آیات ۹۵،۹۶
۹۵(
إِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَی یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنْ الْحَیِّ ذَلِکُمْ اللَّهُ فَاٴَنَّا تُؤْفَکُونَ
)
-
۹۶(
فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ
)
-
ترجمہ:
۹۵ ۔خدا دانے اور گٹھلی کو چیز نے والا ہے اور زندہ کو مردہ سے پیدا کرتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے ۔ یہ ہے تمھارا خدا، پس تم حق سے کیسے منحرف ہوتے ہو۔
۹۶ ۔ وہ صبح کو شگافتہ کرنے والا ہے، اور اُس نے رات کو سکون کا باعث اور آفتاب و ماہتاب کو حساب کا ذریعہ قرار دیا ہے، یہ دانا و توانا خدا کی تقدیر ہے۔
تفسیر
طلوعِ صبح کرنے والا
دوبارہ روئے سخن مشرکین کی طرف کرتے ہوئے قرآن توحید کے دلائل کو اسرا کائنات، نظام آفرینش اور خلقت کی تعجب خیزیوں کے زندہ نمونوں اور پرگشش عبارتوں کے ساتھ تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
پہلی آیت میں زمین کے تین قسم کے عجیب و غریب شاہکاروں کی طرف اشارہ کیا گیا اور دوسری آیت میں آسمان میں ظاہر ہونے والی تین قسموں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پہلے کہتا ہے: خدا دانے اور گٹھلی کا چیزنے والا ہے(
إِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَی
)
۔ ”فالق“ ”فلق“ کے مادہ سے (بروزن ”فرق)
کسی چیز کو شگاف کرنے اور اس کے ایک حصّے کو دوسرے سے جدا کرنے کے معنی میں ہے۔
”حب“ ”وحبة“ غذائی دانوں کے معنی میں ہے، مثلاً گندم، جو اور وہ چیزیں جو کاٹنے کے قابل میں ۔
البتہ بعض اوقات دوسرے گھاس پھوس کے دانوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔
”نویٰ“ گٹھلی کے معنی میں ہے اور یہ جو بعض کہتے ہیں کہ یہ کھجور کی گٹھلی کے ساتھ مخصوص ہے، شاید اس بناپر ہو کہ عرب اپنے ماحول کے مخصوص حالات کی بناپر جب یہ کلمہ استعمال کرتے تھے تو ان کی توجہ کجھور کی گٹھلی کی طرف ہوتی تھی۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تعبیر میں کونسا نکتہ پوشیدہ ہے۔
اس بات پر خاص طور سے توجہ رکھنا چاہیے کہ ایک کسی پودے کی زندگی میں اہم ترین لحظہ وہی ہے جب دانہ اور گٹھلی شگافتہ ہو رہی ہو کہ جو ایک بچہ کی پیدائش کی طرح ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہونے کا زمانہ شمار ہوتا ہے اور اس لمحے اس کی زندگی میں ایک اہم ترین انقلاب رونما ہوتا ہے۔
یہ بات خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ ہری گھاس اور نباتات کے دانے اور گٹھلیاں اکثر بہت ہی زیادہ محکم اور مضبوط ہوتی ہیں ۔
اگر کھجور کی گٹھلی اور دوسرے پھلوں مثلاً آڑو اور بعض حبوبات کی گٹھلیوں پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ نطفہ حیاتی کہ جو حقیقت میں ایک پودا اور ایک چھوٹا سا درخت ہے بہت ہی محکم قلعہ میں محصور ہے۔ لیکن کارخانہ آفرینش اس نا قابلِ نفوذ قلعہ کو تسلیم و رضا کی ایسی خاصیت عطا کرتا ہے اور اُس نرم و نازک کو نپل کو جو گٹھلی اور دانے کے اندر پرورش پاتی ہے ایسی خاصیت عطا کرتا ہے اور اُس نرم و نازک کو نپل کو جو گٹھلی اور دانے کے اندر پرورش پاتی ہے ایسی قدرت و طاقت بخشتا ہے کہ وہ اس کی دیواروں کو چیر کر اُس کے اندر سے باہر نکال کر سیدھی کھڑی ہوجاتی ہے۔ واقعاً یہ عالم نباتات میں ایک عجیب و غریب قسم کا حادثہ ہے کہ قرآن جس کی طرف توحید کی ایک نشانی کے طور پر اشارہ کررہا ہے۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ زندہ موجودات کو وہ مردہ سے باہر لاتا ہے اور مردہ موجودات کو زندہ سے(
یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنْ الْحَیِّ
)
۔
حقیقت میں یہ جملہ کہ جس کی نظیر قرآن میں بار ہا نظر سے گزری ہے، موت و حیات کے نظام اور اُن کے ایک سے دوسرے میں تبدیل ہونے کی طرف اشارہ ہے بعض اوقات سمندروں کی تہ میں اور جنگلوں ، صحراؤں اور بیابانوں کی گہرائیوں میں بے جان خشک مواد سے زندگی کے طرح طرح کے چہرے تیار کرکے باہر بھیجتا ہے۔ ایسے ایسے مواد کو جن میں سے ہر ایک زہر قاتل کا کام کرتا ہے ترکیب دے کر حیات بخش مواد تیار کرلیتا ہے اور بعض اوقات اس کے برعکس طاقتور زندہ موجودات کو معمولی سی تبدیلی کے ساتھ ایک بے جان موجود میں تبدیل کردیتا ہے۔ زندہ موجودات کی زندگی کا مسئلہ خواہ وہ موجودات نباتات سے ہوں یا حیوانات میں سے، پیچیدہ ترین مسائل میں سے ہے۔ ابھی تک انسانی علم و دانش اس کے اسرار سے پردہ نہیں اٹھاسکے اور نہ ہی اس کے پوشیدہ رازوں کو معلوم کرسکے کہ کس طرح سے طبیعی عناصر اور خشک مواد ایک عظیم حرکت کے ساتھ زندہ موجود میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔
ہوسکتا ہے کہ کسی دن انسان جیسے کہ ایک مشین کے پرزوں کو جوڑ کر جو پہلے سے بنے ہوئے ہوتے ہیں مشین بنالیتا ہے اسی طرح سے مختلف طبیعی تراکیب سے استفادہ کرتے ہوئے بہت ہی پیچیدہ طریقوں کے ساتھ کوئی زندہ موجود بناڈالے لیکن نہ تو آج بشر کا عجز و ناتوانی اور نہ ہی آئندہ زمانے میں اس کام پر قادر ہونے کا احتمال، زندگی اور اس کے پیچیدہ نظام کے ایک عالم و قادر مبداء کی طرف سے ہونے کی بات کی اہمیت کو کم کرسکتی ہے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن وجود خدا کے اثبات کے لیے بارہا اسی مسئلہ کو دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ابراہیم- اور موسیٰ جیسے عظیم و بزرگ پیغمبر بھی نمرود اور فرعون جیسے سرکشوں کے مقابلے میں زندگی کے ظہور اور اس کی حکایت کے ذریعہ قادر و حکیم مبداء عالم کے وجود پر استدلال کرتے تھے۔
ابراہیم - نمرود سے کہتے ہیں :”(
رَبِّیَ الَّذِی یُحیِیْ وَ یُمیِتُ
)
“۔
”میرا خداوہ ہے کہ جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے“۔ (بقرہ۔ ۳۵۸)
حضرت موسیٰ فرعون کے مقابلہ میں کہتے ہیں :”(
وَاٴَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ اٴَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّی
)
“
”میرا پروردگار وہ ہے جس نے آسمان سے پانی نازل کیا اور نباتات کے طرح طرح کے جوڑے وجود میں لایا“۔ (طٰہٰ۔ ۵۳)
البتہ اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ صرف بے جان مواد سے زندہ موجودات کی پیدائش روئے زمین پر زندگی کی پیدائش کے آغاز میں نہیں تھی۔ بلکہ اب بھی پانی اور دیگر مواد کو زندہ موجودات کے خُلیوں کے ساتھ جذب کرکے حقیقت میں ان بے جان موجودات کے جسم پر لباس حیات پہنایا جاتا ہے۔ اس بناء پر وہ قانون جو آج کے علوم طبیعی کی رو سے مسلّم ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ زمین کے موجودہ حالات وکوائف میں کوئی بے جان موجود جاندار موجود تخم سے ہوگا، یہ نظریہ اُس سے جو کچھ ہے کہا ہے کوئی اختلاف نہیں رکھتا۔(غور کیجئے گا)
ان روایات سے جو اس آیت کی تفسیر میں یا اس کی مشابہ دوسری آیات کی تفسیر میں آئمہ اہل بیت- سے ہم تک پہنچی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد صرف مادی حیات وموت ہی نہیں ہے بلکہ یہ معنوی موت وحیات کو بھی اپنے دامنِ مفہوم میں لیے ہوئے ہے
ہم صاحبِ ایمان افراد کو دیکھتے ہیں کہ وہ بے ایمان آباؤ اجداد سے وجود میں آتے ہیں ، اور شریر، آلودہ گناہ اور بے ایمان افراد کو دیکھتے ہیں کہ وہ پاک افراد کی نسل سے ہیں اور وہ قانون وراثت کو اپنے ارادہ واختیار سے توڑ رہے ہیں ، جو کہ خالق کائنات کی عظمت کی ایک اور نشانی ہے کہ اُس نے اس قسم کی قدرت وارادہ انسان کو بخشا ہے۔
ایک اور نکتہ کہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا ضروری ہے یہ ہے کہ ”یخرج“ جو کہ فعل مضارع ہے ”مخرج“ کی طرح جو کہ اسم فاعل ہے استمرار پر دلالت کرتا ہے یعنی مردہ موجودات سے حیات سے پیدائش اور زندہ موجودات سے مُردوں کا پیدا ہونا جہاں آفرینش کا ایک دائمی اور عمومی نظام ہے۔
آیت کے آخر میں تاکید کے طور پر اور مطلب کو محکم بنانے کے لیے کہا گیا ہے: یہ ہے تمھارا خدا، اور یہ ہیں اس کی لامتناہی علم وقدرت کے آثار، تو ان حالات میں تم حق سے کس طرح منحرف ہوتے ہو اور وہ تمھیں باطل کی راہ کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں(
ذَلِکُمْ اللّٰهُ فَاٴَنَّا تُؤْفَکُونَ
)
۔
دوسری آیت میں جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں تین جوّی وآسمای نعمتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے، پہلے کہا گیا ہے: خدا صبح کا شگافتہ کرنے والا اور طلوعِ صبح کرنے والا ہے(
فَالِقُ الْإِصْبَاحِ
)
۔
”فلق“ (بروزن خلق)اصل میں شگاف ڈالنے کے معنی میں ہے اور یہ جوصبح کو فلق کہتے ہیں تویہ بھی اسی مناسبت سے ہے, ”اصباح“ و ”صبح“ دونوں ایک ہی معنی میں ہیں ۔
مندرجہ بالا تعبیر بہت ہی موزوں اور خوبصورت تعبیر ہے جو یہاں استعمال ہوئی ہے۔ کیونکہ رات کی تاریکی کو ایک موٹے پردے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس کو سفید دم کی طرح روشنی چاک کرکے علیحدہ کردیتی ہے اور یہ صورت صبح صادق پر بھی منطبق ہوتی ہے اور صبح کاذب پر صادق آتی ہے کیونکہ صبح کاذب کم روشنی کو کہا جاتا ہے جو رات کے آخری حصّہ میں ایک عمود کی شکل میں مشرق کی جانب آسمان پر پھیل جاتی ہے، اور وہ ایک شگاف سا ہوتا ہے جو مشرق سے مغرب کی طرف رات کے تاریک وسیاہ پردے میں ظاہر ہوتا ہے اور صبح صادق کہ جو اس کے بعد طلوع کرتی ہے ایک سفید ودرخشان اور خوبصورت جھالر کی شکل میں ہوتی ہے جو ابتدا میں اُفق مشرق کے عرض میں آشکار ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے رات کی سیاہ چادر کو نیچے کی طرف شمالاً وجنوباً پھاڑتی ہوئی دور تک بڑھتی چلی جارہی ہے اور اُوپر کی طرف تدریجاً بڑھتے ہوئے سارے آسمان پر پھیل جاتی ہے۔
قرآن کے علاوہ اس کے بارہا نعمتِ نور وظلمت اور نعمت شب وروز کا ذکر کیا ہے یہاں طلوعِ صبح کے مسئلہ کا والہ دیا ہے کہ جو خداوندتعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ آسمان میں ظاہر ہونے والی روشنی زمین کی فضا کے وجود کا نتیجہ ہے (یعنی ہوا کی وہ ضخیم ودبیز تہ کہ جس نے اس کرہ ارض کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے) کیونکہ اگر کرہ زمین کے اطراف میں کرہ ماہ کی طرح یہ فضا موجود نہ ہوتی تو نہ بین الطلوعین وفلق کا وجود ہوتا اور نہ ہی آغاز شب کی سفید اور شفق ہوتی، بلکہ آفتاب ایک ناخواندہ مہمان کی طرح بغیر کسی اطلاع اور تمہید کے افق مشرق سے سرنکالتا اور اپنا خیرہ کرنے والا نور اُن آنکھوں میں جو تاریکی شب کا عادی ہوچکی ہوتیں فوراً اور ایک دم چھڑک دیتا اور غروب کے وقت ایک فراری مجرم کی طرح اچانک نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا اور ایک ہی لمحہ میں تاریکی اور وحشتناک ظلمت تمام جگہوں کو گھیر لیتی۔ لیکن فضائے زمین کا وجود اور وہ فاصلہ جو رات کی تاریکی اور دن کی روشنی کے طلوع وغروب آفتاب کے وقت ہوتا ہے، انسان کو تدریجاً ان دو متضاد ظاہر ہونے والی چیزوں میں سے ہر ایک کو قبول کرنے کے لئے آمادہ کرتا ہے اور نور سے ظلمت میں تبدیلی اور ظلمت سے نور میں تبدیلی تدریجاً اور آہستہ آہستہ بالکل پسندیدہ اور قابل برداشت صورت میں انجام پاتی ہے۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ رات کے وقت ایک روشن اور پرنور کمرے میں جب اچانک بلب بجھ جاتا ہے تو سب کے لیے کیسی تکلیف دہ حالت ہوتی ہے۔
پھر گھنٹہ بھر بجلی نہ آئے اور پھر بغیر کسی تمہید کے بلب روشن ہوجائے تو پھر بھی ایک قسم کی تکلیف سب کو لاحق ہوجاتی ہے۔ بلب کی خیرہ کرنے والی روشنی آنکھوں کو تکلیف دیتی ہے اور ہم اطراف کی چیزوں کو دیکھنے کے لیے زحمت سے دوچار ہوجاتے ہیں اور اگر ایسا بار بار ہوتا رہے تو یقینا آنکھوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا
لیکن اس بناپر کہ کہیں یہ خیال نہ پیدا ہو کہ طلوعِ صبح اس بات کی دلیل ہے کہ تاریکی وظلمت ایک نامطلوب چیز ہے اور یہ سزا او سلبِ نعمت ہے لہٰذا بلا فاصلہ قرآن فرماتا ہے کہ خداوندتالیٰ نے ”رات کو سکون وآرام کا باعث قرار دیا ہےے(
وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَنًا
)
۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ انسان نور اور روشنی میں جستجو اور کوشش کی طرف مائل ہوتا ہے، خون سطح بدن کی طرف رواں دواں ہوتا ہے اور تمام خلیے آمادہ عمل ہوجاتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ روشنی میں نیند اتنی آرام دہ نہیں ہوتی لیکن ماحول جتنا تاریک ہوگا نیند اتنی ہی گہری اور آرام دہ ہوگی۔ کیونکہ تاریکی میں خون بدن کے اندر کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور خلیے ایک طرح کے آرام واستراحت میں ڈوب جاتے ہیں ۔ اسی سبب سے دنیائے طبیعت میں نہ صرف حیوانات بلکہ نباتات بھی رات کی تاریکی میں سوجاتے ہیں اور صبح کی پہلی شعاع کے ظاہر ہوتے ہی جنبش اور فعّالیت شروع کردیتے ہیں ۔ اس کے برعکس مشینی دنیا کے لوگ آدھی رات کے بعد تک بیدار رہتے ہیں اور دن کو طلوع آفتاب کے بہت دیربعد تک سوئے رہتے ہیں اور بدن کی صحت وسلامتی کو ضائع کردیتے ہیں ۔
اُن احادیث میں جو اہل بیت علیہم السلام کے طریقوں سے وارد ہوئی ہیں ، ہم ایسے دستور العمل پڑھتے ہیں جو سب کے سب یہی مفہوم لیے ہوئے ہیں ، منجملہ ان کے نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ- نے اپنے ایک موالی کو حکم دیا کہ رات کے ابتدائی حصّہ میں اپنا سفر جاری نہ رکھ کیونکہ خدا نے رات کو سکون وارام کے لیے قرار دیا ہے اور اسے قیام کا وقت قرار دیا ہے نہ کہ کوچ کرنے کا۔ رات کے وقت اپنے بدن کو آرام پہچاؤ اور استراحت کرو
ایک حدیث میں جو کتاب ”کافی“ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے آپ- نے فرمایا:”ت”تزوج باللّیل فاِنّه جعل اللّیل سکناً
“
”مراسم ازدواج کو رات کے وقت قرار دے کیونکہ رات باعث سکون وآرام ہے“
جیسا کہ ازدواج اور صحیح طور پر جنسی آمیزش بھی آرام بخش ہے) اور کتاب کافی ہی میں ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ امام علی بن الحسین علیہما السلام اپنے غلاموں کو یہ حکم دیا کرتے تھے کہ وہ رات کے وقت اور طلوع فجر سے پہلے کبھی بھی جانوروں کو ذبح نہ کریں اور فرماتے تھے:””انّ الله جعل اللّیل سکناً لکلّ شیء
“
”خدا نے رات کو ہر چیز کے لیے راحت وآرام کا سبب قرار دیا ہے“۔
اس کے بعد خداوندتعالیٰ نے اپنی تیسری نعمت اور اپنی عظمت کی نشانی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ: آفتاب وماہتاب کو تمہاری زندگی میں حساب وکتاب کا ذریعہ قرار دیا ہے(
وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا
)
۔
”حسبان“ (برورزن لقمان) مصدر ہے، مادّہ ”حساب“ سے اور حساب کرنے کے معنی میں ہے۔ یہاں ممکن ہے یہ مرادہو کہ ان دو آسمانی کرّوں کی منظم گردش اور سیر مرتب (البتہ ان کی حرکت سے مراد وہ حرکت ہے جو ہمیں نظر آتی ہے جو زمین کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے) اس بات کا سبب بنتی ہے کہ تم اپنی زندگی کے مختلف پروگراموں کو نظام وحساب کے ما تحت کرلو۔ جیسا کہ ہم اُوپر والی تفسیر یں بیان کرچکے ہیں ۔
اس بناپر پہلی صورت میں خداوندتعالیٰ کی ایک نعمت کی طرف اشارہ ہے جو اُس نے انسانوں کو دی ہے اور دوسری صورت میں توحید کی ایک نشانی اور وجودِ خدا کے اثبات کی ایک دلیل کی طرف اشارہ ہے اور ممکن ہے کہ دونوں معافی کی طرف اشارہ ہو۔
بہر صورت یہ بات ہی جاذب توجہ ہے کہ لاکھوں سال سے کرہ زمین آفتاب کے گرد اور ماہتاب زمین کے گرد گردش کررہا ہے اور اس کے زیر اثر ہم اہلِ زمین کی نظر میں آفتاب کی ٹکیہ فلک کے بارہ برجوں کے سامنے گرد کررہی ہے ، اور چاند کی ٹکیہ اپنے منظم حلال کے ساتھ اور تدریجی تغیّر پذیری کے ساتھ اور ہر دفعہ ایک ترتیب سے ظاہر ہوتی ہے، یہ گردش اس قدر حساب شدہ ہے کہ ایک لمحہ بھر کی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ اگر ہم سورج کے گِرد گردشِ زمین کی مسافت پر غور کریں جو ایک بیضوی شکل کے مدار میں گردش کرتی ہے جس کی شعاع متوسط ۱۶۰ لاکھ کلو میٹر ہے، حالانکہ آفتاب کی عظیم قوتِ جاذبہ اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور اسی طرح کرہ ماہ کہ جو خود اپنے دائرے جتنی مسافت کو شعاع متوسط کے ۳۸۴ ہزار کلومیٹرکے ساتھ طے کرتا ہے، جب کہ زمین کی عظیم قوتِ جاذبہ اُسے ہمیشہ اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ تو اس وقت ہم اس بات کی طرف متوجہ ہوں گے کہ ایک طرف سے ان کرات کی قوتِ جاذبہ میں اور دوسری طرف سے ان کرات کے درمیان مرکز سے گریز کی قوت میں کس قدر دقیق تعادل اور برابری برقرار ہے کہ جس سے ان کی سیرِ عظیم میں ایک لحظہ کا وقفہ یا کوئی کمی زیادتی پیدا نہیں ہوتی اور ایسا ایک لامتناہی علم وقدرت کے بغیر ممکن نہیں کہ جو اس کی تقشہ کشی بھی کرے اور اُسے باریک بینی کے ساتھ جاری بھی رکھے۔ اسی لئے آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: یہ خدا کی اندازہ گیری ہے جو توانا بھی ہے اور دانا بھی ہے(
ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ
)
۔
____________________