تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34468
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34468 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیت ۹۱

۹۱( وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا اٴَنزَلَ اللَّهُ عَلیٰ بَشَرٍ مِنْ شَیْءٍ قُلْ مَنْ اٴَنزَلَ الْکِتَابَ الَّذِی جَاءَ بِهِ مُوسَی نُورًا وَهُدًی لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِیسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ کَثِیرًا وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا اٴَنْتُمْ وَلاَآبَاؤُکُمْ قُلْ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِی خَوْضِهِمْ یَلْعَبُونَ ) -

ترجمہ:

۹۱ ۔ انھوں نے خدا کو جیسا کہ پہچاننا چاہیے تھا، نہیں پہنچانا جب کہ انھوں نے یہ کہا کہ اُس نے کسی انسان پر کوئی چیز نازل نہیں کی، تم یہ کہہ دو کہ وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے، کس نے نازل کی تھی۔ وہ کتاب جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی۔ (لیکن تم لوگوں نے) اُسے پراگندہ کردیا ہے۔ تم اس کے کچھ حصّے کو تو آشکار کرتے ہو اور کچھ کو پوشیدہ رکھتے ہو اور تمھیں ایسے مطالب کی تعلیم دی گئی ہے کہ جن سے تم اور تمہارے آباؤ اجداد باخبر نہیں تھے۔ کہہ دو کہ خدا نے------ اور پھر انھیں ان کی ہٹ دھرمی میں چھوڑ دو تا کہ وہ کھیل کود میں پڑے رہیں ۔

شان نزول

خدا ناشناس

ابن عباس سے منقول ہے:

یہودیوں کی ایک جماعت نے کہا: اے محمد! کیا واقعاً خدانے تم پر کتاب نازل کی ہے؟

پیغمبر نے فرمایا: ہاں ،

وہ کہنے لگے: خدا کی قسم خدا نے تو کوئی کتاب بھی آسمان سے نازل نہیں کی۔(۱)

اس آیت کی شان نزول میں کچھ اور روایات بھی نقل ہوئی ہیں اور جیسا کہ بعد میں معلوم ہوگا کہ جو کچھ ہم اُوپر بیان کرچکے ہیں وہ سب سے بہتر ہے اور زیادہ مناسب ہے۔

خدانشناسان

اس بارے میں کہ یہ آیت یہودیوں کے متعلق ہے یا مشرکین کے بارے میں ، مفسرّین کے درمیان اختلاف ہے، لیکن اس لحاظ سے کہ پیغمبر اکرم کی مکہ میں یہود سے گفتگو اور ملاقات نہیں تھی اور جو کچھ اُن کے ساتھ معاملہ رہا وہ مدینہ میں تھا اور دوسری طرف یہ کہ سورہ انعام کہ یہ آیت جس کا جزء ہے مکی ہے، بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ آیت استثنائی طور پر مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم کے حکم سے کسی خاص مناسبت کی وجہ سے اس مکی سورہ کے وسط میں رکھی گئی ہے اور قرآن میں اس امر کے کئی نمونے موجود ہیں ۔

حقیقت مطلب واضح ہونے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ آیت کی اجمالی تفسیر کو سمجھ لیں اور اس کے بعد اس بارے میں آیت کن لوگوں کے بارے میں گفتگو کررہی ہے اور اس کا ہدف و مقصد کیا ہے بحث کریں ۔

آیت پہلے یہ کہتی ہے کہ: انھوں نے خدا کو جس طرح چاہیے اس طرح نہیں پہنچانا، کیونکہ انھوں نے یہ کہا ہے کہ خدا نے کوئی کتاب کسی انسان پر نازل نہیں کی( وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا اٴَنزَلَ اللَّهُ عَلیٰ بَشَرٍ مِنْ شَیْءٍ ) ۔

خداوند تعالیٰ اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ تم اُن کے جواب میں یہ کہو کہ وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے اور جو لوگوں کے لیے نور وہدایت تھی وہ کس نے نازل کی تھی( قُلْ مَنْ اٴَنزَلَ الْکِتَابَ الَّذِی جَاءَ بِهِ مُوسَی نُورًا وَهُدًی لِلنَّاسِ ) ۔

وہی کتاب کہ جسے تم نے پرپراکندہ صفحات میں تبدیل کردیا ہے، اس کا کچھ حصّہ جو تمھارے مفاد میں ہے (لوگوں پر) ظاہر کرتے ہو اور اس کا بہت سا حصّہ جسے تم اپنے لیے مضر سمجھتے ہو (لوگوں سے) چھپاتے ہو( تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِیسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ کَثِیرًا ) ۔

”اور اس آسمانی کتاب میں تمھیں ایسے مطالب کی تعلیم دی گئی ہے کہ جنھیں تم اور تمھارے آباؤ اجداد جانتے نہیں تھے اور خدائی تعلیم کے بغیر اُسے جان بھی نہیں سکتے تھے“( وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا اٴَنْتُمْ وَلاَآبَاؤُکُمْ ) ۔

آیت کے آخر میں پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ: تم صرف خدا کو یاد کرو اور اُنھیں ان کی باطل باتوں ، ہٹ دھرمی اور کھیل کود میں چھوڑدو کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے کتاب الٰہی اور اس کی آیات کو کھیل بنا رکھا ہے( قُلْ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِی خَوْضِهِمْ یَلْعَبُونَ ) ۔

اب اگر یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہو اور روئے سخن یہودیوں کی طرف ہو تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ یہودیوں کی ایک جماعت تمام انبیاء پر آسمانی کتاب کے نزول کی منکر تھی تو کیا یہ ممکن ہے کہ یہودیوں اور تورات کی پیروی کرنے والے کتاب آسمانی کے نزول کا انکار کریں ۔ جی ہاں ! اگر آپ تعجب نہ کریں تو ایک خاص مطلب توجہ کرنے سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم کتب عہد جدید (اناجیل) اور کتب قدیم (تورات اور اس کے ساتھ وابستہ کتب) کا دقت نظر سے مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ان کتب میں سے کوئی بھی آسمانی لب ولہجہ نہیں رکھتی۔ یعنی خدا کے انسان سے گفتگو کرنے کا پہلو ان میں نہیں ہے، بلکہ ان سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کتابیں حضرت موسیٰ- اور حضرت عیسیٰ- کے شاگردوں اور غیر شاگرد پیروکاروں کی زبان سے تاریخ اور سیرت کی صورت میں لکھی گئی ہیں ۔

اور ظاہراً موجودہ وقت کے یہودی اور عیسائی بھی اس مطلب کا انکار نہیں کرتے کیونکہ ان کتابوں میں حضرت موسی- اور حضرت عیسی- کی وفات کی داستان اور بہت سے ایسے واقعات جو ان کے بعد کے زمانے سے مربوط ہیں لکھے ہوئے ہیں یہ (واقعات) پیش گوئی کے طور پر نہیں بلکہ گزرے ہوئے زمانے کی ایک خبر کے طور پر ہیں ۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ ایسی کتاب حضرت موسی- اور حضرت عیسی- پر نازل ہوئی ہو؟

زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ کتابیں چونکہ ایسے انسانوں کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہیں جو وحی آسمانی سے باخبر تھے لہٰذا یہ کتب مقدس، قابل اعتماد اور اشتباہ سے پاک ہیں ۔

تو اس نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے وہ قرآن کے لب ولہجہ سے کہ جو خدا کے پیغمبر سے اور بندوں سے خطاب کی شکل میں ہے کیوں تعجب کرتے تھے؟ اور اُوپر والی شانِ نزول میں بھی ہم نے پڑھا ہے کہ انھوں نے تعجب کے ساتھ آپ سے پوچھا کہ کیا خدا نے آسمانی کتاب نازل کی ہے، اور پھر انھوں نے اس امر کا کلی طور پر انکار کیا ہے کہ کوئی کتاب خدا کی طرف کسی انسان پر حتّیٰ کہ موسی- پر بھی نازل ہوئی ہے۔

لیکن خدا ان کے جواب میں اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تم خود عقیدہ رکھتے ہوکہ الواح اور کچھ مطالب موسیٰ پر نازل ہوئے تھے ۔یعنی جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اگر وہ کتاب آسمانی نہیں ہے تو تم قبول کرتے ہو کہ اس قسم کی کوئی چیز خدا کی طرف سے نازل ہوئی تھی کہ جس کے کچھ حصہّ تو تم آشکار کرتے ہو اور زیادہ تر حصہّ چھپاتے ہو۔

اس طرح سے اس بارے میں کوئی اعتراض باتی نہیں رہتا کہ یہ کہا جائے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہودی کتاب آسمانی کے نزول کے منکر ہوں ۔

اور اگر یہ آیت اس سورہ کی باقی آیات کی طرح مشرکین کے بارے میں ہو تو پھر اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ ہر قسم کی آسمانی کتاب کے نزول کے منکر ہوگئے تھے تا کہ پیغمبر اکرم الله علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کا انکار کرسکیں ، لیکن خدا ان کے لیے یہ استدلال پیش کرتا ہے کہ یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس قسم کا دعویٰ کریں حالانکہ خدا نے تورات موسی - پر نازل کی ، اور مشرکین اگر چہ دین یہود قبول نہیں کرتے تھے لیکن وہ گذشتہ انبیاء اور حضرت ابراہیم - کو یہاں تک کہ حضرت موسیٰ کو احتمالاً ایک خاص علاقے اور زمانے کے پیغمبر کے طور پر قبول کرتے تھے اور خود کو دین ابراہیم - کا پیروکار سمجھتے تھے۔ اسی لیے جب پیغمبر اسلام نے ظہور کیا تو وہ ان کی علامات کی جستجو کے لیے اہل کتاب کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی کتب کا مطالعہ کریں اور تحقیق کریں کہ کیا وہ اس قسم کے پیغمبر کی خبر دیتی ہیں ، تو اگر وہ ان کتب کو بالکل قبول نہ کرتے ہوئے تو کس طرح ممکن تھا کہ وہ اس قسم کی درخواست کریں لہٰذا وہ یہود سے سوال کرنے کے بعد جو کچھ اُن کے فائدے میں تھا اُسے ظاہر کرتے اور جو اُن کے لیے مضر تھا اُسے مخفی رکھتے (مثل پیغمبر کی اُن نشانیوں کے جو گذشتہ کتب میں آئی تھیں ) لیکن پہلی تفسیر آیہ کے لب ولہجہ، شان نزول اور اُن ضمائر کے ساتھ جو آیت میں ہیں زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔

چند قابلِ توجہ نکات

۱ ۔ قراطیس:

یہ جمع ہے ”قرطاس“ کی اور اس کی اصل جیسا کہ بعض نے کہا ہے یونانی زبان سے لی گئی ہے۔ اس کا معنی جیسا کہ راغب ”مفردات“ میں کہا ہے ”وہ چیز ہے کہ جس کے اوپر لکھا جائے“ اس بناپر یہ لفظ عام خطکاغذ، جانوروں کے چمڑے، درختوں کی چھال اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کے لیے بھی کہ جن پر قدیم ایّام میں خط اور کتابیں لکھتے تھے، استعمال ہوتا ہے۔

۲ ۔ کاغذ پر لکھنے کی مذمت؟

ممکن ہے یہ سوال ہو کہ آیت میں یہودیوں کی مذمت کیوں کی گئی ہے کہ انھوں نے وحی آسمانی کو کاغذ وغیرہ پر لکھا تھا، یہ تو کوئی مذمت کی بات نہیں ہے۔

ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ مذمت اس لحاظ سے نہیں ہے بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ مطالب تورات کو پراکندہ کاغذات اور اسی کی مانند دوسری چیزوں کے اُوپر لکھتے تھے، پھر جو کچھ اُن کے فائدہ میں ہوتا تھا اُس کو تو وہ دوسرے لوگوں کو دکھاتے تھے اور جو اُن کے نقصان میں ہوتا تھا اُسے مخفی رکھتے تھے۔

۳ ۔ ”( وما قدروا الله حق قدره )

(خدا کو جس طرح چاہیے انھوں نے نہیں پہچانا اور اس کے اوصاف کو سمجھا نہیں ) حقیقت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص خدا صحیح طریقے سے پہچان لے وہ انکار نہیں کرسکتا کہ اس کی طرف سے رہبر ورہنما کتبِ آسمانی کے ساتھ نوع بشر کے لیے بھیجے گئے کیونکہ حکمتِ خدا کا تقاضا یہ ہے کہ:

اوّل تو اس نے انسان کو جس ہدف ومقصد کے لیے پیدا کیاہے یعنی ہدفِ ارتقا، اس کے لیے جو پُر پیچ وخم راستہ اُس کے سامنے ہے اُس میں اس کی مدد کرے ورنہ بصورت دیگر اُس نے غرض تخلیق کا تقاضا پورا نہیں کیا اور یہ ہدف ومقصد وحی بھیجنے، کتاب آسمانی نازل کرنے اورہر قسم کی خطا واشتباہ سے خالی، پاک اور صحیح دتعلیمات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

دوسرے یہ بات کیسے ممکن ہے کہ خدا کی رحمت عامہ وخاصہ کا مقام ای بات کی اجازت دے دے کہ وہ انسان کو راہِ سعادت میں جہاں پر وہ ہزارہا رکاوٹوں سے دوچار ہے اور بہت سی پھلسنے کی جگہیں اس کی راہ میں موجود ہی، اکیلا چھوڑدے اور اس کی دستگیری اور رہنمائی کے لیے جامع تعلیمات کے ساتھ رہبر ورہنما بھیجے (اس بناپر اس کی حکمت بھی اور اس کی رحمت بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ کتب آسمانی بھیجے)۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوندتعالیٰ کی کنہ ذات اور کنہ صفات کی معرفت تو کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے اور زیرِبحث آیت میں ایسا کوئی نظریہ نہیں ہے بلکہ اصل مقصود یہ ہے کہ خدا کی ذات اور صفات کی جتنی مقدار انسان کے لئے ممکن ہے اگر وہ حاصل ہوجائے تو اس بات میں کوئی تردّد باقی نہیں رہے گا کہ اس قسم کا خدا اپنے بندوں کو بغیر سرپرست اور بغیر کتاب آسمانی کے نہیں چھوڑے گا۔

_____________________

۱۔ تفسیر مجمع البیان، ابوالفتوح رازی اور المنار زیر نظر آیت کے ذیل میں ۔

آیت ۹۲

۹۲( وَهٰذَا کِتَابٌ اٴَنزَلْنَاهُ مُبَارَکٌ مُصَدِّقُ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَلِتُنذِرَ اٴُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَهَا وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ یُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلیٰ صَلاَتِهِمْ یُحَافِظُونَ ) -

ترجمہ:

۹۲ ۔ اور یہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، یہ ایک ایسی بابرکت ہے کہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہیں اُن سب کی تصدیق کرتی ہے (اسے ہم نے اس لیے بھیجا ہے تاکہ تم لوگوں کو خدائی جزاؤں کی بشارت دو) اور اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم امّ القریٰ (مکہ) اور اس کے اِردگِرد کے لوگوں کو ڈارؤ ۔ جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت ونگرانی کرتے ہیں ۔

یہ ایک بہت ہی بابرکت کتاب ہے

اُس بحث کے بعد جو گذشتہ آیت میں یہودیوں کی اسمانی کتاب کے بارے میں تھی، یہاں قرآن کی طرف جو ایک دوسری آسمانی کتاب ہے اشارہ ہوتا ہے اور حقیقت میں تورات کا ذکر قرآن کے ذکر کے لیے ایک مقدمہ کے طور پر ہے، تاکہ ایک بشر پر کتابِ آسمانی کے نزول پر تعجب نہ کریں ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: یہ وہ کتاب ہے جس ہم نے نازل کیا ہے( وَهٰذَا کِتَابٌ اٴَنزَلْنَاهُ ) ۔

یہ ایک بہت ہی بابرکت کتاب ہے کیونکہ یہ طرح طرح کی خوبیوں ، نیکوں اور کامیابیوں کا سرچشمہ ہے( مُبَارَکٌ ) ۔

اس کے علاوہ ان کتابوں کی جو اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں تصدیق کرتی ہے( مُصَدِّقُ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ ) ۔

اس سے مراد کہ قرآن گذشتہ مقدس کتابوں کی تصدیق کرتاہے یہ ہے کہ وہ تمام علامات (اور نشانیاں ) جو اُن میں آئی ہیں وہ اس سے مطابقت رکھتی ہیں اور اس طرح گذشتہ دو جملوں میں قرآن کی حقانیت کی دو نشانیاں بیان ہوئی ہیں ۔ ایک ان نشانیوں کا موجود ہونا کہ جن کی گذشتہ کتب میں خبر دی گئی تھی اور دوسرے قرآن کریم کے خود اپنے مضامین عالیہ کہ جن میں ہر قسم کی خیرو برکت اور وسیلہ سعادت موجود ہے۔ اس بناپر اس کے مضامین عالیہ کے لحاظ سے بھی اور اسناد وتاریخی مدارک کی نظر سے بھی اس میں حقانیت کی واضح نشانیاں موجود ہیں ۔

اس کے بعد نزول قرآن کے ہدف ومقصد کی اس طرح وضاحت کی گئی ہے: ہم نے اسے اس لیے بھیجا ہے تاکہ تم امّ القریٰ (مکہ) اور ان تمام لوگوں کو اس کے اطراف وجوانب میں رہتے ہیں ، ڈراؤ اور ان کی ذمہ داریوں اور فرائض سے انھیں آگاہ کرو( وَلِتُنذِرَ اٴُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَهَا ) ۔(۱)

اور چونکہ ”انذار“ یعنی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف متوجہ کرنا اور ان کے ترک کرنے سے ڈرنا خصوصاً ایسے اشخاص کو جو سرکش وطغیانگر ہوں قرآن کریم کا اہم ترین پورگرام ہے، لہٰذا صرف اسی حصّے کی طرف اشارہ ہوا ہے اور آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ: وہ لوگ جو قیامت کے دن پر، حساب وکتاب اور اعمال کی جزا پر ایمان رکھتے ہیں ، اس کتاب پر بھی ایمان لے آئیں گے اور اپنی نمازوں کی حفاظت بھی کریں گے( وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ یُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلیٰ صَلاَتِهِمْ یُحَافِظُونَ ) ۔

____________________

۱ ۔ اس بارے میں کہ ”لتنذر“ کا عطف کس پر ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، لیکن زیادہ تر جو بات نظر آتی ہے یہ ہے یہ ایک محذوف لفظ مثلاً ”لتبشر“ وغیرہ پر عطف ہو۔

چند قابلِ توجہ مطالب

۱ ۔ اسلام ایک عالمی دین ہے: قرآن کریم کی مختلف آیات اچھی طرح سے گواہی دیتی ہیں کہ اسلام ایک عالمی دین ہے۔ وتعبیرات جیسے :”( لِاَنْذِرَکُمْ بِهِ وَمَن بَلَغَ )

”میرا ہدف یہ ہے کہ تم سب کو اور اُن تمام لوگوں کو جن تک میری بات پہنچے قرآن کے ذریعے ڈراؤں “(انعام/ ۱۹)

( اِنْ هُوَ اِلَّا ذِکْریٰ لِلْعَالَمِینَ )

”یہ قرآن عالمین کے لیے تذکر ویاد دہانی ہے“(انعام/ ۹۰)

( قُلْ یَا اَیُّهَا النَّاسُ اِنِّی رَسُولُ اللهِ اِلَیکُمْ جَمِیعاً )

”کہہ دو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف الله کا بھیجا ہوا رسول ہوں “(اعراف/ ۱۵۸)

اور ایسی بہت سی دوسری آیات کہ جو قرآن میں بکثرت موجود ہیں اس حقیقت پر گواہ ہیں اور خاص طور پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سی آیات مکہ میں نازل ہوئی ہیں ، یعنی اس موقع پر جب کہ اسلام ابھی اس شہر کے حد ود اربعہ سے باہر نہیں نکلا تھا۔

لیکن زیر بحث آیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے ی سوال سامنے آتا ہے کہ پیغمبر کی بعثت کا ہدف مکہ اور اس کے گردا گرد کے لوگوں کو ڈرانا اور انھیں ہدایت کرنا کیسے بیان کیا گیا ہے؟ کیا یہ اسلام کے عالمی دین ہونے کے منافی نہیں ؟

اتفاق سے یہ اعتراض بعض یہودیوں اور بعض دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے نقل ہوا ہے اور انھوں نے اپنے گمان میں اسلام کے عالمی دین ہونے کے مقابلہ میں اس کو ایک محکم ہتھیار پایا ہے جو اسے ایک خاص علاقہ میں محدود کردیتا ہے (یعنی مکہ اور اطراف مکہ(۱)

جواب دو نکات کی طرف توجہ کرنے سے یہ امر کامل طور پر واضح ہوجاتاہے کہ یہ آیت نہ صرف یہ کہ اسلام کے عالمی ہونے کے منافی نہیں بلکہ کہا جاسکتا ہے یہ اسلام کے عالمی ہونے کی دلیل ہے۔

۱ ۔ قریہ، قرآن کی زبان میں ہر قسم کی آبادی کے معنی میں ہے چاہے وہ بڑا شہر ہویا کوئی گاؤں ، مثلاً ہم سورئہ یوسف میں یوسف کے بھائیوں کی زبان سے ان کے باپ کے سامنے ان کا بیان پڑھتے ہیں کہ:”( وَ اسْئَلِ الْقَرُیَةَ الَّتِی کُنَّا فِیْهَا )

”ہم جس قریہ میں تھے اس قریہ سے پوچھ لیجئے“۔ (یوسف ۔ ۸۲)

اور ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ گفتگو انھوں نے مصر کے پایہ تخت سے واپس لوٹنے اور عزیر مصر کی حکومت کی طرف سے اُن کے بھائی ”بنیامین“ کو مصر میں روک لینے کے واقعہ کے بعد کی تھی۔ اسی طرح قرآن میں ہے:

( وَلَوْ اٴَنَّ اٴَهْلَ الْقُریٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَکَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ )

”اگر وہ تمام لوگ جں روئے زمین کی آبادیوں میں زندگی بسر کرتے ہیں ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم آسمان سے اور زمین سے ان پر (اپنی) برکتوں (کے دروازوں ) کو کھول دیں گے“ ۔(اعراف ۹۶)

یہ بات ظاہر ہے کہ یہاں صرف بستیاں (گاؤں ) مراد نہیں ہیں بلکہ اس سے تمام دنیا کے رہائشی اور آباد علاقے مراد ہیں ۔

دوسری طرف متعدد روایات میں ہے کہ زمین کی خشکی کے علاقے خانہ کعبہ کے نیچے سے بچھائے گئے تھے اور اسی وجہ سے ”دحوالارض“ (زمین کا بچھانا) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ابتداء میں سیلابی بارشوں کے زیرا اثر تمام کرہ زمین پانی سے ڈھکا ہوا تھا، پانی رفتہ رفتہ نیچے چلا گیا، اور زمین کے پست علاقوں میں ٹھہر گیا اور خشکیاں تدریجاً پانی کے نیچے سے سر نکالنے لگیں ۔ اسلامی روایات کے مطابق زمین کا پہلا ٹکڑا جس نے پانی سے سر نکالا وہ سرزمین مکہ تھی۔

اور اگر اس زمین کی بلندی موجودہ وقت میں تمام دنیا کی زمینوں کی بلندیوں سے بندترین نہیں ہے تو یہ امر ہماری اس گفتگو کے منافی نہیں کیونکہ اُس دن سے کئی لاکھ سال گزرچکے ہیں اور اب روئے زمین کے نقاط کی کیفیت بالکل بدل چکی ہے۔ بعض پہاڑ سمندروں کی تہوں میں چلے گئے ہیں اور بعض مقامات سمندروں کی تہوں سے نکل کر پہاڑوں کی چوٹیاں بن چکے ہیں اور یہ امر علم زمین شناسی ( GEOLOGY ) کے مسلمات میں سے ہے۔

۲ ۔ لفظ ”ام“ جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ہر چیز کی اصل و اساس اور ابتدا و آغاز کے معنی میں ہے۔

اب تک جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے اس پر توجہ کرتے ہوئے واضح ہوجاتاہے کہ اگر مکہ کو ام القریٰ کہتے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ روئے زمین کی تمام خشکیوں کے پیدا ہونے کی اصل و اساس اور ابتدا و آغاز ہے۔ تو اس بناپر ”و من حولہا“ (جو اس کے گردا گرد ہیں ) تمام روئے زمین کے لوگوں کے لیے ہوگا۔

گذشتہ آیات بھی اسلام کے عالمی ہونے کے باے میں اس تفسیر کی تائید کرتی ہیں ۔ اسی طرح پیغمبر اکرم کے ایسے بہت سے مخلوط جو اُنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں مثلاً کسریٰ و قصیر کے نام لکھے تھے جن کی تفصیل تفسیر نمونہ جلد دوم صفحہ ۳۶۰ ( اُردو ترجمہ) پر گزرچکی ہے، اس امر کا ایک اور گواہ ہیں ۔

۲ ۔ قرآن پر ایمان اور آخرت میں ربط: مندرجہ بالا آیت میں ہے کہ: ”جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ قرآن پر بھی ایمان لے آئیں گے، یعنی وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ یہ جہاں دوسرے جہاں کے لیے ایک مقدمہ ہے، اور کھیتی یا یونیورسٹی یا تجارت خانہ کی مانند ہے۔ بہر صورت ایک سلسلہ قوانین، لائحہ عمل، اور آئین اور دستور اس کے لیے ناگزیز ہے اور انبیاء کے آئے بغیر یہ ممکن نہیں کہ اس ہدف عالی تک پہنچ سکیں اور اس دن (آخرت) کے لیے تیاری کرسکیں ۔

دوسرے لفظوں میں یہ بات مد نظر رکھتے ہوئے، کہ خدانے انسان کو اس دنیا میں تکامل و ارتقا کے لیے بھیجا ہے، اور اس کی اصلی منزل دوسرا جہان ہے اگر وہ انبیاء اور آسمانی کتب اس کے لیے نہ بھنجے تو اس نے مقصد کو ضائع کردیا ہے اور اِس طرح سے خدا و معاد پر ایمان سے نبوت انبیاء اور کتب آسمانی پر ایمان کا نتیجہ نکالا جاتا ہے (غور کیجئے)۔

۳ ۔ نماز کی اہمیت: مندرجہ بالا آیت میں تمام دینی احکام میں سے صرف نماز کی طرف اشارہ ہوا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نماز خدا سے رشتہ جوڑنے اور اُس کے ساتھ ربط کا مظہر ہے اور اسی سبب سے تمام عبادات سے برتر و بالاتر ہے۔ بعض کے عقیدہ کے مطابق ان آیات کے نزول کے وقت اسلامی فریضہ فقط نماز ہی تھا۔(۲)

____________________

۱۔ تفسیر المنار، ج۷، ص۶۲۱۔ تفسیر فی ضلال ، ج۳، ص۳۰۵ میں کچھ مستشرقین کی طرف سے یہ اعتراض نقل ہوا ہے۔

۲۔ تفسیر المنار جلد ۷ صفحہ ۶۲۲۔

آیت ۹۳

۹۳( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللَّهِ کَذِبًا اٴَوْ قَالَ اٴُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْهِ شَیْءٌ وَمَنْ قَالَ سَاٴُنزِلُ مِثْلَ مَا اٴَنزَلَ اللَّهُ وَلَوْ تَرَی إِذْ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلاَئِکَةُ بَاسِطُوا اٴَیْدِیهِمْ اٴَخْرِجُوا اٴَنفُسَکُمْ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللَّهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِهِ تَسْتَکْبِرُونَ ) -

ترجمہ:

۹۳ ۔ اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا کہ جو خدا پر جھوٹ باندھے، یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے حالانکہ اس پر وحی نازل نہ ہوئی ہو اور وہ شخص کہ جو یہ کہے کہ میں بھی ایسا ہی (کلام) جیسا کہ اللہ نے نازل کیا ہے نازل کروں گا اور اگر تم ان ظالموں کو اُس وقت دیکھو جب کہ یہ موت کے شدائد میں گھرے ہوں گے اور فرشتے ہاتھ پھیلائے انھیں کہہ رہے ہوں گے کہ اپنی جان (اور روح) کو باہر نکالو۔ آج تم اُن دروغ گوئیوں کے بدلے جو تم نے خدا پر باندھی تھیں اور اس کی آیات کے سامنے جو تکبر تم کیا کرتے تھے اس کے بدلے ذلیل کرنے والے عذاب دیکھو گے (اور اس دن ان کی حالت پر تمھیں افسوس ہوگا)۔

شان نزول

اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں منابع حدیث اور کتب تفاسیر میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں ۔ منجملہ اُن کے ایک یہ ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن سعد نامی ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جو کا تبِ وحی تھا، پھر اس نے خیانت کی تو پیغمبر نے اُسے دھتکاردیا (اور اپنے پاس سے نکال دیا) اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں بھی قرآنی آیات جیسی آیات لاسکتا ہوں ۔ مفسرّین کی ایک جماعت نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ آیت یا اس کا کچھ حصّہ مسیلمہ کذاب کے بارے میں نازل ہوا ہے کہ جو نبوت کا چھوٹا دعویٰ کرنے واولوں میں سے تھا۔ لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ مسیلمہ کا قصّہ پیغمبر اکرم کی عمر کے آخری زمانے کا ہے اور یہ سورہ مکی سورتوں میں سے ہے، اس شان نزول کے طرفدار یہ نظر یہ رکھتے ہیں کہ یہ آیت اس سورہ کی چند دوسری آیات کی طرح مدینہ میں نازل ہوئی ہیں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و ستم کے حکم سے اس سورہ کی آیت کے درمیان قرار دے دی گئی ہے۔

لیکن ہر صورت میں قرآن کی دوسری تمام آیات کی مانند کہ جو خاص حالات میں نازل ہوئی ہیں اور ان کا مضمون و مطلب کلی اور عمومی ہے اس آیت کا مضمون و مطلب بھی کلی و عمومی ہے، اور ایسے تمام مدعیان نبوت اور ان جیسے تمام لوگوں پر محیط ہے۔

ایسے گنہگاروں کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے

گذشتہ آیات کے بعد کہ جن میں کسی بھی شخص پر کتب آسمانی کے نزول کی نفی کے بارے میں یہود کی گفتگو کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، اس آیت میں دوسرے ایسے گنہگاروں کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے جو ان کے نقط مقابل میں ہیں اور اپنے اوپر وحی آسمانی کے نزول کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ وہ بالکل جھوٹ بولتے ہیں ۔

حقیقت میں زیر بحث آیت میں اس قسم کے افراد کے تین کرو ہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

قرآن پہلے کہتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا کہ جو خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں کسی آیت کی تحریف کرتے ہیں ، اور خدا کے کلاموں میں سے کسی کو بدل دیتے ہیں( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللّٰهِ کَذِبًا ) ۔

دوسرا گروہ ان کا ہے جو نبوت اور وحی کا دعویٰ کرتے ہیں جب کہ نہ وہ پیغمبر ہیں اور نہ ہی اُن پر وحی نازل ہوتی ہے،( اٴَوْ قَالَ اٴُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْهِ شَیْءٌ ) ۔

تیسرا گروہ ان کا ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بنوت کے انکار کے طور پر یا تمسخر اور استہزا سے کہتے ہیں کہ: ”ہم بھی اس قسم کی آیات نازل کرسکتے ہیں حالانکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور وہ اس کام کی کوئی قدرت و طاقت نہیں رکھتے( وَمَنْ قَالَ سَاٴُنزِلُ مِثْلَ مَا اٴَنزَلَ اللَّهُ ) “۔

ہاں یہ سب کے سب ستم گر ہیں اور ان سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہے کیونکہ وہ خدا کے بندوں پر راہ حق کو بند کردیتے ہیں اور انھیں راستے سے ہٹا کر سرگردان کردیتے ہیں ، اور سچے رہبروں کی ہدایت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ وہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف کھینچ رہے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوگا کہ ایسے افراد جو رہبری کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے وہ رہبری کا دعویٰ کریں ۔ وہ بھی خدائی اور آسمانی رہبری کا۔

اگر چہ آیت مدعیان نبوت ووحی سے ربط رکھتی ہے، لیکن اس کی روح اُن تمام افراد پر محیط ہے جو جھوٹ طریقہ سے کسی ایسے مقام کا دعویٰ کریں کہ جس کے وہ اہل نہیں ہیں ۔

اس کے بعد اس قسم کے افراد کی دردناک سزایوں بیان کی گئی ہے: اے پیغمبر!اگر تم ان ظالموں کو اس دقت میں دیکھو جب کہ جان کنی کے شدائد میں غرق ہوں گے اور روح قبض کرنے والے فرشتہ ہاتھ پھیلائے ہوئے ان سے کہہ رہے ہوں گے کہ اپنی جان کو باہر نکالو، تو تم دیکھو گے کہ ان کی حالت بہت ہی دردناک اور افسوس ناک ہے( وَلَوْ تَرَی إِذْ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلاَئِکَةُ بَاسِطُوا اٴَیْدِیهِمْ اٴَخْرِجُوا اٴَنفُسَکُمْ ) ۔(۱)

اس حالت میں عذاب کے فرشتے اُن سے کہتے ہیں : آج تم دو کاموں کی وجہ سے ذلیل و خوار کرنے والے عذاب میں گرفتار ہوگے، پہلا یہ کہ تم خدا پر جھوٹ باندھتے تھے اور دوسرا یہ کہ اس کی آیات کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے تھے( الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللَّهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِهِ تَسْتَکْبِرُونَ ) ۔

چند قابلِ توجہ نکات

۱ ۔ نبوت کے جھوٹے دعویداروں اور بناوٹی رہنماؤں اور رہبروں کا جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں آیت میں بدترین ظالم کی حیثیت سے تعارف کرایا گیا ہے اور حقیقت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہے کہ کسی کی فکر کو چرالیا جائے اور اُس کے عقیدے کو خراب کردیا جائے اور راہ سعادت اس پر بند کردی جائے اور اُسے اپنی فکری نو آبادی بنالیا جائے۔

۲ ۔ ”( باسطوا ایدیهم ) “ کا جملہ ممکن ہے اس معنی میں ہوکہ قبض روح کرنے والے فرشتے ہاتھ پھیلاتے ہی ان کی روح کو قبض کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں سزا دینے کی ابتدا کرنے کے لیے ہاتھ پھیلانے کے معنی میں ہو۔

۳ ۔ ”( اخرجوا انفسکم ) “ (اپنی جان اور روح کو باہر نکالو) حقیقت میں یہ قیض روح کرنے والے فرشتوں کی طرف سے اس قسم کے ظالموں کے لیے ایک قسم کی تحقیر و تذلیل ہے۔ ورنہ روح و جان کا دینا خود ظالموں کا اپنا کام نہیں ہے، بلکہ یہ ان فرشتوں ہی کا کام ہے، جیسا کہ کسی قاتل کو موت کے گھاٹ اُتارتے وقت کہتے ہیں کہ اب موت کا مزہ چکھ۔ بہر حال ان کی یہ تحقیر و تذلیل اُس تحقیر کے مقابلہ میں ہے کہ جو انھوں نے آیات خدا، انبیاء اور بندگان خدا کے بارے میں کی تھی۔

ضمنی طور پر یہ آیت روح کے استقلال اور جسموں سے ایک جدا گانہ شے ہونے پر ایک اور گواہ بھی ہے۔

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس قسم کے گنہگاروں کی سزا جان دینے اور موت کے وقت سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔

____________________

۱۔ ”غمرات“ :جمع ہے ”غمرہ“ (بروزن ”ضربہ) کی جو اصل میں کسی چیز کے آثار کو ختم کرنے کے معنی میں ہے، اس کے بعد اس کثیر پانی کو جو کسی چیز کے تمام چہرہ کو چھپادے، نیز ان شداید، مشکلات اور مصائب کو بھی غمرہ کہا جانے لگا جو انسان کو اپنے حلق کی طرف کھینچیں ۔