استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)0%

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي) مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف: حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
زمرہ جات:

مشاہدے: 42561
ڈاؤنلوڈ: 4835

تبصرے:

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42561 / ڈاؤنلوڈ: 4835
سائز سائز سائز
استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)

مؤلف:
اردو

مجلس ۱۷

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏. انَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطانٌ عَلَى الَّذینَ آمَنُوا وَ عَلى‏ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون ) .

توکل علم حال اور عمل کانتیجہ ہے:

علماء ومحققین نے توکل کے بارے میں یوں فرمایاہے :توکل تین چیزوں ،علم،حال اور عمل سے پیدا ہوتاہے،ہر عنوانات پر ہم تفصیل سے اظہار خیال کرتے ہیں .علم:جب تک انسان عالم نہ ہو توکل اسم‌نصیب نہیں ہوسکتا اور یہ تین چیزوں میں منحصر ہے.اولایقین یعنی سب سے پہلے اللہ تعاليٰ کی قدرت بے پایاں پر یقین کرے کہ وہ علی کل شئ قدیراو قارد علی کل شئ ہے سخت سے سخت کام جس کے سرانجام پر اسنان اپنی پور ی قوت وقدرت سے قادر نہیں ہوسکتا ،اللہ تعاليٰ کے لئے بہت آسان ہے کوئی بھی امراس کی قدرت کے لئے مشکل نہیں ہے.“یا من العسر علیه سهل یسیر ”اے وہ ذات جن کے لئے ہر مشکل کام آسان ہے.

دانائی اوربندوں پر شفقت:

ثانیا:یہ یقین ضروری ہے کہ اللہ تعاليٰ“ عالم السروالخفیات”تمام پوشیدہہ امور کا دانا ہے ہر چیز کو جانتاہے غیب وظہور اس کے لئے برابر ہے.

ثالثا:یہ یقین ہو کہ پروردگار“منتهی الشفقة علی عباده ”یعنی اپنے بندوں پر حددرجہ مہربان ہے مومن خدا کے نزدیک عزیز ومحبوب ہے ماں کو اپنے بچے سے کتنا پیار ہوتاہے، یہ محبت بھی خداکی طرف سے ہے اس سے ہزا ہاردرجے زیادہ وہ اپنے بندوں سے پیارکرتاہے بلکہ بندوں کے ساتھ اس کی محبت کی کوئی انتہاہی نہیں ہے.پالنہار ہےخلق کرتاہے،تربیت کرتاہے او راپنے پالے ہوئے سے محبت کرتاہے اس کے اثبات میں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن اس وقت حیات القلوب علامہ مجلسی سے ایک مختصر روایت عرض کی جاتی.

جب حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنی نافرمان پوم پر لعنت کی جس کے نتیجے میں سارے کفار غرق ہوگئے تو ایک فرشتہ حضرت نوحعليه‌السلام کے پاس آیا حضرت نوحعليه‌السلام کوزہ گرتھے مٹی سے کوزے بناکر آگ میں پکاتے تھے او رانہیں بیچ کر اپنی روزی کماتے تھے.

اس فرشتے نم سب کوزے آپعليه‌السلام سے خرید لئے اور آپعليه‌السلام کی آنکھوں کے سامنے انہیں ایک ایک کرکے توڑنا شروع کیا.

حضرت نوحعليه‌السلام کوبڑادکھ ہوا اور انہوں نے فرشتے کے اس تصرف پر اعتراض و احجاج کیا لیکن فرشتے نے جواب دیا اب آپ کا ان پر کیا حق ہے میں نے انہیں خریدا ہے اور جوچاہوں ان سے کروں آپ کو بولنے کا حق نہیں ہے.

نوحعليه‌السلام نے کہا:لیکن کیاتم نہیں جانتے کہ میں نے انہیں اپنے ہاتھ سے بنایاہے؟فرشتے نے کہا: بنایا ہی تو ہے خلق تو نہیں کیا اور اس پر بھی آپ ناراض ہوتے ہو جب اتنی مخلوق کو غرق کرایا تھا تو کیا خدا کو کوئی دکھ نہ ہوا ہوگا.

اس پر جیسے کہ علل الشرائع میں ہے کہ آپعليه‌السلام نے سرجھکالیا اور اتناروئے اور اتنی مدت روئے کہ نام ہی نوحعليه‌السلام ہوگیا.

نبیعليه‌السلام نے کبھی لعنت نہیں فرمائی:

غرضیکہ اللہ تعاليٰ اپنے بندوں پر بڑا مشفق ہے کیونکہت پالنے والے کو اپنے پالے ہوئے سے محبت ہوتی ہے خدائے تعاليٰ اپنے مقرب بنی پر عتاب فرماتاہے‌کہ کیوں آپ نے لعنت کرکے میرے اتنے بندوں کو ہلاک کرواددیا؟!

جناب خاتم الانبیاء حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت شان جملہ انبیاء پر اس حقیقت سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے کبھی لعنت نہیں فرمائی کیونکہ آپ رحمة للعالمین تھے اگر آپ بھی لعنت کے ارادے سے لبوں کو حرکت دیتے تو تمام مشرکین صفحہ ہستی سے مٹ جاتے

خدائی شفقت کانمونہ:

حتيٰ کہ اس روزجب کہ آپ کوکفار نے اتننا زدو کوب کیا کہ آپ اس حالت میں بے ہوش ہوکر گرپڑے کہ خون آپ کے سروچہرہ مبارک سے جاری تھا کسی نے جناب خدیجہ علیہاالسلام کو خبردی کہ آپ کے شوہر محترم بہت زخمی ہیں،معلوم نہیں کہ آپ انہیں زندہ دیکھ سکیں گی یا نہیں اس دن ملائکہت آپ کے پاس حاضر ہوئے اور حاجت دریافت کی لیکن رحمت عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی بھی صورت مںی مشرکین کی خلاکت کا تقاضا نہ فرمایا بلکہ ان کو ان الفاظ میں دعا دی کہ“اللہم اہد قومی”اے پروردگار میری قوم کی ہدات فرما، اور اس پہ طرہ یہ کہ خودہی ان کی طرف سے عذر خواہی فرماتے ہیں کہ “انہم لایعلمون”کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ میں تیرا فرستادہ ہوں،یہ بچارے جاہل ہیں ،ان پر اپنا غضب نازل نہ فرما.

لوگ خود جہنم کے طلبگار ہیں:

بہ مت کہئے گا کہ اگر صورت حال یہی ہے تو اللہ تعاليٰ نے دوزخ کو کیو خلق فرمایا: کیونکہ دوزخ کا خلق کرنا“الشفقة علی العباد”کے منافی نہیں ہے انسان خود انسان خود اس کی شفقت کی راہ سے فرار کرکےجہنم کا راستہ اختیار کرتاہے:( وَ لكِنْ کانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ) لوگ خود اپنے نفوس پر ظلم کرتے ہیں.

اللہ تعاليٰ ان سے بہت زیادہ محبت کرتاہے اور قرآن مجید میں انہیں جہنم سے بہت ڈرتاہے،اس سے‌دور رہنے کا حکم فرماتا ہے اور سخت تاکید فرماتاہے کہش یطان ملعون کا فریب نہ کھائیں دنیا دھوکا اور فریب کا گھر ہے اور شیطان انسان کا کھلادشمن ہے( لا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورَ وَ مَا الْحَیاةُ الدُّنْیا إِلاَّ مَتاعُ الْغُرُورإِنَّ الشَّيْطانَ لَكُمْ عَدُوفَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ) مختصر یہ کہ جب تک آپ یقین نہ کرلیں گے کہ خداوند عالم طاقتور اور دانا ہے اور اپنے بندوں پر مہربانی اور شفقت فرماتاہے‌آپ توکل کی منزل کونہ پاسکیں گے.

بلی کے بچے پر شفقت:

تفسیر روح البیان میں ہے کہ کسی نے کسی مرد صالح کو اس کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا اور اس سے اس کا حال دریافت کیا.اس نے کہا :ایک نیک عمل نے میری بڑی مدد کی سردی کا موسم تھا ،موسلادھار بارش ہورہی تھی سردی کی شدت میں میں نے ایک بلی کے بچے کو دیکھا کہ پناہ کی تلاش میں مارامارا پھرتا ہے.وہ بھوکا اور بہت کمزور تھا میں نے اس کی حالت زار پر ترس کھاکر اس کو اٹھالیا او راپنی پوستین میں ڈھانک کراسے گھرلے گیا وہاں میں نے اسے کھانا کھلایا اور سردی سے‌محفوظ کیا اور موسم ٹھیک ہونے پر اسے رہاکردیا اللہ تعاليٰ نے اس عمل کے عوض مجھ پر مہربانی فرمائی اور مجھے بخش دیا.

اس سے انداازہ کیجئے کہ اللہ تعاليٰ کسی بندہ مومن کے ساتھ اس طرح کے جن سلوک پر کتنا خوش ہوتاہوگا جب ایک حیوان پر شفقت اللہ تعاليٰ کی اس قدر خوشنودی کاباعث ہوتی ہے تو ایک بندۀ مومن ومتقی کے ساتھ محبت وشفقت پر اس کی خوشنودی کا کیا عالم ہوگا.اس محبت سے بلندتر ایک محبت ہے جسے قرآن مجید میں خدا کی محبت سم تعبیر فرمایاگیا ہے.اللہ تعاليٰ کلام پاک میں ایسے لوگوں کو اپنا محبوب قرار دیتاہے:( فَسَوْفَ يَأْتِی اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَه‏ ) اللہ تعاليٰ ایسے لوگ لائے گا جن سے‌وہ محبت کرتاہے اور وہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں.

غرضیکہ علم کی شرط محبت با خدا ور شفقت بر خلق خدا ہے .آپ کو یقین ہونا چاہئے کہ آپ کی شفقت بر خلق خدا کی وجہ سے اللہ تعاليٰ آپ سے محبت کرتاہے.

اب جب کہ صورت احوال یہ ہے تو پھر ہم خدا پرکیوں توکل نہیں کرتے ؟کیا ہماری نظروں میں اس سے بہتر بھی کوئی ہے؟کیا ہم کسی ایسی ہستی کو جانتے ہیں جو اللہ تعاليٰ سے دناتر توانا تر اور مہربان تر ہو؟خود جس کا خدا ایسا بخشنہار اور مہربان ہو وہ کسی دوسرے سے کیوں دل لگائے ؛کیوں اس کے علاوہ کسی دوسرے پر تکیہ کرے؟

پروردگار !ہمارے دلوں کو یقین کی طاقت عطا فرماکہ صرف تجھی کو اپنی امیدوں کامرگز سمجھیں ہر خطرے کے وقت تجھی کو پکار یں،ہروسوسہ شیطانی کے وقت تجھی سے پناہ مانگیں،زندگی کے ہرمقام پر تجھی پر توکل اور پورے مومن بن جائیں:( وَ عَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِین‏ ) اگر مومن ہو تو صرف اللہ پر توکل کرو.

شیطان کو متوکلین سے کیا سروکار:

اگر آپ اپنے دل کو تمام تر طاقت وقوت کامنبع ومرجع اپنے پروردگار کوبنالیں اگر پورے اہل توکل بن جائیں تو شیطان آپ کے دل تک رسائی حاصل نہ کرسکے گا وہی کتے کی مثال یادرکھیں جو پہلے بیان ہوئی کہ خمیہ سلطانی کے دروازے پر بیٹھا ہوا کتا کسی غیر کووہاں سے بھگانے کی کوشش کرے گا لیکن جس شخص کی سلطان کے ساتھ شناسائی ہوگی وہ باہرہی سے پکارے گا کہ:اے صاحب خیمہ آپ کا یہ کتا میرے آزار کے درپے ہے مجھے اس سے بچائیے تو صاحب خمیہ کی ایک ہی جھڑکی اسے خاموش کردے گی.

اسی طرح اگر کسی شخص کی شناسائی اس کا ئنات کے مالک کے ساتھ ہوگی اور اسی پر اس کا توکل ہوگا تو اس کا استعاذہ بھی صحیح ہوگا اور شیطان اس تک رسائی نہ پاسکے گا.

دوستان خدا کو شیطان سے کوئی اندیشہ نہیں:

انسان کےدشمن بہت ہیں جب کبھی وہ اپنے پروردگار توانا کے حضور میں اپنی منزل مقصود( فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیكٍ مُقْتَدِرٍ ) با اختیار اور توانا بادشاہ کے حضور میں خوشنودی کے مقام تک پہنچنا چاہے گا تو یہ سب دشمن متحد ہوکر اس کی مزاحمت کرینگے اتنے سارے بڑےبڑے دشمنوں کو دور کرنا آسان کام آسان کام نہیں ان پر قابو پانے کی صرف ایک صورت اللہ تعاليٰ پر توکل ہے آپ اپنے توکل کو مضبوط کریں جب آپ کا پورا اعتماد صرف اللہ تعاليٰ پر ہوگا تو آپ کو کسی وسوسہ شیطانی سے خوف نہ رہے گا.( أَلا إِنَّ أَوْلِیاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُون‏ ) اللہ تعاليٰ کے دوست نہ کسی سے ڈرتے ہیں اور نہ انہیں کسی دکھ اور اندوہ کا سامنا ہے.

گھاس کا تنکا:

بدقسمت ہے وہ جوبے سہارا اور بے سرپرست ہو اور اس کی کوئی پناہ گاہ نہ ہو.وہ بالکل گھاس کے اس تنکے کی طرح ہے جو ہوا کے ہر جھونکے سے ہلتااور اپنی جگہ چھوڑدیتاہے.ایسے شخص کو شیطان ہلاک کرکے ہی دم لیتاہے اس کے‌برعکس طاقتوروہ ہے جس کا تعلق قوی مطلق کے ساتھ ہو اور وہی اس کا سہار ہو.

ہماری زندگی گذرتی جارہی ہے ہمیں توکل سے بے نصیب نہیں رہنا چاہئے.

عقبيٰ میں بھی اللہ پر توکل لازم ہے:

جس طرح دنیا میں ہرسختی اور ہر خطرے کے وقت اللہ تعاليٰ پر توکل لازم ہے اسی طرح موت کے بعد جوکچھ پیش آئے گا.اس میں بھی اللہ تعاليٰ پرہی توکل ضروری ہے کیونکہ ہمارے تمام امور کامالک وہ ہے قبر میں ،برزخ میں،مواقف میں،قیامت میں ہمراتکیہ اور توکل اسی پر ہونا چاہئے جو ہمیں وہاںت لایا جس نے ہمیں عدم سےنکال جامہ وجود پہنایا اور مبد سے معادتک ہماری سرپرستی فرمائی.

( ُ وَ ما تَوْفِیقِی إِلاَّ بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ إِلَيْهِ أُنِیب‏ ) .

مجلس ۱۸

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیم‏. انَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطانٌ عَلَى الَّذینَ آمَنُوا وَ عَلى‏ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون‏ ) .

توکل میں توحید:

مومن کا توکل اور بھروسہ صرف خدائے تعاليٰ پر ہے( وَ عَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ‏ ) اگر تم ایمان والے ہو تو صرف خدا پر توکلت کرو.توحید پر ایمان کالازمہ یہ ہے کہ توکل صرف اللہ تعاليٰ پہو اس کے ماسوا کسی انسان یا کسی چیز سے نہ ہی کوئی خوف کیا جائے اور نہ کوئی امید باندھی جائے.

اگر توحید پر انسان کا ایمان مکمل ہو توکبھی کسی قسم کے فقر کاندیشہ ممکن نہیں خوف واندیشہ صرف ضعف ایمان کا نتیجہ ہے ورنہ مومن کسی بھی حالت میں کسی امر سے متزلزل نہیں ہوتا کیونکہ اس کے دل کی طاقت کامنبع اور اس کا ہر طرح کاسہارا صرف اللہ تعاليٰ کی ذات ہے.

توحید پر عملی ایمان کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہم درجات کے تمام امور اورتذبذب و پریشانی کی تمام کیفیات میں اللہ تعاليٰ پر انسان کا توکل پختہ ترہوجاتاہے اور اس کے ایمان کو مزید جلاملتی ہے.

اللہ تعاليٰ پر توکل عقلاً واجب ہے:

مومن کا خدائے تعاليٰ پر بھر وسہ کرنا ایک عقلی امر ہے اور عقلاًواجب ہے کیونکہ سب امور اسی کے دست قدرت میں ہیں لیکن یہ توکل حقیقی ہونا چاہئے صرف زبانی سے یہ کہدینا کافی نہیں کہ میں اللہ تعاليٰ پر کل کرتاہوں( عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ إِلَيْهِ أُنِیب‏ ) یا کہ( وَ أُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَى اللَّهِ ) میں اپنے جملہ امور اللہ تعاليٰ ے سپرد کرتاہوں.بلکہ اس کے لئے حال اور اخلاص قلب کی کیفیت کاہونا لازمی ہے انسان کی یہ ضرورت ہے کہ متوکل علی اللہ ہو او رتوکل جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں،علم،حال اور عمل کے سہ پایہ پر قائم ہے اس کی بیناد علم اور اس کی حقیقت وکیفیت جوعمل کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے ،حال ہے اور اس کی علامت عمل ہے.

متوکل ہونا کییے ممکن ہے:

توکل کی حقیقت کیا ہے اور کیا کیا جائے کہ توکل کا مقام حاصل ہو.

توکل کا مادہ وکالت ہے اس کی دو طرفیں ہیں :موکل اور موکل علیہ جب کوئی شخص اپنے لئے کسی کو وکیل بناتاہے تو اپنے موکل کہتے ہیں اور جیسے وکیل بنایا جائے اسے‌وکیل کہاجاتاہے.

اللہ تعاليٰ کو وکیل بنائیے اور تمام امور اس کے سپر کردیجئے یہی معنيٰ ہے( فَاتَّخِذْهُ وَكِیلا ) .پس اسی کو وکیل پکڑو.

توحید افعال پر پورا یقین ضروری ہے:

ہم کہہ چکے ہیں توکل کا انحصار علم ،حال اور عمل پر ہے لیکن بنیاد اس کی علم ہے یہاں علم سے مراد یہ ہے کہ بطور کلی توحید افعالی میں یقین کامل ہو او ربطور جزی ہر نفع کے حصول اور ہر ضرر کے دفعئے کو اللہ تعاليٰ کی طرف سے سجھا جائے اور اس حقیقت کے لئے عقلی اور نقلی دلائل موجود ہوں تاکہ توحید افعالی کاسہ پایہ درست ہوسکے.

کیا غیر خدا اسے نفع کا حصول ممکن ہے؟.ہرگز نہیں بلکہ ہر نفع بالواسطہ یا بلاواسطہ اللہ تعاليٰ ہی کی طرف ہے خوراک و لباس وازدواج اور مادی زندگی کے جملہ اسباب و وسائل سےلیکر روحانی زندگی کے تمام منافع ونعمات تک ہرچیزی کی طرف سے‌ہے( أَلا إِلَى اللَّهِ تَصِیرُ الْأُمُور ) .

پانی پینے کا عمل ملاحظہ ہو:

کوئی شخص پانی کا گلاس آپ کو دیتاہے یہ پانی کہاں سے ایا؛کسی کی ملکیت ہے؟

کس نے اسے خلق فرمایا: کون اسے لایا؟ آپ تک لانے کی طاقت اسے کس نے دی کس نے اس کو آپ کے ارادے کاتابع بنایا....

غرضیکہ اگر آپ صرف پانی کے گلاس ہی کے بارے میں سوچیں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی خدا کی ہی طرف سے ہے.

لباس بھی اس کا دیاہوا ہے:

کیا یہ لباس جوہم پہنتے ہیں،اصل ابتداء سےلیکر قابل استفادہ ہونے کے وقت تک غیب کے سواء کوئی اور بھی اس کا ماخذ ہے ؛غور کریں کہ کپاس کو کس نے خلق کیا؟اسے چننے او ربننے والے ہاتھوں کو سکی نے پیدا کیا؟بننے‌کی عقل کس نے دی غور کریں تو( أَلا إِلَى اللَّهِ تَصِیرُ الْأُمُور ) .ہر امر کا ارادہ و انتظام و انصرام اسی کے‌دست قدرت میں ہے.اور( وَ ما بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّه‏ ) ہرنعمت اسی کی طرف سے ہے.

دفع ضرر بھی اسی کی طرف سے ہے:

ضرر کا دفعیہ بھی اس کے سوا کسی سے ممکن نہیں غور کیجئے کہ مریض کو شفاکون دیتاہے ؟کیا دوا اور طبیب شفاءدیتے ہیں یا حقیقت شفاء غیب سےتعلق رکھتی ہے؟طبیب کو کسی نے علم دیا؟دواکو کس نے خلق فرمایا: طبیب کے ذہن او اس کی تشخیص کو کس نے کنٹر ول کیا ؟در اصل صحیح تشخیص اللہ تعاليٰ ہی کی ہدایت سے‌ممکن ہے.

طبیب یا قاتل:

شیراز میں خسرہ کی وباکے دوران ایک مشہور طبیب کا ۱۸سالہ جوان بیٹا خسرہ میں مبتلا ہوا ظاہر ہے کہ جب مریض جوان بیٹا ہو اور معالج خود باپ ہو جو ایک کامیاب طبیب ہو تو علاج میں کوئی کسررہ جانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟لیکن طبیب والد سے تشخیص میں غلطی ہوگئی اور اس نے غلط دوادے کر اپنےمریض بیٹے کی جان لے لی اللہ تعاليٰ کی رضا اس میں ہو مریض کی شفایابی اور دواکی تاثیر صرف اللہ تعاليٰ کی مشیئت پر منحصر ہے.

جب تک یہ معانی ذہن نشین نہ ہوں او ران کا صحیح علم حاصل نہ ہو ناممکن ہے کہ انسان کسی حقیقت کو جان سکے اگر آپ نے اسباب دنیا کو مستقل بالذات اور مسبب سم جدامانا تو حقیقت “لا الہ الا اللہ” سے غافل رہے کیونکہ فاعل مطلق صرف اس کی ذات ہے ،باقی جوکچھ بھی ہے وہ اس تک رسائی کے واسطے اور وسیلے ہیں.

جملہ امور میں ارادہ الہيٰ غالب ہے:

پس ہر وہ فائدہ جوآپ کو طبیب یا کسی اور سے حاصل ہوتا ہے یا کوئی ضرر جوآپ سے‌دفع ہوتاہے یا کوئی کامیابی جوآپ کو ملتی ہے سب خدا کی طرف سے ہیں مثلاً کسی شخص نے آپ کا قرض دیا تووہ کون ہے؟خدا کی مخلوق ! اسے کس نے اس کام پر آمادہ کیا؟اللہ تعاليٰ نےوہ کس کے ارادے کا محکوم ہے؛اللہ تعاليٰ ے امال کی محبت کو کس نے اس کے دل سے نکلالا؟اللہ تعاليٰ نے امال کو حال کہاہی اسی لئے جاتاہے کہ دل اس کی طرف مائل ہوتاہے“.انما سمی المال مالا لانها تمیل الیه القلوب ”اور جب مال کی محبت دل میں ہو تو صرف تسخیرالہيٰ ہی اسے آپ کا قرض چکا نے پر آمادہ کرسکتی ہے.

وسیلہ بھی ضروری ہے:

ارادہ خداوندی یقیناًوسیلہ جوئی سے کوئی منافات نہیں رکھتا اس مطلب کی وضاحت، ہم بعد میں کریں گے مقصد یہ ہے کہ آپ کے دل کی طاقت کامنبع ومبدا صرف اللہ کی ذات ہو اور آپ کا مکمل بھروسہ صرف اسی پر ہو اس کی شرح ہم ان شاء اللہ تیسری شق کے تحت عمل کے ضمن میں کریں گے فی الحال بات علم کی ہورہی ہے اور ضروری ہے کہ یہ حقیقت قرآن وحدیث کے حوالےت سے سمجھی جائے کہ کوئی طاقت مشیئت الہيٰ کے علی الرغم نفع رسانی اور دفع ضرر پر از خود قادر نہیں.

توکل علم کا نتیجہ ہے:

اگر علم صحیح ہو تو اس سے توکل حاصل ہوتاہے یعنی اللہ تعاليٰ کے ساتھ انسان کی وہی نسبت ہوجاتی ہے جو موکل کی وکیل کے ساتھ ہوتی ہے.

اگر کوئی شخص حصول انصاف میں مشکل سے دوچار ہو او بذات خود اس حالت سے نمٹنے سے عاجز ہو توہ کسی ایسے وکیل کی ضرورت محسوس کرے گا جو قانون دان اور امر زیر بحث پر تسلط رکھتاہو .اس مقصد کے لئے وہ لوگوں سے دریافت کرے گا کہ کون سا وکیل قانون کا کماحقہ دانا ہے پھر معلوم کرے گا کہ کیاوہ ہوشیار اور سیانا بھی ہے یانہیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ قانون توجانتاہولیکن بزدل او رنا حوصلہ مندہو اور وکالت کی صحیح قابلیت وصلاحیت نہ رکھتاہو ایسا وکیل اس کے کام کانہ ہوگا.

تیسری شرط یہ ہے کہ اپنے موکل کے‌ساتھ اس کا برتاو ہمدروانہ ہو، اس کے حق بھی دلوادے اور اس کے لئے کسی درد سر کاباعث بھی نہ ہو اگر مہربان نہ ہوگا یا ضمیر فورش ہوگا تو عین ممکن ہے اپنے موکل سے پیسے بھی زیادہ وصول کرے اور اسے بھری عدالت میں ذلیل بھی کرے.

اگر اسےتینوں شرطوں کا حامل وکیل مل گیا تو اسےبڑی خوشی اور پواطمینان ہوگا کہ وکیل لائق ملا ہے جس پر واقعی بھر وسہ کیا جاسکتاہے اب گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے یہ مقام توکل کے حال یا توکل کی کیفیت کاہے.

نعم الوکیل:

کیاان شروط سہ گانہ پر اللہ تعاليٰ سے زیادہ پورااترنے ولا ہماری دانست نیں کوئی ہے؟آیا اس کے علاوہ کوئی اور ہماری زندگی کے مصالح و مفاسد کا پورا علم رکھنے والاہے اور اس قابل ہے کہ ہمارے امور کو ایسی خوش اسلوبی سے چلائے کہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں سدھرجائیں؟!.

آیا ہم اپنے حصول منفعت اور دفع ضرر پر اللہ تعاليٰ سے زیادہ قادر وتوانا کسی کو جانتے ہیں جبکہ( عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِیرٌ ) کا دعويٰ اس کے سوا کسی اور کوزیبا نہیں.

اور آیا اپنی مخلوق پر خوداس سے زیادہ کوئی مہربان ہے؟

بے شک تمام مہربانیوں کامنبع وہ ہے. مہر ومبحت وشفقت کا مبداوہی ہے ماں باپ کی یادویری کوئی بھی محبت اس کے بحر لطف وکرم کے مقابل میں زیادہ سے زیادہ ایک قطرہ ناچیز کی حیثیت رکھتی ہے.

ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں اگر میں اپنی کسی مطلوبہ منفعت کے حصول کے لئے اس کی طرف متوجہ ہوں اس پر پورا پورا بھروسہ کروں اور دل سے اسے نعم الوکیل مانوں تو میرے دل میں فرحت و اطمنیان پیدا ہوگا اور اگر کسی پیش آمدہ ضرر و مصیبت کو دفعیئے کے لئے صرف اس پر تکیہ کروں تو میری پریشانی ختم ہوجائے گی کیونکہ مجھے معلوم ہوگا کہ میرا قادر وتوانا نعم الوکیل میرے ساتھ ہے کوئی طاقت مجھے گزند نہیں پہچاسکتی.

پس یہ پریشانیاں اور یہ ہم ورجا اور عدم اطمینان کی کیفیت عدم توکل کے مظاہرہیں اور جب توکل نصیب نہ ہو تو( عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ إِلَيْهِ أُنِیب‏ ) کا زبانی وسکونت واطمینان کاباعث نہیں ہوسکتا.

متوکل غیر اللہ سے بے خوف ہے:

اہل توحید وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں یہ کہہ کر ڈارایا جاتاہے کہ تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں نے ایساکیا ہواہے ان سے ڈروتوان کے ایمان باللہ میں اضافہ ہوجاتاہے اور جواب میں کہتے ہیں کہ اللہ تعاليٰ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ سب سے اچھا وکیل ہے.

( الَّذِینَ قالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزادَهُمْ إِیماناً وَ قالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیل‏ ) در اصل یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صحیح معنوں میں اللہ تعاليٰ کو اپناوکیل پکڑاہواہے ہماری طرح نہیں کہ بس زبان سے کہہ دیا یا صرف قرآن میں “پرھ” لیا.قرآن صرف پڑھائی کے لئے نازل نہیں ہوا بلکہ اس کے نزول کامقصد اسے درست پڑھنا،سمجھنا اور اس پر عمل کرناہے.اسے پڑھ کر اگر توکل کا حال اور اس کی حقیقت و کیفیت پیدا نہ ہوئی تو اس کی ساری کی ساری نامفہوم تلاوت رائیگاں گئی کیایہ بدنصیبی نہیں ہے کہ ساری عمر ان ایات کو پڑھتے ہیں لیکن اللہ تعاليٰ کو شرائط سہ گانہ کے حامل عام دنیاوی وکیل کے برابر بھی نہیں سمجھتے حالانکہ زبانی دعوے کے مطابق تہم نے اسے نعم الوکیل مانا ہواہے.اگر دل سے اسے وکیل مانا ہوتا تو پھر چھوٹے چھوٹے وکیل پکڑنے کی کیا ضرورت تھی.

غیر اللہ سے امید رکھنے والاناکام رہتاہے:

عدةالدعی اور اصول کافی میں ہے کہ محمدب عجلان سخت قسم کے قرض میں دب گیا.اس نے سوچا کہ حاکم مدینہ حسن بن زید کےپاس جاؤں تاکہ اس کے اثرورسوخ سے استفادہ کروں راستے میں جناب محمدبن عبداللہ بن زین العابدینعليه‌السلام سے اس کی ملاقات ہوگئی .آپ نے اس کی پریشانی کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ امیرکے پاس جاتاہوں تاکہ قرض سےنجات کی کوئی صورت نکل سکے.آپ نےفرمایا میں نے اپنے چچا زاد حضرت جعفرالصادقعليه‌السلام سے ایک طولانی حدیث قدسی سنی ہے اس میں تمہاری صورت حال کے بارے میں یہ جملہ ہے:“لَأُقَطِّعَنَّ أَمَلَ كُلِّ مَنْ يُؤَمِّلُ غَيْرِی ‏”مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ہم کہ میں ہر اس شخص کی امید منقطع کردوں گا جو مجھ سےعلاوہ کسی پر امید رکھے.اس طرح وارد ہواہے وای ہو اس انسان پر کہ مانگے بغیر تو ہم نے اسے سب کچھ دے دیا تو اس کے مانگنے پر اسے نہ دیں گے.؟

کیا تونے اللہ تعاليٰ سے تقاضا کیا تھا کہ تجھے دیکھنے کے لئے آنکھ عطافرمائے یا سننے کے لئے کان دے؟تو جب یہ چیزیں جوتیری خلقت او رتکوین کی تکمیل کے لئے ضروری تھیں،تجھے اس نے مانگے بغیر دیں تو کیا مانگنے پر تجھے کچھ نہ دے گا؟.

محمد بن عجلان نےکہا: یہ حدیث دوبارہ پڑھئے،آپ نے دوبارہ پڑھی .اس نے تیری بار پڑھنے کی درخواست کی آپ نے اسے تیسری بار پڑھا وہ سن کر بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا: میں نے اپنا کام اس کے حوالے کیا.اور یہ کہہ کر مطمئین ہو کر چلا گیا.

روایت کے آخر میں ہے کہ زیادہ مدت نہیں گذری تھی کہ اس کی سب پریشانیاں دور ہوگئیں.

ہمیں اسباب نےاندھا اور بہرکردیاہے:

ہم ابھی تک توحید کے اس مقام تک نہیں پہنچے کہ صرف اللہ پر بھروسہ کرسکیں.

دعائے کمیل میں ہے“یامن علیہ معولی”اے وہ ذات جرمیرا واحد سہارا ہے.لیکن کیا ہم بقائی،ہوش و حواس حقیقت بیانی کرتے ہیں؟کیا واقعی ہم اسے اپنا واحد سہارا سمجھتے ہیں؟در اصل اسباب دنیا ہمیں اللہ تعاليٰ سے براہ راست مخاطب نہیں رہنے دیتے تاکہ ہم حقیقت“لاحولا ولاقوة الا بالله ” کو پاسکیں.

آپ نے بارہا سنا ہوگا کہ حوقلہ“لاحولا ولاقوة الا بالله ”بہشت کے دروازے کی چابی ہے. اس کا کہنے والا بہت بڑے ثواب کا مستحق ہے لیکن کیا یہ ثواب اور جنت کے دروازے کی چابی صرف یہ لفظ پڑھ دینے سےمل جاتی ہے؟.

نہیں ایسا نہیں ہے. لیکن اگر کوئی شخص اخلاص قلب سے پورے شعور کے ساتھ یہ الفاظ کہے تو جنت کے دروازے ضرور اس پر کھل جائیں گے لیکن دل کی زبان سے ان کا ادا ہونا اور حوقلہ کی حقیقی کیفیت کا حاصل ہونا جلدی ممکن نہیں اس کے لئےت ریاضت درکارہ ے.

عام طور پر انسان خود کو اور اسباب دنیا کو صاحب حول وقوت سمجھتا ہے.زبان سے تو“لاحولا ولاقوة الا بابی وبالاسباب ”!.

اگر مقصود توکل کی کیفیت کا حصول ہے تو ہمیں ایسے اعمال بجالانے چاہئیں کہ ہمارے دل میں درد پیدا ہوتا تاکہ صحیح طور پر دین کی پیروی کرسکیں یادرکھئے عمر کا صحیح مصرف اور زندگی کا حقیقی مقصد دین خدا میں فقیہ ہوناہے.

توکل کے مراتب ہیں:

یہ جوہم نے کہاہے کہ توکل یہ ہے کہ انسان اپنے خداکے ساتھ موکل و وکیل کا تعلق پیدا کرے تو یہ توکل کا پہلا درجہ ہے.اس بلندتر مرااتب کے حصول کے لئے جدوجہد اور تگ ودو کی ضرورت ہے اگر آپ فطری توکل کاندازہ کرنا چاہتے یہں تو اس توکل پر غور کیجئے جو بچے کاا اپنی ماں پر ہوتاہے کہ نفع وضرر دونوں کےلئے اپنی ماں کی طرف متوجہ ہوتاہے بھوکا ہو تو ٹھوکرکھا گر گرے تو .کسی دوسرے سے پٹنے کاڈرہو تو اس کی توجہ کامرکز صرف اس کی ماں ہوتی ہے.ہر حال میں ماں ہی کو پکارتاہے یہ توکل کی فطری اور جبلی صورت ہے کہ ہر حالت میں اس کا ورد زبان “مان” ہو.

اگر ہم اس حالت کو پالیں تو سمجھئےکہ واسطہ درجے کا توکل ہمیں حاصل ہوگیا تیسرے درجہ کے توکل کی یہ مثال ہے کہ جیسے میت غسال کے ہاتھوں میں ہو یہاں اس کی تشریح کاموقعہ نہیں‌ہے.یہ جویاددہانی کرائی گئی،اس لئے تھی کہ اگر ہم میں سے کسی کو توفیق الہيٰ سے توکل کامقام حاصل ہوجائےتوہم میں غرور نہ پیداہوکہ ہم توکل پر فائز ہوگئے کیونکہ ابھی توکل کے بہت سے مراحل طے کرناباقی ہیں.

توکل کی کیفیت دائمی ہونی چاہئے:

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جب توکل کی کیفیت دائمی ہو،یہ نہیں کہ کبھی توکل ہے اور کبھی نہیں ہے.یہ صورت حال قطعاًناکافی ہے.توکل کی صحیح کیفیت یہ ہے کہ ہمیشہ اللہ تعاليٰ پر بھروسہ ہو اور غیر اللہ پر تکیہ نہ کیاجائے اور اس میں دوام واستمرار کاحصول طویل ریاضت کامتقاضی ہے.

دیکھا آپ نے بچہ کسی کا احسانمند ہوکر بھی ماں ہی کی طرف دیکھتاہے کہ اے ماں میرے محسن کاشکرادا کرکے اس نے تیری خاطر مجھ پر احسان کیا ہے جب وہ احسان ودفع ضرر کے لئے سوائے ماں کے کسی طرف متوجہ نہیں ہوتا او رکسی دوسرے سے بھی اگر اسے کچھ حاصل ہوتاہے توبھی ماں ہی کا احسان مند ہوتاہے .توکیا ہمیں اتنا بھی نہیں چاہئے کہ کم از کم اپنے محسن حقیقی پراتناہی توکل کرنے لگیں جتنا بچے کااپنی ماں پر ہوتاہے.