تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34488
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34488 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ آنکھیں خدا کو نہیں دیکھ سکتیں :عقلی دلائل گواہی دیتے ہیں کہ خدا کو آنکھوں کے ساتھ ہرگز نہیں دیکھا جاسکتا، کیون کہ آنکھیں صرف اجسام کو یا زیادہ صحیح طور یہ کہ وہ ان کی بعض کیفیات کو ہی دیکھ سکتی ہے اور وہ چیز کہ جو نہ جسم ہے اور نہ ہی جسم کی کوئی کیفیت، ہرگز آنکھ سے نظر نہیں آسکتی، دوسرے الفاظ میں اگر کوئی چیز آنکھ سے دیکھی جاسکے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی مکان میں ہو اور کسی جہت میں ہو اور ماسدہ رکھتی ہو جب کہ وہ ان تمام باتوں سے(پاک اور ) برتر ہے، وہ ایک ایسا وجودہے کہ جا نامحدود ہے اور وہ اسی دلیل سے جہاں مادہ سے بالاتر ہے، کیوں کہ جہاں مادہ میں تمام چیزیں محدود ہیں ۔

قرآن کی بہت سی آیات میں جن سے وہ آیات ہیں کہ جو بنی اسرائیل کے بارے میں ہیں ، اور ان کی طرف سے خدا وند تعالی کی رویت کا تقاضا کرنے کے متعلق گفتگو کرتی ہے، وہ کامل صراح کے ساتھ خدا کی رویت کے امکان کی نفی کرتی ہیں ( جیسا کہ انشااللہ اس کی تفصیل سورہ اعراف کی آیہ ۱۴۳ کی تفسیر میں آئے گی ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت سے اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا اگر اس جہاں میں نظر نہ آئے تو عالم قیامت میں اس کا دیدار ہوسکے گا، تفسیر المنار کے مولف کے بقول :

هذا مذاهب اهل السنة والعالم بالحدیث

”یہ عقیدہ اہل سنت اور علماء حدیث کا ہے“۔(۱)

اور اس کے بھی بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ محققین معاصرتک بھی یعنی ان کے روشن فکر حضرات بھی اسی نظریہ کی طرف مائل نظر آتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض اوقات تو وہ بڑی سختی کے اس عقیدہ پر جم جاتے ہیں ۔

حالانکہ اس عقیدہ کا باطل ہونا اس قدر واضح ہے کہ بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیوں کہ دنیا وآخرت میں (معاد جسمانی کی طرف توجہ کرتے ہوئے) اس مسئلہ میں کوئی فرق نہیں ، کیا وہ خدا جو ایک مافوق مادہ وجود ہے قیامت کے دن ایک مادی وجود میں تبدیل ہوجائے گا؟اور اس نامحدود مقام سے محدود مقام میں تبدیل ہوجائے گا؟ کیا وہ اس دن جسم یا عوارض جسم میں بدل جائے گا؟ کیا خدا کی رویت کے عدم امکان کے بارے میں دلائل عقلی دنیا وآخرت کے درمیان کسی قسم کا کوئی فرق ظاہر کرتے ہیں ؟درانحالیکہ عقل کا فیصلہ اس بارے میں ناقابل تبدیل ہے۔

اور یہ عذر جو ان میں سے بعض نے اختیار کیا ہے کہ ممکن ہے کہ انسان دوسرے جہان میں ایک دوسرا ادراک اور نظر پیدا کرلے، ایک ایسا عذر ہے کہ جو کامل طور پر بلا دلیل ہے کیوں کہ اگر اس ادراک ونظر سے مراد فکری وعقلی نظر ہے ، تو وہ تو اس جہان میں وجود رکھتی ہے اور دل کی آنکھ اور عقل کی قوت سے خدا کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ، اور اگر اس سے مراد کوئی ایسی چیز ہے کہ جس سے جسم کو دیکھا جاسکتا ہے تو ایسی چیز خدا کے بارے میں محال ہے چاہے وہ اس دنیا میں ہو یا دوسرے جہان میں ، اس بنا ہر مذکورہ گفتگو کہ انسان اس جہان میں تو خدا کو نہیں دیکھتا ، لیکن مومنین قامت کے دن خدا کو دیکھیں گے، ایک غیر منطقی اور ناقابل قبول گفتگو ہے،غالبا تنہا ایک چیز جو اس بات کا سبب بنی ہے کہ جو اس عقیدہ کا دفاع کرے، یہ ہے کہ کچھ احادیث میں ان کی معروف کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ، قیامت میں خدا کی رویت کا امکان بیان ہوا ہےم لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ عقل کے فیصلہ کی رو سے اس موضوع کے باطل ہونے کو ان روایات کے جعلی ہونے اور ان کتابوں کے غیر معتبر ہونے کی دلیل سمجھیں کہ جن میں اس قسم کی روایات بیان کی نقل کی گئی ہیں ، سوائے اس صورت کہ ان روایات کا معنی دل کی آنکھ سے مشاہدہ کرنا ہو ؟کیا یہ صحیح ہے کہ اس قسم کی احادیث کی وجہ سے عقل وخرد کے فیصلہ کو چھوڑ دیں اور اگر قرآن کی بعض آیات میں ایسی تعبیرات موجود ہیں جن سے ابتدائی نظر میں رویت خدا کے مسئلہ کا اظہار ہوتا ہے جیسے :”( وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ ، إِلَی رَبِّهَا نَاظِرَةٌ )

”اس دن کچھ چہرے پر تراوت اور پررونق ہوں گے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف دیکھ رہے ہوں گے“(۲)

یہ تعبیرات ایسی ہے جیسے :”( یَدُ اللّٰه فَوقَ اَیدِیْهِمْ ) “”خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے“۔(۳)

یہ تعبیرات کنایہ کا پہلو رکھتی ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کی کوئی آیت کبھی بھی عقل خرد کے حکم وفرمان کے خلاف نہیں ہوسکتی ۔

قابل وجہ بات یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں اس فضول عقیدہ کی شدت کے ساتھ نفی کی گئی ہے اور ایسے عقائد رکھنے والوں پر دنداں شکن تعبیرات کے ساتھ تنقید کی گئی ہے، منجملہ ان کے امام صادق علیہ السلام کے مشہور اصحاب میں سے ایک صحابی جن کانام ہشام ہے، فرماتے ہیں :

میں امام صادق - کے پاس موجود تھا کی معاویہ بن وہاب (آپ کے ایک اور صحابی) وارد ہوئے اور کہنے لگے :اے فرزند رسول! آپ اس حدیث کے متعلق کیا فرماتے ہیں کہ جو رسول خدا کے بارے میں وارد ہوئی ہے کہ انھوں نے خدا کودیکھا؟ تو آپ نے خداکو کس طرح دیکھا؟ اور اسی طرح ایک دوسری حدیث کے بارے میں کہ جو آنحضرت سے نقل ہوئی ہے کہ مومنین بہشت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے، تو وہ کس طرح دیکھے گے؟۔

امام صادق علیہ السلام نے ایک (تلخ) تبسم کیا اور فرمایا: اے معاویہ بن وہاب! یہ بات کتنی بری ہے کہ انسان ستر اسی سال عمر گزرے خدا کے ملک میں زندگی بسر کرے اور اس کی نعمت کھاتا رہے اور اس کو صحیح طرح سے نہ پہچانے، اے معاویہ ! پیغمبر نے ہرگز خدا کو اس آنکھ سے نہیں دیکھا، مشاہدہ دو قسم کا ہوتا ہے ایک دل کی آنکھ سے دیکھنا اور (دوسرے) ظاہری آنکھوں سے دیکھنا، جو شخص دل کی آنکھ سے مشاہدہ کی بات کہتا ہے وہ تو صحیح کہتا ہے اور جو شخص ظاہری آنکھ سے خدا کے مشاہدہ کی بات کرتا وہ جھوٹ بولتا ہے اور خدا اوراس کی آیات کا کافر ومنکر ہے، کیوں کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا ہے کہ جو شخص خدا کو مخلوق کے مشابہ سمجھے وہ کافر ہے۔(۴)

ایک اور روایت توحید صدوق میں اسماعیل بن فضل سے منقول ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا خدا قیامت کے دن نظر آئے گا؟ آپ - نے فرمایا:

خداوندا ایسی چیز سے منزہ ہے ، اور بہت ہی منزہ ہے ---( انّ الابصار لاتدرک الامالون ولکیفیة واللّٰه خالق الالوان والکیفیات ) آنکھیں نہیں دیکھتی مگر ایسی چیزوں کو کہ جو رنگ وکیفیت رکھتی ہیں جب کہ خدا رنگوں اور کیفیتوں کا خالق ہے۔(۵)

توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس حدیث میں خصوصیت کے ساتھ ”لون“(رنگ) کا ذکر کیا گیا ہے اور آج کی دنیا میں ہم پر یہ مطلب واضح ہوچکا ہے کہ خود جسم نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کا رنگ دیکھا جاتا ہے، اور اگر کوئی جسم کسی قسم کارنگ نہیں رکھتا ہو تو وہ ہرگز دیکھا نہیں جائے گا(تفسیر نمونہ کی پہلی جلد میں سورہ بقرہ کی آیہ ۴۶ کے ذیل میں بھی ہم اس سلسلہ میں ایک بحث کرچکے ہیں ۔(۶)

۱۲ ۲--- ۔ خدا ہی تمام چیزوں کا خالق ہے:بعض مفسرین اہل سنت نے جو عقیدہ کے لحاظ مذہب جبر کے قائل ہیں اوپروالی آیت کے ساتھ جو خدا نے تمام چیزوں کے خالق ہونے کو بیان کرتی ہے مسلک جبر پر استدلال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال وافعال بھی اس جہاں کی اشیاء میں سے ہیں ، کیوں کہ” شیء“ (چیز) ہر قسم کے وجود کو کہاجاتا ہے خواہ وہ مادی ہو یا غیر مادی، خواہ ذات ہو یا صفت، اس بنا پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا ہر چیز کا خالق ہے تو ہمیں قبول کرنا چاہیے کہ وہ ہمارے افعال کا بھی خالق اور یہ جبر کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔

لیکن آزادی ارادہ واختیار کے طرفدار اس قسم کے استدلال کا روشن اور واضح جواب رکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا وند تعالی کی خالقیت ہمارے افعال کے بارے میں بھی ہمارے مختار ہونے کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں رکھتی، کیوں کہ ہمارے افعال کو ہماری طرف بھی منسوب کیا جاسکتا ہے اور خدا کی طرف بھی ، اگر ہم ان کی خدا کی طرف نسبت دیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے اس کام کے تمام مقدمات ہمارے اختیار میں دے دئے ہیں ، وہی ذات ہے جس نے ہمیں قدرت وطاقت اور ارادہ واختیار دیا ہے، اس بنا پر چونکہ تمام مقدمات اسی کی طرف سے ہیں لہٰذا ہمارے اعمال اس کی طرف بھی منسوب کئے جاسکتے ہیں اور اسے ان کا خالق جان سکتے ہیں ، لیکن اس نظر سے کہ آخری ارادہ ہماری ہی طرف سے ہے ، وہ ہم ہی ہیں کہ جو خدا کی دی ہوئی قدرت واختیار سے استفادہ کرتے ہیں اور فعل یا ترک میں سے کسی ایک کا انتخاب ہم ہی کرتے ہیں تو اس سبب سے افعال کی نسبت ہماری طرف دی جاتی ہے اور ہم ان کے لئے جوابدہ ہیں ۔

فلسفی تعبیر کے مطابق یہاں دوخالق اور دوعلتیں ایک دوسرے کے عرض میں نہیں ہیں ، بلکہ ایک دوسرے کے طول میں ہیں ، دوعلت تامہ کا ایک ہی عرض میں ہوناکوئی مفہوم نہیں رکھتا، لیکن اگر طولی ہوں تو کوئی مانع نہیں ہے ، چونکہ ہمارے افعال ان مقدمات کا لازمہ ہیں جو خدا نے ہمیں دئے ہیں ، تو ان لوازم کی اس کی طرف بھی نسبت دی جاسکتی ہے اور اس شخص کی طرف بھی کہ جس نے افعا ل کو انجام دیا ہے ۔

اس گفتگو کی مثال ٹھیک اس طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنے کارندوں کو آزمانے کے لئے انھیں اپنے کام میں آزاد چھوڑ دے، اور انھیں مکمل اختیار دیدے اور کام کے تمام مقدمات انھیں مہیا کردے، اب یہ بات ظاہر ہے کہ جو کام وہ انجام دیں گے اہک لحاظ سے ان کے سربراہ کا کام شمار ہوگا لیکن یہ امرکارندوں سے آزادی واختیار کو سلب نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنے کام کے بارے میں جوابدہ ہیں ، عقیدہ جبر واختیار کے بارے میں ہم انشاء اللہ متعلقہ آیات کے ذیل میں بحث کریں گے۔(۷)

یہاں بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں آجائے، ہم سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۷ کے ذیل میں (جلد اول تفسیر نمونہ صفحہ ۱۱۲ ، اردوترجمہ پر) تفصیل سے اس سوال کے جواب میں بحث کرچکے ہیں ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ جو ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام موجودات کوخداسے عدم سے وجود میں لایا ہے اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ”عدم“ وہ مادہ ہے کہ جو موجودات عالم کو تشکیل دینے والاہے، جس طرح سے ہم یہ کہتے ہیں کہ بڑھئی نے میز کو لکڑی سے بنایا ہے، ایسی چیز یقینا محال ہے، کیوں کہ عدم وجود کا مادہ نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس جہان کی یہ تمام موجودات پہلے موجود نہیں تھیں اس کے بعد وجود میں آئی ہیں ، یہ امر کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں رکھتا، اور سلسلے میں ہم نے جلد اول میں بھی کچھ مثالیں بیان کی ہیں اور یہاں پر مزید بیان کرتے ہیں کہ ہم اپنے فکروذہن میں کچھ ایسی موجودات کو پیدا کرسکتے ہیں جو پہلے کسی صورت میں بھی ہمارے ذہن میں نہیں تھیں ، اس میں شک نہیں کہ یہ ذہنی موجودات اپنے لئے ایک قس، کا وجود وہستی رکھتی ہے ، اگر وہ وجود خارجی کی طرح نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ ہمارے افق میں موجود نہیں ہوتی ہے، اگر کسی چیز کا وجود عدم کے بعد محال ہوتو وجود ذہنی اور وجود خارجی کے درمیان کیا فرق ہے اس بنا پر جس طرح ہم اپنے ذہن میں ایجاد وخلق کرلیتے ہیں جو پہلے موجود نہیں تھیں ، خدا وند تعالی بھی عالم خارج میں ایسا ہی کام کرتا ہے، اس مثال اور ان مثالوں میں جو ہم جلد اول میں بیان کرچکے ہیں تھوڑا سا غور کرنے سے یہ مشکل حل ہوجاتی ہے۔

۴ ۔ لطیف کا معنی کیا ہے: اوپر والی آیات میں خدا وند تعالی کی صفات میں سے ایک صفت ”لطیف“ کا ذکر ہواہے اور وہ مادہ لطف سے ہے، جب وہ اجسام کے بارے میں استعمال ہوتووہ ہلکاہونے کے معنی میں ہے ، جو بوجھل کے مقابلہ میں ہے، اور جس وقت حرکات کے بارے میں (حرکت لطیفہ) استعمال ہوتو ایک چھوٹی سی جلد گزرجانے والی حرکت مراد ہوتی ہے، اور کبھی ایسے موجودات اور کاموں پر بھی جو بہت دقیق اور باریک ہوتے ہیں اور جو قوت حس سے قابل ادراک نہیں ہوتے یہ لفظ بولاجاتا ہے، اور اگر ہم خدا کی لطیف کے نام توصیف کرتے ہیں تو وہ بھی اسی معنی میں ہے یعنی وہ ایسی نظر نہ آنے والی اشیاء کا خالق اور ایسے افعال کا موجد ہے کہ جو قوت سماعت کے دائرے سے باہر ہے، بہت ہی باریک ہے اور حد سے زیادہ دقیق ہے۔

اس سلسلے میں ایک قابل توجہ حدیث فتح بن یزید جرجانی کے واسطے سے امام علی بن موسیٰ رضا - سے نقل ہوئی ہے جو ایک علمی معجزہ شمار ہوتی ہے حدیث اس طرح ہے کہ امام - فرماتے ہیں :

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ خدا لطیف ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے لطیف مخلوقات کو پیدا کیا اور اس سبب سے ہے کہ وہ لطیف وظریف اور نظر نہ آنے والی اشیاء سے آگاہ ہے، کیا تم اس کی صنعت کے آثار کو لطیف وغیر لطیف نباتات میں دیکھتے نہیں ہو؟ اور اسی طرح چھوٹی چھوٹی مخلوقات وحیوانات اور باریک باریک حشرات اور ان چیزوں میں جوان سے بھی چھوٹی ہیں ، ایسی موجودات کو کہ جو ہرگز آنکھوں سے دیکھی نہیں جاسکتی، اور اس قدر چھوٹی ہیں کہ ان کے نر مادہ اور نئے اور پرانے بھی پہچانے نہیں جاتے، جب ہم اس قسم کے موضوعات کا مشاہدہ کرتے ہیں ----اور جو کچھ گہرے سمندروں میں ، اور درختوں کی چھال کے نیچے اور بیابانوں اور صحراؤں میں موجود ہے ان پر نظر کرتے ہیں ----اور یہ کہ ایسی ایسی موجودات بھی ہیں کہ جنھیں ہرگز ہماری آنکھیں نہیں دیکھتی اور اپنے ہاتھوں سے انھیں ہم چھو بھی نہیں سکتے تو ان تمام چیزوں سے ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا پیدا کرنے والا لطیف ہے۔(۸)

اوپر والی حدیث جو جراثیم اور خردبینی حیوانات کی طرف اشارہ ہے اور پاسٹور کی پیدائش سے کئی ْسدیون پہلے بیان ہوئی ہے لطیف کی تفسیر کو واضح کرتی ہے۔

اس لفظ کی تفسیر میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ خدا کے لطیف ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کی ذات پاک ایسی ہے جو ہرگز کسی کے بھی حس سے ادراک نہیں ہوسکتی اس بنا پر وہ لطیف ہے کیوں کہ کوئی شخص بھی اس کی ذات سے آگاہ نہیں ہے اور خبیر ہے چونکہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے، اس معنی کی طرف بھی بعض روایات اہل بیت علیہم السلام میں اشارہ ہوا ہے،(۹) اور اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ اس لفظ کے دونوں ہی معنی مراد لینے میں بھی کوئی امرمانع نہیں ہے۔

____________________

۱۔ تفسیر المنار، جلد۷، صفحہ ۶۵۳۔

۲۔ قیامت:۲۳و ۲۴۔

۳۔فتح:۱۰۔

۴۔ معانی الاخباربنابہ نقل المیزان جلد۸ ، صفحہ ۲۶۸۔

۵۔ نورالثقلین جلداول، صفحہ ۷۵۳۔

۶۔ دیکھئے اردوترجمہ صفحہ ۱۸۳۔

۷۔ کتاب” خدا راچگونہ بشاسیم“کی فصل جبر واختیار کی طرف بھی رجوع فرماسکتے ہیں ۔

۸۔ بدیع کا کیا معنی ہے: جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے کہ لفظ”بدیع“ کا معنی کسی چیز کو بغیر سابقہ کے وجود میں لانے والے کے ہیں ، یعنی خدا وندتعالی نے آسمان وزمین کو کسی پہلے سے موجود مادہ یا بنیاد یا نقشہ ومنصوبہ کے بغیر ایجاد کیا ہے۔

۹۔اصول کافی، جلد اول صفحہ ۹۳-

۱۰۔تفسیر برہان، جلد اول ، صفحہ۵۴۸-

آیات ۱۰۴،۱۰۵،۱۰۶،۱۰۷

۱۰۴( قَدْ جَائَکُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ اٴَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا وَمَا اٴَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیظٍ )

۱۰۵( وَکَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ وَلِیَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَیِّنَهُ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ )

۱۰۶( اتَّبِعْ مَا اٴُوحِیَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْمُشْرِکِینَ )

۱۰۷( وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا اٴَشْرَکُوا وَمَا جَعَلْنَاکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا وَمَا اٴَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَکِیلٍ )

ترجمہ:

۱۰۴ ۔تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے لئے واضح دلیلیں آئی ہیں ، جو شخص (اس کے ذریعہ سے حق کو) دیکھے تو یہ اسی کے فائدہ میں ہے اور جو شخص ان کو دیکھنے سے آنکھیں بند کرلے تو خوداسی کا نقصان ہے اور میں تمھیں مجبور نہیں کرتا۔

۱۰۵ ۔اور ہم آیات کو اس طرح مختلف شکلوں میں بیان کرتے ہیں ، اور انھیں کہنے دو کہ تونے سبق پڑھا ہے(اور تونے ان کو کسی دوسرے سے سیکھا ہے) ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم علم آگاہی رکھنے والوں کے لئے اسے واضح کردیں ۔

۱۰۶ ۔ جو کچھ تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ پر وہی ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے، اور مشرکین سے منہ پھیرلو۔

۱۰۷ ۔اگر خدا چاہتا (تو سب جبری طور پر ایمان لے آتے اور کوئی بھی) مشرک نہ ہوتا ، اور ہم نے تجھے ان کے اعمال کا جوابدہ قرار نہیں دیا، اور تیری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ انھیں (ایمان لانے پر) مجبور کرتے۔

تفسیر

پیغمبر مجبور نہیں کرتے

درحقیقت ان آیات میں گذشتہ آیات کا ایک طرح سے خلاصہ اور نتیجہ پیش کیا گیا ہے، پہلے کہا گیا ہے:تمھارے پاس توحید، خدا شناسی اور ہر قسم کے شرک کی نفی کے بارے میں ایسی واضح و روشن دلائل اور نشانیاں آچکی ہیں جو بصیرت وبینائی کا سبب ہے( قَدْ جَائَکُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّکُمْ ) ۔

”بصائر“ جمع ہے ”بصیرت“ کی ”بصر“ کے مادہ سے دیکھنے کے معنی میں لیکن عام طور پر یہ لفظ فکری وعقلی بصیرت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، بعض اوقات ان تمام امور پر اس کا اطلاق ہوتا کہ جو کسی مطلب کے ادراک وفہم کا باعث ہو، زیر نظر آیت میں یہ لفظ دلیل، شاہد اور گواہ کے معنی میں آیا ہے، اور ان تمام دلائل کو جو گذشتہ آیات میں خدا شناسی کے سلسلہ میں بیان کی جاچکی ہیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے بلکہ سارا قرآن اس کے مفہوم میں موجود ہے۔

اس کے بعد یہ حقیقت واضح کرنے کے لئے یہ دلائل حقیقت کوآشکار کرنے کے لئے کافی ہیں اور منطقی پہلو رکھتے ہیں ، کہا گیا ہے: اور لوگ جو ان دلائل کے ذریعہ حقیقت کے چہرے کو دیکھ لےں تو انھوں نے خود اپنے ہی نفع کی طرف قدم بڑھایا ہے اور وہ لوگ جو اندھوں کی طرح ان کے مشاہدہ سے اپنے آپ کو محروم رکھے انھوں نے اپنے ہی نقصان میں کام کیا ہے( مَنْ اٴَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا ) ۔

اور آیت کے آخر میں پیغمبر کی زبانی کہا گیا ہے :میں تمھارا نگہبان اور محافظ نہیں ہوں( وَمَا اٴَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیظٍ ) ۔

اس بارے میں کہ اس جملے سے مراد کیا ہے، مفسرین نے دواحتمال ظاہر کئے ہیں ۔

پہلا یہ کہ میں تمھارے کاموں کا محافظ ونگہبان اورجوابدہ نہیں ہوں ، بلکہ خدا ہی سب کی نگہداری کرنے والا ہے اور وہی ہر شخص کو جزا وسزا دے گا، میرافریضہ تو صرف رسالت کو پہنچانا اور لوگوں کی ہدایت کے لئے جتنی زیادہ سے زیادہ سعی وکوشش ہوسکتی ہے ، کرنا ہے۔

دوسرا یہ کہ میں اس بات پر مامور اور تمھارا ذمہ دار نہیں ہوں کہ میں تمھیں جبر واکراہ سے طاقت سے اور زبردستی ایمان کی دعوت دوں ، بلکہ میرا فریضہ تو صرف منطقی حقائق بیان کرنا ہے اور آخری تصمیم وارادہ خودتمھارا اپنا کام ہے، اس امر میں کوئی بات مانع نہیں ہے کہ اس لفظ سے دونوں ہی معانی مراد لئے گئے ہوں ۔

بعد والی آیت میں اس امر کی تاکید کے لئے کہ حق وباطل کے انتخاب کی راہ میں آخری ارادہ خود لوگوں کے اپنے اختیار میں ہے فرمای گیا: ہم آیات ودلائل کو اس طرح سے مختلف شکلوں ، مختلف قیافوں اور مختلف صورتوں میں بیان کرتے ہیں( وَکَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ ) ۔(۱)

لیکن ایک جماعت مخالفت پر کھڑی ہوگی، اور بغیر مطالعہ اور بغیر کسی قسم کی دلیل کے کہنے لگی:تونے یہ درس دوسروں (یہودونصاری اور ان کی کتب ) سے لئے ہیں( وَلِیَقُولُوا دَرَسْتَ ) ۔(۲)

پیغمبر پر اس نظر سے تہمت کہ آپ نے اپنی تعلیمات یہودونصاری سے حاصل کی ہے، ایک ایسی بات ہے جو مشرکین کی طرف سے بارہا کہی گئی ہے اور ہٹ دھرم مخالفین اب بھی ایسا کہتے رہتے ہیں حالانکہ اصولا پورے جزیرہ نمائے عرب میں کوئی درس مکتب اور علم تھا ہی نہیں کہ پیغمبر اسے حاصل کرتے اور جزیرہ نمائے عرب سے باہر پیغمبر کے سفر اس قدر کم تھے کہ جن میں اس قسم کے احتمال کی گنجائش ہی نہیں ہے، پورے حجاز کے اندر رہنے والے یہودیوں اور عیسائیوں کی معلومات بھی اس قدر کم اور خرافات سے مخلوط تھی کہ وہ اصلا اس قابل ہی نہ تھی کہ ان کا قرآن اور تعلیمات پیغمبر سے موازنہ کیا جائے، اس موضوع کے بارے میں ہم انشاء للہ مزید وضاحت سورہ نحل کی آیت ۱۰۳ میں بیان کریں گے۔

اس کے بعد مخالفین کی ہٹ دھرمیوں ، کینہ پروریوں اور تہمتوں کے مقابلے میں پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کا فریضہ بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے:تیرا فریضہ یہ ہے کہ تیرے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تجھ پر وحی ہوتی ہے اس کی پیروی کر ،وہ خدا کے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے( اتَّبِعْ مَا اٴُوحِیَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ ) ۔

نیز تیرا فریضہ یہ ہے کہ ”مشرکین اور ان کی ناروا تہمتوں اور بے بنیاد باتوں کی پرواہ نہ کر“( وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْمُشْرِکِینَ ) ۔

حقیقت میں یہ آیت پیغمبراکرم کے لئے ایک قسم کی تسلی اور روحانی تقویت ہے تاکہ اس قسم کے مخالفین کے مقابلہ میں آپ کے عزم راسخ اور آہنی ارادہ میں ذراسی بھی کمزوری واقع نہ ہو۔

ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے اچھی طرح واضح اور روشن ہوجاتا ہے کہ ”واعرض عن المشرکین“ (مشرکین سے منہ پھر لو اور ان کی پروہ نہ کرو)کاجملہ انھیں اسلام کی طرف دعوت دینے کے حکم اور ان کے مقابلے میں جہاد کرنے سے کسی قسم کا اختلاف نہیں رکھتا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی بے بنیادباتوں اور تہمتوں کی پرواہ نہ کرواور اپنی راہ حق پر ثابت قدم رہو۔

آخری زیر بحث آیت مین اس حقیقت کی دوباری تاکید کی گئی ہے کہ خدا وند تعالی یہ نہیں چاہتا کہ انھیں جبرا ایمان پر آمادہ کرے اور اگر وہ یہ چاہتا تو سب کے سب ایمان لے آتے اور کوئی مشرک نہ ہوتا( وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا اٴَشْرَکُوا ) ۔

اور یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ تم ان کے اعمال کے لئے جوابدہ نہیں ہو اور تم انھیں ایمان پر مجبور کرنے کے لئے بھی مبعوث نہیں ہوئے ہو( وَمَا جَعَلْنَاکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظًا ) ۔

جیسا کہ تمھارا یہ فرض بھی نہیں کہ تم انھیں کار خیر پر مجبور کرو( وَمَا اٴَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَکِیلٍ ) ۔

”حفیظ“ اور” وکیل“ میں فرق یہ ہے کہ حفیظ تو اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو کسی شخص یا چیز کی نگہبانی کرے اور اسے زیان وضرر پہنچنے سے محفوظ رکھے،لیکن وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے لئے منافع ےا حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرے۔

شاید یہ بات یاد دلانے کی ضرور ت نہ ہو کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے ان دو صفات (حفیظ ووکیل) نفی دفع ضرر اور جلب منفعت پر مجبور کرنے کی نفی کے معنی میں ہے، اور نہ پیغمبر تبلیغ کے طریقے سے اور نیک کاموں کے بجالانے اور برے کاموں کے ترک کرنے کی دعوت کے ذریعہ ان دونوں فرائض کو ان کے موقع ومحل پر اختیاری صورت میں انجام دیتے ہیں ۔

ان آیات کا لب لہجہ اس نظر سے بہت ہی قابل ملاحظہ ہے کہ خدا پر اور مبانی اسلام پر ایمان لاناکسی قسم کا بھی جبری پہلو نہیں رکھ سکتا، بلکہ ان امور کو منطق واستدلال اور افراد بشر کی فکروررح میں نفوذ کے طریق سے پیش رفت کرنا چاہئے، کیوں کہ جبری ایمان کی تو کوئی بھی قدروقیمت نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ لوگ حقائق کو سمجھیں اور اپنے ارادہ واختیار کے ساتھ انھیں قبول کریں ۔

قرآن نے بارہا مختلف آیات میں اس حقیقت پر تاکید کی ہے اور وہ ایسے سخت گیر اعمال سے جیسے کہ قرون وسطیٰ(۳) میں کلیہ کے اعمال اور محکمہ تفتیش عقائد وغیرہ کے اعمال تھے اسلام کی بیگانگی کا اعلان کررہا ہے، اور انشاء للہ سورہ برائت کی ابتدا میں مشرکین کے مقابلہ میں اسلام کی سخت گیری کے علل واسباب کو زیر بحث لایا جائے گا۔

____________________

۱۔ ”نصرف“ ،”تصریف“ کے مادہ سے دگر گوں کرنے اور مختلف شکلوں میں لانے کے معنی میں ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کی آیات، مختلف لب ولہجہ، اور دل میں اترجانے والے تمام وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے، ایسے اشخاص کے لئے جو فکرعقیدہ اور تمام معاشرتی اور نفسیاتی پہلو سے مختلف سطح پر ہوتے ہیں ، نازل ہوئی ہے۔

۲۔ لام”لیقولوا“، اصطلاح کے مطابق(لام عاقبت) ہے، جو کسی کے سرانجام اور عاقبت کے بیان کے لئے لایا جاتاہے، لیکن وہ اس کا اصلی ہدف نہیں ہوتا اور ”درست“ مادہ ”درس“ سے ، حاصل کرنے اور قبضے میں لینے کے معنی میں ہے، اور یہ ایک تہمت تھی جو مشرک پیغمبر اکرم پر لگایا کرتے تھے۔

لیکن ایک اور دوسرا گروہ کہ جو حق کو قبول کرنے کی آمادگی رکھتا ہے اور جس کے افراد صاحب بصیرت، عالم وآگاہ ہیں ، وہ اس کے ذریعہ حقیقت کے چہرے کو دیکھ لیتے ہیں اور اسے قبول کرلیتے ہیں (وَلِنُبَیِّنَهُ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ

۳۔ قرون وسطیٰ: ایک ہزار سالہ دور کو کہتے ہیں جو چھٹی صدی عیسوی سے شروع ہوکر پندرہویں صدی عیسوی پر ختم ہوتا ہے، یہ زمانہ مغرب اور عیسائیت کا ایک تاریک ترین دور تھا، اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسلام کا سنہری دور ٹھیک قرون وسطیٰ کے وسط میں ہوا ہے۔

آیت ۱۰۸

۱۰۸( وَلاَتَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَیَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اٴُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۰۸ ۔ایسے لوگوں (کے معبود) کو جو خدا کے علاوہ کسی کو پکارتے ہیں گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ (بھی) ظلم وجہالت کی وجہ خدا کو گالیاں دےنے لگ جائیں ، ہم نے ہر امت کے لئے ان کے عمل کو اسی طرح زینت دی اس کے بعد ان کی بازگشت تو ان کے پروردگار کی طرف ہی ہے، اور وہ انھیں ان کے اس عمل سے جو وہ کیا کرتے تھے آگاہ کرے گا(اور اس کی جزا یا سزا دے گا) ۔

تم مشرکین کے بتوں اور معبودوں کو کبھی گالیاں نہ دو

اس بحث کے بعد جو تعلیمات اسلامی کے منطقی ہونے، اور دعوت کے استدلال کے ذریعہ لازم ہونے اور جبری طریقہ سے نہ ہونے کے بارے میں گذشتہ آیات میں گزری ہے، ان آیات میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا گیاہے: تم مشرکین کے بتوں اور معبودوں کو کبھی گالیاں نہ دو کیوں کہ عمل سبب بن جائے گا کہ وہ بھی یہی کام خدا وند تعالی کی شان اقدس میں ظلم وستم اور جہل ونادانی کی وجہ سے دینے لگیں( وَلاَتَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَیَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ )

جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مومنین کا ایک گروہ مسئلہ بت پرستی وسخت برہمی کی بنا پر بعض اوقات مشرکین کے بتوں کو برا بھلا کہتے ہوئے انھیں گالیاں دیتا تھا ، قرآن نے صراحت سے انھیں اس بات سے منع کیا، اور اصول ادب وعفت اور شیریں بیان کو بیہودہ ترین اور بدترین مذہب وادیان کے مقابلہ میں بھی لازم وضروری قرار دیا۔

اس موضوع کی دلیل واضح ہے کیوں کہ گالی دینے اور برا بھلا کہنے سے کسی کو غلط راستے سے نہیں پھرایاجاسکتا ، بلکہ اس کے برعکس جہالت آمیز شدید تعصب جو اس قسم کے افراد میں ہوتا ہے اس بات بات کا سبب بن جاتا ہے کہ بقول :”روی دندئہ لجاحت افتادہ“(یعنی اپنی ہٹ دھرمی پر اڑ جانا) کے مطابق اپنے باطل دین اور زیادہ راسخ ہوجائے، اس صورت میں یہ بات آسان ہوجائے گی کہ خدا وند تعالی کی شان اقدس میں بدگوئی اور توہین کے لئے زبان کھولیں کیوں کہ ہر گروہ اور ہر مذہب کے لوگ اپنے عقائد واعمال میں متعصب ہوتے، جیسا کہ قرآن بعدوالے جملے میں کہتا ہے: ہم نے اس طرح ہر گروہ کے لئے ان کے عمل کو زینت دے دی ہے( کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اٴُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ) ۔

اور آیت کے آخر میں کہتا ہے کہ: ان سب کی بازگشت خدا ہی کی طرف ہے اور وہ انھیں خبر دے گا کہ انھوں نے کون سے عمل انجام دئے ہیں( ثُمَّ إِلَی رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

قابل توجہ نکات

۱ ۔ خدا زینت دیتا ہے؟

اوپر والی آیت میں ہر شخص کے اچھے اور برے اعمال کو اس کی نظر میں زینت دینے کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ، ہوسکتا ہے کہ یہ بات بعض لوگوں کے لئے تعجب کا باعث ہو کہ کیا یہ بات ممکن ہے کہ خدا وندتعالی کسی کے عمل بد کو اس کی نظر میں زینت دے۔

اس سوال کا جواب وہی ہے جو ہم بارہا بیان کرچکے ہیں کہ اس قسم کی تعبیرات عمل کی خاصیت اور اثر کی طرف اشارہ ہوتی ہے، یعنی جس وقت انسان کسی کام کو بار بار انجام دے تو آہستہ آہستہ اس کی قباحت اور بدی اس کی نگاہ میں ختم ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی نظر میں ایک عمدہ صورت اختیار کرلیتا ہے اورچونکہ علت العلل اور مسبب الاسباب اور ہر چیز کا خالق خدا ہے اور تمام تاثیرات خدا ہی کی طرف منتہی ہوتی ہیں لہٰذا قرآن کی زبان میں اس قسم کے آثار کی بعض اوقات اس کی طرف نسبت دے دی جاتی ہے(غور کیجئے گا)۔

زیادہ واضح تعبیر میں ” زین لکل امةعملھم “ کا معنی یہ ہے کہ ہم نے انھیں ان کے برے اعمال کے نتیجے میں گرفتار کردیا ہے یہاں تک کہ برائیاں ان کی نظر میں اچھائیاں معلوم ہونے لگی۔

اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جو بعض آیات قرآن میں عمل کو زینت دینے کی نسبت شیطان کی طرف دی گئی ہے وہ بھی اس بات سے اختلاف نہیں رکھتی کیوں کہ شیطان انھیں برے عمل کے انجام دینے کا وسوسہ کرتا ہے اور وہ شیطان کے وسوسے کے سامنے جھک جاتے ہیں آخر کار وہ اپنے عمل کے نتائج بد میں گرفتار ہوجاتے ہیں ،علمی تعبیر کے لحاظ سے سببیت توخدا کی طرف سے ہے لیکن ایجاد سبب ان افراد اور شیطانی وسوسوں کے ذریعے ہوتا ہے ۔(۱)

۲ ۔ گالیاں نہ دینے کا حکم:

اسلامی روایات میں بھی گمراہ اور منحرف لوگوں کو گالیاں نہ دینے کی قرآنی منطق کی پیروی کی گئی ہے اس لام کے بزرگ پیشوا ؤں اور رہنماؤں نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہمیشہ منطق واستدلال کا سہارا لیں اور مخالفین کے اعتقادات کے بارے میں گالی دینے کے لاحاصل حربے کو وسیلہ نہ بنائیں ، ہم نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے اصحاب کی ایک جماعت کو جو جنگ صفین کے دنوں میں معاویہ کے پیروکار کو گالیاں دے رہی تھی، فرماتے ہیں :انی اکره ان تکونواسبابین ولاکنکم لو وصفتم اعمالهم وذکرتم حالهم کان اصوب فی القول وابلغ فی العذر ۔

مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم فحش گوئی کرنے والے اور گالیاں دینے والے بنو، اگر تم گالیاں دینے کے بجائے، ان کی کارگزاریوں کو بیان کرو اور ان کے حالات کا تذکرہ کرے(اور ان کے اعمال کا تجزیہ وتحلیل کرو) تو یہ بات حق وراستی کے زیادہ قریب ہے اور اتمام حجت کے لئے بہتر ہے۔(۲)

۳ ۔بت پرست اور خدا کے بارے میں بدگوئی؟ بعض اوقات یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بت پرست خدا کے بارے میں بدگوئی کریں جب کہ ان کی اکثریت اللہ کا اعتقاد رکھتی تھی اور بتوں کا اس کی بارگاہ میں شفیع قرار دیتی تھی۔

لیکن اگر ہم ہٹ دھرم اور متعصب عوام کی وضع و کیفیت میں غور وفکر کریں تو ہم دیکھے گے کہ یہ بات کوئی زیادہ تعجب کا باعث نہیں ہے اس قسم کے لوگ جب غصہ میں آجاتے ہیں تو پھر کوشش کرتے ہیں کہ وہ مد مقابل کو جس طرح بھی ممکن ہو تکلیف اور دکھ پہنچائیں ، چاہے اس کے لئے طرفین کے مشترک عقائد کی ہی بدگوئی کرنی پڑے، مشہور سنی عالم آلوسی تفیر روح المعانی میں نقل کرتے ہیں کہ جاہل عوام میں سے بعض نے جب یہ دیکھا کہ شیعہ شیخین کو برا بھلا کہتے ہیں تو انھیں غصہ آگیا اور انھوں نے حضرت علی - کی شان میں گستاخی اور اہانت شروع کردی، ایسے ایک شخص سے جب یہ پوچھا گیا کہ تو حضرت علی - کی جو تیری نزدیک بھی قابل احترام ہے کیوں اہانت کرتا ہے؟ تو وہ یہ کہنے لگا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ شیعوں کو اس طرح سے تکلیف اور دکھ پہنچاؤں ، کیوں کہ میں نے انھیں اس چیز سے زیادہ اور کسی چیز کو دکھ دینے والا نہیں دیکھا اور بعد میں اسے اس عمل سے توبہ کرنے پر آمادہ کیا۔(۳)

____________________

۱۔ آیات قرآن میں ۸ مقامات پر برے اعمال کے زینت دینے کی نسبت شیطان کی طرف دی گئی ہے اور دس ۱۰ مقامات پر فعل مجہول کی شکل میں (زین) آیا ہے اور دو مقامات پر خدا کی طرف نشبت دی گئی ہے، اوپر جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر توجہ کرتے ہوئے تینوں مقامات کا معنی واضح ہوجاتا ہے۔

۲۔نہج البلاغہ، کلام ۲۰۶صبحی صالح۔

۳۔ تفسیر روح المعانی آلوسی جلد۷ صفحہ ۲۱۸۔