تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34485
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34485 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۴۰،۴۱

۴۰( قُلْ اٴَرَاٴَیْتَکُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اٴَوْ اٴَتَتْکُمْ السَّاعَةُ اٴَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُونَ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ) ۔

۴۱( بَلْ إِیَّاهُ تَدْعُونَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَیْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِکُونَ ) ۔

ترجمہ:

۴۰ ۔کہہ دو کیا تم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ اگر خدا کا عذاب تم پر نازل ہوجائے یا قیامت آجائے تو کیاق تم (اپنی مشکلات کے حل کے لئے) خدا کے سوا کسی اور کو بلاؤ گے اگر تم سچے ہو ۔

۴۱ ۔نہیں بلکہ تم صرف اسی کو بلاؤ گے اور اگر وہ چاہے گا تو اس مشکل کو جس کے لئے تم نے اسے بلایا ہے برطرف کردے گا اور جسے (آج ) تم (خدا کا) شریک قرار دیتے ہو( اسے اس دن)بھول جاؤ گے ۔

فطری توحید

دوبارہ روئے سخن مشرکین کی طرف کرتے ہوئے ایک دوسرے طریقہ سے توحید ویگانہ پرستی کے لئے ان کے سامنے استدلال کرتا ہے، وہ اس طریقہ سے کہ انھیں ان کی زندگی کے بہت ہی سخت اور دردناک لمحات یاد دلاتا ہے اور ان کے وجدان سے مدد چاہتا ہے کہ اس قسم کے لمحات میں جب کہ ہرچیز کو بھول جاتے ہیں تو اس وقت خدا کے علاوہ اور کوئی پناہ گاہ انھیں اپنے لئے سمجھا دیتا ہے، اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ اگر خدا کا دردناک عذاب تمھارے پیچھے آپہنچے یا قیامت اپنی اس ہولناک ،ہیجان اور وحشتناک حادثات کے ساتھ برپا ہوجائے، تو سچ بتاؤ کہ کیا تم خدا کے سوا کسی اور کو اپنے شدائد کو بر طرف کرنے کے لئے پکارو گے( قُلْ اٴَرَاٴَیْتَکُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اٴَوْ اٴَتَتْکُمْ السَّاعَةُ اٴَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُونَ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ) (۱)

یہ آیت نہ صرف مشرکین کے لئے ہے بلکہ معنی کے اعتبار سے باطنی طور پر تمام افراد کے لئے شدائد اور سخت حوادث کے ظہور کے وقت قابل فہم ہے، ممکن ہے کہ عام حالات میں اور چھوٹے چھوٹے حادثات میں انسان غیر خدا کے ساتھ متوسل ہوجائے لیکن جب حادثہ بہت زیادہ سخت ہو تو انسان تمام چیزوں کو بھول جاتا ہے ، البتہ یہی حالت ہوتی وہ جب کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں نجات کے لئے ایک قسم کی امید محسوس کرتا ہے کہ جو ایک پوشیدہ اور نامعلوم قدرت سے سرچشمہ حاصل کرتی ہے، یہی وہ توجہ ہوتی ہے جو خدا کی طرف ہوتی ہے اور یہی حقیقت توحید ہے ۔

یہاں تک کہ مشرکین اور بت پرست بھی اس قسم کے لمحات میں بتوں کی بات کو درمیان میں نہیں لاتے اور وہ سب کو بھلا دیتے ہیں ۔

بعد والی آیت میں فرمای گیا ہے :بلکہ تم صرف اسی کو پکارتے ہو اگر وہ چاہے تو تمھاری مشکل کو حل کردے اور شریک جو تم نے خدا کے لئے تیار کررکھے تھے ان سب کو بھلا دیتے ہو( بَلْ إِیَّاهُ تَدْعُونَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَیْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِکُونَ )

چند اہم نکات

۱ ۔ جواستدلال اوپر کی دوآیات میں نظر آتا ہے وہی توحید فطری والااستدلال ہے کہ جس سے دو مباحث میں استفادہ کیا جاسکتا ہے ،ایک خدا کے اصل وجود کے اثبات میں اور دوسرا اس کی یگانگت اور توحید ثابت کرنے میں ، اسی لئے اسلامی روایات میں اور اسی طرح علماء کے کلام میں منکرین خدا کے مقابلے میں بھی اور مشرکین کے ،مقابلے میں بھی استدلال کیا گیا ہے ۔

۲ ۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ اوپر والے استدلال میں قیامت کے برپا ہونے کی بات درمیان میں آئی ہے، حالانکہ ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ تو اس قسم کے دن کو بالکل قبول ہی نہیں کرتے تھے، اس بنا پر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان کے سامنے اس قسم کا استدلال پیش کیا جائے ۔

لیکن اس حقیقت پر توجہ کرنا چاہئے کہ پہلے تو وہ سب قیامت کے منکر نہیں تھے بلکہ ان میں سے ایک گروہ ایک طرح سے قیامت کا اعتقاد رکھتا تھا، دوسری بات یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ”ساعة“ سے مراد ہی موت کی گھڑی یا وحشتناک حوادث کی گھڑی ہو جو انسان کو موت کی چھوکھٹ تک لے جاتی ہے، تیسری بات یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ تعبیر ہولناک حوادث کی طرف اشارہ ہو کیوں کہ قرآنی آیات بار بار کہتی ہے کہ قیامت کی ابتدا بہت ہی ہولناک حوادث کے سلسلہ کے ساتھ شروع ہوگی اور زلزلے، طوفان، بجلیاں او ایسی ہی دوسری ناگہانی آفتیں اس وقت وقوع پذیر ہوں گی ۔

۳ ۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ قیامت کا دن اور اس سے قبل کے حوادث حتمی اور یقینی مسائل میں سے ہیں اور کسی طرح بھی قابل تغیر نہیں ہیں تو پھر اوپر والی آیت میں یہ کیوں کہا گیا ہے :اگر خدا چاہے تو اسے برطرف کردے گا، کیا اس سے صرف پروردگار عالم کی قدرت کا بیان کرنا مقصود ہے یا کوئی اور معنی مراد ہے ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ خدا ان کی دعا سے اصل قیام ساعة اور روز قیامت کو ہی ختم کردے گا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ مشرکین بلکہ غیر مشرکین بھی جب قیامت کے روبرو ہوں گے تو اس کے حوادث ومشکلات اور اس کے سخت تریں عذاب سے جو انھیں درپیش ہوگا، وحشت اور پریشانی میں ہوں گے اور خدا سے درخواست کریں گے کہ وہ اس کیفیت اور حالت کو ان کے لئے آسان کردے اور انھیں خطرات سے رہائی بخشے، تو حقیقت میں یہ دعا دردناک حوادث سے اپنے آپ کی نجات کے لئے ہے نہ کہ قیامت کےختم ہوجانے کی دعا ۔

____________________

۱۔ جیسا کہ عربی ادب کے علماء نے تصریح کی ہے کہ ”ک“ اریتک“ میں اور ”کم“اراٴیتکم“ میں نہ اسم ہے نہ ضمیر بلکہ صرف خطاب ہے، جو حقیقت میں تاکید کے لئے آتا ہے، ایسے موقع پر عام طور پر فعل مفرد کی شکل میں آتا ہے اور اس کا مفرد ، تثنیہ اور جمع ہونا اسی حرف خطاب کی تغیرات سے ظاہر ہوتا ہے، اسی لئے ”اراٴیتکم “ میں باوجود یہ کہ مخاطب جمع ہے فعل ”رئیت“مفرد لا یا گیا ہے اور اس کا جمع ہونا ”کم“ سے جو کہ حرف خطاب ہے سمجھا گیا ہے، ایک گروہ کا نظریہ ہے کہ یہ لفظ معنی کے لحاظ سے مساوی ہے ”اخبرنی“ یا اخبرونی“ کے لیکن حق یہ ہے کہ یہ لفظ اپنے استفہامی معنی کی مکمل حفاظت کرتا ہے اور ”اخبرونی“ اس کے معنی کا لازمہ ہے نہ کہ خود اس کے معنی ہے(غور کیجئے گا)

آیات ۴۲،۴۳،۴۴،۴۵

۴۲( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا إِلَی اٴُمَمٍ مِنْ قَبْلِکَ فَاٴَخَذْنَاهُمْ بِالْبَاٴْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُونَ ) ۔

۴۳( فَلَوْلاَإِذْ جَائَهُمْ بَاٴْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَکِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَیَّنَ لَهُمْ الشَّیْطَانُ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

۴۴( فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اٴَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا اٴُوتُوا اٴَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ ) ۔

۴۵( فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ) ۔

ترجمہ:

۴۲ ۔ہم نے ان امتوں پر جو تم سے پہلے تھیں (پیغمبر بھیجے اور جب وہ ان کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے) تو ہم نے انھیں شدت وتکلیف اور رنج وبے آرامی میں مبتلا کردیا کہ شاید (وہ بیدار ہوجائیں اور حق کے سامنے ) سرتسلیم خم کردیں ۔

۴۳ ۔جب ہمارا عذاب ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے (خضوع کیوں نہیں کیا ؟) اور سرتسلیم کیوں خم نہ کیا؟، لیکن ان کے دل سخت ہوں گے اور شیطان نے ہر اس کام کو جو وہ کرتے تھے ان کی نظروں میں پسندیدہ کرکے دکھاےا ۔

۴۴ ۔ جب (نصیحتوں نے کوئی فائدہ نہ دیا اور ) جو کچھ یا ددہانی کرائی گئی تھی وہ اسے بھول گئے تو ہم نے (نعمتوں میں سے) تمام چیزوں کے دروازے ان کے لئے کھول دئےے یہاں تک کہ وہ (مکمل طور پر) خوشحال ہوگئے( اور انھوں نے ان کے ساتھ دل لگا لیا ) تو ہم نے یکا یک انھیں دھر پکڑا(اور سخت سزا دی) تو اس وقت وہ سب کے سب مایوس ہوگئے( اور امید کے تمام دروازے ان پر بند ہوگئے) ۔

۴۵ ۔اور (اس طرح سے ) جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا گیا( اور ان کی نسل منقطع ہوگئی) اور حمد مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو عالمین کا پروردگار ہے ۔

نصیحت قبول نہ کرنے والوں کا انجام

ان آیا ت میں بھی گمراہوں اور مشرکین کے بارے میں گفتگو جاری ہے اور قرآن ایک دوسرے راستے سے ان کو بیدار کرنے کے لئے اس موضوع کا پیچھا کرتا ہے، یعنی ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں گذشتہ زمانوں اور صدیوں کی طرف لے جاتا ہے اور گمراہ، ستمگر اور مشرک امتوں کی کیفیت ان سے بیان کرتا ہے کہ کس طرح سے تربیت وبیداری کے عوامل ان کے لئے بروئے کا ر لائے گئے لیکن ان میں سے ایک گروہ نے پھر بھی کسی کی طرف توجہ نہ کی اور آخر کار ایسی بدبختی ان کو دامنگیر ہوئی کہ وہ آنے والوں کے لئے عبرت بن گئے ۔

پہلے کہتا ہے کہ ہم نے گذشتہ امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے اور چونکہ انھوں نے کوئی پرواہ نہیں کی لہٰذا ہم نے انھیں بیداری اور تربیت کی خاطر مشکلات اور سخت حوادث مثلا، فقرفاقہ، خشک سالی وبیماری دردورنج اور”باٴساء“ و”ضراء(۱)

سے دو چار کردیا،کہ شاید وہ متوجہ ہوجائیں اور خدا کی طرف پلٹ آئیں( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا إِلَی اٴُمَمٍ مِنْ قَبْلِکَ فَاٴَخَذْنَاهُمْ بِالْبَاٴْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُونَ ) ۔

بعد والی آیت میں کہتا ہے کہ انھوں نے ان دردناک اور بیدار کرنے والے عوامل سے نصیحت کیوں لی اور بیدار کیوں نہ ہوئے اور خدا کی طرف کیوں نہ لوٹے( فَلَوْلاَإِذْ جَائَهُمْ بَاٴْسُنَا تَضَرَّعُوا ) ۔

اصل میں ان کے بیدار نہ ہونے کی دو وجوہات تھیں ، ان میں سے پہلی وجہ تو یہ تھی کہ گناہ کی زیادتی اور شرک میں ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے دل تاریک اور سخت ہوگئے اور ان کی روح کوئی اثر قبول نہیں کرتی تھی(وَلَکِنْ قَسَتْ قُلُوبُھُم) ۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ شیطان نے (ان کی بت پرستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے) ان کے اعمال کو ان کی نگاہ میں زینت دے رکھا تھا اور جس برے عمل کو وہ انجام دیتے تھے اسے خوبصورت وزیبااور ہر غلط کام کو درست وصحیح خیال کرتے تھے( وَزَیَّنَ لَهُمْ الشَّیْطَانُ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے کہ جب سخت گیریاں اور گوشمالیاں ان کے لئے موثر ثابت نہ ہوئیں تو ہم نے ان کے ساتھ محبت اور مہربانی کا راستہ اختیار کیا اورجب انھوں نے پہلے سبق کو بھلا دیا تو ہم نے ان کے لئے دوسر سبق شروع کردیا اور طرح طرح کی نعمتوں کے دروازے ان کے لئے کھول دئےے کہ شاید وہ بیدار ہوجائےں اور اپنے پیدا کرنے والے اور ان نعمتوں کو بخشنے والے کی طرف توجہ کرلیں اور راہ راست کو پالیں

( فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اٴَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ ) ۔

لیکن یہ سب نعمتیں دوہری خصوصیت رکھتی تھیں ، یہ ان کی بیداری کے لئے اظہار محبت تھیں اور اگر بیدار نہ ہوں تو دردناک عذاب کا مقدمہ بھی تھیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ جب انسان ناز ونعمت میں ڈوبا ہوا ہو اور اچانک وہ سب نعمتیں اس سے چھین لی جائیں تو اس کے لئے انتہائی دردناک ہوتا ہے ، اس کے برخلاف اگر اس سے تدریجا واپس لی جائیں تو اس صورت میں اس پر کوئی اثر نہ ہوگا ۔

اسی لئے کہتا ہے کہ ہم نے انھیں اس قدر نعمتیں دی کہ جس سے وہ مکمل طور پر خوشحال ہوگئے، لیکن وہ بیدار نہ ہوئے، لہٰذا ہم نے ان سے وہ اچانک چھین لی اور ہم نے انھیں عذاب دیا اور امید کے سب دروازے ان پر بند ہوگئے( حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا اٴُوتُوا اٴَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ ) (۲)

اور اس طرح ستمگروں کی نسل منقطع ہوگئی اور ان کی دوسری نسل آگے نہ چل سکی( فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا ) ۔

”دابر“اصل میں کسی چیز کے پچھلے اور آخری حصہ کو کہتے ہیں اورچونکہ خدا وند تعالیٰ نے ان کی تربیت کے لئے تمام ذرائع کو بروئے کار لانے میں کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، لہٰذا آیت کے آخر میں کہتا ہے:حمد مخصوص اس خدا کے لئے ہے کہ جو عالمین کا پروردگار ہے

(وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ) ۔

____________________

۱۔”باٴسا “ اصل می ں شدت ورنج کے معنی می ں ہے اور جنگ کے معنی می ں بھی استعمال ہوتا ہے اسی طرح قحط و خشک سالی اور فقروغیرہ کے لئے بھی لیکن ”ضراء“ روحانی تکلیف مثلا غم واندوہ، جہالت،نادانی یا وہ پریشانیا ں ہو ں بیماری یا مقام ومنصب اور مال ثروت کے ہاتھ سے نکل جانے سے پیدا ہوتی ہے کہ معنی می ں ہے، شاید ان دونو ں می ں فرق اس سبب سے ہے کہ ”باٴسا “ عام طور سے خاجی پہلو رکھتا ہے اور ”ضراء“ روحانی اور معنوی پہلو رکھتا ہے، یعنی روحانی تکالیف کو ”ضراء“ کہتے ہی ں ، تو اس بناپر ”باٴسا “ ”ضراء “کے عوامل کی ایجاد می ں سے ایک عامل ہے(غور کیجئے گا) ۔

۲۔ ”مبلسون“ اصل می ں مادہ ”ابلاس“سے اس غم واندوہ کے معنی می ں ہے جو انسان کو ناگوار حوادث کی شدت سے عارض ہوا اور ابلیس کا نام بھی یہی سے لیا گیا ہے اور اوپر والی تعبیر شدت غم واندوہ کی نشاندہی کرتی ہے جو گنہگارو ں کو گھیر لیتی ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ بعض اوقات یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان آیات اور گذشتہ آیات کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کیوں کہ گذشتہ آیات میں یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کی گئی تھی کہ مشرکین ہجوم مشکلات کے وقت خدا کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور خدا کے سوا ہر کسی کو بھلا دیتے ہیں لیکن ان آیات میں ہے کہ ہجوم مشکلا ت کے وقت بھی وہ بیدار نہیں ہوتے ۔

ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے یہ ظاہری اختلاف ختم ہوجاتا ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ شدائد کے ظہور کے وقت جلدی گزرجانے والی اور وقتی بیداریاں بیداری شمار نہیں ہوتیں کیوں کہ وہ جلد ہی اپنی پہلی حالت کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔

گذشتہ آیات میں چونکہ توحید فطری کا بیان کرنا مقصود تھا، اس کے ثبوت کے لئے وہی بیداریاں اور وقتی توجہات اور غیر خدا کو فراموش کرنا ہی کافی تھا خواہ ایسا حادثہ کے موقع پرہی ہوا ہو لیکن ان آیات میں موضوع سخن ہدایت یابی اور بے راہ روی سے رای راست کی طرف پلٹنے سے مطلق ہے اور مسلمہ طور پر جلد گزرجانے والی اور وقتی بیداری اس میں کوئی اثر نہیں کرتی۔

بعض اوقات خیال ہوتا ہے کہ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ گذشتہ آیات پیغمبر کے ہمعصر مشرکین کے ساتھ مربوط ہے لیکن زیر بحث آیات گذشتہ اقوام سے متعلق ہیں لہٰذا ان دونوں میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے(۱) ۔

لیکن یہ بات بہت بعید نظر آتی ہے کہ پیغمبر کے ہمعصر ہٹ دھرم مشرک گذشتہ زمانہ کے گمراہوں سے بہتر ہوں ، اس بنا پر صحیح حل وہی ہے ج اوپر بیان ہوچکا ۔

۲ ۔ زیر نظر آیات میں ہے کہ جب شدائد کے ظہور سے تربیتی اثر نہ ہوتو خدا وند عالم ایسے گناہگاروں پر نعمتوں کے درازے کھو دیتا ہے، تو کیا یہ کام تنبلیہ کے بعد تشویق کے لئے ہے یا عذاب کے دردناک ہونے کا ایک مقدمہ ہے؟ یعنی اصطلاح کے مطابق اس قسم کی نعمتیں نعمت استدراجی ہیں ، جو سرکش بندوں کو بتدریج آہستہ آہستہ نازونعمت، خوشحالی وسروراور ایک قسم کی غفلت میں ڈبو دیتی ہے اور پھر ایک دم ان سے تمام نعمتوں کو چھین لیا جا تا ہے ۔

آیت میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جن سے دوسرے احتمال کی تقویت ملتی ہے لیکن اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ دونوں ہی احتمال مراد ہوں ، یعنی پہلے بیداری کے لئے تشویق ہو اور اگر وہ موثر نہ ہو تو وہ نعمت کے چھیننے اور دردناک عذاب کرنے کے لئے ایک مقدمہ ہو ، ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم سے اس طرح نقل ہوا ہے:

اذا راٴیت اللّٰه یعطی العبد من الدنیا علی معاصیه ما یحب فانما هو استدراج ثم تلا رسول اللّٰه فلما نسو ---

”جب تم یہ دیکھو کہ خدا گناہوں کے مقابلے میں نعمت بخشتا ہے تو تم سمجھ لو کہ یہ سزا کا مقدمہ اور تمہید ہے، پھر آپ نے اوپر والی آیت کی تلاوت کی“ (مجمع البیان ونورالثقلین ذیل آیہ)

حضرت علی علیہ السلام سے ایک حدیث میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:

یا ابن آدم اذا راٴیت ربک سبحناه یتابع علیک نعمه وانت تعصیه فاحذره

(نہج البلاغہ ،کلمہ ۲۵)

”اے آدم کے بیٹے! تو یہ دیکھے کہ خدا تجھے پے در پے نعمتیں بخش رہا ہے جب کہ تو گنا ہ کرتا جارہا ہے، تو تو اس کی سزا اور عذاب سے ڈر کیوں کہ یہ عذا ب کا مقدمہ ہے“

کتاب تلخیص الاقوال میں امام حسن عسکری علیہ السلام سے اس طرح نقل ہوا ہے :

امیر المومنین کے غلام قنبر کو حجاج کے سامنے پیش کیا گیا تو حجاج نے اس سے پوچھا کہ تو علی ابن ابی طالب (علیه السلام) کے لئے کیا کام کیا کرتا تھا، قنبر نے کہا کہ میں آپ(علیه السلام) کے لئے وضو کے اسباب فراہم کرتا تھا، حجاج نے پوچھا کہ علی (علیه السلام) جب وضو سے فارغ ہوتے تھے تو کیا کہا کرتے تھے، قنبر نے کہا کہ وہ یہ آیت پڑھا کرتے تھے:

فلما هوا ما ذکروا به فتحنا علیهم ابواب کل شی “اور آخر آیت تک تلاوت کی، حجاج نے کہا کہ میرا گمان یہ ہے کہ علی اس آیت کو ہم پر تطبیق کیا کرتے تھے، قنبر نے پوری دلیری کے ساتھ جواب دیا، کہ جی ہاں ! (نورالثقلین، جلد ۱ ،صفحہ ۱۸) ۔

۳ ۔ ان آیات میں ہے کہ بہت سے رنج اور حوادث سے مراد توجہ اور بیداری کی حالت کو ایجاد کرنا ہے اور یہ آفات اور بلاؤں کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ ہے، جس کے متعلق ہم توحید(۲) کی بحث میں گفتگو کرچکے ہیں ۔

لیکن توجہ کے لائق بات یہ ہے کہ اس امر کو پہلے لفظ ”لعل“ (شاید) کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اس کے ذکر کا سبب یہ ہے کہ مصائب اور بلائیں بیداری کے لئے تنہا کافی نہیں ہے بلکہ یہ توآمادگی رکھنے والے دلوں کے لئے زمین ہموار کرتی ہے، ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ ”لعل“ کلام خدا میں عام طور سے ایسے مواقع پر استعمال ہوتا ہے جہاں اور دوسری شرائط بھی درمیان میں پائی جاتی ہےں ۔

دوسرا یہ کہ یہاں تضرع کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو اصل میں دودھ کے پستان میں آجانے اور دوہنے والے کے سامنے اس کے مطیع ہونے کے معنی میں ہے، پھر اس کے بعد یہ لفظ تواضع اور خضوع کے ساتھ ملی ہوئی اطاعت کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا یعنی ان دردناک حادثات کو ہم اس لئے ایجاد کرتے تھے تاکہ وہ غرور وسرکشی اور خودخواہی کی سواری سے نیچے اترے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کریں ۔

۴ ۔ یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ آیت کے آخر میں خدا وند تعالیٰ (الحمد رب العالمین ) کہتا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ ظلم فساد کی جڑ کا کاٹنا اور ایسی نسل کا نابود ہوجانا جو اس کام کو جاری رکھ سکے اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ شکر وسپاس کی جگہ ہے ۔

اس حدیث میں جو فضیل بن عیاض نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:

من احب بقاء الظالمین فقد احب ان یعصی اللّٰه،ان اللّٰه تبارک وتعالیٰ حمد بنفسه بهلاک الظلمة فقال: فقطع دابرالقوم الذین ظلموا والحمد للّٰه رب العالمین ۔

جو ستمگروں اور ظالموں کی بقا چاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا کی نافرمانی ہوتی رہے اور یہ فرمایا کہ ستمگر قوم کی نسل منقطع کردی گئی اور حمد وسپاس مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو عالمین کا پرور دگار ہے ۔

____________________

۱۔ فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر می ں اس فرق کی طرف اشرہ کیا ہے (جلد ۱۲،صفحہ ۲۲۴) ۔

۲۔ کتاب ”آفریدگار جہا ں “اور کتاب ”جستجوئے خدا“ کی طرف رجوع فرمائی ں ۔

آیات ۴۶،۴۷،۴۸،۴۹

۴۶( قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ اٴَخَذَ اللَّهُ سَمْعَکُمْ وَاٴَبْصَارَکُمْ وَخَتَمَ عَلَی قُلُوبِکُمْ مَنْ إِلَهٌ غَیْرُ اللَّهِ یَاٴْتِیکُمْ بِهِ انظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُونَ ) ۔

۴۷( قُلْ اٴَرَاٴَیْتَکُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّهِ بَغْتَةً اٴَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَکُ إِلاَّ الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ ) ۔

۴۸( وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِینَ إِلاَّ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ فَمَنْ آمَنَ وَاٴَصْلَحَ فَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ ) ۔

۴۹( وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا یَمَسُّهُمْ الْعَذَابُ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ) ۔

ترجمہ:

۶۴ ۔کہہ دو کہ کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ اگرخدا تمھارے کان اور آنکھیں تم سے لے لے اور تمھارے دلوں پر مہر لگا دے(کہ تم کوئی بات نہ سمجھ سکو)تو خدا کے سوااور کون ہے کہ جو یہ چیزیں تمھیں دیدے، دیکھو ہم آیات کی کس طرح مختلف طریقوں سے تشریح کرتے ہیں اس کے بعد وہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں ۔

۴۷ ۔کہہ دو کہ کیا تم نے یہ بھی غور کیا کہ اگر خدا کا عذاب اچانک (اور پوشیدہ) یا آشکار تمھارے پاس آجائے تو کیا ظالموں کے گروہ کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا ۔

۴۸ ۔ اور ہم پیغمبروں کو نہیں بھیجتے سوائے اس کے کہ وہ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہوتے ہیں ، پس جو لوگ ایمان لے آئےں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے لئے نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے ۔

۴۹ ۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ، ان کی نافرمانیوں کے سبب خدا وندتعالیٰ کا عذاب انھیں پہنچے گا ۔

نعمتیں بخشے والے کو پہچانیے

روئے سخن بدستور مشرکین ہی کی طرف ہے

ان آیات میں ایک دوسرے بیان کے ذریعے ان کو بیدار کرنے کے لئے استدلال ہوا ہے اور دفع ضرر کے حوالے سے کہا گیا ہے: اگر خدا آنکھ جیسی اپنی گراں بہا نعمتیں تم سے لے لے اور تمھارے دلوں پر مہر لگا دے اس طرح سے کہ تم اچھے اور برے اور حق وباطل کے درمیان تمیز نہ کرسکو تو خدا کے سوا کون ہے جو نعمتیں تمھیں پلٹا سکے ۔( قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ اٴَخَذَ اللَّهُ سَمْعَکُمْ وَاٴَبْصَارَکُمْ وَخَتَمَ عَلَی قُلُوبِکُمْ مَنْ إِلَهٌ غَیْرُ اللَّهِ یَاٴْتِیکُمْ بِهِ ) ۔

حقیقت میں مشرکین بھی قبول کرتے تھے کہ خالق ورازق خدا ہی ہے اور بتوں کی بارگاہ خدا میں شفاعت کے عنوان سے پرستش کرتے تھے، قرآن کہتا ہے کہ بجائے اس کے کہ تم ان بے قدر وقیمت بتوں کی پرستش کرو کہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، تم براہ راست خدا کے دروازے پے کیوں نہیں جاتے، وہ خدا جو تمام نیکیوں اور برکات کا سرچشمہ ہے ۔

اس اعتقاد کے علاوہ جو تمام بت پرست خدا کے بارے میں رکھتے تھے ، یہاں پر ان کی عقل کو بھی فیصلہ کی دعوت دی جارہی ہے کہ وہ بت جو نہ دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں اور نہ ہی عقل ہوش رکھتے ہیں ، دوسروں کو یہ چیزیں کیسے عطا کرسکتے ہیں ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے: دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے آیات ودلائل کی تشریح کرتے ہیں لیکن وہ پھر بھی حق سے منہ پھر لیتے ہیں( انظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُونَ ) ۔

”ختم“ کے معنی اور اس بات کی علت کے ”سمع“ قرآن کی آیت میں عام طور پر مفرد اور ابصار جمع کیوں آتا ہے؟ اس بارے میں ہم نے اسی تفسیر کی پہلی جلد، ص ۱۰۱( اردو ترجمہ) پر بحث کی ہے ۔

”نصرف “تصریف کے مادہ سے تغیر کے معنی میں ہے اور یہاں مختلف شکل کے استدلال کرنا مراد ہے ۔

”یصدفون“ ”صدف“ (بروزن ہدف) کے مادہ سے ہے جو”سمت“ اور ”طرف“ کے معنی میں ہے اور چونکہ انسان اعراض کرنے اور منہ پھیرنے کے وقت دوسری طرف متوجہ ہوجاتا ہے لہٰذا یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے البتہ جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے یہ مادہ اعراض کرنے اور شدید روگردانی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

بعد والی آیت میں ان تینوں عظیم الٰہی نعمتوں (آنکھ، کان اور فہم) کے ذکر کے بعد کہ جو دنیا وآخرت کی تمام نعمتوں کا سرچشمہ ہے، تمام نعمتوں کے کلی طور پرسلب ہونے کے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: انھیں کہہ دو کہ اگر خدا کا عذاب اچانک بلاکسی اطلاع کے یا آشکار ہانکے پکارے تمھارے پاس آجائے تو کیا ظالموں کے سوا کوئی اورنابود ہوگا( قُلْ اٴَرَاٴَیْتَکُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّهِ بَغْتَةً اٴَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَکُ إِلاَّ الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ ) (۱) ۔

”بغتة“ کا معنی ناگہانی اور اچانک ہے اور ”جھرتہ “آشکار اور علی الاعلان کے معنی میں ہے،قاعدہ کی رو سے تو اآشکار کے کے مقابلہ میں پنہاں ہونا چاہئے نہ کہ نا گہانی، چونکہ ناگہانی امور کے مقدمات عام طور پر مخفی اور پنہاں ہوتے ہیں ، کیوں کہ اگر وہ پنہاں نہ ہوں تو ناگہانی نہیں بنتے، اس بنا پر ”بغتة“ کے لفظ میں پنہاں کا مفہوم بھی پوشیدہ ہے ۔

اس سے منظور یہ ہے کہ جو ذات طرح طرح کی سزائیں دینے اور نعمتوں کے چھین لینے پر قدرت رکھتی ہے وہ صرف اور صرف ذات خدا ہے اور بتوں کا اس معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔

اس بنا پر کوئی دلیل اور وجہ نہیں ہے کہ ان کی پناہ لولیکن چونکہ خدا حکیم اور رحیم ہے لہٰذا وہی ستمگاروں کی کوہی سزا دیتا ہے ۔

ضمنی طور پر اس تعبیر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ”ظلم“ ایک وسیع معنی رکھتا ہے جو قسم قسم کے شرک اور گناہوں کو شامل ہے بلکہ قرآن کی آیات میں شرک کو ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا:”( لاتشرک باللّٰه ان الشرک لظلم عظیم )

بیٹا!خدا کا کسی کو شریک نہ بنانا کیوں کہ شرک ظلم عظیم ہے،(لقمان، ۱۳) ۔

بعد والی آیت میں خدائی پیغمبروں کے فرائض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : نہ صرف یہ کہ بے جان بتوں سے کچھ نہیں ہوسکتا بلکہ بزرگ انبیاء اور خدائی رہبر ورہنما بھی سوائے ابلغ رسالت، بشارت ونذارت اور تشویق اور تہدید کے اور کوئی کام نہیں کرتے اور جو بھی نعمت ہے وہ خدا کے حکم سے اور اسی کی طرف سے ہے اور وہ (انبیاء) بھی اپنی حاجات کو اسی سے طلب کرتے ہیں( وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِینَ إِلاَّ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ ) ۔

اس آیت کے گذشتہ آیات کے ساتھ تعلق کے بارے میں اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ گذشتہ آیات میں کئی قسم کہ تشویق وتہدید سے متعلق گفتگو ہے، اس آیت میں ہے کہ یہ وہی ہدف ہے کہ جس کے لئے پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں ، ان کا کام بھی بشارت ونذارت (خوشخبری دینا اور ڈراناہی) تھا ۔

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ راہ نجات دو چیزوں میں منحصر ہے ۱ ۔وہ لوگ جو ایمان لے آئے، ۲ ۔ اور اپنی اصلاح کرلیں (اور عمل صالح انجام دیں ) انھیں نہ خدائی سزا کا خوف ہے اور نہ ہی اپنے گذشتہ اعمال کا غم واندوہ ہے( فَمَنْ آمَنَ وَاٴَصْلَحَ فَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ ) ۔

اور ان کے مقابلے می جو لوگ آیات الٰہی کی تکذیب کرتے ہیں وہ اس فسق اور نافرمانی کے بدلے میں خدائی سزا اور عذاب میں گرفتار ہوں گے( وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا یَمَسُّهُمْ الْعَذَابُ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ) ۔

یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ آیات خدا کی تکذیب کرنے والوں کی سزا کے بارے میں ” یَمَسُّھُمْ الْعَذَاب“ کی تعبیر ہوئی ہے (یعنی پروردگار کا عذاب انھیں لمس کرتا ہے ) ، گویا عذاب ہر جگہ ان کے پیچھے لگا رہتا ہے اور اس کے بعد وہ انھیں بدترین طریقہ سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔

اس نکتے کا ذکر بھی لازم ہے کہ ”فسق“ ایک وسیع المعنی لفظ ہے اور ہر طرح کلی نافرمانی، خدا کی اطاعت سے باہر ہوجانا یہاں تک کہ کفر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اوپر والی آیت میں بھی یہی معنی مراد ہے، اس بنا پر ان بحثوں کا جو فخرالدین رازی اور دیگر مفسرین نے فسق کے بارے میں اس مقام پر کی ہے اور اسے گناہوں کے معنی میں بھی شامل سمجھتے ہوئے دفاع کے لئے کھڑے ہوگئے ہیں ، کوئی محل باقی نہیں رہتا ۔

____________________

۱۔ ”ارئیتکم “کے معنی اور اس کے تجزیہ اور ترکیب کے بارے میں اس سورہ کی آیہ ۴۰ کے ذیل میں بحث کر چکے ہیں اور یہ بیان کرچکے ہیں کہ ہمارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اسے ”اخبرونی“ کے معنی میں لیں بلکہ اس کامفہوم ہے” ھل علمتم“ کیا تمھیں معلوم ہے ۔