استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 42551
ڈاؤنلوڈ: 4835

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42551 / ڈاؤنلوڈ: 4835
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

رکن دوم

تذکرّ

مجلس۱۴

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ

استعاذہ کا رکن دوم تذکر یعنی ذکر الہيٰ یا یا د خدا ہے جوشخص صاحب تقويٰ ہوجاتاہے اس کا قلب وضمیر شیطان کے غلبہ وتسلط سے آزاد ہوجاتاہے کیونکہ جب تک اس کا تسلط رہتاہے ،استعاذہ کی صلاحیت پیدانہیں ہوتی شیطان اہل تقويٰ انسان کے دل کے گرد گھومتاہے تاکہ اس میں داخل ہونے کی راہ پیدا کرے لیکن جب وہ متقی شخص ذکر خدا میں مشغول ہوجاتاہے تو فوراً ہی برق رحمت الہيٰ کوندتی ہے اوراس کے جھماکے میں اسے ابلیس کابچھا یاہواجال صاف نظر آتاہے اور وہ اس کے شر سے محفوظ ہوجاتاہے.

آئیے اب دیکھیں کہ اس آیہ شریفہ میں تذکرسے مقصود مراد لہيٰ کیا ہے.

خیال گناہ و یاد خدا:

تفسیر برہان میں اس آیہ کی تفسیر میں حضرت امام محمدباقرعليه‌السلام اور جناب امام جعفرصادقعليه‌السلام سے ایک روایت واردہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مومن کے دل میں دفعتاً کبھی گناہ کا خیال آتاہےتو گروہ ابلیس کی جانب سے اس پر اس گناہ کو کرگذرنے کے لئے پوری خیال سے باز آجاتاہے“ان الرجل یهم بالذبب فیذکرالله فیضعه ”یعنی انسان گناہ کاارادہ کرتاہے لیکن خدائے تعالی کی یاد آتے ہی وہ اس ارادے کو چھوڑدیتاہے.

ذکر خدا کے بھی درجات ہیں جوموقعہ ومحل کی مناسبت سے مختلف ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ گناہ کاخیال آتےوقت انسان کومعلوم ہونا چاہئے کہ اسے اس پر اکسانے والااس دشمن ہے اور دشمن کی مخالفت عقلاً واجب ہے علاوہ ازیں اس کا اللہ تعاليٰ سے یہ عہد ہے کہ وہ شیطان کی پرستش نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس کا کھلا دشمن ہے.

لہذا اسے نہیں چاہئے کہ اپنے عہدسے بے وفائی کرے اور عبد رحمان بننے کی بجائے عبدشیطان ثابت ہو چنانچہ ضروری ہے کہ اپنے عہدکا پاس کرتے ہوئے وہ شیطانی القاء کی مخالفت کرے کیونکہ اس کی پیروی کانتیجہ ہلاکت وگمراہی کے سواکچھ نہیں( وَ لَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلاًّ كَثیراً أَ فَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ ) اس شیطان نے تم میں سے بہت سی نسلوں کو گمراہ کردیا ہے تو کیا تم بھی عقل استعمال نہیں کرو گے.

ایک دوسری آیت میں زیادہ وضاحت و صراحت سے ارشاد ہوتاہے:( كُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُ مَنْ تَوَلاَّهُ فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ وَ يَهْدیهِ إِلى‏ عَذابِ السَّعیر ) ان کے بارے میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو شیطان کو اپنا دوست بنائے گا شیطان اسے گمراہ کردے گا اور پھر جہنمّ کے عذاب کی طرف رہنمائی کردے گا.

اگر کوئی شخص شیطانی خیالات کی پیروی کرے گا اور وسوسہ ابلیس کو قابل توجہ واعتنا سمجھے گا تو اللہ تعاليٰ ہدایت کی تمام راہیں اس پر ند کرکے اسے جہنم میں بھیج دے گا.

ذکر شیطانی وسوسہ سے نجات دیتاہے:

جب بھی کبھی شیطانی وسوسہ مومن کے دل میں داخل ہونےلگتاہے تو وہ فوراً یادخدا میں مصروف ہوجاتاہے اور سوچتاہے کہ اگر میں نے یہ گناہ کرلیا تو رحمت خداوندی سے دوری کی زندگی میرے کس کام کی ہوگی.

ممکن ہے کہ شیطا دوسری کوشش میں اس کے دل میں وسوسہ ڈالے کہ گناہ کی لذت سے خود کو محروم نہ کر.بعد میں توبہ کرلینا.تو صاحب تقويٰ اس کے وسوسہ کو ردکرنے کے لئے جواب دے گا کہ اس بات کا کیا یقین ہے کہ توبہ کی توفیق مجھے حاصل ہوگی اور اس کی کیاضمانت ہے کہ میری توبہ قبول ہوجائے گی؟محتصر یہ کہ خداکی یاد شیطان کومومن کے دل پرغلبہ نہیں پانے دیتی کبھی شیطان صاحب تقويٰ انسان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتاہے کہ یہ گناہ“صغیرہ”ہے لیکن اس کا یاد خدا میں مشغول دل جواب دیتاہے کہ دور ہو مردود!اللہ تعاليٰ کی نافرنانی بہرحال “کبیرہ” ہے.

کبھی ابلیس ملعون صاحب تقويٰ کو ڈراتا اور دھمکی دیتاہے کہ اگر تونے میرے کہے پر عمل نہ کیا تو اس کا انجام براہوگا یا ترغیب وتحریص کے طورپر اسے گناہ کی خوش انجامی کی نوید دیتاہے لیکن اس کی یہ تہدید و تحریص صرف ان پر اثر انداز ہوتی ہے جواس کی دوستی کو کوئی اہمیت دیتے ہوں کیونکہ( إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِیاءَه‏ ) یہ شیطان صرف اپنے چاہنے والوں کو ڈراتا ہے.

لیکن صاصب تقويٰ شخص ذکر الہيٰ کی مدد وبرکتت سم فوراً سمجھ جاتاہے کہ ایسے خیالات محض شیطانی و ساوس ہیں جن سے ہرگز ڈرنا یامتاثر ہونا نہیں چاہئے کیونکہ مومن صرف اپنے خداسے ڈرتاہے( فَلا تَخافُوهُمْ وَ خافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنین‏ ) لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور اگر مومن ہو تو مجھ سے ڈرو.

کبھی شیطان انسان کو اس کے تدین یا حب اہلبیت علیہم السلام پر مغرور کرتاہے مثلا کہتاہے “ماشاءاللہ”تم کتنی ہی بار کربلائے معلی کے سفر کی سعادت حاصل کرچکے ہو اور اپنی زیارت کے دوران کتنے ہی نیک عمل انجام دے چکے ہو حسینعليه‌السلام ضرور تمہاری شفاعت فرمائیں گے اب کوئی گناہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتا.

لیکن مومن کو چاہئے کہ ان الفاظ سے مغرور اور مطمئن ہونے کی بجائے یوں جواب دے“اگر مجھ سے گناہ سرزد ہوا تو میرے شفیع مجھ سے ناراض ہوں گے.اور یہ گناہ حسینعليه‌السلام اور میرے درمیان حجاب بن جائے گا.واللہ اعلم کہ ایک گناہ کےارتکاب سے میں اپنے شفاعت کرنے والوں سے کتنا دور ہوجاؤں گا حسینعليه‌السلام کی زیارت کی سعادت اور آپعليه‌السلام کی سفارش کی نوازش پر غرور بھی تو ایک گناہ ہی ہے جومجھے آپعليه‌السلام کی شفاعت سے محروم کرسکتاہے”.

ہاں صاحب تقويٰ خودر روحانی طور پر اس سعادت پر ناز کرسکتاہے لیکن وہ صورت تشکر کی ہوگی جس کے لئے خارج سے وعظ و نصیحت کی ضرورت ہوگی کیونکہ خارج سے اس امر کی احتیاج اس وقت ہوتی ہے جب انسان کو خود ایسی سعادت کاشعور نہ ہو اور وہ اسے قابل تشکر نہ سمجھا ہو جناب امیرالمؤمنین حضرت علیعليه‌السلام کاا رشاد ہے:“حقیقی طور پر سعادتمند وہ ہے جو خود اپنا واعظ اورناصح ہو”.

غیظ وغضب کی حالت میں شیطانی وسوسہ:

کبھی ایسا ہوتاہے کہ انسان جدال کے دوران غصے میں آجاتاہے جس کے نتیجے میں اس کا مخاطب اس سے بدکلامی کرتاہے شیطان اس کے دل میں ووسہ ڈالتاہے کہ توبھی ویسے ہی الفاظ جواب میں کہہ لیکن تقويٰ کی برکت سم وہ فوراً خداکو یاد کرتاہے.اس کی عقل اسے کہتی ہے کہ تمہارے مخاطب نے براکیا اگر تم بھی براکروگے اور فحش کلامی کروگے تو تم دونوں میں فرق کیارہا؟اس نے فحش گوئی سے شیطان کی پیروی کی تم بھی اگر فحش گوئی کروگے ویسے ہی ہوجاؤگے.!ذکر کے فیض سے اس کا ضمیر اس کی رہنمائی کرے گا کہ غلط الفاظ کاجواب خدائے تعاليٰ کے دستور کے مطابق دے کہ( :وَ إِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً ) جب جاہل لوگ ان سے غلط انداز میں بات کرتے ہیں توہ اخلاق کی سلامتی کے ساتھ انہیں جواب دیتے ہیں.اگر ذکر کی بدولت اس نے ابلیسی وسوسہ کا سدباب کرلیا تو بہتر ورنہ پھر ایک وہ کہے گا اور جواب میں‌ادھر سے‌ایک یہ کہے گا اور انجام کار دونوں ایک دوسرے سے‌دست بگریبان ہو ہوجائیں گے اور سوتے کاوہ سوراخ جو اس کے پھوٹتے وقت ایک مشت خاک سےبند سکتاتھا اب منوں مٹی سے بھی بندنہ ہوگا .اگر پہلے ہی ایک لفظ کووہ برداشت کر جاتا تو یہ جھگڑاوہیں ختم ہوجاتا اور نوبت یہاں تک نہ پہنچتی.

اب ہم وضاحت سے دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ کس قدر شیطان کے پھندے میں گرفتار ہیں حتيٰ کہ وہ بھی جوخود کو اہل تقويٰ سمجھتے ہیں متقی ہونے کے باوجود اگر تذکر سے محروم ہیں تو دام ابلیس میں ان کا الجھنا بالکل ممکن ہے.

آپ کےدل میں ایکناصح اور واعظ کاوجود ضروری ہے جوآپ کو نصیحت کرے کہ غرور سے بچیں اور طفلانہ تصرفات سے بازرہیں یادرکھئے کہ مردوہ ہے جوکام کے انجام کو دیکھے مثلا اوپرہی کی مثال میں اگر آپ غصے کے دوران دل کو ٹھنڈا رکھتے ہوئے جوبھی کرتے نقصان رسان نہ ہوتا لیکن کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ دل کی اس ٹھنڈک نہ ہونے سے فساد کی کتنی آگیں بھڑکتی ہیں اورشیطان کی اس ایک لحظہ کی پیروی سے کتنے بڑے گناہ جنم لیتے ہیں؟!

ہر مومن پر لازم ہے کہ خود اس کے وجود میں وسائل تذکر موجود ہوں زمانہ قدیم میں ایسے مومن موجود رہے ہیں جو اپنی زندگی میں قبرتیار کرکے اس میں کلام پاکی تلاوت کرتے تھے تاکہ ان کے دل میں آخرت کی یاد تازہ رہے اور قبر کا اندرون نورتذکر سے روشن رہے.

حزقیل کی عبرت:

روایت ہے کہ جب حضرت داوودعليه‌السلام سے ترک اوليٰ سرزد ہوا اور وہ کوہ وبیاباں میں جاکر آہ وزاری اور گریہ وزاری کرنے لگے تو چلتے چلتے وہ اس پہاڑپر پہنچے جہاں ایک غار میں حزقیل نبیعليه‌السلام مصروف عبادت تھے جب حزقیل نے پہاڑوں اور حیوانوں کا گریہ سنا تو سمجھ گئے کہ داوودنبیعليه‌السلام آئے ہیں کیونکہ داوود جب زبورکی تلاوت کرتے تھے تو شجر وحجر وحیوان سب ان کے ساتھ ہم آواز ہوتے تھے.داوودعليه‌السلام نے غار کے نیچے آکر آواز دی:“اے حزقیلعليه‌السلام !کیا”داوودعليه‌السلام کو ترک اوليٰ کی وجہ سے سرزنش نہ کریں بلکہ ہم سے ان کے لئے عفو وعافیت طلب کریں کیونکہ جب ہم کسی کو اس کے حال پر چھوڑ تے ہیں تو اس سے خطا ضرورسرزد ہوتی ہے.

پس حزقیلعليه‌السلام نے داوودعليه‌السلام کا ہاتھ پکڑااور انہیں اپنے پاس لے گئے.

داوودعليه‌السلام نےحزقیلعليه‌السلام سے پوچھا:اے حزقیل !کیا آپ نے کبھی گناہ کا ارادہ کیا!انہوں نے جواب دیا:کبھی نہیں پھرانہوں نے پوچھا:

کبھی غرور مین مبتلا ہوئے ؟جواب دیا نہیں پھر پوچھا:

کبھی دنیا اور اس کی لذتوں پر آپ کا دل آیا؟کہنے لگے:ہاں پوچھا:تو آپ اس کا کیا علاج کرتے ہیں؟انہیں نے کہا:غار کے اس شگاف میں داخل ہوجاتاہوں اور جوکچھ وہاں دیکھتاہوں اس سے عبرت حاصل کرتاہوں.

داوودعليه‌السلام ان کے ہمراہ اس شگاف میں داخل ہوئے اند ردیکھا تو ایک لوہے کا تخت نظر آیا جس پر بوسیدہ ہڈیاں پڑی ہیں اور ایک آہنی لوح اس تخت کے‌نزدیک رکھی ہے جس پر یہ عبارت لکھی ہے.

میں اورائی بن شلم نے ہزار سال حکومت کی ہزار شہر آباد کئے اور ہزار کنواریوں کی بکارت زائل کی لیکن میرا انجام یہ ہے میرا بستر خاک اور میراتیکہ پتھر ہے اور میرا جسم کیڑوں مکوڑوں کی آماج گاہ ہے پس جوکوئی مجھے دیکھے دنیا کافریب نہ کھائے.

دومٹھی خاک کابستر:

دیکھا آپ نے ،کہاں وہ شہنشاہانہ قدرت وسطوت وتصرف اور کہاں وہ جاہ نشینی اور خاک گزینی !مومن کو چاہئے کہ خود اپنی ذات کو تلقین کرے کہ:بالفرض میں‌نے شیطان اور ہوائے نفس کی اطاعت کی اور دنیا اور اس کے لوازم کے پیچھے بھاگا لیکن یہ سرگرمی آخرکب تک؟کیااپنی ذات کے لئے ضرورت سے زیادہ سرگرم شخص ہمیشہ زندہ رہتاہے ؟؟ مجھے چاہئے کہ جوکچھ بھی بن پڑے اور جیسے بھی ممکن ہو اس بادشاہ جیسا نہ بنوں اور اس جیسا میرا انجام نہ ہو...!

آخری جس کاٹھکانا ایک مٹھی خاک ہو کیون بنائے زندگی میں قصروہ گردوں شگاف

ہمارا موضوع سخن تذکر ہے جو انسان خود کو آزاد چھوڑدیتاہے اور خدا کو یاد نہیں کرتا وہ کہیں کانہیں رہتا .انسان کو چاہئے کہ کردار میں پہاڑ جیسا ہو نہ تنکے جیسا جوشیطان کے ہروسوسے کی لہر میں بہ جاتاہو.اسے چاہئے کہ دنیا کی ظاہری چکاچوندکو خاطر میں نہ لائے بلکہ اس کے انجام کو دیکھے جوبہر حال فنا اور نابودی ہے.

قبروں پرجانا چاہئے:

بہر حال یہ بہت ضروری ہے کہ خود آپ کا نفس آپ کا ناصح اور واعظ ہو یہ جو شرع مقدس میں قبروں اور بالخصوص والدین کی قبروں کی زیارت کی اتنی تاکید وارد ہوئی ہے کسی لئے ہے؟

اسی لئے ہے کہ ان کے لئے فاتحہ پڑھئے تاکہ انہیں ثواب واصل ہو ان کے لئے صدقہ دیجیئے کہ ان کی روحوں کو فائدہ پہنچے بلکہ ارشاد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے کہ والدین کی قبر پر جاؤ کیوں کہ وہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے...

اور اس کا سب سے بڑا فائدہ خود آپ کی ذات کو ہے کہ آپ جان لیں کہ والدنہیں رہے تو ہم بھی نہیں رہیں گئے جلد یا دیر ان سے جاملیں گے اس دور روزہ زندگی کا فریب مت کھائے شیطانی وسوسے میں نہ آئیے اور ہروقت خدا اور اس روز جزاء کو یادرکھئے

جناب زہراعلیہا السلام شہدائے احد کی قبور پر:

صدیقہ کبريٰ جناب فاطمہ زہرا علیہاالسلام کی سیرت طیبہ میں آیا ہے کہ بعد وفات حسرت آیات سرورکائنا ت ؐ آپ کو ایسی گستاخانہ باتیں سننا پڑیں جن سے‌آپ علیہاالسلام بیمار ہوگئیں لیکن پھر بھی سوموار اور جمعرات کو آپ علیہاالسلام اپنے شوہر نامدار علیعليه‌السلام کی اجازت سے احد میں اپنے جدا مجد جناب حمزہ اور دیگر شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جاتیں.

خود حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے مرض الموت کے دوران باوجود شدت بخار اور ضعف ونقاہت کے فرماتے تھے میری بغلوں میں ہاتھ دو او رمجھے قبرستان بقیع میں پہنچاؤ.

اے بار خدایا ہمیں اہل ذکر وتذکر بنا بحق محمد وآل محمد.