تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34486
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34486 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیت ۵۰

۵۰( قُلْ لاَاٴَقُولُ لَکُمْ عِندِی خَزَائِنُ اللَّهِ وَلاَاٴَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلاَاٴَقُولُ لَکُمْ إِنِّی مَلَکٌ إِنْ اٴَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاٴَعْمَی وَالْبَصِیرُ اٴَفَلاَتَتَفَکَّرُونَ ) ۔

ترجمہ:

۵۰ ۔کہہ دو کہ میں یہ تو نہیں کہتا کہ خدا کے خزانے میرے پاس ہیں اور نہ میں غیب سے آگاہ ہوں ( سوائے اس کے کہ جو خدا مجھے تعلیم دیتا ہے) اور میں تمھیں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں ، میں توصرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو خدا کی طرف سے مجھ پر وحی ہوتی ہے، کہہ دو کہ کیا نا بینا اور بینا برابر ہیں تم اس پر غور کیوں نہیں کرتے ؟

غیب سے آگاہی

اوپروالی آیت میں کفار ومشرکین کے مختلف اعترضات پر دئے گئے جوابات کاآخری حصہ بیان ہوا ہے اور ان کے اعتراضات کے تین حصوں کا مختصر جملوں میں جواب دیا گیا ہے ۔

پہلی بات یہ ہے کہ وہ (کفار ومشرکین) پیغمبر سے عجیب وغریب معجزات کے مطالبے کیا کرتے تھے اور ان میں سے ہر ایک کا مطالبہ اس کی اپنی خواہش کے مطابق ہوا کرتا تھا یہاں تک کہ وہ دوسروں کی درخواست پر دکھائے جانے والے معجزات کے مشاہدے پر بھی قناعت نہیں کرتے تھے، وہ پیغمبر سے کبھی سونے کے مکانات کا ، کبھی ملائک کے نزول کا، کبھی مکہ کی خشک اور بے آب وگیاہ زمین کے سرسبزوشاداب باغوں میں بدل جانے کا اور کبھی دوسری قسم کے مطالبات کا تقاضا کیا کرتے تھے، جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۹۰ کے ذیل میں اس کی تفصیل آئے گی ۔

گویا وہ ایسے عجیب وغریب تقاضے کرکے پیغمبر کے لئے ایک قسم کے مقام الوہیت اور زمین وآسمان کی ملکیت کی توقع رکھتے تھے، لہٰذا ان افراد کے جواب میں پیغمبر کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ میرا یہ ہر گز دعویٰ نہیں ہے کہ خدائی خزانے میرے ہاتھ میں ہیں( قُلْ لاَاٴَقُولُ لَکُمْ عِندِی خَزَائِنُ اللَّهِ ) ۔

”خزائن“ جمع ہے” خزانہ “ کی اور خزانہ ہر چیز کے منبع و مرکز کو کہتے ہیں کہ جس کی حفاظت کے لئے اور دوسروں کے اس تک دسترس حاصل کرنے کے لئے اسے وہاں جمع کیا گیا ہو ۔( وان من شی الا عندنا خزائنه وما ننزله الا بقدر معلوم ) (سورہ حجر آیہ ۲۱) ۔

اور ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم معلوم انداز ے کے سوا اسے نازل نہیں کرتے ۔

اس آیت کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ”( خزائن اللّٰه ) “ تمام چیزوں کے منبع اور مرکز کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور حقیقت میں یہ منبع اسی ذات لامتناہی کے قبضہ قدرت میں ہے کہ جو تمام کمالات اور قدرتوں کا سرچشمہ ہے ۔

اس کے بعد ان افراد کے مقابلے میں جو یہ توقع رکھتے تھے کہ پیغمبر انھیں تمام گذشتہ اور آئندہ کے اسرار سے آگاہ کریں یہاں تک کہ انھیں یہ بھی بتلائیں کہ ان کی زندگی سے متعلق کون سے حادثات رونما ہونگے تاکہ وہ رفع ضرر اور جلب منفعت کے لئے آمادہ ہوجائیں کہتا ہے: کہئے ! میں ہرگز دعویٰ نہیں کرتا کہ میں تمام پوشیدہ امور اور اسرار غیب سے آگاہ ہوں( وَلاَاٴَعْلَمُ الْغَیْبَ ) ۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ تمام چیزوں صرف وہی ذات باخبر ہوسکتی ہے جو ہر مکان اور ہر زمان میں حاضر وناظر ہو اور وہ صرف خدا ہی کی ذات پاک ہے لیکن اس کے سوا ہر وہ شخص کہ جس کا وجود ایک معین زمان ومکان میں محدود ہو طبعا ہر چیز سے باخبر نہیں ہوسکتا لیکن اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ خدا وند عالم غیب کا کچھ حصہ کہ جس کی وہ مصلحت جانتا ہے اور جو خدائی رہبروں کی رہبری کی تکمیل کے لئے ضروری ہے ان کے اختیار میں دیدے، البتہ اس کو بالذات علم غیب نہیں نہیں کہتے بلکہ اس کو بالعرض علم غیب کہتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں یہ عالم الغیب سے یاد کیا ہو اور پڑھا ہوا ہوتا ہے ۔

قرآن کی متعدد آیات گواہی دیتی ہے کہ خدا نے اس قسم کا علم نہ صرف یہ کہ انبیاء اور خدائی رہنماؤں کو دیا ہے بلکہ بعض اوقات ان کے غیر کو بھی دیا ہے ،منجملہ ان آیات کے سورہ جن آیہ ۲۶ و ۲۷ میں ہے:

خدا تمام پوشیدہ امور سے آگاہ ہے اور وہ کسی کو اپنے علم غیب سے آگاہ نہیں کرتا مگر ان رسولوں کو جن سے وہ راضی ہو ۔ اصولی طور پر مقام رہبری کی تکمیل کے لئے ۔علی الخصوص ایسی رہبری جو تمام لوگوں کے لئے ہو، بہت سے ایسے مسائل پر مطلع ہونے کی ضرورت ہے جو باقی دوسرے لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں اور اگر خدا یہ علم غیب اپنے بھیجے ہوئے افراد اور اپنے اولیاء کو نہ دے تو ان کا مقام رہبری تکمیل تک نہیں پہنچتا(غور کیجئے گا) ۔

یہ بات تو اپنے مقام پر مسلم ہے کہ بعض اوقات ایک موجود زندہ بھی اپنی زندگی کو جاری رکھنے کے لئے غیب کے ایک گوشہ کو جاننے کا محتاج ہے اور خدا اسے اس کے اختیار میں دیتا ہے، مثلا ہم نے سنا ہے کہ بعض حشرات اور کیڑے مکوڑے گرمیوں میں سردیوں کے موسمی حالات کی پیش بینی کرتے ہیں ، یعنی خدا وند تعالیٰ نے یہ علم غیب خصوصیت کے ساتھ انھیں دے رکھا ہے کیوں کہ ان کی زندگی اس کے بغیر بسا اوقات فنا کی گود میں چلی جاتی ہے، ہم اس امر کی مذید تفصیل انشاء اللہ سورہ اعراف کی آیہ ۱۸۸ کے ذیل میں بیان کریں گے ۔

تیسرے جملے میں ان لوگوں کے سوال کے جواب میں کہ جو یہ توقع رکھتے تھے کہ خود پیغمبر کو فرشتہ ہونا چاہئے یا کسی فرشتہ کو ان کے ہمراہ ہونا چاہئے اور کسی قسم کے عوارض بشری (مثلا کھانا، کوچہ وبازار میں چلنا پھر نا) ان میں نظر نہ آئےں ارشاد ہوتا ہے: میرا ہر گز دعویٰ نہیں ہے کہ میں فرشتہ ہوں( وَلاَاٴَقُولُ لَکُمْ إِنِّی مَلَک ) ۔

بلکہ میں تو صرف ان احکام وتعلیمات کی پیروی کرتا ہوں کہ جو پرور دگار کی طرف سے بذریعہ وحی مجھ تک پہنچتے ہیں( إِنْ اٴَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ ) ۔

اس جملے سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کے پاس جو کچھ بھی تھا اور آپ جو کچھ بھی کرتے تھے اس کا سرچشمہ وحی الٰہی ہی تھی اور جیسا کہ بعض حضرات نے خیال کیا کہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کرتے تھے، ایسا ہرگز نہیں ہے اور اسی طرح نہ وہ قیاس پر عمل کرتے تھے اور نہ ہی کسی اور بات پر بلکہ دینی امور میں آپ کا پروگرام صرف وحی کی پیروی میں ہوتا تھا(۱) ۔

اور آیات کے آخر میں پیغمبر کو حکم دیا جارہا ہے کہ کہہ دو کہ نابینا اور بینا افراد برابر ہیں اور کیا وہ لوگ کہ جنھوں نے اپنی آنکھوں اور فکر وعقل کو بند کررکھا ہے ان اشخاص کے برابر ہے جو حقائق کو اچھی طرح سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کیا تم اس بات پر غور نہیں کرتے( قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاٴَعْمَی وَالْبَصِیرُ اٴَفَلاَتَتَفَکَّرُونَ ) ۔

گذشتہ تین جملوں کے بعد اس جملے کا ذکر ممکن ہے اس بنا پر ہو کہ اس سے پہلے جملوں میں پیغمبر نے فرمایا: میں نہ خدائی خزانے رکھتا ہوں ، نہ غیب کا عالم ہو اور نہ ہی میں فرشتہ ہوں میں تو صرف وحی کا پیروکار ہوں ، لیکن یہ گفتگواس معنی میں نہیں ہے کہ تم جیسے ہٹ دھرم بت پرستوں کی طرح ہوں بلکہ میں ایک بینا انسان ہوں جب کہ تم نابیناؤں کی طرح ہو اور یہ دونوں مساوی نہیں ہے ۔

اس جملہ کا پہلے جملوں سے تعلق اور جوڑ کے بارے میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ توحید اور پیغمبر کی حقانیت کی دلیلیں بالکل واضح وآشکار ہے لیکن انھیں دیکھنے کے لئے چشم بینا کی ضرورت ہے اور اگر تم قبول نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ بات مبہم اور یا پیچیدہ ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم بینانہیں ہو، کیا بینا اور نابینا برابر ہیں ؟۔

____________________

۱۔ پیغمبر کے تمام امور دینی تھے وہاں دنیاوی اور دینی امور کا کوئی الگ الگ تصور نہیں ہے(مترجم)

آیت ۵۱

۵۱( وَاٴَنذِرْ بِهِ الَّذِینَ یَخَافُونَ اٴَنْ یُحْشَرُوا إِلَی رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِیٌّ وَلاَشَفِیعٌ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ) ۔

ترجمہ:

۵۱ ۔اس (قرآن) کے ذریعہ ان لوگوں کو ڈراؤ جو حشر ونشر اور قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں ( وہ دن کہ جس میں ) یارویاور ، سرپرست اور شفاعت کرنے والا سوائے اس (خدا) کے نہ رکھتے ہوں گے، شاید وہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کریں ۔

قرآن کے ذریعہ ایسے لوگوں کو ڈراؤ

گذشتہ آیت کے آخر میں فرمایا گیا تھا کہ نابینا اور بینا یکساں نہیں ہےں اور اس کے میں بعد اس آیت میں پیغمبر کو حکم دیا جارہا ہے :قرآن کے ذریعہ ایسے لوگوں کو ڈراؤ اور بیدرا کرو جو قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں ، یعنی کم از کم ان کی آنکھیں انتی ضرور کھلی ہوئی ہیں کہ وہ یہ احتمال رکھتے ہیں کہ حساب وکتاب ہوگا اور اس احتمال کے زیر سایہ اور جوابدہی کے خوف سے قبول کرنے کے لئے آمادگی کریں( وَاٴَنذِرْ بِهِ الَّذِینَ یَخَافُونَ اٴَنْ یُحْشَرُوا إِلَی رَبِّهِمْ ) ۔

شاید ہم کئی بار بیان کرچکے ہیں کہ افراد کی ہدایت کے لئے صرف ایک لائق رہبر اور ایک جامع تربیتی پروگرام ہی کافی نہیں ہے بلکہ خود افراد میں بھی ایک قسم کی آمادگی ضروری ہے ، جیسا کہ آفتاب کی روشنی چاہ سے راہ کو تلاش کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، بلکہ چشم بینا کی بھی ضرورت ہے اور مستعد وآمادہ بیج بھی بار آونہیں ہوسکتا جب تک کہ زمین آمادہ وتیار نہ ہو ۔

ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ ”بہ“کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے اگر چہ قبل کی آیات میں قرآن کا صراحت کے ساتھ ذکر نہیں ہو، لیکن یہ بات قرائن سے واضح ہے ۔

اسی طرح ”یخافون“(ڈرتے ہیں ) سے مراد وہی نقصان وضرر کا احتمال ہے کہ جو ہر عقلمند کے ذہن میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انبیاء اور رہبران خدا کی دعوت پر غور کرتا ہے کہ شاید ان کی دعوت حق ہو، اور اس کی مخالفت زیان اور خسارے کا سبب بنے لہٰذا کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ان کی دعوت کا مطالعہ کریں اور ان کے دلائل پر غور کریں ؟۔

یہ ہدایت کی اولین شرائط میں سے ایک ہے، اور یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے علماء عقائدلزوم”دفع ضرر محتمل“ کے عنوان سے مدعی نبوت کی دعوت کے مطالعہ کے وجوب اور خدا کی شناسائی کے بارے میں مطالعہ کے لزوم کی دلیل قرار دیتے ہیں ۔

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ اس قسم کے بیدار دل افراد اس دن سے ڈرتے ہیں کہ جب سوائے خدا کے اور کوئی پناہ گا ہ اور شفاعت کرنے والا نہیں ہوگا( لَیْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِیٌّ وَلاَشَفِیعٌ ) ۔

ہاں ایسے افراد کو ڈراؤ اور انھیں خدا کی طرف دعوت دو کیوں کہ ان کے بارے میں تقوی اور پرہیزگاری کی امید ہے( لَعَلَّهُمْ یَتَّقُون ) ۔

البتہ اس آیت میں غیر خدا کی ولایت و شفاعت کے ساتھ کسی قسم کا تضاد نہیں رکھتی، کیوں کہ جیسا کہ ہم پہلے ارشاد کرچکے ہیں کہ یہاں بالذات شفاعت وولایت کی نفی مراد ہے، یعنی دومقام ذاتی طور پر خدا کے ساتھ مخصوص ہیں ، اب اگر اس کا غیر مقام ولایت وشفاعت رکھتا ہے تو وہ اس کے اذن و اجازت اور فرمان کے ساتھ ہے جیسا کہ قرآن صراحت کے ساتھ کہتا ہے:( من ذاالذی یشفع عنده اِلَّا باذنه )

کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کے حکم کے بغیر شفاعت کرے(سورہ بقرہ، ۲۵۵) ۔

اس کی مزید توضیح اور شفاعت کی مکمل بحث کے بارے میں تفسیر نمونہ کی جلد اول ،صفحہ ۱۹۸( اردو ترجمہ) اور جلد دوم، صفحہ ۱۵۵( اردو ترجمہ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔

آیات ۵۲،۵۳

۵۲( وَلاَتَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَیْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْهِمْ مِنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَکُونَ مِنْ الظَّالِمِینَ ) ۔

۵۳( وَکَذَلِکَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْض لِیَقُولُوا اٴَهَؤُلاَءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَیْهِمْ مِنْ بَیْنِنَا اٴَلَیْسَ اللَّهُ بِاٴَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ ) ۔

ترجمہ:

۵۲ ۔ ان لوگوں کو جو صبح شام خدا کو پکارتے ہیں اور اس کی ذات پاک کے علاوہ کسی پر نگاہ نہیں رکھتے اپنے سے دور نہ کر ۔نہ ان کا حساب تجھ پر ہے اور نہ تیرا حساب ان پر ہے، اگر تو ان کو دھتکارے گا تو ظالموں میں سے ہوجائے گا ۔

۵۳ ۔ اور اس طرح ہم نے ان میں سے بعض کو دوسرے بعض کے ساتھ آزمایا ہے (تونگروں کو فقیروں کے ذریعے) تاکہ وہ یہ کہیں کہ کیا یہ ہے وہ جنھیں خدا نے ہمارے درمیان سے (چنا ہے اور) ان پر احسان کیا ہے (اور انھیں نعمت ایمان سے نوازا ہے)تو کیا خدا شکر کرنے والوں کو بہتر طور پر پہچانتا نہیں ہے؟۔

شان نزول

اوپر والی آیات کی شان نزول میں بہت سے روایات نقل ہوئی ہیں کہ جو سب کی سب ایک دوسرے سے بہت ملتی جلتی ہیں ، منجملہ ان کے ایک وہ ہے جو تفسیر ”در المنثور “ میں اس طرح نقل ہوئی ہے کہ قریش کی ایک جماعت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کے پاس سے گزری جب کہ صہیب ، عمار ،بلال اور خباب اور ان ہی جیسے دوسرے فقیر اور مزدور قسم کے مسلمان پیغمبر کی خدمت میں حاضر تھے ،انھوں نے یہ منظر دیکھ کر تعجب کیا( اور چونکہ وہ شخصیت کو مال وثروت اور مقام ومنصب میں منحصر سمجھتے تھے لہٰذا وہ ان مردان بزرگ کے مقام روحانی کی عظمت اور آئندہ کے عظیم اسلامی اور انسانی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں ان کے کار ناموں کے نقوش کو سمجھ نہ سکے )اور کہنے لگے کہ اے محمد ! کیا آپ نے ساری جمعیت میں سے بس ان ہی افراد پر قناعت کرلی ہے؟ کیا یہی ہے وہ کہ جنھیں خدا نے ہمارے درمیان میں سے منتخب کیا ہے؟ کیاہم ان کے پیرو ہوجائیں ؟ جتنا جلدی ہو سکے آپ انھیں اپنے سے دور کردیجئے تو شاید ہم آپ کے قرایب آجائیں اور آپ کی پیروی کرلیں ،اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور ان کے اس تقاضے اورمطالبے کو شدت کے ساتھ رد کردیا گیا ۔

بعض مفسرین اہل سنت نے اسی جیسی ایک حدیث نقل کی ہے، مثلا”المنار“ کے مولف نے اسی کے مانند روایت کرتے ہوئے مزید اضافہ کیا ہے کہ عمر بن خطاب وہاں حاضر تھے اور انھوں نے پیغمبر اکرم سے یہ تقاضا کیا کہ اس میں کیا حرج ہے کہ ہم ان کے مطالبہ کو مان لیں اور یہ دیکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں تو ان پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئی اور ان کے اس تقاضے کو بھی رد کردیا گیا ۔

اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ اس سورہ کی بعض آیات کی شان نزول کا ذکر کرنا اس بات کے منافی نہیں کہ یہ پوری صورت ایک سورة ایک ہی جگہ نازل ہوئی ہو، کیوں کہ جیسا کہ ہم پہلے بھی ارشا د کرچکے ہیں کہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس سورت کے نزول سے پہلے طرح طرح کے حوادث مختلف فاصلوں میں رونما ہوچکے ہوں اور یہ سورت ان سب حوادث کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہو ۔

اس مقام پر اس نکتہ کاذکر کرنا بھی ضروری نظر آتا ہے کہ کچھ روایات میں یہ نقل ہوا ہے کہ جس وقت پیغمبر نے ان کی پیش کش قبول نہ کی تو انھوں نے یہ درخواست کی کہ اشراف قریش اور فقیر صحابہ کے درمیان باری مقرر کرلیں ، یعنی ایک روزان کے لئے اور ایک دن ان کے لئے مقرر کردیں تاکہ وہ اکھٹے میں ایک ہی جلسہ میں نہ بیٹھیں تو پیغمبر اکرم نے (پہلے ) ان کی یہ تجویز قبول کرلی تاکہ شاید یہ بات ان کے ایمان لانے کا ذریعہ بن جائے تو انھوں نے کہا کہ یہ مطلب ایک قرار داد کے عنوان سے تحریر میں لایا جائے پیغمبر نے حضرت علی (علیه السلام) کو مذکورہ قرار داد لکھنے پر مامور ہی کیا تھا کہ اوپر والی آیت نازل ہوئی اور اس کام سے روک دیا گیا ۔

لیکن یہ روایت علاوہ اس کے کہ تعلیمات اسلامی کی روح کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اور آپ نے کبھی اس قسم کے امتیازی سلوک کی طرف جھکاؤ کا مظاہرنہیں کیا بلکہ ہر جگہ معاشرہ اسلامی کی وحدت کی بات کی ہے، قبل کی آیت ساتھ بھی مطابقت نہیں رکھتی جس میں کہا گیا ہے”( ان اتبع الا مایوحی الی ) “(میں تو صرف وحی الہی کی پیروی کرتا ہوں )، یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر نے وحی کا انتظار کئے بغیر اس تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا ہو ۔ علاوہ ازیں ”لا تطرد“کا جملہ جو زیر بحث آیت کی ابتدا میں ہے اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ان کا مطالبہ اصحاب پیغمبر کے اس گروہ کو مطلقا ہمیشہ کے لئے اپنے سے دور کرنے کے لئے تھا نہ کہ نبوت اور باری مقرر کرنے کا مطالبہ تھا، کیوں کہ”تناوب“ اور ”طرد“ میں بہت فرق ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شان نزول وہی ہے جو ہم ابتدا میں بیان کرچکے ہیں ۔

طبقاتی تقسیم کے خلاف جنگ

اس آیت میں مشرکین کی ایک اور بہانہ جوئی کی طرف اشارہ ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ انھیں توقع تھی کہ پیغمبر فقیر طبقے کے مقابلے میں ثروت مندوں کے لئے امتیاز کے قائل ہوجائیں گے اور ان کا خیال تھا کہ ان اصحاب پیغمبر کے پاس بیٹھنا اور ان کے لئے عیب اور بہت بڑا نقص ہے حالانکہ وہ اس بات سے غافل تھے کہ اسلام آیا ہی اس لئے ہے کہ وہ اس قسم کے لغو اور بے بنیاد امتیازات کو ختم کردے، اسی لئے وہ اس تجویز پر بہت مصر تھے،کہ پیغمبر اس گروہ کو اپنے قرب سے دور کریں لیکن قرآن صراحت کے ساتھ اور وزنی دلائل پیش کرکے ان کی تجویز کی نفی کرتا ہے، پہلے کہتا ہے :ان اشخاص کو کہ جو صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور سوائے اس کی ذات پاک کے ان کی نظر کسی پر نہیں ہے انھیں ہرگز اپنے سے دور نہ کرنا

( لاَتَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ ) (۱) ۔

قابل توجہ امر یہ ہے کہ یہاں بجائے اس کے کہ ان اشخاص کا نام یا عنوان ذکر کیا جاتا صرف اس صفت کے ذکر کرنے پر قناعت ہوئی ہے کہ وہ صبح اور شام ۔ اور دوسرے لفظوں میں ہمیشہ۔ خدا کی یاد میں لگے رہتے ہیں اور یہ عبادت وپرستش اور پروردگار کی طرف توجہ نہ تو کسی اورغرض کے لئے ہے اور نہ ریاکاری سے بلکہ (ان کی یہ عبادت) صرف اس کی ذات پاک کے لئے ہے، وہ اسے صرف ، خود اسی کی خاطر چاہتے ہیں اور اس کے پاس ہیں اور کوئی امتیاز اس امتیاز کی برابری نہیں کرسکتا ۔

قرآن کی مختلف آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ثروت مند اور خود پسند مشرکین کی طرف سے یہ پہلی اور آخری بار نہ تھا کہ انھوں نے پیغمبر کو ایسی تجویز پیش ہو بلکہ وہ بار ہا ایسا اعتراض کرچکے تھے کہ پیغمبر نے کچھ بیکس وبینوا افراد کو اپنے گرد کیوں جمع کرلیا ہے اور ان کا یہ اصرا رتھا کہ آپ انھیں اپنے پاس سے چلتا کردیں ۔

حقیقت میں یہ لوگ ایک پرانی غلط روایت کی بنا پر سمجھتے تھے کہ افراد میں امتیاز دولت وثروت کے سبب سے ہوتا ہے اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ معاشرے کے طبقات جو ثروت کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں اہ محفوظ رہنے چاہیئں اور ہر وہ دین اور ہر وہ دعوت جو طبقاتی زندگی کو ختم کرنا چاہے اور ان امتیازات کو نظر انداز کرے اور ان کی نظر میں مطرود اور ناقابل قبول ہے ۔

ہم حضرت نوح علیہ السلام کے حالات میں بھی پڑھتے ہیں کے ان کے زمانے کے ”بڑے آدمی“ ان سے یہ کہتے تھے:

( وما نراک اتبعک الا الذین هم ارازلنا بادی الراٴی )

ہم نہیں دیکھتے کہ کسی نے تمھاری پیروی کی ہو سوائے ان لوگوں کے جو ہم میں سے فرو مایہ اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ( ھود آیہ ۲۷) ۔

اور وہ اسے ان کی رسالت کے باطل ہونے کی دلیل سمجھتے تھے ۔

ایک نشانی اسلام اور قرآن کی عظمت کی بلکہ کلی طور پر انبیاء کی عظمت کی یہ ہے کہ ان سے جتنی سختی کے ساتھ ہو سکتا تھا اس قسم کی سوچوں کا مقابلہ کیا اور ایسے معاشروں میں کہ جن میں طبقاتی اختلاف ایک دائمی مسئلہ شمار ہوتا تھا، ایک موہوم امتیاز کو کچلنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلمان، ابو ذر، صہیب، خباب اور بلال جیسے پاک دل غلام، صاحب ایمان اور عقلمند افراد میں مال ودولت نہ رکھنے کے باوجود معمولی سی بھی کمزوری اور نقص نہیں ہے اور بے مغز ، کور دل، خود خواہ اور متکبر ثروت مند اپنی دولت وثروت کی وجہ سے اجتماعی اور معنوی امتیازات سے بہرہ اندوز نہیں ہوسکتے ۔

بعد والے جملے میں فرمایا گیا ہے: کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے صاحبان ایمان کو تو اپنے سے دور کرے نہ ان کا حساب تیرے اوپر اور نہ تیرا حساب ان کے اوپر ہے (مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِنْ شَیْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْھِمْ مِنْ شَیْءٍ) اس کے با وجود اگر تم ان کو اپنے سے دور کرو گے تو ستمگروں اور ظالموں میں سے ہوجاؤ گے( فَتَطْرُدَھُمْ فَتَکُونَ مِنْ الظَّالِمِینَ ) ۔

اس کے بارے میں کہ یہاں پر حساب سے کونسا حساب مراد ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے بعض کا احتمال ہے کہ اس سے مراد ان کی روزی کا حساب ہے ۔

یعنی اگر ان کا ہاتھ مال دولت سے خالی ہے تو وہ تمھارے کندھے پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتے کیوں کہ ان کی روزی کا حساب تو اللہ پر ہے، جیسا کہ تم بھی اپنی زندگی کا بوجھ ان پر نہیں ڈالتے ، اور تمھاری روزی کا حساب ان پر نہیں ہے ۔

ابھی ہم وضاحت کریں گے یہ احتمال بعید نظر آتا ہے بلکہ ظاہر یہ ہے کہ حساب سے مراد عمل کا حساب ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین نے کہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ خدا وند تعالیٰ یہ کس طرح فرماتا ہے کہ ان کے اعمال کا حساب تم پر نہیں ہے حالانکہ ان کا کوئی برا عمل نہیں تھا کہ ایسی بات کرنا ضروری ہوتا، یہ اس بنا پر ہے کہ مشرکین اصحاب پیغمبر میں سے فقراء کو مال ثروت نہ ہونے کی وجہ سے خدا سے دور سمجھتے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر ان کے اعمال خدا کے ہاں قابل قبول ہوتے تو پھر انھیں زندگی کے لحاظ سے خوش حال کیوں نہیں بنا یا گیا، علاوہ ازایں وہ انھیں اس بات سے متہم کرتے تھے کہ شاید ان کا ایمان لانا زندگی کی اصلاح اور روٹی پانی کے حصول کے لئے تھا ۔

قرآن انھیں جواب دیتا ہے کہ فرض کرو کہ وہ ایسے ہی ہو ں ، لیکن ان کا حساب توخدا کے ساتھ ہے، صرف اس بات پر کہ وہ ایمان لے آئیں اور مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں ، کسی قیمت پر انھیں دھتکارا نہیں جا نا چاہئے اور اس طرح سے امراء قریش کی بہانہ جوئیوں پر گرفت کی گئی ہے ۔

شاید یہ تفسیر وہی کہ کہ جو حضرت نوح (علیه السلام) کی داستان میں بیان ہوئی ہے جو اشراف قریش کی داستان کے مشابہ ہے، جہاں قوم نوح آپ سے کہتی ہے:( انو من لک واتبعک الا رذلون )

کیا ہم تجھ پر ایمان لے آئیں ؟ حالانکہ بے وقعت افراد نے تیری پیروی کی ہے ۔

حضرت نوح (علیه السلام) ان کے جواب میں کہتے ہیں :

( وما علمی مماکانوا یعلمون ان حسابهم الاعلی ربی لو تشعرون وما انا بطاردالمومنین )

مجھے ان کے اعمال کی کیا خبر ہے، ان کے اعمال کا حساب تو اللہ پر ہے اگر تم جانو اور جنھوں نے ایمان کا اظہار کیا ہے میں انھیں اپنے سے دور نہیں کرسکتا(۲) ۔

خلاصہ یہ کہ پیغمبر کی ذمہ داری یہ ہے کہ بغیر فرق وامتیاز کے جو شخص بھی ایمان کا اظہار کرے خواہ وہ کسی بھی قوم ، قبیلہ اور طبقہ سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو اسے قبول کر لے چہ جائیکہ وہ پاک دل اور صاحب ایمان افراد ہوں کہ جو خدا کے سوا کسی کے جویا نہیں ہیں اور ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ ان کا ہاتھ مال و ثروت سے خالی ہے اوروہ اشراف کی نکبت بار زندگی میں آلودہ نہیں ہیں ۔

____________________

۱۔ ”وجہ“ کا معنی لغت میں چہرہ ہے اور بعض اوقات ذات کے معنی میں استعمال ہوا ہے، زیر نظر آیت اس سے مراد دوسرا معنی ہی ہے اس موضوع کے بارے میں مزید تفصیل تفسیر نمونہ کہ جلد دوم،صفحہ ۲۰۵(اردو ترجمہ) پر مطالعہ کریں ۔

۲۔ شعرا،۱۱۱تا۱۱۴۔

اسلام کا ایک عظیم امتیاز

ہم جانتے ہیں کہ آج کل کی مسیحیت میں مذہبی راہنماؤں کا دائرہ اختیار مضحکہ انگیزحد تک پاچکا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے لئے گناہ بخش دینے کے حق کے قائل ہیں اور اسی بنا پر اگر وہ چاہیں کسی شخص کو معمولی سی بات پر دھتکار دیں اور کافر قرار سے دیں اور چاہیں تو کسی کو قبول کرلیں ۔

قرآن مجید زیر نظر آیت میں اور دیگر آیات میں راحت کے ساتھ یاددہانی کراتا ہے کہ نہ صرف مذہبی علماء بلکہ پیغمبر کی ذات تک بھی اظہار ایمان کرنے والے کو دھتکار نے اور دور کرنے کا حق نہیں رکھتے تھے، جب کہ انھوں نے کوئی ایسا کام بھی انجام نہیں دیا کہ جو ان کے اسلام سے خارج ہونے کا سبب بنے، گناہوں کی بخشش اور بندوں کا حساب وکتاب صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کے سوا کوئی بھی اس کام میں دخل دینے کا حق نہیں رکھتا ۔

لیکن کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو، آیت میں موضوع بحث ”طردمذہبی“ہے نہ کہ ”طرد حقوقی“ اس معنی میں کہ اگر مثلا ایک مدرسہ خاص قسم کے طالب علموں کے لئے وقف ہو اور کوئی شخص ابتدا سے ان شرائط کا حامل ہو اور بعد ان میں یہ شرائط باقی نہ رہے تو اسے اس مدرسہ سے نکالنا کوئی منع نہیں رکھتا اور اسی طرح اگر مدرسہ کا متولی مدرسہ کی مصلحتوں کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے کچھ اختیارات رکھتا ہو تو اس مدرسے کے نظام اور اس کی حیثیت وموقعیت کی حفاظت کی لئے ان جائز اختیارات سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے( اس بنا پر وہ مطالب جو تفسیر المنار میں اس آیہ کے ذیل میں اس مطالب کے برخلاف نظر آتے ہیں وہ ”طرد مذہبی“کے ”طرد حقوقی“ سے اشتباہ سے پیدا ہوئے ہیں ) ۔

بعد والی آیت میں بے ایمان دولت مند افراد کو تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ واقعات ان کے لئے آزمائش ہیں اور اگر وہ ان آزمائشوں کی بھٹی سے صحیح طریقے سے باہر نہ نکل سکے تو وہ دردناک عواقب وانجام کے متحمل ہوں گے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اس طرح سے ان میں سے بعض کو دوسرے بعض کے ذریعے آزمایا( وَکَذَلِکَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْض ) یہاں ”فتنتہ“ آزمائش کے معنی میں ہے(۱) ۔

اس سے سخت آزمائش اور کیا ہوگی کہ وہ اشراف اور دولت مندکہ جنھوں نے سالہا سال سے یہ عادت بنائی ہوئی ہے کہ اپنے تمام معاملات کو نچلے طبقے کے لوگوں سے بالکل الگ رکھیں ، نہ ان کی خوشی میں شریک ہوں اور نہ ہی ان کے رنج وغم میں ، یہاں تک کہ ان کی قبریں بھی ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوں ، وہ یکا یک ان تمام آداب ورسوم توڑ ڈالیں اور ان کی عظیم زنجیروں کو اپنے ہاتھ پاؤں سے نکال پھینکےں اور ایسے دین کو اپنالیں کہ جس کی طرف سبقت کرنے والے لوگ اصطلاح کے مطابق نچلے درجے اور طبقہ فقراء کے آدمی شمار ہوتے ہیں ۔

پھر مزید ارشاد ہوتا ہے کہ ان تونگروں کا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ سچے مومنین کی طرف حقارت کی نگاہ ڈال کر کہتے ہیں : کیا یہی لوگ ہیں جنھیں خدا نے ہمارے درمیاں سے چن لیا ہے اور انھیں نعمت ایمان واسلام کے ساتھ نوازا ہے، کیا یہ اس قسم کی باتوں کی قابلیت رکھتے ہیں

( لِیَقُولُوا اٴَهَؤُلاَءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَیْهِمْ مِنْ بَیْنِنَا ) (۲)

بعد میں ان کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ صاحبان ایمان ایسے افراد ہیں کہ انھوں نے عمل وتشخیص کی نعمت کا شکر ادا کیا ہے اور اس کو روبہ عمل لائے ہیں ، اسی طرح انھوں نے پیغمبر کی دعوت کی نعمت کا شکرادا کیا ہے اور ان کی دعوت کو قبول کیا ہے، اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوگی اور اس سے بڑھ کر شکر اور کیا ہوگا، اسی بنا پر خدانے ایمان کو ان کے دلوں میں راسخ کردیا ہے، کیا خدا شکر گزاروں کو بہتر نہیں پہچانتا( اٴَلَیْسَ اللَّهُ بِاٴَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ ) ۔

____________________

۱۔مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ کہ جلد ۲، سورہ بقرہ کی آیہ ۱۹۱ (صفحہ ۲۶ اردو ترجمہ ) اور آیہ ۱۹۳ (صفحہ ۲۹ اردو ترجمہ) کی طرف روجوع کریں ۔

۲۔ سورہ آل عمران آیہ ۱۶۴ کے ذیل میں اشارہ ہوچکا ہے کہ ”منة“ اصل میں نعمت بخشنے کے معنی میں ہے مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۳(صفحہ ۱۲۲ اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع کریں ۔