیکن نیت کی حقیقت وہی ادعیہ ہے جو آپ کو عمل پرآمادہ کرتاہے.لیکن اگر عمل کامحرک اللہ تعالٰی کے تقرب اوررضاجوئی کے‌علاوہ کوئی امر ہو تو لاکھ آپ زبان سے قربتہ الی اللہ کاورد کیجئے،حقیقت سے اس کادور کابھی تعلق نہ ہوگا بلکہ دروغ گوئی جوآپ کے عمل کو خاک میں ملادے گی.لہذا یہ نہایت ضروری ہے کہ اولا عمل صمیم قلب اور خلوص نیت سےم ہو اور ثانیا صرف خدائے تعالٰی کے‌لئے ہو اور بلاشرکت غیر سے ہو.اس بارگاہ میں صرف سچائی قبول کی جاتی ہے. اگر اس میں ذارسابھی کھوٹ ہو تو سارا عمل بے کارہے.

ایک شخص اذان کہتا ہے‌لیکن اس سے اس کا مقصد عبادت نہیں بلکہ اپنی خوش آوازی یادینداری کی نمائش ہے تویہ کام شرعالغو اورباطل ہے اور ریاکی وجہ سے اس کے گناہوں میں شمار ہوگا بعض اوقات انسان خودشک میں پڑجاتاہے کہ آیا جوکام اس نے کیا قرب الٰہی تھا یانمائش کے ارادے سے‌تھا.اس کی آزمائش اس طرح ہوسکتی ہے کہ اگر کسی دوسرے شخص نے سبقت کی اور چاہا کہ آپ کی بجائے اذان دے اور آپ سےکہا کہ آپ بلاوجہ اذان دینے پربضد ہیں اور آپ نے اس سےبرامانا تو یہ دلیل اس بات کی ہے کہ آپ کی اذان دینے کی خواہش کامحرک اللہ تعالٰی کےنام کو بلند کرنے کا ارادہ نہیں بلکہ خود نمائی کا جذبہ تھا.ورنہ کیا فرق پڑتا ہے؟کیونکہ مقصد توصرف اتنا ہے کہ اذان دی جائے آپ نے نہ دی کسی اور نے دے دی .عموماً ایسا بھی ہوتاہے کہ افکار اور دعائیں بلانیت کی جاتی ہیں .اور انسان من گھڑت الفاظ میں‌دعا کرتاہے یہ درست نہیں ہے بلکہ دعا صرف روایت میں وارد شدہ الفاظ میں کہنی چاہئے.

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعائے بارش:

اصول کافی میں روایت ہے کہ چند صحابہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گذار ہوئے کہ مدت سے بارش نہیں ہوئی اور دنیا پانی کوترس رہی ہے اللہ تعالی سے دعا فرمائیں کہ باران رحمت کانزول ہو.حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دست مبارک دعا کے‌لئے بلندکئے اورعرض کیا بار الہا بارش نازل فرما!لیکن اس دعا کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا.دوسری بار صحابہ نے‌باصرار دعا کے لئےعرض کیا حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دوبارہ ہاتھ اٹھائے اور کہاپروردگار دنیاباران رحمت کاسخت محتاج ہے .ان کے گناہوں کو ان کی محرومی نعمت کاسبب نہ بنا.ابھی ہاتھ نیچے نہیں کئے تھے کہ کالی گٹھا امنڈآئی اور اتنی بارش ہوئی کہ جل تھل ہوگیا.صحابہ نے‌عرض کیا حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پہلی دفعہ کیوں قبول نہیں ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا:“دعوت ولم تکن لی نیة”دعا تو میں‌نے کی تھی لیکن پوری نیت سے‌نہیں.

علامہ مجلسی شرح کافی میں فرماتے ہیں کہ اس کامطلب یہ ہوسکتاہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلی بار مشیئت ایزدی کو مقدم سمجھتے ہوئے صرف صحابہ کادل رکھنے کے لئے دعائیہ الفاظ فرمادئے ہوں گے کیونکہ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ آپ صحابہ کی دلجمعی او رتسکین خاطر کے‌لئے ان کی خواہش قبول فرمالیتے تھے.لہذا پہلی دعا صمیم قلب سے نہ تھی بلکہ صرف صحابہ کو مطمئن کرنے کی غرض سے تھی لیکن دوسری دعامیں لوگوں کی ضرورتمندی کی تصدیق فرمائی اور ان کی سفارش کی کہ ضرورتمند یہ لوگ ضرور ہیں.اگرچہ گناہگار ہونے کی وجہ سے تیرے انعام واکرام کے بہت مستحق نہیں ہیں لیکن اگر تیری مشئیت کی مصلحت ہو تو ان کو بچالے.اس سے ظاہر ہوا کہ صرف صمیم قلب ہی سے کی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے.

بےخلوص ظاہرداری:

آج کل بے خلوص اور رسمی آوبھگت ہمارے عوام میں رائج ہے جوصرف زبان بازی تک محدود ہوتی ہے .مثلاً آپ خوب جانتے ہیں فلاں شخص آپ کابدخواہ دشمن اور آپ کے‌خون کاپیاسا ہے لیکن جب آپ سے مخاطب ہوتاہے تو باور کرانے کی کوشش کرتاہے کہ آپ کادوست اور خیرخواہ ہے.کیاآپ کو اس کی یہ منافقت بری نہیں لگتی؟ظاہریت اور فریب سب کو برالگتاہے اور بے خلوص اور نمائشی اظہار دوستی کوکوئی بھی پسند نہیں کرتا تو پھر کیا اللہ تعاليٰ جوہر ظاہر وپوشیدہ کادناہے ،اسے پسند فرمائے گا؟جب آپ اللہ اکبراس یقین سے کہیں گے کہ وہ واقعی عظیم ہے،اسے صحیح معنوں میں کائنات کی ہربڑی سے بڑی ہستی سے برتراوربزرگ ترمانیں گے اور اس کی عظمت وجبروت سےمتاثر ہوکر یہ الفاظ کہیں گے توعبادت ہوگی ورنہ یہی الفاظ اس کے غیظ وغضب کاباعث ہونگے.

حمد اور شکر نعمت:

الحمد للہ کہنا بھی جبھی معقول ہے کہ تہ دل اور خلوص نیت سے اللہ تعالٰی کی حمد وثنا کرنا مقصود ہو.جب بھی اس کی طرف سے کسی خیرکانزول ہو تو ضرور الحمد للہ کہنا چاہئے بعض اوقات الحمد للہ کہنا ذربرابر بھی قدر وقیمت نہیں رکھتا .خصوصاجب یہ لفظ ظاہر داری کے طور پر کہاجائے کیونکہ اگر آپ منعم حقیقی صرف اللہ تعالٰیکو سمجھتے ہیں تو پھر زید،عمر و،خالد وغیرہ سے بھی خوشامدکیوں کرتے ہیں.اگر سب تعریف کے لائق صرف ذات باری تعالٰی ہی ہے توپھر آپ دوسروں کی حمد وثنا میں کیسے رطب اللسان ہوسکتے ہیں.اس سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ آپ کا الحمد للہ کہنا محض دکھاوا اور ظاہر داری ہے .لیکن اللہ تعالٰی آپ کے دل سے خوب واقف ہے اور دہ آپ کے حال کو آپ سے بہتر جانتاہے.

بے بیناد دعويٰ:

اگر آپ کا فرزند زبان سے توآپ کی اطاعت وفرماں برداری کادم بھرے او رحقیقت میں مکمل طورپر نافرماں اور سرکش ہو اور آپ جانتے بھی ہوں کہ وہ جھوٹا ہےت اور آپ کو اس کا تجربہ بھی بارہاہوچکا ہو تو آپ اس فرزندسے دی طورپر راضی ہوں گے جس کے قول وفعل میں اس قدرتضادہو.زبان سے تو کہے کہ میرےہیں جوکچھ بھی ہے آپ کا ہے لیکن بوقت ضرورت بہانہ سازیوں پر اترآتاہو.اگر آپ ایسے فرزند سے راضی نہیں ہوسکتے تو کیااللہ تعالٰی آپ سے آپ کی تمام ترمنافقتوں او رفریب کاریوں کے باوجود کبھی راضی ہوسکتاہے؟یقیناً نہیں.

فریب جائز نہیں:

ایک بزرگ کافرمان ہے کہ آپ لوگ دنیاوی معامعلات میں ظاہر داری اورفریب کو ناپسند کرتے ہیں مثلاً معمار کو آپ نے ہدایت دی کہ ایسامکان بنائے جوہر طرحسےمضبوط اور پائدار ہو.لیکن جب وہ اسے تیارکرکے آپ کے حوالے کرتاہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس نے تعمیر میں پختہ اینٹ کی بجائے کچی اینٹ لگائی ہے اور بوہے کی بجائے اس میں لکڑی استعمال کی ہے لیکن اس کی ظاہریت کورنگ روغن سے خوب سنوار ہے آپ یقیناً کہیں گے کہ یہ ظاہرفریب عمارت مجھے درکارنہیں.

یامثلاً آپ نے گھر میں حلوا پکانے کی فرمائش کی .تیارہوکر جب آپ کے سامنے آیاتوچکھنے پر آپ کومعلوم ہوا کہ بد مزہ ہے اور میٹھابھی نہیں.تو آپ کے گھرواے لاکھ کہتے رہیں کہ دیکھو تو اس کارنگ کتنا خوبصورت ہے خوشبو کیسی اچھی ہے لیکن آپ ان باتوں کو قبول نہیں کریں گے اورکہیں گے کہ اگر حلواہےتو اس کی مٹھاس کہاں ہے؟

توجب آپ دنیاوی کاموں میں فریب کو پسند نہیں کرتے اور اگر ان میں سچا ئی نہ ہو تو قبول نہیں کرتے تو کیا خدائی معاملات میں یہ توقع رکھ سکیں گے کہ آپ کی بے حقیقت ظاہرداری اس کی بارگاہ میں قبول ہوجائے گی؟.

بدنصیبی یہ ہے کہ ہم اپنے عیوب کو تسلیم کرے پرتیار نہیں ہیں ہمیں بہت پسند ہے کہ لوگ ہماری تعریف کریں اور جھوٹ بول کر ہمیں اچھا ثابت کریں.نفسانی نفس اتنا پستت ہے کہ جھوٹ سے خوش اور سچ سےناراض ہوجاتاہے.

دل کی اصلاح ضروری ہے:

عاقل وہ ہے جو پہلے اپنے مرض کو سمجھ لے اور پھر اس کے علاج کے درپے ہو .اگر مرض سے‌جاہل رہے گا تو غلط علاج سے ہلاک ہوگا.ہم سب کو جان لینا چاہئے کہ بارگاہ خداوندی میں نیت صادق کے سواکوئی چیزی قابل قبول نہیں کیونکہ“ان اللہ ینظر الی قلوبکم لااليٰصورکم”اللہ تعالٰی آپ کے دلوں کو دیکھتاہےت نہ کہ آپ کی صورتوں کو.

پس اگر آپ کے دل میں حب دنیا کامرض ہے تو اس کا علاج کریں اور اس کے رحجانات و میلانات کی اصلا کریں.ایسانہ ہو کہ خودبینی اور خود پرستی کی وجہ سے آپ کے سب کام خراب ہوجائیں.

لہذا اگر آپ قلب صمیم اورنیت سلیم کےمالک ہیں تو زبان کی لغزش سے کوئی فرق نہیں پڑتا حتی کہ فقہی مسائل میں بھی مثلا آپ نے نیت نماز مغرب کی ہے لیکن زبانت سے‌نماز عشاکہہ دیا تو کوئی حرج نہیں کیونکہ معیار ومیزان آپ کا دل اور آپ کی نیت ہے.

جنگ جمل اور اصحاب علیعليه‌السلام :

روایت ہے کہ جنگ جمل کے دوران جناب امیرعليه‌السلام کے ایک محب نے آہ بھر کرکہاکاش اس جہاد میں میرابھائی بھی میرے ساتھ موجود ہوتا.(اس کا بھائی شیعیان علیعليه‌السلام میں سے تھا لیکن سو،اتفاق سے رکاب امامعليه‌السلام میں جہاد کی سعادت سے مشرف نہ ہوسکا تھا).آپعليه‌السلام نے پوچھا “اہويٰ اخیل معنا؟”کیاتمہارے بھائی کی خواہش ہمارے ساتھ ہے،یعنی کیاوہ پورے صمیم قلب او راخلاص نیت سے ہمارے ساتھ اس جہاد میں شرکت کامتمنی ہے؟اس نے‌عرض کی جی ہاں بخدا .آپعليه‌السلام نے فرمایا فکرمت کرووہ ہمارے ساتھ ہی ہے.یعنی وہ اپنی سچی نیت کی وجہ سے ہماری رفاقت میں ہے.بلکہ آپعليه‌السلام نےیہان تک فرمایا کہ بہت سے ایسے بھی ہمارے ساتھ اس جنگ حق وباطل میں شریک ہیں جوابھی تک اس دنیامیں آئے بھی نہیں اور ابھی والدین کی پشتوں میں ہیں.ظاہرہے کہ شرکت صرف نیت اور عزم قلبی کے اعتبار سے ہے.

اللہ تعالٰی صدق نیت عطا فرمائے:

ہم اللہ تعالٰی سےنیت کی سچائی طلب کرتےہیں اپنے امام زمانہعليه‌السلام کی اقتدار کرنے میں اور دعامیں عرض کرتے ہیں.“اللهم ارزقنا توفیق الطاعة و بعد المعصیة و صدق النیة ”بار الہا ہمیں اطاعت کی توفیق گناہوں سے‌دوری کی ہمت وطاقت اور صدق نیت کی نعمت عطافرما.

بعض اوقات ایسا ہوتاہےکہ انسان اطاعت خداوندی میں مصروف ہوتاہے لیکن اس کی حرکات ہوائی نفس کے ایماءپر ہوتی ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عبادت کررہاہے لیکن اس کی حرکات اخلاص نیست کی نہیں بلکہ ہوائے نفس کی تابع ہیں.وہ سمجھتاہے کہ وہ قربة الی اللہ کام کررہا ہے لیکن در اصل اسے قریب شیطانی حاصل ہے.اے پروردگار.شرابلیس اور ہوائے نفس ے ہماری حفاظت فرما.

مجلس ۲۶

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ قالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ. إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِین‏

دشمن ایمان و عمل:

ہماری بحث کا موضوع اخلاص تھا ہم نے بیانکیا کہ اخلاص گناہوں سے بچنے کے لئے ایک مضبوط اور محکم پناہ گاہ ہے.اگر کوئی شخص شیطان کے شرسے محفوظ رہنا چاہئے تو اس کےلئے اس کے ہوا کوئی چارہ نہیں کہ راہ اخلاص کو طے کرے کیونکہ اس منزل کو پائے بغیروہ شیطان کے ہاتھوں یک گیند کی طرح ہے.

انسان کے دین وایمان کو غارت کرنے والاشیطان ہی ہے اور اگر غارت نہیں تو خراب تو ضرورہی کردیتاہے اور آخرت کے لئے ذخیرہ کئے ہوئے اعمال کوبھی ضائع کردیتاہے.وہ ہمارا دشمن ہے لہذا ہمیں بھی اس کے ساتھ دشمنی رکھنی چاہئے( فاتخذوه عدوا ) یہ دشمن بڑا طاقتور ہے ارو ہر دم ہمارے دین ودل پر حملہ آور ہونے کی کوشش میں ہے لہذا ہمیں اہل اخلاص بننا چاہئے تاکہ شرشیطان کی آماجگاہ نہ نہیں.

اخلاص کمال توحیدہے:

نہج البلاغہ کے خطبہ اول میں امیرالمؤمنین حضرت علیعليه‌السلام گوہربار ملاحظہ ہوں ارشاد فرماتے ہیں“أَوَّلُ الدِّینِ مَعْرِفَتُهُ وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِیقُ بِهِ وَ كَمَالُ التَّصْدِیقِ بِهِ تَوْحِیدُهُ وَ كَمَالُ تَوْحِیدِهِ الْإِخْلَاصُ لَه ‏”.دین کی بیناد اللہ تعالٰی کی معرفت ہے،اس معرفت کاکمال اس کی خالقیت مطلقہ کی تصدیق ہے اور روزجزاء پر اعتقاد کامل ہے جوپیغمبر ان خداکی دعوت کی بنیاد ہے.تصدیق کا کمال توحید (پرایمان)ہے اور توحید کاکمال اخلاص ہے یعنی اسے وحدانیت اور ربوبیت کے تمام مظاہرمیں یکتا ولاشریک ماناجائے.

اگر ہمارا اور ساری موجودات کا رب ایک ہی ہے تو اس کے غیر سے ہماراکیا تعلق ہے اور کسی اور کوہم کیوں کار سازوکارفرما سمجھتے ہیں.اگر وہ واقعی ہمارا عقیدہ ہے کہ “لا الہ الا للہ بیدہ الخیر”.کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،ہرخیراس کے دست قدرت میں ہے،سارے کام اس کی مشئیت پر منحصر ہیں ہر مشکل کاحل اسی کے پاس ہے ہر تکلیف کادور کرنے والا صرف وہی ہے اور“یاکاشف الضرو الکرب” کے الفاظ سے صرف اسی کو پکاراجاتاہے تو پھر ہمین یہ حق نہیں ہے کہ اس کے سوا کسی اور کے سامنے دست سوال درازکریں کیونکہ یہیں سے ریائی ابتداء ہوتی ہے اور جب انسان یہ سمجھنے لگتاہے کہ مخلوق سے بھی حاجت روائی ممکن ہے او راہل دنیا کی نظروں میں عزت کا حصول بھی فلاح کاضامن ہے تو وہ توحید سے بے گانہ ہوجاتاہے،اس کے سامنے شرک یا خدا کی راہ ہموار ہوجاتی ہے اور اس کی نیت میں شیطنت گھر کرلیتی ہے.

اگر ہم موحد میں تو ہماری دعا کا مخاطب صرف اللہ تعالٰی ہونا چاہئے .جب ہم اسے حاضرناظر سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہئے چہ جائے کہ اس کی طرف سے جس عمل پرہم مامور میں اس میں اس کے غیرکوبھی شریک کریں.یہ جائز نہیں کہ فعل واجب کی ادائیگی کی دوسروں کے سامنے نمائش کریں کہ ہماری تعریف ہوہمیں اپنے رب سے شرم آنی چاہئے اور ڈرنا چاہئے کہ مبادا اس کی غیرت جوش میں آجائے اور اس کے قہر وغضب کی بجلی ہمیں جلاڈالے اگر “کمال التوحید الاخلاص للہ”پرہمارا ایمان ہے اور ہم واقعی اسے اپنا پالنے والا اور اپنے تمام امور میں ولی التوفیق سمجھتے ہیں تو اس کے غیرسے ہمیں وابستہ نہیں ہونا چاہئے دوستی کے بارے میں بھی ہمیں موحد ہونا چاہئے اور ہمارا تمام ترتعلق صرف خدا اور اس کی رضا سے ہونا چاہئے.

بہت سے لوگ اخلاص کے مدعی ہیں:

انسان کے بیشترت اعمال اخلاص کے منافی ہیں.اگر رازق صرف خدائے تعالٰی ہے اور دینے والا،لیں والا،لانے والا،لے جانے والا وہی ہے اور تمام خیرات اسی کے دست قدرت میں ہیں تو ہم اسباب کو کیوں مؤثر کل سمجھتے ہیں اور جب زندگی میں کوئی نشیب و فراز آتاہے تو اللہ تعالٰی کی قضا وقدرپر کیوں اعتراض کرتے ہیں .یہ یہ امربڑا وقت طلب ہے کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ انسان ساری عمر اپنے آپ کو مخلص سمجھتارہتاہےلیکن جب وہ فناکی “دھلوان پر پہنچتاہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہے ،پھر ایسے معلوم ہوتاہے کہ اس کی ساری عرم اللہ تعالٰی سے‌عدم اخلاص میں گذرگئی بہت سے ایسے بھی ہیں جو بہت سے خداؤں کی پرستش کرتے ہیں اور اس کے باجود خودد کو موحد کہتے ہیں.

ایک شخص نے ایک رات ارادہ کیا کہ مسجد میں جائے اور ساری رات یک سوئی اور خلوص نیت سے اللہ تعالٰی کی عبادت کرے نرم و گرم بستر چھوڑکروہ مسجد میں چلاگیا ارو وہاں چٹائی پر عبادت میں مصروف ہوگیا.گچھ دیر کے بعد تایکی میں ایک آوازاس کے کانوں سے ٹکرائی وہ سمجھا کہ ضرور کوئی دوسرا آدمی،بھی مسجد میں عبادت میں مشغول ہے.اس نے سوچا کہ یہ بہت اچھا ہوا صبح جب وہ مجھے دیکھے گا تو لوگوں سے میراذکر کرے گا کہ میں ساری ساری رات عبادت میں مصروف رہتاہوں چنانچہ اس نے‌ارو زیادہ ذوق وشوق اورخشوع و خضوع سے‌عبادت شروع کردی ارو اپنی آواز میں ‌بھی مزید عاجزی او رزاری پیدا کرلی اور اسی حالت میں صبح کردی جب شب کی تاریکی رخصت ہوئی تو اس نے دیکھا کہ مسجد کے کونے میں ایک تا دبکابیٹھا ہے جو غالباًبا ہر کی سردی سے بچنے کے لئے مسجد میں‌آگیا تھا معلوم ہوا کہ اس نے ساری رات کتے کی خاطر عیادت کی یایوں سمجھئے کہ اسی کی پرستش کی.

شیطان کی فریاد:

اگر آپ اہل اخلاص ہیں تو آپ کا سروکارصرف اسی کی ذات سے ہونا چائے اور صرف اسی کو اپنا کار سازا و اپنے جملہ امور میں کرکار فرما سمجھیں .جاہ و مال دنیا کو اپنی نیت پرہرگز اثر انداز نہ ہونے دیں کیونکہ عزت و ذلت کا مالک صرف وہ ہے،مرض وشفا کاناز کرنے ولابھی وہی ہے اور سب امور کی بازگشت اسی کی طرف ہے( أَلا إِلَى اللَّهِ تَصِیرُ الْأُمُور ) .

اخلاص ایمان کی اس منزل کو پہنچاہوا انسان جب مسجد میں داخل ہوتاہے تو شیطان کی جان پہ بن آتی ہے اور وہ نالہ و فریاد شروع کردیتاہے.

لیکن یہ مقام بڑامشکل اور محنت طلب ہے یہ بڑی مردانگی کا کام ہے کہ انسان شیطان سے الجھ جائے اور نفس امارہ اور ہوا وہوس سے جہاد اکبر کرے حتی کہ اہل اخلاص بنے جس کے بغیر پہاڑوں جیسے بڑے بڑے اعمال، ہباءً منثورا، ہوجاتے ہیں.

تین گروہوں کا حساب کتاب:

اس ضمن میں ایک روایت عرض کی جاتی ہے محجة البیضاء میں لکھا کہ روزقیامت سب سے پہلے تین گروہوں کا حساب کتاب ہوگا.

پہلاگروہ علماء کا ہوگا.اللہ تعالٰی ان سے سوال فرمائے گا کہ تم نے دنیا میں کیا کیا اور جو علم ہم نے تمہیں دیاتھا اس کوکیسے استعمال کیا؟وہ کہیں گے پروردگار توشاہد ہے کہ ہم نے علم کو دنیا میں پھیلایا ،تعلیم و تدریس میں مصروف رہے کتابیں تصنیف کیں ارو لوگوں کی راہنمائی کی جواب میں کہاجائے گا تم جوٹ بولتے ہو کیونکہ یہ سب کچھ تم نے اس لئے کیا کہ لوگ تمہیں علامہ کہیں اور بڑا دانشمند سمجھیں یہ نمائش تھی اور اس کا معاوضہ تم لوگوں کی تعریف وتحسین کی شکل میں وصول کرچکے ہو اب ہم سے کیا چاہتے ہو.

دوسرا گروہت مال داروں کا ہوگا.ان سے پوچھا جائے گا کہ ہمارے دئے ہوئےت مال کو تم نے کیاکیا .وہ جواب دیں گے اے اللہ تو شاہد ہے کہ ہم نے اسے تیری راہ میں خرچ کیا،اعمال خیر انجام دئے ،فقراء کی دستگیر ی کی اور اس بارے میں کوئی حسرت اپنے ساتھ قبر میں نہیں لے گئے.انہیں جواب دیاجائے گا کہ جھوٹے ہو،تم نے اس لئے خرچ کیا کہ لوگ تمہاری تعریف کریں تمہیں سخی کہیں اور تمہارانام اخبار اور ریڈیوکے ذریعے شہرت پائے تم اپنے عمل کامعاوضہ دنیاہی میں وصول کرچکے ہو اب ہم سے کیا چاہتے ہو؟روایت میں آیاہے کہ روزقیامت سات گروہ عروش الهٰی کے سائے میں ہوں گے جن میں سے ایک ان لوگوں کا ہوگا جوپوشیدہ سخاوت کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ ان کے‌دوسرے ہاتھ تک کو خبر نہیں ہوتی اور خدا کے سوا ان کے اس عمل کو کوئی نہیں دیکھ سکتا.حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام جب اللہ کی راہ میں مال دیتے تو عباکو سرتک اوڑھ لیتے او رچہرہ مبارک چھپالتے تاکہ آپ کو کوئی پہچان نہ سکے حتی کہ بعض اوقات وہ لوگ بھی جن کی آپ نےمدد فرمائی ہوتی شکایت کرتے کہ آپ نے ہماری مدد نہیں کی کیونکہ مدد کے وقت انہیں اندازہ نہیں ہوسکا تھا کہ منعم کون ہے.

لہذا انسان خواہ لاکھوں روپے خرچ کرڈالے،اگر نمائش یانام ونمودکےلئے کرے گا تو پرکاہ جتنی بھی اس کے عمل کی قیمت نہ ہوگی.

تیسرا گروہ معرکہ جہاد میں شہیدنے والوں کا ہوگا .ان سے سوال ہوگا کہ تم نے دنیا میں کیا کیا؟تو وہ کہیں گے بارالہا تو خوب جانتاہے کہ ہم نے تیری راہ میں جان دی .زخم کھائے اور اذیتیں اٹھائیں.جواب میں کہا جائے گا تم میدان جہاد میں ہمارای راہ میں شہادت سے زیادہ اپنی شجاعت کی نمائش کے لئے گئے تھے اور تمہارا اصل مقصد مال غنیمت کا حصول تھا تم نے خالصتاًہماری راہ میں جان نہیں دی.بعض اوقات ایک شخص قرآن مجید بہت اچھا پڑھتا ہے لیکن گویوں کی طرح قرآن مجید کو گاتاہے تاکہ اپنی آوازہی کی نمائش کرے اس کابھی آخرت میں کوئی حصہ نہیں.

روایت میں ہے کہ ایک شخص کو اس بارے میں خوف محسوس ہوا اور اس نے حضرت امام صادقعليه‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ مولا میں اپنے گھر میں قرآن پاک کی تلاوت کرتاہوں جسے میر ے اہل وعیال سنتے ہیں لیکن بعض اوقات میری آواز گھر سے باہر بھی چلی جاتی ہے جسے راہگیربھی سنتے ہیں .اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟آپ نے فرمایا درمیانہ آوازسےپڑھو تاکہ ریا میں شمار ن ہو.

شاید اس میں یہ نکتہ ہے کہ انسان اپنے اہل وعیال کے لئے تو ریاء کر نہیں سکتا(الایہ کہ برےدرجے کا احمق ہو).

آپعليه‌السلام نے اسے درمیانہ آواز سےتلاوت کرنے کے لئے اس غرض سے ارشاد فرمایا کہ اس کے اہل وعیال بھی سن سکیں اور گھرسے باہر بھی اس کی آواز نہ جائے کہ ریا سمجھی جائے.

یہ عجیب بات ہے کہ تاوقتےکہ انسان اخلاص کے قلعہ میں پناہ نہ لے شرشیطان سے محفوظ نہیں ہوسکتا اور شیطان کی زد میں رہتاہے .یہ مقام ہے جہان انسان صمیم دل سے دعا کرتاہے.( أَمَّنْ يُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوء ) اے وہ ذات اقدس جومصیبت کے ماروں کی فریاد سنتی ہے اور ان سے مصیبت کو رفع فرماتی ہے.اے اللہ مشکل بہت بڑی ہے اور ہم اتنے غافل اوربے پرواہ ہیں تیری نظر کرم ہی اس صورت حال کی اصلاح فرماسکتی ہے ہم اتنے فریب خوردہ ہیں کہ عدم اخلاص کاشکارہونے کے باوجود خود کو اللہ تعالٰی کی مخلص بندگان میں شمار کرتے ہیں .ایک دفعہ حجاب اٹھ جائے اور موت کامنظر اور بعدالموت کی منزلیں ،عالم برزخ وغیرہ سامنے آجائے تو معلوم ہوکہ ہم کسی مہلک غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ اپنے آپ کو سلمان ثانی سمجھے بیٹھے تھے.

ساری عمراس خوش فہمی میں رہے کہ ہم کربلائے معلی اور مشہد مقدس کے زوارمیں سے ہیں لیکن یہ کیازواری تھی کہ زیارت کی زیارت اورسیاحت کی سیاحت !دل ادا س ہوا ور دنیا کے کاموں میں سے‌تھک گئے تو چلو تفریح کی خاطر زیارت ہی سہی .اس میں کوئی نہیں کہ زیارت ایک بڑی سعادت ہے جسے ترک نہیں کرنا چاہئے لیکن ہمار مطلب یہ ہے کہ اس کی تحریک اخلاص نیت کی طرف سےہونی چائے .روزمرہ کامشاہدہ ہے کہ ایک شخص حج کو اس لئے جاتاہے کہ نہ گیا تولوگ طعنے دیں گے یا اس مقصد سے جاتاہےکہ نام کے ساتھ حاجی کااضافہ ہوجائے ارو اس لقب سے اسے دنیاوی فائدہ حاصل ہو یا سفر حج میں تجارت کرسکے اور ایسی سوغاتیں لائے جن کی فروخت سے حج کی خرچ ہوئی رقم سے کئی گناوصول ہوجائے .مختصر یہ کہ نیت خالص کاوجود نہیں ہےۀمراتب اخلاص پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ اخلاص کامقام کتنا بلند ہے اور مخلصین کی تعداد کتنی کم ہے.

بلند ترین مراتب اخلاص:

شہدائےکربلاوجہ سادات شہدا نہیں کہا جاتا.ان میں دنیاوی رتبے کے لحاظ سے کمترین شہید ایک حبشی غلام ہے .عرض کرتاہےمولا میں حسب ونسب کے لحاظ سے پست اور ذلیل انسان ہوں.رنگ میراسیاہ ہے،بومیرے جسم کی ناگوار ہے.

یہ صحیح ہے کہ میں آپ پر قربان ہونے کے ہرگز قابل نہیں ہوں لیکن آپ مجھ پر احسان فرمائیے اور مجھے اپنا فدسہ قرار دیجئے.امامعليه‌السلام اسے اجازت نہیں دیتے وہ روتا ہے اور عرض کرتا ہے.مولا میں خوش حالی میں آپ کے دسترخوان کاریزہ چین رہا،اس سختی کے عالم میں آپ کو کیسے چھوڑدوں قصۀ مختصر کہ اتنی عاجزی سے‌اصرار کرتا ہے کہ امام مظلوم کواجازت دینا ہی پڑتی ہے.اور وہ شہادت کی سعادت سے مشرف ہوتاہے .اس سے بہتر اور خالص ترعمل اور کیا ہوگا.