تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34460
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34460 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیت ۷

۷( وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَابًا فِی قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِاٴَیْدِیهِمْ لَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ ) -

ترجمہ:

۷ ۔اگر ہم کاغذ پر(لکھی ہوئی کوئی)کتاب تجھ پر نازل کرتے اور وہ(دیکھنے کے علاوہ) اسے اپنے ہاتھوں سے چھوتے بھی تو پھر بھی کفار یہی کہتے کہ یہ تو کھلے جادو کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔

ہٹ دھرمی کا آخری درجہ

ان کے انحراف کے اسباب میں سے دوسری چیز تکبر اور ہٹ دھرمی ہے کہ جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہوا ہے، کیونکہ عام طور پر متکبر لوگ ہی ہٹ دھرم ہوتے ہیں ،کیونکہ تکبر انھیں حق سے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی اجازت نہیں دیت، یہی بات ان کی ہٹ دھرمی کا سبب بن جاتی ہے اور وہ ہر واضح دلیل اور روشن برہان کا اسی طرح سے انکار کرتے ہیں خواہ ان کا وہ انکار بدیہیات کے انکار تک پہنچ جائے جیسا کہ ہم نے بارہا خود اپنی ٍٍٍٍٍٍآنکھوں سے متکبر اور خود خواہ افراد میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے ۔

قرآن اس مقام پر بعض بت پرستوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نصر بن حارث، عبداللہ بن ابی امیہ اور نوفل بن خویلد تھے انھوں نے پیغمبر سے یہ کہا تھا کہ ہم صرف اس صورت میں ایمان لائےں گے جب خدا کی طرف سے ہم پر چار فرشتوں کے ساتھ ہم پر خط نازل ہوگا، قرآن کہتا ہے: اگر اسی طرح جیسا کہ ان کا مطالبہ ہے کسی کاغذ کے صفحہ پر ہی کوئی تحریر یا اس کی مانند کوئی اورچیز کوئی تم پر نازل کردے اور مشاہدہ کرنے کے علاوہ اسے اپنے ہاتھ چھوئیں بھی پھر بھی وہ یہی کہیں گے کہ یہ تو ایک کھلا ہوا جادو ہے( وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَابًا فِی قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِاٴَیْدِیهِمْ لَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ ) ۔

یعنی ان کی ہٹ دھرمی کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ وہ روشن ترین محسوسات کا بھی یعنی ان باتوں کا بھی جو دیکھنے اور چھو نے سے معلوم ہوسکتی ہے انکار کردیتے ہیں اور جادو کا بہانہ کر کے اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے روگرداں ہوجاتے ہیں ۔

حالانکہ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں حقائق کے ثبوت کے لئے ان نشانیوں کے دسویں حصہ پر ہی قناعت کرلیتے ہیں اور اسے ہی قطعی اور مسلم جان لیتے ہیں ، یہ بات صرف اس وجہ سے ہے کہ خود خواہی، تکبر وشدید ہٹ دھر می نے ان کی روح پر سایہ ڈال رکھا ہے ۔

ظنی طور پر اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ ”قرطاس“ کا معنی ہر وہ چیز ہے کہ جس پر لکھتے ہیں خواہ وہ چیز کاغذ ہو یا چمڑا یا تختیاں آج قرطاس صرف کاغذ کا کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جن چیزوں پر لکھا جاتا ہے ان میں سے کاغذ کا ہی سب سے زیادہ رواج ہے ۔

آیات ۸،۹،۱۰

۸( وَقَالُوا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْهِ مَلَکٌ وَلَوْ اٴَنزَلْنَا مَلَکًا لَقُضِیَ الْاٴَمْرُ ثُمَّ لاَیُنظَرُونَ )

۹( وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَا یَلْبِسُونَ

) ۱۰( وَلَقَدْ اسْتُهْزِءَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُون ) ۔

ترجمہ:

۸ ۔ انھوں نے کہا کہ اس کے اوپر فرشتہ کیوں نہ نازل (تاکہ لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینے میں اس ک مدد کرتا) لیکن اگر ہم کوئی فرشتہ بھیج دیتے (اور اصل امر محسوس طور پر مشاہدہ میں آجاتا) تو پھرتو معاملہ صاف ہوجاتا (اور ایسی صورت میں اگر وہ مخالفت کریں گے)تو پھر انھیں مہلت نہیں دی جائے گی ( اور وہ سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے)

۹ ۔اور اگر اسے فرشتہ قرار دیتے تو یقینا سے بھی ایک مرد کی صورت میں ہی لاتے پھر بھی (ان کے خیال کے مطابق تو) ہم معاملہ کو ان پر مشتبہ ہی چھوڑ دیتے جیسے وہ دوسروں پر معاملہ مشتبہ بناتے ہیں ۔

۱۰ ۔ (اس حالت سے پریشان نہ ہو )تجھ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کا مذاق اڑا گیا تھا، لیکن آخر کار جس چیز کا وہ مذاق اڑا تے تھے اسی نے ان کا دامن پکڑ لیا( اور ان پر عذاب الٰہی نازل ہوگیا) ۔

بہانہ تراشیاں

کفر اور انکار کے اسباب میں سے ایک اور سبب بہانہ جوئی ہے ، اگر چہ بہانہ جوئی کی علامت بھی دوسرے عوامل مثلا تکبر وخود خواہی وغیرہ ہی ہے، لیکن یہ آہستہ آہستہ ایک منفی فکر کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور یہ خود حق کے مقابلہ میں سرتسلیم خم نہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے ۔

ان بہانہ تراشیوں میں سے کہ جو مشرکین پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے مقابلہ میں کیا کرتے تھے اور قرآن مجید کی کئی آیات میں ان کی طرف اشارہ بھی ہوا ہے اور زیر بحث آیت میں بھی ان کا بیان ہوا ہے ،ایک یہ ہے کہ وہ کہتے تھے کہ پیغمبر اتنے عظیم کام کو اکیلے ہی اپنے ہاتھ میں کیوں لے لیا ہے ،اس ماموریت میں کوئی اور موجود ،جو نوع بشر میں سے نہ ہو بلکہ فرشتوں کی جنس سے ہو، ان کی ہمراہی کیوں نہیں کرتا، کیا ایسا نسان کہ جو ہماری ہی جنس سے ہو تنہا بار رسالت کا اپنے کندھے پر اٹھا سکتا ہے؟( وَقَالُوا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْهِ مَلَکٌ وَلَوْ اٴَنزَلْنَا مَلَکًا ) ۔

حالانکہ آپ کی نبوت کے ثبوت میں واضح نشانیوں اور روشن دلائل کے ہوتے ہوئے ان بہانہ تراشیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، علاوہ ازیں نہ تو فرشتہ انسان سے زیادہ قدرت رکھتا ہے اور نہ ہی اس سے زیادہ رسالت کے لئے استعداد بلکہ انسان اس سے کئی درجے زیادہ اہل ہے، قرآن دو جملوں کے ساتھ کہ جن میں سے ہرایک اپنے اندر ایک استدلال رکھتا ہے انھیں جواب دیتا ہے ۔

پہلا یہ کہ اگر فرشتہ نازل ہوجائے اور پھر وہ ایمان نہ لائےں ،تو ان سب کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا( وَلَوْ اٴَنزَلْنَا مَلَکًا لَقُضِیَ الْاٴَمْرُ ثُمَّ لاَیُنظَرُون ) ۔

لیکن یہ بات کہ فرشتے کے آنے اور اس کی پیغمبر کی ہمراہی سے منکرین کیوں موت اور ہلاکت میں گرفتار ہوں گے، اس کی دلیل وہی ہے کہ جس کی طرف قبل کی چند آیات میں اشارہ ہوچکا ہے کہ اگر نبوت کا محسوس طور پر مشاہدہ ہوجائے، یعنی فرشتے کے آنے سے غیب شہود میں بدل جائے اور تمام چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو پھر تو اتمام حجت کا آخری مرحلہ بھی پورا ہوجائے گا کیوں کہ اس سے بڑھ کر اور کسی دلیل کا تصور ہو ہی نہیں سکتا، تو ان حالات میں اگر کوئی مخالفت کرے گا تو اس کی سزا اور عذاب یقینی ہوجائے گا ۔لیکن خدوند تعالیٰ انپے لطف مرحمت کی وجہ سے اور اس غرض سے ان کے پاس نظر ثانی کے لئے موقع باقی رہے یہ کام نہیں کرتا، مگر خاص موقع پر کہ جہاں وہ یہ جانتا ہے کہ مدمقابل اسے قبول کرنے کی مکمل استعداد رکھتا ہے یا ایسے موقع پر جہاں جانب مخالف نابود ہونے کا مستحق ہے، یعنی اس نے ایسے عمل انجام دئے ہوں کہ وہ خدائی سزا کا مستحق بن گیا ہو، تو اس موقع پر اس کے تقاضے کے مطابق ترتیب اثر دیا جاتا ہے، اور جب وہ قبول نہیں کرتا تو اس کی نابودی کا حکم صادر ہوجاتا ہے ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے مقام رہبری اور لوگوں کی تربیت کے ذمہ دار ہونے اور ان کے لئے عملی نمونہ پیش کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ لازما نوع بشر میں سے ہوں اور ان کے ہمرنگ اور ہم صفات ہوں اور تمام غرائض وصفات انسانی ان میں موجود ہوں کیوں کہ فرشتہ، علاوہ اس کے کہ وہ انسان کے لئے دیکھنے کے قابل نہیں ہے، اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ انسان کے لئے نمونہ عمل بن سکے کیونکہ نہ وہ انسان کی ضروریات اور تکالیف سے آگاہ ہے اور نہ ہی وہ اس کے غرائض وخواہشات سے آشنا ہے ، اسی دلیل سے اس کی رہبری ایسے موجود کے لئے کہ جو ہر لحاظ سے اس سے مختلف ہے بالکل ناکارہ ہوگی۔

لہٰذا قرآن دوسرے جواب میں کہتا ہے: اگر ہم اسے فرشتہ قرار دیتے اور ان کے مطالبے پر عمل کرتے تو پھر بھی ہمارے لئے یہ لازم تھا کہ ہم انسان کی تمام صفات کو اس میں پیدا کرتے اور اسے صورت و سیرت میں مرد بناتے( وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا ) (۱) جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ” لجعلناہ رجلا“ سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ہم اسے صرف انسانی شکل دیں گے، جیسا کہ بعض مفسرین نے خیال کرلیا ہے، بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اسے ظاہر وباطن کے لحاظ سے صفت انسانی سے متصف کریں گے ۔اس کے بعد اس کا نتیجہ پیش کرتا ہے کہ اس حالت میں وہ ہم پر پھر انھیں سابقہ اعتراضات کو دہراتے کہ کسی انسان کو رہبر کے طور پر کیوں مامور کیا گیا اور حقیقت کو ہم پر پوشیدہ رکھا ہے( وَلَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَا یَلْبِسُونَ ) ۔”لبس“ (بروزن ”درس) پردہ پوشی اور اشتباہ کاری کے معنی میں ہے اور”لبس“(بروزن قفل) لباس پہننے کے معنی میں ہے پہلے کے ماضی لبس (بروزن ضرب )ہے اور دوسرے کی ماضی لبس(بروزن حسب ہے) اور یہ بات واضح ہے کہ پہلا والا مفہوم یعنی اگر ہم فرشتہ کو بھیجتے تو ضروری تھا کہ وہ انسانی صورت وسیرت میں ہو، اس حالت میں ان کے عقیدے کے مطابق ہم نے لوگوں کو اشتباہ اور خطا میں ڈالا ہوتا اور پھر وہ ہمارے لئے انھیں سابقہ نسبتوں کو دہراتے جس طرح کہ وہ خود نادان اور بے خبر لوگوں کو اشتباہ اور خطا میں ڈالتے ہیں اور حقیقت کا چہرہ ان سے چھپاتے ہیں ، اس بنا پر ”لبس“اور پردہ پوشی کی خدا کی طرف نسبت ان کے زاویہ نگاہ سے ہے ۔آخر میں خداوند تعالیٰ پیغمبر کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے: ان کی مخالفت، ہٹ دھرمی اور سخت گیری سے پریشان نہ ہو کیوں کہ آپ سے پہلے کہ پیغبروں میں سے بھی بہت سے پیغمبر وں کا مذاق اڑایا گیا، لیکن آخر کا رجس چیز کا وہ تمسخر کیا کرتے تھے اسی نے ان کے دامن کو پکڑ لیا اور ان پر عذاب الٰہی نازل ہوا( وَلَقَدْ اسْتُهْزِءَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُون ) در حقیقت یہ آیت پیغمبر کے دل کی تسلی کا سبب بھی ہے کہ اس کی راہ میں ذرا سا تزلزل بھی ان کے ارادہ میں نہ آئے اور ہٹ دھرم مخالفین کے لئے دھمکی بھی ہے کہ وہ اپنے کام کے برے اور دردناک انجام کا سوچ لیں(۲)

____________________

۱۔ ”جعلناہ“ کی ضمیر پیغمبر کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے، اور اس کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے کہ جو پیغمبر کے ساتھ اس کی نبوت کو مستحکم کرنے کے لئے مبعوث ہو، دوسری صورت میں تو ان کے مطالبے پر عمل ہوگا اور پہلی صورت میں ان کے مطالبے سے بھی بڑھ کر صورت ہوگی۔۲۔ اس بات پر توجہ رکھنی چاہےے کہ لفظ”حاق“ کا معنی نازل ہو اور ”وارد ہوا“ ہے اورمَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُون سے مراد انبیاء کا عذاب الٰہی کی خبر دینا ہے، کہ جنھیں ہٹ دھرم ،دشمن ٹھٹھے میں اڑا دیا کرتے تھے مثلا حضرت نوح (علیه السلام) کا بار بار طوفان کی دھمکی دینا کہ جو بت پرست قوم کے لئے ایک مذاق کا ذریعہ بن گی تھا، اس بنا پر آیت میں کلمہ ”جزاء“ مقدر ماننے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ بعض نے کہا ہے، بلکہ اس کا معنی اس طرح ہے جن سزا ؤں کا وہ مذاق اڑا تے تھے وہ ان پر نازل ہوگئیں ۔

آیت ۱۱

۱۱( قُلْ سِیرُوا فِی الْاٴَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِینَ ) ۔

ترجمہ:

۱۱ ۔ (اے رسول ) کہہ دو کہ تم زمین میں چلو پھرو، اس کے بعد (دیکھو اور) غور کرو جو لوگ آیات خدا وندی کو جھٹلاتے تھے ان کا انجام کیا ہوا؟۔

وہ چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے کس کی ہیں ،

قرآن مجید نے اس مقام پر ان ہٹ دھرم اور خود خواہ لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اس نے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ وہ انھیں کہیں کہ زمین پر چلیں ،پھریں اورجولوگ حقائق کو جھٹلاتے تھے ان کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، شاید وہ بیدار ہوجائیں

( قُلْ سِیرُوا فِی الْاٴَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِین ) ۔

اس میں شک نہیں ہے کہ گذشتہ لوگوں اور ان قوموں کے آثار کودیکھنا کہ جنھوں نے حقائق کو ٹھکرانے کی وجہ سے فنا اور نابودی کا راستہ اختیار کرلیا تھا، تاریخ کی کتابوں میں ان کے حالات کے پڑھنے سے کہیں بڑھ کر پر اثر ہیں کیونکہ یہ آثار حقیقت کو محسوس اور قابل لمس بناتے ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ لفظ ”انظروا“(دیکھو) استعمال کیا گیا ہے نہ کہ ”تفکروا“(غوروفکر) ۔

ضمنا لفظ”ثم“ کا ذکر جو عام طور عطف با فاصلہ زمانی کے لئے آتا ہے ممکن ہے اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہو کر اپنی سیر اور فیصلہ میں جلدی نہ کرے بلکہ جب گذرے ہوئے لوگوں کے آثار کا مشاہدہ کرے تو حوصلہ اور وقت کے ساتھ غور وفکر کرے پھر اس سے نتیجہ اخذ کرکے ان کے کام کا انجام آنکھوں سے دیکھے ۔

زمین میں سیر وسیاحت کرنے اور افکار کو بیدار کرنے میں اس کی غیر معمولی تاثیر کے بارے میں ہم جلد سوم ،آل عمران کی آیت ۱۳۷ کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ بحث کرچکے ہیں ۔

آیات ۱۲،۱۳

۱۲( قُلْ لِمَنْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ قُلْ لِلَّهِ کَتَبَ عَلَی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیهِ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَهُمْ فَهُمْ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

۱۳( وَلَهُ مَا سَکَنَ فِی اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ) ۔

ترجمہ:

۱۲ ۔کہہ دو کہ وہ چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے کس کی ہیں ، کہہ دو کہ وہ سب خد کی ہیں جس نے رحمت (اور بخشش) کو اپنے اوپر ضروری قرار دے لیا ہے(اور اسی دلیل سے ) تم سب کو قطعی طور پر قیامت کے دن کہ جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے جمع کرے گا صرف وہی لوگ ایمان نہیں لائیں گے جنھوں نے اپنا سرمایہ حیات ضائع کردیاہے اور خسارہ کا شکار ہے ۔

۱۳ ۔اور جو کچھ رات اور دن میں ہے وہ بھی سب اسی کے لئے ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

معاد پر استدلال

اس آیت میں پہلے کی طرح مشرکین سے بحث ہورہی ہے، گذشتہ آیات میں مسئلہ توحید کو موضوع بحث بنایا گیا تھا، اس آیت میں مسئلہ معاد پر بحث ہورہی ہے، توحید کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ہی اس کے بعد مسئلہ قیامت اور معاد کو بڑے عمدہ طریقہ سے بیان کیا جارہا ہے،آیت سوال وجواب کی صورت میں ہے، سوال کرنے والا اور جواب دینے والا دونوں ایک ہی ہے جوابیات میں ایک خوبصورت طریقہ ہے ۔

معاد پر استدلال

معاد پر استدلال کے لئے مقدمہ کے طور پر دو باتیں کہی گئی ہیں :

۱ ۔ پہلے کہتا ہے: کہہ دو کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے لئے ہے( قُلْ لِمَنْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔

پھر اس کے بعد فورا بلا فاصلہ کہتا ہے کہ تم خود زبان فطرت اور ان کی روح کا جواب دے دو کہ خدا کے لئے ۔ (قُلْ للّٰہ)، اس مقدمہ کے مطابق تمام جہان خدا کی ملکیت ہے اور اس کی تدبیر اس کے ہاتھ میں ہے ۔

۲ ۔پروردگار عالم تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے، وہی ہے وہ ذات کہ جس نے رحمت کو اپنے ذمہ لے لیا ہے اور بے شمار نعمتیں سب کے لئے عام کردی ہیں

( کَتَبَ عَلَی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ) ۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ایس خدا اجازت دے کہ انسانوں کا رشتہ حیات موت کے ذریعہ کلی طور پر منقطع ہوجائے اور کمال کی جانب اس کا سفر ختم ہوجائے، کیا یہ بات اس کے اصلا فیاض ہونے اوراس کی رحمت واسعہ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے ، کیا وہ اپنے بندوں کے بارے میں کہ جن کا وہ مالک ومدبر ہے اس قسم کی بے مہری کرسکتا ہے کہ وہ ایک مدت کے بعد بالکل فنا ہوجائے اور ان کا کوئی وجود ہی باقی نہ رہے ۔

مسلمہ طور پر ایسا نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کی رحمت واسعہ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ موجودات کو خاص طور پر انسان کو درجہ کمال تک پہنچانے کے لئے اور آگے بڑھائے جس طرح اپنی رحمت کے سائے میں ایک بے قدروقیمت چھوٹے سے بیج کو تناور اور پھلدار درخت میں یا گل زیبا کی شاخ میں بدل دیتا ہے ۔ جیسا کہ اپنے فیض وکرم کے سایہ میں بے قدروقیمت نطفہ کو انسان کامل میں بدل دیتا ہے، اسی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو کہ جو بقا اور حیات جاودانی کی استعداد رکھتا ہے موت کے بعد نئی زندگی کے لباس میں اور زیادہ وسیع عالم میں لے آئے اور تکامل کی سیرابدی میں اس کی رحمت کا ہاتھ اس کے سر پر ہے ۔

لہذ ان دونوں مقدمات کے بعد کہتا ہے مسلمہ طور پر تم سب کو قیامت کے دن جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے جمع کرے گا( لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیه ) ۔

یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ آیت سوال سے شروع ہورہی ہے جیسے اصطلاح میں استفہام تقریری کہتے ہیں جس میں صرف مقابل سے اقرار لینا مطلوب ہوتا ہے اور چونکہ یہ مطلب فطرت کی نگاہ سے بھی مسلم تھا اور خود مشرکین بھی اس کے معترف تھے کہ عالم ہستی کی ملکیت بتوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ خدا سے مربوط ہے، لہٰذا وہ خود ہی بلا فاصلہ سوال کا جواب دیتا ہے اور مختلف مسائل کو حل کرنے کے سلسلہ میں یہ ایک اچھا شمار ہوتا ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ معاد کے لئے دوسرے مقامات پر مختلف طریقوں سے مثلا قانون عدالت، قانون تکامل اور حکمت پروردگار کے طریقہ سے استدلال ہوا ہے، لیکن رحمت کے ساتھ استدلال ایک نیا استدلال ہے، جو اوپر والی آیت میں موضوع بحث قرار پایا ہے ۔

آیت کے آخر میں ہٹ دھرم مشرکین کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:وہ خدا جو زندگی کے بازار تجارت میں اپنے وجود کا سرمایہ ضائع کرچکے ہیں وہ ان حقائق پر ایمان نہیں لائیں گے( الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَهُمْ فَهُمْ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

اس قدر عجیب وغریب تعبیر ہے بعض اوقات انسان مال یا مقام یا اپنے سرمایہ میں سے کوئی اور چیز ہاتھ کھو بیٹھتا ہے، ان چیزوں میں اگرچہ اس نے نقصان کیا ہوتا ہے لیکن پھر اس نے ایسی چیزیں اپنے ہاتھ سے دی ہے جو اس کے وجود کا جزء نہیں ہے، یعنی یہ چیزیں اس کے وجود سے باہر ہیں ، لیکن سب سے بڑا خسارہ جسے حقیقی خسارے کا نام دیا جاسکتا ہے اس وقت ہوگا جب انسان خود اپنے اصل ہستی ہی کو ہاتھ سے دے بیٹھے اور خود اپنے وجود کو ہی داوء پر لگا دے ۔

حق کے دشمن اور ہٹ دھرم لوگ اپنی عمر کی پونجی اور اپنی فکر، عقل، فطرت اور تمام روحانی اور جسمانی نعمات کو جنھیں راہ حق میں کام آنا چاہئے تھا تاکہ وہ اپنے کمال کو پہنچ سکے ، کلی طور پر ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں نہ سرمایہ باقی رہتا ہے نہ سرمایہ دار یہ تعبیر قرآن مجید کی متعدد آیات میں آئی ہے اور یہ وہ ہلا دینے والی تعبیرات ہے کہ جو منکرین حق اور گناہگاروں کا دردناک انجام واضح کردیتی ہے ۔

ایک سوال اور اس کا جواب

ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ابدی زندگی مومنین کے لئے تو مصداق”رحمت“ ہے لیکن ان کے غیر لئے ہے تو سوائے ” زحمت وبد بختی“ کے اور کوئی چیز نہ ہوگی۔

اس میں شک نہیں کہ خدا کا کام اسباب رحمت فراہم کرنا ہے ، اس نے انسان کو پیدا کیا اوراسے عقل دی اور اس کی رہبری اور راہنمائی کے لئے پیغمبر بھیجے اور طرح طرح کی نعمتوں کو اس کے اختیار میں دے دیا اور حیات جاوداں کی طرف سب کے لئے راہیں کھول دیں ، یہ سب چیزیں بغیر استثناء کے رحمت ہیں ۔

اب اگر راستے میں ان رحمتوں کے نتیجہ اور ثمر تک پہنچنے سے پہلے انسان خود راستے کو ٹیڑھا کرے اور تمام اسباب رحمت کو اپنے لئے زحمت میں تبدیل کردے تویہ بات ان اسباب کے رحمت ہونے کی نفی نہیں کرتی اور ملامت کا حقدار وہ انسان ہے کہ جس نے اسباب رحمت کو عذاب میں بدل لیا ہے ۔

بعد والی آیت اصل میں گذشتہ آیت کی تکمیل کرتی ہے کیوں کہ پہلی آیت میں خدا وندتعالیٰ کی تمام موجودات کے بارے میں مالکیت کی طرف اشارہ تھا اس طریق سے کہ وہ سب ایک افق مکان میں واقع ہیں لہٰذا فرمایا کہ خدا ان تمام چیزوں کا مالک ہے کہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔

اب یہ آیت اس کے افق ووسعت زمان میں واقع ہونے کے طریق سے اس کی مالکیت کی طرف اشارہ ہے ، لہٰذا کہتا ہے : اور اس کے لئے ہے جو کچھ رات اور دن میں ہے( وَلَهُ مَا سَکَنَ فِی اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ ) ۔

حقیقت میں جہان مادہ اس سے یعنی زمان ومکان سے خالی نہیں ہے، اور تمام موجودات جو ظرف زمان ومکان میں آتے ہیں یعنی تمام جہاں مادہ اس کی ملکیت ہے اور یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ رات اور دن اس نظام شمسی کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ تمام موجودات آسمان وزمین شب وروز رکھتے ہیں اور بعض میں ہمیشہ دن ہوتا ہے رات نہیں ہوتی اور بعض میں ہمیشہ رات ہوتی ہے دن نہیں ہوتا، مثلا سورج میں ہمیشہ دن ہے کیونکہ وہاں روشنی ہی روشنی ہے اور تاریکی کا کوئی وجود نہیں ہے جب کہ بعض ستارے بجھے ہوئے اور بے نور ہیں وہ آسمان کہ جو ستاروں سے بہت دور ہیں وہاں ہمیشہ رات کی تاریکی چھائی رہتی ہے اور اوپر والی آیت ان سب پر صادق آتی ہے ۔

ضمنی طورپر اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ ”سکن“ کسی موجود کا کسی چیز میں سکونت ،توقف اور قرار پانے کے معنی میں ہے، چاہے وہ موجود حالت حرکت میں ہو یا سکون میں مثلا ہم کہتے ہیں کہ ہم فلاں شہر میں ساکن ہیں یعنی ہم وہاں ٹھہرے ہوئے ہیں اور مقیم ہیں چاہے ہم اس شہر کی سڑکوں پر حالت حرکت میں ہوں یا کہیں حالت سکون میں ہوں ۔

آیت میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ یہاں ”سکون“ صرف حرکت کے مقابلے میں ہو اور چونکہ یہ دونوں امور نسبتی ہیں لہٰذا ایک کا ذکر ہمیں دوسرے سے بے نیز کردیتا ہے اس بنا پر آیت کا مطلب یوں ہوجاتا ہے کہ جوکچھ روز وشب اور افق زمان میں سکون وحرکت کی حالت میں ہے وہ سب خدا کی ملکیت ہے ۔

اور اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ آیت توحید کے استدلالات میں سے ایک استدلال کی طرف اشارہ ہو، کیوں کہ ”حرکت“ و”سکون“ دوعارضی حالتیں ہیں ، جو حتمی طور پر حادث ہیں اور وہ قدیم وازلی نہیں ہوسکتیں کیونکہ حرکت عبارت ایک چیز کا دومختلف اوقات دومختلف مکانوں میں ہونے سے اور سکون ہے ایک چیز کا دو زمانوں میں ایک معین مکان میں رہنا، اس بنا پر حرکت وسکون کی ذات میں سابقہ حالت کی طرف توجہ پوشیدہ ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ چیز کہ جو اس حالت سے پہلے دوسری حالت میں ہو وہ ازلی نہیں ہو سکتی۔

اس گفتگو سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ”اجسام حرکت وسکون سے خالی نہیں ہیں “ اور جو حرکت وسکون سے خالی نہ ہو وہ ازلی نہیں ہو سکتا ۔

لہٰذا تمام اجسام حادث ہیں اور چونکہ وہ حادث ہیں لہٰذا وہ پیدا کرنے ولے کے محتاج ہے (غور کیجئے گا) ۔

لیکن چونکہ خدا جسم نہیں ہے وہ نہ حرکت رکھتا ہے اور نہ سکون، نہ زمان رکھتا ہے نہ مکان ،اسی لئے وہ ازلی وابدی ہے اور آیت کے آخر میں توحید کا ذکر کرنے کے بعد خدا وندتعالیٰ کی دو نمایاں صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے: اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے( وهو سمیع العلیم ) ۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جہان ہستی کی وسعت اور وہ موجودات کہ جو زمان ومکان کے افق میں قرار رکھتے ہیں کبھی بھی اس بات میں منع نہیں ہے کہ خدا ان کے اسرار سے آگاہ ہو، بلکہ وہ ان کی گفتگو سنتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک کمزور چیونٹی کی حرکت کو بھی جانتا ہے جو تاریک رات میں سیاہ پتھر کے اوپر ایک خاموش دور دراز کے درے کی گہرائی میں ہوں اور اس کی ضروریات اور باقی تمام موجودات کی حاجات سے آگاہ ہے اور سب کے اعمال اور کاموں سے مطلع ہے ۔