تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34458
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34458 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۷۱،۷۲

۷۱( قُلْ اٴَنَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لاَیَنفَعُنَا وَلاَیَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَی اٴَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ کَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیَاطِینُ فِی الْاٴَرْضِ حَیْرَانَ لَهُ اٴَصْحَابٌ یَدْعُونَهُ إِلَی الْهُدَی ائْتِنَا قُلْ إِنَّ هُدَی اللَّهِ هُوَ الْهُدَی وَاٴُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ) ۔

۷۲( وَاٴَنْ اٴَقِیمُوا الصَّلاَةَ وَاتَّقُوهُ وَهُوَ الَّذِی إِلَیْهِ تُحْشَرُونَ ) ۔

ترجمہ:

۷۱ ۔ تم کہہ دو کہ کیا ہم خدا کے سواکسی اور چیز کو پکاریں کہ جو نہ ہمارے لئے کوئی فائدہ دینے والی ہے اور نہ ہی کوئی نقصان پہنچانے والی اور (اس طرح سے ) ہم پیچھے کی طرف پلٹ جائیں جب کہ خدا نے ہمیں ہدایت کردی ہے، اس شخص کی مانند کہ جسے شیاطین کے وسوسوں نے گمراہ کردیا ہو اور وہ زمین میں حیراں ہو، حالانکہ اس کے لئے ایسے یارومددگار بھی ہیں کہ جو اسے ہدایت کی طرف بلاتے ہیں (اور یہ کہتے ہیں ) کہ ہماری طرف آؤ، تم کہہ دو کہ صرف خدا کی ہدایت ہی (اصل ) ہدایت ہے، اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم عالمین کے پروردگار کے سامنے سرتسیلم خم کریں ۔

۷۲ ۔ اور یہ کہ نماز قائم کرو اور اس سے ڈرو اور وہی ہے وہ ذات کہ جس کی طرف تم محشور ہو گے ۔

کیا ہم سابقہ حالت کی طرف پلٹ جائیں ۔

یہ آیت اس اصرار کے مقابلہ میں ہے جو مشرکین مسلمانوں کو کفروبت پرستی کی دعوت کے لئے کرتے تھے، پیغمبر کو حکم دے رہی ہے کہ ایک دندان شکن دلیل کے ساتھ انھیں جواب دیں اور ایک استفہام انکاری کی صورت میں ان سے پوچھیں کہ : کیا تم یہ کہتے ہو ہم کسی ایسی چیز کو خدا کا شریک قرار دیں کہ جو نہ ہمارے لئے فائدہ رکھتی ہے کہ اس فائدہ کی خاطر ہم اس کی طرف جائیں اور نہ ہی کوئی ضرر رکھتی ہے کہ ہم اس کے نقصان سے ڈریں

( قُلْ اٴَنَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لاَیَنفَعُنَا وَلاَیَضُرُّنَا ) ۔

یہ جملہ حقیقت میں اس جملہ کی طرف اشارہ ہے کہ عام طور سے انسان کے تمام کام انھیں دونوں سرچشموں میں سے کسی ایک سر چشمہ سے پیدا ہوتے ہیں ، یا تو نفع کے حصول کی خاطر ہوتے ہیں ( خواہ وہ مادی نفع ہو یا معنوی) اور یا وہ دفع ضرر کی خاطر ہوتے ہیں (ضرر بھی خواہ معنوی ہو یامادی) ۔

کوئی عاقل کیسے کوئی ایسا کام کرے گا کہ جس میں ان دونوں میں سے کوئی سا عامل بھی موجود نہ ہو؟ ۔

اس کے بعد مشرکین کے مقابلے میں ایک اور استدلال پیش کیا گیا ہے اور یوں ارشاد ہوتا ہے:اگر ہم بت پرستی کی طرف پلٹ جائیں اور ہدایت الٰہی کے بعد شرک کی راہ میں گامزن ہوجائیں ( تو اس طرح) تو ہم پیچھے کی طرف لوٹ جائیں گے اور یہ بات قانون ارتقاء کے خلاف ہے کہ جو عالم حیات کا ایک عمومی قانون ہے( وَنُرَدُّ عَلَی اٴَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ ) ۔(۱)

اس کے بعد ایک مثال کے ذریعہ اس مطلب کو اور زیادہ واضح اور روشن کیا گیا ہے اور قرآن یوں کہتا ہے: (توحید سے شرک کی طرف بازگشت) مثل اس کے ہے کہ کوئی شخص شیطانی وسوسوں سے ( یا غولہائے بیابانی سے کہ جو جاہلیت کے عربوں کے خیال کے مطابق راستوں میں گھات لگا کر بیٹھے ہوا کرتے تھے اور مسافروں کو ان کی راہ سے بے راہ کردیا کرتے تھے) راہ مقصد گم کردے اور بیابان میں حیران وسرگرداں رہ گیا ہو

( کَالَّذِی ُ اسْتَهْوَتْهُ الشَّیَاطِینُ فِی الْاٴَرْضِ حَیْرَانَ ) ۔

حالانکہ اس کے ایسے دوست بھی ہیں کہ جو اسے ہدایت اور شاہراہ ( حق) کی طرف بلاتے ہیں اور اسے آوازیں دے رہیں ہیں کہ ہماری طرف آؤ۔ لیکن وہ اس طرح سے حیران وسرگرداں ہیں کہ جیسے وہ ان کی باتوں کو سن ہی نہیں رہا ہے، یا وہ قوت ارادی نہیں رکھتا( لَهُ اٴَصْحَابٌ یَدْعُونَهُ إِلَی الْهُدَی ائْتِنَا ) ۔(۲)

اور آیت کے آخر میں پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے کہ تم صراحت کے ساتھ یہ کہہ دو کہ : ”ہدایت صرف خدا کی ہدایت ہے اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم صرف عالمین کے پروردگار کے سامنے سرتسلیم خم کریں “( قُلْ إِنَّ هُدَی اللَّهِ هُوَ الْهُدَی وَاٴُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ) ۔

یہ جملہ حقیقت میں مشرکین کی مذہب کی نفی پر ایک اور دلیل ہے کیوں کہ صرف ایسی ذات کے سامنے ہی سرتسلیم خم کرنا چاہئے کہ جو مالک خالق اور مربی عالم ہستی ہو ، نہ کہ بتوں کے سامنے کہ جو اس جہاں کی ایجاد وتخلیق میں کوئی نقش و اثر نہیں رکھتے ۔

ایک سوال اور اس کا جواب

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم بعثت سے پہلے مشرکین کے مذہب کے پیرو تھے کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ :”رَدُّ عَلَی اٴَعْقَابِنَا ب

کیا ہم سابقہ حالت کی طرف پلٹ جائیں ۔

حالانکہ کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے کبھی بھی بت سے سامنے سجدہ نہیں کیا اور کسی بھی تاریخ میں اس قسم کی کوئی چیز لکھی ہوئی نہیں ہے پھر اصولی طور پر مقام عصمت بھی ایسے کسی امر کی اجازت نہیں دیتا ۔

یہ لفظ حقیقت میں مسلمانوں کی ایک جماعت کی زبان سے ادا ہوا ہے ناکہ ذات پیغمبر کی زبان سے اسی لئے جمع کے صیغہ اور ضمیروں کے ساتھ اداہوا ہے ۔

بعد والی آیت میں دعوت الٰہی کے بعد عائد ہونے والے فرائض کی یوں تشریح کی گئی ہے کہ ہم نے توحید کے علاوہ یہ حکم دیا ہے کہ ”نماز قائم کرو اور تقوی اختیار کرو“( واقم الصلاة واتقوه ) ۔

اور آخر میں مسئلہ معاد و قیامت کی طرف توجہ کرواتے ہوئے اور یہ کہ تمھارا حشرونشر اور بازگشت خدا کی طرف ہے اس بحث کو ختم کردیا گیا ہے

( وهوالذی الیه تحشرون ) ۔

حقیقت میں ان چند مختصر جملوں وہ پروگرام جس کی طرف پیغمبر دعوت دیا کرتے تھے اور جس کا سرچشمہ عقل اور فرمان خدا تھا، چار اصولوں کے پروگرام کی صورت میں جس کا آغاز توحید اور انجام معادوقیامت تھا اور اس کے درمیانی مراحل خدائی رشتوں کو محکم کرنا اور ہرگناہ سے پرہیز کرنا تھا، پیش کیا گیا ہے ۔

____________________

۱۔” اعقاب“جمع ”عقب“ (بروزن خشم) ایڑی کے معنی میں اور ایڑی پر پھرنے کو پیچھے کی طرف پھرنا کہتے ہیں اور یہ ہدف ومقصد سے انحراف اور پھر نے کی طرف اشارہ ہے اور یہ وہی چیز ہے کہ جسے آجکل ارتجاع (یعنی رجعت پسندی) سے تعبیر کرتے ہیں ۔

۲۔ ”اسْتَھْوَتْہُ“ ”ھوی“ کے مادہ سے ہے اور یہ لفظ کسی کو ہوا وہوس کی پیروی پر آمادہ کرنے کے معنی میں ہے” حیران“ لغت میں آمد ورفت کے معنی میں ہے اور عام طور سے سرگردانی سے کنایہ ہے، کیوں کی لوگ سرگردانی سے کچھ راستہ چلتے ہیں پھر پلٹ آتے ہیں اس بنا پر یہ آیت ان افراد کو جو ایمان سے شرک کی طرف پلٹ جائیں سرگرداں ہوا پرستوں سے تشبیہ دیتی ہے جو اپنا اصل پروگرام شیطانی الہام کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں ۔

آیت ۷۳

۷۳( وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِالْحَقِّ وَیَوْمَ یَقُولُ کُنْ فَیَکُونُ قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنفَخُ فِی الصُّورِ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ وَهُوَ الْحَکِیمُ الْخَبِیرُ ) ۔

ترجمہ:

۷۳ ۔ اور وہی ہے وہ ذات کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا، اور اس دن وہ کہے گا’ہوجاتو (جس بات کا ارادہ کیا ہے) وہ ہوجائے گا، اس کاقول حق ہے، اور جس دن صور میں پھونکا جائے گا اس دن تو حکومت اسی کے ساتھ مخصوص ہوگی، وہ( تمام )پوشیدہ اور ظاہر وآشکار( چیزوں )سے باخبر ہے اور وہ حکیم وخبیر ہے ۔

صر ف وہی ذات کہ جو مبداء عالم ہستی ہے،

یہ آیت حقیقت میں گذشتہ آیت کے مطالب پر ایک دلیل، اور پروردگار عالم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کی ہدایت کی پیروی کرنے کے لازم ہونے کی بھی ایک دلیل ہے، لہٰذا پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ خدا ہی ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے( وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِالْحَق ) ۔

صر ف وہی ذات کہ جو مبداء عالم ہستی ہے، اور رہبری کے لئے شائستہ و لائق ہے اور صرف اسی کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہئے کیوں کہ اس نے تمام چیزوں کو ایک صحیح مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔

اوپر والے جملے میں ”حق“ سے مراد وہی نتیجہ ، مقصد، ہدف، مصلح اور حکمتیں ہیں ، یعنی اس نے ہر چیز کوکسی مصلحت اور اور ہدف ونتیجہ کے لئے پیدا کیا ہے حقیقت میں یہ جملہ اس مطلب سے مشابہ ہے جو سورہ ص آیہ ۲۷ میں بیان ہوا ہے کہ ہم جہاں پر ہے:( وما خلق السماء والارض ومابینهما باطلا ) ۔

ہم نے آسمان کو اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے فضول اور بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے: نہ صرف مبداء عالم ہستی وہی بلکہ معاد وقیامت بھی اسی کے حکم سے صورت پذیر ہوگی’ اور جس دن وہ حکم دینا کہ قیامت بپا ہوجائے تو وہ فورا بپا ہوجائے گی“( وَیَوْمَ یَقُولُ کُنْ فَیَکُونُ ) ۔(۱)

بعض نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ اس جملہ سے مراد وہی آغازآفرینش اور مبداء جہاں ہستی ہے کہ تمام چیزیں اس کے فرمان سے ایجاد ہوئی ہیں ، لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ”یقول“ فعل مضارع ہے، اور یہ کہ اس جملے پہلے اصل آفرینش کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اسی طرح بعد کے جملوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ جملہ قیامت اور اس کے بارے میں حکم خدا کے ساتھ ہی مربوط ہے ۔

جیسا کہ ہم ( تفسیر نمونہ کی ) جلد اول (سورہ بقرہ کی آیہ ۱۱۷ کے ذی میں ) میں بیان کرچکے ہیں ، کہ ”کن فیکون“ سے مراد یہ نہیں ہے کہ خدا ایک لفظی فرمان ”ہوجا“ کی طرف صادر فرماتا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے خلق کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کسی دوسرے عامل کی احتیاج کے بغیر اس کا ارادہ خودبخود جامہ عمل پہن لیتا ہے، اگر اس نے یہ اراد کیا ہے کہ وہ چیز دفعتا اور ایک ہی مرتبہ موجود ہوجائے تو وہ ایک ہی دفعہ موجود ہوجاتی ہے اور اگر اس نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ چیز تدریجا وجود میں آئے تو اس کا تدریجی پروگرام شروع ہوجا تا ہے ۔

اس کے بعد قرآن مزیدکہتا ہے کہ :خدا کی بات حق ہے، یعنی جس طرح آفرینش کی ابتدا ہدف ونتیجہ اور مصلحت کی بنیاد تھی، قیامت و معاد بھی اسی طرح ہوگی( قَوْلُهُ الْحَقُّ ) ۔

اور اس دن جب صور میں پھونکا جائے گا اور قیامت پرپا ہو جائے گی، تو حکومت وملکیت اسی کی ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہوگی( وَلَهُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنفَخُ فِی الصُّورِ ) ۔

یہ صحیح ہے کہ خدا کی ملکیت اور حکومت تمام عالم ہستی پر ابتدا جہاں سے رہی ہے اور دنیا کے خاتمہ تک اور عالم قیامت میں بھی جاری رہے گی اور قیامت کے ساتھ کوئی اختصاص نہیں رکھتی لیکن چونکہ اس جہان میں اہداف ومقاصد کی تکمیل اور کاموں کے انجام دینے کے لئے عوامل واسباب کا ایک سلسلہ اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا بعض اوقات یہ عوامل واسباب خدا سے جو مسبب الاسباب ہے غافل کردیتے ہیں ، مگر وہ دن کہ جس میں تمام اسباب بے کار ہوجائیں گے تو اس کی ملکیت وحکومت ہر زمانے سے زیادہ آشکار وواضح ہوجائی گی، ٹھیک ایک دوسری آیت کی طرح جو یہ کہتی ہے کہ :

( لمن ملک الیوم للّٰه الواحد القهار ) ۔

حکومت اور ملکیت آج(قیامت کے دن) کس کی ہے؟صرف خدائے یگانہ وقہار کے لئے ہے،(سورہ المومن،آیہ ۱۶) ۔اس بارے میں کہ صور ۔ جس میں پھونکا جائے گا ۔ سے مراد کیا ہے اور اسرافیل صور میں کس طرح پھونکے گا کہ اس سے تمام جہاں والے مرجائیں گے اور دوبارہ صور میں پھونکے گا تو سب زندہ ہوجائیں گے اور قیامت برپا ہوجائے گی، انشاء اللہ ہم سورہ زمر کی آیہ ۶۸ کے ذیل میں شرح وبسط کے ساتھ بحث کریں گے کیوں کہ یہ بحث اس آیت کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔

اور آیت کے آخر میں خدا کی صفات میں سے تین صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: خدا پنہاں وآشکار سے باخبر ہے( عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ )

اور اس کے تمام کام حکمت کی رو سے ہوتے ہیں او ر وہ تمام چیزوں سے باخبر ہے( وَھُوَ الْحَکِیمُ الْخَبِیرُ)،قیامت سے مربوط آیات میں اکثر خدا کی ان صفات کی طرط اشارہ ہوا ہے کہ وہ آگاہ بھی ہے اور قادر وحکیم بھی، یعنی اپنے علم وآگاہی کے اقتضاء کے مطابق وہ ہر شخص کو مناسب جزا دیتا ہے ۔

____________________

۱۔ اس بارے میں کہ ”یوم“ جو قواعد ادبی کے مطابق ظرف ہے کس سے متعلق ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، بعض اسے ”خلق“ کے جملے سے بعض”اذکروا“ کے جملہ سے جو محذوف ہے متعلق سمجھتے ہیں ، لیکن یہ بات بعید نہیں ہے کہ وہ ”یکن“ سے متعلق ہو، اور پھر جملے کے معنی اس طرح ہوگا:”یکن القیامة یوم یقول اللّٰه کن “۔

آیت ۷۴

۷۴( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ لِاٴَبِیهِ آزَرَ اٴَتَتَّخِذُ اٴَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّی اٴَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ ) ۔

ترجمہ:

۷۴( اور یاد کرو )جب ابراہیم نے اپنے مربی (چچا) آزر سے یہ کہا کہ کیا تم بتوں کو اپنا خدا بناتے ہو، میں تو تمھیں اور تمھاری قوم کو واضح گمراہی میں پاتا ہوں ۔

یہ سورہ شرک وبت پرستی سے مقابلے کا پہلو رکھتی ہے

کیوں کہ یہ سورہ شرک وبت پرستی سے مقابلے کا پہلو رکھتی ہے اور اس میں روئے سخن زیادہ تر بت پرستوں کی طرف ہے لہٰذا ان کو بیدار کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے ، یہاں بہادر بت شکن ابرہیم کی سرنوشت کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بت شکنی کے سلسلہ میں ان کی قومی منطق کو چند آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن نے بیان توحید اور بتوں سے مبارزہ کے سلسلہ میں بہت سے مباحث میں اسی سرگذشت کو ذکر کیا ہے، کیوں کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) تمام اقوام کے لئے خصوصا مشرکین عرب کے لئے قابل احترام تھے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے کہ ابرہیم نے اپنے باپ (چچا) کو تنبیہ کی اور اس سے کہا کہ : کیا تم ان بے قیمت اور بے جان بتوں کو اپنا خدا بنا رکھا ہے( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ لِاٴَبِیهِ آزَرَ اٴَتَتَّخِذُ اٴَصْنَامًا آلِهَةً ) ۔

اس میں شک نہیں کہ میں تجھے اور تیرے پیروکار اور ہم مسلک گروہ کو واضح گمراہی میں دیکھتا ہو،اس سے زیادہ گمراہی اور کیا ہوگی کہ انسان اپنی مخلوق کو اپنا معبود قرار دے اور بے جان اور بے شعور موجود کو اپنی پناہ گا سمجھ لے اور اپنی مشکلات حل ان سے طلب کرے( إِنِّی اٴَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِین ) ۔

کیا آزر حضرت ابرہیم (علیه السلام) کا باپ تھا

لفظ ”اب“ عربی زبان میں عام طور پر باپ کے لئے بولا جاتا ہے، اور جیسا کہ ہم دیکھے گے کہ بعض اوقات چچا ، نانا،مربی ومعلم اور اسی طرح وہ افراد کہ جو انسان کی تربیت میں کچھ نہ کچھ زحمت ومشقت اٹھاتے ہیں ان پر بھی بولا جاتا ہے ، لیکن اس میں شک نہیں کہ جب یہ لفظ بولا جائے اور کوئی قرینہ موجود نہ ہو تو پھر معنی کے لئے پہلے باپ ہی ذہن میں آجاتا ہے ۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سچ مچ اوپر والی آیت یہ کہتی ہے کہ وہ بت پرست شخص(آزر) حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا باپ تھا تو کیا ایک بت پرست اور بت ساز شخص ایک اولوالعزم کا پیغمبر کا باپ ہوسکتا ہے، اس صورت میں کیا انسان کی نفسیات و صفات کی وراثت اس کے بیٹے میں غیر مطلوب اثرات پیدا نہیں کردے گی۔

اہل سنت مفسرین کی ایک جماعت نے پہلے سوال کا مثبت جواب دیا ہے اور آزر کا حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا حقیقی باپ سمجھا ہے، جب کہ تمام مفسرین وعلماء شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا باپ نہیں تھا، بعض اسے آپ کا نانا اور بہت سے حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا چچا سمجھتے ہیں ۔

وہ قرائن جو شیعہ علماء کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں حسب ذیل ہے:

۱ ۔ کسی تاریخی منبع ومصدر اور کتاب میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے والد کا نام آزر شمار نہیں کیا گیا بلکہ سب نے ”تارخ“ لکھا کتب عھدین میں بھی یہی نام آیا ہے، قابل توجہ بات یہ ہے کہ جو لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا باپ آزر تھا، یہاں انھوں نے ایسی توجیہات کی ہے جو کسی طرح قابل قبول نہیں ہیں ، منجملہ ان کے یہ ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) کے باپ کا نام تارخ اور اس کا لقب آزر تھا، حالانکہ یہ لقب بھی منابع تاریخ میں ذکر نہیں ہوا، یا یہ کہ آزر ایک بت تھا کہ جس کی حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا باپ پوجا کرتا تھا حالانکہ یہ احتمال اوپر والی آیت کے ظاہر کے ساتھ جویہ کہتی ہے کہ آزر ان کا باپ تھا کسی طرح بھی مطابقت نہیں رکھتی، مگر یہ کہ کوئی جملہ یا لفظ مقدر مانیں جو کہ خلاف ظاہر ہو ۔

۲ ۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ مسلمان یہ حق نہیں رکھتے کہ مشرکین کے لئے استغفار کریں اگرچہ وہ ان کے عزیز وقریب ہی ہوں ، اس کے بعد اس غرض سے کہ کوئی آزر کے بارے میں ابراہیم (علیه السلام) کے استغفار کو دستاویز قرار نہ دے اس طرح کہتا ہے:وماکان استغفار ابراهیم لابیه الا عن موعدة وعدهافلما تبین له انه عدو للّٰه تبرا منه (سورہ توبہ: ۱۱۴) ۔

ابراہیم (علیه السلام) کی اپنے باپ آزر کے لئے استغفار صرف اس وعدہ کی بنا پر تھے جو انھوں نے اس سے کیا تھا، چونکہ آپ نے یہ کہا تھا کہ :( ساٴستغفرلک ربی ) (مریم : ۴۷) ۔

یعنی میں عنقریب تیرے لئے استغفار کروں گا ۔

یہ اس امید پر تھا کہ شایدوہ اس وعدہ کی وجہ سے خوش ہوجائے اور بت پرستی سے بعض آجائے لیکن جب اسی بت پرستی کی راہ میں پختہ اور ہٹ دھرم پایا تو اس کے لئے استغفار سے دستبردار ہوگئے ۔

اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) نے آزر سے مایوس ہوجانے کے بعد پھر کبھی اس کے لئے طلب مغفرت نہیں کی، اور ایسا کرنا مناسب بھی نہیں تھا، تمام قرائن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت ابراہیم(علیه السلام) کی جوانی کے زمانے کا ہے جب کہ آپ شہر بابل میں رہائش پذیر تھے اور بت پرستوں کے ساتھ مبارزہ اور مقابلہ کررہے تھے ۔

لیکن قرآن کی دوسری آیات نشاندہی کرتی ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) نے اپنی آخری عمر میں خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اپنے باپ کے لئے طلب مغفرت کی ہے (البتہ ان آیات میں جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نشان باپ سے ”اب“ کو تعبیر نہیں کیا بلکہ ”والد“ سے تعبیر کیا ہے جو صراحت کے ساتھ باپ کے مفہوم کو ادا کرتا ہے ) ۔

جیسا کہ قرآن میں ہے:

( اٴَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی وَهَبَ لِی عَلَی الْکِبَرِ إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّی لَسَمِیعُ الدُّعَاءِ--- رَبَّنَا اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ ) -

”حمد ثنا اس خدا کے لئے ہے کہ جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا کئے، میرا پروردگار دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے، اے پروردگار مجھے، میرے ماں باپ اور مومنین کو قیامت کے دن بخش دے“۔(۱)

اس آیت کو سورہ توبہ کی آیت کے ساتھ ملانے سے جو مسلمانوں کو مشرکین کے لئے استغفار کرنے سے منع کرتی ہے اور ابراہیم - کو بھی ایسے کام سے، سوائے ایک مدت محدود کے وہ بھی صرف ایک مقدس مقصد وہدف کے لئے، روکتی ہے، اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ زیر بحث آیت میں ”اب“ سے مراد باپ نہیں ہے بلکہ چچا یا نانا یا کوئی اور اسی قسم کا رشتہ ہے۔دوسرے لفظوں میں ” والد“ باپ کے معنی میں صریح ہے جب کہ”اب“ میں صراحت نہیں پائی جاتی ۔

قرآن کی آیات میں لفظ ”اٴب “ ایک مقام پر چچا کی لئے بھی استعمال ہوا ہے مثلا سورہ بقرہ آیہ ۱۳۳:

( قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَکَ وَإِلَهَ آبَائِکَ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا )

”یعقوب کے بیٹوں نے اس سے کہا ہم تیرے خدا اور تیرے آباء ابراہیم واسماعیل واسحاق کے خدائے یکتا کی پرستش کرتے ہیں “۔

ہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اسماعیل - ،یعقوب- کے چچا تھے باپ نہیں تھے۔

۳ ۔مختلف اسلامی روایات سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی ایک مشہور حدیث میں آنحضرت سے منقول ہے:

لم یزل ینقلنی اللّٰه من اصلاب الطاهرین الی ارحام المطهرات حتی اخرجنی فی عالمکم هذا لم یدنسنی بدنس الجاهلیه “۔

”خدا وند تعالی مجھے ہمیشہ پاک آباء واجداد کے صلب سے پاک ماؤں کے رحم میں منتقل کرتا رہا اور اس نے مجھے کبھی زمانہ جاہلیت کی آلودگیوں اور گندگیوں میں آلودہ نہیں کیا“۔(۲)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زمانہ جاہلیت کی واضح ترین آلودگی شرک وبت پرستی ہے اور جنھوں نے اسے آلودگی زنا میں منحصر سمجھا ہے ان کے پاس اپنے قول پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ قرآن کہتا ہے کہ :

( انَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ ) “”مشرکین گندگی میں آلودہ اور ناپاک ہیں “۔(۳)

طبری جو علمائے اہلِ سنت میں سے ہے اپنی تفسیر ”جامع البیان“ میں مشہور مفسر مجاہد سے نقل کرتا ہے کہ وہ صراحت کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ آزر ابراہیم کا باپ نہیں تھا۔(۴)

اہلِ سنت کا ایک دوسرا مفسر آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں اسی آیت کے ذیل میں کہتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ کہ آزر ابرہیم کا باپ نہیں تھا شیعوں سے مخصوص ہے ان کی کم اطلاعی کی وجہ سے ہے کیونکہ بہت سے علماء (اہلِ سنت) بھی اسی بات کا قیدہ رکھتے ہیں کہ آزر ابرہیم - کا چچا تھا۔(۵)

”سیوطی“ مشہور سنی عالم کتاب ”مسالک الحنفاء“ میں فخر الدین رازی کی کتاب ”اسرار التنزیل“ سے نقل کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام - کے ماں باپ اور اجداد کبھی بھی مشرک نہیں تھے اور اس حدیث سے جو ہم اُوپر پیغمبر اکرم سے نقل کرچکے ہیں استدلال کیا ہے۔ اس کے بعد سیوطی خود اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

ہم اس حقیقت کو دو طرح کی اسلامی روایات سے ثابت کرسکتے ہیں ۔ پہلی قسم کی روایات تو وہ ہیں کہ جو یہ کہتی ہیں کہ پیغمبر کے آباؤ اجداد حضرت آدم- تک ہر ایک اپنے زمانے کا بہترین فرد تھا (ان احادیث کو ”صحیح بخاری“اور ”دلائل النبوة“سے بیہقی وغیرہ نے نقل کیا ہے)۔

اور دوسروں قسم کی روایات وہ ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ ہر زمانے میں موحد و خدا پرست افراد موجود رہے ہیں ، ان دونوں قسم کی روایات کو باہم ملانے سے ثابت ہوجاتا ہے کہ اجداد پیغمبر کہ جن میں سے ایک ابرہیم کے باپ بھی ہیں یقینا موحد تھے۔(۶)

جو کچھ کہا جا چکا ہے اس طرف توجہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ زیر بحث آیت کی مذکورہ بالا تفسیر ایک ایسی تفسیر ہے جو خود قرآن اور مختلف اسلامی روایات کے واضح قرائن کی بنیاد پر بیان ہوئی ہے نہ کہ تفسیر بالرائے ہے جیسا کہ بعض متعصب اہلِ سنت مثلاً مولفِ المنار نے کہا ہے۔

____________________

۱۔ سورہ ابراہیم ، آیہ۳۹،۴۱۔

۲۔ اس روایت کو بہت سے شیعہ وسنی مفسرین مثلا طبرسی نے مجمع البیان میں ، نیشاپوری نے تفسیر غرائب القرآن میں ، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں اور آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں نقل کیا ہے۔

۳۔ سورئہ توبہ آیہ ۲۸-

۴۔ جامع البیان جلد ۷ صفحہ ۱۵۸-

۵۔ تفسیر روح المعانی جلد ۷ صفحہ ۱۶۹-

۶۔ مسالک الحنقاء صفحہ ۷ امطابقِ نقل حاشیہ بحار الانوار طبع جدید جلد ۱۵ صفحہ ۱۱۸ اور بعد۔

آیات ۷۵،۷۶،۷۷،۷۸،۷۹

۷۵( وَکَذٰلِکَ نُرِی إِبْرَاهِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَلِیَکُونَ مِنْ الْمُوقِنِینَ-

) ۷۶( فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ اللَّیْلُ رَاٴَی کَوْکَبًا قَالَ هٰذَا رَبِّی فَلَمَّا اٴَفَلَ قَالَ لاَاٴُحِبُّ الْآفِلِینَ ) -

۷۷( فَلَمَّا رَاٴَی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّی فَلَمَّا اٴَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ یَهْدِنِی رَبِّی لَاٴَکُونَنَّ مِنْ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ ) -

۷۸( فَلَمَّا رَاٴَی الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّی هٰذَا اٴَکْبَرُ فَلَمَّا اٴَفَلَتْ قَالَ یَاقَوْمِ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ ) -

۷۹( إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ حَنِیفًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ ) -

ترجمہ:

۷۵ ۔اس طرح ہم نے آسمانوں اور زمین کے ملکوت ابراہیم کو دکھائے تاکہ وہ اہلِ یقین میں سے ہوجائے۔

۷۶ ۔جب رات (کی تاریکی) نے اُسے ڈھانپ لیا تو اُس نے ایک ستارے کو دیکھا تو کہا۔ کیا یہ میرا خدا ہے؟ لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو کہا کہ میں غروب ہوجانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

۷۷ ۔اور جب اُس نے چاند کو دیکھا کہ وہ (سینہ افق کو چیر کر) نکلا ہے تو اُس نے کہا کیا یہ میرا خدا ہے؟ لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہا کہ اگر میرا پروردگار میری رہنمائی نہ کرے تو میں یقینی طور پر گمراہ جماعت میں سے ہوجاؤں گا۔

۷۸ ۔اور جب اُس نے سورج کو دیکھا کہ وہ (سینہ افق کو چیر کر) نکل رہا ہے تو کہا کہ کیا یہ میرا خدا ہے؟ یہ تو (سب سے) بڑا ہے لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہا اے قوم میں اُن شریکوں سے جنھیں تم (خدا کے لیے) قرار دیتے ہو بیزار ہوں ۔

۷۹ ۔میں نے تو اپنا رُخ اس ہستی کی طرف کرلیا ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ میں اپنے ایمان میں مخلص ہوں اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں ۔

آسمانوں میں توحید کی دلیلیں

اس سرزنش اور ملامت کے بعد جو ابرہیم - بتوں کی کرتے تھے، اور اُس دعوت کے بعد جو آپ- نے آزر کو بت پرستی کے ترک کرنے کے لیے کی تھی ان آیات میں خدا ابراہیم کے بت پرستوں کے مختلف گرد ہوں کے ساتھ منطقی مقابلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُن کے واضح عقلی استدلالات کے طریق سے اصل توحید کو ثابت کرنے کی کیفیت بیان کرتا ہے۔

پہلے کہتا ہے: جس طرح ہم نے ابرہیم کو بت پرستی کے نقصانات سے آگاہ کیا اسی طرح ہم نے اس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین پر پروردگار کی مالکیت مطلقہ اور تسلط کی نشاندہی کی( وَکَذٰلِکَ نُرِی إِبْرَاهِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔(۱)

”ملکوت“اصل میں ”ملک“ (بروزن حکم) کے مادہ سے ہے جو حکومت و مالکیت کے معنی میں ہے اور”و“ اور ”ت“ کا اضافہ تاکید و مبالغہ کے لیے ہے، اس بناپر یہاں اس سے مراد تمام عالمِ ہستی پر خدا کی حکومت مطلقہ ہے۔

یہ آیت اصل میں اُس تفصیل کا ایک اجمال ہے کہ جو بعد کی آیات میں سورج، چاند اور ستاروں کی کیفیت کا مشاہدہ کرنے کے بارے میں اور اُن کے غروب ہونے سے اُن کے مخلوق ہونے پر دلیل لانے کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہے۔

یعنی قرآن نے پہلے ان مجموعی واقعات کا اجمالی بیان کیا ہے اس کے بعد ان کی تشریح شروع کی ہے اور اس طرح سے ابراہیم- کو ملکوتِ آسمان و زمین دکھانے کا مقصد واضح ہوجاتا ہے۔

اور آیت کے آخر میں قرآن فرماتا ہے: ہمارا ہدف و مقصد یہ تھا کہ ابرہیم اہلِ یقین میں سے ہوجائے( وَلِیَکُونَ مِنْ الْمُوقِنِینَ )

اس میں شک نہیں ہے کہ ابراہیم - خدا کی یگانگت کا استدلالی و فطری یقین رکھتے تھے، لیکن اسرار آفرینش کے مطالبہ سے یہ یقین درجہ کمال کو پہنچ گیا، جیسا کہ وہ قیامت اور معاد کا یقین رکھتے تھے، لیکن سر بریدہ پرندوں کے زندہ ہونے کے مشاہدہ سے ان کا ایمان ”عین الیقین“ کے مرحلہ کو پہنچ گیا۔

بعد والی آیات میں اس موضوع کو تفصیلی طور پر بیان کیا ہے جو ستاروں اور آفتاب کے طلوع و غروب سے ابراہیم - کے استدلال کو ان کے خدا نہ ہونے پر واضح کرتا ہے۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: جب رات کے تاریک پردے نے سارے عالم کو چھپالیا تو اُن کی آنکھوں کے سامنے ایک ستارہ ظاہر ہوا۔ ابراہیم نے پکار کر کہا کہ کیا یہ میرا خدا ہے؟ لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو اُنہوں نے پورے یقین کے ساتھ کہا کہ میں ہرگز ہرگز غروب ہوجانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور انھیں عبودیت و ربوبیت کے لائق نہیں سمجھتا( فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ اللَّیْلُ رَاٴَی کَوْکَبًا قَالَ هٰذَا رَبِّی فَلَمَّا اٴَفَلَ قَالَ لاَاٴُحِبُّ الْآفِلِینَ ) ۔

انھوں نے دوبارہ اپنی آنکھیں صفحہ آسمان پر گاڑدیں ۔ اس دفعہ چاند کی چاندی جیسی ٹکیہ وسیع اور دل پذیر روشنائی کے ساتھ صفحہ آسمان پر ظاہر ہوئی۔ جب چاند کو دیکھا تو ابراہیم- نے پکار کر کہا کہ کیا یہ ہے میرا پروردگار ؟ لیکن آخر کار چاند کا انجام بھی اُس ستارے جیسا ہی ہوا اور اُس نے بھی اپنا چہرہ پر وہ افق میں چُھپالیا تو حقیقت کے متلاشی ابراہیم - نے کہا کہ اگر میرا پروردگار مجھے اپنی طرف رہنمائی نہ کرے تو میں گمراہوں کی صف میں جاکھڑا ہوں گا( فَلَمَّا رَاٴَی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّی فَلَمَّا اٴَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ یَهْدِنِی رَبِّی لَاٴَکُونَنَّ مِنْ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ ) ۔

اُس وقت رات آخر کو پہنچ چکی تھی اور اپنے تاریک پردوں کو سمیٹ کو آسمان کے منظر سے بھاگ رہی تھی، آفتاب نے افق مشرق سے نکالا اور اپنے زیبا اور لطیف نور کو زربفت کے ایک ٹکڑے کی طرح دشت و کوہ و بیابان پر پھیلا دیا، جس وقت ابراہیم - کی حقیقت بین نظر اُس کے خیرہ کرنے والے نور پر پڑی تو پکار کر کہا: کیا میرا خدا یہ ہے؟ جو سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن ہے، لیکن سورج کے غروب ہوجانے اور آفتاب کی ٹکیہ کے ہیولائے شب کے منہ میں چلے جانے سے ابراہیم - نے اپنی آخری بات ادا کی، اور کہا: اے گروہِ (قوم) میں ان تمام بناوئی معبودوں سے جنھیں تم نے خدا کا شریک قرار دے لیا ہے بری و بیزار ہوں( فَلَمَّا رَاٴَی الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّی هٰذَا اٴَکْبَرُ فَلَمَّا اٴَفَلَتْ قَالَ یَاقَوْمِ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ ) ۔

اب جب کہ میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس متغیر و محدود اور قوانینِ طبیعت کے چنگل میں اسیر مخلوقات کے ماو اء ایک ایسا خدا ہے کہ جو اس سارے نظامِ کائنات پر قادر حاکم ہے تو میں تو اپنا رڑخ ایسی ذات کی طرف کرتا ہوں کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور اس عقیدے میں کم سے کم شرک کو بھی راہ نہیں دیتا، میں تو موحد خالص ہوں اور مشرکین میں سے نہیں ہوں( إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ حَنِیفًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ ) ۔

____________________

۱۔ اس بناپر آیت میں ایک حذف اور تقدیر موجود ہے جو آیات قبل سے واضح ہوتی ہے اور حقیقت میں آیت کا مضمون اس طرح ہے: (کما ارینا ابراهیم قبح ما کان علی علیه قومه من عبادة الاصنام کذلک نری ابراهیم ملکوت السمٰوٰت و الارض