تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34459
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34459 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۱۱۱،۱۱۲،۱۱۳،۱۱۴،۱۱۵

۱۱۱( وَإِذْ اٴَوْحَیْتُ إِلَی الْحَوَارِیِّینَ اٴَنْ آمِنُوا بِی وَبِرَسُولِی قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِاٴَنَّنَا مُسْلِمُونَ )

۱۱۲( إِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیعُ رَبُّکَ اٴَنْ یُنَزِّلَ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) -

۱۱۳( قَالُوا نُرِیدُ اٴَنْ نَاٴْکُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ اٴَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُونَ عَلَیْهَا مِنْ الشَّاهِدِینَ ) -

۱۱۴( قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللهُمَّ رَبَّنَا اٴَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِاٴَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَاٴَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ) -

۱۱۵( قَالَ اللهُ إِنِّی مُنَزِّلُهَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَإِنِّی اٴُعَذِّبُهُ عَذَابًا لاَاٴُعَذِّبُهُ اٴَحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ ) -

ترجمہ:

۱۱۱ ۔اور وہ وقت یاد کرو جب میں نے حواریون کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے بھیجے ہوئے پر ایمان لاؤ۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے اور تو گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں ۔

۱۱۲ ۔وہ وقت کہ جب حواریون نے یہ کہا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تیرا پروردگار آسمان سے مائدہ نازل کرسکتا ہے تو اُس نے (جواب میں ) کہا اگر تم صاحبان ایمان ہو تو اللہ سے ڈرو ۔

۱۱۳ ۔وہ کہنے لگے (ہم یہ بات بُری نیت سے نہیں کہتے بلکہ) ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل (آپ کی رسالت پر) مطمئن ہوجائیں اور ہم جان لیں کہ تونے ہم سے سچی بات کہی ہے اور ہم اس پر گواہ ہوجائیں ۔

۱۱۴ ۔عیسیٰ (علیه السلام) نے عرض کیا: اے خدا! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما،تا کہ وہ ہمارے اوّل و آخر کے لیے عید قرار پائے اور تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں روزی عطا فرما، تو بہترین روزی دینے والا ہے ۔

۱۱۵ ۔خداوند تعالیٰ نے (اس کی دعا قبول فرمالی اور) کہا: میں اُسے تم پر نازل کروں گا، لیکن جو شخص تم میں سے اس کے بعد کافر ہوجائے گا (اور وہ انکار کی راہ اختیار کرے گا) اُسے میں ایسی سزادوں گا کہ عالمین میں سے ویسی سزا کسی کو نہ دی ہوگی۔

حواریوں پر مائدہ کے نزول کا واقعہ

اس بحث کے بعد جو مسیح(علیه السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں نعمات الٰہی کے سلسلہ میں گذشتہ آیات میں بیان ہوچکی ہے ان آیات میں اُن نعمات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو حواریوں یعنی حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے نزدیکی اصحاب و انصار کو بخشی گئی ہیں ۔

پہلے فرماتا ہے، اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے حواریوں کی طرف وحی بھیجی کہ مجھ پر اور میرے بھیجے ہوئے مسیح(علیه السلام) پر ایمان لے آؤ تو انہوں نے میری دعوت کو قبول کرلیا اور کہا کہ ہم ایمان لے آئے، خدایا! گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں اور تیرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں

( وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ قَالُوْا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ ) ۔

البتہ یہ بات ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ لفظ وحی قرآن کریم میں ایک وسیع معنی کا حامل ہے اور ان وحیوں میں منحصر نہیں ہے کہ جو پیغمبروں پر نازل ہوتی ہیں بلکہ وہ الہام بھی جو مختلف افراد کے دلوں پر ہوتے ہیں اس کے مصداق ہیں اور اسی لیے مادر موسیٰ(علیه السلام) کے بارے میں (سورہ قصص آیت ۷ میں ) وحی کا لفظ آیا ہے ۔(۱) یہاں تک کہ حیوانات کے طبعی و فطری الہامات کے لیے بھی قرآن میں لفظ وحی استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ شہد کی مکھیوں کے لیے ہے ۔

یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اس سے وہ وحی مراد ہو جو حضرت مسیح(علیه السلام) کے ذریعے اور معجزات کی شکل میں ان کی طرف بھیجی جاتی تھی، ہم نے حواریوں کے بارے میں یعنی حضرت عیسیٰ کے اصحاب اور شاگردانِ خاص کے لیے جلد دوم صفحہ ۳۳۷ پر بحث کی ہے ۔(۲)

اس کے بعد مائدہ آسمانی کے نزول کے مشہور واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: مسیح کے اصحابِ خاص نے حضرت عیسیٰ(علیه السلام) سے کہا کیا تیرا پروردگار ہمارے لیے آسمان سے غذا بھیج سکتا ہے( إِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیعُ رَبُّکَ اٴَنْ یُنَزِّلَ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ ) ۔

”مائدہ“ لغت میں خوان، دستر خوان اور طبق کو بھی کہا جاتا ہے اور اُس غذا کو بھی کہتے ہیں جو اُس میں رکھی ہوئی ہو، اصل میں یہ ”مید“ کے مادہ سے بنایا گیا ہے جس کے معنی حرکت دینے اور ہلانے کے ہیں اور شاید دستر خوان اور غذا پر مائدہ کا اطلاق اس نقل وانتقال کی وجہ سے ہی جو اُن میں صورت پذیر ہوتا رہتا ہے ۔

حضرت مسیح(علیه السلام) نے اس مطالبہ پر کہ جس میں ایسے معجزات وآیات دکھانے کے باوجود شک اور تردّد کی بو آرہی تھی، غور کیا اور انھیں تنبیہ کی اور کہا کہ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو( قَالَ اتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) ۔

لیکن انھوں نے جلد ہی حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کو بتادیا کہ ہمارا اس مطالبہ سے کوئی غلط مقصد نہیں ہے اور نہ ہی اس میں ہماری کسی ہٹ دھرمی کی غرض پوشیدہ ہے بلکہ ہماری تمنا یہ ہے کہ ہم اس مائدہ میں سے کھائیں (اور آسمانی غذا کے کھانے سے نورانیت ہمارے دل میں پیدا ہوگی، کیونکہ غذا مسلمہ طور پر روح انسانی پر اثر انداز ہوتی ہے، اس کے علاوہ) ہمارے دلوں میں راحت پیدا ہوگی اور اطمینان حاصل ہوگا اور یہ عظیم معجزہ دیکھنے سے ہم علم الیقین کی سرحد تک پہنچ جائیں گے اور یہ جان لیں گے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے تاکہ ہم اس پر گواہی دے سکیں

( قَالُوا نُرِیدُ اٴَنْ نَاٴْکُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ اٴَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُونَ عَلَیْهَا مِنْ الشَّاهِدِینَ ) ۔

جب حضرت عیسیٰ(علیه السلام) ان کے اس مطالبہ میں ان کی حُسنِ نیت سے آگاہ ہوئے تو ان کی درخواست کو بارگاہ خداوندی میں اس طرح سے بیان فرمایا کہ خداوندا ہمارے لیے آسمان سے مائدہ بھیج جو ہمارے اوّل وآخر کے لئے عید ہو اور تیری طرف سے ایک نشانی شمار ہو اور ہمیں رزق عطا فرما کہ تو ہی بہترین رزی رساں ہے( قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللهُمَّ رَبَّنَا اٴَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِاٴَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَاٴَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ) ۔

اس میں یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیه السلام) نے ان کی درخواست کو بہت ہی عمدہ طریقے سے بارگاہ خداوندی میں پیش کیا، جس میں حق طلبی کی روح کا اظہار بھی پایا جاتا ہے اور اجتماعی وعمومی مصالح کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے ۔

خداوند تعالیٰ نے اس دعا کو کہ جو حسنِ نیت اور خلوص کے ساتھ دل سے نکلی تھی قبول کرلیا اور اُن سے فرمایا کہ: میں اس قسم کا مائدہ تم پر نازل کروں گالیکن اس بات پر بھی توجہ رہنی چاہیے کہ اس مائدہ کے اتر نے کے بعد تمھاری ذمہ داری بہت سخت ہوجائے گی اور اس قسم کا واضح معجزہ دیکھنے کے بعد جس شخص نے راہ کفر اختیار کی تو اُسے ایسی سزادوں گا کہ عالمین میں سے کسی کو ایسی سزا نہیں دی ہوگی( قَالَ اللهُ إِنِّی مُنَزِّلُهَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَإِنِّی اٴُعَذِّبُهُ عَذَابًا لاَاٴُعَذِّبُهُ اٴَحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ ) ۔

چند ضروری نکات کی یاد دہانی

ان آیات میں چند ایسے نکات ہیں کہ جن کا مطالعہ کرنا ضروری ہے:

۱ ۔ مائدہ کے مطالبہ سے کیا مراد تھی؟

اس میں توشک نہیں ہے کہ حوارئین اس درخواست میں کوئی بُرا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور ان کا مقصد حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے مقابلے میں ہٹ دھرمی کرنا نہیں تھا بلکہ مزید اطمینان کی جستجو تھا تاکہ ان کے دلوں کی گہرائیوں میں جو شکوک و شبہات اور دسو سے باقی ہیں وہ بھی دور ہوجائیں ۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی مطلب کو استدلال کے ذریعے یہاں تک کہ کبھی کبھی تجربہ کی بنیاد پر بھی ثابت کرلیتا ہے لیکن جب مسئلہ زیادہ اہم ہوتا ہے تو بہت سے دسو سے اور شکوک و شبہات اس کے دل کے گوشوں میں باقی رہ جاتے ہیں لہٰذا اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یا تو بار بار کے تجربے اور آزمائش کے ذریعے اور یا استدلال علمی کو عینی مشاہدات کے ساتھ بدل کر شکوک و شبہات اور دسوسوں کو اپنے دل کی گہرائیوں سے اکھاڑ کر پھینک دے ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) باوجود اس کے کہ وہ ایمان و یقین کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے پھر بھی خداوند تعالیٰ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مسئلہ معاد کا اپنی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کریں تاکہ ان کا وہ ایمان جو آز روئے علم تھا ”عین الیقین“ اور شہود سے بدل جائے ۔

لیکن اس سبب سے کہ حواریوں کے مطالبہ کا ظاہری طور پر جو مطلب نکلتا تھا وہ چھبتا ہوا معلوم ہوتا تھا لہٰذا حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے اسے بہانہ جوئی پر محلول کیا اور ان پر اعتراض کیا، لیکن جب انہوں نے کافی وضاحت کے ساتھ اپنا مقصد روشن کردیا تو حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے بھی ان کی بات کو تسلیم کرلیا ۔

۲ ۔ ”( هَلْ ییَسْتَطِیْعُ رَبُُکَ ) “ سے کیا مراد ہے؟

مسلمہ طور پر ابتدا میں یہ جملہ یہی معنی دیتا ہے کہ حوارئین نزول مائدہ کے سلسلے میں قدرت خدا میں شک رکھتے تھے لیکن اس کی تفسیر میں اسلامی مفسّرین کے بعض بیانات جالب نظر ہیں ، پہلا یہ کہ یہ درخواست انھوں نے ابتدائے کار میں کی تھی، جبکہ وہ مکمل طور پر صفات خداوندی سے آشنا نہیں ہوئے تھے، دوسرا یہ کہ ان کی مراد یہ تھی کہ کیا خداوند تعالیٰ کے نزدیک اس میں مصلحت ہے کہ وہ اس قسم کا مائدہ ہم پر نازل کردے، جیسا کہ مثال کے طور پر ایک شخص دوسرے سے یہ کہے کہ میں اپنی ساری دولت فلاں شخص کے ہاتھ میں نہیں دے سکتا، یعنی میں اس میں مصلحت نہیں سمجھتا ، نہ یہ کہ میں قدرت نہیں رکھتا، تیسرا یہ کہ ”یستطیع“ کا معنی ”یستجیب“ ہو، کیونکہ مادہ طوع کا معنی انقیاد ومطیع ہونا ہے اور جب وہ باب (استفعال) میں چلا جائے تو پھر اس سے یہ مطلب لیا جاسکتا ہے ۔ اس بناپر اس جملے کا یہ معنی ہوگا کہ کیا تیرا پروردگار ہماری اس بات کو قبول کرے گا کہ آسمانی مائدہ ہم پر نال کرے ۔

۳ ۔ یہ آسمانی مائدہ کیا تھا؟

یہ آسمانی مائدہ جن چیزوں پر مشتمل تھا ان کے بارے میں قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں ہے لیکن احادیث میں کہ جن میں سے ایک حدیث امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھانا چند روٹیاں اور چند مچھلیاں تھیں ۔ شایداس قسم کے معجزے کے مطالبے کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے سُن رکھا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے بنی اسرائیل پر مائدہ آسمانی اُترا تھا ۔ لہٰذا انھوں نے بھی حضرت عیسی(علیه السلام)ٰ سے اسی قسم کا تقاضا کیا ۔

۴ ۔ کیا ان پر کوئی مائدہ نازل ہوا؟

باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا آیات نزول مائدہ کو تقریباً صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہیں کیونکہ خداوندتعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض مفسّرین نے نزول مائدہ کی تردید کی ہے اور انھوں نے یہ کہا ہے کہ جب حوارئین نے نزول مائدہ کے بعد سخت ذمہ داری کا احساس کیا تو انھوں نے اپنا مطالبہ ترک کردیا لیکن حق بات یہ ہے کہ مائدہ ان پر نازل ہوا ۔

۵ ۔ عید کسے کہتے ہیں ؟

عید لغت میں مادہ عود سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی بازگشت (لوٹ آنا) کے ہیں ، اسی لئے اُن دنوں کو جن میں کسی قوم وملّت کی مشکلات برطرف ہوجاتی ہیں اور وہ پہلے جیسی کامیابیوں اور راحتوں کی طرف پلٹ آتی ہے، عید کہا جاتا ہے، اسلامی عیدوں کو اس مناسب سے عید کہا جاتا ہے کہ ماہِ مبارک رمضان میں ایک مہینے کی اطاعت کے بعد یا حج کا عظیم فریضہ انجام دینے کی وجہ سے روح میں پہلی سی فطری صفائی اور پاکیزگی لوٹ آتی ہے اور وہ آلودگیاں جو خلاف فطرت ہیں ختم ہوجاتی ہیں ، چونکہ نزول مائدہ کا دن کامیابی، پاکیزگی اور خدا پر ایمان لانے کی طرف بازگشت کا دن تھا لہٰذا حضرت عیسیٰ(علیه السلام) نے اس کا نام عید رکھا، جیسا کہ روایات میں آیا ہے مائدہ کا نزول اتوار کے دن ہوا تھا لہٰذا شاید عیسائیوں کے نزدیک اتوار کے احترام کی علتوں میں سے ایک علت یہ بھی ہو ۔

حضرت علی علیہ السلام سے نقل شدہ ایک روایت میں ہے کہ:

وکل یوم لایعصی الله فیه فهو یوم عید

”یعنی ہر وہ دن کہ جس میں خداوند تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے وہ عید کا دن ہے“(۳)

یہ بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے کیونکہ گناہ کو چھوڑنے کا دن کامیابی، پاکیزگی اور فطرت اوّلیہ کی طرف لوٹنے کا دن ہے ۔

۶ ۔ عذاب شدید کس بناپر تھا؟

یہاں پر ایک اہم نکتہ ہے جس کی طرف توجہ کرنا چاہیے اور وہ یہ کہ جب ایمان مرحلہ شہود اور عین الیقین کو پہنچ جائے یعنی حقیقت کو آنکھ سے دیکھ لے اور کسی قسم کے تردّد اور وسوسے کی گنجائش باقی نہ رہے تو پھر ایسے شخص کی ذمہ داری اور مسئولیت بہت زیادہ سخت ہوجاتی ہے، کیونکہ اب یہ وہ سابق انسان نہیں ہے کہ جس کا ایمان پایہ شہود پر نہیں تھا اور کبھی کبھار اس میں وسوسے پیدا ہوجاتے تھے، وہ ایمان اور ذمہ داری کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، اب اس کی تھوڑی تقصیر اور کوتاہی بھی مجازات شدید اور سخت سزا کا سبب بنے گی، اسی لیے تو انبیاء اور اولیائے خدا کی مسئولیت بہت سخت تھی اسی طرح کہ وہ ہمیشہ اُس سے وحشت وپریشانی میں رہتے تھے، ہم اپنی روزمرّہ کی زندگی میں بھی اس قسم کی باتوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں ، مثلاً اصولی طور پر ہر کسی کو معلوم ہے کہ اُس کے شہر اور علاقے میں کئی بھوکے ایسے موجود ہیں جن کے بارے میں اُس سے بازپُرس ہوگی، لیکن جب وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ ایک بے گناہ انسان بھوک کی شدّت سے فریاد کررہا ہے تو اب اس کی جوابدہی کی صورت مل جائے گی اور سخت تر ہوجائے گی۔

۷ ۔ عہد جدید اور مائدہ: موجودہ چاروں انجیلوں میں مائدہ کے بارے میں اس طرح گفتگو نہیں ہے جس طرح کہ ہم قرآن مجید میں دیکھتے ہیں ، اگرچہ انجیل یوجنا باب ۲۱ میں ایک بیان ایسا موجود ہے کہ جس میں حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کی طرف سے لوگوں کو کھانا کھلانے اور اُن کی طرف سے روٹی اور مچھلی کے ساتھ معجزانہ طور پر دعوت کا ذکر کیا گیا ہے لیکن تھوڑی سی توجہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا مائدہ آسمانی اور حواریوں کے مسئلے سے کوئی ربط نہیں ہے(۴)

کتاب ”اعمالِ رسولان“ میں بھی جو ”عہد جدید“ کی ایک کتاب ہے، پطرس نامی ایک حواری پر نزول مائدہ کا ذکر کیا گیا ہے، وہ بھی اُس بحث سے الگ چیز ہے کہ جس کے بارے میں ہم گفتگو کررہے ہیں ، لیکن کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے ایسے حقائق ہیں کہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل نہیں ہوئے تھے لہٰذا اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے نزول مائدہ کے واقعہ کے سلسلے میں کوئی مشکل پیدا نہیں ہوگی(۵)

____________________

۱۔وَاٴَوْحَیْنَا إِلَی اٴُمِّ مُوسَی اٴَنْ اٴَرْضِعِیهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاٴَلْقِیهِ فِی الْیَمِّ ---- ”ہم نے موسیٰ کی والدہ پر وحی کی کہ اُسے دودھ پلاؤ اور جب اس کے بارے میں تمھیں ڈر ہو تو اُسے دریا میں پھینک دو“

۲۔اردو ترجمہ میں دیکھئے-

۳۔ نہج البلاغہ، کلمات قصار، ۴۲۸-

۴۔ الہدیٰ الیٰ دین المصطفیٰ، ج۲، ص۲۴۹-

۵۔ حوالہ سابقہ-

آیات ۱۱۶،۱۱۷،۱۱۸

۱۱۶( وَإِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اٴَاٴَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاٴُمِّی إِلَهَیْنِ مِنْ دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی اٴَنْ اٴَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ إِنْ کُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَلاَاٴَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ) -

۱۱۷( مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلاَّ مَا اٴَمَرْتَنِی بِهِ اٴَنْ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ وَکُنتُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا مَا دُمْتُ فِیهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنتَ اٴَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْهِمْ وَاٴَنْتَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ ) -

۱۱۸( إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّکَ اٴَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ) -

ترجمہ:

۱۱۶ ۔وہ وقت یاد کرو جب خداوندتعالیٰ عیسیٰ ابن مریم سے کہے گا کہ (اے عیسیٰ) کیا تونے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو الله کے علاوہ دو خدا بنالو، وہ جواب دیں گے کہ تیری ذات پاک ہے، مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ ایسی بات کہوں جو میرے لائق نہیں ہے، اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہوگی تو اس کا تجھے ضرور علم ہوگا ۔ تُو ان سب باتوں کو جاننا ہے کہ جو میرے نفس وروح میں ہیں ، لیکن میں جو کچھ تیری ذات پاک میں ہے اُسے نہیں جانتا کیونکہ تو تمام اسرار اور پوشیدہ چیزوں سے باخبر ہے ۔

۱۱۷ ۔مجھے تو نے جس کام پر مامور کیا تھا اُس کے سوا اُن سے اور کوئی بات نہیں کہی تھی ۔ میں نے تو اُن سے یہی کہا تھا کہ اُس خدا کی پرستش کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھار بھی پروردگار ہے اور میں تو اس وقت تک ہی اُن کا نگران اور گواہ تھا جب تک کہ اُن کے درمیان تھا اور جب تونے مجھے ان کے درمیان سے اٹھالیا تو پھر تُو ہی اُن کا نگران تھا اور تو ہی ہر چیز پر گواہ ہے ۔

۱۱۸ ۔ (اس صورت میں )اگر تُو انھیں سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں (اور وہ تیری عدم حکمت کی نشانی ہے اور نہ ہی تیری بخشش کمزوری کی علامت ہے) ۔

حضرت مسیح(علیه السلام) کی اپنے پیروکاروں کے شرک سے بیزاری

یہ آیات قیامت کے دن حضرت مسیح(علیه السلام) سے گفتگو کے بارے میں ہیں اور دلیل اس کی یہ ہے کہ بعد کی چند آیات میں ہے کہ:”( هَذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُهُمْ )

”آج کا دن وہ دن ہے کہ جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی“

اور یہ بات مسلّم ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے ۔

اس کے علاوہ( فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنتَ اٴَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْهِمْ ) کا جملہ اس پر دوسری دلیل ہے کہ یہ گفتگو مسیح(علیه السلام) کی نبوت ورسالت کا زمانہ گزرنے کے بعد کی ہے اور آیت کی ابتدا ”قال“کے جملے ساتھ کرنا کہ جو فعل ماضی کے لیے ہے کوئی مشکل پیدا نہیں کرتا، کیونکہ قرآن مجید میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ قیامت سے مربوط مسائل زمان ماضی کی شکل میں بیان کیے گئے ہیں اور یہ چیز قیامت کے قطعی ویقینی ہونے کی دلیل ہے یعنی اس کا زمانہ آئندہ میں واقع ہونا ایسا مسلّم ہے گویا کہ وہ زمانہ ماضی میں واقع ہوچکا ہے لہٰذا اسے فعل ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے ۔

بہر حال پہلی آیت یہ کہتی ہے کہ خداوند تعالیٰ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ(علیه السلام) سے کہے گا کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو الله کے علاوہ اپنا معبود قرار دو اور ہماری پرستش کرو( وَإِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اٴَاٴَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاٴُمِّی إِلَهَیْنِ مِنْ دُونِ اللهِ ) ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیه السلام) نے کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے بلکہ صرف توحید اور عبادت خدا کی دعوت دی ہے، لیکن اس استفہام کا مطلب یہ ہے کہ اُن سے اُن کی اُمت کے سامنے اقرار لے کر اُن کی اُمت کا جرم ثابت کیا جائے ۔

مسیح علیہ السلام اس سوال کے جواب میں انتہائی احترام کے ساتھ چند جملے کہیں گے:

۱ ۔ پہلے خداوندتعالیٰ کو ہر قسم کے شریک وشبیہ سے پاک کرتے ہوئے کہیں گے: اے خدا! تو ہر قسم کے شریک سے پاک ہے( قَالَ سُبْحَانَکَ ) ۔

۲ ۔ کس طرح ممکن ہے کہ میں ایسی بات کہوں جو میرے لیے شائستہ اور مناسب نہیں ہے( مَا یَکُونُ لِی اٴَنْ اٴَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ ) ۔

حقیقت میں نہ صرف اس بات کے کہنے کی وہ اپنے سے نفی کرتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر میں اس قسم کا کوئی حق ہی نہیں رکھتا اور اس قسم کی گفتگو میں مرتبہ ومقام کے ساتھ ہرگز سازگار ہی نہیں ۔

۳ ۔ اس کے بعد پروردگار عالم کے علم بے پایاں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : میری گواہ یہ حقیقت ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو تجھے اس کا علم ضرور ہوتا کیونکہ تو اس سے بھی آگاہ ہے جو میری روح کے اندر ہے جبکہ میں اُس سے بے خبر ہوں جو تیری ذات پاک میں ہے، کیونکہ علام الغیوب ہے اور تمام رازوں اور پوشیدہ چیزوں سے باخبر ہے( إِنْ کُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَلاَاٴَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ) ۔(۱)

۴ ۔ میں نے جو بات ان سے کہی ہے وہ صرف وہی تھی جس کے لئے تو نے مجھے مامور کیا تھا اور وہ یہ کہ میں انھیں تیری عبادت کی طرف دعوت دوں اور اُن سے کہوں کہ اس خدائے یگانہ کی پرستش کرو کہ جو میرا اور تمھارا پروردگار ہے( مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلاَّ مَا اٴَمَرْتَنِی بِهِ اٴَنْ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ ) ۔

۵ ۔ اور جس وقت تک میں اُن کے درمیان رہا ان کا نگران وگواہ تھا اور میں نے انھیں راہِ شرک اختیار نہیں کرنے دیا، لیکن جب تونے مجھے اُن کے درمیان سے اٹھالیا تو پھر تُو ہی اُن کا نگران ونگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے( وَکُنتُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا مَا دُمْتُ فِیهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنتَ اٴَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْهِمْ وَاٴَنْتَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ ) ۔(۲)

۶ ۔ ان تمام باتوں کے باوجود پھر بھی حکم تو تیرا چلے گا ہی اور جو تو چاہے گا وہی ہوگا، اب اگر تو انھیں ان کے اس عظیم انحراف پر سزا دے گا تو وہ تیرے بندے ہیں اور وہ تیری سزا سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکیں گے اور تیرا یہ حق تیرے نافرمان بندوں کے لیے ثابت ہے اور اگر تو انھیں بخش دے اور ان کے گناہوں کی طرف سے چشم پوشی کرے تو توانا وحکیم ہے نہ تو تیری بخشش ہی کمزوری کی علامت ہے اور نہ ہی تیری سزا حکمت وحساب سے خالی ہے( إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّکَ اٴَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ) ۔

____________________

۱۔ یہاں پر لفظ نفس کا اطلاق روح اور جان کے معنی میں نہیں ہے بلکہ نفس کا ایک معنی ذات ہے (جیسے کہتے ہیں وہ نفس بنفیس آئے) ۔

۲۔ ”توفی“ کے معنی کے بارے میں اور یہ کہ اس سے مراد مرنا نہیں ہے، سورہ آل عمران کی آیت ۵۵ کے ذیل میں صفحہ ۲۴۱ پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے (جلد۲، اردو ترجمہ)

دوسوال اور ان کا جواب

۱ ۔ کیا عیسائیوں کی تاریخ میں کہیں دیکھا گیا ہے کہ وہ مریم کو اپنا معبود قرار دیتے ہوں ۔ یا یہ کہ وہ صرف تثلیث یعنی تین خداؤں ”باپ خدا“، ”بیٹا خدا“ اور ”روح القدس“ کے قائل تھے اور اس میں شک نہیں ہے کہ ان کے نظریہ کے مطابق ”روح القدس“ ”باپ خدا“ اور ”بیٹا خدا“ کے درمیان واسطہ ہے اور وہ مریم کے علاوہ ہے ۔

اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تو صحیح ہے کہ عیسائی حضرت مریم کو خدا تو نہیں جانتے تھے لیکن اس کے باوجود اُن کے اور اُن کے مجسمے کے سامنے مراسم عبادت سرانجام دیتے رہے تھے جیسا کہ بت پرست بتوں کو خدا نہیں سمجھتے تھے پھر بھی انھیں عبادت میں خدا کا شریک سمجھتے تھے اور زیادہ واضح الفاظ میں ”الله“ بمعنی خدا اور ”الٰہ“ بمعنی معبود میں فرق ہے، عیسائی جناب مریم کو الٰہ یعنی معبود جانتے تھے نہ کہ خدا ۔

ایک مفسّر کی تعبیرکے مطابق اگرچہ کوئی عیسائی فرقہ ”اِلٰہ“ اور ”معبود“ کا اطلاق جناب مریم پر نہیں کرتا بلکہ انھیں صرف خدا کی ماں سمجھتے ہیں ، لیکن عملی طور پر اس کے سامنے خصوع خشوع اور مراسم عبادت بجالاتے ہیں ، چاہے یہ نام ان کے لیے رکھیں یا نہ رکھیں ۔ اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ بیروت میں عیسائیوں کے مجلہ ’مشرق“ کے ساتویں سال کے نویں شمارے میں پاپ بیوس نہم کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر حضرت مریم کی شخصیت کے بارے میں چند قابلِ ملاحظہ مطالب منتشر ہوئے تھے اس شمارہ میں پوری صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ مشرقی گرجوں میں بھی مغربی گرجوں کی طرح حضرت میرم کی عبادت کی جاتی ہے ۔ اسی مجلہ کے پانچویں سال کے چودھویں شمارے میں ایک مقالہ انستاس کرملی کے قلم سے لکھا ہوا درج تھا جس میں یہ کوشش کی گئی تھی کہ حضرت مریم کی عبادت کے مسئلہ کے سلسلہ میں عہد عتیق اور تورات سے بھی کوئی دلیل پیدا کی جائے ۔ چنانچہ وہ سانپ (شیطان) اور عورت (حوّا) کی دشمنی کی داستان کو مریم کے عنوان سے تفسیر کرتا ہے ۔ اس بناپر حضرت مریم(علیه السلام) کی پرستش اور عبادت ان میں موجود ہے ۔

۲ ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح(علیه السلام) ایسے الفاظ میں جس سے شفاعت کی بو آتی ہے اپنی اُمت کے مشرکین کے بارے میں کیوں گفتگو کرتے ہیں اور یہ کیوں عرض کرتے ہیں کہ اگر تو انھیں بخش دے تو تُو عزیز وحکیم ہے ۔

اس کے جواب میں اس نکتے کی طرف توجہ رکھنی چاہیے کہ اگر حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کا ہدف شفاعت ہوتا تو آپ یوں فرماتے کہ( اِنَّکَ اَنتَ الغَفُورُ الرَّحِیم ) کیونکہ خدا کا غفور ورحیم ہونا مقام شفاعت کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ خدا کی عزیز وحکیم کے ساتھ توصیف کررہے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لیے شفاعت اور بخشش کی درخواست منظور نہیں ہے بلکہ اس میں اصلیہدف اپنی ذات سے ہر قسم کے اختیار کی نفی کرنا اور معاملہ کو پروردگار کے سپُرد کرنا ہے یعنی یہ کام تیرے ہی ہاتھ میں ہے اگر چاہے تو بخش دے اور اگر چاہے تو سزا دے اگرچہ نہ تیری سزا بغیر دلیل کے ہے اور نہ ہی تیری بخشش بغیر علّت وسبب کے ہے اور ہر حالت میں تیری قدرت وتوانائی سے تو باہر ہی ہے ۔

علاوہ ازیں یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے درمیان کسی گروہ نے اپنے اشتباہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے توبہ کی راہ اختیار کرلی ہو اور یہ جملہ اُس گروہ کے بارے میں ہو ۔

____________________

۱۔ تفسیر المنار، ج۷، ص۲۶۳-

آیات ۱۱۹،۱۲۰

۱۱۹( قَالَ اللهُ هَذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا اٴَبَدًا رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) -

۱۲۰( لِلَّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا فِیهِنَّ وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) -

ترجمہ:

۱۱۹ ۔ خدا کہتا ہے کہ یہ وہ دن ہے جس میں سچّوں کو ان کی سچائی فائدہ بخشے گی ۔ ان کے لیے جنت کے باغات ہیں جن کے (درختوں ) کے نیچے پانی کی نہریں جاری ہیں ، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، خدا اُن سے راضی وخوشنود ہوگا اور وہ خدا سے راضی اور خوشنود ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔

۱۲۰ ۔ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان تمام چیزوں کی حکومت الله ہی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

تفسیر

عظیم کامیابی

روز قیامت خداوند تعالیٰ کی حضرت عیسیٰ(علیه السلام) سے گفتگو جس کی تشریح گذشتہ آیات میں ہوچکی ہے کے ذکر کے بعد اس آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ اس گفتگو کے بعد یوں فرماتا ہے: آج کا دن وہ دن ہے جس میں سچوں کو اُن کی سچائی فائدہ دے گی( قَالَ اللهُ هَذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُهُمْ ) ۔

یقینا اس جملے میں صدق وراستی سے مراد دنیا میں گفتار وکردار اور راستی وسچائی ہے جو آخرت میں مفید ہوگی ورنہ آخرت کی سچائی اور راستی جو کہ محل تکلیف ہی نہیں ہے وہ کوئی فائدہ بھی نہیں دے گی اس کے علاوہ اس دن کی تو حالت وکیفیت ہی ایسی ہوگی کہ کوئی شخص سچائی کے سوا کچھ اور کہہ ہی نہ سکے گا ۔ یہاں تک کہ سب ہی گنہگار وخطاکار اپنے اپنے اعمالِ بد کا اعتراف کرلیں گے اور یوں اس دن جھوٹ بولنے کا کوئی وجود ہی نہ ہوگا ۔

اس بناپر وہ لوگ جنھوں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا اور اپنی رسالت کا کام انجام دیا اور سچائی اور درستی کے سوا انھوں نے اور کوئی راستہ اختیار نہیں کیا، جیسے حضرت مسیح علیہ السلام اور ان کے سچے پیرو یا باقی تمام انبیاء علیہم السلام کے سچے پیروکار کہ جو اس دنیا میں سچائی کی راہ پر گامزن ہوئے ۔ وہ اپنے اعمال سے پوری طرح بہرہ مند ہوں گے ۔

ضمناً اس جملے سے اجمالی طور پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدق وراستی میں تمام نیکیوں کا خلاصہ آجاتا ہے ۔ گفتار میں صداقت وراستی اور عمل میں صداقت وراستی اور قیامت کے دن صرف صداقت وراستی ہی وہ سرمایہ ہے کہ جو کام آئے گا اس کے علاوہ اور کچھ کام نہیں آئے گا ۔

اس کے بعد سچوں کو ملنے والی جزا کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے: ان کے لیے بہشت کے باغات ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اُسی میں رہیں گے( لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا اٴَبَدًا ) ۔

اور اس مادی نعمت سے زیادہ اہم یہ ہے کہ خدا بھی ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں( رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ) ۔

یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں بہشت کے باغوں کا اس کی تمام نعمتوں کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد خدا کی اپنے بندوں سے خوشنودی اور بندوں کی خدا سے خوشنودی کی نعمت کا ذکر ہے اور اس کے بعد( ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) کا جملہ ہے اس سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ طرفین کی یہ رضایت وخوشنودی کس قدر اہمیت کی حامل ہے (خدا کی بندوں سے خوشنودی اور بندوں کی خدا سے خوشنودی) ۔

کیونکہ عین ممکن ہے کہ انسان اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتوں میں غرق ہو لیکن جب وہ یہ احساس کرے گا کہ اس کا مولیٰ اور اس کا معبود ومحبوب اس سے ناراض ہے تو وہ تمام نعمتیں اس کی روح کے لئے تلخی اور اذیت کا سبب بن جائے گی۔

یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کو ہر چیز میسر ہو لیکن جو کچھ اُس کے پاس ہے وہ اُس پر راضی وقانع نہ ہو ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ تمام نعمتیں اس کیفیت کے ساتھ سب سے اس کو خوش بخت نہیں رکھ سکتیں اور اُسے اندرونی تکلیف ہمیشہ آزار میں رکھے گی اور روحانی اطمینان جو کہ سب سے بڑی نعمت الٰہی اُس سے چھین لے گی۔

علاوہ ازیں جب خدا کسی سے خوش ہوگا تو جو کچھ وہ چاہے گا خدا اُسے دے گا اور جب یہ اُس کو وہ کچھ دے دے، جو وہ چاہتا ہے تو وہ بھی اُس سے خوش ہوگا ۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ خدا نسان سے خوش ہو اور وہ بھی اپنے خدا سے راضی ہو ۔

آخری آیت میں آسمانوں ، زمین اور جوکچھ اُن کے درمیان ہے پر خدا کی حاکمیت ومالکیت کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اس کی قدرت کی عمومیت تمام چیزوں پر بیان ہوئی ہے( لِلّٰهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا فِیهِنَّ وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ۔

یہ تذکرہ حقیقت میں خدا سے بندوں کی رضا وخوشنودی کی دلیل اور علت کے عنوان سے آیا ہے کیونکہ جو ہستی تمام چیزوں پر قدرت رکھتی ہو اور جو سراسر عالم ہستی پر حکومت رکھتی ہو وہ قدرت رکھتی ہے کہ جو کچھ اس کے بندے اس سے چاہیں وہ انھیں بخش دے اور اُنھیں خوشنود وراضی کرے ۔

ضمنی طور پر یہ بھی ہوسکتا ہے یہاں مریم کی پرستش کے سلسلے میں عیسائیوں کے عمل کے غلط ہونے کی طرف اشارہ ہو کیونکہ عبادت کے لائق تو صرف وہ ذات ہے جو سراسر عالم آفرینش پر حکمران ہو نہ کہ مریم جو کہ مخلوق ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ۔

یہاں پر سورہ مائدہ کی تفسیر اختتام کو پہنچتی ہے