استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 42550
ڈاؤنلوڈ: 4835

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42550 / ڈاؤنلوڈ: 4835
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس۱۵

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏ إِنَّ الَّذینَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ تَذَكَّرُوا فَإِذا هُمْ مُبْصِرُونَ

پچھلی رات ہم نے ارکان استعاذہ میں سے دوسرے رکن کے بارےمیں کچھ بیان کیا آج رات بھی ہم ابلیسی وسوسوں کے مقابل مین تذکر کے کچھ دیگر معانی کا ذکر کریں گے.

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سےایک حدیث پاک مروی ہے جس کی صحت پر مسلمانوں کے تمام مکتب فکر متفق ہیں اور سب نے اسے نقل کیا ہے ارشاد نبوی ہے“وَ إِنَّمَا الْأُمُورُ ثَلَاثَةٌ أَمْرٌ بَيِّنٌ رُشْدُهُ فَيُتَّبَعُ وَ أَمْرٌ بَيِّنٌ غَيُّه‏ وَ أَمْرٌ ٌ بَيْنَ ذَلِک ‏”ہدایت والے امور گمراہ کن امور اور ہدایت اور گمراہی کے‌درمیانی امور.

یقینی طور پر اچھی چیزیں (ہدایت والے امور):

کس کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں انسان کے دل میں جتنے بھی خیالات آتے ہیں انہیں تیں صورتوں میں منحصر ہوتے ہیں اگر کوئی کام ایسا ہو کہ اس کی خوبی او راچھائی بالکل روشن ہو اور وہ سراسر خیر ہو تو اس کے بارم میں پاکیزہ اور رحمانی خیالات دل میں پیدا ہوں گے اور ایک روحانی تقاضا اس کی انجام دہی کاذہن میں بھرے گا اگر اس طرح کا خیال کسی کام کے بارے میں‌آپ کے دل میں آئے جس کے مکمل طور پر خیر ہونے کے بارے میں آپ کو سوفیصدی یقین ہو ااور ذراس بھی شائبہ شبھے کا اس میں نہ ہو تو پورے عزم صمیم اور اور پختہ ارادے کے ساتھ اسے انجام دیں ویسے اعمال واجبات کی ذیل میں آتے ہیں.

قطعی طور پر برے کام(گمراہ کن امور):

اگر آپ کے دل میں کسی ایسے کام کا خیال آئے جس کے شیطانی ہونے کا آپ کو یقین ہو اور اس کےت سراسر شرہونے میں کسی قسم کے شبہے کی گنجائش آپ کے ذہن میں نہ ہو تو انگیخت کے باوجود آپ تذکر کے فیض سے اسے کرنے کارادہ نہیں کریں گے اور اللہ تعاليٰ کے احکام سے شناسائی کی وجہ سے اسے گمراہی سمجھتے ہوئے اس کے خیال کو ردکردیں گے یہی مفہوم ہے( : فاذا هم مبصرون ) کے الفاظ کا.

شبہ کے مقامات (ہدایت اور گمراہی کے درمیانی امور):

تیسری قسم میں وہ خیالات ہیں جن کے بارے میں بہت سے ایسے مباحات ہیں جن کے متعلق ہمیں علم نہیں ہوتا تاکہ کہاں سے اور کیسے ہمارے دل میں‌آتے ایسے مواقع پر ہمیں کیا کرنا چاہئے.

وہ لوگ جوکامل تقويٰ کامرتبہ پاچکے ہیں اللہ تعاليٰ کے حضور معزز و مقر ب ہیں اور ایسے ورشن ضمیر میں کہ تقويٰ کےنور کا پورا احساس رکھتے ہیں خود بخودد سمجھ لیتے ہیں کہ کوئی کام اچھا ہے یا برا. ان کی بصیرت اتنی قوی ہوتی ہے کہ پوری وضاحت سے کسی ارم کے رحمانی یاشیطانی ہونے کا ادراک کرلیتے لیکن ایسے افراد کی تعدا بہت کم ہے اور وہ انگلیوں پر شمارہوسکتے ہیں.

احتیاط ضامن نجات ہے:

اور اکثر لوگ جو اس حد کمال تک نہیں پہنچ سکے او رتقويٰ کے نچلے درجات پر فائز ہیں،وہ بھی تذکر کے فیض سے‌تاوقتے کہ انہیں کسی کام کے رحمانی ہونے کے بارے میں پورا یقین نہ ہوجائے وہ اسے کرنے کا خیال دل میں نہیں لاتے خواہ وہ ظاہر ہیں کتنا ہی جاذب نظر ہو کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس میں کوئی ایسی خرابی موجود ہو جس سے اس کے ایمان کو کوئی نقصان پہنچے اور وہ خطر ے سے دوچار ہوجائے اسی لئے ارشاد ہوا کہ “قف عند الشبہہ”

جب تمہیں کسی امر کے رحمانی اور حلا ل نے میں شبہ ہو تو اس پر عمل کرنے سے توقف کرو،جس لقمے پرتمہیں حرام ہونے کا شک ہو،یقین و اطمینان حاصل ہونےتک اسے کھانے سے باز رہو.

کسوٹی:

شرع مقدس میں امور دینا کے بارے میں حریت وتردد کے ازالے اور اچھے برے کی پرکھ کے لئے ائمہ ہديٰ کے ارشادات وارد ہیں جن کااہل تقويٰ تک پہنچنا ضروری ہے تاکہ وہ ان پر عمل پیراہوکر اپنی عاقبت سنوراسکیں ان مقدس ہستیوں کا مقرر فرمودہ معیار یہ ہے: ہروہ عمل جوانسان کے نفس کی خواہش کے مطابق ہوگا شیطانی ہوگا اور جو اس کے میلان کے خلاف ہوگارحمانی ہوگا.

بعض کامت ایسےہوتے ہیں کہ نفس کامیلان ان کی طرف ہوتاہے مثلا ایک سفر درپیش ہے جو اس کے نفس کے میلان کے خلاف نہیں لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس میں خدا کی رضا ہے یاشیطان کی اور بعض اوقات تویہ سفر غیر معمولی طور ر اسے اچھا لگتاہے جب یہ صورت ہو تو اسے جان لینا چاہئے کہ اس عمل کامحرک کوئی ناپاک شیطانی خیال ہے جس کامقصد اسے اس سفر کے ذریعے کسی فعل حرام میں مبتلاکرنا ہم یا کم ازکم کسی فعل واجب سے محروم کرنا ہے.

لیکن جب آپ محسوس کریں کہ آپ کا نفس اس کی طرف مائل نہیں تو جان لیجئے کہ وہ ضرور رحمانی ہے اور آپ کو چاہئے کہ اسے کرگزریں کیونکہ وہ خیرہی خیر ہے.

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مخفی نہ رہے کہ یہ معیار شخص کے لئے نہیں کیونکہ اکثر لوگ ہوس پرستی کی طرف میلان رکھتے ہیں اور ان حقائق سے ان کا کوئی تعلق نہیں.

استخارہ تردد میں رہنمائی کرتاہے:

روایات میں آیا ہے کہ جب آپ دوراہے پرہوں اور نہ جانتے ہوں کہ کون سا راستہ رحمانی ہے اور کونسا شیطانی تو اللہ تعاليٰ سے‌استخارہ کرنے سے درست راہ ملی جاتی ہے.

استخارہ “طلب الخیرہ من اللہ”اللہ تعاليٰ سے خیر طلب کرنا،کہ اے اللہ میں حیران ہوں نہیں جانتا کہ اس کام میں تیر ی رضا ہے یا نہیں،اپنے فضل وکرم سے مجھ پر اپنی رضا روشن فرما.

لیکن یہ صورت حال ضروری طور پر دعا کو مستلزم ہے کیونکہ استخارہ حقیقت میں دعا ہی ہے.

بعض لوگ استخارے کو غلط سمجھے ہیں:

مسلمانوں نے خود ایک بری عادت پیدا کرلی ہے ،وہ استخارہ مالی منفعت کے حصول ے لئے کرتے ہیں یہ استخارہ تو نہ ہوا کیونکہ استخارہ تو جیسے عرض کیا گیا ایک دعا ہے جس کے ذریعے اللہ تعاليٰ سے خیر طلب کی جاتی ہے جس میں اس کی رضا ہو.

قبرمقدس نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جناب امام حسینعليه‌السلام کا استخارہ:

جناب ابی عبداللہ الحسینعليه‌السلام نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مطہر پر حاضر ہوئے اور بہت روکر اللہ تعاليٰ سے یوں التجا ء کی پروردگار!آپ گواہ ہیں کہ میں‌امربالمعروف اور نہی عن المنکر چاہتاہوں اس بارے میں آپ مجھ پر اپنی رضا روشن فرمائیں.

اور پھر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو اللہ کی رضا سے مطلع فرمایا کہ کربلا کو جائیں.

بہتریہ ہے کہ اس ضمن میں‌آپ اپنے آقا و مولا جناب امام زین العابدین سید الساجدینعليه‌السلام کی اقتدا کریں آپ کی دعا کو جو صحیفہ سجادیہ میں ہے پڑھئے عرض کرتے ہیں:“پروردگار !جب کبھی میرادل دو خیالوں میں مبتلا ہو ایک خیال ایسے کام کا ہو جس میں آپعليه‌السلام کی رضا ہو جب کہ دوسراایسے کام کے لئے ہو جو‌آپ کے غضب کاموردہو (شیطان کی اس میں رضا ہو)تو اے اللہ میرے ارادے کو اپنی رضا کے‌مطابق بنادیں.

استخارہ تسبیح یا قرآن مجید سے:

اگر دعا سے آپ کی حیرت و تردودہوگیافبہا اورنہ جیسا کہ رویات میںت وارد ہوا ہے آپ مجاز ہیں کہ تسبیح با قرآن مجید سے اپنا تردو رفع کریں لیکن است کی دوشرطیں ہیں ایک تو یہ کہ آپ کو حالت دعامیں ہونا چاہئے یعنی اس کیفیت میں کہ ائے پروردگار اپنے کلام پاک کی برکت سے مجھے ورطہ حیرت و تردو سےنجات عطا فرما اور دوسری شرط یہ کہ آپ قرآن پاک کی آیات کو سمجھ سکتے ہوں اور اسے اپنے موضوع کے بارے میں صحیح مطلب اخذ کرسکتے ہوں.

حکایت عجیب دربارہ استخارہ:

اصفہان میں ایک بڑا آدمی خسرہ کے مرض میں مبتلا ہوا علاج کے بعد پرہیز یہ تجویز ہوا کہ بالخصوص پرخوری سے بازر ہے ورنہ مرض واپس آسکتاہے اسی دوران میں اصفہانت کے ایک بڑے عالم نے اس کے خاندان کی دعوت کی جب دسترخوان پر انواع واقسام کے رنگین ولذیذکھانے چنے گئے تو یہ حضرت گومگومیں مبتلا ہوگئے کیونکہ اگر کھاتے ہیں تو پرہیز ٹوتا ہے اور یقینی ضرر کااندیشہ ہے اور اگر نہیں کھاتے تو خود پر بھی ناگوار ہے اور صاحب خانہ کو بھی ناگوار گذرے گا آخر کار اس نے کھانے کے بارے میں قرآن مجید سے استخارہ کیا سورہ نحل کی ۶۹ویں آیت( ثُمَّ كُلی‏ مِنْ كُلِّ الثَّمَراتِ ) نکلی جوشہد کی مکھی کی طرف وحی تکوینی کے طور پر آتی ہےت کہ سب پھل کھا.اور خوب شہد تیارکر.

بس پھر کیا تھا ان صاحب نے آستین چڑھالیں ایک زمانے سے پر ہیز سے تو تھے ہی.اتنا کھا یا کہ اگلی پچھلی سب کسریں پوری کردیں.نتیجہ یہ ہوا کہ آپ الفاظ قرآن کی غلط فہمی کی وجہ سے بدپرہیزی کی بھینٹ جڑھ گئے مجلس دعوت مجلس تعزیت میں بدل گئی اور آپ کی بجائے آپ کا جنازہ اس گھر سے نکلا.

اس کے بعد استخارہ کے بارے میں گفتگو ہوئی تو ایک عالم نے فرمایا: اس آیہ مبارکہ کاروئے سخن شہد کی مکھی کی طرف ہے اگریہ حضرت مرحوم بھی ہرکھانے سے اتنا ساہی لیتے جتنا شہدکی مکھی ہر پھول یاپھل سے لیتی ہے اور تھوڑاکھاتے توہرگز کوئی ضرر نہ اٹھاتے یہ حکایت بیان کرنے سے غرض یہ ہے قرآن سے استخارہ کرنا اور اس سے صحیح مطلب اخذ کرنا آسان نہیں ہاں اگر صحیح کیفیت دعامیں ہوں اور قرآن پاک کی آیات سے استفادہ مفہوم کی صلاحیت موجودد ہو تو کوئی حرج نہیں.

قرآن استخارہ کے لئے نہیں نازل ہوا:

قرآن پاک استخارے کے لئے نہیں بلکہ اللہ کی معرفت عطا کرنے اور بندگی کی رسم وراہ اور آدا انسانیت سکھانے کےلئے نازل کیاگیا ہے اس کے نزول مبارک می غرض ہمیں یہ تبانانہیں کہ کسی دینوی معاملے میں ہمیں فائدہ ہوگا یا نقصان یا مثلا یہ کہ کیا گھر کا حوض تبدیل کرنا ہمارے لئے سودمند ہوگا یا برعکس یہ استخارہ نہیں فال ہے.

امور کے خیر وشرکی جانچ کے لئے جو معیار ہمیں دیا گیا ہے اس کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے یعنی ہروہ امر جوآپ کے نفس پر گران ہو خیر ہے اور رحمانی ہے خداکی راہ میں مال خرچ کرنے سے انسان زیر بار نہیں ہوتا.

ہم بہر حال مذکورہ بالادوشرطوں کی پابند ی کے ساتھ استخارہ لے کے منکر نہیں ہیں نماز کی تعقیبات میں“اللہم اہدنی من عندی”بارالہا مجھے اپنے فضل وکرم سے ہدایت فرما،نہ صرف حصول ثواب کے ارادے سے پڑھیں بلکہ اس عبارت اور معنی سے جدا ہوکر بھی اس کا ورد کریں کہ خدایامجھے ہلاکت وضلالت سےمحفوظ رکھ.اے اللہ میرے دل کو خیالات شرکی بے روی سے اپنی پناہ میں رکھ.

قرآن سے فال لینا درست نہیں:

قرآن پاک سے‌ایسے استخارہ جات او رفال گیری جوآئندہ حالات کی پیش بینی کے لئے ہوں جائز نہیں مثلاً ماں اپنی بیٹی کو بیاہنا چاہتی ہے،اور یہ جاننے کے لئے کہ اس کا انجام کیاہوگا استخارہ کرتی ہے،یا اس مقصد کے لئے کسی بزرگ کے پاس جاتی ہے جو اس کاانجام برابتاتاہے او راس کا دل پریشان ہوجاتاہے پھر دوسری جگہ جاتی ہے .وہ عامل صاحب اس شادی کومبارک اور خوش انجام بتاتے ہیں تووہ دل ہی دل مین الجھ جاتی ہے کہ خدایا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی چیز اچھی اور خوش انجام بھی ہو اور بری اور بد انجام بھی.

لہذا سب سے پہلے اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ اسنے کس جواز کی بناپر یہ کام کرکے یہ درد خرید ا .اسے شرع مقدس کے احکام کو دیکھنا چاہئے کہ وہ اس بارے میں کیا ہیں.

استخارہ کے بارے میں تصنیفات:

غواص بحور علوم آل محمد علیہم السلام مجلسی نے ایک مستقل کتاب مفاتیح الغیب کے نام سے تالیف کی ہے جس میں انہوں نے استخارہ کے متعلق واردشدہ تمام روایات کو جمع کیاہے .اس موضوع پر دوسرے علماء نے بھی رسالے تحریر کئے ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت حقیقت سے بے خبر ہے.

علامہ مرحوم نے مذکروہ بالاکتا ب کے شروع میں استخارہ کی خوبی اور ضرورت کے بارے میں چند روایات نقل کرکے تمام امور میں اللہ تعاليٰ سے خیر وصلاح طلب کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں.

جاننا چاہئے کہ استخارہ کی چند اقسام ہیں:

۱- ہر اس کام میں جس کا آپ ارادہ کریں اللہ تعاليٰ سے وسیلہ پکڑیں اور اس سے اس امر میں خیر طلب کریں اور بعد میں جوکچھ بھی اس کاانجام ہو اس سے راضی بہ رضائے خدا رہیں اور سمجھ لیں کہ خیر وصلاح اسی میں ہے.

۲- اللہ تعاليٰ سے طلب خیر کرنے کے بعد اپنے دل کی طرف متوجہ رہیں او رجیساوہ چاہے ویسا کریں.

۳- اللہ تعاليٰ سے طلب خیر کے بعد کسی مومن سے مشورہ کریں او رجیساوہ کہے ویسا عمل کریں.

۴- استخارہ قرآن سے یاتسبیح سم یا پرچیوں سے یاگولہیوں سے کریں اس کی تفصیل آگے آرہی ہے.

پھر کہتے ہیں :بہت سی احادیث پہلی قسم کی استخارہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور بہت سے علماء کرام مثلاً شیخ مفید محقق طوسی اور ابن ادریس کو قسم چہارم میں تامل ہے لیکن چونکہ احادیث ہر چہار قسم کے بارے میں وارد ہیں لہذا کسی سے بھی انکار نہیں بہر حال استخارہ کی پہلی تین صورتیں بہترین ہیں جوکہ ہمارے زمانے میں تقریبامتروک ہوچکی ہیں.

بہت سی نوجوان مدرسی امتحانات کے‌زمانےمیں آتے ہیں کہ جناب ذرا استخارہ دیکھئے کہ میں کامیاب ہونگا یا نہیں ہم مختصرا شرع مقدس کے دستور کا اس بارے میں ذکرکرتے ہیں آپ براہ کرم دوسروں تک ہمارے یہ الفاظ پہنچادیجیئے کہ اس غلط روش کو چھوڑدیں اور دین سلیم کو خرافات سے‌آلودہ نہ کریں.

استخارہ کے بارے میں واضح تاکیدات:

استخارہ ان موضوعات میں سے ہے جن کے بارے میں مسلمانوں کےتمام مکاتب فکر کی روایات کے مطابق نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت تاکیدوارد ہوئی ہے چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارشاد کے مطابق کسی بھی چھوٹے یابڑے کام میں اسے ترک نہ کرنا چاہئے.

امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام کافرمان ہے یمن کے سفر میں جس پر میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم پر روانہ ہواتھا حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر ارشادات میں ایک یہ تھا کہ اے علی اس سفر کے دوران کسی مقام پر بھی استخارہ ترک نہ کرنا.“ مَا حَارَ مَنِ اسْتَخَارَ وَ لَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَار”استخارہ کرنے والا پریشان نہیں ہوتا اور نہ ہی دوسروں سے مشورہ کرلینے والاپھچتاتاہے.

ہر امام نے دوسرے امام کو استخارہ کی اتنی ہی تاکید فرمائی ہے جتنی قرأت قرآن کی

یہ استخارہ جس کی اتنی تاکید وارد ہوئی ہے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ تسبیح کے دانوں کا طاق جفت دیکھ لیا جائے بلکہ اس کا مقصد“طلب الخیرة من الله ”اللہ تعاليٰ سے طلب خیر ہے ہر کام جوآپ کریں اس کے بارے میں اللہ تعاليٰ سے‌خیر و رضاطلب کریں.

پھر استخارہ کی کیفیت ،اس کا طریقہ اور اس کی دعا کے بارے میں مختلف روایات ہیں ایک یہ ہے کہ جزوی کامورمیں سات مرتبہ“استخیراللہ برحمتہ خیرة فی عافیة”کہیں جبکہ ضروری امور مثلاً سفر،معاملہ یاجراحی وغیرہ میں یہی الفاظ ایک سو ایک بارکہیں .اور اگر یہ الفاظ سجد ے کی حالت مین کہے جائیں تو بہت بہتر اور اگر سجدہ نماز نافلہ کایانافلہ نماز صبح کاہو تو کیایہی کہنے میں !دعا کی یہ بہترین کیفیت ہے.

ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدالساجدین حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام جزوی امور میں دس مرتبہ اور ضروری امور مثلاً سفرف،وغیرہ کے موقعہ پریہی الفاظ دوسو مرتبہ فرماتے تھے.

الغرض بہت تاکید اس امر کی واردہوئی ہے کہ اللہ تعاليٰ سے انسان طلب خیر سجدہ کی حالت میں کرے جواللہ تعاليٰ سے‌اس کے قریب کا وقت ہوتاہے اب اگر انسان یہی رویہ اختیار کرے اور اس میں متردد نہ ہو تو اس کے ہاتھوں ہونے والا ہر کام خیروبرکت کاحامل ہوگا اور اگر اسے ترددوحیرت حق ہو تو اسے رفع کرنے کے لئے شرع اطہر میں جو طریقے وارد ہوئے ہیں ان کا مطالعہ کرے.

رفع حیرت کے لئے مشورہ:

سب سے بہتر مشورہ ہے جو نص قرآن مجید( وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْر ) کے مطابق ہو او روہ ہر شخص سے نہیں بلکہ اس شخص سے کیاجائے جو.

۱- عاقل ،زیرک اور دوراندیش ہو.بنابریں بیوقوف آدمی سے مشورہ جائز نہیں.

۲- دیندار اور متقی ہو بے دین یا دین سے بے پرواشخص سے مشورہ نہیں کرنا چاہئے جو شخص اللہ تعاليٰ سے خیانت کرتا ہو آپ کے ساتھ کب دیانت برت سکتاہے.

۳- آپ کا محب،دوست اور خیر خواہ ہو ایسے انسان سے جوآپ کا دشمن ہو اور آپ کاخیر خواہ نہ ہومشورہ سے گریز کریں.

۴- آپ کاراز دار ہو اور اسے دوسروں پر فاش نہ کرے.

اگر کسی شخص میں یہ چار صفات ہوں،اس سے ضرور مشورہ کیجئے وہ خدا جس سے آپ نے طلب خیر کرلیا ہے اس شخص کی زبان سے آپ کو اس امر کی خیر وصلاح کے بارے میں مطلع فرمائے گا.

ائمہ علیہم السلام مشورہ کرتے تھے:

علامہ مجلسی نے حضرت امام رضاعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا: میرے والدبزرگوار جناب امام موسی بن جعفر الصادقعليه‌السلام باوجود اس ے کہ خود عاقل ترین زمانہ تھا،کبھی اپنے غلام سے بھی مشورہ فرماتے تھے مثلاً کسی امر کا ارادہ فرماتے تو اپنے خیر اندیش غلام سے‌مشورہ فرماتے اور اگر اس کام میں مصلحت ہوتی تو اسے انجام دیتے.

آپ سے ایک دفعہ کہاگیا کہ آپ امام زمانہ ہوکر ایک غلام سے مشورہ کرتے ہیں مطلب یہ تھا کہ امام زمانہ ہونے کی حیثیت میں آپ کو ہر چیزکاہرشخص سےزیادہ واقف ہونا چاہئے آپ نے فرمایا: تم کیاجانو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعاليٰ میرے خیروصلاح کو اس کی زباں پر جاری فرمادے.

لہذا جن امور میں انسان متردد و متحیر ہو ان میں سے حسب روئہ نبی رحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وائمہ طاہرین معصومیں علیہم السلام اور حسب فرمودہ صریح قرآن مجید عمل کرنا چاہئے.

استخارہ ذات الرقاع(پرچیوں سے‌استخارہ):

اگر کس وقت مشورہ میسر نہ ہو یا میسر تو ہو لیکن باہم معارض ہون (آپ نے چار شرطوں کے‌حامل ایک شخص سے مشورہ کیا تو اس نے آپ کے ارادے سے موافقت کی لیکن دوسرے برابر کے ثقہ شخص نے مخالفت کی تو اس صورت میں رفع حیرت و تردد کے لئے آپ کو اس ترکیب پر عمل کرنا چاہئے:چھ پرچیاں لیں او رہر ایک پرچی پر “بسم الله الرحمن الرحیم خیرة من الله العزیز الحکیم لفلان بن فلانه ”( اپنا اور اپنی والدہ کانا لکھیں)پھر ان میں‌میں تین پر عبارت کے نیچے“افعل” اور باقی تین پر اسی جگہ “لاتفعل” تحریر کریں.

ان چھ عدد پرچیوں کو مصلائے نماز کے نیچے رکھیں اور دورکعت نماز استخارہ پڑھیں .سلام کے بعد (یا آخری سجدہ کے بعد)سجدہ میں جائیں اور ایک سومرتبہ “استخیرالله برحمته خیرة فی عافیه ”کہیں پھر فارغ ہوکر پرچیوں کوباہم گڈمڈکردین اور ایک ایک کرکے پرچیوں کو اٹھاکر کھولیں .اگر تیں پر یکے بعد دیگرے “افعل” نکلے تو بہت اچھا ہے اگر تین پر متواتر“لاتفعل” نکلے توبہت براہے اور اگر کچھ پر“افعل”اور کچھ پر“لاتفعل” ہو توپانچ پرجہاں نکلایں اگر تین پر “افعل” ہو او ردوپر“لاتفعل”تو اچھا ہے اس کام کو کرلیں اور اگر تین پر “لاتفعل” نکلے اور دوپر“افعل” تو برا ہے ،اس کو نہ کریں.

پرچیاں بہرحال بالکل ہم رنگ او رمشابہ ہونی چاہیں.

اور اگر دعا ونماز وغیرہ می فرصت نہ ہو تو فہم آیات اور ان کی مصداق استخارہ کے ساتھ تطبیق کی صلاحیت کی صورت میں قرآن مجید سے بھی استخارہ کیاجاسکتاہے.

شیخ طوسی نے تہذیب میں روایت کی ہے کہ سیع بن عبداللہ قمی ایک دن جنا ب امام جعفرصادقعليه‌السلام کی خدمت میں یوں عرض گذار ہوئے:میں کسی کام کا ارادہ کرتاہوں لیکن میری رائے اثبات یانفی میں دوٹوک انداز میں قائم نہیں ہوتی ،آپعليه‌السلام نے فرمایا: جب نماز کے ارادے سے قیام کرے تو دیکھ دل میں کیابات آئی ہے اسی پر عمل کرکیونکہ یہ وقت ہوتاہے کہ جب شیطان انسان سے دورترین ہوتاہے یا اس وقت قرآن مجید کھول اور اس کے مطابق عمل کر.

دوسروں کے لئے استخارہ:

یہ جو ہمار زمانے کی رسم ہوگئی ہے کہ قرآن کے اوپرنیک یابد لکھدیاجاتاہے یا کسی عالم کے پاس استخارے کےلئے جاتے ہیں .علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس نمونے کے طورپر کوئی ایسی روایت موجودنہیں کہ کبھی کوئی شیعہ امام کی خدمت استخارے کی غرض سے آیاہو .اس کام کی کوئی اصل نہیں ہے.

اس لئے بعض فقہاء دوسروںت کے لئے استخارہ کرنے میں اشکال دیکھتے ہیں لیکن علامہ مرحوم اور کچھ دوسرے علماء اعلام ایسے افراد کےلئے جو خود دعا استخارہ وغیرہ نہ کرسکتے ہوں وکیل کے طور پر ایک مومن کو دوسرے مومن کی خواہش کے احترام میں قرآن مجید کھولنے کی اجازت کے قائل ہیں بشرطیکہ قرآن کھولنے والا صحیح حالت دعامیں ہو اور قرآنی آیات شریفہ کامعنی سمجھتاہو.

بہت سے فقہاء قرآن سے استخارے کو جائز نہیں سمجھتے .اگر آپ کو کسی امر کے ارادے میں حیرت و تردد لاحق نہ ہو تو استخارہ کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ تعاليٰ کے توکل پر اس کو کرڈالنا چاہئے( ِ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّه‏ ) جب ارادہ کرلیا تو اللہ پر توکل کرکے اس کام کو کرڈالئے،لیکن اگر تردد موجود ہو تو اس طرح سے جیسا کہ ذکرکیاگیا یاالہام والقاء یامشورہ یا پرچیوں کے ذریعے اور یا پھر قرآن مجید سے بشرطیکہ کیفیت دعا اور فہم آیات کی صلاحیت ہو،یاتسبیح کے ذریعے استخارہ کرنا جائز ہے.جس نکتہ پر ہم نے زوردیاہے وہ اللہ تعاليٰ سے طلب خیر ہے اور وہی حقیقت استخارہ بھی ہے.

رکن سوم

توكُّل

مجلس ۱۶

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏.انَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطانٌ عَلَى الَّذینَ آمَنُوا وَ عَلى‏ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون‏ ) .

توکل .توحید افعالی کالازمی جزو:

توکل کاموضوع دین مقدس اسلام کے‌اہم موضوعات میں سے ہے کیونکہ حقیقت توحید یعنی توحید افعال کا لازمہ اللہ تعاليٰ پر توکل ہے باالفاظ دیگر مسلمان وہ ہے جو نفع کے حصول اور ضرر کےدفع کرنے میں صرف اللہ تعاليٰ پر بھروسہ رکھے اور یہی معنی ومفہو“لااله الالله ولا حول ولا قوة الابالله العلی العظیم ”حوقلہ(یعنی لاحول ولاقوة الاباللہ کہنا)جنت کے‌دروازے کی چابی ہے اور توحید افعالی ہے یعنی انسان اس بات کا یقین کرلے وہ کوئی آزاد حیثیت نہیں رکھتا اور مشیت ایزدی کے مقابلے میں اس کی اپنی خواہش کی کوئی حیثیت نہیں اسے چاہئے کہ مسبب الاسباب یعین سبب ساز ہستی کے وجود کومانے“کن”کے اثر سے مخلوقات کے وجود میں آنے کاسبب پہچانے اور اس اثر کویعنی کائنات کے وجود کو اس مسبب حقیقی کی قدرت کا کرشمہ سمجھے اور خود بخود از خود وجود میں آئی ہوئی چیز نہ جانے.

اسباب کی پیروی اللہ کے بھروسے پر:

اسباب دنیا کے حصول کی کوشش انسان ضرور کرے لیکن مسبب اسباب جل شانہ پر توکل کے ساتھ کرے نفع کے حصول اور ضرر کے دفعیہ کے لئے خواہ دینی ہو یادینوی اس کے‌دل کی قوت کامنبع اللہ تعاليٰ پر توکل ہوناچاہئے دنیوی منفعت کے بارے میں اس کاعقیدہ وایمان یہ ہونا چاہئے کہ اگر خدا چاہئے گا اور الہيٰ مصلحت اس میں ہوگی تو دنیاوی نفع اسے ضرور ملے گا ورنہ نہیں اور اخروی نعمت کے متعلق اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کا فرض صرف یہ ہے کہ اللہ تعاليٰ کے احکام کماحقہا بجالاتارہے اور اس کی رحمت پربھروسہ کرکے بدانجامی کے کھٹکے کودل سے نکال دے.

اللہ تعاليٰ کافرمان ہم کہ اے انسان اپنے دنیوی کاربارکے لئے تک ودوضرور کرلیکن لالچ اور حرص سے‌آزاد رہو.

اسباب دنیا کے حصول کی کوشش ضرور کرلیکن حرامت کے قریب نہ جانا اگر تیراوکیل تجھے کہے کہ عدالت میں اپنی تمام اسناد کے ساتھ حاضر ہوتوکیا اس کے کہے کے‌خلاف کرے گا؟جب تونے خود کونا کافی سمجھ کر وکیل پکڑا تو تجھے ا س کی راہنمائی میں رہنا چاہئے.

وکیل پکڑنا ضروری ہے:

اے انسان تو عاجز ہے اور دنیا وعقبيٰ میں اکیلا کامیاب نہیں ہوسکتا اگر کسی طاقت پر تیرا بھر وسہ ہوتو کسی بھی خطر ے یا مشکل میں تو متزلز ل نہ ہوگا کیونکہ تیرا وکیل موجود ہے تیر تکیہ گاہ موجود ہے.

کیا تو اپنی نماز کی تعقیب نہیں پڑھتا:“ توکلت على الحی الذی لا یموت‏”میں اپنے کاموں کو اپنے زندہ ولایزال خداکے سپر کرتاہوں،وہ عظیم ترین وکیل اور بہترین مددگارہے.( نِعْمَ الْوَكِیل‏ ِنعْمَ الْمَوْلى‏ وَ نِعْمَ النَّصِیر ) .

متوکل سے شیطان دوربھاگتاہے:

روایت میں آیا ہے کہ جب صبح کے وقت انسان گھرسے باہر نکتاہے تو شیاطین دروازے پر اس کےمنتظر ہوتے ہیں .لیکن گھرسے نکلتے وقت جب وہ کہتاہے:( آمنت باللّه توکلت‏ ) تجھی پرمہربان ایمان ہے اور تیرے ہی بھروسے میں کاروبار دینا کے لئے جاتاہوں،تو سب شیطان بھاگ جاتے ہیں.

یہ الفاظ آپ کسی بھی زبان میں کہیں کوئی حرج نہیں،یہ الفاظ دل کا سہارا اور جان کی امان ہیں یہ حقیقت ہے کہ اگر آپ اس کی امیداور اس کے سہارے پرہوں گے یقین رکھیں کہ آپ کاوکیل بہت طاقتور ہے آپ سے ہرمشکل اور ہر خطرے کودور رکھے گا .اور ہر نفع حسب مصلحت آپ کو پہنچائے گا اللہ تعاليٰ سے بڑا مہربان ،بے حد رحمت والا اور بے پایاں قوت کامالک وکیل اور کون ہوسکتاہے؟!.

واقعہ کربلا کے بعد ابن زبیرکا خروج:

اس موقعے پر مجھے اصول کافی سے ایک حدیث پاک یاد آئی ہے عبدالل بن زبیر جوکہ آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کابدترین دشمن تھا.یہان تک کہ نماز جمعہ کے خطبہ میں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی درود نہیں بھیجتا تھا جب اس پر اعتراض ہواتوکہنے لگا:بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود آل کے ذکر کے بغیر باطل ہے لیکن اگر میں آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ذکر خطبہ میں کردں تو کئی گردنیں ماردی جائیں.

قصہ مختصر کربلا کے واقعے کے بعد اس نے مکہ میں خروج کیا او رخلافت اور حکومت کادعويٰ کیا عراق سے کچھ لوگ اس کے ساتھ ہوگئے اور اس کی حالت کچھ مضبوط ہوگئی.

یزید پلید کو جو قتل امام حسینعليه‌السلام کے بعد اس تاک میں تھا کہ کوئی اور شخص آواز اٹھانے والانہ اٹھ کھڑاہو،خبر ملی کہ ابن زبیر حجاز پر قابض ہوگیا ہے.

اس نے مسلم بن عقبہ اور حصین بن نمیر کو ایک بڑی فوج کے ساتھ حجاز کی طرف بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ مدینہ کے راستے سے جائیں اور جہاں تک ممکن ہو مدینہ میں قتل عام، آبروریزی اور غرتگری کریں.

امام زین العابدینعليه‌السلام اور نورانی وجود:

ایک طرف ابن زیبر کافتنہ اور دوسری طرف یزید کی لشکرکشی، سیدسجادعليه‌السلام ابھی تھوڑے دنوں سے کربلا کے جانکاہ واقعات کے بعد کربلا سے واپس تشریف لائے تھے اس امرنے آپ کو بہت پریشان کیا.اپنی اس حالت کا آپعليه‌السلام ابوحمزہ سے یوں ذکر فرماتے ہیں.

میں اپنے گھرسے باہر نکلا اور آکر اس دیوار کے سہارے کھڑاہوگیا .“روایت میں لفظ جدار”ہے جس کا معنی دیوار ہے لیکن غالباً اس سے مراد مدینہ منورہ کی فصیل ہے،دفعتاً میں نے ایک انسان کو دیکھا جودو قطعہ سفید لباس میں ملبوس میرے سامنے آگیا اور کہنے لگا:

علی بن الحسینعليه‌السلام :“مالی ارايٰ کیسباً حزیناً ”کیا وجہ آپ پریشان نظر آتے ہیں،؟

“علی الدنیا،فرزق اللہ للبروالفاجر”کیا آپ اسباب دنیوی کی کمی پر پریشان ہیں؟اگر ایسا ہے تو پریشان نہ ہوں کیونکہ خداوند رزاق اچھے برے سب کو روزی دیتاہے! میں‌نے جواب دیا:مجھے دنیا کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں،اس نے کہا :“علی الآخرة فوعدصادق یحکم فیه ملک قادر ”تو پھر کیا آخرت کے لئے پریشان ہیں‌تو یہ بھی فکر کی بات نہیں کیونکہ اللہ تعاليٰ کاوعدہ سچاہے اور وہ‌آپ کی دادگری کے گا،میں نے کہا:میں آخرت کے لئے بھی فکرمند نہیں ہوں،تو اس نے پوچھا :پھر کس لئے آپ غمگین ہیں ؟ میں نے جواب دیا: میں زبیر کے فتنے کی وجہ سے پریشان ہوں.

کیونکہ ایک تو اس دشمن امام واہلیبت علیہم السلام کے تصرفات کی فکر تھی دوسرے یزید ملعون کی لشکرکشی سے آپ فکرمند تھے اور تیسری وجہ آپ کی پریشانی اس کے بعد عبدالملک کے حکم سے حجاج خونخوار کی لشکر کشی تھی.امام فرماتے ہیں:

وہ شخص ہنس کر کہنے لگا :“هل رایت احداًتوکل علی الله فلم یکفه هل رایت احد ا سئال الله فلم یعطه ”کیا آپ نے کسی کودیکھا کہ اس نے اللہ پر توکل کیا اور اللہ تعاليٰ نے اس کی کفایت نہ کی اور کیا آپ نے ایسا کوئی شخص دیکھا جس نے اس سے سوال کیا اور خالی ہاتھ لوٹا؟؟.

میں نے کہا :نہیں اور وہ شخص میری نظروں سے غائب ہوگیا.

اس روایت کے ذیل میں علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ وہ نوارنی وجود یافرشتہ تھا اور یا پھر حضرت خضرعليه‌السلام تھے

تسکین قلب کے لئے ہمکلامی:

علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ اس قسم کی بات چیت مقام امامت کے نقص کو مستلزم نہیں ہے بلکہ تذکر اور روحانی یاد‌آوری کاایک ذریعہ ہے جس کی تدبیر اللہ تعاليٰ امام کے دل کی تسکین وتقویت کے لئے فرماتے ہیں.

اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کسی عالم ودانش مند انسان کابیٹا انتقال کرجائے تو لوگ اس سے کہیں گے صبر کرو امام حسینعليه‌السلام کابھی جوان بیٹا شہید ہواتھا... اوریہ تذکرہے اور وعظ ونصیحت کم سنی یا کبرسنی پر موقوف نہیں ہے ہر چند کہ ناصحانہ کلام کرنے والاکم سن اور ناقص ہو او راس کامخاطب کبیر السن اور عالم وفاضل ہو کبھی اایسا بھی ہوتاہے کہ ایک بچہ ایسی بات کرتاہے کہ بڑا اسے سن کر تذکر کی کیفیت میں آجاتی او رمتنبہ اور خبردار ہوجاتاہے.

امام حسینعليه‌السلام کی علی اکبرعليه‌السلام سے گفتگو:

آپ نے سنا ہوگا کہ حضرت امام حسینعليه‌السلام سفر کربلا کی ایک منزل میں نیند سے‌ہڑبڑا کر بیدار ہوئے اور آپعليه‌السلام کی طبیعیت غیر ہوگئی جناب علی اکبرعليه‌السلام نے عرض کیا :باباجان کیا وجہ ہے کہ آپ پریشان ہیں؟آپ نے فرمایا: میں نے ایک منادی کو ندادیتے ہوئے سنا ہے کہ یہ گروہ موت کی طرف بڑھ رہاہے یہ سفر سفرشہادت وقتل ہے علی اکبرعليه‌السلام نے عرض کیا:بابا جان !“السنا علی الحق”کیا ہم حق پرنہیں ہیں؟آپ نے فرمایا:کیوں نہیں ؟ہم سراسر حق پر ہیں.

عرض کیا :“اذاًلانبالی بالموت ”توپھر موت کی کیا پرواہے،اگر ہم راہ حق کے مسافر ہیں تو کیا ہی اچھا ہے کہ حق کی راہ میں حق کے نام پر قربان ہوجائیں،بیٹے کے ان الفاظ سے امامعليه‌السلام کے دل کوبہت اطمینان ملا اور آپعليه‌السلام نےدعا فرمائی کہ اے‌بیٹے اللہ تجھے جزائے خیر دے.