تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34475
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34475 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۱۴،۱۵،۱۶

۱۴( قُلْ اٴَغَیْرَ اللّٰهِ اٴَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَهُوَ یُطْعِمُ وَلاَیُطْعَمُ قُلْ إِنِّی اٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ اٴَوَّلَ مَنْ اٴَسْلَمَ وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُشْرِکِینَ ) ۔

۱۵( قُلْ إِنِّی اٴَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ ) ۔

۱۶( مَنْ یُصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِینُ ) ،

ترجمہ:

۱۴ ۔کہہ دوکیا میں غیر خدا کو اپنا ولی بنالوں جب کہ وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ، وہ ہے کہ جو روزی دیتا ہے اور کسی سے روزی نہیں لیتا، تم کہہ دو کہ میں اس بات پر مامور ہوں کہ میں سب سے پہلے ”اس کے حکم کو تسلیم کرنے والا“(مسلمان) ہوں (اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ ) مشرکین میں سے نہ ہونا ۔

۱۵ ۔ کہہ دو کہ میں بھی اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے دن (قیامت کے) عذاب سے ڈر تا ہوں ۔

۱۶ ۔ اس دن جس شخص کے اوپر سے عذاب الٰہی اٹھ جائے (تو یوں سمجھو کہ) خدا نے اپنی رحمت اس کے شامل حال کر دی ہے اور یہ واضح کامیابی ہے ۔

خدا کے سوا اور کوئی پناہ گاہ نہیں ہے

بعض نے ان آیات کے لئے ایک شان نزول نقل کی ہے، وہ یہ ہے کہ اہل مکہ سے کچھ لوگ پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اے محمد! تونے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کام کا عمل سوائے فقر کے اور کوئی نہیں ہے، ہم اس بات کے لئے حاضر ہیں کہ اپنا مال تیرے ساتھ بانٹ لیں اور تجھے بہت ثروت مند کردیں تاکہ تم ہمارے خداؤں سے دستبردار ہوجاؤ اور ہمارے اصلی دین کی طرف پلٹ آؤ تو اوپر والی آیات نازل ہوئی اور انھیں جواب دیا گیا(۱) البتہ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے واردشدہ روایات کے مطابق اس سورہ کی آیات مکہ میں یکجا طور پر نازل ہوئی ہے اس بنا پر ہر ایک آیت کے لئے خاص اور علحیدہ شان نزول نہیں ہوسکتا، لیکن اس سورہ کے نازل ہونے سے پہلے پیغمبراور مشرکین کے درمیان گفتگو اور بحثیں ہوتی رہتی تھیں لہٰذا اس سورہ کی بعض آیات میں ان بحثوں کو ملحوظ نظر رکھا گیا ہے،اس بنا پر کوئی منع نہیں ہے کہ رسول اللہ اور مشرکین کے درمیان اس قسم کی باتیں ہوئی ہوں اور خدا وند تعالیٰ ان آیات میں ان باتو ں کی طرف اشارہ دے رہا ہو ۔

بہر حال ان آیات میں بھی ہدف ومقصد اثبات توحید اور شرک وبت پرستی کے خلاف مبارزہ ہی ہے، مشرکین باوجود اس کے کہ وہ خلقت عالم کو خدا وند تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہی مخصوص سمجھتے تھے لیکن انھوں نے بتوں کو اپنی پناہ گاہ سمجھ رکھا تھا اور بعض اوقات اپنی ہر ایک حاجت کے لئے سی ایک بت کا سہارا لیتے تھے اور متعدد خداؤں (بارش کا خدا، نور کا خدا، ظلمت کا خدا، جنگ وصلح کا خدا رزق وروزی کا خدا) کے قائل تھے اور یہ وہی ارباب انواع کا عقیدہ ہے کہ جو قدیم یونان میں بھی وجود رکھتا تھا ۔

قرآن اس قسم کے غلط نظریے کو ختم کرنے کے لئے پیغمبر اس طرح حکم دیتا ہے: انھیں کہہ دو کہ کیا میں غیر خدا کو اپنا ولی وسرپرست اور پناہ گاہ قرار دے لوں حالانکہ وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور تمام موجودات کو رزق دینے والا ہے بغیر اس کے کہ خود اسے روزی کی ضرورت ہو( قُلْ اٴَغَیْرَ اللّٰهِ اٴَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَهُوَ یُطْعِمُ وَلاَیُطْعَمُ ) ۔

اس بنا پر جب تمام چیزوں پیدا کرنے والا وہی ہے اور کسی دوسرے کی قدرت کا سہارا لئے بغیر اس نے سارے جہان کو پیدا کیا ہے اور سب کی روزی اسی کے ہاتھ میں ہے تو پھر کون سی دلیل ہے کہ انسان اس کے غیر کو اپنا ولی، سرپرست اور پناہ گاہ قرار دے،۔اصولی طور پر باقی سب مخلوق ہیں اور اپنے وجود کے تمام لمحات میں اس کے محتاج ہیں ، لہٰذا وہ کس طرح دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرسکتے ہیں ۔

یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اوپر والی آیت میں جب آسمان وزمین کی خلقت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو خدا کا ”فاطر“ کے عنوان سے تعارف کراتا ہے ”فاطر“ ”فطور“ کے مادہ سے ہے کہ جس کے معنی شگافتہ کرنے (پھاڑ نے)کے ہیں ، ابن عباس سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے ”فاطرالسماوات والارض“ کے معنی اس وقت سمجھ میں آئے جب دو عربوں کو ایک کنویں کے بارے میں جھگڑتے ہوئے دیکھا ، ان میں سے ایک اپنی ملکیت کے ثبوت میں یہ کہتا تھا کہ ”انا فطرتھا“میں نے اس کنویں کو شگافتہ کیا اور بنایا ہے ۔

لیکن ہم فاطر کے معنی آج موجودہ علوم کی مدد سے ابن عباس کی نسبت زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کیونکہ یہ آج کے دقیق ترین علمی نظریات کے مطابق انتہائی پسندیدہ تعبیر ہے جو پیدائش جہان کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہے کیوں کہ سائنس والوں اور محققین کی تحقیقات کے مطابق عالم بزرگ(مجموعہ جہان) اور عالم کوچک(نظام شمسی) سب کے سب ابتداء میں ایک ہے تودہ تھے جو پے در پے تھپیڑوں کے اثر سے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے اور اس کے کہکشاں اور نظام ہائے شمسی اور مختلف گرے وجود میں آگئے ۔سورہ انبیاء کی آیت ۳۰ میں یہ مطلب زیادہ صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، جہاں پر فرمایا گیا ہے :

( اٴَوَلَمْ یَرَی الَّذِینَ کَفَرُوا اٴَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا )

کیا کافر یہ نہیں جانتے کہ آسمان و زمین آپس میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے ہم انے انھیں ایک دوسرے سے جدا کیا ۔

ایک اور نکتہ کی طرف سے بھی غفلت نہیں کرنقا چاہےے اور وہ یہ کی صفات خدا میں سے یہاں صرف بندوں کو روزی دینے کا ذکر کیا گیا ہے ، یہ تعبیر شاید اس بنا پر ہے کہ انسان کی مادی زندگی میں زیادہ تر وابستگیاں انھیں مادی ضروریات کے زیر اثرہیں ، یہی بات جسے اصطلاح میں روٹی کا ایک لقمہ کھا نا کہتے ہیں انسان کو طاقتوروں اور ارباب دولت کے سامنے جھکنے پر آمادہ کردیتی ہے، بعض اوقات تو لوگ پرستش کی حد تک ان کے سامنے سربسجود ہوجاتے ہیں ، قرآن اس عبارت میں کہتا ہے: تمھاری روزی اس کے ہاتھ میں ہے، نہ تو وہ ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے اور نہ ہی بتوں کے ہاتھ میں صاحبان مال واقتدار خود نیاز مند ہیں اور انھیں کھانے کی احتیاج ہوتی ہےب، یہ صرف خدا ہے کہ جو صرف کھلاتا تو ہے مگر خود اسے کھانے کی احتیاج نہیں ہے ۔

قرآن حکیم کی دوسری آیات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کی ملکیت ورزاقیت کے مسئلہ اور بارش برسانے اور سبزہ زاروں کی پرورش کرنے کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ مخلوقات سے وابستگی کا خیال لوگوں کے دماغ سے بالکل نکال دے ۔

اس کے بعد ان لوگوں کی پیش کش کا جواب دینے کے لئے جو پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے یہ دعوت دیتے تھے کہ وہ مشرک کے ساتھ رشتہ جوڑ لیں ، کہتا ہے :علاوہ اس کے کہ عقل مجھے یہ حکم دیتی ہے کہ صرف اس ذات پر بھروسہ کروں کہ جو آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے، وحی الٰہی بھی مجھے حکم دیتی ہے کہ پہلا مسلمان میں بنوں اور کسی طرح بھی مشرکین کی صف میں نہ جاؤں( قُلْ إِنِّی اٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ اٴَوَّلَ مَنْ اٴَسْلَمَ وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُشْرِکِین ) (۲)

اس شک نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام سے پہلے دوسرے پیغمبر اور ان کی امتیں بھی مسلمان تھی اور خدا وند تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتی تھیں ، اس بنا پر جب وہ یہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان بنوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس امت کا سب سے پہلا مسلمان ۔

اور یہ حقیقت میں ایک اہم تربیتی مطلب کی طرف اشارہ بھی ہے کہ ہر رہبر کو اپنے مکتب اور مشن کے احکام کی انجام دہی میں تمام افراد سے زیادہ پیش قدمی کرنا چاہےے، اسے اپنے دین کا سب سے پہلا مومن اور اس پر عمل کرنے والا ہوناچاہئے اور سب سے زیادہ کوشش کرنے والا اور اپنے مکتب کے لئے سب سے زیادہ فداکاری کرنے والا ہونا چاہےے ۔

بعد والی آیت میں اس خدائی حکم پر جو وحی کے ذریعہ پیغمبر پر نازل ہوا ہے تاکید مزید کے لئے کہتا ہے :میں بھی خود اپنے لئے جوابدہی کا احساس کرتا ہوں اور قوانین الٰہی سے کسی طرح مستثنٰی نہیں ہوں ، میں بھی اگر خداوند تعالیٰ کے حکم سے منحرف ہوجاؤں اور مشرکین کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جاؤں اور اس کی نافرمانی اور عصیان کروں تو اس عظیم دن۔روز قیامت۔کی سزا سے خائف وترساں ہوں( قُلْ إِنِّی اٴَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیم ) (۳)

اس آیت سے بھی اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبروں میں جوابدہی کا احساس دوسروں میں جوابدہی کے احساس سے زیادہ ہوتا ہے ۔

آخری آیت میں اس لئے کہ ثابت ہوجائے کہ پیغمبر بھی لطف ورحمت خداوندی پر بھروسہ کےے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتے اور تمام اختیارات اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں ، یہاں تک کہ خود پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم بھی پرور دگار کی رحمت بے پایاں پر ہی چشم امید لگائیں ہوئے ہیں اور اپنی نجات وکامیابی اسی سے طلب کرتے ہیں ۔فرمایاگیا:کہ رسول کہتے ہیں کہ جو شخص اس عظیم دن پروردگار کی سزا سے نجات پاجائے تا رحمت خدا اس کے شامل حال ہوگئی ہے اور یہ ایک توفیق الٰہی اور کھلی کامیابی ہے ۔( مَنْ یُصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِینُ ) ۔

یہ آیات توحید کا آخری درجہ بیان کرتی ہیں ، یہاں تک کہ ان لوگوں کو کہ جو پیغمبروں کو بھی خدا کے ساتھ مستقل پناہ گاہ مانتے تھے، جیسے عیسائی جو حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نجات دہندہ سمجھتے تھے، صراحت کے ساتھ جواب دیا گیا ہے کہ پیغمبر تک بھی اس کی رحمت کے محتاج ہیں ۔

____________________

۱۔ تفسیر ابوالفتوح رازی وتفسیر مجمع البیان زیر نظر آیات کے ذیل میں ۔۲۔ انی امرت ------ غیر مستقیم خطاب ہے اور جملہ ولاتکونن--- خطاب مستقیم ہے شاید یہ تفاوت اس سبب سے ہے کہ شرک سے دوری اور نفرت پہلا مسلمان ہونے کی نسبت کئی درجہ زیادہ اہم ہے، اسی لئے شرک سے دوری کا مسئلہ خطاب مستقیم کی صورت میں ”نون تاکید ثقیلہ“ کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

۳۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ جملہ بندی کی ترتیب کا تقاضا یہ ہے کہ لفظ”اخاف“ جملہ”ان عصیت ربی“ کے بعد ذکر ہو ۔کیونکہ وہ شرط کی جزا کے طور پر استعمال ہوا ہے لیکن پیغمبر کا خوف اور جوابدہی کا احساس اس بات کا سبب بنا کہ پروردگار کے حکم کے سامنے”اخاف“ (میں ڈرتا ہوں ) کا لفظ تاکید کے لئے مقدم رکھا جائے ۔

آیات ۱۷،۱۸

۱۷( وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَهُ إِلاّهُوَ وَإِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ۔

۱۸( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَهُوَ الْحَکِیمُ الْخَبِیرُ ) ۔

ترجمہ:

۱۷ ۔ اگر تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے علاوہ کوئی بھی اسے برطرف نہیں کرسکتا اوراگر وہ تجھے کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے(اور ہر نیکی اسی کی قفرت سے بنی ہے)

۱۸ ۔ وہی ہے جو اپنے تمام بندوں پر قاہر ومسلط ہے اور وہ حکیم وخبیر ہے ۔

پروردگار کی قدرت قاہرہ

ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس سورہ کا سب سے پہلا ہدف شرک وبت پرستی کی بیخ کنی ہے ۔مندرجہ بالادونوں آیات میں بھی اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے

پہلے ارشاد ہوتا ہے: تم لوگ غیر خدا کی طرف کیوں توجہ کرتے ہو؟ مصائب سے نجات، رفع ضرر اور حصول منفعت کے لئے خود ساختہ خداؤں سے کیوں پناہ لیتے ہو؟ حالانکہ اگر تجھے معمولی سے معمولی اور حقیر سے حقیر نقصان بھی ہوجائے تو سوائے خدا کے اسے برطرف کرنے والا اور کوئی نہ ہوگا اور اگر کوئی خیروبرکت اور کامیابی و سعادت تجھے نصیب ہوتو وہ بھی اسی کی قدرت کا پرتو ہے ۔کیونکہ وہی ہے کہ جو تمام چیزوں پر قدرت رکھتا ہے( وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر ) (۱)

حقیقت میں غیر خدا کی طرف توجہ لوگ اس لئے کرتے ہیں کہ یا تو انھیں سرچشمہ خیرات جانتے ہیں یا وہ انھیں مصائب ومشکلات کا بر طرف کرنے والا سمجھتے ہیں جیسا کہ طاقت اور اقتدار رکھنے والوں کے سامنے پرستش کی حد تک خضوع وخشوع بھی ان ہی دو اسباب کی بنا پر ہوتا ہے ۔ مندرجہ بالا آیت کہتی ہے کہ ارادہ خدا وندی تمام چیزوں پر حکومت کرتا ہے، اگر وہ کسی نعمت کو کسی سے سلب کر لے یا کوئی نعمت کسی کو عطا کردے تو دنیا میں کوئی منبع قدرت ایسا نہیں ہے جو اسے پلٹا سکے تو وہ غیر خدا کے سامنے سرتعظیم کیوں جھکاتے ہیں ۔

”خیر“ و”شر“ کے بارے میں ”یمسسک“ کی تعبیر کے باوجود ”مس“ سے ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی خیر وشر تک بھی اس کے ارادہ وقدرت کے غیر ممکن نہیں ہے ۔

یہ ذکر بھی لازمی ہے کہ اوپر والی آیت ثنویین یعنی دو خداؤں کی پرستش کرنے والوں کے عقیدہ کی ،کہ جو خیر وشر کے دو علحیدہ علحیدہ مبدء کے قائل تھے ،صراحت کے ساتھ تردید کرتی ہے اور دونوں کو خدا کی طرف سے سمجھتی ہے ،لیکن ہم اپنے مقام پر یہ عرض کر آئے ہیں کہ”مطلق شر“ کا دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے، تو اس بنا پر جب شر کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے تو اس سے ایسے امور مراد ہوتے ہیں کہ جو ظاہر میں سلب نعمت ہوتے ہیں لیکن فی الواقع اپنے مقام پر وہ خیر ہیں اور یا وہ بیدار کرنے کے لئے یا تعلیم وتربیت کے لئے اور یا تکبر، سرکشی اور خود پسندی کو برطرف کرنے کے لئے اور یا دوسری مصلحتوں کے لئے ہوتے ہیں ۔

بعد والی آیت میں اس بحث کی تکمیل کے لئے فرمایا گیا ہے: وہی ہے جو اپنے تمام بندوں پر قاہر ومسلط ہے(و( هو القاهر فوق عباده ) ۔

”قہر“ اور ”غلبہ“ کا اگر چہ ایک ہی معنی ہے، لیکن لغوی بنیادکی نظر سے ان دونوں کے معنی میں تفاوت ہے قہر وقاہریت اس قسم کے غلبہ وکامیابی کو کہا جاتا ہے کہ جس میں مد مقابل کسی بھی قسم کا غلبہ اپنی طرف سے ظاہر نہیں کرسکتا لیکن لفظ غلبہ میں یہ مفہوم موجود نہیں ہے اور یہ ممکن ہے کہ غلبہ پانے کے بعد مد مقابل اس پر کامیابی حاصل کرلے،دوسرے لفظوں میں قاہر اسے کہتے ہیں جو مد مقابل پر اس طرح تسلط اور برتری رکھتا ہو کہ اس میں مقابلے کی مجال ہی نہ ہو بالکل اس پانی کے برتن کی طرح جسے آگ کے ایک چھوٹے سے شعلہ پر ڈالاجائے تو وہ اسے فورا خاموش کردے ۔

بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ قاہریت عام طور پر ایسے موقع پر استعمال ہوتی ہے کہ جب طرف مقابل کوئی عاقل موجود ہو، لیکن غلبہ عام ہے اور غیر عاقل موجودات پر کامیابیوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے(۲)

اس بنا پر پہلی آیت میں ،خود ساختہ خداؤں اور صاحبان اقتدار کے مقابلہ میں اگر خدا کی قدرت کی عمومیت کی طرف اشارہ ہوا ہے تو وہ اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ مجبور ہے کہ وہ ایک مدت تک دوسری قدرتوں کے ساتھ دست وگریبان ہو یہاں تک وہ انھیں چت کردے، بلکہ اس کی قدرت، قدرت قاہرہ ہے اور”فوق عبادہ“ کی تعبیر بھی اسی معنی کی تکمیل کے لئے ہے ۔

اس حالت میں کس طرح ممکن ہے کہ ایک باخبر انسان اسے چھوڑ دے اور ایسے موجودات واشخاص کے پیچھے جائے کہ جو اپنی طرف سے کسی قسم کی قدرت نہیں رکھتے ، یہاں تک کہ ان میں جو معمولی اور حقیر سی قدرت موجود ہے وہ بھی خدا ہی کی عطا کردہ ہے ۔

لیکن اس مقصد کے پیش نظر کہ کہیں یہ وہم نہ ہوجائے کہ ممکن ہے خدا بھی بعض صاحبان قدرت کی طرح اپنی نامحدود قدرت سے تھوڑا بہت غلط فائدہ اٹھا لیتا ہو، آیت کے آخر میں فرماتا ہے کہ اس کے باوجود وہ حکیم اور اس کے تمام کام حساب کے مطابق ہیں اور وہ خبیر وآگاہ ہے اور معمولی سے معمولی اشتباہ اور خطا بھی اپنی قدرت کو عمل میں لانے میں نہیں کرتا( هوالحکیم الخبیر ) ۔

فرعون کے حالات میں ہے کہ وہ بنی اسرائیل کو ان کی اولاد کے قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہتا ہے:

( وانافوقهم قاهرون )(۳) یعنی میں ان لوگوں کے اوپر کامل طور پر مسلط ہوں ۔یعنی وہ اپنی اس قدرت قاہرہ کو ۔کہ جو واقع میں ایک حقیر قدرت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں ظلم وستم اور دوسروں کے حقوق کے پرواہ نہ کرنے کی دلیل قرار دیتاتھا، لیکن خداوند حکیم وخبیر اس قدرت قاہرہ کے باوجود اس سے بہت منزہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا ظلم اور غلطی سے معمولی سے معمولی بندے کے حق میں روا ررکھے ۔

یہ بات بھی کہے بغیر واضح ہے کہ (فوق عبادہ) کے لفظ سے مراد مرتبہ ومقام کی برتری ہے، کیوں کہ یہ بات واضح ہے کہ خدا کوئی مکان نہیں رکھتا ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض بد دماغوں نے اوپر والی آیت کی تعبیر کو خدا کے جسم ہونے کی دلیل قرار دیا ہے، حالانکہ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ فوق (اوپر) کی تعبیر خدا کی اپنے بندوں پر قدرت کے لحاظ سے معنوی برتری کے بیان کے لئے ہے، یہاں تک کہ فرعون کے بارے میں بھی حالانکہ وہ ایک انسان تھا اور جسم رکھتا تھا یہی لفظ مقام کی برتری کے لئے استعمال ہوا ہے نہ کہ مکانی برتری کے لئے(غور کیجئے گا) ۔

____________________

۱۔ ”ضر“ ایسے نقصانات کے لئے استعمال ہوتا ہے جو انسان کو پیش آتے ہیں ، خواہ وہ جسمانی پہلو رکھتے ہوں جیسے کسی عضو کا نقصان اور مختلف بیماریاں یا وہ روحانی پہلو رکھتے ہوں جیسے جہالت، حماقت، دیوانگی یا دوسرے پہلو جیسے مال، اولاد و یا عزت کا چلا جا نا ۔

۲۔المیزان ،جلد ۷،صفحہ ۳۴۔

۳۔اعراف ،۱۲۷۔

آیات ۱۹،۲۰

۱۹( قُلْ اٴَیُّ شَیْءٍ اٴَکْبَرُ شَهَادَةً قُلْ اللّٰهُ شَهِیدٌ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَاٴُوحِیَ إِلَیَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِاٴُنذِرَکُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ اٴَئِنَّکُمْ لَتَشْهَدُونَ اٴَنَّ مَعَ اللّٰهِ آلِهَةً اٴُخْرَی قُلْ لاَاٴَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ ) ۔

۲۰( الَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَمَا یَعْرِفُونَ اٴَبْنَائَهُمْ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَهُمْ فَهُمْ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۹ ۔کہہ دو کہ سب سے بڑی گواہی کس کی ہے ،کہہ دو کہ خدا وند تعالیٰ تمھارے درمیان گواہ ہے ، (اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ) اس نے یہ قرآن میرے اوپر وحی کیاہے تاکہ تمھیں اور ان تمام افراد کو ڈراؤں کہ جن تک یہ قرآن پہنچے(اور حکم خدا کی مخالفت کا خوف دلاؤں ) کیا سچ مچ تم یہ گواہی دیتے ہو کہ خدا کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں ، کہہ دو میں ہر گز اس قسم کی گواہی نہیں دیتا، کہہ دو کہ خدا یگانہ ویکتا ہے اور میں اس سے جو اس کا شریک قرار دے بری و بے زار ہوں ۔

۲۰ ۔ وہ لوگ کہ جنھیں ہم نے آسمانی کتاب دی ہے، اس (پیغمبر کو) اچھی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ،صرف وہ اشخاص ہیں کہ جو اپنا سرمایہ وجود کھو بیٹھتے ہیں ایمان نہیں لاتے ۔

سب سے بڑا گواہ

جیسا کہ مفسرین کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے کہ مشرکین مکہ کا ایک گروہ پیغمبر اکرم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تو کیسا پیغمبر ہے کہ تیرا کوئی بھی موافق اور حامی نہیں ،یہاں تک کہ ہم نے یہود ونصاریٰ سے بھی تیرے بارے میں تحقیق کی ہے، وہ بھی توریت وانجیل کی بنیاد پر تیری حقانیت کی گواہی نہیں دیتے کم از کم کوئی تم ہمیں کہ جو تمھاری ررسالت کی گواہی دے ۔مندرجہ بالا آیت اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔

پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ ان سب ہٹ دھرم مخالفین کے مقابلے میں کہ جنھوں نے آنکھیں بند کررکھی ہیں اور آپ کی حقانیت کی ان کی سب نشانیوں کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں اور پھر بھی گواہ اور شاہد کا مطالبہ کرتے ہیں ،کہہ دیجئے ،تمھارے عقیدہ اور نظریہ کے مطابق سب سے بڑا گواہ کون ہے

( قُلْ اٴَیُّ شَیْءٍ اٴَکْبَرُ شَهَادَةً ) ۔

کیا اس کے سوا بھی کچھ ہے کہ سب سے بڑی شہادت پروردگار کی شہادت ہے؟ تو کہہ دو کہ خدائے بزرگ وبرتر میرے اور تمھارے درمیان گواہ ہے( قُلْ اللّٰهُ شَهِیدٌ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ ) ۔

اور اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ اس نے اس قرآن کو مجھ پر وحی کیاہے( وَاٴُوحِیَ إِلَیَّ هَذَا الْقُرْآنُ )

وہ قرآن جو ممکن نہیں ہے کہ فکر انسانی کا گھڑا ہوا ہو، وہ بھی اس زمانے اور اس ماحول میں اور مقام میں ، وہ قرآن کہ جو کئے قسم کے شواہد اعجاز پر مشتمل ہے، اس کے الفاظ اعجاز آمیز ہیں اور اس کے معانی اس سے بھی زیادہ اعجاز آمیز ہیں ، کیا یہی ایک عظیم شاہدخدا وند عالم کی طرف سے میری دعوت کی حقانیت کی گواہی کی دلیل نہیں ہے؟۔

ضمنی طور پر اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن سب سے بڑا معجزہ ہے اور پیغمبر اکرم کے دعوے کی صداقت کا سب سے بڑا گواہ ہے ۔

اس کے بعد نزول قرآن کا ہدف ومقصد بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: یہ قرآن اس مقصد کے لئے مجھ پر نازل ہوا ہے کہ میں تمھیں اور ان تمام لوگوں کو جن کے کانوں تک پوری تاریخ بشر میں اور وسعت زمانے میں اور تمام نقاط جہان میں ،میری باتیں پہنچیں انھیں خدا کے حکم کی مخالفت سے ڈراؤں اور اس کی مخالفت کے دردناک عواقب وانجام کی طرف متوجہ کروں( لِاٴُنذِرَکُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغ ) ۔

اگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں گفتگو صرف ”انذار“ اورڈرانے کے بارے میں ہے حالانکہ عام طور پر ہر جگہ بشارت بھی ساتھ ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گفتگو ایسے ہٹ دھرم لوگوں کے مقابلہ میں تھی جو مخالفت پر اصرار کرتے رہے ہیں ۔

ضمنی طور پر ”ومن بلغ “ (وہ تمام لوگ کہ جن تک یہ بات پہنچ جائے) کے الفاظ کا ذکر قرآن کی رسالت جہانی اور دعوت عمومی اور پیام عالمی کا پتہ دیتا ہے

حقیقت میں اس سے زیادہ مختصر اور اس سے زیادہ جامع تعبیر اس مقصد کے ادا کرنے کے لئے اور متصور ہو یہ نہیں سکتی، اس کی وسعت میں غور کرنے سے قرآن کی دعوت کے نسل عرب یا خاص زمانے یا علاقے سے مخصوص نہ ہونے کے بارے میں ہر قسم کا ابہام اور شک وشبہ دور ہوجاتا ہے علماء کے ایک گروہ نے ایسی تعبیرات سے مسئلہ ختم نبوت کے لئے بھی استفادہ کیا ہے، کیوں کہ اوپروالی تعبیر کے مطابق پیغمبر ان تمام لوگوں پر مبعوث تھے کہ جن تک آپ کی باتیں پہنچتی ہیں اور یہ ان تمام افراد کے لئے ہے کہ جو اس جہاں کے آخر تک اس دنیا می قدم رکھیں گے ۔

اہل بیت علیہم السلام کے طریق سے منقول احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابلاغ و تبلیغ قرآن سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ ان کامتعین دوسری اقوام تک پہنچے حتی کہ اس کے ترجموں اور مفاہیم کا دوسری زبانوں میں پہنچانا بھی آیت کے معنی میں داخل ہے ۔

ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ (علیه السلام) سے اوپر والی آیت کے بارے میں سوال ہوا تو حضرت (علیه السلام) نے فرمایا:”بکل لسان(۱)

یعنی ہر زبان میں ہو ۔

ضمنی طور پر مسئلہ اصول فقہ کے قوانین میں سے ایک قاعدہ ”قبح عقاب بلا بیان“ ہے وہ بھی اوپر والی آیت سے معلوم ہوتا ہے ۔

اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ اصول فقہ میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب تک کوئی حکم کسی شخص تک نہ پہنچے وہ شخص اس حکم کے لئے جواب دہ نہیں ہوسکتا( مگر یہ کہ حکم حاصل کرنے میں اس نے خود کوتاہی کی ہو) مندرجہ بالا آیت بھی یہی کہتی ہے کہ وہ لوگ کہ جن تک میری بات پہنچ جائے وہ اس کے لئے جوابدہ ہے اور اس طرح سے وہ لوگ کہ جنھیں احکام کے اصول میں کوتاہی نہ کرنے کے باوجود اصل حکم نہ پہنچا ہو کوئی مسولیت نہیں رکھتے ۔

تفسیر”المنار“ میں پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم سے اس طرح نقل ہوا ہے :

قیدیوں کا ایک گروہ آپ کے پاس لایا گیا، حضرت نے ان سے پوچھا کہ کیا انھوں نے تمھیں اسلام کی دعوت دی تھی؟ انھوں نے کہا کہ نہیں ! آپ نے حکم دیا کہ انھیں رہاکردو، اس کے بعد آپ نے اوپر والی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ انھیں چھوڑ دو کہ یہ اپنی جگہ پر واپس چلے جائیں انھیں حقیقت اسلام کی تبلیغ نہیں ہوئی اور اس کی طرف انھیں دعوت نہیں دی گئی(۲)

نیز اس اایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ”شی“ کا اطلاق کے جو فارسی کے لفظ ”چیز“ کا ہم معنی ہے، خدا پر کرنا جائز ہے لیکن وہ ایسی چیز ہے کہ دوسری چیزوں کے مانند نہیں ہے کہ جو مخلوق محدودہیں بلکہ وہ خالق ونامحدود ہے ۔

پھر اس کے بعد پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ ان سے پوچھو”کیا واقعا تم گواہی دیتے ہو کہ خدا کے ساتھ اور خدا بھی ہیں ؟( اٴَئِنَّکُمْ لَتَشْهَدُونَ اٴَنَّ مَعَ اللّٰهِ آلِهَةً اٴُخْرَی ) اس کے بعد کہتا ہے کہ انھیں صراحت کے ساتھ کہہ دو کہ میں کبھی ایسی گواہی نہیں دیتا، کہہ دو کہ وہ خدا یکتا ویگانہ ہے اور جنھیں تم اس کا شریک بناتے ہو میں ان سے بری وبیزار ہوں( قُلْ لاَاٴَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ ) ۔

در حقیقت آیت کے آخر میں ان چند جملوں کا ذکر ایک نفسیاتی نکتے کے لئے کیا گیا ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ مشرکین اس قسم کا تصور کرلیں کہ شاید ان کی گفتگو نے روح پیغمبر میں کچھ تزلزل پیدا کردیا ہواور وہ یہ امید لئے ہوئے مجلس سے جدا ہوں اور اپنے دوستوں کو بشارت دیں کہ شاید محمد اس کے بعد اپنی دعوت میں نظر ثانی کرلیں یہ جملے کہ جو صراحت اور قاطعیت سے سرشار ہیں اس امید کو کلی طور پر نا امیدی میں بدل رہے ہیں اور انھیں نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ بات ان کے خیال وگمان سے بالکل باہر ہے اور معمولی سے معمولی تزلزل بھی آپ کی دعوت میں پیدا نہیں ہوگا اور تجربہ سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کسی بحث کے آخر میں اس قسم کے قطعی الفاظ کا ذکر آخری نتیجے تک پہنچنے کے لئے گہرا اثر رکھتا ہے ۔

اور اس آیت کے بعد والی آیت میں ان لوگوں کو کہ جو اس بات کے مدعی تھے کہ اہل کتاب کسی قسم کی گواہی پیغمبر اسلام کے بارے میں نہیں دیتے صراحت کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہتا ہے: وہ لوگ کہ جن پر ہم نے کتاب نازل کی ہے وہ پیغمبر کو خوب اچھی طرح پہچانتے ہیں بالکل اسی طرح سے جس طرح سے کہ وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں( الَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَمَا یَعْرِفُونَ اٴَبْنَائَهُمْ ) ۔

یعنی وہ نہ صرف پیغمبر کے اصل ظہور اور اس کی دعوت سے آگاہ ہیں بلکہ وہ تو اس کی جزئےات و خصوصیات اور دقیق نشانیوں کو بھی جانتے ہیں ،اس بنا پر کچھ اہل مکہ کہتے تھے کہ ہم نے اہل کتاب کی طرف رجوع کیا ہے لیکن انھیں بھی پیغمبر کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے ، تو یا تو واقعا وہ جھوٹ بولتے تھے اور انھوں نے (اہل کتاب سے) تحقیق ہی نہیں کی تھی، اور یا پھر اہل کتاب نے حقائق کو چھپا لیا اور ان کے سامنے بیان نہ کیا، جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات ان کے حق کو پوشیدہ رکھنے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

اس بات کی بیشتر وضاحت تفسیر نمونہ کی جلد اول میں سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۶ کے ذیل میں گزر چکی ہے( دیکھئے اردو ترجمہ صفحہ ۳۶۰) ۔

آیت کے آخر میں ایک آخری نتیجہ کے طور پر بتا تا ہے ،صرف وہی لوگ اس پیغمبر پر (ان واضح نشانیوں کے باوجود) ایمان نہیں لاتے کہ جو زندگی کے بازار تجارت میں اپنا سب کچھ گوا بیٹھے ہیں اور اپنے وجود کی تمام پونجی ہرا بیٹھے ہیں( الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَهُمْ فَهُمْ لاَیُؤْمِنُونَ )

____________________

۱۔ تفسیر برہان، نورالثقلین جلد ۱، صفحہ ۷۰۷ آیہ ”ہذا“ کے ذیل میں ۔

۲۔المنار ،جلد ۷، صفحہ ۳۴۱۔