تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34482
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34482 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۵۹،۶۰،۶۱،۶۲

۵۹( وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَیَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلاَّ یَعْلَمُهَاَّةٍ فِی ظُلُمَاتِ الْاٴَرْضِ وَلاَرَطْبٍ وَلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ ) ۔

۶۰( وَهُوَ الَّذِی یَتَوَفَّاکُمْ بِاللَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیهِ لِیُقْضَی اٴَجَلٌ مُسَمًّی ثُمَّ إِلَیْهِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

۶۱( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَةً حَتَّی إِذَا جَاءَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لاَیُفَرِّطُونَ ) ۔

۶۲( ثُمَّ رُدُّوا إِلَی اللَّهِ مَوْلاَهُمْ الْحَقِّ اٴَلاَلَهُ الْحُکْمُ وَهُوَ اٴَسْرَعُ الْحَاسِبِینَ ) ۔

ترجمہ:

۵۹ ۔ غیب کی چابیاں صرف اسی کے پاس ہیں اور اس کے علاوہ کوئی اسے نہیں جانتا اور خشکی اور دریا میں جو کچھ ہے وہ اسے جانتا ہے کوئی پتہ (کسی درخت سے ) نہیں گرتا مگر یہ کہ وہ اس سے آگاہ ہے اور زمین کی پوشیدہ وتاریک جگہوں میں کوئی کوئی دانہ ہے اور نہ ہی کوئی خشک وتر چیزوجود رکھتی ہے مگر یہ کہ وہ واضح کتاب ( کتاب علم خدا) میں ثبت ہے ۔

۶۰ ۔وہی وہ ذات ہے کہ جو تمھاری روح کو رات کے وقت (نیند میں ) لے لےتا ہے اور جو کچھ تم نے دن میں کسب کیا (اور انجام دیا) ہے اس سے با خبر ہے پھر وہ دن میں ( نیند سے) تمھیں اٹھاتا ہے( اور یہ کیفیت ہمیشہ جاری رہتی ہے) یہاں تک کہ معین گھڑی آپہنچے، اس کے بعد تمھاری بازگشت اسی کی طرح ہوگی اور جو کچھ عمل تم کرتے ہو وہ اس کی تمھیں خبر دے گا ۔

۶۱ ۔وہ اپنے بندوں پر مکمل تسلط رکھتا ہے ، اور تمھارے اوپر نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچے تو ہمارے بھیجے ہوئے اس کی جان لے لیتے ہیں اوروہ ( بندوں کے اعمال کے حساب کی نگہداری میں ) کوتاہی نہیں کرتے ۔

۶۲ ۔ اس کے بعد (تمام بندے) خدا کی طرف جو ان کا مولا ئے حقیقی ہے پلٹ جائیں گے، جان لو کہ حکم کرنا اسے کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ سب سے جلدی حساب کرنے والا ہے ۔

اسرار غیب

گذشتہ آیات میں گفتگو خدا کے علم وقدرت اور اس کے حکم وفرماں کے دائرے کی وسعت کے بارے میں تھی اب ان آیات میں اس بیان کی گذشتہ آیات میں اجمالا ذکر ہوا تھا وضاحت کی کی جارہی ہے ۔

سب سے پہلے علم خدا کے موضوع کو لیتے ہوئے کہتا ہے:

”غیب کے خزانے(یا غیب کی چابیاں ) سب کی سب خدا کے پاس ہیں اور اس کے علاوہ کوئی انھیں نہیں جانتا( وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَیَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ ) ۔

”مفاتح“ جمع ”مفتح“ (بروزن بہتر“چابی کے معنی میں ہے او یہ بھی ممکن ہے کہ جمع ”مفتح“ (بروزن دفتر) خزانہ اور کسی چیز کی حفاظت کے مرکز کے معنی میں ہو ۔

پہلی صورت میں آیت کا معنی اس طرح ہوگا کہ تمام غیب کی چابیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں اور دوسری صورت میں معنی یہ ہو گا کہ غیب کے تمام خزانے اسے کے قبضے میں ہیں ۔

یہ احتمال بھی موجود ہے کہ دونوں ہی معانی ایک عبارت میں مراد ہوں اور جیسا کہ ہم علم اصول میں ثابت کرچکے ہیں کہ ایک لفظ کا استعمال چند معانی میں کوئی مانع نہیں رکھتا اور دونوں صورتوں میں یہ دونوں ایک دوسرے کے لازم وملزوم ہیں ، کیوں کہ جہاں کہیں خزانہ ہے وہاں چابی بھی موجود ہے ۔

لیکن زیادہ تر یہی نظر میں آتا ہے کہ ”مفاتح“چابیوں کے معنی میں ہے نہ کہ خزائن کے معنی میں ، کیوں کہ مقصد وہدف یہاں علم خدا کو بیان کرنا ہے اور وہ چابی کے مسئلہ کے ساتھ ۔جو مختلف ذخائر سے آگاہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ دو اور مواقع پر جہان قرآن میں لفظ ”مفاتح“ استعمال ہوا ہے، وہاں بھی چابی ہی مراد ہے(۱) ۔

اس کے بعد مزید توضیح وتاکید کے لئے کہتا ہے: جو کچھ بر وبحر میں ہے خدا اسے جانتا ہے( وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ) ۔

”بر“ وسیع مکان کے معنی میں ہے اور عام طور پر خشک علاقوں کو ”بر“ کہا جاتا ہے اور ”بحر“ بھی اصل میں وسیع جگہ کے معنی میں ہے کہ جس میں زیاد پانی جمع ہو اور عام طور پر یہ لفظ سمندروں پر اور کبھی بڑے بڑے دریاؤں پر بھی بولا جاتا ہے ۔

بہر حال خدا ان کی ان چیزوں سے آگاہی کہ جو خشکیوں اور سمندروں میں ہے اس کے علم کے تمام چیزوں پر احاطے کے معنی میں ہے اور اس جملہ کے معنی کی وسعت کی طرف توجہ سے (جو کچھ خشکیوں اور سمندروں میں ہے خدا اسے جانتا ہے) حقیقت میں اس کے وسیع علم کا ایک گوشہ واضح ہوتا ہے ۔

یعنی وہ سمندروں کی گہرائیوں میں چھوٹے اور بڑے اربوں زندہ موجودات کی جنبش سے ۔

اور تمام جنگلوں اور پہاڑوں میں درختوں کے پتوں کے ہلنے سے ۔

اورہر غنچہ کے چٹخنے اور ہر پھول کے کھلنے کی قطعی تاریخ سے ۔

اور بیابانو ں میں نسیم کی موجوں کے چلنے اور دروں کی خمیدگی سے ۔

اور ہر انسان کے بدن کی رگوں کی صحیح گنتی اورخون کے گلوبیولز( GLOBULES )سے ۔

اور ایٹم کے اندر تمام الیکٹرانوں ( ELECTROLS )کی مخفی حرکتوں سے ۔

اور آخر یہ کہ تمام افکار وتخیلات جو ہمارے دماغوں کے اندر سے گزرتے ہیں ۔

اور ہماری روح کی گہرایوں ۔----ہاں ہاں وہ ان سب سے یکساں طور پر باخبر ہے ۔

پھر بعد والے جملے میں خدا کے علمی احاطہ تاکید کے لئے اس بارے میں خصوصیت کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:کوئی پتہ درخت سے جدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ وہ اسے جانتا ہے ( وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلاَّ یَعْلَمُھَاَّ) ۔

یعنی ان پتوں کے تعداد اور شاخوں سے ان کے جدا ہونے کا وقت ، ہوا کے درمیان ان کی گردش،اور ان کے زمین پر آگرنے کا لمحہ۔ یہ سب امور اس کے علم کے سامنے واضح اور روشن ہے اسی طرح کوئی دانہ زمین کی کسی پوشیدہ جگہ میں نہیں ٹھہرتا مگر یہ کہ وہ اس کی تمام خصوصیات کو جاجنتا ہے

( ولا حبة فِی ظُلُمَاتِ الْاٴَرْضِ ) ۔

در حقیقت ( اس آیت میں ) دو حساس نقطوں پر انگشت رکھی گئی ہے، کہ جن کا احاطہ کرنا کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے،خواہ ہزاروں سال اس کی عمر کے گزر جائیں اور خواہ وہ کتنی بھی صنعتی مہارت اور حیرت انگیز ارتقائی منزلیں کیوں نہ طے کرلے ایسا کونسا انسان ہے جو یہ جانتا ہو کہ ہوائیں ہر شب وروز میں تمام کرہ زمین پر کتنی قسم کے گھاس پھوس کے بیچ ان کے پودوں سے جدا کرکے کہاں کہاں بکھر رہی ہے، ایسے ایسے بیج جو بعض اوقات ممکن ہے کہ سالہا سال تک زمین کی گہرائیوں میں اس وقت تک چھپے ہوئے پڑے رہیں جب کہ ان کی نشو نما کے لئے کافی مقدار میں پانی حاصل نہ ہوجائے ۔

ایسا کونساانسان ہے جو یہ جانتا ہو کہ ہر لمحے کیڑے مکوڑوں کے ذریعے یا انسانوں کے وسیلہ سے، کتنے دانے اور کس کس قسم کے بیج، اور زمین کے کن کن نقاط میں ، بکھیرے جارہے ہیں ۔

کونسا برقی دماغ ہے وہ جو جنگلوں کے درختوں کی شاخوں سے ہر روز جھڑنے والے پتوں کی تعداد کا شمار کرسکے کسی ایک جنگل کے منظر کی طرف نگاہ کرتے ہوئے، خاص طور پر موسم خزاں میں اور خصوصا مسلسل بارش یا تیز ہوا کے بعد،اور اس عجیب وغریب منظر کو دیکھتے ہوئے کہ جو پتوں کے پے درپے گرنے سے پیدا ہوتا ہے ، یہ حقیقت اچھی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ بات ہرگز ہرگز ممکن نہیں ہے کہ اس قسم کے علوم تک انسان کی دسترس ہوسکے ۔

حقیقتا پتوں کا گرنا ان کی مو ت کا وقت ہے اور تایک زمینوں میں دانوں کا کا گرنا، ان کی حیات وزندگی کی طرف پہلا قدم ہے اور صرف اسی کی ذات ہے کہ جو اس موت وزندگی کے نظام سے خبر ہے، یہاں تک کہ ایک دانہ اپنی کامل زندگی اور پھوٹنے کی طرف جو مختلف قدم اٹھاتا ہے، وہ ہر لمحہ اور ہر گھڑی اس کے علم کی بارگاہ میں واضح وآشکار ہے ۔

اس امر کے بیان کا ایک اثر فلسفی ہے اور اثر تربیتی، اس کا فلسفی اثر تو یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کے خیال کی کہ جو خدا کے علم کو کلیات میں منحصر سمجھتے ہیں اور ان کاعقیدہ یہ ہے کہ خدا اس جہان کے جزئیات سے آگاہ نہیں ہے، نفی کرتا ہے اور صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ خدا تمام کلیات وجزئیات سے مکمل آگاہی رکھتا ہے(۲) ۔

باقی رہا اس کا تربیتی اثر تو وہ واضح ہے، کیوں کہ اس وسیع وبے پایاں علم پر ایمان رکھنا انسان سے یہ کہتا ہے کہ تیرے وجود کے تمام اسرار، اعمال، گفتار، نیات، اور افکار سب کے سب اس کی ذات پاک کے لئے واضح وآشکار ہے، اس قسم کے ایمان کے ساتھ کس طرح ممکن ہے کہ انسان اپنے حالات پر نگاہ نہ رکھے اور اپنے اعمال، گفتار اور نیات پر کنٹرول نہ کرے ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے:کوئی خشک و تر نہیں ہے مگر یہ کہ وہ کتاب مبین میں ثبت ہے( وَلاَرَطْبٍ وَلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ ) ۔

یہ جملہ ایک مختصر سی عبادت کے ساتھ تمام موجودات کے لئے خدا کے غیر متناہی علم کی وسعت کو بیان کرتا ہے اور کوئی چیز اس سے مستثنی نہیں ہوگی کیوں کہ ”تر“ اور ”خشک“ سے مراد ان کا لغوی معنی نہیں ہے بلکہ یہ تعبیر معمولا عمومیت کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔

کتاب مبین کے بارے میں مفسرین نے مختلف احتمال پیش کئے ہیں لیکن ان میں جو بات زیادہ صحیح دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ کتاب مبین سے مراد وہی مقام علم پروردگار ہے یعنی تمام موجودات اس کے بے پایاں علم میں ثبت ہے اور اس کی لوح محفوظ سے تعبیر کرنا بھی اسی معنی کے مطابق قرار دینے کے قابل ہے کیوں کہ یہ بات بعید نہیں ہے کہ لوح محفوظ سے مراد وہی صفحہ علم خدا ہو ۔

کتاب مبین کے معنی میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ علم خلقت اور سلسلہ علت ومعلول ہو کہ جو تمام چیزیں اس میں لکھ دی گئی ہیں ۔

بہت سی روایات میں میں جو اہلبیت علیہم السلام کے طرق سے پہنچی ہیں ان میں ”ورقة “ سقط شدہ جنین کے معنی میں ، ”حبہ“ فرزند کے معنی میں ”ظلمات الارض “ ماؤں کے رحم کے معنی میں اور ”رطب“ ان نطفوں کے معنی میں جو زندہ رہتے ہیں اور ”یابس“ ان کے معنی میں جو ختم ہوجاتے ہیں تفسیر ہوئی ہے(۳) ۔

اس میں شک نہیں کہ یہ تفسیر ان الفاظ کے لغوی معنی جمود کی صورت میں تو تطبیق نہیں کرتی کیوں کہ” ورقہ“ کامعنی ہے پتہ ” حبہ“ کا معنی ہے دانہ اور ”ظلمات الارض “ کا معنی ہے زمین کی تاریکیاں اور ”رطب“ کا معنی تر اور”یابس “ کا معنی ہے خشک، لیکن ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے حقیقت میں اس تفسیر سے مسلمانوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہا ہے کہ انھیں آیات قرآن میں ایک وسیع اور کشادہ نگاہ کے ساتھ غور کرنا چاہئے اور ان کے معانی سمجھنے میں صرف لفظ پر جمود نہ کریں بلکہ جہاں قرائن معنی کی وسعت پر دلالت کرتے ہوں تو وسعت معنی کی طرف نگاہ رکھیں ۔

اوپر والی روایت میں حقیقت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اوپر والی آیت کا مفہوم صرف گھاس پھوس کے دانوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ انسانی نطفوں کے بیج تک اس کے مفہوم میں شامل ہے ۔

بعد والی آیت میں اعمال انسانی پر علم خدا کے احاطہ کی بحث کی گئی ہے کہ جو اس کا ہدف اصلی ہے اور خدا کی قدرت قاہرہ کو بھی مشخص کیا گیا ہے تاکہ لوگ اس مجموعی بحث سے ضروری تربیتی نتائج حاصل کر سکیں ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ ایسی ذات ہے کہ جو تمھاری روح کو رات کے وقت قبض کرلیتی ہے اور جوو کچھ تم دن میں انجام دیتے ہو اور کمائی کرتے ہیں اس سے آگاہ ہے( وَهُوَ الَّذِی یَتَوَفَّاکُمْ بِاللَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ) ۔

”توفی“ لغت میں واپس لے لینے کے معنی میں ہے اور اور یہ جو نیند کو ایک طرح سے روح کو واپس لے لینا کہا گیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ نیند ۔جیسا کہ معروف ہے ۔ موت کی بہن ہے، موت انسانی دماغ کے کارخانہ کا مکمل طور سے معطل ہوجانا ہے اور روح وجسم کے تعلق کامطلقا منقطع ہوجانا ہے ، جب کہ نیند صرف دماغی کارخانہ کے ایک حصہ کا تعطل ہے اور اس تعلق کا ضعیف ہوجا نا اس بنا پر نیند موت کا ایک چھوٹا مرحلہ شمار ہوتی ہے(۴) ۔

” جرحتم“ ”جرح“ کے مادہ سے ہے یہاں اکتساب اور کسی چیز کا حاصل کرنے معنی میں ہے یعنی تم رات دن خدا کے علم قدرت کے سائے میں رہتے ہو ، وہ ذات کہ جو مٹی کے اندر نباتات کے دانوں کی پرورش اور ہر زمان ومکان میں پتوں کے گرنے اور ان کی موت سے آگاہ ہے، وہ تمھارے اعمال سے بھی آگاہ ہے ۔

اس کے بعد کہتا ہے کہ یہ نیند اور بیداری کا نظام بار بار دہرایا جارہا ہے رات کو تم سوجاتے ہو اور دن تمھیں بیدار کردیتا ہے ، اور یہ حالت اسی طرح سے جاری رہتی ہے یہاں تک کہ زندگی کے آخری لمحات آجاتے ہیں( ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیهِ لِیُقْضَی اٴَجَلٌ مُسَمًّی ) ۔(۵)

بلا آخر بحث کے آخری نتیجہ کو یوں بیان کیا گیا ہے : پھر سب کی بازگشت خدا کی طرف ہے، اور وہ تمھیں اس سے جو تم انجام دے چکے ہو آگاہ کرے گا

( ثُمَّ إِلَیْهِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

(بعد والی آیت میں دوبارہ بندوں کے اعمال کی نسبت خدا کے علمی احاطے کی مزید وضاحت اور قیامت کے دن ان کے حساب کی انتہائی دقیق نگہداشت کے بارے میں قرآن کہتا ہے:وہ اپنے بندوں پر مکمل تسلط رکھتا ہے اور وہی ہے جو تمھارے لئے محافظ ونگہبان بھیجتا ہے تاکہ وہ تمھارے اعمال کا حساب انتہائی احتیاط کے ساتھ محفوظ کریں( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَةً ) ۔

جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ ”قاہریت“ کسی چیز پر ایسے غلبہ اور تسلط کامل کے معنی میں ہے کہ جس میں مدمقابل میں ٹھہرنے کی طاقت وسکت ہی نہ ہو اور بعض کے نظریہ کے مطابق یہ لفظ عام طور پر ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے کہ جس میں مد مقابل عقل رکھتا ہو جب کہ لفظ غلبہ ان دونوں باتوں میں سے کوئی سی خصوصیت نہیں رکھتا ، بلکہ اس کامعنی کامل طور سے وسیع ہے ۔

”حفظة“ ”حافظ“ کی جمع ہے اور یہاں ان فرشتوں کے معنی میں ہے کہ جوانسانوں کے اعمال کی حفاظت پر مامور ہیں جیسا کہ سورہ انفطار کی آیہ ۱۰ تا ۱۲ میں ہے:( ان علیکم لحافظین کراما کاتبین یعلمون ما تفعلون )

تمھارے اوپر نگہبانی کرنے والے محافظ (فرشتے) متعین کردئے گئے ہیں دو محترم ومکرم لکھنے والے ہیں جو تمھارے ہر کام سے آگاہ ہیں ۔

بعض مفسرین کانظریہ ہے کہ وہ اعمال انسانی کے محافظ نہیں ہیں بلکہ ان کی ڈیوٹی خود انسان کی اجل معین تک حوادث بلایا سے حفاظت کرنا ہے اور وہ ”حتی اذا جاء احدکم الموت “ کو کہ جو ”حفظة“ کے بعد ذکر ہوا ہے اس کا قرینہ سمجھتے ہیں اور سورہ رعد کی آیہ ۱۱ کو بھی ممکن ہے اس بات پر شاہد قرار دیں(۶) ۔

لیکن پوری زیر بحث آیت پر غور فکر کرنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی کہ ”حفظة“ سے مراد یہاں وہی حفظ اعمال ہیں ، باقی رہے وہ فرشتے جو انسانوں کی حفاظت پر مامور ہیں ان کے بارے میں انشاء اللہ سورہ رعد کی تفسیر میں بحث کریں گے ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اس حساب کی نگہداری زندگی کے ختم ہونے کے آخری لمحے اور موت کے آجانے تک جاری ہے( حَتَّی إِذَا جَاءَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ ) ۔

اس وقت ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) جو قبض ارواح پر مامور ہیں اس کی روح کو قبض کرلیتے ہیں( تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا ) ۔(۷)

آخر میں مزید کہتا ہے کہ یہ فرشتے کسی طرح بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی ، قصور اور تفریط نہیں کرتے نہ روح کے لینے کے لمحہ کو مقدم کرتے ہیں اور نہ موخر( وَهُمْ لاَیُفَرِّطُونَ ) یہ احتمال بھی موجود ہے کہ یہ صفت انسانوں کے اعماک ے حسا کی حفاظت کرنے والے فرشتوں سے مربوط ہو کہ وہ اعمال کے حساب کی نگرانی وحفاظت میں کم سے کم کوتاہی اور قصور نہیں کرتے اور زیر بحث آیت میں گفتگو کامدار بھی اسی حصہ پر ہے ۔

بعد والی آیت میں انسان کے آخری مرحلہ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : افراد بشر اپنے دوران زندگی کو ختم کرنے کے بعد اپنے ان اعمال ناموں کے ساتھ کہ جن میں پوری تنظیم کے ساتھ سب کچھ ثبت و ضبط ہوگا قیامت کے دن اپنے اس پروردگار کی طرف جو ان کا حقیقی مولا ہے پلٹ جائیں گے

( ثُمَّ رُدُّوا إِلَی اللَّهِ مَوْلاَهُمْ الْحَقِّ ) ۔

اور اس کی عدالت میں انصاف کرنا، حکم دینا اور فیصلہ کرنا خدا کی پاک ذات کے ساتھ مخصوص ہے( اٴَلاَلَهُ الْحُکْمُ ) ، اور افراد بشر اپنی پر شور طولانی تاریخ میں میں جو جو عمل کرتے رہے اور ان کے جو اعمال نامے تھے ان کا بڑی تیزی کے ساتھ حساب کرے گا( وَهُوَ اٴَسْرَعُ الْحَاسِبِینَ ) ۔

یہاں تک کہ بعض روایات میں ہے کہ :انه سبحانه یحاسب جمیع عباده مقدار حلب شاة

خدا وند تعالیٰ اپنے تمام بندوں کا حساب اتنے تھوڑے سے وقت میں لے لے گا جتنے وقت میں ایک بکری کا دودھ دوہا جاتا ہے ۔(۸)

جیسا کہ ہم سورہ بقرہ کی آیہ ۲۰۲ کی تفسیر یں بیان کرچکے ہیں بندوں کا حساب اتنی تیزی کے ساتھ لیا جائے گا کہ لمحہ بھر یں ان سب کا تمام حساب کر لیا جائے گا اور ایک بکری کے دودھ دوہنے کے وقت کا بیان اور اوپر والی روایت کم سے کم وقت کی نشادہی کے لئے ہے اور اسی ایک دوسری روایت میں ہے

ان اللّٰه تعالیٰ یح+اسب الخلائق کلهم فی مقدار لمح البصر ۔(۹)

خدا وند تعالیٰ تمام بندوں کا حساب ایک لحظہ میں کرے گا ۔

اور اس کی دلیل وہی ہے جو اوپر والی آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہے اور وہ یہ کہ انسان کے اعمال خواہ اس کے وجود میں اور اس کے اطراف کے موجودات میں اپنا اثر چھوڑتے ہیں ، یعنی وہ بالکل ان مشینوں کی طرح ہیں کہ جو اپنی حرکت کی مقدار اور اپنی کارکردگی کو نمبروں والے آلات میں ظاہر کر دیتے ہیں زیادہ واضح الفاظ میں ( یوں کہا جاسکتا ہے) اگر اایسے دقیق آلات موجود ہوں تو انسان کی آنکھ ایسی خیانت آمیز نظروں کی تعداد کو جو اس نے کی ، پڑھا جاسکتا ہے اور اانسان کی زبان پر آئے ہوئے جھوٹ، تہمتوں ، زبان کے زخموں او غلط باتوں کی تعداد کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، خلاصہ یہ کہ انسان کی روح کے علاوہ اس کے بدن کا ہر عضو خود اپنے اندر اعداد وشمار بتلانے والے اور حساب وکتاب ظاہر کرنے والے آلات رکھتا ہے کہ ایک ہی لمحہ میں اس کا سارا حساب وکتاب معلوم ہوجائے گا ۔

اب اگر ہم کچھ روایات میں یہ پڑھتے ہیں کہ زیادہ فرائض رکھنے والے اور بہت زیادہ مال ودولت کے مالک افرادکا حساب اس دن بہت طولانی ہوگا تو وہ حقیقت میں اس بنا پر نہیں ہے کہ ان کے اصل حساب تک رسائی نہیں ہوئی ہے، بلکہ وہ اس بنا پر ہے کہ ان کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ ان سوالات کا جو ان کے اعمال کی نسبت ہو ں گے جواب دیں ، یعنی جوابدہی کے بوجھ کی سنگینی اور جواب دینے کا لازمی وضروری ہونا اور اتمام حجت ان کی پیشی کے وقت کو طولانی کردے گا ۔

یہ آیات بندگان خدا کے لئے مکمل تربیتی درس ہے، خدا کا اس جہان کے کے چھوٹے چھوٹے ذرات سے آگاہ ہونا تمام چیزوں پر اس کا احاطہ علمی، بندوں کی نسبت اس کی قدرت قہاریت اس کا تمام اعمال بشر سے مطلع ہونا، باریک بین لکھنے والوں کے ذریعہ حساب اعمال کی نگہداری وحفاظت، وقت مقرر پر اس کی جان کا لینا، قیامت کے دن اس کا اٹھایاجانا اور پھر اس انسان کے تمام کاموں کی دقت نظر اور سرعت کے ساتھ جانچ پڑتال۔

کون ہے کہ جو ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتا ہو اور پھر اپنے اعمال پر نظر نہ رکھے؟بے حساب ظلم ستم کرے، بلا وجہ جھوٹ بولے اور دوسرے پر زیادتی کرے ، کیا یہ اعمال مذکورہ اصول پر ایمان، اعتقاد اور توجہ کے ساتھ کبھی جمع ہوسکتے ہیں ؟ ۔

____________________

۱۔ما ان مفاتحه لتنوء بالعصبة اولی القوة ۔ (قصص ۷۶)،اٴوما ملکتم مفاتحه (نور ۶۱)

۲۔ مزید وضاحت کے لئے کتاب” خدا را چگونہ بشاسیم“ کی طرف رجوع کریں ۔

۳۔ تفسیر برہان جلد اول صفحہ ۵۲۸۔

۴۔تفسیر نمونہ کی جلد ۲ صفحہ ۳۴۱ پر بھی اس سلسلہ میں گفتگو کرچکے ہیں ۔

۵۔ فیھا “ کی ضمیر ”نھار “ کی طرف لوٹتی ہے اور ”بعث“ بھی یہاں نیند سے اٹھنے اور بیدار ہونے کے معنی میں ہے اور ”اجل مسمیٰ“ سے مراد وہ عمر ہے جو کسی شخص کے لئے مقرر ہے ۔

۶۔ تفسیر المیزان جلد ۷ صفحہ ۱۳۴۔

۷۔ قبض ارواح اور آدمی کی جان کے لینے کے بارے میں تفسیر نمونہ کی چوتھی جلد صفحہ ۸۳ کی طرف رجوع کریں ۔

۸۔ مجمع البیان، جلد۳ صفحہ ۳۱۳۔

۹۔ تفسیر مجمع البیان، جلد۱و جلد ۲ ،صفحہ ۲۹۸۔

آیات ۶۳،۶۴،

۶۳( قُلْ مَنْ یُنَجِّیکُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْیَةً لَئِنْ اٴَنجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَکُونَنَّ مِنْ الشَّاکِرِینَ ) ۔

۶۴( قُلْ اللَّهُ یُنَجِّیکُمْ مِنْهَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اٴَنْتُمْ تُشْرِکُونَ ) ۔

ترجمہ:

۶۳ ۔ کہہ دو کہ کون ہے وہ کہ جو تمھیں خشکی اور سمندروں کی تاریکیوں سے رہائی بخشتا ہے جب کہ تم اسے آشکار اور پوشیدہ طور پر (دل ہی دل میں )پکارتے ہو(اور کہتے ہو) اگر تونے ہمیں ان (خطرات اور تاریکیوں ) سے رہائی بخش دی، تو ہم شکرگزاروں میں سے ہوجائیں گے ۔

۶۴ ۔ کہہ دو کہ خدا تمھیں ان چیزوں سے اور ہر مشکل وپریشانی سے نجات بخشتا ہے پھر بھی تم اس کے لئے شریک قرار دیتے ہو(اور کفر کی راہ پر چلتے ہو)

تفسیر وہ نور جو تاریکی میں چمکتا ہے

دوبارہ قرآن مشرکین کا ہاتھ پکڑ کر ان کی فطرت کے اندر لے جاتا ہے، اور اس اسرار آمیز نہاں خانہ میں انھیں توحید کے نور اور یکتا پرستی کی نشاندہی کراتا ہے اور پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ وہ انھیں اس طرح کہیں :کون ہے وہ کہ جو تمھیں بر وبحر کی تارکیوں سے نجات دیتا ہے

( قُلْ مَنْ یُنَجِّیکُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ) ۔

اس بات کی یاددہانی کرادینا بھی ضروری ہے کہ ظلمت وتاریکی کبھی تو جنبہ حسی رکھتی ہے اور کبھی جنبہ معنوی، ظلمت حسی یہ ہے کہ نور کلی طور پر منقطع ہوجائے یا اس قدر کمزور ہوجائے کہ انسان کسی جگہ کو نہ دیکھ سکے یا مشکل سے دیکھ سکے اور ظلمت معنوی مشکلات ،مصیبتیں اور پریشانیاں ہیں کہ جن کا انجام تاریک ونامعلوم ہے، جہالت تاریکی ہے، اجتماعی واقتصادی ہرج مرج اور فکری بے سروسایبانیاں ، انحراف اور اخلاقی آلودگیاں کہ جن کے برے انجام پیش بینی کے قابل نہیں ہیں یا وہ چیز کہ جو بدبختی اور پریشانی کے سواکچھ نہ ہو، یہ سب کی سب ظلمت ہیں ۔

ظلمت وتاریکی اپنی ذات سے ہولناک اور توہم انگیز ہیں کیوں کہ بہت سے خطرناک جانوروں ، چوروں اورمجرموں کا حملہ رات کی تاریکی میں ہی ہوتا ہے اور ہر شخص کو اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی خطرہ درپیش رہتا ہے، لہٰذا تاریکی میں پھنس جانے کی صور ت میں اوہام وخیالات انسان کی جان لے لیتے ہیں ، خیالات کے مختلف زاویوں سے مختلف صورتیں اور وحشتناک شکلیں نکل نکل کر بھاگنے لگتی ہیں اور عام افراد کو خوف و ہراس میں پھنسادیتی ہیں ۔

ظلمت وتاریکی عدم کا شعبہ ہے اور انسان ذاتی طور پر عدم سے بھاگتا ہے اور وحشت رکھتا ہے، اسی سبب سے وہ عام طور سے تاریکی سے ڈرتا ہے ۔

اگر یہ تاریکی واقعی وحشتناک حوادث سے مل جائے،مثلا انسان ایک ایس سمندری سفر میں پھنس جائے جس میں اندھیری رات، موجوں کا خوف ہو اور طوفان آیا ہوا ہو، تو اس کی وحشت وپریشانی ان مشکلات سے کئی درجے زیادہ ہوگی جو دن کے وقت ظاہرہوں ، کیوں کہ عام طور سے ایسے حالات میں انسان کے لئے چھٹکارے کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں ۔

اسی طرح اگر اندھیری رات میں کسی جنگل بیابان میں انسان راستہ بھول جائے اور درندوں کی وحشتناک آوازیں ، جو رات کے وقت اپنے شکار کی تلاش میں ہوتے ہیں دور اور نزدیک سے سنائی دے رہی ہوں ، یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جس میں انسان سب کچھ بھول جاتا ہے اور خود اپنے اور اس تابناک نور کے سوا جو اس کی روح کی گہرائی میں چمکتا ہے اور اسے ایک مبدا کی طرف بلاتا ہے کہ صرف وہی ہے کہ جو اس قسم کی مشکلات کو حل کرسکتا ہے، باقی اسے کچھ یاد نہیں رہتا اس قسم کے حالات جہان توحید وخدا شناسائی کا دریچہ ہے، اسی لئے بعد کے جملے میں ارشاد ہوتا ہے: اس قسم کی حالت میں تم اس کے لامتناہی لطف وکرم سے مدد طلب کرتے ہو، بعض اوقات آشکار خضوع وخشوع کے ساتھ اور کبھی پوشیدہ طریقے سے دل ہی دل کے اندر اسے پکارتے ہو( تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْیَةً ) ۔

اور ایسی حالت میں تم فورا اس عظیم مبداکے ساتھ عہد وپیمان باندھتے ہو کہ اگر ہم اس خطرے سے نجات دے دے تو ہم یقینا اس کی نعمتوں کا شکر اداکریں گے اور اس کے سوا کسی اور سے دل نہیں لگائیں گے( لَئِنْ اٴَنجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَکُونَنَّ مِنْ الشَّاکِرِین )

لیکن اے پیغمبر! تم ان سے کہہ دو کہ خدا تمھیں ان تاریکیوں سے اور ہر قسم کے دوسرے غم واندوہ سے نجات دےتا ہے(اور بارہا تمھیں نجات دی ہے) لیکن تم رہائی پانے کے بعد اسی شرک وکفر کے راستے پر چل پڑتے ہو( قُلْ اللَّهُ یُنَجِّیکُمْ مِنْهَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اٴَنْتُمْ تُشْرِکُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”تضرع“ کا ذکر جو دعائے آشکار کے معنی میں ہے اور ”خفیة“ کا تذکرہ جو کہ پنہانی دعا ہے شاید اس سبب سے ہو کہ مشکلات ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ، بعض اوقات شدت کے مرحلہ تک نہ پہنچنے کی وجہ سے انسان کو پنہانی دعا کی دعوت دیتی ہے اور بعض اوقات وہ شدید مرحلہ تک پہنچ جاتی ہے تو علی الاعلان دست دعا بلند کرتا ہے اور بعض اوقات نالہ وفریاد کی نوبت آجاتی ہے، مقصد یہ ہے کہ خدا تمھاری شدید مشکلات کو بھی حل کرتا ہے اور ضعیف مشکلات کو بھی۔

۲ ۔ بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کی چار نفسیاتی حالتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ جن میں سے ہر ایک مشکلات کے ظہور کے وقت ایک قسم کا عکس العمل ہے حالت دعا ونیاز ،حالت تضرع وخضوع، حالت اخلاص اور مشکلات سے نجات حاصل ہوتے وقت شکر گزاری کے التزام کی حالت۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان افراد میں سے بہت سوں کے لئے قیمتی حالات بجلی کی طرح جلدی سے گزرجانے والے اور شدائد ومشکلات کے مقابلے میں تقریبا اضطراری شکل میں پیدا ہوتے ہیں ، لیکن چوں کہ ان میں علم و آگاہی نہیں ہوتی لہٰذا شدائد ومشکلات کے برطرف ہوتے ہی خاموشی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں ۔

اس بنا پر یہ حالات اگر چہ زود گزرہی ہوں پھر بھی دور افتادہ افراد کے لئے خدا شناسی کے سلسلے میں دلیل بن سکتے ہیں ۔

۳ ۔ ”کرب“ (بروزن حرب) در اصل زمین کو نیچے اوپر کرنے اور کھودنے کے معنی میں ہے، نیز وہ محکم گرہ جو کنویں کے ڈول کی طناب میں لگائی جاتی ہے، کے معنی میں بھی آتا ہے، اس کے بعد وہ غم واندو ہ جو انسان کے دل کو زیر وزبرکرتے ہیں اور جو گرہ کی طرح انسان کے دل پر بیٹھ جاتے ہیں کے لئے بھی بولا جانے لگا ۔

اس بنا پر اوپر والی آیت میں لفظ”کرب“ جو ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور ہر قسم کی بڑی سے بڑی مشکلات پر محیط ہے یہ ”بر وبحر کی تاریکیوں “ کا ذکر کرنے کے بعد کہ جو شدائد کے ایک خاص حصہ کا کہا جاتا ہے، ایک خاص مفہوم بیان کرنے کے بعد ایک عام مفہوم کے طور پر آیا ہے(غور کیجئے گا) ۔

یہاں پر وہ حدیث بیان کرنا کہ جو اس آیت کے ذیل میں بعض اسلامی تفاسیر میں نقل ہوئی ہے نامناسب نہ ہوگا، پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم سے نقل ہواہے کہ آپ نے فرمایا:خیر الدعاء الخفی وخیر الرزق ما یکفی

بہترین دعا وہ ہے کہ جو پنہانی (اور انتہائی خلوص کے ساتھ) صورت پذیر ہو اور بہترین روزی وہ ہے کہ جو بقدر کفایت ہو (نہ کہ اسی ثروت اندوزی کہ جو دوسروں کی محرومیت کا سبب بنے اور انسان کے کندھے پر ایک سنگین بوجھ ہو) ۔

اور اسی حدیث کے ذیل میں ہے :

مر بقوم رفعوا اصواتهم بالدعا فقال انکم لاتدعون الاصم ولا غائبا وانما تدعون سمیعا قریبا ۔(۱)

پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم ایک گروہ کے قریب سے گزرے وہ لوگ بلند آواز سے دعا کررہے تھے تو آپ نے فرمایا: تم کسی بہرے کو تو نہیں پکار ہے اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو پکاررہے ہو کہ جو تم سے پوشیدہ اور دور ہو بلکہ تم تو ایک ایسی ہستی کو پکاررہے ہو کہ جو سننے والا بھی ہے اور قریب بھی ہے ۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دعا آہستہ آہستہ اور توجہ اور اخلاص کے ساتھ کی جائے تو بہتر ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر مجمع البیان ونورالثقلین مندر جہ بالا آیت کے ذیل میں ۔