استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 42599
ڈاؤنلوڈ: 4839

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42599 / ڈاؤنلوڈ: 4839
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس ۲۹

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ قالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ. إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِین‏

ضمنی محرکات کی وضاحت:

یہ پچھلی رات ہم نے عرض کیا کہ ضمنی محرکات کی موجود گی صحت عمل کے لئےت مضرنہیں بشرطیکہ عمل کا حقیقی اوربنیادی محرک طلب ثواب یا خوف عذاب ہو آج ہم اس کے لئے مزید ایک مثال عرض کرتے ہیں:

ایک شخص سچے دل سے قربتہ الی اللہ اس سال حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنا چاہتاہے.اس کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہے مبادا وہ حج سے پہلےت مرجائے اور اس کی موت دین یہود ونصاريٰ پرہو.اور ضمناًیہ بھی جانتاہے کہ ایک جنس جو اس کےت اپنے شہرمیں نایاب ہے حرمین شریفین کے بازاروں سے خرید کرے یا اپنے ساتھ کوئی قالین وغیرہ لیتاجائے جس کی وہاں فروخت سے اسے فائدہ حاصل ہو تو یہ امر اس کے حج کی صحت پر اثرانداز نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی تحریک ضمنی اورداعیہ اس کا اضافی ہے.

اس کے مقابلے ایک اور شخص ہے جو حج کے سفر سے دنیاوی معاملہ کرنا چاہتاہے اور اس کا مقصد مالی فائدہ کا حصوتل ہے تو اس کا یہ سفر عبادت نہیں تجارت کے لئے ہوگا کسی دنیاوی فائدے کے لئے رخت سفرباندھنے سے عبادت کے ثواب کی امید نہیں رکھی جاسکتی .مختصر یہ کہ ہر عمل کی حقیقی تحریک کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے

معاوضہ جائز نہیں:

اب جبکہ بات یہانتک پہنچ گئی ہے مناسب ہے عروة الوثقيٰ میں سید کاذکرفرمودہ مسئلہ بیان کروں.پہلے ععرض کیا جاچکاہے کہ اگر عبادت خوف عذاب یاطلب ثواب سے کی جائے تو صحیح ہے بشرطیکہ کسی معاوضے کے عنوان سے نہ ہو جیساکہ عموماًمستحب اعمال ہوتاہے .مختصر یہ کہ ہروہ عمل جوکسی لین دین یامعاوضے کے لئے انجام دیاجائے عبادت نہیں معاملہ ہے اور اس کی صحت یقینی نہیں.

مثلاً ہم سنتے ہیں کہ کسی نے نماز جناب زہرا علیہاالسلام اداکی تو اس کی مشکل اسان ہوگئی .تویہ تو مزدوری ہوگئی عبادت نہ رہی اور اس سے جوکچھ حاصل ہوا ثواب نہیں بلکہ مزدوری کامعاوضہ ہے جو حاجت روائی کی شکل میں ملا.اس کا خیال ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس سے قضائے حاجت کے بدلے میں دورکعت نماز کی خواہش یادرخواست کی ہے کیونکہ باالفاظ دیگر وہ اس کی ااس ناچیز دورکعت کا محتاج ہے.

کس برتے پر؟:

خود کو اللہ تعالٰی کے مقابلے میں کسی چیزیا امر کامالک سمجھنا سراسر جھوٹ اور خلاف واقعہ ہے.آپ کے پاس ہے کیا جودینگےاور اس کے مقابلے میں اللہ تعالٰی سے معاوضہ طلب کرینگے.مثلاً اسی دورکعت نماز کو لیجئے جس کی ہم نے مثال دی ہے.آپ کھڑےہوتےہیں،جھکتے ہیں،پیشانی کوخاک پر رکھتے ہیں او رزبان سے ذکر کرتے ہیں.اچھا تو آپ کو پیدا کس نے کیا،آپ کے‌اعضاء کس نے بنائے اور کس نے انہیں تناسب واعتدال عطا فرماکر نوک پلک سے انہیںت سنوارتا کہ آپ پوری سہولت وآسانی کے ساتھ حرکات نماز بجالاسکیں.اور آپ کے منہ میں ٹکائے ہوئے اس گوشت کے متحرک لوٹھر ے کو کس نے گویائی عطافرمائی

حق بات یہ ہے کہ آپ کےپاس صرف ایک ارادے کے سواکہ وہ بھی اسی کی توفیق پرمنحصر ہے ،کچھ بھی نہیں ہے.آپ کے پاس کیا ہے جو خدا کو دے کر اس کے بدلے میں کچھ طلب کرینگے.موجودات عالم کی ہر مرئی اور غیر مرئی چیزاس کی ہے .یہ ہاتھ جوآپ اس کے سامنے پھیلاتے ہیں یہ کس کا ہے.آپ کے سرسے لیکر پیرتک آپ کا سارا وجود اور آپ کے صفات وملکات عارضی ہوں یا مستقل،اسی کے عطافرمودہ ہیں جنہیں اس نےاپنی قدرت کاملہ سے آپ کے ارادے کا تابع بنادیاہے.آپ جب نماز کاارادہ کرتے ہیں تو بڑی آسانی سے کھڑے ہوجاتے ہیں یہ کس نے آپ کے اس بوجھل وزن کو مسخرکیاہے.

مقناطیس سے عجیب تر:

بوعلی سینا کا قول ہے کہ لوگ مقناطیس سے جوکہ سوئ کو کھینچ لیتاہے تعجب کرتے ہیں لیکن اس امر پر متعجب نہیں ہوتے کہ خدائے حکیم نے کس طرح اس بوجھل جس کو نفس ناطقہ کے تابع قرار دیاہے“الناس یتعجبوں من جذب المقناطیس مثقالاً من حدید و لم یتعجوا من من النفس الناطقة هذا الهیکل العظیم

کبھی تابوت برداروں میں شامل ہوئے میت کو اٹھانا شخص واحد کے بس کاروگ نہیں.اسے اٹھانے کے لئے چند اشخاص کاہونا ضروری ہے .کیا ہے وہی جسم نہیں جو جب زندہ تھا تو جس طرح آپ چاہتے تھے پوری آسانی و سبکی سے حرکت کرتاتھا.

آپ کا ارادہ بھی خدا ہی نے آپ کو عطا فرمایاہے اور آپ خواست الٰہی کے خلاف کوئی خواہش کرہی نہیں سکتے( وَ ما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّه‏ ) .

لہذا معاوضے یامباد لے کی بات نہ کریں.آپ حج کوجاتے ہیں .پیسے خرچ کرتے ہیں لیکن یہ پیسے کس کے ؟خود آپ کس کے ہیں؟.

ناچیز کیا جھگڑتاہے ناچیزکے لئے:

دنیا میں جوکچھ بھی ہے اللہ کا ہے. اس نے اپنے مصالح کی بناء پر شرع مقدس میں مالک ومملوک کے حقوق کی تعین فرمائی ہے ورنہ دینے والا اورلینے والا ہر اس چیزکا جس کا آپ حساب کرتے ہیں.بالآخروہی ہے کیونکہ سب امور کی بازگشت اسی کی طرف ہے.( لاالی الله تصیر الامور ) پس آپ کو اپنی عبادت میں معاملہ کرنے یامعوضہ کی طلب سے ہوشیار اور بازرہنا چاہئے کہ کیا کرایا خاک میں نہ مل جائے .یہ خیال نہ کریں کہ آپ نے مال دیا یا کام کیا اوراس میں اپنی طاقت صرف کی.یعنی کوئی چیزآپ نے ایسی دی جسے آپ اپنی ملکیت سمجھتے تھے.اور اب چاہتے ہیں کہ اس کا ماوضہ آپ کو ثواب کی شکل میں یا عذاب سے نجات کی صورت میں ملے.

یادرکھیں کہ انسان صرف ایک مشت خاک ہے جو امرومشئیت الٰہی سے ایک محدود مدت تک کے لئے ایک مخصوص شکل وصورت میں مجسم ہے.اس عارضی مدت کا خیال نہ کریں.موت کے بعد ایک مدت گذرجانے کے‌بعد جب اس کی قبر کو اکھیڑا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ وہ بدرستور مشت خاک ہی ہے.

وہ ہاتھ بہت قادر و توانا تھا جس نے اس مٹی کے پتلے کو جان دی ارو مشت خاک کو گیاوشنوا اور بینا و توانا بنایا اور آخر میں پھر اسے اپنی اصل خاک ہی کی طرف لوٹا دے گا.( مِنْها خَلَقْناكُمْ وَ فِیها نُعِیدُكُمْ وَ مِنْها نُخْرِجُكُمْ تارَةً أُخْرىٰ‏ ) آپ زیارت عاشورا یا جامعہ پڑھتے ہیں،اس حقیقت سے‌آپ کو خبردار رہنا چاہئے کہ ی زبان آپ کوت کس نے دی اور اسے آپ کے ارادے کا تابع فرمان بنادیا.جب ہم اختیاری افعال کے مقدمات پر غور کرتے ہیں تو ہماری حیرت کی کوئی حدنہیں رہتی کہ کس ن ہمیں عقل و شعور عطاکیا ،اسباب زیست فراہم کئے ،توفیق عمل عطا کی اور موانع کو بر طرف فرمایا.

پس اول تو عمل کا معاوضہ ہی ممکن نہیں کیونکہ نہ ہمارے پاس مال ہی ہے اور نہ ہی اپنی ذاتی کوئی چیز ہے جس کا عوض وصول کریں بس ایک ارادہ ہے کہ وہ بھی اسی کی توفیق پر منحصر ہے.

کام کی اجرت ہے ہی کتنی؟:

اور پھراگر بفرض عمل کی اجرت نااگزیر ہی تو آئیے دیکھیں ہمارا حق کتنا بنتاہے.

کیونکہ اے نمازیو ،روزہ دارو،حاجیو،اگر آپ لوگوں کے عمل کامعاوضہ دیاجائے تو تمہارا کیا اندازہ ہے کہ وہ کتنا ہونا چاہئے.

یا اے شب زندہ دارو جوکہتے ہو کہ ہم ساری ساری رات عبادت می گذارتے ہیں اور بڑے فخر سے تہجد گذاری کی کیفیت بیان کرتے ہو تو ساری جاگ کر پہرہ دینے والے چوکیدار گی مزدوری جانتے ہو کتنی ہوتی ہے.

پس آپ ہی کے فیصلے کے مطابق کہ عمل کی مزدوری ملنی چاہئے. اپنے عمل کی پورے حساب سے انصاف کے ساتھ اجرت لگا کربتائیں کہ کیا بنتی ہے.آپ حج کو گئے ہیں تو اس کی کتنی اجرت آپ کو درکار ہے جبکہ اس زمانے میں حج کرکے آپ یقیناً مالی خسارے میں انہیں رہے ہوں گے.یا آپ نے‌روزہ رکھاہے یعنی ظہر کا کھانا چند گھنٹے لیٹ کھایا ہے‌تو دنیا میں کئی ایسے لوگ ہیں جوروزے سے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے کام میں اتنے مشغول ہوتے ہیں کہ صبح سے شام تک کچھ نہیں کھاتے پیتے اور سارا دن انہیں بھوک یا پیاس کااحساس تک نہیں ہوتا...

بدبخت ہے وہ انسان جو یہ سمجھ کر کہ اپنے کسی عمل کے بدلے وہ اللہ تعالٰی سے معاوضے کاطلب گار ہے خودہی ترازوپکڑے اور حساب کتاب شروع کردے.

امید ثواب:

لہذا انسان کے عمل کا محرک اللہ کا اپنے فضل وکرم سے دیاگیا ثواب کاوعدہ ہونا چاہئے

صرف اسی صورت میں اس کا عمل عبادت شمار ہوسکتااور اسے اجر کے قابل سمجھا جاسکتاہے.

ہمیں اپنی عبادت کو درگاہ ایزدی میں انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ اس فہم وشعور کے ساتھ پیش کرنا چاہئے کہ وہ ذات غنی غفور و کریم ہماری عبادت کی ہزگز محتاج نہیں ہے اور اس کی قبولیت صرف اس کے لطف کریم ارو فضل عمیم پرمنحصر ہے.

انسان کو اللہ تعالٰی کے حضور غرور وخودبینی سے بچنے کے لئے اپنے نفس کو انتہائی ذلیل کرکے اور خود پر پورے خشوع وخضوع کی کیفیت طاری کرکے پیش کرنا چاہئے اور اس انداز سے سوچنا چاہئے کہ وہ باگارہ بارگاہ لطف وکرم ہے اس نے وعدہ فرمایا ہوا ہے وہی وعدہ صادقہ میرے عمل کا محرک ہے اور اسی کی وجہ سے میں پرامید ہوں ورنہ میرا عمل ہرگز بارگاہ الٰہی میں پیش کئے جانے کے‌لائق نہیں‌ہے میری حقیقت ہی کیا ہے کہ عمل کادعوی کروں اور میرے پاس عمل ہی کیاہے جس پرناز کروں کیا میں نے کوئی ایسا عمل کیا ہے جس پر میں فخر کرسکوں....؟

عاقل عمل پرنازاں نہیں ہوتا:

لہذااہل عقل کبھی اپنے عمل پر نازاں نہیں ہوتے وہ شخص انتہائی جاہل اور بے خرد ہے جو اپنے ناچیزخیر اعمال کو حسنات سمجھ کر ثواب کاحساب کرتارہتاہے ارو ساری عمر خود کو فریب اور خوش فہمی میں مبتلا رکھتاہے لیکن دنیا سے رخصت ہوتے وقت جب آفتاب حقیقت طلوع کرتاہے تو اصلیت کھلتی ہے کہ جسے پہاڑ سمجھتا تھا تنکابھی نہ نکلا اس روزسب پوشیدہ چیزیں ظاہر ہوجائیگی.( يَوْمَ تُبْلَى السَّرائِرُ ) .

جگنواور ہیرا:

ایک شخص تاریک رات میں جنگل میں سفر کررہا تھا دورسے اس کی نگاہ ایک چمکتی ہوئی چیزپر پڑی وہ سمجھا کہ ہیرا ہے اور جاکر بڑی احتیاط سے اس نے اردگرد کی مٹی سمیت اسے اٹھاکر ایک ڈبیہ میں محفوظ کرلیا.دوسرے روزو ہ شہر کے سب سے بڑے جوہری کےپاس گیا اور اسےکہنے لگا میرے پاس ایک بہت بیش قیمت ہیرا ہےمیں اسے فروخت کرنا چاہتاہوں.جوہری نے کہا اسےلے آؤ،اس نے جواب دیا،بڑی احتیاط کی ضرورت ہے بہتر ہے کہ تم میرے ساتھ میرے مکان پر چلو.ناچار جوہری اس کے ساتھ گیا.اس نے پورے آداب ورسوم کے ساتھ ہیرے کی ڈبیہ کو صنددوق میں سے نکلاال.لیکن اسے کھولنے پر اس کے اندر مٹھی بھر خاک اور ایک کیڑے کے‌مردہ ڈھانچے کے سواکچھ نہ پایا.وہ حیرت و تعجب کے ساتھ اپنے آپ سے پوچھتا تھا میرا ہیر کیاہوا؟.

جوہری نےحقیقت واقعہ دریافت کی تو اس نے گذشتہ رات والاقصہ تدہرادیا.جوہری نے کہا بیوقوف انسان تو نے میراسارادن غارت کردیا.تو نے رات کو صرف ایک جگنور دیکھا تھا جسے ہیراسمجھ کر تونے اتنی پریشانی پیداکی.

جوکل ہوگا کردار کاپیش نامہ:

اے عقلمند تو جس عبادت کو اللہ تعالٰی کی ضرورت سمجھ کر اس کے ساتھ معاملے کے چکر میں ہے .جب کل حقیقت روشن ہوگی تو تجھے اس سے ندامت اور پریشانی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا.

ملاحظہ ہو کہ پیشوایان دین کس طرح االلہ تعالٰی کے حضور عاجزی اورتذلل کااظہار کرتے ہیں.دعائے حمزہ ثمالی میں سید سجاد حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام بارگاہ خداوندی میں یوں عرض گذار ہیں:

وماانا یاسیدی وما خطری ” پروردگار میں کیا شے ہوں کہ میرا عمل کویئ شے سمجھاجاسکے.

اے خدا ہمیں معرفت عطافرما کہ حقائق امور کو سمجھ سکیں پیشتر اس کے کہ سمجھنا بے فائدہ ثابت ہو.

رکن پنجم

تضرع

مجلس۳۰

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ أَخَذْنا أَهْلَها بِالْبَأْساءِ وَ الضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُون‏

تضرع کیفیت استعاذہ کالازمہ ہے:

ارکان استعاذہ میں سے پانچواں رکن تضرع ہے بعض اوقات استعاذہ کا تقاضا ہوتاہے کہ انسان میں تضرع کی کیفیت پیدا ہوکیونکہ اس کے بغیر استعاذہ بے حقیقت رہتاہے.

تضرع کامعنی ہے اپنی ذلت و مسکنت اورناتوانی وبے چارگی کو آشکار کرنا اور استعاذہ کامعنی جیساکہ ہم ابتداء بحث میں بیان کرچکے ہیں،انسان کا ایسے دشمن سے فرار کرنا ہے جوہرلحظہ اس کے تعاقب میں ہے اور وہ نہ تو اس کے مقابلے کی طاقت رکھتاہے اور نہ اس کے حملوں سے اپنا دفاع ہی کرسکتاہےلہذا ناچارہ کسی ایسی ہستی سے پناہ طلب کرتاہے جو اس دشمن کو دفع کرنے اور اس کےشرکورفع کرنے کی قوت وقدرت رکھتی ہے.اس حالت میں اس کی ناتوانی اوربےچارہ گی اس بچے کی سی ہوتی ہے جس کے تعاقب میں زہرملاسانپ ہواور وہ چخیتاچلاتا بھاگ کر اپنی شیفق ماں کے بازووں میں پناہ گزین ہوتاہے.اسی حالت و کیفیت کانام استعاذہ ہے.

لہذا جب انسان سمجھ لیتاہے کہ شیطان ملعون جواس کاطاقتور وجانی دشمن ہے اس پر حملہ آور ہواچاہتاہے اور وہ اکیلا اس کےشر سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتاتو توانا چارنالہ وفریاد کرتاہوا اپنے قادر وتوانا او رمہربانت خداکی طرف متوجہ ہوتاہے اور دل وزبان سے پکار تاہے کہ اے پروردگار فریاد ہے اس دشمن سےجو خونخوارکتے کی طرح بھونکتاہوا مجھ پرلپک رہاہے.“واغواثاہ من عدوقداستکلب علی”(عائے حزین حاشیہ مفاتیح الجنان).

ماثور دعاؤں کے ذریعے کیفیت تضرع کابیان:

جب بھی کبھی اللہ تعالٰی کے حضور شرشیطان ملعون سے پناہ طلبی کی صورت پیداہوتی ہے تو تصرع کی مناسبت اپنی تمام تر اہمیت کے ساتھ دعاہائے واردہ کی شکل میں روشن ہوجاتی ہے ان دعاؤں میں سے ایک دعا ئے دفع شرابلیس ہے جو اس طرح ہے:

اللهم إن إبلیس عبد من عبیدک یرانی من حیث لا أراه و أنت تراه من حیث لا یراک و أنت أقوى على أمره کله و هو لا یقوى على شی‏ء من أمرک اللهم فأنا أستعین بک علیه یا رب فإنی لا طاقة لی به و لا حول و قوة لی علیه إلا بک یا رب اللهم إن أرادنی فأرده و إن کادنی فکده و اکفنی شره و اجعل کیده فی نحره برحمتک یا أرحم الراحمین و صلى الله على محمد و آله الطاهرین ”پروردگار ابلیس ترے بندوں میں سے ایک بندہ ہے جو ایسے مقام سے میری تاک میں ہے کہ میں اسے نہیں دیکھ سکتا لیکن تو اسے خوب دیکھ رہاہے جبکہ وہ تجھے دیکھنے پرقادر نہیں.اس کے حملہ تصرفات پر تیری قوت گرفت ہے جبکہ وہ تیرے کسی کام میں دخل اندازی نہیں کرسکتا.اے اللہ پس میں اس کے خلاف تجھ سےمدد کاطالب ہوں اے پروردگا رمجھ میں اس کے دفیعئے کی کوئی استطاعت نہیں ہے مگر صرف تیر ے وسیلے سے.اے اللہ اگر وہ میراقصد کرے تو تو اس کا قصد فرما،اگروہ میرے ساتھ برائی کااردہ کرے تو تو اس پر عذاب نازل فرما اور مجھے اس کے شرسے نجات دے اور اس کی دشمنی کو اسی کی گردن پر سوار کردے.میں ہوں تیری رحمت کاطالب .اے سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے و صلى اللہ على محمد و آلہ الطاہرین).

خدا اپنے بندوں کے لئے کافی:

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی شخص پورے تضرع کے ساتھ(یعنی خود کو واقعی اللہ تعالٰی کےحضور زاروذلیل کرکے پیش کرے اور صرف اسی سے مدد چاہے اور اسی کو نجات دہندہ مان کر نجات کاطالب ہو اور)اسی پروردگار توانا و مہربان سے شیطان ملعون کے شرسے پنامانگےتو وہ ضرور اسے پناہ دے گا اور اپنے حفظ وامان میں رکھے گا.

اس کی پناہ حاصل ہوجانے سے نجات یقینی ہوجاتی ہے.چانچہ وہ خود ارشاد فرماتاہے:( أَ لَيْسَ اللَّهُ بِکافٍ عَبْدَه‏ ) کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے.

آثار تضرع:

نادیدہ شیطان سے فرار:اگر کہاجائے کہ انسان بے چارہ تو شیطان کو دیکھ ہی نہیں سکتا اور اسے پہچانتاہی نہیں اروت اس کے حملے کی کیفیت سے بے خبراور اس کے انداز شرانگیز سے ناواقف ہے تو پھر اس کے لئے کیسے ممکن ہے کہ اس سے فرار کرسکے اور اس سے بحضورپروردگار استعاذہ یا تضرع کرسکے اس سارے اشکال کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دشمن کی پہچان نہ ہوا اس سے فرار معقول ہی نہیں ،تضرع یاپناہ طلبی کا توذکرہی کیا؟!

علامات سے دشمن کی پہچان:

جواب اس کا یہ ہے کہ دشمن کو پہچاننا اور اس کے وجود سے خبردار ہونا صرف اسے آنکھ سے دیکھنے ہی پرمنحصر ہے.بلکہ قطعی علامات کے ذریعے اس سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے مثلاًاگر اندھیرے میں ایک سمت سے انسان کے سروچہرہ پر پتھر آکر لگیں یا اس پر تیروں کی بوچھاڑہو تو اسے خوب معلوم ہوتاہے کہ دشمن گھات میں بیٹھاہوا اس کی جان ومال کے درپے ہے.

ایسے موقع پردشمن کی موجودگی کی تحقیق سے پہلے انسان فوری طور پر کسی پناہ گاہ کی فکر کرتاہے ،اگر کوئی مکان نزدیک ہو تو اس کا دروازہ کھٹکھٹا تاہے ،صاحب خانہ سے مدد اور پناہ کی درخواست کرتاہے اور خود کو مکمل طورپر اس کے رحم و کرم پر چھوڑکر پورے عجزونیاز کے ساتھ دشمن کے خلاف اس سے اعانت وحفاظت چاہتاہے.لہذا اگر کوئی شخص شیطان کے حملے او رضرر رسانی کے اندیشے کو محسوس کرے تو ہر چند کہ اسے دیکھ نہ سکے،اسے پناہ گاہ کی فکر کرنی چاہئے.

شیطانی حملے:

اگر یہ کہا جائے کہ نہ صرف یہ کہ شیطان خود غیرمحسوس ہے بلکہ اس کے حملے یاوار بھی تو نظر نہیں آتے تو جوشخص دشمن کے وارہی کا احساس نہ کرسکے،کیسے اس سے فرار کرسکتاہے یا کسی دوسرے سے اس کے شرسے پناہ مانگ سکتاہے؟

تو جواب یہ ہے شیطان کے حملے غیر محسوس نہیں بلکہ وہ ان وسوسوں،ایمان شکن شکوک اور اندیشہ ہائے نارواکی شکل میں پوری طرح سے قابل احساس وشناخت ہوتے ہیں جووہ انسان کے قلب پرشب وروزوار د کرتاہے اور کسی لحظہ بھی اس عمل سے غافل نہیں ہوتا.

لطیفہ:

کسی نے ایک دانا سے پوچھاکیاشیطان بھی انسانوں کی طرح سوتاہے تو اس نے جواب دیا اگر ایسا ہوتا تو کم ازکم اپنی نیندہی کے دوران انسان سے غافل رہتا اور انسان اس وقفے میں اس کے شرسے محفوظ رہتا .لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ایک لحظہ کے‌لئے بھی اس کے شرو فریب سے محفوظ نہیں،پس وہ نیند یاغفلت سے آزادہے(علمی جواب اس کا یہ ہے کہ شیطان عالم مادہ سے نہیں کہ اسے نیند کی حاجت ہو.مذکورہ بالاجواب محض ایک لطیفے کے طورپر دیاگیاہے).

شیطانی حملے کی علامت:

اگر کہا جائے کہ انسان کیسے جان سکتاہے کہ فلاں وسوسہ یااندیشہ شیطانی ہے اور اس کے شرکی کمان سے چھٹاہوا تیرہے جو سیدھا اس کے دل پر آکرلگا ہے تاکہ وہ نالہ وفریاد کرتاہو اللہ تعالٰی کے حضور پناہ طلب ہو.

توجواب یہ ہے کہ اصولی طور پر وہ اندیشہ یاوسوسہ جس کا تقاضا اللہ تعالٰی سے قطع تعلق اور خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او ر آخرت کے بارے میں شک ہوا اور نتیجہ اس کا اضطراب قلبی ہو،یقیناًشیطانی ہے،اور اس کے مقابلے میں ہر خیال اور فکر جس کااثر امید برخدا،حیات جاودانی پر ایمان پختگی اور اطمینان قلبی ہو،بہر حال رحمانی ہے.نیزہر وہ وسوسہ بھی جو اللہ تعالٰی سے دوری ،ثواب سے محرومی اور قہر عذاب الٰہی کے ورد کے بارے میں ہو ،یقیناً شیطانی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہروہ فکر جوقرب خداوندی کااحساس دلائے اور ثواب کی امید پیداکرے ،خالصتاً رحمانی ہے.

رحمانی فکر:

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کے دل پر شب وروز واردہونے والے افکار وخیالات کہ جس سے پیداشدہ شوق واردہ یا حوصلہ شن تاثیر سے عمل صورت پذیر ہوتاہے.تین قسم کے ہیں:پہلی قسم وہ ہے جس کے متعلق انسان کو یقینی علم ہوتاہے کہ وہ رحمانی ہیں.مثلاًنماز کے وقت اس کا دل سے کہتاہے کہ نماز اداکریاجب کوئی موقعہ خرچ کرنے کاآتاہے تو اس کے دل میں آتاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کربخل نہ کر ،صلہ رحم کر جوتیر پاس سائل بنکر آتاہے اسے محروم نہ کر اور جس قدر جلد ممکن ہو اس کی حاجت پوری کر.فلان فلان سے جنہوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے درگذر لین دین میں انصاف کر کمزوروں کی دستگیری کرو غیرہ .قصہ مختصر ہروہ امر جو اللہ تعالٰی کے حکم کے مطابق ہے،رحمانی ہے.

شیطانی فکر:

دوسری قسم وہ ہے جن کے شیطانی ہونے میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی او رپہلی قسم کی عین ضدہوتے ہیں.ان میں وہ سب اندیشے اور وسوسے شامل ہیں جوعقل وشرع کے منافی ہوں مثلاً خداکی راہ میں خرچ کرتے وقت وہ مال کی کمی اور فقرسے اندیشہ ناک ہو( الشَّيْطانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْر ) یا اس کے دل میں یہ اندیشہ آئے کہ کیا ضروری ہے کہ اسی ایک موقعے پر خرچ کیاجائے ممکن ہے کہ اس سے بھی زیادہ اہمیت دلاکوئی موقعہ آجائے .یا خیال کرے کہ یہ خرچ فلان شخص پرزیادہ ضروری ہے کیونکہ وہ مجھ سے مالدار تر ہے یا اسے کسی سے کوئی تکلیف پہنچے تو انتقاماً اسے اس سےکئی گنازیادہ اذیت دینے کااراردہ کرے،اگر اپنے کسی عزیزسے اسے رنج پہنچے تو اس سے قطع تعلق کرے یااگر وہ سنے کہ کسی نے اس کی چغلی کھائی ہے اور اس کے کسی غیب کو ظاہر کیاہے تو اس کے جواب میں وہ اس کے جملہ عیوب کو جو اس کے علم میں ہیں فاش کرکے اس کی فضیحت کاسامان کرے حتی کہ اس پرتہمت لگانے سے بھی نہ چُوکے اورگر اس کے دل میں کسی کے لئے حسد جاگزین ہوجائے تو اس کی تمام خوشیاں اس سے چھین جانے کے لئے سازشیں کرے.

مجموعی طور پر انسانی معاملات میں شیطانی افکار دخل حدوحساب سے زیادہ ہے جنہیں شرع مقدس کے اوامر ونواہی کاعالم شخص پوری تفصیل سے جانتاہے.

غور طلب افکار:

تیسری قسم کے افکار وہ ہیں جوواضح طور پر شیطانی نہیں ہو تے لیکن ان کا شیطانی ہونا اس وقت ثابت ہوتاہے جب ان کے ہاتھوں انسان ہلاکت میں گرفتار ہوچکا ہے.

اس قسم کے افکار سے شیطان کامقصد انسان کو یادخداسے غافل کرنا ہوتاہے.وہ انہیں حالت نماز یادوسری عبادت کےدوران انسان کےدل پر وارد کرتاہے تاکہ وہ حضور قلب سے محروم ہوجائے اور بعض اوقات توانسانی نفس میں اتنا نفوذ کرجاتاہے کہ اس کا وہ عمل ہی شیطان کی بازی گاہ بن جاتاہے اس کی وضاحت کے لئے یہ حکایت پیش کی جاتی ہے.

شیرفروش شیخ چلی:

کہتے ہیں ایک شیرفروش دودھ سے بھراہوامٹکا سرپر رکھ کراپنے گاوں سے شہرکی طرف جارہاتھا .اس نے سوچاکب تک اس مصیبت میں پڑا رہوں گا آج سے جوکچھ بیچونگا روزانہ اس میں سے فلان مقدار پس انداز کرونگا حتی کہ فلان مہینے میں میرے پاس فلان قدر رقم جمع ہوجائے گی چند مہینوں کےت بعد ایک بھیڑخریدوں گا اور اس کے دودھ اور اون کی فروخت سے ایک اوربھیڑ خریدوں گا.ان کی نسل بڑھےگی اور فلان مدت میں میرے پاس بھیڑوں کا پورا گلہ ہوجائے گا.اس گلے کو میرابیٹا جنگل میں چرانے کے لئے جایاکرے گا.فلان جگہ پرممکن ہے کسی روزاس کاکسی شخص سے جھگڑاہوجائے اگر اس نے میرے لڑکے سے زیادتی کی تو میں اسے ضرور سزادونگا اس تصور میں اس نے اپنے بیٹے کے‌موہوم حریف کومارنے کے لئےاپنے ہاتھ بلند کئے جودودھ کے مٹکے سے ٹکرائے اور وہ گرِکر چکناچور ہوگیا اور سارا دودھ ضائع ہوگیا.

ماضی یا مستقبل کادکھ:

بعض اوقات شیطان کسی گذشتہ حادثے کے تلخ یاد انسان کےدل پروارد کرتاہے تاکہ اسے رنجیدہ کرکے اللہ تعالٰی کی مشئیت پر اسے غضبناک کرے اور اسے صبر و رضا کے مقام سے محروم کردے.

اور اس کے بدتریہ کہ اسے مستقبل کے بارے میں غم انگیز افکار ووساوس میں مبتلا ءکردیتاہے مثلاً کہ کل کیا ہوگا شاید یوں ہوجائے یا یوں ہوجائے اب میں کیا کروں.نہ اسے نماز اچھی لگتی ہے اور نہ کوئی اور عمل خیر !لیکن وہ یہ نہیں سوچتاکہ عین ممکن ہے کہ یاس وقنوطیت کی یہ حالت ختم ہونے سے پہلے ہی اسے موت آجائے اوروہ ترک واجب کا مجرم ہو کردنیاسے رخصت ہو.اس قسم کے وسوسے بعض اوقات انسان کو ابدی ہلاکت کے گڑھے میں جھونک دیتے ہیں.

حسرتناک:

چند سال ہوئے ایک شخص نے ایک قطعہ زمین جو اس نے تین روپے فی میٹر کے حساب سے خریدا تھا،تیس روپے فی میٹر کے حساب سے بیچا ،چند دن کے بعدخریدا رنے اس زمین کونوے روپے فی میٹر کے حساب سم بیچ دیا جبکہ نئے خریدارنے چندروز بعد اسی زمین کو تین سوروپے فی میٹر کے حساب سے فروخت کیا.

زمین کااصل مالک شیطانی وساوس کا شکار ہوگیا ارو خود کو ملامت کرنے لگا بیچنے میں جلدی کیوں کی.اگرصرف چندروز صبر کرتا تو زمین دس گنا قیمت یمں بکتی.

اسی غم میں ایک ہفتہ رودھوکر آخر کار اس نے چونا اورگندھک کھاکر اپنی زندگی کاخاتمہ کرلیا.

ایک ددسرے شخص نے اپنی ساری جائداد بیچ کرد ولاکھ پچاس ہزار روپے میں ایک دوسری جائداد خریدلی .قبضہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ دھوکہ ہوا کیونکہ نئی جائداد نمکی ثابت ہوئی اور کوئی اسے نصف بلکہ تہائی رقم پر بھی خرید نے کو تیار نہ ہو انتیجتاً وہ شخص حسرت واندہ کا شکار ہوگیا.

غم فردا:

تیس سال ہوئے شیراز کا ایک تاجردیوالیہ ہوگیا ارو اس غم میں اس نے گھرے باہر آنا چھوڑدیا جوکچھ اثاثہ اس کے پاس تھا آہستہ آہستہ اسے بیچ کرکذاراوقات کرنے لگا .ایک دن اس فکر میں پڑاگیا کہ اگر یہی حالت رہی تو کتنے دن اور میرارزق چلے گا جوکچھ باقی موجود تھا اس نے اس کی قیمت لگائی اور اسے روزانہ کے خرچ پر تقسیم کیا تو معلوم ہوا کہ اس سے بمشکل تین سال گذرسکتے ہیں.سوچنے لگا تین سال کے بعد کیاہوگایقیناً مجھے گداگری کرنی پڑے گی،میں نے ساری عمر تجارت کی او رعزت و شرافت کی زندگی گذاری ،اب جانے پہچانے لوگوں کے سامنے ہاتھ کیسے پھیلاوں گا.

آخر کار شیطانی افکار ووساوس سے مغلوب ہوکر اس نے زہر کھاکر خودکشی کرلی.

اس طرح کی مثالین بے شمار ہیں اور جتنا کچھ بیان کیاجاچکا ہے عبرت گیری اور قلب انسانی شیطان کے حملوں اورضربات کی تباہ کاریوں کاندازہ کرنے کے لئے کافی ہے.

عام طور پر سنتے ہیں کہ فلان طالبعلم نے امتحان میں فیل ہوکر خودکشی کرلی یا فلان نوجوان مقابلے میں شکست کھاکر دماغی توازن کھوبیٹھا.

اگر کہا جائے کہ انسان ابلیسی وساوس اور اس کے حملوں کی مقاومت کی تاب نہیں لاسکتا اور اپنی انتہائی کوششوں کے باوجود ان سے محفوظ رہتا،اس کے بس کاروگ نہیں.لہذا وہ معذور ہے.

ہم کہتے ہیں کہ یہ کمزوری یا عدم استطاعت اللہ تعالٰی پر عدم ایمان یاقلت ایمان کیوجہ سے ہے .ایسے شخص کو اس کی رازقیت مطلقہ میں یقین حاصل نہیں جوبحید وحساب نعمتیں اس کو عطا کی گئی ہیں انہیں تو دونوں ہاتھوں سے سمیٹتاہے لیکن ان کے لئے اللہ تعالٰی کا شکرگذار ہونے کی بجائے کفران نعمت کرتاہے.سبب کوتاثیر میں مستقل مانتاہے اور اللہ تعالٰی پر توکل کرنے کی بجائے اسباب ہی پربھروسہ کرتاہے اورموت اورفناسے غافل ہے.